جولائی ۲۰۲۱

فہرست مضامین

انقلابی جماعت، سراپا محبت!

سیّد منور حسن | جولائی ۲۰۲۱ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

ابتدا ہی میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ’انقلاب‘ معاشرتی زندگی کے چلن، اس کے  رُخ اور حالات کے بدل دینے کا، موڑ دینے اور پلٹ دینے کا، بلکہ اُلٹ پلٹ کردینے کا نام ہے۔

یہ کام جس بھرپور صلاحیت ، اہلیت اور قوتِ کار کا متقاضی ہے، اس کا متحمل کوئی فرد تنہا نہیں ہوسکتا۔ ویسے بھی کسی فردِ واحد کا لایا ہوا ’انقلاب‘ ، اس کے مزاج کی چھاپ لے کر اُبھرتا ہے، اس کی سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس کے نقطۂ نظر اور فکروخیال کا اسیر ہوتا ہے۔ ایسا انقلاب فرد سے شروع ہوکر، فرد ہی پر ختم ہوجاتا ہے۔

ہم جس ’انقلاب‘، اسلامی انقلاب کے داعی ہیں، وہ نظریے کا اور عقیدے کا انقلاب ہے۔ اللہ سے لَو لگانے اور اسی کا ہو رہنے کا انقلاب ہے۔ یہ انقلا ب فکرونظر کا، سوچ و عمل کا اور رُوح و بدن کا انقلاب ہے۔ یہ انقلاب ایک منظم جماعت کا منتظر اور ایک مضبوط گرو ہ کا مرہونِ منت ہے۔

ایسی جماعت ___ جو ایمان کے بل پر اُٹھے، اصولوں پر تشکیل پائے، باہمی مشاورت سے چلے، رضائے الٰہی جس کا نصب العین قرار پائے، جدوجہد جس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہو،قال اللہ اور قال رسول اللہ  جس کی میزان ٹھیرے۔

ایسی جماعت ___ تربیت و تزکیہ جس کی گھٹی میں پڑا ہو، جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت جس کی منزل کا پتہ دیتے ہوں، جو معرکوں کی خُوگر اور غلبۂ حق جس کا مقدر ہو، جس کے روز و شب، ’تیزترک گامزن، منزلِ ما دُور نیست‘ کا پیغام دیتے، اور 

؎
شب گریزاں ہوگی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

کا مژدئہ جانفزا سناتے ہوں۔

لہٰذا، حقیقی ’انقلابی جماعت‘، صرف ’اسلامی جماعت‘ ہی ہوسکتی ہے۔

جو انسان کی فطری ضرورتوں اور طبعی تقاضوں کا لحاظ رکھ سکے۔ انسانی صلاحیتوں کی نشوونما کا اہتمام کرسکے، وصولی حق اور ادایگیِ فرض میں توازن قائم کرسکے۔ایسی جماعت، جو معاشرے میں قائم اور رائج باطل اور اللہ کے باغی نظام سے اعلانِ برأت کرے، لگے بندھے طور طریقوں، رسوم و رواج کو تاراج کرے، جمے جمائے تمدن کے فرسودہ اور جاہلیت پر مبنی ڈھانچے کو نابود کرے۔

جو بندگانِ خدا کو بندگی ٔ ربّ کی طرف بلائے، ربِّ حقیقی کا دست ِ نگر اور_اس کی حمدوثنا کا پیکر بنائے، جو اُخروی زندگی کو حیاتِ جاوداں ___اور حقیقی زندگی بنائے، اور یہ درس سمجھائے۔ جو اللہ کی کتاب سے انھیں جوڑتے ہوئے، سارے طلسم توڑدے اور سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے، جو اعلانِ بغاوت کرے۔سارے (جھوٹے) خدائوں سے رشتۂ ناتا توڑنے کی بات کرے، خدائے واحد کو ربّ مان لینے، اسی کاہورہنے___اور ___اپنا سب کچھ اسی کی راہ میں لٹادینے کی جُوت جگائے:

اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ (التوبہ ۹:۱۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں‘‘___ کا سبق دُہرائے۔

جو بیچ چوراہے کھڑے ہوکر، ڈنکے کی چوٹ، بلاخوفِ تردید، ہرملامت کو انگیز کرتے ہوئے پکار دے کہ کُل کائنات میرے ربّ کی ہے اور میں اس کا خلیفہ ہوں۔ یہ تمدّن بھی میرا ہے، تاریخ کی تعبیر بھی میری ہے، اور سیاست کی بساط بھی میری ہے، حکومت اور عدل و انصاف کی حقیقی مظہر عدالت بھی میری ہے۔

 یہ اللہ کے رنگ میں سب کو رنگ دینے کی جماعت، صبغۃ اللہ جسے کہیں۔

معاشرہ گیا گزرا ہوجاتا ہے، زنگ آلود ، داغ دار ہوجاتا ہے، گراوٹ و انحطاط کا شکار ہوجاتا ہے، ذلّت و نکبت سے دوچار ہوجاتا ہے۔ پستیوں کی گہرائیوں میں گرتا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے___ ’انقلابی جماعت‘ اخلاق اور اس کی قدروں کو دیوالیہ پن کی دلدل سے نکال کر، تکریم،تعظیم اور قبولیت کا آہنگ دیتی ہے۔ فکرونظر اور سوچ کی بلندیوں کو اوج ثریا پر پہنچاتی ہے۔ عجزوانکسار، عدل و احسان اور مروّت و ایثار کو عام کرتی ہے۔ فرد کو انفرادیت اور خودپسندی سے دست بردار ہونے، اجتماعیت کو اپنانے اور ’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘ کے عنوانات سجانے کا درس دیتی ہے او ر ’موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں‘ کا ذہنی سانچا فراہم کرتی ہے۔

معاشرے کو روگ لگ جاتے ہیں، جو گھن کی طرح اسے کھاتے ہیں۔ روگی معاشرے، بیمار، تہی دامن اور اندر سے کھوکھلے اور ویران معاشرے میں ایک ’انقلابی جماعت‘اس معاشرے کے لیے ’کاروانِ دعوت و محبت‘ ہے۔ ایسی جماعت ’قافلۂ امن و اخوت‘ بھی ہے کہ جب لوگ نفرتوں میں ڈوبے ہوں، یہ ان کے لیے محبت کے گیت گاتی ہے۔ جب لوگ اندھیروں میں بھٹک رہے ہوں، یہ انھیں روشنیوں اور اُجالوں کی طرف لاتی ہے۔ جب لوگ غلاظت کو اپنا مسکن بنا چکے ہوں، یہ انھیں پاکیزگی اور صفائی کا شعور دلاتی ہے۔ جب لوگ باہم دست و گریباں ہورہے ہوں، نسلی، قبائلی، لسانی تنگنائیوں میں سمٹ اور سکڑ رہے ہوں، اور اِذْکُنْتُمْ اَعْدَاءً   ’’تم ایک دوسرے کے دشمن تھے‘‘، وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِنَ النَّارِ… ’’اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے‘‘ کی تفسیر بن رہے ہوں، تو اس مایوس کن صورتِ حال میں ایک ’انقلابی جماعت‘ انھیں شیروشکر کرتی، باہم بغل گیر کراتی، اور بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ آفاقی بناتی، ہمتیں بڑھاتی، ولولے جگاتی اور ایمان کی خوشبو مہکاتی ہے اور ’ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند‘ ان میں شامل کراتی ہے، اور:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

کا مژدۂ جانفزابناتی ہے۔

جب لوگ سب کچھ بھول چکے ہوں، اور نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۝۰ۭ (الحشر ۵۹:۱۹) کا عنوان ہوچکے ہوں۔ ’انقلابی جماعت‘ کا فرض ہے کہ انھیں اللہ سے ڈرائے، اپنے ربّ کی طرف لوٹائے اور اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ [اللہ سے ڈرو، اور ہرشخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو___ الحشر ۵۹:۱۸] کا درس یاد دلائے۔انھیں ان کی شناخت بتائے، خود اپنے آپ ہی سے انھیں متعارف کرائے، ان کی حقیقت سے انھیں روشناس کرائے، گم کردہ راہ کو راہ دکھائے، مشعلِ راہ بن جائے اور اپنے پیر پر آپ کلہاڑی مارنے والوں کو خودکشی کے اس عمل سے نجات دلائے۔

ہم اس انقلاب کی اور ایسی انقلابی جماعت کی بات کرتے ہیں۔ اسی کو اپنی تمنائوں کا مرکز اور آرزوئوں کا محور سمجھتے ہیں۔ اسی کو رگ و پے میں سرایت کرتا دیکھتے ہیں اور ہرسانس میں اسی انقلاب کی آواز سنتے ہیں اور دل کی ہردھڑکن سے اس کی گواہی دیتے ہیں، جس کے ’’رہبرو رہنما، مصطفےٰ مصطفےٰ ‘‘صلی اللہ علیہ وسلم قرار پاتے ہیں:

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّـرًا وَّنَذِيْرًا۝۴۵ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا۝۴۶ (الاحزاب ۳۳:۴۵) اے نبیؐ! ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بناکر، بشارت دینے والااور ڈرانے والا بنا کر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بناکر۔

اور جس کے کارکن، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  (الفتح۴۸:۲۹) [’’محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘]کے مصداق اپنے اصولوں پر کاربند، عقیدہ پر مر مٹنے والے، ایمان پر آنچ نہ آنے دینے والے، نظریہ کے سانچے میں ڈھلے، اللہ کے باغیوں کے لیے لوہے کے چنے اور رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد بنے، اور باہم بڑے مربوط ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے رحیم و شفیق ہیں۔ ایسے بلندہمت لوگ ہی اُولوالعزم انسان ہیں۔ یہ استقامت و استقلال کے کوہِ گراں ہیں۔ یہ وہ طوفان ہیں، جو غرض مندی، خود غرضی اور مفاد پرستی سے بھری پڑی اس دنیا میں بے غرضی، بے لوثی اور ایثار پیشی کی سچی تصویر بنتے ہیں۔ جو یقین محکم، عمل پیہم کا درس دیتے، محبت کو فاتح عالم قرار دیتے ہیں، اور یوں جہادِ زندگانی میں مردوں کی ان شمشیروں کا سوزو ساز جگاتے ہیں۔

یوں تو مسلم معاشرے میں جیسی بھی اس کی تاریخ ہے، جہاں تک ہماری نگاہ جاتی ہے، ماضی کے جھروکوں میں ہمیں ایسے افراد ہمیشہ ملتے رہے ہیں۔ نیک اور بلندآہنگ شخصیتیں ہرزمانے میں موجود رہی ہیں۔ شاذونادر نہیں اور خال خال نہیں، بلکہ خوب خوب رہی ہیں۔ درس و تدریس کا عمل بھی جاری رہا اور وعظ و نصیحت بھی کیا جاتا رہا۔ پندونصائح میں کوئی کمی کبھی نہ ہوئی۔ دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا رہا، لیکن پچھلی صدیوں کے ملّی انحطاط اور صدیوں کی غلامی نے، تقسیم در تقسیم کے مراحل اور ملّت کی خوابیدگی نے ایسی ’انقلابی جماعت‘ سے معاشرے کو خالی اور ملّت کو دُور رکھا۔ اسے اس نعمت سے بہرہ ور نہ ہونے دیا۔ اس بیج کو برگ و بار نہ لانے دیا اور یوں شجر سایہ دار سے پوری ملّت کو محروم رکھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ، مغربی سامراجیوں سے آزادی کے بعد بھی غلامی کا شکنجہ مسلط ہے۔ ایمان کے باوجود اللہ کے علاوہ بہت سے خدا لوگوں نے بنا رکھے ہیں۔ بہت سے بُت اپنے سینوں کے اندر سجا رکھے ہیں۔ لہٰذا، انقلابی جماعت کا احیاء اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ  وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  اس دورکی نشاتِ ثانیہ ہے، اور یہ ایمان کا تقاضا بھی ہے، یہ دین کا مطالبہ بھی ہے، اور مسلم معاشرہ اس کا طلب گار بھی ہے۔

چنانچہ جب جماعت انقلابی اور انقلاب آفریں ہوگی تو اس سے منسلک افراد بھی انقلاب صفت ہوں گے اور رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ   کا مصداق نظر آئیں گے۔ ایسے لوگ بکھرے بکھرے منتشر منتشر سے نہیں بلکہ باہم مربوط ہوتے ہیں۔ یہ نفرتوں میں ڈوبے ہوئے نہیں، اخوت و محبت کے سفیر ہوتے ہیں۔ یہ خشک اور پھیکے سے نہیں، مؤدت اور مواسات کے اسیر ہوتے ہیں۔ یہ خود اپنی ذات اور اس کے مفادات میں گم نہیں، بلکہ ایثار اور قربانی کے حریص ہوتے ہیں۔ اخلاقِ کریمانہ ان کی شان، عفو و درگزر ان کی پہچان، گفتار میں، کردار میں اللہ کی بُرہان ہوتے ہیں۔

اس قافلے کا ہرکارکن انقلابی، ریشم کی طرح نرم، شہد کی طرح شیریں، ملیے تو گداز اور سنیے تو کانوں میں رَس گھلنے کا احساس سرایت کر جاتا ہے۔ یہ کٹے ہوئے نہیں، آپس میں جڑے ہوئے باہم مربوط ہوتے ہیں۔ یہ دُور دُور فاصلوں میں بٹے ہوئے نہیں بلکہ اپنائیت کے رشتے میں بندھے ہوئے، تسبیح کے دانوں کی طرح باہم پروئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان اگر فاصلے حائل ہوں، تب بھی ان کے دل ساتھ ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ حالات کی سنگینی پر ایک ساتھ کڑھتے ہیں۔ یہ ہوائوں کا رُخ بدلنے کے لیے ایک ساتھ اُٹھتے ہیں۔ قدم بقدم جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ   اپنے ربّ سے کیے ہوئے عہدوپیمان کو سچ کر دکھاتے ہیں اور اسی کا ہورہنے کا درس دیتے ہوئے دارفانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور اپنے ربّ سے ملاقات کے منتظر،  یہ شیدائی اپنے ربّ سے جاملتے ہیں۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ   کی شان، جسم واحد کی طرح یک جان، ایک دوسرے پہ مہربان، مونس اور بڑے غم خوار، دُکھ درد میں ایک دوسرے کے حصہ دار۔

جس طرح انسانی جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو دوسرا اس سے لاتعلقی اور بے اعتنائی نہیں برتتا اور نظرانداز نہیں کرتا۔ پیر میں کانٹا بھی چبھے تو آنکھ آنسو بہاتی ہے، حالانکہ آنکھ اور پیر کا فاصلہ تو دیکھیے، خود کانٹا جسم کے حصے کے لیے باعث ِ تکلیف ہوتا ہے۔ لیکن پورا جسم انکاری ہے کہ میں چلوں گا نہیں، اپنی جگہ سے ہلوں گا نہیں، منزل کی جانب بڑھوں گا نہیں، جب تک کانٹا نہ نکلے، یہاں سے اُٹھوں گا نہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر ظلم کرے نہ اس کو ظالم کے رحم و کرم پر چھوڑے [صحیح البخاری، کتاب المظالم والغصب، حدیث: ۲۳۳۰]۔ یوں بھی سچی بات تو یہ ہے کہ کون انسان کسی کو کچھ دے سکتا ہے؟ دینے والی ذات تو ایک ہی ہے۔ کون کسی کا دُکھ بانٹ سکتا ہے، کون کسی کا غم ہلکا کرسکتا ہے، لیکن بہرحال ہمدردی کے دو میٹھے بول بولنے سے بوجھ اُتر جاتا ہے۔ انسان ہلکا ہوجاتا ہے۔ غم کو اپنے آپ سے بہت دُور پاتا ہے اور دو میٹھے بول ہی ہوتے ہیں، جو خوشیوں کو دوبالا کردیتے ہیں۔ اکیلے اور تنہا کوئی بھی مسرت کا لطف نہیں اُٹھا پاتا ہے۔ اس لطف کو دوبالا کرنے کے لیے بھی انسان کو انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ساتھ دے، خوشیاں بڑھائے اس میں اضافہ کرے۔

رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  کا یہ کیا ہی ایمان افروز واقعہ کہ جب جاں کنی کی حالت تھی۔ جنگ کے زخمی پڑے تھے تو ان میں سے ایک نے پانی کے لیے پکارا۔ مشکیزہ لیے جب پکار کو سننے والا اس جانب بڑھا اور پہنچا اور پانی اس کے آگے کیا تو قریب سے ایک اور نے آواز دی، وہ آواز بھی پانی کے لیے تھی۔ یہ زخمی بھی سسک رہا تھا۔ اس نے کہا: نہیں پہلے اس کو پانی پلائو، تو جب اس کے پاس پہنچے اور ابھی مشکیزہ آگے کیا ہی تھا کہ تیسرے کی آواز آئی کہ پانی۔ اور اس نے کہا کہ اس کو جاکر پلائو۔ جب وہاں پر پہنچے تو وہ دم توڑ چکا تھا۔ جب واپس دوسرے کے پاس آئے تو وہ اپنے ربّ کے پاس جاچکا تھا، اور جب واپس پہلے کے پاس پہنچے تو وہ بھی رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  کا درس دے چکا تھا اور رخصت ہوتے ہوئے یہ پیغام دے گیا تھا کہ انقلابی جماعت کی یہی پہچان ہے کہ سب دوسرے کے لیے جیتے ہیں، محض اپنے لیے نہیں جیتے۔ کسی جماعت کو انقلابی اور جان دار بنانے کے لیے یہی کردار درکار ہے۔

 بھلا سوچیے کہ اگر یہاں آپس کی بدگمانیاں ہوں، کھچائو اور تنائو ہو، بس ایک ظاہری سا   رکھ رکھائو ہو، تو اس عالم میں کیا وہاں کوئی انقلابی جماعت ہوسکتی ہے، انقلابی کارکن وجود رکھ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، وہاں انقلابی کارکن کیسے مل سکتا ہے؟ انقلاب کا سماں ممکن ہی نہیں ہے۔ وہاں ربّ کی رضا اور جنّت کا حصول ناممکنات میں سے ہے۔

رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  میں بڑی وسعت ہے۔ عام مسلمانوں سے وابستگی کی بات ہے۔ ان کو جاننے، سمجھنے اور اپنانے کی بات ہے کہ ان سے قربت اختیار کی جائے۔ جب ہم نمازیں لوگوں کے ساتھ پڑھتے ہیں، چاہے وہ دیوبندی ہوں، چاہے بریلوی ہوں، یا چاہے اہل حدیث ہوں۔ جب حج ہم ان کے ساتھ کرتے ہیں خواہ عربی ہو یا عجمی ہو یا ترک و تاتاری ہو۔ ان سب سے مل کر    یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔ اس لیے جزوی اختلاف کے باوجود مجموعی اتفاق ہی انقلاب اور انقلابی عمل کی راہیں روشن کرسکتا ہے۔اگر انقلاب آئے گا تو ایسے ہی کشادہ دل کارکنوں کے ذریعے آئے گا۔

معاشرے میں بہت سی جماعتیں ہیں، بہت سے گروہ ہیں۔ خالص دینی بھی ہیں، ملی جلی بھی ہیں۔ وہ بھی ہیں جو برسرِزمین کم اور زیرزمین زیادہ ہیں۔ سبھی بساط بھر کام کر رہی ہیں۔ عوام تک پہنچ رہی ہیں، ان کے معاملات میں دل چسپی لے رہی ہیں، اصلاح کے لیے کوشاں اور سرگرداں ہیں۔ بالکل انھی عوام تک رسائی، دعوت کا فہم اور ان تک پذیرائی، تبدیلی اور انقلاب کی تڑپ، بس یہی ہمیں مطلوب ہے۔ لہٰذا، ان سے وابستہ رہنا، ان کو اپناسمجھنا، احسان کا رویہ اپنانا، ہرایک کی عزّت اور توقیر کرنا، ان کے کام آنا، ان کی خوشی میں، ان کے غم میں شریک رہنا، ان کے غموں کو بانٹنا اور ہلکا کرنا، یہ سب دعوت کے کام ہیں۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ   ان سب کا عنوان اور شاہِ کلید ہے۔

جب ایسا ہوگا تب ہی پذیرائی ہوگی۔ ایک ساتھ چلنے کی بات ہوگی۔ اسلامی انقلاب کی لے بڑھ سکے گی۔ پھر ہرملک، ہربستی کے اندر یہی صدا لگائی جائے گی۔

نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہمارے اُوپر ہتھیار اُٹھائے۔ وہ ہم میں سے نہیں ہے[مسنداحمد، من مسند بنی ہاشم، حدیث: ۸۱۷۵]۔ آپؐ نے فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو، بُغض اور عداوت نہ رکھو، ایک دوسرے کی جڑ نہ کاٹو، آپس میں منہ پھیر کر نہ بیٹھو۔ اے خدا کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو[صحیح مسلم، کتاب الـبّر والصلہٗ والآداب، حدیث: ۴۷۴۸]۔ رہبر و رہنما صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہم کو یہ پہنچا کہ آپس میں سگے بھائیوں جیسی محبت اور پاسداری برتو۔ جہالت کی بُری عادتیں ترک کرو۔ آپؐ نے فرمایا: ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال، عزّت و آبرو، سب حرام ہیں [صحیح مسلم، کتاب الـبّر والصلہٗ والآداب، حدیث:۴۷۵۶]۔  آپؐ نے ایک دوسرے کا خون نہ بہانے، رشتہ داروں کا حق ادا کرنے، پڑوسیوں کا خیال رکھنے اور ماتحتوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔یہ ساری بنیادیں ہیں رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  کی۔

رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  کا ایک موقع وہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینے پہنچتےہیں۔ مکہ سے لُٹے پٹے قافلے مہاجرین مکہ، مدینہ پہنچتے ہیں، تو اس حال میں پہنچتے ہیں کہ عزیز و رشتہ دار پیچھے رہ گئے ہیں۔ اپنی معیشت کو، اقتصادی ڈھانچے اورنظامِ زیست کو مکہ میں چھوڑ کر چلے آئے ہیں۔ اس حال میں وہاں پر پہنچے ہیں، کھانے اور پینے کو کچھ میسر نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات فرمائی، ان کو بھائی بھائی بنادیا۔ ایک دوسرے کا غم خوار بنادیا۔ وہ جو معاشی اور سماجی مسئلہ درپیش تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سارے معاملات کو طے کرادیا۔

 اس سے بھی ذرا آگے چلیے۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  کی عظیم الشان مثال تو وہ ہے ، جب صلح حدیبیہ کے موقعے پر یہ افواہ سنی گئی کہ حضرت عثمانؓ قتل کردیئے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو اپنے ساتھیوں کو موت پر بیعت کرنے کے لیے پکارا اور لوگوں سے کہا کہ، جمع ہوجائیں۔ لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے اور اپنے ایک ساتھی کے خون کا قصاص لینے کے لیے چودہ سو مہاجرین اور انصار لبیک کہتے ہوئے بیعت کے لیے جوق در جوق آگے بڑھے۔ اس عظیم الشان مثال پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:

 لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ   (الفتح۴۸:۱۸)اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔

اللہ جس سے خوش ہوجائے، اس کو پھر اور کیا چاہیے؟ ہم میں سے کون ہے، جو اللہ کی خوشی نہیں چاہتا اور اللہ کی رضا نہیں چاہتا۔ ہم تو اسی کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا،اللہ تبارک و تعالیٰ جس عمل کے بارے میں خود یہ اعلان کردے اور تاقیامت لوگ اس کی تلاوت کرتے رہیں، وہ ایسا عمل ہے کہ اس کو اپنایا جائے۔

ایک اسلامی انقلابی جماعت دعوت کے مرحلے سے گزرتی ہے۔ اپنی صفوں کو منظم کرتی ہے۔ تزکیہ اور تربیت کے مراحل طے کرتی ہے۔ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ اور تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ کی گھاٹیاں پار کرتی ہے۔ ٹوٹے ہوئوں کو جوڑتی ہے، شکستہ دلوں کو تسکین فراہم کرتی ہے۔ رُوٹھے ہوئوں کو مناتی ہے، گمراہ اور بدراہ ہوجانے والوں کو راہِ راست دکھاتی ہے۔ بندگی ٔ نفس کی راہ پر بگٹٹ دوڑ جانے والوں کو روکتی اور انھیں سمجھاتی ہے۔ ان میں اُلفت اور ملاطفت پیدا کرتی ہے۔ ان میں محبت اور یگانگت جگاتی ہے۔ خوئے دل نوازی اور اپنائیت کے دیپ جلاتی ہے اور پھر بے خطرآگے بڑھنے کا حوصلہ اور ایمان پرور عزم دیتی ہے ،اور ’’پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی‘ اس کا انھیں احساس دلاتی ہے۔ حاضر و موجود سے بیزار کرتی، زندگی کچھ اور بھی دشوار کرتی اور پکار دیتی ہے:

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے