جولائی ۲۰۲۱

فہرست مضامین

یکساں نظام تعلیم اور ریاستی پالیسی سے انحراف

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | جولائی ۲۰۲۱ | تعلیم و تربیت

Responsive image Responsive image

تعلیم کی اہمیت ایک انسانی معاشرے میں ایسی ہی ہے، جیسے انسانی جسم کے لیے غذا۔ یہی وجہ ہے کہ رب کریم نے اپنے منتخب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلا پیغام یہی دیا کہ اللہ کے نام سے پڑھو، جس نے انسان کو پیدا کیا اور قلم کے ذریعے علم دیا تاکہ انسان اپنے رب کی حمدو ثناء و بزرگی بیان کرے اور اس کا شکرگزار بندہ بن سکے۔ اس لحاظ سے اسلامی معاشرے کے لیے تعلیم عبادات کی طرح ایک اعلیٰ مقام کاحامل فریضہ ہے ۔ کیوں کہ جو علم رکھتے ہیں اور جوعلم نہیں رکھتے، قرآن کریم کی نگاہ میں یکساں نہیں ہوسکتے۔ اور جو علم رکھتے ہیں وہی اللہ کی خشیت بھی زیادہ کرتے ہیں۔ گویا اسلام نے اللہ کی قربت اور خشیت کو ترک دنیا کے طریقوں سے الگ کر کے علم کے ساتھ وابستہ کر دیا۔

یہی وجہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں اپنے شہریوں کی تعلیم کا بندوبست اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اسلامی معاشرے کی روایت یہ رہی ہے کہ جہاں کہیں بھی مرکزی مساجد تعمیر کی گئیں، ان کے ساتھ طلبہ کے لیے اقامت گاہیں اور درس کے لیے کمرے بنائے گئے تاکہ ہر اہم مسجد ایک اہم جامعہ کے فرائض سرانجام دے سکے ۔ جہاں سے امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام جعفر صادق ؒ، امام احمد بن حنبلؒ جیسے فقہااور ابن سینا اور الظواہری اور الغ بیگ جیسے ماہرین طب، فلکیات ، کیمیا اور جراح پیدا ہوئے۔ یہ مدارس برصغیر پاک و ہند میں انگریز حکمرانوں کی آمد تک طب ، فلکیات اور انجینئرنگ کی تعلیم دیتے تھے۔ مشہور مغل تعمیرات انھی مدارس سے فارغ طلبہ کے فن کی یاد گار ہیں۔ انھیں کسی فرانسیسی یا انگریزی انجینئر نے تعمیر نہیں کیا ۔

تعلیم کی اس اہمیت کے پیش نظر ایک ایسی مملکت کے لیے، جس کا مقصد وجود اسلامی فکر و علوم کا احیاء اور ایسے معاشرے کی تعمیر تھا ، جہاں اسلامی تعلیمات کے تحت عدل ، معاشرت ، سیاست ، معیشت ، ثقافت اور صنعت و حرفت کا فروغ ہو ، تعلیم کو فروغ دینا ایک متوقع فریضہ تھا۔ تاہم، تعلیم اور خصوصاً وہ تعلیم جو ملک کے مقصد وجود کی تکمیل کرے کبھی لائق توجہ نہیں رہی ۔یہ ضرور ہوا کہ حکومتی تعلیمی پالیسی جب بھی تشکیل دی گئی تو اس میں ملک کی نظریاتی اساس کا ذکر اور اس حوالے سے نصاب اور نظام تعلیم میں اصلاح کا ذکر ضرور شامل کیا گیا ۔لیکن تعلیم کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کا عمومی رویہ ہمیشہ سوتیلے پن کا رہا ہے۔ تعلیم کو بجٹ میں کبھی اہمیت نہیں دی گئی، اور جو رقم مختص بھی کی گئی اس کا مناسب استعمال کبھی نہیں کیا گیا ۔

قومی نصابِ تعلیم کے لیے اصولی رہنمائی

ماضی کے المیے پر اظہارِ افسوس اپنی جگہ، لیکن ہمیں اصل توجہ مستقبل کی تعمیر کی طرف کرنی چاہیے، تاکہ ماضی کی کوتاہیوں کاازالہ کسی حد تک کیا جا سکے۔ لیکن مستقبل پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ مختلف سیاسی ادوار میں تعلیمی پالیسی کیا رہی؟ حالیہ حکومت کی وزارت تعلیم کے طبع کردہ قومی نصابِ تعلیم فریم ورک کے حوالے سے درج ذیل معلومات کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے :

  • The Education Policy (1972-80) recommended designing of curricula relevant to nation‘s changing social and economic needs compatible with ideology of the country. In order to achieve national cohesion and harmony, the policy recommended implementation of national curriculum in all federating units.(Government of Pakistan, Ministry of Education, The Education Policy (1972-1980)  Islamabad, Ministry of Education).
  • The National Education Policy and Implementation Programme 1979 recommended revision, modernization, and Islamization of curricula to bring it in conformity with Islamic ideals (National Education Policy and implementation program (1979)  Islamabad, Ministry of Education, Government of Pakistan).
  • National Education Policy 1992-2002 focused on restructuring the existing educational system on modern lines in accordance with principles of Islam to create enlightened Muslim society and to improve the quality of education by revising curricula (The Education Policy (1992-2002) Government of Pakistan, Ministry of Education, Islamabad).
  • National Education Policy 1998-2010  stressed on diversifying education  system, making curriculum development a continuous process, popularizing Information Technology and making the Quran teaching and Islamic principles as an integral part of curricula (The Education Policy (1998-2010), Government of  Pakistan, Ministry of Education), 1998.
  • National Education Policy 2009 proposed revitalizing the existing education system to cater to social, political, and spiritual needs of individuals and society. The policy laid emphasis on the preservation of the ideals, which led to the creation of Pakistan and strengthen the concept of basic ideology within Islamic ethos.
  • The Policy also recommended development of a common curricular framework to be applied to educational institutions, both in public and private sectors. The Policy further recommended to the Government to take steps to bring the public and private sectors in harmony through common standards, quality and regulatory regimes (The Education Policy (2009) Islamabad, Ministry of Education, Govt. of Pakistan). Please see P4-5 of National Curriculum Framework, Ministry of Federal Education and Professional Training,2020.
  • تعلیمی پالیسی (۱۹۷۲ء-۱۹۸۰ء) سفارش کرتی ہے کہ نصاب کی تیاری میں قوم کی تغیر پذیر سماجی اور اقتصادی ضروریات کو ملک کی نظریاتی اساس کے پیش نظر ملحوظ رکھا جائے۔ قومی یک جہتی اور ہم آہنگی کے حصول کے پیش نظر پالیسی تمام وفاقی یونٹس میں قومی نصاب کے نفاذ کی سفارش کرتی ہے (تعلیمی پالیسی (۱۹۷۲ء- ۱۹۸۰ء)، حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)۔
  • قومی تعلیمی پالیسی اور اطلاقی پروگرام ۱۹۷۹ء سفارش کرتے ہیں کہ نصاب پر نظرثانی کرتے ہوئے، جدیدیت اور نفاذِ اسلام کے عمل میں اسلام کے اصولوں اور تصورات کو یقینی بنایا جائے (قومی تعلیمی پالیسی اور پروگرام ۱۹۷۹ء، حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)۔
  • قومی تعلیمی پالیسی (۱۹۹۲ء-۲۰۰۲ء) اس بات پر مرکوز کرتی ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کو اسلام کےاصولوں کے مطابق جدید خطوط پر استوار کرنے اور ایک جدید اور روشن خیال معاشرے کی تعمیر کے لیے اور معیارِ تعلیم کی بہتری کے لیے نصاب پر نظرثانی کی جائے (تعلیمی پالیسی (۱۹۹۲ء-۲۰۰۲ء) ، حکومت ِ پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)
  • قومی تعلیمی پالیسی ۱۹۹۸ء-۲۰۱۰ء تعلیمی نظام کو متنوع بنانے کے لیے نصاب میں تبدیلی کرتے ہوئے جو کہ ایک مسلسل عمل ہے، انفارمیشن ٹکنالوجی کو متعارف کرواتے ہوئے اور قرآن کی تعلیمات اوراسلام کے اصولوں کو نصاب کا لازمی حصہ بنانے پر زور دیتی ہے (تعلیمی پالیسی ۱۹۹۸ء- ۲۰۱۰ء، حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)۔
  • قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء تجویز کرتی ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کا احیاء کیا جائے تاکہ فرد اور معاشرے کے سماجی، سیاسی اور روحانی تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔ پالیسی اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ وہ نظریات جو قیامِ پاکستان کا باعث بنے، ان کا تحفظ کیا جائے اور اسلامی اخلاقیات کے بنیادی تصورات کو تقویت فراہم کی جائے۔
  • پالیسی مشترکہ نصاب کی تیاری کے لیے فریم ورک کی بھی سفارش کرتی ہے جس کا نفاذ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں، دونوں میں ہوگا۔ پالیسی حکومت کو بھی سفارش کرتی ہے کہ وہ سرکاری اور نجی سیکٹر میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے مشترکہ معیار، کوالٹی اور ریگولیٹری رجیم کے لیے اقدامات اُٹھائے ( تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء،حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد) ازراہ کرم قومی نصاب فریم ورک کا ص۴ اور ۵ دیکھیے۔ وفاقی وزارتِ تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ، ۲۰۲۰ء۔

وزرات تعلیم کی سرکاری طور پر شائع کردہ اس دستاویز کے بعد جو پانچ سابقہ حکومتوں کی جانب سے پالیسی کا خلاصہ بیان کرتی ہے ، کیا یہ گنجائش رہ جاتی ہے کہ آزادیِ رائے یا اقلیتوں کے حقوق کے نام پر اس متفقہ پالیسی کے نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے بیرونی امداد پر قائم ’فکری توپ خانوں‘ کے پیدا کردہ خدشات پر بحث کی جائے ؟سیاسی اَدوار کے اختلاف اور ذاتی پسند ناپسند کے باوجود ان پانچ سفارشات میں جو عناصر مشترک ہیں ، ان میں سب سے اوّل پاکستان کی نظریاتی اساس ہے، یعنی اسلام جس کے نام پر یہ ملک بنا۔ چنانچہ نظریاتی اساس کو صرف نصاب میں علامتی طور پر شامل نہ کیا جائے بلکہ اس کی بنیاد پر تمام نصابات کی تہذیب و ترتیب کا اہتمام کیا جائے ۔ گویا وہ اردو ادب ہو یا انگریزی ادب ، وہ کیمسٹری ہو یا فزکس یا ریاضی یا عمرانی علوم، ہرمضمون میں اسلامی اقدار ، افکار اور آئڈیلز کا سمویا جانا ریاست کی نظریاتی اساس کا لازمی تقاضا ہے۔ اسلامیات بطور ایک مستقل اور لازمی مضمون کے زیر بحث ہے ہی نہیں، یہ تو پہلے سے ہی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اسے تمام مسلمان طلبہ و طالبات کو پڑھایا جائے گا ۔

اس کے ساتھ پاکستان کی اس تاریخ کو جس میں محمد علی جو ہر ، علامہ محمد اسد ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا حسرت موہانی ، علامہ اقبال اور خود بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں کے وہ خطبات اور بیانات، جن میں ملک کی نظریاتی اساس اور پاکستان کے قیام کے ذریعے اسلامی احیاء اور اسلام کے معاشرتی نظام، عدل و انصاف اورمعاشرتی فلاح کا واضح تذکرہ ہے، شامل نصاب کیا جائے۔ تاریخ کے ان اہم اوراق کو ایک مخصوص لابی نے ۷۴ سال سے شعوری طور پر قوم سے چھپا کر رکھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حقائق کو ’مطالعہ پاکستان‘ کے نصاب میں شامل کیا جائے اور لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے ۔ اس لازمی مضمون کی ضرورت و اہمیت اور افادیت اور اس کے بھرپور انداز میں اجرا پر قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ اصل بات جس کی طرف یہ تمام پالیسی دستاویزات متوجہ کرتی ہیں، وہ یہ ہے کہ تمام مضامین میں اسلامی اخلاقی اصولوں اور اقدار کو سمویا جائے ۔

معاشرتی اقدار کے فروغ میں زبان کا کردار

ظاہر ہے کہ یہ بات ملک کے ایک فی صد سے بھی کم لیکن ذرائع ابلاغ ، صحافت اور   این جی اوز سے استفادہ کرنے والے طبقے کو کیسے گوارا ہو سکتی ہے۔ انھیں اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ ایک مسلمان بچی یا بچہ اردو کی کتاب میں حمد یا نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیوں پڑھتا ہے ؟ یہ ان کے خیال میں ’مذہبی مواد‘ ہے ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ خود انگریز اپنی زبان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔اگر انگریزی سے وہ الفاظ جو عہد نامہ جدید و قدیم کی بنیاد ہیں ، نکال دیے جائیں تو انگریزی ادب چاہے وہ یورپ کا ہو یا امریکا کا، ایک بے جان ڈھانچا رہ جائے گا۔صرف لفظ supper, goodbye, convent, resurrection کی etymology پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ انگریزی سے اس ’مذہبی مواد‘کو اگر نکال دیا جائے تو انگریزی کا وجود ہی ناپید ہو جائے گا۔ دُور نہ جائیں انگریزی کے مشہور شاعر ٹی ایس ایلیٹ (T.S Eliot  - م: ۱۹۶۵ء) کے صرف ان الفاظ کو غور سے پڑھیں :

The dominant force in creating a common culture between peoples each of which has its distinct culture, is religion. Please do not, at this point, make a mistake in anticipating my meaning. This is not a religious talk, and I am not setting out to convert anybody. I am simply stating a fact.      I am not so much concerned with the communion of Christian believers today; I am talking about the common tradition of Christianity which has made Europe what it is, and about the common cultural elements which this common Christianity has brought with it. [...] It is in Christianity that our arts have developed; it is in Christianity that the laws of Europe have—until recently—been rooted.It is against a background of Christianity that all our thought has significance. An individual European may not believe that the Christian Faith is true, and yet what he says, and makes, and does, will all spring out of his heritage of Christian culture and depend upon that culture for its meaning. Only a Christian culture could have reproduced a Voltaire or a Nietzsche. I do not believe that the culture of Europe could survive the complete disappearance of the Christian Faith. And I am convinced of that, not merely because I am a Christian myself, but as a student of social biology. If Christianity goes, the whole of our culture goes. Then you must start painfully again, and you cannot put on a new culture ready made. You must wait for the grass to grow to feed the sheep to give the wool out of which your new coat will be made. You must pass through many centuries of barbarism. We should not live to see the new culture, nor would our great- great- great-grandchildren: and if we did, not one of us would be happy on it. (T.S. Eliot, Notes Towards the Definition of culture, London, Faber & Faber,1949, P-122)

نمایاں تہذیب رکھنے والی مختلف قوموں کو ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے تشکیل دینے میں مذہب غالب تر قوت ہوتا ہے۔ براہِ کرم ، اس موقع پر، میرا مفہوم اخذ کرنے میں غلطی نہ کریں۔ یہ ایک مذہبی گفتگو نہیں ہے، نہ میں کسی کا مذہب ہی تبدیل کرنے آیا ہوں۔ میں سادہ الفاظ میں ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ مسیحی اہلِ ایمان کے دینی اجتماعات کے حوالے سے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو آج مسیحیت کی عام روایت کی بات کر رہا ہوں جس نے یورپ کو وہ بنا دیا ہے جو آج نظر آرہا ہے، اور یہ اُن مشترکہ تہذیبی روایات کے بارے میں ہے جو عمومی مسیحیت اپنے ہمراہ لے کر آئی ہے.....یہ مسیحیت ہی ہے کہ جس میں ہمارے (علوم و ) فنون پروان چڑھے ہیں۔ مسیحیت میں یورپ کے قوانین کی جڑیں آج تک موجود رہی ہیں۔ یہ عیسائیت کے  پس منظر کے خلاف ہے کہ ہماری فکر اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک یورپی فرد شاید یقین نہ کرتا ہو کہ مسیحی عقیدہ درست ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ جو کچھ کہتا ہے، کرتا ہے، اسی مسیحی تہذیب و تمدن کے ورثے سے پروان چڑھے گا اور اس کے معنی تشکیل دینے کے لیے اُس تہذیب و تمدن پر انحصار کرے گا۔ مسیحی تہذیب و تمدن سے ہی والٹیر (Voltaire) یا نطشے (Nietzsche) ازسرنو جنم لے سکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یورپ کا تہذیب و تمدن اس قابل تھا کہ وہ مسیحی عقیدے کے مکمل طور پر غائب ہوجانے کے بعد اپنے آپ کو برقرار رکھ سکتا۔ میں اس پر پورا یقین رکھتا ہوں اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مَیں خود بھی عیسائی ہوں بلکہ میں سوشل حیاتیات کا طالب علم ہوں۔

اگر مسیحیت جاتی ہے تو ہمارا سارا تہذیب وتمدن جاتا ہے۔ پھر انتہائی تکلیف دہ حالت میں آپ کو دوبارہ آغاز کرنا ہوگا اورکسی تیار شدہ (ready made)تہذیب و تمدن کو آپ فوری طور پر اُوڑھ نہیں سکتے۔ آپ کو انتظار کرنا ہوگا کہ گھاس پھل پھول جائے تاکہ اُسے بھیڑیں کھاسکیں، اور اُس سے اُون حاصل کی جائے جس سے آپ کا نیا کوٹ تیار ہوسکے۔ آپ کو ظلم و سفاکیت کے بہت سے اَدوار سے لازماً گزرنا پڑے گا۔ نئے تہذیب و تمدن کے لیے نہ ہم زندہ رہیں گے، نہ ہماری نسلوں کی اولادوں کی اولادوں کی اولادیں ہی۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم میں سے کوئی بھی خوش نہ ہوگا۔

عیسائیت کا جو کردار آج تک یورپ اور امریکا کی تہذیب کی تعمیر اور ارتقا میں رہا ہے، اس سے ہزار گنا زیادہ کردار اسلام کا مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کی تعمیر و بقا میں رہا ہے۔اقبال  کے علاوہ اگر غالب کے کلام سے ’مذہبی مواد‘کو نکال دیا جائے تو چند ناتمام نقوش کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا ۔

تعلیم، تہذیبی ورثہ اور فکر و معاشرت کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اگر خاندان کے تمام افراد حصول معاش میں مصروف ہو جائیں اور تعلیم سے ہدف بنایا جانے والا ’مذہبی مواد‘ یعنی احترام جان، احترام قرابت ، احترام عقل ، احترام عدل، احترام مال ، دوغلے پن، منافقانہ طریق کار اور فاسقانہ طرزِ حیات وغیرہ کو نکال دیا جائے، اور پھر توحیدی تصورِ زندگی جو ہزارسجدوں کی جگہ صرف وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ کو سجدہ کرنا ہے، ان تمام امور کو معیشت ، معاشرت ، سیاست ، قانون ، تاریخ ،ثقافت سے نکال کر ’دینیات‘ میں ڈال دیا جائے، تو کیا کسی کی زندگی کا کوئی مفہوم و معنی باقی رہ سکتا ہے، اور کیا ایسی تعلیم کسی معاشرے اور ریاست کو یک جا رکھ سکتی ہے ؟

’مذہبی مواد‘ اور قومی ترانہ

 ابھی تک تو بات معاشرتی علوم، اردو ،انگریزی کی ہو رہی ہے کہ ان کتب میں " مذہبی مواد" یعنی اگر کہیں حیا کا ذکر آگیا ہو، یا کہیں صبر و استقامت یا مجاہدانہ بے خوفی یا آخرت میں کامیابی کے لیے ایمان داری سے صحیح ناپ تول کا ذکر ہو، یا کسی سے سچ بولنے کے لیے کہا گیا ہو اور اس کی تعلیم دی گئی ہو، کہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت کے رویے کی تعلیم دی گئی ہو، یا کہیں ماں کا احترام اور اور اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کی بات کی گئی ہو، تو چونکہ یہ سب ’مذہبی مواد‘ ہے ، اور یہی قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں، اس لیے انھیں تمام علوم کی کتب سے خارج ہونا چاہیے تاکہ اس کے بعد ہماری نئی نسل’انسانیت پرستی‘ (Humanism) یعنی دینی تعلیمات و اخلاقیات سے بالکل لاتعلق ہوجائے۔ کیا کوئی عقل و ہوش رکھنے والا پاکستانی ان خیالات کو کسی باہوش و حواس شخص سے منسوب کرسکتا ہے؟

اگر اس منطق اور دلیل کو مان لیا جائے تو لازماً اگلا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ نہ صرف اذان جس سے ۳ فی صد سے بھی کم آبادی کی ’سمع خراشی‘ کا بعید امکان ہے۔ اب ۱۴سوسال بعد، اچانک اس کا امکان کچھ دانشوروں کے ذہن کے کسی گوشہ میں ابھر آیا ہے ، اس لیے اس پر بھی پابندی ہو! یہی نہیں بلکہ تین فی صد آبادی کا دل رکھنے کے لیے ہمارے ’روشن خیال‘ اور حقوقِ انسانی کے علَم بردار یہ بھی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ قومی ترانہ سے ’مذہبی مواد‘ نکالا جائےیا پھر ان کو قومی ترانے میں شرکت سے بھی رخصت دی جائے، کیوں کہ اس کا ایک ایک بول ’مذہبی مواد‘ سے لبریز ہے۔ چونکہ  مسلمانوں اور غیرمسلموں،دونوں کے لیے ہے، اور یہ ترانہ ان کی پہچان ہے، تو اسے سب کے لیے قابلِ قبول بنایا جائے۔ مراد یہ ہے کہ اگر’ مذہبی مواد‘ کا وہ فلسفہ درست ہے، جس کومختلف علوم کے سلسلے میں پیش کیا جارہا ہے تو تو پھر قومی ترانے کا بھی تیا پانچہ کرنا ہوگا!

مسلّمہ  تعلیمی معیارات

اس وقت بیش تر گفتگو کا مرکز نصاب ہے جس پر عالمی سطح  پر ماہرین تعلیم کا اتفاق ہے کہ اس کا براہ راست تعلق معیارات (standards)، تاریخ و ثقافت ، قومی ہیرواور قومی مقاصد اور تہذیب وتمدن سے ہے۔ تعلیمی معیارات ،تاریخ و ثقافت اورقومی ہیرو ہر نصاب کا حصہ ہوتے ہیں اور وہ قومی اتحاد کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ انھی سے قومیت کا تصور ابھرتا ہے ۔ لیکن ہمارا معاملہ دوسروں سے بہت مختلف ہے۔ہماری قومیت کی بنیاد نہ صوبہ ہے ،نہ مقامی لباس یا بول چال ، نہ کوئی زمین کی حدود ، نہ رنگ و نسل اور نہ ذات برادری یا قبائلی تعلق بلکہ صرف اور صرف دین اور اس دین کی بنیاد پر ترقی پانے والی ثقافت اور تہذیب ہے۔

 ہماری نگاہ میں اصل موضوع وہ نظام تعلیم ہے، جس کی طرف مندرجہ بالا تمام سرکاری دستاویز میں یہ بات کہی گئی ہے کہ فرسودہ نظامِ تعلیم، یعنی جو نظام انگریز سامراج نے ہمیں دیا، اس کی جگہ ایک کردار سازی کرنے والا نظام تعلیم جس میں اسلامی اقدار اور آئیڈیل سمو دیے گئے ہوں،  اس کا نفاذ کیا جائے۔یہ مطالبہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ یہ ماہرین کے مقرر کردہ ہر کمیشن کی مشترکہ قرارداد ہے، جسے آج تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔غالباً یہی وہ پہلو ہے، جسے وزیراعظم عمران خان باربار کہتے ہیں کہ ’’ہمیں وہ نظام تعلیم لانا چاہیے، جس میں ہر نوجوان کے لیے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم سیرت و کردار کا اعلیٰ ترین نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہو‘‘۔ جب تک ہر شعبۂ علم میں آپؐ کی ہمہ گیر شخصیت کے پہلو شامل نہیں کیے جائیں گے ، اسلامیات کی کتاب میں ایک باب یا چند صفحات یہ کام نہیں کر سکتے۔

اگر ایک نہیں درجنوں غیر مسلم مفکرین جن میں: کارلائل ہو ، یا گب یا مائیکل ہارٹ، یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’انسانیت کے لیے سب سے زیادہ مکمل اور اچھی مثال یا رول ماڈل اگر کوئی ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت و حیات ہے‘‘۔پھر وہ جو کلمۂ شہادت کے ذریعے اپنے ایمان اور ختم نبوت پر یقین کا اعلان کرتے ہیں ، ان کے علوم کی تعلیم میں اس پہلو کو شامل نہ کرنا کیا اس شہادت سے کھلاانحراف نہ ہو گا؟ نہ صرف یہ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا کسی بھی بڑے سے بڑے سائنس دان سے موازنہ کرنا اور آپؐ کی سیرت کی جگہ اس کا تذکرہ شامل کرنا ،کیا انسانیت کے مفاد میں ہو گا؟ قرآن کریم نے آپؐ کو تمام انسانوں (كَا فَّةً لِّلنَّاسِ) کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے ۔ایک ہندو ، عیسائی یا کسی بھی مذہب کو ماننے والے کے لیے آپؐ صحیح انسانی طرزِ عمل کی مثال پیش کرتے ہیں ۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کرنا ، قرآن کے اس فیصلے کے خلاف ہے اور غیر مسلموں کو بھلائی ، خیر اور سچائی کی اعلیٰ ترین مثال سے محروم کرنا ہے، جو انسانی حقوق کی بھی واضح خلاف ورزی ہے۔

یہ بدگمانی بھی اصلاح طلب ہے کہ قرآن کی تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں۔ قرآن اپنے آپ کو ھُدًی  لِلنَّاسِ کہتا ہے۔ شریعت، یعنی سچائی ، ایمان داری ، پاک بازی ، حقوق کی ادائیگی ، ماں باپ کا احترام و اطاعت صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ۔ یہ انسا نیت کے وجود کے لیے لازمی عناصر ہیں۔ اس لیے قرآنی اخلاق، یعنی معاشی ، معاشرتی ، سیاسی طرز عمل کو صرف مسلمانوں تک محدود کرنا غیر مسلموں کے ساتھ تفریق ، ظلم اور ان کے ابلاغی حقوق کی پامالی ہے۔ انھیں انسانیت کی بھلائی کے عالمی متفقہ چارٹر اور راہنما اصولوں سے محروم رکھنا کوئی اچھی بات نہیں بلکہ ان سے زیادتی کے مترادف ہے ۔قرآن چاہتا ہے کہ سچ ہر انسان تک پہنچے، تاکہ وہ طے کر سکے کہ اسے قبول کرنا اس کے لیے مفید ہے یا نہیں ۔ اسے اسلامی اخلاق و سیرت پاک سے لاعلم رکھنا، اس کےبنیادی حقوق پر ڈاکا اور واضح ظلم ہے۔

’مذہبی مواد‘ اور بانیٔ پاکستان

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کا ’مذہبی مواد‘کے بارے میں کیا تصور تھا اور کتنی پیشہ وارانہ بددیانتی کے ساتھ قائد کے حقیقی تصور کوقوم سے چھپائے رکھا۔ خصوصاً ’مطالعہ پاکستان‘ میں ان خیالات کو آنے ہی نہیں دیا گیا، جن سے مغربی سامراجیت زدہ اذہان خوف زدہ تھے۔ ’مذہبی مواد‘ کے بارے میں ہم صرف چند مستند تحریری بیانات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے قائد اعظم ایک کھرے ،بےباک ، پر وقار اور دو ٹوک بات کرنے والی شخصیت کے حامل تھے۔ ان میں دو رنگی اور منافقت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ جس بات کو صحیح سمجھتے تھے اس کا اظہار کھل کرکر تے تھے۔ موجودہ زمانے کے نام نہاد سیاسی بازیگروں کی طرح ذومعنی الفاظ کا استعمال ان کی لغت اور زندگی میں نہیں تھے۔ ان کی نگاہ میں اسلام ، اسلامیات کی کتاب تک محدود نہیں تھا۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کے اپنے تحریری خطاب میں فرماتے ہیں:

  • He said that "he could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat".  The Qa‘id-e-Azam said "Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago.
  • No doubt, there are many people who do not quite appreciate when we talk of Islam. Islam is not only a set of rituals, traditions and spiritual doctrines. Islam is also a code for every Muslim which regulates his life and his conduct in even politics and economics and the like. It is based on the highest principles of honour, integrity, fairplay and justice for all". (K.A.K. Yusufi,  Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam, Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, volume4, P 2669-2670)
  • انھوں نے فرمایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا۔
  • جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیںتو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسم و رواج،روایات اور روحانی نظریات کامجموعہ ہے،بلکہ اسلام ہرمسلمان کےلیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔(قائداعظم: تقاریرو بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، بزم اقبال، جلد چہارم، ص ۴۰۲-۴۰۳)

قائد اعظم کا یہ خطاب ان تمام پیدا کردہ شکوک و شبہات کو ختم کر دیتا ہے، جو ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کی انوکھی تعبیر کر کے پیدا کیے جاتے رہے ہیں ۔نہ صرف یہ تحریر بلکہ بہت سے وہ تحریری بیانات و خطبات جو کسی بھی محقق سے مخفی نہیں ہیں اور شاید جان بوجھ کر انھیں بیان نہیں کیا جاتا رہا۔ وہ اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ ’دینی مواد‘کو ہر شعبۂ زندگی میں شامل کر نے اور پاکستان کو ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست بنانے پر یکسو تھے ۔یہ قیام پاکستان کے بعد کی بات نہیں، اس سے بہت پہلے بھی ان کا موقف یہی تھا ۔

پھر فروری ۱۹۴۸ء میں قائداعظم محمدعلی جناح نے ریڈیو سے امریکی شہریوں کو خطاب کرتے ہوئے دستور پاکستان کے بننے سے پہلے ہی اس کا اعلان کر دیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا۔ قائدامریکی باشندوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ:

This Dominion which represents the fulfillment, in a certain measure, of the cherished goal of 100 million Muslim of this sub-continent, came into existence on August 14, 1947. Pakistan is the premier Islamic State and the fifth largest in the world. (K.A.K. Yusufi, Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam, Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, volume 4,       P 2692)

ہرمملکت جو کسی حد تک اس برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دُنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ (قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلد چہارم، ص ۴۲۰)

اسی بات کو فرنٹئیر مسلم لیگ کی کانفرنس منعقدہ ، ۲۰ نومبر ۱۹۴۵ء، بمقام پشاور میں یوں بیان کرتے ہیں :

We have to fight a double-edged battle, one against the Hindu Congress and the other against the British Imperialists, both of whom are  capitalist.The Muslims demand Pakistan,where they could live according to their own code of life, their own cultural growth, traditions and Islamic Laws. (K.A.K. Yusufi, The Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah some Rare Speeches ـ&  & Statements ,  Lahore, Punjab University, 1988, P 93)

ہمیں دوہری جنگ لڑنا ہوگی۔ ایک ہندو کانگرس کے خلاف اور دوسری برطانوی سامراجیوں کے خلاف، دونوں ہی سرمایہ دار ہیں۔ مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں اپنے نظامِ زندگی، اپنی ثقافت و روایات اور اسلامی قانون کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

 ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قائد اعظم کس بنیاد پر ملک و قوم اور نظام تعلیم کی تعمیر چاہتے تھے ۔وہ بار بار کہتے ہیں کہ ہماری معیشت، ہماری معاشرت، ہماری سیاست، ہمارا قانون، سب اسلام کے اصولوں کے مطابق ہوں گے ۔گویا نظام تعلیم اس سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ ’روشن خیالی‘ کے نام پر سیکولر زم نہیں لایا جا سکتا ۔بیرونی ممالک کی زر خرید این جی اوز کے کہنے پر’ مذہبی مواد‘ الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ایسا کرنا قائد اعظم اور پاکستان کے تصور سے غداری اور امانت و دیانت کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہو گا۔بانی ٔ پاکستان کے ان دوٹوک پالیسی فرمودات کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔ کسی بھی ملک کے لیے اس کے بانیان کا تصور اور اس کا دستور ہمیشہ ایک تقدس کا مقام رکھتا ہے۔

دستوری ہدایات

مناسب ہو گااگر ایک لمحے کے لیے یہ دیکھ لیا جائے کہ نظام تعلیم پر کیا دستوری ہدایات (یہاں ہم نصاب پر بات نہیں کر رہے، کیوں کہ وہ لا محالہ نظام تعلیم کے تابع ہوگا) پائی جاتی ہیں ۔ دستور پاکستان کی دفعہ۳۱(۱) (۲) ’اسلامی طریقۂ حیات‘ کے زیرعنوان کہتی ہے:

31. (1) Steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam and to provide facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life according to the Holy Quran and Sunnah.

(2)The State shall endeavour, as respects the Muslims of Pakistan,

(a) to make the teaching of the Holy Quran and Islamiat compulsory, to encourage and facilitate the learning of Arabic language and to secure correct and exact printing and publishing of the Holy Quran;

(b) to promote unity and the observance of the Islamic moral standards; and, (c) to secure the proper organisation of Zakat, Ushr, Auqaf and Mosques (The Constitution of Islamic Republic of Pakistan, Islamabad, 1989, P 22-23).

۳۱- (۱) پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے، اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔

(۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:

(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآنِ پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور

(ج) زکوٰۃ، عشر،اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

اسلامی نظامِ تعلیم کا نفاذ  __ دستوری تقاضا

اس وسیع تر تناظر میں بنیادی مسئلہ وہ ہے، جس سے سیکولر لابی اور خود پرست صاحبان اقتدار پہلو بچاتے رہے ہیں، یعنی ملک میں مکمل اسلامی نظامِ تعلیم کا نفاذ اور اس میں نصاب اور نصابی کتب کی اسلامی اخلاق کی تدوین جدید کے ساتھ معلمین اور معلمات کی اس نظام تعلیم کے فلسفے سے آگاہی اور اس کے نفاذ کی حکمت عملی پر یکسوئی، تاکہ نہ صرف نصابی کتب بلکہ ان کے متن کو سمجھانے والے اپنے ذاتی کردار کی مثال سے ایک عملی نمونہ پیش کر سکیں ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور تمام پاکستانیوں کے حقوق کا پاسبان ہے اور وضاحت سے ہدایت کرتا ہے کہ ان کی اولاد اور آنے والی نسلوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے معیشت ، عمرانیات، سیاسیات ، انجینئرنگ ، طب، غرض تمام علوم کی تعلیم دی جائے اور دستور کی ہدایات پر ۹۶ فی صد مسلم آبادی کے لیے اسلامیات ایک لازمی مضمون کے طور پر برقرار رہے ۔ گویا ہر شعبۂ علم میں ’مذہبی مواد‘ شامل کیا جانا ایک دستوری ضرورت ہے اور قائد اعظم کے واضح ارشادات پر عمل کرنا ہے۔ہمارے خیال میں کوئی بھی پاکستانی چاہے وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو ، بانی ٔ پاکستان کے سوچے سمجھے مقصدِ پاکستان سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ جس مقصد کے حصول کے لیے لاکھوں جانیں اور عزّتیں قربان کی گئیں۔ اس کا حصول موجودہ اور آنے والی نسلوں کاا یمانی تقاضا ہے ۔ اس میں کسی غیر مسلم شہری کی نہ دل آزاری ہے ، نہ حقوق کی پامالی۔ ویسے بھی ان مذاہب کے ماننے والوں کے نمایندوں کے باہمی اتفاق سے وزارت تعلیم نے ان کا مذہبی نصاب ان سے بنوا کر شائع کر دیا ہے۔ اب یہ مسئلہ صرف ۹۶ فی صد مسلمانوں کا ہے۔

جہاں تک تعلق’ دینی مواد‘ کا ہے تو مسلمان کی تمام زندگی ہی دینی مواد کے تابع اور زیراثر ہے ۔ ایک مسلمان کی زندگی کا ہر لمحہ، ایک ایک عمل اپنے ربّ کی بندگی میں بسر ہوتا ہے ۔ اس کی زندگی دوالگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں ہوتی کہ ایک خانے میں دھوکا اور رشوت ہو اور ایک خانے میں تسبیح اور نماز اور دیگر عبادات ۔ اس لیے ہمارا ادب ہو ، شاعری ہو ، عمرانی علوم ہوں، معاشیات ہو یا انجینئرنگ یا طب، ہر علم میں اسلامی اقدار و روایات کا مکمل نفوذ ہی ہمیں صحیح معنوں میں پاکستانی بنا سکتا ہے ۔ ہم وہ قوم ہیں ، جس کا وجود نہ کسی خطۂ زمین سے ہے نہ کسی نسل ، ذات یا مسلک سے بلکہ صرف اور صرف دین اسلام ہماری شخصیت اور پہچان ہے ۔

یہ تاریخ کا ایک منفرد باب ہے جس میں ایک قوم اسلام کی بنا پر پہلے وجود میں آئی اور اس قوم نے دو مراحل (۱۹۳۰ءسے ۱۹۴۰ء تک ایک مرحلہ اور ۱۹۴۰ءسے ۱۹۴۷ء تک دوسرے مرحلے میں ) یعنی عملاً سات سال میں ایک خطۂ زمین حاصل کرلیا۔پہلے ایک قوم بنی، ملک بعد میں وجود میں آیا۔یہ تاریخ کا ایک ایسا واقعہ اور حقیقت ہے ، جس کی صرف ایک مثال اس سے قبل پائی جاتی ہے اور وہ ہے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کا قیام ۔ وہاں بھی امت مسلمہ پہلے وجود میں آئی اور مملکت اس کے بعد بطور عطیۂ الٰہی ملی ۔اس لحاظ سے پاکستان یا قائد اعظم کے اپنے الفاظ میں ’اسلام کے قلعہ‘ کا تحفظ ، فروغ ، اور اس میں اسلامی نظام تعلیم کا قیام ، اس ملک کے ۹۶ فی صد شہریوں کا پیدایشی، جمہوری اور دینی حق ہے، جسے کوئی طاقت غصب نہیں کر سکتی۔