دہلی میں ہمارا محلہ ’قرول باغ‘ کہلاتا تھا۔ اس محلے کے اردگرد تو ہندو اکثریت میں تھے، لیکن ہمارے گھر کے آس پاس کی ساری آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ہندو اس طرف کم ہی آتے تھے،بلکہ ان کے بچے بھی زیادہ تر اپنی آبادیوں میں ہی کھیلتے تھے۔ ہماری طرف سودا سلف، سبزی، گوشت اور دودھ وغیرہ کی دکانیں بھی مسلمانوں کی تھیں۔ اسی طرح مکینک، الیکٹریشن، دھوبی، درزی، حجام اور گھریلو ملازم، یہ سب لوگ بھی مسلمان ہوتےتھے۔
والد ِ محترم ، ایم بی ہائی اسکول، دہلی میں انگریزی کے ٹیچر تھے اور والدہ محترمہ گھر میں محلے کے بچوں کو قرآن شریف پڑھاتی تھیں۔ علاوہ ازیں وہ محلے کی بچیوں کو گھریلو کام کاج اور سلائی کڑھائی بھی سکھاتی تھیں۔ والدہ کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی بہت اہم تھا اور وہ یہ کہ سیاسی طور پر بھی وہ بہت متحرک تھیں اور تحریک پاکستان کے زمانے میں مسلم لیگ کی سرگرم کارکن تھیں۔ محلہ قرول باغ اور اس کے قریب کی مسلمان آبادیوں میں خواتین تک تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کا پیغام پہنچانے کے لیے وہ دن رات محنت کرتی تھیں۔ دہلی میں دُور و نزدیک، جہاں بھی مسلم لیگ کا کوئی چھوٹا بڑا جلسہ ہو رہا ہوتا، والدہ خود بھی اس میں شرکت کرتی تھیں ،اور اپنے ساتھ محلے کی دوسری عورتوں کو بھی لے کے جاتی تھیں۔ دہلی میں خواتین کے یہ جلسے عام طور پر مسلم لیگ کے ایک مقامی رہنما کے گھر میں ہوا کرتے تھے۔ ان جلسوں میں، مَیں بھی والدہ کی انگلی تھامے ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔
یہ واقعہ میرے حافظے میں آج تک محفوظ ہے کہ کراچی میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کا وہ مشہور جلسہ، جس میں وہ کسی وجہ سے خطاب نہیں کرسکے تھے، اس میں بھی مَیں اور میری والدہ پہنچے تھے۔ پھر اسی طرح کراچی میں قائداعظم کے جنازے میں بھی وہ مجھے ساتھ لے کر شریک ہوئیں۔ اس جنازے کے رقت انگیز مناظر مَیں زندگی بھر فراموش نہیں کرسکوں گا۔ یوں نظر آتا تھا، سارا شہر ہی جنازے میں اُمڈ آیا ہے،لوگ غم سے نڈھال تھے اور دھاڑیں مارمار کر رو رہے تھے۔ والدہ بھی بہت غمگین تھیں۔ مطلب یہ کہ تحریک پاکستان اور مسلم لیگ سے والدہ کی وابستگی صرف جذباتی نہیں تھی بلکہ عملی بھی تھی۔
والد صاحب کو مسلم لیگ سے نظریاتی اور جذباتی وابستگی تو تھی، لیکن وہ عملی طور پر زیادہ متحرک نہیں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسکول ٹیچر تھے، اور اس بناپر عملی سیاست ان کے لیے قانوناً ممنوعہ قرار پاچکی تھی۔ تحریک پاکستان کے ساتھ والد صاحب کی جذباتی وابستگی میں جتنی شدت تھی، اس کا اندازہ ایک واقعے سے ہوسکتا ہے۔ محلے میں ہمارے ایک جاننے والے، جنھیں ’کانگریسی‘ سمجھا جاتا تھا، ان کا نام شاید آفتاب تھا، اور باریش بھی تھے۔ تحریکِ پاکستان عروج پر تھی۔ سیاسی اور معاشرتی سطح پر مسلم لیگ اور کانگریس کی تقسیم اتنی گہری ہوچکی تھی کہ اگر مسلمانوں میں سے کسی کے بارے میں یہ شک بھی پیدا ہوجاتا کہ وہ کانگریس کی طرف مائل ہے، یا اس سے کچھ ہمدردی رکھتا ہے، تو اس مسلمان کو بہت بُرا سمجھا جاتا تھا۔
میں جن صاحب کا ذکر کر رہا تھا، محلے میں ان کی سوداسلف کی دُکان تھی۔ والد صاحب کو جب ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ’کانگریسی‘ ہوچکے ہیں، تو ایک روز انھوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ ’’دیکھو میاں، آیندہ سے ان صاحب کی دکان سے سوداسلف خریدنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ میں بہت حیران ہوا اور پوچھا: ’’ابا جان، آپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں؟ اب تک تو ہم انھی کی دکان سےسوداسلف لاتے ہیں۔ آج آپ منع فرما رہے ہیں‘‘۔ اس پر والد صاحب نے باقاعدہ ڈانٹ کے کہا: ’’میاں، تم جانتے نہیں ہو کہ وہ ’کانگریسی‘ ہوچکے ہیں اور کانگریس، مسلمانوں کی دشمن ہے‘‘۔ چنانچہ، اس کے بعد ہم نے اس دکان کا بائیکاٹ کردیا۔ مجھے یہ بات بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب ان کی دکان کے سامنے سے گزر کے ایک دوسری دکان سے سودا سلف خریدتے، تو وہ ہمیں دیکھ کے گھورتے رہتے تھے۔
پھر یہ منظر بھی ذہن میں تازہ ہے کہ والد صاحب باقاعدگی سے محلّے کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تھے۔ نماز کے بعد لوگ مسجدسے باہر آتے، تو کچھ دیر کے لیے وہیں کھڑے ہوجاتے، اور پھر فوراً ہی مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست پر بحث چھڑ جاتی۔ یہ وہ دور تھا، جب برعظیم کی سیاست میں بہت گرما گرمی اور تلخی پیدا ہوچکی تھی۔ محلوں، چوراہوں اور سڑکوں پر، اور مساجد کےباہر، ہرجگہ سیاست ہی موضوع ہوتی تھی۔ نماز کے بعد مسجد کےباہر ہونے والی ان بحثوں میں والد صاحب بھرپور حصہ لیتے تھے اور تحریک ِ پاکستان اور مسلم لیگ کے موقف کا بھرپور دفاع کرتے تھے۔
والد صاحب کی بزرگی، شرافت اور بطور استاد ان کے مقام و مرتبے کے باعث سبھی لوگ ان کا بے حد احترام کرتے تھے، اور ان کی بات بڑی توجہ سنتے تھے۔ والد صاحب ان لوگوں کو تحریک ِ پاکستان کی اہمیت سے آگاہ کرتے ، اور ان کو سمجھاتے کہ قائداعظم اور مسلم لیگ، قیامِ پاکستان کی جو جدوجہد کر رہے ہیں، یہ جدوجہد برعظیم میں مسلمانوں کی سیاسی بقا اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے۔ اس طرح وہ اپنی سطح پر تحریک ِ پاکستان اور مسلم لیگ کی دعوت پُرجوش انداز میں عام لوگوں تک پہنچاتے رہتے تھے۔
ہمارے گھر میں بھی سب کی زبانوں پر تحریک ِ پاکستان اورمسلم لیگ کا نام ہوتا تھا۔ دہلی میں، ان دنوں ویسے بھی قائداعظم اور لیاقت علی خاں کا بہت چرچا تھا۔ ہمارے محلے میں، جس طرف ہم رہتے تھے، سب گھر مسلمانوں کے تھے، اور سبھی مسلم لیگ کے حامی تھے۔ میری عمر تب کوئی ۶،۷ سال ہوگی۔ لیکن، اتنی چھوٹی عمر میں بھی، میں تحریک ِ پاکستان کی اہمیت سے پوری طرح واقف ہوچکا تھا، اور جب ہم بہن بھائی، والدین سے پاکستان کے بارے میں سنتے تو ریاست پاکستان کے نام سے ہمارے ذہنوں میں ایک بہت ہی مثالی ریاست کا، مدینہ کی ریاست کا نقشہ اُبھرتا تھا اور وہ نقشہ ہمیں بہت مسحور کر دیتا تھا۔
میری معلومات کی حد تک، قیامِ پاکستان کے بعد جو لوگ ہندستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے، ان کی اکثریت مسلک کے لحاظ سے ’بریلوی‘ تھی۔ نذر نیاز اور میلاد کی محفلوں کے بغیر ان کے یہاں دین اسلام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ تقریباً ہرگھرمیں، ہر ماہ گیارھویں کی نیاز ضرور ہوتی تھی۔ اس کو میں اس طرح بھی کہہ سکتا ہوں کہ اس زمانے میں ہم نے اپنے گردوپیش جو مذہب پسند لوگ دیکھے، وہ زیادہ تر بریلوی مسلک سے وابستہ تھے۔ اسی طرح جاننے والے جانتے ہیں کہ دلّی، یوپی اور بہار [بھارت] سے جو لوگ یہاں ہجرت کرکےآئے، ان کے یہاں ہر ماہ ایک مجلس ضرور ہوتی تھی، اور محرم کی نویں اوردسویں کی مجلسیں اس کے علاوہ تھیں۔ ہمارے گھر میں بھی فاتحہ، نذرنیاز اور ختم شریف اور میلادشریف کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ تاہم ، سیاسی طور پر یہ سب لوگ مسلم لیگی تھے۔
قیامِ پاکستان کے وقت عمر اگرچہ بہت کم تھی لیکن کچھ چیزیں تو یاد ہیں۔ ۱۴، ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو جذبات کا عالم تو کچھ نہ پوچھیے، جس رات پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا، محلے کے سب مسلمان گھروں میں، دیواروں اور چھتوں پر موم بتیاں روشن کی گئیں۔ ہر طرف چراغاں کا منظر تھا۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے اور اس لیے، اُس لمحے ہمیں اتنے بڑے اور تاریخ سا ز واقعے کا پورا شعور اور ادراک بھی نہیں تھا، لیکن یہ بات مَیں نہیں بھول سکتا کہ اس رات ہم سب بچے جلوس کی شکل میں محلے کی گلیوں میں شورمچاتے اور نعرے لگاتے پھررہے تھے: ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘، ’’قائداعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد‘‘۔ تب، شور مچاتے اور یہ نعرے لگاتے ہوئے اپنےمعصوم بچپن میں یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ آج کے اس تاریخی اعلان کے نتیجے میں کل ہم کس قیامت سے گزرنے والے ہیں۔ شاید اس حقیقت کا شعور نہ ہونے کے باعث ہی ہم بے خوف ہوکر خوشی میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔
یادداشت کے کسی گوشے میں، اس رات کا یہ دھندلا سا نقش بھی اب تک باقی ہے کہ بزرگوں اور بڑوں کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ خوف کی ایک لہر بھی نظر آرہی تھی۔ تحریک ِ پاکستان کی منزلِ مقصود تک پہنچنے کی، ان کو مسرت تو بہت تھی،لیکن دُور و نزدیک سے قتل و غارت اور خوں ریزی کی جو اطلاعات مسلسل آرہی تھیں، وہ بھی ان کو سراسیمہ کررہی تھیں۔ تاہم، ہم بچے ان سب خطرات سے بے نیاز، اپنی دھن میں مست نعرے لگاتے، اور شور مچاتے پھر رہے تھے۔ ہمیں کوئی پروا نہیں تھی، کل کیا ہوگا۔
قرول باغ، دہلی کے ان تین بدقسمت محلوں [قرول باغ، سبزی منڈی، سیدی پورہ] میں سے ایک تھا، جن میں مسلمانوں کو بےدریغ قتل کیا گیا، اور جو لوگ وہاں سے بروقت نکل آئے، وہی زندہ بچ سکے۔ چنانچہ ۱۴؍اگست کی رات کو جیسے ہی قیامِ پاکستان کا باقاعدہ اعلان ہوا، تو قرول باغ مسلمانوں سے خالی ہونا شروع ہوگیا۔ ہمارے دُور و نزیک کے عزیز و اقارب اور جاننے والوں نے بھی پاکستان کی طرف ہجرت کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ ہماری بھی تیاریاں مکمل تھیں، لیکن والد صاحب گھر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہورہے تھے ، اور بضد تھے کہ ’’میں گھر میں یہیں پر رہوں گا، اور جو بھی مجھے یہاں سے نکالنے آئے گا، اس کا مقابلہ کروں گا‘‘۔ جب ہم نے زیادہ اصرار کیا، تو انھوں نے گھر کے صحن میں مصلیٰ بچھالیا، کہا: ’’آپ چلے جائیں‘‘ اور نوافل پڑھنے لگے۔
یہ صورتِ حال دیکھ کر، اس وقت توان کے بغیر ہی گھر سے نکلنا پڑا۔ تاہم، ایک دو روز بعد کچھ عزیز واقارب دوبارہ ان کے پاس گئے، منت سماجت کی اور ان کو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے، جب حالات کچھ بہتر ہوجائیں، تو سب مل کے یہاں واپس آئیں گے، لیکن ابھی یہاں پر رہنا خطرے سے خالی نہیں، آپ ضد نہ کریں، آئیں اور ہمارے ساتھ چلیں، سب لوگ کیمپ میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور آپ کے بارے میں سخت پریشان ہیں‘‘۔اس طرح کی کچھ اور باتیں کر کے انھوں نے والد صاحب کو قائل کرلیا، اور وہ ہمارے پاس کیمپ میں پہنچ گئے۔ان کو آتے دیکھ کر ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا۔
اپنے گھر سے ہم سب لوگ بغیر سامان کے تانگوں پرسوار ہوئے، اور ’کوچہ پنڈت‘ میں آگئے، اور یہاں تقریباً تین چار ہفتے تک رہے۔ دہلی سے ٹرینوں پر بیٹھ کے جو لوگ لاہور آرہے تھے، ان سب کو دہلی میں پہلے ’پرانا قلعہ‘ میں پہنچنا پڑتا تھا۔ چنانچہ، ہم بھی کوچہ پنڈت سے پرانا قلعہ لائے گئے۔ جس روز ہم پرانے قلعہ پہنچے، تو معلوم ہوا کہ اس روز جو ٹرین مسلمانوں کو لے کر لاہور کے لیے روانہ ہوئی تھی، اس کے مسافر جن میں عورتیں، بچے اور مرد سب شامل تھے، سارے کے سارے راستے میں ہندوئوں اور سکھوں نے مل کر قتل کر دیے ہیں۔
یہ اطلاع ملی ، تو پرانے قلعے میں نئے پرانے سب پہنچنے والوں میں سخت خوف اور دہشت پھیل گئی۔ انڈین حکومت نے اس کے بعد دہلی اور لاہور کے درمیان مسافر ٹرینوں کی آمدورفت فوری طور پر تاحکم ثانی بند کر دی۔ پرانا قلعہ میں خانماں برباد لوگ اتنی بڑی تعداد میں آرہے تھے کہ جگہ کم پڑگئی۔ ایک ایک کمرے میں درجن دو درجن لوگ اکٹھے رہ رہے تھے، اور سب کے سب بے سروسامان تھے۔ ان کے جسموں پر صرف وہی دوکپڑے تھے، جنھیں پہن کر وہ گھر سےچلے تھے۔ پرانا قلعہ میں صفائی ستھرائی کا بندوبست نہایت ناقص، بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہرطرف گندگی پھیلی ہوئی تھی، اور اس گندگی کے باعث پرانا قلعہ ایک طرح سے بیماریوں کا گھر بن چکا تھا۔ یہاں انھی ابتر حالات میں ہمیں تقریباً ایک ماہ تک رہنا پڑا۔
حالات کچھ بہتر ہوئے، تودہلی اور لاہور کے درمیان مسافرٹرینوں کی آمدورفت بحال ہوتے ہی جوسب سے پہلی ٹرین دہلی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئی، اس میں ہم سات لوگوں پر مشتمل گھرانا بھی سوار تھا۔ اس ٹرین کے اندر کے حالات بھی ناقابلِ بیان ہیں۔ ایک ہی ڈبے میں گنجایش سے بہت زیادہ لوگ بُری طرح پھنس کے بیٹھے تھے۔ سانس مشکل سے لیا جارہا تھا۔ اُوپر سے ہرطرف پھیلتی ہوئی یہ افواہیں پریشان کررہی تھیں کہ ’’راستے میں سکھوں کے مسلح جتھے موجود ہیں، وہ کرپانیں لہرا رہے ہیں، اپنے گھروں سے یہاں تک تو ہم لوگ سلامت پہنچ گئے ہیں، دیکھیے یہاں سے بحفاظت پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟‘‘ہم سب مسافر جانتے تھے کہ اس سے پہلے والی ٹرین کٹ چکی ہے، اس لیے سب لوگ خاموش، سہمے ہوئے بیٹھے تھے، اور صمیم قلب سے دُعائیں مانگ رہے تھے۔
راستے میں امرتسر کے قریب جب ٹرین کی رفتار کچھ کم ہونے لگی اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے ٹرین رُک رہی ہے تو سب لوگ دم بخود تھے۔ سانسیں سینے میں اٹک گئیں، اور سب زور زور سے کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ رفتار تیز ہونے لگی، اور امرتسر پیچھے رہ گیا۔ یہ دیکھتے ہی سب نے سکون کا سانس لیا۔ اس کے بعد ٹرین نے جو رفتار پکڑی، تو راستے میں کہیں نہیں رُکی، اور مسلسل اپنی منزلِ مقصود لاہور، پاکستان کی طرف دوڑتی رہی۔ خدا خدا کر کے ٹرین لاہور پہنچی اور ہم سب کی جان میں جان آئی۔ یوں لگا کہ جیسے ہم بہت دنوں ایک آہنی شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے، اور اذیت ناک قید میں تھے، اور آج جب لاہور پہنچے ہیں، تو ہمیں رہائی نصیب ہوئی ہے۔ سب کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور سب بحفاظت سرزمین پاک پہنچنے پر خدا کے حضور سجدہ ریز تھے۔
لاہور میں ایک سرکاری افسر، جو دہلی میں والد صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے، جب انھیں اس طرح بے سروسامانی کے عالم میں ہمارے یہاں پہنچنے کی اطلاع ملی، تو انھوں نے اپنی کوٹھی میں ایک کمرہ ہمیں عنایت کر دیا۔ چند ہفتے تک ہم اس کمرے میں رہے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ دہلی سے ہجرت کرکے آنے والے زیادہ تر لوگ کراچی کا رُخ کررہے ہیں، اور ہمارے متعدد عزیز و اقارب بھی وہاں پہنچ چکے ہیں، اس لیے چند ہفتے بعد ہم بھی لاہور سے کراچی پہنچ گئے۔
اپنے گھر سے محرومی کا شدید احساس تو اسی روز ہوگیا، جس روز ہم اپنا گھر چھوڑ کے کوچہ پنڈت آئے، مگر وہ احساسِ محرومی، جو انسان کی روح تک کو چھلنی کردیتا ہے، اس کا احساس ہمیں پرانا قلعہ میں جاکے ہوا، جہاں گندگی کے ڈھیروں کے درمیان رہنا پڑا، اور بدبو کے باعث ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں پاتے تھے، اور اردگرد پھیلنے والی متعدی بیماریوں کے باعث ہروقت سر پر موت منڈلاتی نظر آتی تھی۔ جب ہم لوگ پرانا قلعہ میں پہنچے تو ہمیں گھر چھوڑے ہوئے تقریباً ایک ماہ ہوچکا تھا۔ روزمرہ ضرورت کی اشیا کی عدم فراہمی کا پریشان کن تجربہ ہورہا تھا۔ پھر، پراناقلعہ میں بھی کوچہ پنڈت کی طرح ہرطرف لوگ ہی لوگ تھے، پریشان حال اور بےسروسامان۔ اس کے بعدجب لاہور سےکراچی پہنچے تو یہاں بھی ابتدا میں بہت مشکلات کا سامنا رہا۔
اس احساسِ محرومی کے باعث ہم سب کے گھروں میں ہروقت اُداسی چھائی رہتی تھی۔ سبھی کی زبان پر اپنے اپنے ماضی کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اس دوران جب کہیں کوئی بچھڑے ہوئے خاندان اچانک سےدوبارہ مل جاتے، تو عجیب رقت آمیز مناظردیکھنے میں آتے۔ ان گھروں کی عورتیں ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کر روتی تھیں۔ کراچی میں ایک مدت تک روزانہ ہی کوئی نہ کوئی اطلاع آجاتی تھی کہ فلاں جگہ پر فلاں جاننےوالے، یا دُور نزدیک کے رشتے دار پہنچ گئے ہیں۔ جب اس طرح کی کوئی اطلاع ملتی، تو میری والدہ تڑپ کر اُٹھتیں، برقع پہنتیں اور ان لوگوں سے ملنے چل پڑتیں۔یہ سب چیزیں مجھے اس لیے بھی یاد ہیں کہ میں بھی والدہ کی انگلی تھامے ان کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ اس وقت میں بچہ ہی تو تھا، مگر ان اَشک بار مناظر کی تاب نہیں لاپاتا تھا ، اور رو پڑتا تھا۔
والد صاحب یوں تو طبعاً خاموش طبع آدمی تھے ہی، لیکن ہجرت کے بعد، کراچی پہنچنے کے بعد تو انھیں چپ ہی لگ گئی۔ بہت ہی کم بولتے تھے، جیسے ابھی تک صدمے کی کیفیت میں ہوں۔ ماضی پیچھے رہ گیا تھا۔ یہاں سب کچھ بہت مختلف اور بالکل نیا تھا۔ ایک ایسے مرحلے پر، جب بچے جوان ہورہے ہوں، آدمی کے لیے خود کو نئے حالات میں ڈھالنا آسان نہیں ہوتا۔ پھر، ہم سب بچے ابھی پڑھ رہے تھے۔ ہمارے تعلیمی اخراجات کے باعث بھی وہ پریشان رہتے تھے۔
ہمارے خاندان میں یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ کوئی بچہ صرف میٹرک پاس ہو۔ والد صاحب چونکہ دہلی کے ایم بی ہائی اسکول میں ہیڈماسٹر رہ چکے تھے، اس لیے یہاں کراچی میں آئے تو سندھ مدرسہ اسکول میں ان کو ملازمت مل گئی۔ ہم ان دنوں ناظم آباد رہتے تھے۔ ناظم آباد سے سندھ مدرسہ اسکول کا فاصلہ ۱۲،۱۳کلومیٹر تو تھا۔ والدصاحب بچت کے خاطر روزانہ سائیکل پر اسکول جاتے تھے۔ بہت زیادہ محنت و مشقت اور فکرمندی کےباعث ان کی صحت گرنے لگی تھی، اور آخری عمر میں انھیں کینسر بھی ہوگیا تھا۔ اسی مرض میں ۱۹۶۰ء میں ان کاانتقال ہوگیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر۶۳ برس تھی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
تقسیم ہند کے بعد جن لوگوں نے اپنا گھربارچھوڑ کے، یہاں پاکستان میں نئے سرے سے زندگی شروع کی، انھیں اپنے آپ کو نئی زندگی میں ڈھالنے کے لیے بہت عرصہ لگ گیا۔ جب تک ان کے گھروں میں بچے بڑے نہیں ہوگئے، ان کی پڑھائی مکمل نہیں ہوگئی، اوران کی شادیاں نہیں ہوگئیں،ان گھروں میں ہجرت کے صدمے کم نہیں ہوئے۔ پاکستان کے قیام کے تقریباً ۱۰سال بعد تک، ہمارے گھروں میں، ہماری شادی غمی کی مجلسوں میں، جب بھی لوگ اکٹھے بیٹھتے تو چند منٹوں بعد ہی ہجرت اور اس کے تجربات، اور اس کے صدمات کا تذکرہ شروع ہوجاتا تھا۔
ایک خالہ زاد بھائی میرے ہم عمر تھے۔ ہم دونوں میں زیادہ سے زیادہ ایک سال کا فرق ہوگا۔ اسی طرح میرے پھوپھی زاد بھائی بھی قریب قریب میرے ہم عمر تھے۔ ہم سب کے گھر چھن چکے تھے۔ اب جو بات میں کہنے والا ہوں، اس کا اطلاق صرف مجھ پر نہیں، بلکہ ان سب بچوں پر ہوتا ہے، جن کے ماں باپ کو تقسیم ہند کے باعث اپنے گھرچھوڑ کے ہجرت کرنا پڑی۔ ہم بچوں نے جن صدمات کو سہا تھا، ان کے باعث ہمارے مزاجوں میں شرارت نام کا کوئی جذبہ نہیں رہا تھا۔بچوں کی شرارتیں یہی ہوتی ہیں کہ آپس میں چھیڑ چھاڑ کرلیں، یا کبھی کسی ٹیچر کو تنگ کرلیں، مگر ہم میں اس طرح کی بھی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔
میری عمر ۹، ۱۰ سال ہوگی، جب نماز پڑھنا شروع کردی تھی۔ میں ہرنماز کے بعد یہ دُعا ضرور مانگتا تھا، ’’یااللہ، ہمارے گھر کے حالات ٹھیک کردے‘‘۔ میں اس وقت یہ تو نہیں جانتا تھا کہ والد صاحب کی تنخواہ کتنی ہے، اور اس تنخواہ سے ہماری ضرورت پوری ہوتی ہے یا نہیں؟ لیکن اتنا ضرور محسوس کرتا تھا کہ ہمارے گھر کے معاشی حالات اچھے نہیں ہیں۔ ۹، ۱۰سال کا بچہ، چھوٹا ضرور ہوتا ہے، لیکن اپنے گھریلو حالات سے یکسر لاعلم نہیں ہوتا۔ پھر جو لوگ ہجرت کرکے یہاں پہنچے، ان کے گھروں میں مدت تک سوگواری کی سی کیفیت رہی۔ ہروقت ماضی کا ماتم ہوتا رہتا، ہم کس طرح بے سروسامان اپنے گھروں سے نکلے؟ کس طرح قافلوں میں شامل ہوئے؟ کس طرح ٹرین میں بیٹھے؟ کس طرح پاکستان پہنچے، اور کس طرح یہاں کراچی میں زندگی شروع کی؟ سب ایک دوسرے کو اپنی داستان غم سناتے تھے اورروتے تھے۔
یقین کیجیے، اس افسردہ فضا میں کم و بیش سبھی بچوں کی طبیعت میں ہروقت قربانی، ایثار اور صبروقناعت کے جذبات موجزن رہتے۔ اگرکسی کو پہننے کے لیے کہیں سے کوئی اچھا کپڑا مل جاتا، تو اس کی خواہش ہوتی، یہ اچھا کپڑا کوئی دوسرا پہن لے، کسی کو بہتر کھانا میسر آجاتا تو وہ کوشش کرتا کہ یہ بہتر کھانا کسی دوسرے کو کھلا دے۔ مناسب کمبل یا لحاف نہ ہونے کےباعث، ہم بہن بھائی رات بھر سردی میں ٹھٹھرتے رہتے تھے، لیکن گھر والوں کو نہیں بتاتے تھے کہ ہمیں سردی لگ رہی ہے۔
میں اسکول میں پڑھتا تھا، اور مجھے روزانہ تین آنے جیب خرچ ملتا تھا۔ اسکول پہنچنے کےلیے راستے میں دو بسیں بدلنا پڑتی تھیں۔ ایک بس کا کرایہ ایک آنہ ہوتا تھا۔ اس حساب سے مجھے اسکول آنے جانے کے لیے روزانہ چار آ نے درکار ہوتے تھے، جب کہ مجھے صرف تین آنے ملتے تھے۔ لیکن، آپ حیران ہوں گے کہ ان تین آنوں میں سے بھی، میں روزانہ ایک آنہ بچالیتا تھا۔ میں آدھا آنہ خرچ کرکے بس میں سفر کرتا، اور باقی آدھا آنہ راستہ پیدل چل کر بچا لیتا تھا۔ اس طرح تین آنوں میں سے دوآنے خرچ کرتا تھا، اور روزانہ ایک آنہ بچا لیتا تھا۔
وہ ایک آنہ میں آدھی چھٹی کے وقت کھانے پینے میں بھی خرچ نہیں کرتا تھا، بلکہ وہ آنہ آنہ جمع کرتا رہتا اور جب چند آنے جمع ہوجاتے تو اسکول میں اپنے کسی ضرورت مند ہم جماعت دوست جن میں کسی کے پاس سلیٹ نہیں ہوتی تھی، کسی کے پاس کاپی نہیں ہوتی تھی، ا ن سے کہتا، یہ میری طرف سے قرضِ حسنہ ہے، آپ کاپی یا سلیٹ لے لو۔ یہ قرض، میں واپسی کی نیت سے نہیں دیتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے والد اور والدہ کو میری اس ’بچت اسکیم‘ اور’قرضِ حسنہ اسکیم‘ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، اور ان کی طرف سے مجھے روزانہ تین آنے ملتے رہتے۔
کراچی ہمارے لیے نیا شہر تو ضرور تھا، لیکن یہاں آکر کچھ زیادہ اجنبیت کا احساس اس لیے نہیں ہوا کہ دہلی اور صوبہ جات متحدہ (یوپی) سے ہجرت کرکے آنے والوں کی اکثریت کراچی ہی میں رہتی تھی۔ یہاں میں یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ اہلِ سندھ نےاپنے مہاجر بھائیوں کا بہت خوش دلی اور کھلی بانہوں سے استقبال کیا۔ یہ جو بعد میں، ایم کیو ایم کی سیاست کے باعث مہاجروں اور سندھیوں میں ’تُو تُو ، مَیں مَیں‘ والی فضا پیدا ہوئی، یہ اس زمانے میں نہیں تھی۔ تب کراچی آبادی کے اعتبار سے اتنا گنجان شہر بھی نہیں تھا بلکہ ایک پُرسکون سا شہر تھا، جس کی زیادہ تر مہاجر آبادی چھوٹے چھوٹے سرکاری کوارٹروں میں رہتی تھی۔ کراچی کی اب اصل اہمیت یہ تھی کہ یہ شہر اب پاکستان کا دارالحکومت بھی تھا۔
یہاں ہم سات افراد پر مشتمل خاندان کی پہلی پناہ گاہ جیکب لائن میں دو کمروں کا ایک چھوٹا کوارٹر تھا۔ کراچی میں ہم نے کرایے کے ۱۵ مکانات تبدیل کیے۔ بالکل ابتدائی دور کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ جیکب لائن میں ایک دو ماہ بعد جب ہم لارنس روڈ پر آئے تو ہمارے قریب ہی یہاں سے نقل مکانی کرکے جانے والے ہندو خاندانوں کی کچھ کوٹھیاں ابھی تک خالی پڑی تھیں۔ ہرطرف افراتفری مچی تھی۔ لوگ لُٹے پٹے یہاں پہنچے تھے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ہندو خاندان اپنی بھری پری کوٹھیاں چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، تو ایک روز کچھ مشتعل مہاجر نوجوانوں نے ان خالی کوٹھیوں پر ہلہ بول دیا،اوران میں موجود مال و اسباب کو ’مالِ غنیمت‘ سمجھ کے لوٹ لیا۔
اس لُوٹ مار کی اطلاع معلوم نہیں کس طرح، قائداعظم تک بھی پہنچ گئی۔ فوراً ہی ان کا تحریری حکم آگیا کہ ’’ جولوگ ہندوئوں کےمکانات سے ان کا مال و اسباب اُٹھا لے گئے ہیں، آج رات کےاندھیرے میں وہ سب مال و اسباب اسی طرح واپس انھی کوٹھیوں میں رکھ آئیں‘‘۔ قائداعظم کے اس فرمان میں سب کے لیے یہ سرزنش بھی تھی کہ ’’ٹھیک ہے، آپ لوگ بڑی مصیبتیں جھیل کے یہاں پہنچے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب آپ کو یہ حق بھی حاصل ہوگیا ہے کہ آپ ناجائز طور پر دوسروں کے مال و اسباب پر قبضہ کرلیں‘‘۔
آپ حیران ہوں گے کہ قائداعظمؒ کا حکم پہنچنے کی دیر تھی، راتوں رات لوگوں نے ہندوئوں کی کوٹھیوں سے لوٹا ہوامال و اسباب، سارے کا سارا واپس ان کوٹھیوں میں رکھ دیا۔ کسی نے ایک سوئی تک اپنے پاس نہیں رکھی۔یہ اس وقت مہاجروں میں اسپرٹ تھی۔
ابتدا ہی میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ’انقلاب‘ معاشرتی زندگی کے چلن، اس کے رُخ اور حالات کے بدل دینے کا، موڑ دینے اور پلٹ دینے کا، بلکہ اُلٹ پلٹ کردینے کا نام ہے۔
یہ کام جس بھرپور صلاحیت ، اہلیت اور قوتِ کار کا متقاضی ہے، اس کا متحمل کوئی فرد تنہا نہیں ہوسکتا۔ ویسے بھی کسی فردِ واحد کا لایا ہوا ’انقلاب‘ ، اس کے مزاج کی چھاپ لے کر اُبھرتا ہے، اس کی سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس کے نقطۂ نظر اور فکروخیال کا اسیر ہوتا ہے۔ ایسا انقلاب فرد سے شروع ہوکر، فرد ہی پر ختم ہوجاتا ہے۔
ہم جس ’انقلاب‘، اسلامی انقلاب کے داعی ہیں، وہ نظریے کا اور عقیدے کا انقلاب ہے۔ اللہ سے لَو لگانے اور اسی کا ہو رہنے کا انقلاب ہے۔ یہ انقلا ب فکرونظر کا، سوچ و عمل کا اور رُوح و بدن کا انقلاب ہے۔ یہ انقلاب ایک منظم جماعت کا منتظر اور ایک مضبوط گرو ہ کا مرہونِ منت ہے۔
ایسی جماعت ___ جو ایمان کے بل پر اُٹھے، اصولوں پر تشکیل پائے، باہمی مشاورت سے چلے، رضائے الٰہی جس کا نصب العین قرار پائے، جدوجہد جس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہو،قال اللہ اور قال رسول اللہ جس کی میزان ٹھیرے۔
ایسی جماعت ___ تربیت و تزکیہ جس کی گھٹی میں پڑا ہو، جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت جس کی منزل کا پتہ دیتے ہوں، جو معرکوں کی خُوگر اور غلبۂ حق جس کا مقدر ہو، جس کے روز و شب، ’تیزترک گامزن، منزلِ ما دُور نیست‘ کا پیغام دیتے، اور
؎
شب گریزاں ہوگی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
کا مژدئہ جانفزا سناتے ہوں۔
لہٰذا، حقیقی ’انقلابی جماعت‘، صرف ’اسلامی جماعت‘ ہی ہوسکتی ہے۔
جو انسان کی فطری ضرورتوں اور طبعی تقاضوں کا لحاظ رکھ سکے۔ انسانی صلاحیتوں کی نشوونما کا اہتمام کرسکے، وصولی حق اور ادایگیِ فرض میں توازن قائم کرسکے۔ایسی جماعت، جو معاشرے میں قائم اور رائج باطل اور اللہ کے باغی نظام سے اعلانِ برأت کرے، لگے بندھے طور طریقوں، رسوم و رواج کو تاراج کرے، جمے جمائے تمدن کے فرسودہ اور جاہلیت پر مبنی ڈھانچے کو نابود کرے۔
جو بندگانِ خدا کو بندگی ٔ ربّ کی طرف بلائے، ربِّ حقیقی کا دست ِ نگر اور_اس کی حمدوثنا کا پیکر بنائے، جو اُخروی زندگی کو حیاتِ جاوداں ___اور حقیقی زندگی بنائے، اور یہ درس سمجھائے۔ جو اللہ کی کتاب سے انھیں جوڑتے ہوئے، سارے طلسم توڑدے اور سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے، جو اعلانِ بغاوت کرے۔سارے (جھوٹے) خدائوں سے رشتۂ ناتا توڑنے کی بات کرے، خدائے واحد کو ربّ مان لینے، اسی کاہورہنے___اور ___اپنا سب کچھ اسی کی راہ میں لٹادینے کی جُوت جگائے:
اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۰ۭ (التوبہ ۹:۱۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں‘‘___ کا سبق دُہرائے۔
جو بیچ چوراہے کھڑے ہوکر، ڈنکے کی چوٹ، بلاخوفِ تردید، ہرملامت کو انگیز کرتے ہوئے پکار دے کہ کُل کائنات میرے ربّ کی ہے اور میں اس کا خلیفہ ہوں۔ یہ تمدّن بھی میرا ہے، تاریخ کی تعبیر بھی میری ہے، اور سیاست کی بساط بھی میری ہے، حکومت اور عدل و انصاف کی حقیقی مظہر عدالت بھی میری ہے۔
یہ اللہ کے رنگ میں سب کو رنگ دینے کی جماعت، صبغۃ اللہ جسے کہیں۔
معاشرہ گیا گزرا ہوجاتا ہے، زنگ آلود ، داغ دار ہوجاتا ہے، گراوٹ و انحطاط کا شکار ہوجاتا ہے، ذلّت و نکبت سے دوچار ہوجاتا ہے۔ پستیوں کی گہرائیوں میں گرتا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے___ ’انقلابی جماعت‘ اخلاق اور اس کی قدروں کو دیوالیہ پن کی دلدل سے نکال کر، تکریم،تعظیم اور قبولیت کا آہنگ دیتی ہے۔ فکرونظر اور سوچ کی بلندیوں کو اوج ثریا پر پہنچاتی ہے۔ عجزوانکسار، عدل و احسان اور مروّت و ایثار کو عام کرتی ہے۔ فرد کو انفرادیت اور خودپسندی سے دست بردار ہونے، اجتماعیت کو اپنانے اور ’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘ کے عنوانات سجانے کا درس دیتی ہے او ر ’موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں‘ کا ذہنی سانچا فراہم کرتی ہے۔
معاشرے کو روگ لگ جاتے ہیں، جو گھن کی طرح اسے کھاتے ہیں۔ روگی معاشرے، بیمار، تہی دامن اور اندر سے کھوکھلے اور ویران معاشرے میں ایک ’انقلابی جماعت‘اس معاشرے کے لیے ’کاروانِ دعوت و محبت‘ ہے۔ ایسی جماعت ’قافلۂ امن و اخوت‘ بھی ہے کہ جب لوگ نفرتوں میں ڈوبے ہوں، یہ ان کے لیے محبت کے گیت گاتی ہے۔ جب لوگ اندھیروں میں بھٹک رہے ہوں، یہ انھیں روشنیوں اور اُجالوں کی طرف لاتی ہے۔ جب لوگ غلاظت کو اپنا مسکن بنا چکے ہوں، یہ انھیں پاکیزگی اور صفائی کا شعور دلاتی ہے۔ جب لوگ باہم دست و گریباں ہورہے ہوں، نسلی، قبائلی، لسانی تنگنائیوں میں سمٹ اور سکڑ رہے ہوں، اور اِذْکُنْتُمْ اَعْدَاءً ’’تم ایک دوسرے کے دشمن تھے‘‘، وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِنَ النَّارِ… ’’اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے‘‘ کی تفسیر بن رہے ہوں، تو اس مایوس کن صورتِ حال میں ایک ’انقلابی جماعت‘ انھیں شیروشکر کرتی، باہم بغل گیر کراتی، اور بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ آفاقی بناتی، ہمتیں بڑھاتی، ولولے جگاتی اور ایمان کی خوشبو مہکاتی ہے اور ’ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند‘ ان میں شامل کراتی ہے، اور:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
کا مژدۂ جانفزابناتی ہے۔
جب لوگ سب کچھ بھول چکے ہوں، اور نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۰ۭ (الحشر ۵۹:۱۹) کا عنوان ہوچکے ہوں۔ ’انقلابی جماعت‘ کا فرض ہے کہ انھیں اللہ سے ڈرائے، اپنے ربّ کی طرف لوٹائے اور اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ [اللہ سے ڈرو، اور ہرشخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو___ الحشر ۵۹:۱۸] کا درس یاد دلائے۔انھیں ان کی شناخت بتائے، خود اپنے آپ ہی سے انھیں متعارف کرائے، ان کی حقیقت سے انھیں روشناس کرائے، گم کردہ راہ کو راہ دکھائے، مشعلِ راہ بن جائے اور اپنے پیر پر آپ کلہاڑی مارنے والوں کو خودکشی کے اس عمل سے نجات دلائے۔
ہم اس انقلاب کی اور ایسی انقلابی جماعت کی بات کرتے ہیں۔ اسی کو اپنی تمنائوں کا مرکز اور آرزوئوں کا محور سمجھتے ہیں۔ اسی کو رگ و پے میں سرایت کرتا دیکھتے ہیں اور ہرسانس میں اسی انقلاب کی آواز سنتے ہیں اور دل کی ہردھڑکن سے اس کی گواہی دیتے ہیں، جس کے ’’رہبرو رہنما، مصطفےٰ مصطفےٰ ‘‘صلی اللہ علیہ وسلم قرار پاتے ہیں:
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّـرًا وَّنَذِيْرًا۴۵ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا۴۶ (الاحزاب ۳۳:۴۵) اے نبیؐ! ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بناکر، بشارت دینے والااور ڈرانے والا بنا کر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بناکر۔
اور جس کے کارکن، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ (الفتح۴۸:۲۹) [’’محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘]کے مصداق اپنے اصولوں پر کاربند، عقیدہ پر مر مٹنے والے، ایمان پر آنچ نہ آنے دینے والے، نظریہ کے سانچے میں ڈھلے، اللہ کے باغیوں کے لیے لوہے کے چنے اور رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد بنے، اور باہم بڑے مربوط ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے رحیم و شفیق ہیں۔ ایسے بلندہمت لوگ ہی اُولوالعزم انسان ہیں۔ یہ استقامت و استقلال کے کوہِ گراں ہیں۔ یہ وہ طوفان ہیں، جو غرض مندی، خود غرضی اور مفاد پرستی سے بھری پڑی اس دنیا میں بے غرضی، بے لوثی اور ایثار پیشی کی سچی تصویر بنتے ہیں۔ جو یقین محکم، عمل پیہم کا درس دیتے، محبت کو فاتح عالم قرار دیتے ہیں، اور یوں جہادِ زندگانی میں مردوں کی ان شمشیروں کا سوزو ساز جگاتے ہیں۔
یوں تو مسلم معاشرے میں جیسی بھی اس کی تاریخ ہے، جہاں تک ہماری نگاہ جاتی ہے، ماضی کے جھروکوں میں ہمیں ایسے افراد ہمیشہ ملتے رہے ہیں۔ نیک اور بلندآہنگ شخصیتیں ہرزمانے میں موجود رہی ہیں۔ شاذونادر نہیں اور خال خال نہیں، بلکہ خوب خوب رہی ہیں۔ درس و تدریس کا عمل بھی جاری رہا اور وعظ و نصیحت بھی کیا جاتا رہا۔ پندونصائح میں کوئی کمی کبھی نہ ہوئی۔ دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا رہا، لیکن پچھلی صدیوں کے ملّی انحطاط اور صدیوں کی غلامی نے، تقسیم در تقسیم کے مراحل اور ملّت کی خوابیدگی نے ایسی ’انقلابی جماعت‘ سے معاشرے کو خالی اور ملّت کو دُور رکھا۔ اسے اس نعمت سے بہرہ ور نہ ہونے دیا۔ اس بیج کو برگ و بار نہ لانے دیا اور یوں شجر سایہ دار سے پوری ملّت کو محروم رکھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ، مغربی سامراجیوں سے آزادی کے بعد بھی غلامی کا شکنجہ مسلط ہے۔ ایمان کے باوجود اللہ کے علاوہ بہت سے خدا لوگوں نے بنا رکھے ہیں۔ بہت سے بُت اپنے سینوں کے اندر سجا رکھے ہیں۔ لہٰذا، انقلابی جماعت کا احیاء اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ اس دورکی نشاتِ ثانیہ ہے، اور یہ ایمان کا تقاضا بھی ہے، یہ دین کا مطالبہ بھی ہے، اور مسلم معاشرہ اس کا طلب گار بھی ہے۔
چنانچہ جب جماعت انقلابی اور انقلاب آفریں ہوگی تو اس سے منسلک افراد بھی انقلاب صفت ہوں گے اور رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ کا مصداق نظر آئیں گے۔ ایسے لوگ بکھرے بکھرے منتشر منتشر سے نہیں بلکہ باہم مربوط ہوتے ہیں۔ یہ نفرتوں میں ڈوبے ہوئے نہیں، اخوت و محبت کے سفیر ہوتے ہیں۔ یہ خشک اور پھیکے سے نہیں، مؤدت اور مواسات کے اسیر ہوتے ہیں۔ یہ خود اپنی ذات اور اس کے مفادات میں گم نہیں، بلکہ ایثار اور قربانی کے حریص ہوتے ہیں۔ اخلاقِ کریمانہ ان کی شان، عفو و درگزر ان کی پہچان، گفتار میں، کردار میں اللہ کی بُرہان ہوتے ہیں۔
اس قافلے کا ہرکارکن انقلابی، ریشم کی طرح نرم، شہد کی طرح شیریں، ملیے تو گداز اور سنیے تو کانوں میں رَس گھلنے کا احساس سرایت کر جاتا ہے۔ یہ کٹے ہوئے نہیں، آپس میں جڑے ہوئے باہم مربوط ہوتے ہیں۔ یہ دُور دُور فاصلوں میں بٹے ہوئے نہیں بلکہ اپنائیت کے رشتے میں بندھے ہوئے، تسبیح کے دانوں کی طرح باہم پروئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان اگر فاصلے حائل ہوں، تب بھی ان کے دل ساتھ ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ حالات کی سنگینی پر ایک ساتھ کڑھتے ہیں۔ یہ ہوائوں کا رُخ بدلنے کے لیے ایک ساتھ اُٹھتے ہیں۔ قدم بقدم جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ اپنے ربّ سے کیے ہوئے عہدوپیمان کو سچ کر دکھاتے ہیں اور اسی کا ہورہنے کا درس دیتے ہوئے دارفانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور اپنے ربّ سے ملاقات کے منتظر، یہ شیدائی اپنے ربّ سے جاملتے ہیں۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ کی شان، جسم واحد کی طرح یک جان، ایک دوسرے پہ مہربان، مونس اور بڑے غم خوار، دُکھ درد میں ایک دوسرے کے حصہ دار۔
جس طرح انسانی جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو دوسرا اس سے لاتعلقی اور بے اعتنائی نہیں برتتا اور نظرانداز نہیں کرتا۔ پیر میں کانٹا بھی چبھے تو آنکھ آنسو بہاتی ہے، حالانکہ آنکھ اور پیر کا فاصلہ تو دیکھیے، خود کانٹا جسم کے حصے کے لیے باعث ِ تکلیف ہوتا ہے۔ لیکن پورا جسم انکاری ہے کہ میں چلوں گا نہیں، اپنی جگہ سے ہلوں گا نہیں، منزل کی جانب بڑھوں گا نہیں، جب تک کانٹا نہ نکلے، یہاں سے اُٹھوں گا نہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر ظلم کرے نہ اس کو ظالم کے رحم و کرم پر چھوڑے [صحیح البخاری، کتاب المظالم والغصب، حدیث: ۲۳۳۰]۔ یوں بھی سچی بات تو یہ ہے کہ کون انسان کسی کو کچھ دے سکتا ہے؟ دینے والی ذات تو ایک ہی ہے۔ کون کسی کا دُکھ بانٹ سکتا ہے، کون کسی کا غم ہلکا کرسکتا ہے، لیکن بہرحال ہمدردی کے دو میٹھے بول بولنے سے بوجھ اُتر جاتا ہے۔ انسان ہلکا ہوجاتا ہے۔ غم کو اپنے آپ سے بہت دُور پاتا ہے اور دو میٹھے بول ہی ہوتے ہیں، جو خوشیوں کو دوبالا کردیتے ہیں۔ اکیلے اور تنہا کوئی بھی مسرت کا لطف نہیں اُٹھا پاتا ہے۔ اس لطف کو دوبالا کرنے کے لیے بھی انسان کو انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ساتھ دے، خوشیاں بڑھائے اس میں اضافہ کرے۔
رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ کا یہ کیا ہی ایمان افروز واقعہ کہ جب جاں کنی کی حالت تھی۔ جنگ کے زخمی پڑے تھے تو ان میں سے ایک نے پانی کے لیے پکارا۔ مشکیزہ لیے جب پکار کو سننے والا اس جانب بڑھا اور پہنچا اور پانی اس کے آگے کیا تو قریب سے ایک اور نے آواز دی، وہ آواز بھی پانی کے لیے تھی۔ یہ زخمی بھی سسک رہا تھا۔ اس نے کہا: نہیں پہلے اس کو پانی پلائو، تو جب اس کے پاس پہنچے اور ابھی مشکیزہ آگے کیا ہی تھا کہ تیسرے کی آواز آئی کہ پانی۔ اور اس نے کہا کہ اس کو جاکر پلائو۔ جب وہاں پر پہنچے تو وہ دم توڑ چکا تھا۔ جب واپس دوسرے کے پاس آئے تو وہ اپنے ربّ کے پاس جاچکا تھا، اور جب واپس پہلے کے پاس پہنچے تو وہ بھی رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ کا درس دے چکا تھا اور رخصت ہوتے ہوئے یہ پیغام دے گیا تھا کہ انقلابی جماعت کی یہی پہچان ہے کہ سب دوسرے کے لیے جیتے ہیں، محض اپنے لیے نہیں جیتے۔ کسی جماعت کو انقلابی اور جان دار بنانے کے لیے یہی کردار درکار ہے۔
بھلا سوچیے کہ اگر یہاں آپس کی بدگمانیاں ہوں، کھچائو اور تنائو ہو، بس ایک ظاہری سا رکھ رکھائو ہو، تو اس عالم میں کیا وہاں کوئی انقلابی جماعت ہوسکتی ہے، انقلابی کارکن وجود رکھ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، وہاں انقلابی کارکن کیسے مل سکتا ہے؟ انقلاب کا سماں ممکن ہی نہیں ہے۔ وہاں ربّ کی رضا اور جنّت کا حصول ناممکنات میں سے ہے۔
رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ میں بڑی وسعت ہے۔ عام مسلمانوں سے وابستگی کی بات ہے۔ ان کو جاننے، سمجھنے اور اپنانے کی بات ہے کہ ان سے قربت اختیار کی جائے۔ جب ہم نمازیں لوگوں کے ساتھ پڑھتے ہیں، چاہے وہ دیوبندی ہوں، چاہے بریلوی ہوں، یا چاہے اہل حدیث ہوں۔ جب حج ہم ان کے ساتھ کرتے ہیں خواہ عربی ہو یا عجمی ہو یا ترک و تاتاری ہو۔ ان سب سے مل کر یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔ اس لیے جزوی اختلاف کے باوجود مجموعی اتفاق ہی انقلاب اور انقلابی عمل کی راہیں روشن کرسکتا ہے۔اگر انقلاب آئے گا تو ایسے ہی کشادہ دل کارکنوں کے ذریعے آئے گا۔
معاشرے میں بہت سی جماعتیں ہیں، بہت سے گروہ ہیں۔ خالص دینی بھی ہیں، ملی جلی بھی ہیں۔ وہ بھی ہیں جو برسرِزمین کم اور زیرزمین زیادہ ہیں۔ سبھی بساط بھر کام کر رہی ہیں۔ عوام تک پہنچ رہی ہیں، ان کے معاملات میں دل چسپی لے رہی ہیں، اصلاح کے لیے کوشاں اور سرگرداں ہیں۔ بالکل انھی عوام تک رسائی، دعوت کا فہم اور ان تک پذیرائی، تبدیلی اور انقلاب کی تڑپ، بس یہی ہمیں مطلوب ہے۔ لہٰذا، ان سے وابستہ رہنا، ان کو اپناسمجھنا، احسان کا رویہ اپنانا، ہرایک کی عزّت اور توقیر کرنا، ان کے کام آنا، ان کی خوشی میں، ان کے غم میں شریک رہنا، ان کے غموں کو بانٹنا اور ہلکا کرنا، یہ سب دعوت کے کام ہیں۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ ان سب کا عنوان اور شاہِ کلید ہے۔
جب ایسا ہوگا تب ہی پذیرائی ہوگی۔ ایک ساتھ چلنے کی بات ہوگی۔ اسلامی انقلاب کی لے بڑھ سکے گی۔ پھر ہرملک، ہربستی کے اندر یہی صدا لگائی جائے گی۔
نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہمارے اُوپر ہتھیار اُٹھائے۔ وہ ہم میں سے نہیں ہے[مسنداحمد، من مسند بنی ہاشم، حدیث: ۸۱۷۵]۔ آپؐ نے فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو، بُغض اور عداوت نہ رکھو، ایک دوسرے کی جڑ نہ کاٹو، آپس میں منہ پھیر کر نہ بیٹھو۔ اے خدا کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو[صحیح مسلم، کتاب الـبّر والصلہٗ والآداب، حدیث: ۴۷۴۸]۔ رہبر و رہنما صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہم کو یہ پہنچا کہ آپس میں سگے بھائیوں جیسی محبت اور پاسداری برتو۔ جہالت کی بُری عادتیں ترک کرو۔ آپؐ نے فرمایا: ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال، عزّت و آبرو، سب حرام ہیں [صحیح مسلم، کتاب الـبّر والصلہٗ والآداب، حدیث:۴۷۵۶]۔ آپؐ نے ایک دوسرے کا خون نہ بہانے، رشتہ داروں کا حق ادا کرنے، پڑوسیوں کا خیال رکھنے اور ماتحتوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔یہ ساری بنیادیں ہیں رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ کی۔
رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ کا ایک موقع وہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینے پہنچتےہیں۔ مکہ سے لُٹے پٹے قافلے مہاجرین مکہ، مدینہ پہنچتے ہیں، تو اس حال میں پہنچتے ہیں کہ عزیز و رشتہ دار پیچھے رہ گئے ہیں۔ اپنی معیشت کو، اقتصادی ڈھانچے اورنظامِ زیست کو مکہ میں چھوڑ کر چلے آئے ہیں۔ اس حال میں وہاں پر پہنچے ہیں، کھانے اور پینے کو کچھ میسر نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات فرمائی، ان کو بھائی بھائی بنادیا۔ ایک دوسرے کا غم خوار بنادیا۔ وہ جو معاشی اور سماجی مسئلہ درپیش تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے معاملات کو طے کرادیا۔
اس سے بھی ذرا آگے چلیے۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ کی عظیم الشان مثال تو وہ ہے ، جب صلح حدیبیہ کے موقعے پر یہ افواہ سنی گئی کہ حضرت عثمانؓ قتل کردیئے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو اپنے ساتھیوں کو موت پر بیعت کرنے کے لیے پکارا اور لوگوں سے کہا کہ، جمع ہوجائیں۔ لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے اور اپنے ایک ساتھی کے خون کا قصاص لینے کے لیے چودہ سو مہاجرین اور انصار لبیک کہتے ہوئے بیعت کے لیے جوق در جوق آگے بڑھے۔ اس عظیم الشان مثال پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ (الفتح۴۸:۱۸)اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔
اللہ جس سے خوش ہوجائے، اس کو پھر اور کیا چاہیے؟ ہم میں سے کون ہے، جو اللہ کی خوشی نہیں چاہتا اور اللہ کی رضا نہیں چاہتا۔ ہم تو اسی کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا،اللہ تبارک و تعالیٰ جس عمل کے بارے میں خود یہ اعلان کردے اور تاقیامت لوگ اس کی تلاوت کرتے رہیں، وہ ایسا عمل ہے کہ اس کو اپنایا جائے۔
ایک اسلامی انقلابی جماعت دعوت کے مرحلے سے گزرتی ہے۔ اپنی صفوں کو منظم کرتی ہے۔ تزکیہ اور تربیت کے مراحل طے کرتی ہے۔ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ اور تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ کی گھاٹیاں پار کرتی ہے۔ ٹوٹے ہوئوں کو جوڑتی ہے، شکستہ دلوں کو تسکین فراہم کرتی ہے۔ رُوٹھے ہوئوں کو مناتی ہے، گمراہ اور بدراہ ہوجانے والوں کو راہِ راست دکھاتی ہے۔ بندگی ٔ نفس کی راہ پر بگٹٹ دوڑ جانے والوں کو روکتی اور انھیں سمجھاتی ہے۔ ان میں اُلفت اور ملاطفت پیدا کرتی ہے۔ ان میں محبت اور یگانگت جگاتی ہے۔ خوئے دل نوازی اور اپنائیت کے دیپ جلاتی ہے اور پھر بے خطرآگے بڑھنے کا حوصلہ اور ایمان پرور عزم دیتی ہے ،اور ’’پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی‘ اس کا انھیں احساس دلاتی ہے۔ حاضر و موجود سے بیزار کرتی، زندگی کچھ اور بھی دشوار کرتی اور پکار دیتی ہے:
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
ایک بندہ مومن کے لیے رمضان المبارک ، اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا احسان اور عظیم تحفہ ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی نیک اور بھلا کام کرتا ہے تو اس کو ایسا ثواب ہوتا ہے، جیسے اورمہینوں میں فرض کا ثواب، اور جو کوئی اس مہینے میں ایک فرض بجا لائے تو اس کو ستّر فرضوں کا ثواب ملتا ہے۔
اس مہینے کی ابتدا میں رحمت ہے اور اس کے درمیانی دنوں میں مغفرت وبخشش ہے، اور اس کے آخری حصے میں دوزخ سے آزادی ہے۔ اس مہینے میں کثرت سے کلمۂ شہادت و استغفار پڑھنا، اللہ تعالیٰ سے جنت کی دُعا کرنا اور دوزخ سے پناہ مانگنا ایک بندئہ مومن کا وظیفۂ حیات ہے۔
اللہ ربّ العزت کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں دین کا صحیح فہم نصیب کیا، اور ایک دین دار نظم سے منسلک ہو کر اجتماعی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا۔ اس گئے گزرے دور میں ہرطرف پھیلی ہوئی تاریکی اور جہالت کو دیکھیے۔ دین سے دُوری اور گریز کی اَن گنت راہوں کو دیکھیے۔ پھر اپنی خوش بختی کا اندازہ کیجیے کہ اس مالک و خالق نے اپنے دین کی سربلندی کے لیے ہمیں منتخب کیا ہے۔ کیسی خوش نصیبی ہمارے حصے میں آئی ہے کہ اس نے اپنا محبوب بندہ بننے، عبادالرحمٰن میں اپنا نام لکھوانے، اور اپنی خوش نودی کے نصب العین کے تحت جدوجہد کرنے والوں میں ہمیں شامل کیا ہے۔
لیکن یہی خوش بختی ایک گراں بار ذمہ داری اور نازک فریضہ بھی ہے… اس سے پہلو تہی کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے کم نہیں۔ اس کام میں تھوڑی سی سستی اور تساہل بھی سخت پکڑ اور کڑی باز پرس سے ہمکنار کرنے والی ہے۔ اس فانی دنیا کے مقابلے میں ہمیشہ قائم و باقی رہنے والی زندگی کے لیے قیمتی اثاثہ اور متاع بے بہا جمع کرنے کا یہ بڑا نادر موقع ہے۔اپنے ربّ سے تعلق مضبوط کرنے اور اس کی قربت حاصل کرنے کا یہ بہترین زمانہ ہے۔ ایمان کا بڑھنا، اس میں روزافزوں اضافہ اور ترقی، انسان کی فلاح، اس کی کامرانی اور اس کی کامیابی کے لیے اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں سرخروئی اور مغفرت کا یہ پیشگی پروانہ ہے۔
ہم پر اللہ ربّ العزت کے اَن گنت احسانات اور نوازشیں تقاضا کرتی ہیں کہ ہم ہرلمحہ اس کا شکر ادا کریں۔ شکر کی بہترین شکل اللہ کے سامنے جواب دہی کا زندہ احساس ، رجوع الی اللہ کی اُمنگ اور انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ ذکر کی مکمل ترین اورمؤثر ترین صورت نماز ہے۔ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دینے کے بعد اس کے تمام تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا مسلسل جہاد ہے۔
رمضان المبارک ایک بار پھر رحمت و کرم کی بارش کا وسیلہ کر بن رہا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ اس مبارک ماہ کی ویسی ہی قدر کریں جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ فریضہ اقامت دین کی جدوجہد کے ایک کارکن کی نظر سے دیکھیں تو یہ مہینہ اپنے آپ کو علم دین سے لیس کرنے، خوب اجر سمیٹنے، چھوٹی بڑی نیکیاں اپنا شعار بنا لینے، اپنے نفس پر قابو پانے، ایک مجاہد کا سا مضبوط ایمان پیدا کرنے، مردِمومن کی سی دُور رس نگاہ پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ مختصر یہ کہ اپنے مالک حقیقی سے قرب حاصل کرنے، اور اپنے آپ کو اس کے انعامات اور فضل کا مستحق قرار دینے کا مہینہ ہے۔ اگر ہم ان نعمتوں کی قدر کرنے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کا ارادہ کریں گے، تو وہ ہمیں اپنی عائد کردہ ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے قابل بنائے گا اور بحیثیت مجموعی دین کا اچھا کارکن اور اپنی راہ کا زیادہ مستعد سپاہی بننے کا حوصلہ عطا کرے گا اور ہرآن ہماری مدد بھی فرمائے گا۔
ضروری ہے کہ ان دنوں اپنے معمولات کو دوسرے دنوں کے مقابلے میں بالکل تبدیل کردیجیے۔ اپنا زیادہ وقت تلاوت قرآن کریم، نماز اور مطالعے میں گزاریے۔ اٹھتے بیٹھتے مسنون اذکار کا سہارا لیجیے۔ جب بات کیجیے تو نیکی کی بات کیجیے۔ اپنے رب ّسے دُعائیں کیجیے، گناہوں پر معافی مانگیے، اُسی مالک حقیقی کے سامنے گریہ و زاری کیجیے اورمغفرت طلب کیجیے۔
تحریک اسلامی کے دشوار اور کٹھن راستوں کو ہم اس وقت تک طے نہیں کر سکتے، جب تک کہ ہماری سیرت پختہ اور ایمان مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہو، اور ہم میں بے پناہ صبر اور خدا خوفی کا داعیہ موجود نہ ہو۔ زندگی کی آسایشوں اور دنیا کی چمک دمک میں اُلجھ کر ہم اکثر اپنے مقصدِ حیات ہی کو بھول جاتے ہیں۔ ہم اس وقت تک ثابت قدمی اورمستقل مزاجی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے، باطل کے مقابلے میں چٹان ثابت نہیںہو سکتے، جب تک کہ ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی، ربّ کی بندگی کے مفہوم سے پوری طرح آشنا نہ ہو اور خواہشات نفس کی غلامی سے نکلنے کی ہم نے مشق نہ بہم پہنچائی ہو۔
ہمیں نہ صرف خود حق کے راستے پر چلنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی چلنے کی دعوت دینا ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنی زندگیوں میں دین کو قائم کرنا ہے بلکہ اپنے ماحول ، معاشرے اورپورے ملک میں دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ اس کام کے لیے ہمیںخلوص کی وافر مقدار، مضبوط ایمان کی دولت اور صبرو حکمت کا سرمایہ درکار ہے۔ اسی طرح انتہائی پختہ سیرت و کردار، عزم و ارادے اور اللہ کی معیت، نصرت، توفیق اور اس کی رضا کی ضرورت ہے۔
رمضان المبارک ہمارے لیے ایک بیش بہا نعمت ہے۔ ایک گراںقدر نقد سرمایہ ہے، لیکن افسوس کہ کم ہی لوگ اس سے کماحقہٗ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سچ بات ہے کہ بیش تر کے حصے میںتو سواے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں آتا۔ماہ رمضان کے سلسلے میں چند باتیں خصوصی توجہ چاہتی ہیں:
اس ماہ کے دوران ہر روز دو نوافل خصوصی طور پر پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دُعا کیجیے کہ وہ آپ کے ارادے و عزم کو پختہ کرے۔ وہ اپنی حفاظت میں رکھے اور ان قیمتی لمحات کو غیر شعوری طور پر بے عملی، تساہل، اور فضول باتوں میں ضائع ہونے سے بچائے۔
پھر مہینہ بھر ایک پروگرام ترتیب دے کر اس پر عمل کیجیے، روزانہ اس پروگرام کی پابندی کو اپنے اوپر بالکل لازم کر لیجیے، اپنا احتساب کیجیے اور خود کو ہرگز کوئی رعایت نہ دیجیے۔ اگر کبھی آپ کے اپنے بنائے ہوئے پروگرام میںکوئی کمی رہ جائے تو اسے پورا کیے بغیرچین سے نہ بیٹھیے۔
اس بات کو اپنی نظروں سے کبھی اوجھل نہ ہونے دیں کہ ہماری ساری کوششوں کا مقصد اپنے ربّ کی رضا کا حصول ہے۔ یہ رضا اس خالق و رازق سے مضبوط تعلق پیدا کیے بغیرممکن نہیں ہے۔ تعلق باللہ ہی سعادت کا وہ سرچشمہ ہے، جہاں سے ہم زندگی کے ہر گوشے میں اللہ کے دین کی اقامت کا جذبہ اور لگن پاسکتے ہیں۔ جتنا ہم اس راہ میں شوق و ذوق سے پیش پیش ہوں گے، اتنا ہی اپنے نصب العین سے قریب تر ہوں گے اور جس قدر اس میدان میں پیچھے رہتے جائیں گے، اتنا ہی اپنے نصب العین سے دُور ہوتے جائیں گے۔ اس امر کی خصوصی کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارے خیالات اور اعمال اپنے ربّ کے لیے خالص ہوں۔
اس منصوبہ بندی اور پروگرام میں جن امور کا خیال رکھنا اور جن باتوں پر اپنا احتساب و جائزہ لیتے رہنا ہے، ان میں یہ امور بھی پیش نظر رہیں:
نماز: فرض نمازوں کو پورے اہتمام سے ادا کیجیے۔ اس کے لیے شعوری کوشش اورتیاری کی ضرورت ہے۔ نماز میں الفاظ کی ادایگی شعوری طور پر کیجیے۔ قرآن کے نئے حصے یاد کرکے تلاوت کیجیے۔ رکوع و سجود جن کیفیات و جذبات کا مظہر ہیں، ان کو دل و دماغ میں تازہ کریں۔ خاص اہتمام کیجیے کہ کوئی نماز بلا جماعت نہ ہو۔
اس ماہ نوافل کا بھی زیادہ سے زیادہ اہتمام کیجیے، کچھ تو اپنے اوپر خود ہی لازم کر لیجیے، اورپورے ماہ پابندی سے ان کو ادا کیجیے۔ نماز تہجد کے لیے جو آسانی اس ماہ میسر آتی ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھایئے۔ کوشش کیجیے کہ کسی رات نمازِ تہجد کا ناغہ نہ ہو… اس کا انحصار آپ کی اپنی شعوری کوشش دل کی حضوری پرہے۔
قرآن: یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ قرآن پاک سے خصوصی تعلق استوار کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ سہل پسندی کی نذر ہونے سے بچیے، بلکہ اہتمام کرکے پورا قرآن سماعت کیجیے۔ بہتر یہ ہے کہ پڑھے جانے والے رکوعات کو پہلے ہی ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیا جائے تاکہ رمضان میں پورے قرآن کی تلاوت ہوجائے۔ وقت کی پابندی ضرور کیجیے اور اس کے لیے ایک مناسب وقت اختتام سحری سے طلوع آفتاب تک کا ہے۔ یا جو وقت بھی آپ نے مقرر کیا ہے، اس کے علاوہ بھی زیادہ سے زیادہ وقت تلاوت قرآن میں صرف کیجیے… باقاعدہ مطالعے کے لیے قرآن کا کوئی حصہ منتخب کر لیجیے (مثلاً آخری منزل)، اور اسے زیادہ گہری نظر سے تفہیم القرآن یاکسی اور تفسیر کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ بعض حصوں، خصوصاً آخری پاروں اور منتخب رکوعات کے حفظ کا اہتمام بھی کیا جاناچاہیے۔
مطالعہ: اس میں اصل چیز باقاعدگی ہے۔ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکالیے۔ جوکتابیں آپ چاہیں منتخب کر سکتے ہیں۔ کچھ بطور مشورہ تجویز بھی کی جا رہی ہیں:
لٹریچر… سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے کو اوّلیت دیجیے اور اس کے ساتھ ، دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات مسلمان کے روزو شب، ہدایات، خاصانِ خدا کی نمازیں، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، اساس دین کی تعمیر، حقیقتِ نفاق، اسوہ صحابہ، ماثورات وغیرہ۔
انفاق:اس ماہ سعید میں انفاق فی سبیل اللہ اپنے اوپر لازم کر لیجیے، خواہ کتنی ہی چھوٹی مقدار اور قلیل رقم کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اس قربانی اور جذبے کو دیکھتا ہے، جو اس کا بندہ اس کی راہ میںکرتا ہے۔ اپنے ربّ سے دُعا بھی کیجیے کہ وہ اپنی راہ میں آپ کے انفاق کو قبول کرلے۔ مزید کی توفیق بھی طلب کیجیے اور دیے ہوئے مال پرستّر گنا اجر کایقین رکھیے۔
کفّارہ:گناہ ہر حال میں گناہ ہے۔ لیکن اس وقت، جب کہ انسان، اللہ کی خاطر روزے کی حالت میں ہو، یہ گناہ کہیں زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ گناہوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کیجیے اور جو گناہ پھر بھی ہو جائیں، ان پر ایک مقررہ رقم بطور کفّارہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیجیے۔ اس طرح خود کو گناہوں سے باز رکھنے میں آسانی ہوگی اور نیکی کی راہ پر آگے بڑھ سکیں گے۔
اعتکاف:ممکن ہو تو آخری عشرے میں اعتکاف کی سعادت حاصل کیجیے۔ دس دن کے اس مجاہدے کو آپ ذاتی احتساب، تزکیہ نفس اور آیندہ زندگی، رضاے الٰہی کی طلب میں گزارنے کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے اکسیر پائیں گے۔
دعوت الٰی اللہ :عوام کے دل بھی اس ماہ نسبتاً زیادہ اپنے ربّ کی طرف راغب ہوتے ہیں۔دعوتِ دین کے کام کے لیے یہ موسم بہار ہے۔ ہر طرف نیکی کا چرچا ہوتا ہے۔ ہماری تھوڑی سی کوشش بھی لوگوں کے دل دعوت الی اللہ کے لیے مسخر کر سکتی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ اپنے محلے اور قرب و جوار میں جو بااثر، رسوخ والے اور باصلاحیت افراد ہوں، ان کو ہدف بنا کر کام کیجیے۔ ان کے لیے اللہ سے خصوصی دعائیں کرنا، دعوت کے اس کام کو آسان کر دے گا۔ اپنی بہترین کوششیں اس امر پر مرکوز کیجیے کہ عوام صرف نماز، روزہ پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ ان عبادات کے تقاضوں کو سمجھ کر، ان کی ادایگی کی خاطر ہمارے ساتھ آملیں۔ اجتماعی سرگرمیوں میں اور دیگر اس طرح کے موقعوں پر، عبادات کی غرض پر روشنی ڈالیے تاکہ رمضان المبارک زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دین کا حقیقی اور وسیع مفہوم سمجھانے کا مبارک ذریعہ ثابت ہو۔
دُعائیں:دُعا مومن کا ہتھیار ہے۔ ذہن نشین کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ سے اپنی دُعاؤں کو شرف قبولیت دلانے کا اس سے اچھا موقع پھر نہیں مل سکتا۔ ہمیشہ اس اعتماد کے ساتھ اللہ سے مانگیں کہ خلوص دل سے طلب کی ہوئی کوئی اچھی چیز اللہ تعالیٰ رَدّ نہ فرمائے گا… افطارسے قبل دُعا کی قبولیت احادیث سے ثابت ہے۔ ان لمحات کو ہرگز ضائع نہ ہونے دیجیے۔
سونے، جاگنے، مسجد میں داخل ہونے، باہر نکلنے، افطار و سحری کرنے، شکریہ ادا کرنے اور نیا کپڑا پہننے وغیرہ کے موقعے پر جو دُعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، انھیں یاد کیجیے اوراہتمام سے بار گاہ ربّ العزت میں پیش کیجیے۔ اپنے لیے، اپنے والدین کے لیے، دعوتِ دین میں مصروف افراد کے لیے اور تحریک کے رفقا کے لیے بالعموم اور جن سے آپ قریبی تعلق محسوس کرتے ہیں ان کے لیے بالخصوص دُعائیں کیجیے۔ جن لوگوں سے آپ روابط قائم کیے ہوئے ہیں اور انھیں دعوتِ دین پہنچا رہے ہیں، ان کے دلوں کو دعوتِ حق کی طرف پھیردینے کے لیے اللہ سے نصرت مانگیے۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان، برما، شام، عراق، مصر، بنگلہ دیش، چیچنیا، سنکیانگ اور بھارت میں آزمایشوں سے دوچار مسلمانوں کی مشکلات کے خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیے۔
اسی طرح رمضان کا یہ مہینہ اسلامی اور قومی تاریخ کے اہم واقعات کی یاد دہانی لے کر آتا ہے۔ غزوۂ بدر اور فتح مکہ دو ایسے سنگ میل ہیں، جو تحریک احیاے اسلامی کے مستقبل کے لیے روشنی فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح سندھ میں دعوتِ دین کی آمد کی یاد میں یوم باب الاسلام اور رمضان میں قیامِ پاکستان وغیرہ تاریخ ساز واقعات ہیں۔ ان تاریخی مواقع کی یاد تشکر اور احتساب کے جذبے سے منانے کا اہتمام کیجیے۔ عوام میں ملّی و قومی جذبات کی آبیاری کے لیے تدابیر اختیار کیجیے۔
اللہ کریم سے دُعا ہے کہ وہ ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرمائے، ہماری سعی و جہد کو اپنے لیے خالص کر لیے اور ہم سے وہ کام لے ، جس سے وہ راضی ہو جائے۔ آمین!
ہمارے حلقوں میں یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ: ’’آج دنیا کو گلوبل ویلج (عالمی گائوں) کہا جاتا ہے۔ اس میں دوسری اسلامی تحریکوں سے ہمارے تعلق کو کس طرح استوار ہونا چاہیے؟‘‘
’جماعت اسلامی‘ کے نام سے چند دوسرے ملکوں میں بھی تحریک اسلامی کام کررہی ہے۔ ہرملک کے اپنے قواعد و ضوابط، قوانین اور آئین ہے۔ اُن ممالک میں انھی ضابطوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی تحریک وہاں پر جدوجہد کر رہی ہے اور حالات کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس لیے کسی بھی دوسرے ملک میں ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے جو کام ہو رہا ہے، قانونی اور دستوری طور پر ہمسایہ ملک سے اس کا کوئی باہمی ربط و تعلق نہیں ہے۔
تاہم، سب کے لیے قرآن و سنت، علوم اسلامیہ کا اثاثہ اور اسلامی تاریخ ایک مشترک وسیلہ ضرور ہے۔ اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ مختلف علاقوں میں، مختلف موضوعات پر یہ مختلف تحریکیں جو لٹریچر تیار کر رہی ہیں ، وہ لٹریچر بھی کسی نہ کسی درجے میں کم و بیش تمام تحریکوں کے لیے مفید ہے۔ البتہ، ان کے ہاں فکری اور علمی سوالات پر جو بحث کی جاتی ہے وہ ہرجگہ کے کارکنوں کی سوچ اور درپیش چیلنج کی مناسبت سے ہوتی ہے۔
اس مسئلے کی نزاکت اور اہمیت کو اگر یادداشت کی بنیاد پر تازہ کروں تو یہ کہوں گا کہ آج سے ۴۰ ،۴۵ سال پہلے ہم جب کبھی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتے تھے، تو وہاں سب لوگ یاددہانی کے طور پر ایک جملہ آپس میں دُہراتے تھے: Think globally but act locally۔ مراد یہ کہ آپ کی فکر آفاقی، عالم گیر اور عالمی ہونی چاہیے اور آپ کا عمل مقامی اور اپنے دائرے میں ہونا چاہیے۔
ساری دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ ان حالات کے پس منظر اور پیش منظر پر آپ کی نظر اور گرفت ہونی چاہیے۔ پھر اسی طرح معاملات کو عالمی تناظر میں دیکھا اور سمجھا جائے۔ ہماری دعوت اور ہمارا مقصد پوری انسانیت کے لیے ہے، پوری دنیا اور سارے جہان کے لیے ہے، اور اسی جدوجہد کے ایک کارکن کے طور پر آفاقی سوچ میں گزربسر کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ ظاہر ہے کہ عمل کی دنیا میں آپ جس دائرے میں بستے اور رہتے ہیں، جہاں اور جس دائرے کے اندر آ پ کی ذمہ داریاں ہیں، ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے ہی سے آپ اس آفاقی فکر کو تقویت پہنچا سکتے ہیں اور اس عالمی اور آفاقی سوچ کو مضبوط کرسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر مصر میں اگر کچھ ہو رہا ہے تو آپ اس کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں۔ تیونس اور الجیریا میں اگر کچھ ہو رہا ہے تو وہ اگرچہ آپ کے حلقے میں شامل نہیں ہے، لیکن آپ اسی طرح فکرمند ہوکر اس پر گفتگو کرتے ہیں، جیسے آپ کے اپنے علاقے کی تنظیم ہو۔ اور یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ یہ ایک ایمان، محبت اور درد کا اٹوٹ رشتہ ہے، جو ایک اُمت ہونے کا ثبوت ہے۔
آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ دنیا کے اندر طاغوت کی فرماں روائی کے حوالے سے اور اسلامی تحریکوں کے جذبوں اور اقدامات اور آزمایش و کش مکش کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے واقفیت پیدا کرنا، اس کے تجزیے کی صلاحیت پیدا کرنا، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب کہ ہمارا مطالعہ اَپ ڈیٹ ہوتا رہے۔ آپ کے رسائل خصوصاً ترجمان القرآن میں ایسی چیزیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مربی حضرات بھی گاہے ان موضوعات پر اظہارِخیال کرتے اور آپ کو سوچنے کے لیے متوجہ کرتے رہتے ہیں۔
اس کے ساتھ مطالعے کی وسعت میں یہ بات شامل ہے کہ جو کچھ چاروں طرف چھپ رہاہے، اس سے بھی آپ کو واقف اور آگاہ ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود پاکستان میں دینی جماعتوں، اور دینی شخصیتوں کے جتنے رسائل اور جرائد چھپتے ہیں، ان میں سے بیش تر آپ کی نظر سے گزرنے چاہییں تاکہ ان کی سوچ معلوم ہو، اور آپ جان سکیں کہ اس معاشرے میں مذہبی لوگ کیا سوچ رکھتے ہیں؟ حالات کا کیا تجزیہ کرتے ہیں؟ حالات کی دلدل سے نکلنے کے لیے کون سا پروگرام اپنے سامنے پاتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ آپ کے کام اور آپ کے رویوں پر بھی اس میں جگہ جگہ تبصرہ ہوتا ہے۔یہ مطالعہ اور دوسروں کی تنقید و تبصرہ، آپ کی آفاقی فکر اور عالم گیر سوچ کو تقویت پہنچانے اور درست سمت دینے کا ذریعہ بنے گا۔
اگرچہ آپ اپنے ملک اور اپنے تنظیمی وجود میں الگ پہچان رکھتے ہیں لیکن آپ کی سوچ عالمی اور آفاقی اس لیے ہونی چاہیے کہ مسلمان علاقے، رنگ، نسل کی پہچان رکھنے کے باوجود گلوبل، اور عالمی اسلامی تحریک کے کارکن ہیں۔ ہم پاکستان میں بستے ہیں، بہت سی حدود و قیود اور قانونی پابندیوں کو تسلیم کرتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس لیے ہم پاکستان میں کام کرنے والی اسلامی تحریک کے کارکن ہیں۔ لیکن فکری اور ذہنی طور پر اور علمی اور عملی طور پر ہم عالمی اسلامی تحریک کے کارکن ہیں۔
مسلمان اپنے وجود میں ایک اکائی ہیں۔ اس کا دُکھ ہمارا دُکھ ہے، اس کا غم ہمارا غم ہے۔ اس عالمی اسلامی تحریک کی خوشیاں ہماری خوشیاں ہیں، اس کی کامیابیاں ہماری کامیابیاں ہیں۔ اگر کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں تو وہ ہمارے جذبوں کو مہمیز دینے کا عنوان بنتی ہیں۔ اگر کہیں ناکامی یا اُلجھن پیدا ہوتی ہے تو اس میں ہمارے لیے سوچنے اور تجزیہ کرنے کا سامان ہوتا ہے۔
ہمارا یہ قافلہ ایمان کی بنیاد پر اکٹھا ہوا ہے اور منزل کے شعور کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں کی مخصوص صورتِ حال میں، الگ الگ انداز سے رواں دواں ہے، لیکن جذبے کی آنچ ایک ہے۔ کامرانی کے حصول کی اُمنگ ایک ہے اور دُکھ درد کا رشتہ بھی ایک ہے۔ ان سب کا سرچشمہ قرآنِ کریم اور سنت پاکؐ اور سیرت ِ رسولؐ کریم ہے۔ ہمیں یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم ان سرچشموں سے کس قدر جڑے ہوئے ہیں یا کس قدر دُور ہیں؟ اگر دین کے ان سرچشموں سے ہم وابستہ ہیں تو یقینا اسی طرح دوسرے ممالک کی اسلامی تحریکوں سے بھی ربط میں ہیں۔
۳جنوری ۲۰۱۹ء کو دی پنجاب اسکول [خیابانِ جناح کیمپس] لاہور کے نوتعمیر شدہ ’سیّد مودودی آڈیٹوریم‘ کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر ایک مختصر خطاب، جو اپنے اندر ایک جامع پیغام رکھتا ہے۔ ادارہ
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۲۸ۭ (الفتح ۴۸:۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔
جو آیت آپ کے سامنے تلاوت کی ہے، یہ معروف اور جانی پہچانی آیات میں سے ہے۔
مولانا مودودیؒ نے جس وقت دعوتِ انقلاب لوگوں کے سامنے رکھی، اس وقت ایک بڑی تعداد ایسے بزرگوں کی تھی جنھوں نے بعدازاں اس موضوع پر بڑی وضاحت سے لکھا۔ تب دعوت کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ’اقامت ِ دین‘ تھی۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کے علاوہ کچھ دوسرے لوگ بھی مختلف پیرایے میں اور مختلف انداز سے یہی دعوت پیش کر رہے تھے، اور وہ بڑے جانے پہچانے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایک طبقہ بڑی قوت سے یہ بات کہہ رہا تھا کہ: ’’ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے، اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس کی دعوت کو عام نہیں کرتے۔ حالاں کہ ہم سب اس بات کو جانتے ہیں کہ قرآن کے بغیر یہ دعوت کچھ بھی نہیں‘‘۔ پھر ہمارے اسی معاشرے میں ’حکومت ِ الٰہیہ‘ کی بات بھی ہوتی تھی۔ نظامِ اسلامی کا ذکر ہوتا تھا اور ایک عرصہ گزرنے کے بعد نظامِ مصطفےٰؐ کی بات بھی چلی۔ مراد یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ عنوانات بدلتے رہے، تاہم دین کی بات کی جاتی رہی اور دین کی ضرورت کا احساس بڑے طبقے تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
لیکن اب کئی عشروں سے صورتِ حال اس طرح ہے کہ جو لوگ ’اقامت ِ دین‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور بڑے پیمانے پر اس کے لیے نفوذ کے راستے تلاش کرتے تھے، اور لوگوں تک پہنچ کر ان کے دلوں پر دستک دیتے تھے، ان کی ایک بڑی تعداد آج کچھ اور عنوانات سے زیادہ متاثر ہوتی نظر آتی ہے۔
عنوانات یا نعرے کچھ بھی ہوں اصل کام تو ہے: غلبۂ دین اور اقامت ِ دین۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب دین غالب ہوگا، حقیقی معنوں میں اسلامی انقلاب اُسی وقت برپا ہوگا۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ کردار سازی کی جائے، نئے عنوانات کے ذریعے لوگوں کو ربّ کی طرف بلانے کا اہتمام کیا جائے۔ کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس طرف دعوت دینے میں کمی پیدا ہوئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اس بات کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ اقامت ِ دین کا مطلب کیا ہے؟
اس بات کی یاد دہانی اور تذکیر درحقیقت بہت اہم ہے اور ضرورت ہے کہ ہمارے اجتماعی معاملات میں اقامت ِ دین کا جو عمل دخل ہوتا تھا، اسے اَزسرِنو تازہ کیا جائے۔ جب یہ تحریک برپا کی گئی، اُس وقت مولانا مودودیؒ کے قریبی رفیق اور بلندپایہ عالم دین مولانا صدرالدین اصلاحی مرحوم [م:۱۳ نومبر۱۹۹۸ء]نے تین بنیادی کتب لکھی تھیں: فریضہ اقامتِ دین، اساسِ دین کی تعمیراور حقیقت نفاق۔ بعد میں انھوں نے نسبتاً آسان زبان میں ایک اور کتاب لکھی: اسلام ایک نظر میں!
جب اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی کارکن رکنیت کی درخواست دیتا تھا تو اسے یہ تین کتابیں ابتدا ہی میں سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی تھیں۔ اگرچہ ان کی زبان دقیق تھی، لیکن ذہن سازی کے لیے یہ نہایت مؤثر استدلال فراہم کرتی تھیں ۔ ان کو مطالعاتی مجالس (study circles) کے ذریعے ذہن نشین کیا جاتا تھا اور پھر کارکن پُراعتماد ہوکر ایک ایک طالب علم، ایک ایک نوجوان تک اور اگر ممکن ہوتا تو دس آدمیوں کی مجلس میں پورے یقین کے ساتھ مدّعا بیان کرتا تھا کہ جب تک غلبۂ دین نہیں ہوگا تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اس کی بات سن کر لوگ حیران ہوتے تھے کہ اس کو کہاں سے یہ بات معلوم ہوئی ہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سفر کو وہیں سے دوبارہ شروع کرنا ہوگا، جہاں سے بظاہر ختم ہوگیا تھا۔ اس قافلۂ حق میں جو اہلِ علم اور پڑھے لکھے لوگ ہیں، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اقامت ِ دین، اساسِ دین اور اسلامی انقلاب کے کاموں کو سرفہرست رکھ کر ان پر بات کریں اور صحیح معنوں میں فہم دین پیدا کرنے میں کارکنوں کی مدد کریں اور انھیں رہنمائی فراہم کریں۔ دین کی وسعتوں اور پہنائیوں سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ جب تک کارکنوں کے اندر دین کی ہمہ پہلو اُمنگ پیدا نہ ہو، اس وقت تک اس کام سے غفلت نہ برتی جائے۔
اس لیے خود جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر برادر تنظیموں کو اپنے تربیتی اور تنظیمی دائروں میں اور دعوت کے عنوانات میں فریضۂ اقامت دین کی بحث کو اَزسرنو اُٹھانا ہوگا۔ ہمارے اندر ایک بڑی تعداد ایسے اہلِ علم کی موجود ہے، جو اس موضوع پر مطالعاتی حلقوں (اسٹڈی سرکلز) کا اہتمام کرسکتے ہیں، اور اس طرح لوگوں کو آگاہ کرسکتے ہیں کہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا مطلب کیا ہے؟ ہمیں کلمۂ طیبہ کے پیغام اور اس کے تقاضوں کو ذہن نشین کرنا اور کرانا ہے کہ اس کے بغیر دین کا کام ممکن نہیں۔
یہ جو ہم اکثر اپنے گردو پیش کے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں، ان تبصروں میں بہت سی باتیں بڑی معقول اور نہایت سنجیدہ اور بہت کچھ کرگزرنے کا عنوان اپنے اندر سموئے ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جس نے مولانا مودودی کو پڑھا اور سمجھا ہے اور فی الحقیقت لوگوں تک پہنچنے کے لیے دعوتی موضوعات اور عنوانات کی کہکشاں سجائی ہے۔ ان کو اپنی سطح پر یہ کام شروع کر دینا چاہیے۔
جن لوگوں نے اسلامی انقلا ب کے نعرے کو سمجھ لیا ہے انھیں بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اسلامی انقلاب کا نعرہ تو بہت پُرکشش ہے اورسننے والوں کے دلوں میںگرمی اور سوز پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس کی روح، بنیاد اور تقاضوں کو سمجھنا نعروں کی گونج سے زیادہ ضروری ہے۔ مگر بہرحال یہ بات سمٹتی، سکڑتی اور محدود ہوتی جارہی ہے۔
کل جس لمحۂ تاریخ میں اقامت ِ دین کے حوالے سے بات کی گئی تھی، آج کا یہ عہد اُس سے بھی زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس پیغام کو تروتازہ کیا جائے۔ دلوں کے اندر اس کے پیغام کو سمویا جائے، سوتوں کو جگایا جائے اور فی الحقیقت اقامت ِ دین کی اصطلاح کو نووارد رفقا تک پہنچانے کے لیے جس توجہ اور دماغ سوزی کی ضرورت ہے، اس کا اہتمام کیا جائے۔
تحریک طالبان کے ساتھ مذکرات ہونے چاہییں یا اس کے خلاف آپریشن؟ بیک وقت مذاکرات اورآپریشن کافیصلہ سود مندہوگا یا نہیں؟ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہونے چاہییں یا کسی شرط کے بغیر؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر جگہ موضوع بحث ہیںاور پاکستان کی سلامتی و بقا کو درپیش خطرات کو ان کی کامیابی و ناکامی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
بلاشبہ دہشت گردی اس وقت پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس عفریت نے ریاست اور معاشرے کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکا نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ افغانستان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ اس جنگ میںجو اصلاً اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تھی،پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر شامل ہوا تھا۔ ہم نے اس جنگ میں شمولیت کے وقت ہی آگاہ کر دیا تھا کہ افغانستان بہانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔وقت اور حالات نے ہمارے موقف کو ثابت کر دیا ہے۔ اس مذموم جنگ کو اب ۱۲ سال ہونے کو ہیں، اور جس دن سے ہم اس میں شامل ہوئے ، اسی دن سے تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ ملک کے ہر کونے میں دہشت گردی پھیل گئی ہے، اوراس کی جتنی قسمیں ہو سکتی ہیں، وہ سب ہمارے ملک میں موجود ہیں اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔فرقہ وارانہ اور مسلکی دہشت گردی بھی موجود ہے، لسانی و علاقائی دہشت گردی بھی روز افزوں ہے،بھتہ و لینڈمافیا بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، بھارتی دہشت گردی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے، اور امریکی دہشت گردی بھی پھن پھیلائے کھڑی ہے۔
میاں محمد نوازشریف کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اپنے انتخابی وعدے کے مطابق وہ اس جنگ سے نکلنے کے لیے ایک ٹھوس اور مربوط لائحہ عمل قوم کے سامنے پیش کریں گے۔ اگرچہ ایک عرصے تک حکومت کی طرف سے اس پر خاموشی رہی مگر دبائو بڑھا تو وزیراعظم نے پہلے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس نے دہشت گردی سے نجات کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، اور بعد ازاں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے امن کو آخری موقع دینے اور مذاکرات کا اعلان کیا۔ چنانچہ حکومت اور طالبان کی طرف سے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور اس حوالے سے ابتدائی ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن بعض ناخوش گوار واقعات کی وجہ سے مذاکرات کا یہ سلسلہ رک گیا۔ اب حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں بیک وقت مذاکرات اور آپریشن کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے خیال میں پالیسی جو بھی ہو، دہشت گردی کا سدباب اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک ڈور کا سرا ہاتھ نہ آئے اور ڈور کا سرا ’دہشت گردی کے نام پرامریکی جنگ‘ ہے۔ امریکا خطے میں موجود رہا اور نام نہاد جنگ جاری رہی تو صحیح معنوں میں کوئی پالیسی کارگر نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ امریکا اور بھارت مل کر افغانستان کے راستے سے بھی اور براہ راست پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھی اس جنگ کو ہوا دے رہے ہیں، اور اس کو بھڑکائے رکھنے کے لیے مذہب، فرقے، لسانیت اور علاقائیت، ہر طرح کے کارڈز اور ذرائع اور وسائل استعمال کر رہے ہیں۔
پاکستان کااصل المیہ یہ ہے کہ اس نے امریکی خوشنودی کی خاطر اس جنگ میں ۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا۔ انفرا سٹرکچر تباہ ہو گیا،معیشت اور معاش دونوں بربادی کی نذر ہو گئے اور قوم کا مستقبل دائو پر لگ گیا۔ حساس ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کر دیے گئے،انٹیلی جنس نیٹ ورک فراہم کیا گیا ،لاجسٹک سپورٹ دی گئی اور ہر قسم کی مراعات مہیا کی گئیں، لیکن اس کا صلہ یہ دیا گیا کہ نہ صرف پاکستان پر ڈبل گیم اور دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا بلکہ امریکا نے بڑے آرام سے ایبٹ آباد آپریشن کیا۔سلالہ پر حملہ کرکے فوجی جوان شہید کیے، ڈرون سے میزائل برساکر ہزاروں لوگوں کوقتل کیا، افغانستان میں بھارت کو تخریبی سرگرمیاں منظم کرنے کی اجازت دی اور پاکستانی سرزمین پرخود اس کے ریمنڈڈیوس نیٹ ورک جیسے درجنوںـ نیٹ ورک کام کرتے ہیں۔ اگر امریکا اس خطے میں موجود رہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر یہ سارا کھیل بھی جاری رہتا ہے اور ہم اس کا حصہ بنے رہتے ہیں، تو کوئی اچھی سے اچھی پالیسی بھی کارگر نہیں ہوسکے گی۔
سنجیدہ حلقے حکومت اور ریاستی اداروں کو بارہا متوجہ کر چکے ہیں کہ پاکستان میں امن و امان کے قیام اور ترقی و خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دیا جائے، اور امریکی مفاد کو قومی مفاد قرار دینے کے دھوکے سے نکل کر صحیح معنوں میںاپنے مفاد کو ملحوظخاطر رکھ کر پالیسی بنائی جائے۔ اس پالیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ امریکی جنگ سے فوری طور پر باہر نکلنے کا اعلان کیا جائے۔ اس ایک اعلان سے ہی دہشت گردی اور افراتفری میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ پھر فاٹا سے بلوچستان تک مذاکرات کے ذریعے معاملات اور مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد بھی اگر بعض گروہ امریکی و بھارتی شہ پر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے باز نہ آئیں تو قانون کے مطابق آہنی ہاتھ سے ان کا قلع قمع کرنا چاہیے۔
پہلے پیپلزپارٹی اوراب ن لیگ کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے جتنے مشترکہ اجلاس ہوئے ہیں، وزراے اعظم نے آل پارٹیز کانفرنسز بلائی ہیں یا مختلف سیاسی جماعتوں نے اس کا اہتمام کیا ہے، ان سب کی متفقہ قراردادوں میں مسئلے کے فوجی حل کی مخالفت کی گئی ہے اور مذاکرات کو مسئلے کا حل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام کار ہے، انھوں نے پارلیمنٹ اور عوام کے جذبات کو یکسر نظرانداز کر تے ہوئے امریکا کے اشارہ چشم و ابرو پر عملاً انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ بطور ایک سیاسی جماعت کے ،جماعت اسلامی نے مسلسل مذاکرات کے حق اور فوجی آپریشن کی مخالفت میں بات کی ہے۔ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے جماعت اسلامی آج نہیں ہمیشہ سے فوجی آپریشن کی مخالفت کرتی آرہی ہے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کی بات کرتی رہی ہے، کیونکہ اس سے معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف جاتے ہیں۔ فوج اور عوام میں خلیج بڑھتی ہے، اور ملک دولخت ہو جاتاہے۔ مشرقی پاکستان، بلوچستان، کراچی، فاٹا، کہیں بھی اس سے قبل فوجی آپریشن سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔ ایک اورآپریشن سے کیسے مثبت نتائج حاصل کیے جاسکیں گے۔ ماضی سے سبق حاصل کرنے کے بجاے ایک اور آپریشن کو نسخۂ کیمیا سمجھنا دانش مندی نہیں ہے۔ عاقبت نااندیش قیادت اورملک دشمن قوتیں فوجی آپریشن کے ذریعے حالات کو ایک ناقابلِ واپسی مقام پر لے جانے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ جس طرح اس حکمت عملی کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت ہوا، اسی طرح ایک بار پھر وہ اپنے انھی مکروہ عزائم کو پورا کرسکیں۔
سیاسی و فوجی قیادت اِن کیمرہ اجلاسوں اور نجی محافل میں امریکا اور بھارت کی ان سازشوں کا ذکر کرتی ہے لیکن ان کا سدباب کرنے کے لیے عملاً کچھ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔ امریکا و بھارت کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ افواجِ پاکستان کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا جائے، جہاں سے وہ نکل نہ پائے، ملک انتشار اور انارکی کا شکار ہو،اور اس کی آڑ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو عالمی کنٹرول میں لینے اور اس کے حصے بخرے کرنے کا کھیل کھیلا جائے، نیز جموں و کشمیر میں جاری جدوجہد کو نقصان پہنچے اور بھارت خطے کے تھانیدار اور بالادست قوت کے طور پر سامنے آئے۔ وقت آگیا ہے کہ غیر ملکی ہاتھ کو نہ صرف پوری قوت کے ساتھ بے نقاب کیا جائے بلکہ اسے توڑنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔
سیاسی و فوجی قیادت جن میں وفاقی وزرا اور جرنیل شامل ہیں، ایک عرصے سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ : ’’بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سازشیں کر رہا ہے‘‘۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ نہ تو بھارت سے باضابطہ طور پر کبھی احتجاج کیا گیا ہے اور نہ عالمی فورمز پر اس مسئلے کو اٹھایا گیا ہے۔ حال ہی میں ایک دفعہ پھر مسلح افواج کے ترجمان نے ’را‘ اور سی آئی اے کا نام لے کر یہ کہا ہے کہ ان کے کارندے پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور انارکی پھیلانے میں ملوث ہیں۔ وزارت داخلہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھارت کی تخریب کاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ امریکی سرپرستی میں ہونے والی بھارتی مداخلت کاری پر پارلیمنٹ کے ذریعے قوم کو اعتماد میں لے اور قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو ثبوت مہیا کرے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اگر امریکی وبھارتی گٹھ جوڑ اور اس کی اس شرانگیزی کو طشت از بام کر دیا جائے تو میڈیا سے لے کر دہشت گردوںتک، اور این جی اوز سے لے کر آلہ کار سیاست دانوں تک، ان کے طرف دار چہرے قوم کے سامنے آجائیں گے۔
ہمارے خیال میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مذاکرات کو موقع دینے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا اوراشتعال انگیزی اور مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود اب تک انھوں نے اس حوالے سے صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے۔ بعض ناخوش گوار واقعات کی وجہ سے مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوا تو ہماری طرف سے انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ تعطل کے خاتمے کے لیے وہ خود آگے بڑھیں اور طالبان اور حکومتی کمیٹیوں سے خود ملاقات کرکے ملک میں امن کی راہ ہموار کریں۔ اس ملاقات میں وہ چاہیں تو فوج کے نمایندے بھی شامل کرسکتے ہیں۔ انھیں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ امریکا اپنے حلیف ناٹو کے ۴۶ممالک کی افواج اور جدید ترین اسلحے اور سازوسامان کے استعمال کے باوجود پچھلے ۱۲برسوں سے افغانستان کو فتح کرنے میں ناکام رہا ہے۔آج امریکا اور افغان قیادت دونوں بعد از خرابی بسیار یہ راگ الاپنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ امن مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر فوجی قوت اور بندوق کی طاقت سے امن آنا ہوتا تو امریکا اور ناٹو افواج کب کا افغانستان کو فتح کر چکی ہوتیں۔
نئی قومی سلامتی پالیسی کے تناظر میں حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ کہ: جو گروہ دہشت گردی کے مرتکب ہوں گے، ان کے خلاف کارروائی ہوگی اور جومذاکرات کرنا چاہیں گے ان کے ساتھ مذاکرات ہوںگے، بظاہر متوازن پالیسی کا عکاس ہے ۔لیکن اس میں فیصلہ کن چیز یہ طے ہونا ہے کہ دہشت گرد کون ہیں اور مذاکرات کی میز پر کس کو بلایا جائے؟ ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس تمام ایجنسیاں موجود ہیں جو اس سلسلے میں رہنمائی بھی کرسکتی ہیں اور تعاون بھی دے سکتی ہیں۔
میاں محمد نواز شریف چاہیں تواپنا ایک با اختیار وفد افغانستان کے طالبان اور ملا عمر سے رابطے کے لیے بھیج کر، ملک میں امن کی بحالی کے لیے ان سے مددلے سکتے ہیں۔ افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے اب تو امریکا بھی نہیں شرما رہا اور یہ وہی طالبان ہیں جن کے ساتھ میاں نوازشریف کی سابقہ حکومت کے ریاستی اور سفارتی تعلقات تھے۔ ان سے رابطہ کاری میں میاں صاحب کو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ رابطہ معاملات کو افہام و تفہیم کی پٹڑی پر لانے اور اصلی اور نقلی طالبان کی پہچان میں مددگار بن سکے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی خفیہ ہاتھ ایسا ہے، جو حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی سبوتاژ کر دیتاہے۔ حکومت کو ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مہمند ایجنسی کے واقعے اور طالبان کے اس الزام کہ’’ ان کے ساتھیوں کی لاشیں پھینکی جارہی ہیں ‘‘کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرانی چاہیے۔ مہمند ایجنسی میں ایف سی کے ۲۳؍ اہل کاروں کی شہادت اور ان کی لاشوں کی مبینہ بے حرمتی پر ہمیں شدید رنج ہے، اس کی ہم نے پرزور مذمت کی ہے اور ہمیں شہید اہل کاروں کے پس ماندگان سے دلی ہمدردی ہے۔ حکومت اور درد دل رکھنے والے تمام طبقات کو کھلی آنکھوں اور کھلے کانوں سے ایسی قوتوں کو قوم کے سامنے لانا چاہیے، جو مذاکراتی عمل کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھناچاہتیں اور جن کی پوری کوشش ہے کہ فوج اور طالبان کو آپس میں لڑا یا جائے اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں خوںریزی کا بازار گرم ہو۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ دونوں نے یہ کہاہے کہ جب بھی مذاکرات کسی اہم موڑ پر پہنچتے ہیں، کسی نادیدہ قوت کی طرف سے ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیںجس سے مذاکرات تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں، تو پھر وزیراعظم ہی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان شرانگیز قوتوں کی نشان دہی اور ان کے سدباب کے لیے مئوثر اقدامات کریں۔بلا لحاظ اس سے کہ ان کا تعلق کس فریق یا گروہ سے ہے۔
مذاکرات مخالف قوتیں یہ امید لگائے بیٹھی ہیں کہ مذاکرات ناکام ہوںگے اور اس کے بعد ان کے ایجنڈے کے مطابق ملٹری آپریشن شروع ہوجائے گا۔مذاکراتی عمل کو کسی تعطل کے بغیر آگے بڑھتا دیکھ کر ان کی نیندیں اڑ گئی تھیں اور وہ اس عمل میں رکاوٹیں پیداکرنے کے لیے ملک میں افواہ سازی کے ذریعے افراتفرای پھیلانے میں مصروف دیکھی گئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حا لات میں پوری قوم کو مذاکراتی کمیٹیوں کی پشت پر کھڑا نظر آنا چاہیے تاکہ حکومت کسی دبائو کے بغیر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھاتی رہے۔اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اصل مذاکرات حکومت اور طالبان کے درمیان ہی ہوں گے۔طالبان کمیٹی کے نام سے کام کرنے والی موجودہ کمیٹی صرف رابطہ کار اور مددگار کا کردار ادا کررہی ہے ،تاکہ حکومت اور طالبان کے درمیان پائے جانے والے خدشات دُورکرکے مذاکرات کے ماحول کو ساز گار بنایا جائے۔ امریکا اور بھارت کی تمام تر سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجودمذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں، لیکن سیکولر اور اسلام مخالف لابی قوم کے اندر نااُمیدی اور مایوسی پھیلا رہی ہے،اور حکومت کو فوجی آپریشن کی طرف دھکیلنے کی ’خدمت‘ انجام دے رہی ہے۔
ایف سی اہل کاروں کی شہادت کے روح فرسا واقعے کے بعد جو ’جوابی کارروائیاں‘ کی گئی ہیں، دہشت گردوں کوبھی اس سے نقصان پہنچا ہوگا لیکن شنید یہی ہے کہ عام آباد ی اس سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ مہذب معاشرے میں عام شہریوں کو دوران جنگ بھی اندھا دھند بمباری کی لپیٹ میں لینے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔کوئی ایسی مثال بھی ہمارے سامنے نہیں ہے کہ جس میں ایک ریاست نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف فضائی قوت اور بھاری بمباری کا استعمال کیا ہو، یہاں تک کہ کشمیر پر قابض بھارتی افواج نے بھی ایسا نہیں کیاہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مجرموں اور عوام الناس کی جانوں سے کھیلنے والے قاتلوں کی گرفت ضروری ہے اور ان کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے مگر یہ کارروائی قانون اور ضابطے کے مطابق ہی ہو، ایف ۱۶ اور کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نہیں۔بڑے آرام سے یہ کہہ دینا کہ اس بمباری کے نتیجے میں صرف مجرمین اور دہشت گرد نشانہ بن رہے ہیں، ایک جسارت اور زمینی حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ہمارے نزدیک حکومت کا یہ دعوی درست نہیں ہے۔ معمولی سی دانش رکھنے والا انسان بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کبھی جیٹ طیاروں کے ذریعے نہیں ہوا کرتی۔ اس سے خوف اور تباہی پھیلتی ہے، دہشت کی فضا بنتی اور افراتفری جنم لیتی ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ آزاد میڈیا کے لیے حالات کی صحیح صحیح رپورٹنگ کا دروازہ بند کردیا گیا ہے، اور ستم ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نوحہ کر رہے ہیں کہ میران شاہ میں سویلین آبادی اور عورتیں اور بچے نشانہ بن رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے امن کی خواہش کو بعض عناصرمنفی رنگ دے کر جماعت اسلامی پر طالبان کی نمایندگی کرنے کے بے سروپا الزام لگا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے گھنائونے ایجنڈے کو پورا کرسکیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور امت کی امیدوں کا مرکز و محور سمجھتی ہے ۔ملکی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی کی قربانیوں کی پوری قوم معترف ہے اورہم ملک میں قیام امن کے دل و جان سے خواہاں ہیں، نیز اس سلسلے میں ہماری مسلح افواج نے جو بھی مثبت خدمات انجام دی ہیں، ان پر ہمیں اور پوری قوم کو فخرہے۔ البتہ دستور کا احترام اور انصاف کے اصولوں کی مکمل پاس داری سب کے لیے ضروری اور ملک کے استحکام اور بقا کے لیے مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔
جماعت اسلامی آئینی، دستوری اور جمہوری طریقے سے حکومتوں کی تبدیلی اور قانون سازی کی علَم بردار اور ملک میں خفیہ انجمن سازی اور تشدد کے ذریعے کسی ہدف کو حاصل کرنے کی مخالف ہے۔ اس ضمن میں اس کا دستور، تاریخ اور عمل گواہ ہے۔جماعت اسلامی کی اپنے ملک میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں مختلف انسانی المیے جنم لیتے ہیں۔ اس سے ہونے والا نقصان نفسیاتی، فکری اور اخلاقی بھی ہوتاہے اور مادی و جسمانی بھی۔ اس کا علاج اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوتا، جب تک آپریشن ختم نہ ہو۔
فوجی آپریشن سے ایک بڑا مسئلہ نقل مکانی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قبل ازیں بھی سوات اور فاٹا سے لوگوں نے ہجرت کی تھی اور پوری دنیا میں اپنے ملک کے اندر ہونے والی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔اس وقت بھی جتنے بڑے پیمانے پر شمالی اور جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی ہورہی ہے وہ ایک انسانی المیے سے کم نہیں ہے۔ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اگر لوگ ہجرت پر مجبور کر دیے جائیں ، ان کے گھروں کو مسمار اور مستقبل کو تاراج کر دیا جائے اوران کے بچوں کا جینا دوبھر کر دیا جائے، تو ایسی جگہ سے قانون کا احترام کرنے والوں کی نہیں بلکہ دہشت گردی اور انتقام لینے والوں کی کھیپ ہی کے رونما ہونے کا امکان زیادہ ہے ۔ حکومتی کارپردازوں کویہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہجرت کرنے والے لوگ تاجک اور ازبک نہیںبلکہ پاکستانی ہیں اور بے بسی و بے چارگی اور درماندگی میں اپنی جان بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کو بالخصوص اور مرکزی حکومت کو بالعموم اس معاملے میں آگے بڑھنا چاہیے اور بے گھر ہونے والوں کوہر ممکن سہولتیں فراہم کرنی چاہییں۔ جماعت اسلامی بھی اس سلسلے میں مقدوربھر کوششیں کررہی ہے اور الخدمت فائونڈیشن نے اس سلسلے میں پیش رفت کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ جو نیٹ ورک حکومت کا ہوسکتا ہے اس کو فوری طور پر بروے کار آنا چاہیے، تاکہ سردی کی شدت اور گھر بارچھوڑنے کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کا مقابلہ کیا جاسکے اور سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔ مہاجرین کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر وسائل اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے وہ حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے، بالخصوص وفاقی حکومت۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے ان علاقوں سے نکلنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی کی طرف ہجرت کر جاتی تھی۔اور وہاں عزیز و اقارب اور کسی جاننے والے کے ہاں ان کو پناہ مل جاتی تھی لیکن اب خود کراچی آپریشن کی زد میں ہے۔ طالبانائزیشن کے نعرے کے سایے میںاگرفاٹا کے لوگ وہاں آئیں گے اور دکھائی دیں گے تو بڑی آسانی سے گرفتار کرلیے جائیں گے یا انھیں دیگر مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ سندھ حکومت اور ایم کیو ایم نے بھی ان کی کراچی آنے کی مخالفت کی ہے ۔
ایم کیو ایم فوجی آپریشن کی بڑی حامی ہے، اور طالبان سے مذاکرات کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہے۔ بجاے اس کے کہ وہ مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتی، اس کے قائد نے مہاجرین کا استقبال کرنے کے بجاے فوج کا استقبال کرنے کا عندیہ دیا، آئین توڑنے کی بات کی اور جرنیلوں کو دعوت دی کہ وہ ایک دفعہ پھر اقتدار پر قبضہ کرلیں۔ ایک جانب طالبان کو آئین شکن کہہ کر پوری قوت انھیں اور ان کے آس پاس رہنے والے بے گناہ شہریوں کو کچل دینے کے لیے بیانات کی آگ اگلی جارہی ہے، تو دوسری طرف ایسی نفرت انگیز آگ بھڑکانے والے اسی گروہ کے لندن میں بیٹھے لیڈر نے علی الاعلان آئین کو تسلیم نہ کرنے کی بات کی، حالانکہ وہ اسمبلیوں کے اندر موجود ہیں۔ اس دفعہ وہ بظاہر حکومت میں شریک نہیں ہیں، مگر کارِ حکومت میں ان کی رسائی اور نازبرداری کا سب کواندازہ ہے۔ان کا نمایندہ سندھ کے گورنر ہائوس میں اسی طرح کارفرما ہے جس طرح وہ جنرل مشرف اور جناب آصف زرداری کے زمانے میں جلوہ افروز تھے۔ واضح رہے کہ موصوف اس سے پہلے ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء تک کم از کم چار بار پہلے بھی فوج کو دعوت اقدام دے چکے ہیں اور اپنی مکمل تائید کا یقین دلا چکے ہیں۔ اس قابلِ مذمت بیان میں پورے جمہوری اور انتخابی دائرے اور نظام کو لپیٹ دینے کا عنوان موجود ہے۔اور یہ اس پس منظر میں ہے کہ جب باربار کے تلخ تجربات کے بعد عوام ، اعلیٰ عدالتیں اور معاشرے کے دیگر طبقات یکسو ہیں کہ سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت میں کوئی خیر نہیں ہے اور ملک کا مستقبل جمہوریت اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔ آج جو جمہوری رویے پورے معاشرے کے اندر فروغ پارہے ہیں، کچھ خامیوں کے باوجود ان جمہوری رویوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔
ان سنگین حالات میں اہل علم بالخصوص علماے کرام کو آگے آنا چاہیے اورآئین و جمہوریت کے حوالے سے ہونے والی بحث اور گتھیوں کو سلجھانے میں اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔ جو کام وہ کرسکتے ہیں، کوئی اور نہیں کر سکتا۔علماے کرام کواس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ پاکستان کے آئین کی کیا حیثیت ہے؟اس کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں کیا ہیں؟ شریعت کس طرح نافذ ہوتی ہے؟ شریعت سے تعلق رکھنا، حُب ِالٰہی اور حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار رہناہم سب کا ایمان ہے، لیکن یہ بات اہل علم ہی بتا سکتے ہیں کہ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کا طریقہ وہ نہیں ہے، جو اختیار کیا گیا ہے اور جس کا یہاں اور وہاں اعلان کیا جا رہا ہے۔علماے کرام کو اسلام اور شریعت کے وکیلِ صفائی کا کردار ادا کرنا چاہیے اور غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جو لوگ فوجی آپریشن کے حامی ہیں، ان کا خیال ہے کہ آپریشن تو شریعت کے خلاف ہو رہا ہے، اس لیے اچھا کام ہے۔ اور ان کے لیے سکون کا باعث ہے۔
۱۹۷۳ء کا آئین بنانے والوں میں وہ جید علما شامل تھے، جنھیں آج کے علما اپنا استاد مانتے ہیں۔ مولانا ظفراحمد انصاری، مولانا مفتی محمود ،مولانا عبدالحق ،مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور احمد جیسی قدآور قومی شخصیات آئین ساز کمیٹی میں شامل تھیں۔ وہ کیسے قرآن و سنت کے منافی آئین کو تسلیم کر سکتی تھیں۔ آئین کو غیر اسلامی کہنے کے بجاے آئین پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ جس آئین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہوگا اور اس کا آئین قرآن و سنت کے تابع ہوگا، اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا قومی یک جہتی کے لیے مضر ہے۔ قوم ۷۳ء کے آئین پر متحد ہے۔ اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود حکمران غیر آئینی ہتھکنڈوں کو چھوڑ کر آئین کی بالا دستی کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرلیں اور اس پر خلوص سے عمل پیرا ہوں۔ یادرہے کہ اس آئین کو توڑنے والوں میں سب سے پیش پیش سیکولر اور ریاست کے اسلامی تشخص کے مخالف افراد اور گروہ ہیں، اور یہی وہ طبقات ہیں بشمول امریکی اور بھارتی لابی کے سرخیل اور قادیانی عناصر، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو پس پشت ڈالنے اور اسے غیر متعلق بنانے کے خواہشمند ہیں۔ اس لیے اس دستور کو مشتبہ بنانے والوں اوراس کے مطابق کام نہ کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کا راستہ صاف کر رہے ہیں؟
۱۹۷۳ء کا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہے۔اگر حکومت آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کردے تو طالبان سمیت کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ آئین پر عمل درآمد کی راہ میں خود جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں نے رکاوٹیں ڈالیں ۔برسرِاقتدار جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیکولرسٹوں اور وڈیروں نے آئین شکنی کا رویہ اختیار کیا۔ قرآن و سنت کے تابع پاکستان کے آئین کی مسلسل پامالی اور بے حرمتی سے ملک کے بارے میں بے آئین سرزمین کا تاثر پیدا کیا۔حکمران طبقوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے ملک و قوم کو مقروض کیا اور پھر قرض دینے والے عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات مانتے ہوئے عوام کش پالیسیاں بنائی گئیں۔ ایسا کرتے وقت آئین، اسلام، عوام اور انسانی قدروں میں سے کسی بھی چیز کی پروا نہیں کی گئی۔جب آئین و قانون کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی اور تمام فیصلے بیرونی دبائو کے تحت کیے جائیں گے، تو آئینی ادارے کمزور اور تابع مہمل ہوں گے، اور عوام کا ان اداروں پر اعتماد ختم ہوجائے گا۔آج پاکستان میں بہترین آئین کی موجودگی کے باوجود عوام کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں، جب کہ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیاں قومی مفادات کے بجاے امریکی و بھارتی مفادات کو سامنے رکھ کر بنائی جارہی ہیں۔ ایسی صورت میں نہ امن آسکتا ہے اور نہ عوام کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔
پاکستان کی اسلامی شناخت کونہ کوئی پہلے بدل سکا ہے اور ان شاء اللہ نہ آیندہ بدل سکے گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسی نام سے قائم اور وابستہ رہے گا۔اسلامی شریعت، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا نام ہے ،جوکسی کی خواہشات پر بدلے نہیں جاسکتے۔ ملّی وحدت اور قومی یک جہتی کے لیے اسلام سے متصادم رویوں کو ترک کرناضروری اورمذاکرات مخالف قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار اداکرنا ہر ذمہ دار شہر ی کا فرض ہے۔جماعت اسلامی کی ساری جدوجہد کا مقصد ملک میں امن اور اسلامی شریعت کا نفاذ ہے۔ امن قائم ہوگا تو شریعت آئے گی اور آئین پر بھی عمل ہوگا۔
جماعت اسلامی از اول تا آخر ایک دینی و فکری تحریک ہے جس کی عمارت اس کی تنظیم اور تربیتی نظام پر کھڑی ہے۔ اقامت دین کی تحریک ہونے کی وجہ سے بدرجۂ اولیٰ یہ اس کی ذمہ داری قرارپاتی ہے کہ جو لوگ اس کے ساتھ چل رہے ہیں، ان کے تزکیۂ نفس کے لیے اور زندگی کے تمام گوشوں کو روشن اور منور رکھنے اور انھیں اندھیروں سے بچانے کے لیے ان کی تربیت کاخصوصی اہتمام و انتظام کرے۔ انبیاے کرام ؑکا مشن بھی اصلاً تزکیۂ نفس ہی تھا اور اسلامی تحریکیں معاشرے کے اندر جو انقلاب لانا چاہتی ہیں اس کا مقصود بھی یہی ہے۔اگرچہ اجتماعی دائرے کا انقلاب زندگی کے تمام دائروں پر محیط ہوتاہے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک فرد کی اصلاح ، اور اس کے اندر انقلابیت، یعنی ایثارو قربانی اور اپنے آپ کی نفی کرتے ہوئے معاشرے کا اثبات کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو۔ اسلامی تحریکیں معاشرے کے اندر نئے انسان اور رویے پیدا کرتی ہیں، پرانے انسانوں کے ہیولے سے نئے انسان جنم لیتے ہیں،اور ان نئے انسانوں سے ایک نیا معاشرہ ترتیب و تشکیل پاتا ہے۔
پرانے انسان سے نئے انسان کیسے وجود میں آتے ہیں؟ اس کی سب سے بہترین مثال تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کردار سے سامنے آتی ہے۔ حضرت عمرفاروق ؓ کے قبول اسلام کا واقعہ تو مشہور و معروف ہے کہ کس طرح گھر سے نعوذباللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلتے ہیں مگر آیات قرآنی کی تلاوت سنتے ہی دل کی دنیا تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میری زندگی کے دو ادوار ہیں۔ ایک وہ دورکہ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کانام تک سننا بھی گوارا نہ تھا، اور حضوؐرکا نام سننا بھی طبیعت پر بوجھ تھا،کبھی کبھی جس کو اتارنے کو دل چاہتا تھا، جب کہ دوسرا دور وہ ہے کہ جس میں میری محبوب ترین ہستی اگر کوئی تھی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر نشست میں شریک ہوتا تھا اور قدرے فاصلے پر بیٹھتا تھا ۔ کبھی آپؐ کو آنکھ بھر کے دیکھا نہ جی بھر کے، اس لیے کہ نگاہیں آپؐ کے چہرے پر ٹھیرتی ہی نہ تھیں ۔ اگر کوئی مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کے بارے میںپوچھے تو میںنہیں بتاسکتا۔ ایک اور صحابیِ رسولؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حالت ِجاہلیت میںقریش کو کوستا تھا کہ انھوں نے آپؐ کے لیے سب آزمایشیں تو کھڑی کیں لیکن جوکام کرناتھا وہ توکیا ہی نہیں، چنانچہ اپنے گھر سے ا س ارادے سے نکلا کہ آپؐ پر حملہ آور ہوجاؤں۔ گھر سے نکلا تودیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف میں مصروف ہیں۔ بس موقعے کو غنیمت جانا اورخود بھی طواف میں شریک ہوگیا اور اس انتظار میں رہا کہ مناسب موقع اور وقت ہاتھ آئے توآپؐ پر وار کروں ۔اسی اثنا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آواز دے کر اپنے پاس بلایا۔ قریب پہنچا تو دریافت کیا کہ تمھارا کیا ارادہ ہے؟ یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ شاید آپؐ کومعلوم ہوگیا ہے کہ میں کس ارادے سے آیا ہوں؟ لیکن اس کے باوجود میں نے عرض کیا کہ طواف کر رہاہوں، اور کوئی دوسراارادہ نہیں ہے۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنا دایاں ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور ابھی ہاتھ آپؐ نے اٹھایا نہ تھا کہ دل و دماغ کے تمام بندھن کھل گئے اور اسلام کی سیدھی اور شفاف شاہراہ مجھے نظر آنے لگی۔ لمحوں میں تزکیے کی وہ کیفیت حاصل ہو گئی جو ناقابل یقین ہے۔
اس طرح کے کئی دوسرے واقعات اس بات کا پتا دیتے ہیںکہ معاشرے میں ہمیشہ ایسے انسان موجود رہیں گے جو لمحوں کے اندر اپنا پورا تزکیہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ معاشرے کے اندر جولوگ دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں، یہ بات ان کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ میدانِ دعوت میںایسے لوگ بھی ملیں گے جن پر آپ برسہا برس کام کریں گے مگر وہ آپ کا ساتھ نہ دیں گے، اور ایسے لوگ بھی ملیں گے جو لمحوں کے اندراس راہ کے راہی بن جائیں گے۔
انسان اضدادکے مجموعے کا نام ہے۔ نیکی کے جذبات کا ایک سمندر ہے جو اس کے اندر پنہاں ہے اوربدی کا ایک طوفان ہے جو اس کے اندر پناہ لیے ہوئے ہے۔ وہی انسان ہے جو نہایت خونخوار ہے اور انتقام لینے پر آئے تو سیکڑوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنادیتا ہے، اور وہی انسان ہے جو انسانوں کی ہمدردی میں بڑے بڑے دریا اور سمندر عبور کرلیتا ہے۔ ایک ہی انسان کے اندر کئی کئی انسان موجود ہیں۔ ایک ہی انسان کئی کئی کشتیوں میں سوار، کئی کئی منزلوں کی طرف گامزن اور رواں دواں ہے ۔ان تضادات کو رفع کرنا، اسے یکسوئی اور طمانیت کی دولت سے مالا مال کرنا، اور اپنے رب سے رجوع کرنے کی دعوت دینا، فی الحقیقت تربیت ہے، تزکیۂ نفس ہے، تعمیر سیرت ہے، کردار سازی ہے ۔ اسلامی تحریکیں اپنی معیت میں چلنے والے انسانوں کی زندگی تبدیل کرنے کے لیے اس طرح کوشاں ہوتی ہیں کہ واقعی ان کی سیرت و کردار ، رویے، طور طریقے ،ذہن و فکر کے سانچے ،نکتہ ہاے نظراور زاویہ ہاے نگاہ بدل جاتے ہیں اور ایک نیا انسان وجود میں آجاتا ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے لوگوں کومخاطب کیا، ساتھ ملایا ، ہم نوا بنایا، وہ ہمارے لیے تو لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ کے مصداق بہترین نمونہ ہے مگرقرآن پاک کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ اسی لیے یزکیہم سے پہلے تلاوتِ آیات کی بات آئی ہے۔ تلاوتِ آیات کا بلاشبہہ یہ مفہوم بھی ہے کہ قرآن پاک کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھا اور حفظ کیا جائے، لیکن تلاوتِ آیات وہ مطلوب ہے جو دل کے اندر اُتر جائے اور جس کے نتیجے میں عقائد کی اصلاح ہو، رویے تبدیل ہوں، اعمال کے اندر تبدیلی واقع ہو، اور زندگی اور اس کی ترجیحات بدل جائیں۔ جس قرآن کو پڑھنے کے نتیجے میں آدمی نہ بدلے اور’ خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں‘ کا عنوان بن جائے، ظاہر ہے کہ وہ تزکیہ اور تربیت کی تعریف میں نہیں آتا۔ قرآن پاک کے ساتھ ایک خاص قسم کے شغف کی ضرورت ہے جس کی مثال حضورنبی اکرمؐ کے اسوے میں موجود ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں تشریف لائے، منبر پر تشریف فرماہوئے ، اور فرمایاعبداللہ مجھے قرآن سناؤ۔ میں قدرے حیران ہوا اورسوال کیا کہ حضوؐر قرآن پاک تو آپؐ پر نازل ہوا ہے، آپؐ کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے ، آپؐ سے ہم نے سنا اور سمجھا ہے، میںبھلاآپؐ کوکیا قرآن سناؤں گا؟آپؐ نے فرمایا کہ نہیں عبداللہ! آج تو یہ جی چاہتا ہے کہ کوئی سنائے، اور میں سنوں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے سورۃالنساء کی تلاو ت شرو ع کی، جب اس آیت پر پہنچے کہ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًاo (النساء۴:۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘، تواسی دوران میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کواندازہ ہوا کہ جیسے آپؐ ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ عبداللہ ٹھیر جائو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے سراُٹھا کردیکھا تو نبی اکرمؐ زارو قطار رو رہے ہیں ، اور جواب دہی کے احساس سے ریش مبارک اور آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں ۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرمؐ تہجد کے وقت حالتِ قیام میں تھے، جب سورۂ ابراہیم کی اس آیت پر پہنچے: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ ج فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o(ابراھیم ۱۴:۳۶) ’’پروردگار ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں، لہٰذا ان میں سے جو) میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تُو درگزر کرنے والا مہربان ہے‘‘، تواس آیت پر رک گئے اور پڑھتے جاتے تھے، روتے جاتے تھے تاآںکہ اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑامین کو بھیجا ۔ انھوں نے آکر سوال کیا کہ کیا ماجرا ہے ؟ آپؐ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے تو اپنی اُمت کے لیے سب کچھ مانگ لیا،جو گناہ گار ہیں، ان کو مغفرت کے حوالے کر دیا جو اطاعت شعار ہیں ان کے لیے وعدے کا ذکر کیا ہے۔ان کی دعا کو پڑھتا ہوں تو اپنی امت کا خیال اور احساس مجھے ستاتا اور ڈراتا ہے۔ حضرت جبریل ؑواپس جاتے ہیں اور پھریہ خوش خبری لے کر واپس آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو بھی اپنی امت کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح مطمئن اور خوش کر دے گا۔ نبی اکرمؐ کے اسوے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک سے شغف کا معنی اورمفہوم کیا ہے؟ اس سے تعلق کیسے جوڑا جائے، کیسے بڑھایااور برقرار رکھا جائے؟ آیات کے مفہوم سے کس طرح آشنا ہوا جائے، اور ان کے اندر جو حکم پنہاں ہے، اپنے آپ کو اس کا مصداق کیسیبنایاجائے۔
اسی طرح قرآن مجید نے ہدایت کی ہے کہ انقلاب ِامامت جیسے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کی جائے، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ۲:۴۵)۔ اسلامی تحریک کا ہر کارکن نماز کے ساتھ ایسا رشتہ استوار کرے کہ جس کے نتیجے میں نماز باجماعت پڑھنے کی ویسی حرص پیدا ہو جائے جیسے دولت و شہرت اور دنیاکی حرص ہوتی ہے اور انسان اس کے لیے پاگل ہو کر ہر جائز و ناجائزاورصحیح و غلط کام کر گزرتاہے ۔ نماز باجماعت پڑھنے کی حرص پیدا ہوگی تو طبیعتوں کے اندرسے اضمحلال دُور ہوگا، سکینت اور سکون کی کیفیت پیدا ہوگی اور ایک نیا انسان وجود میں آئے گا۔اسی طرح صبرکا معاملہ ہے۔اپنی پوری زندگی میںحق کواپنانا اور جسم و جان کو اس پر لگا دینا صبر ہے۔ حق کے معاملے میں اگرآدمی خود کسی الجھاؤ میں مبتلاہوجائے اور’ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے‘ کی گردان کرنے لگے تو وہ خود بھی کمزور پڑجاتا ہے اوراپنے اردگرد فضا کوبھی مسموم کرتا ہے۔
جماعت اسلامی بنیادی طور پر ایک فکری اور علمی تحریک ہے ۔ جو لوگ اس تحریک کے افکار و نظریات سے واقف نہیں ہیں، اس کے لٹریچر، بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط سے آگاہ نہیں ہیں، وہ اس میں کچھ عرصے کے لیے فعال اور متحرک تورہ سکتے ہیں لیکن دیر تک اور دُور تک اس کے ساتھ چلنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتے۔مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے مطابق جب لوگ مطالعے کے بغیر معاشرے میں متحرک دکھائی دیتے ہیںتو ان کے پاس بالآخر کہنے کے لیے کوئی مواد یا لوازمہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر وہ مطالعے سے اپنا رشتہ توڑ لیتے ہیں تو جس طرح کنویں سے رفتہ رفتہ پانی کے بجاے کیچڑ نکلنے لگتا ہے، بلا مطالعہ انسان بھی اس کیفیت سے دوچار ہونے لگتے ہیں۔ ایک علمی تحریک سے وابستہ لوگ اگر مطالعے سے دُور ہوجائیں گے اور اپنے رویوں کے اندر اس کی کوئی اہمیت و مقام نہیں پائیں گے، تو ڈر ہے کہ وہ پھرایک ایسے مقام پر کھڑے ہوں گے کہ جہاں اپنی تحریک کی صحیح اور مؤثر ترجمانی نہ کرسکیں گے، اورنہ اس کو بیان کرسکیں گے کہ ہماری تحریک کیا ہے؟
جماعت اسلامی کے ہر ذمہ دار اور کارکن کے بارے میں حسن ظن کی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ مطالعے کا خوگر ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، معاشرے سے پرانی اقدار رخصت ہوتی جارہی ہیں اورنئی اقدار جنم لے رہی ہیں ۔ایسے عالم میں لوگوں کو مطالعے کی طرف متوجہ کرنا فی الحقیقت ایک مشکل کام ہے۔ اگر انسان مطالعے کا خوگر ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ہر رطب و یابس پڑھ جاتا ہے، جو رسالہ ہاتھ آیا اس کو چٹ کر لیا، جو مضمون دیکھا اس پر اول تا آخر نظر ڈال لی۔ پڑھتے پڑھتے بالآخرانسان کے اندر ایک ذوق بھی پیدا ہونے لگتا ہے کہ وہ کوئی کتاب اٹھاتاہے، کوئی رسالہ اس کے ہاتھ آتا ہے تو چند لمحوں کے اندرورق گردانی اور اس کی سرخیاں دیکھ کر اندازہ کر لیتا ہے کہ یہ میرے کام کی چیزہے یا نہیں۔میں جن مقاصد، زندگی کے جس نصب العین، اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے جو زادِراہ جمع کررہاہوں اس میں یہ مفید اور معاون ہے یانہیں ۔ اگر مفید ہوتا ہے تو وہ اس سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے، اور جب دیکھتا ہے کہ اس کے لیے نفع بخش نہیں ہے تو اس کو چھوڑدیتاہے۔ اس کے نتیجے میں صرف انھی چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جواس کی کارکردگی میں بہتری اور جوش و خروش اور وابستگی میں بڑھوتری کا ذریعہ بنے۔
جماعتی مجالس میں اب غیر فعال کارکن کا ذکر ہونے لگا ہے، اورکہیں کہیں ارکان کے بارے میں بھی یہی کہا جانے لگا ہے۔ غیر فعال بھی اور کارکن بھی، حالانکہ کارکن تو نام ہی میدان کے اندر موجود متحرک، فعال اور بیدار شخصیت کا ہے۔ یہ متضاد اصطلاح اس لیے سنائی دیتی ہے کہ بہت سے لوگ ہنگامی طور پر بہت کام کرتے ہیں جس کی قدر کرنی چاہیے،اور بعض اوقات وہ معمول کے کارکن سے زیادہ حصہ بٹاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر پرجوش اور متحرک دکھائی دیتے ہیںاور کچھ کرگزرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایسے غیر فعال کا رکنوں کی ایک فہرست بنائی جائے جنھوں نے ہنگامی طور پر بہت کام کیا مگر جماعت اسلامی ان کے جسم و جان اور ان کی سوچ و فکر کے اندراُتار ی نہ جا سکی، تو اس کی بڑی وجہ یہی نظر آئے گی کہ وہ بنیادی لٹریچر جو فی الحقیقت جماعت اسلامی جیسی انقلابی تحریک کی اساس ہے، اس کے مطالعے کی طرف ان کی طبیعت کو مائل نہ کیا جا سکا اور وہ اس فکر کو حرزِ جاں نہ بنا سکے جو جماعت اسلامی کی بنیاد ہے۔
جماعت اسلامی کی تنظیم میںضلع سب سے اہم اکائی ہے۔ اس کی فعالیت ،سرگرم اور پُرجوش ہونا پورے ملک کے اندر جماعت کی تنظیم کا متحرک ہونا شمار ہوتا ہے ۔اس کی اچھائیاں اور خوبیاں پورے ملک کے اندر جماعت کی اچھائیاں اور خوبیاں تصور کی جاتی ہیں، اوراس کی کمزوری اور کوتاہی پوری جماعت کی کمزوری اور کوتاہی کے مترادف ہے۔ اضلاع کی اس اہمیت کے پیش نظر وہاں سب سے اہم کام مناسب اور سرگرم ٹیم بنانا ہے۔ جب کوئی فرد ذمہ داری کا بار اٹھاتا ہے، تو اسے اپنا ہاتھ بٹانے ، اپنی صلاحیت کی کمی کو دُور کرنے، اور اپنے بعض معاملات کو زیادہ بہتر طریقے سے انجام دینے کے لیے ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کس فرد میںکیا صلاحیت اور کیا استعداد ہے، اورکس طریقے سے وہ تنظیم اور جماعت کے کام آسکتاہے اور معاملات میں دل چسپی لے کر ہاتھ بٹاسکتا ہے۔ لیکن ٹیم کے نام پرگروہ بنا لینا، اپنے ہم نواو ہم خیال اکٹھے کر لینا، ایسے لوگوں کو جمع کرلینا جوہاں میں ہاں ملاتے ہوں،درست نہیں ہے جس سے بچنا اولیٰ ہے۔ انسانوں کی تنظیم اور اکائی میں ہمیشہ اس بات کی گنجایش رہی ہے کہ اس حوالے سے کوئی کمزوری اپنا راستہ بنالے لیکن اگر ذمہ داران جماعت اپنے رویوں پر از سر نو غورکریں اور تنظیم کواس حوالے سے صاف اور روشن بنادیں، تو پھر لوگوں کے لیے کام کرنا آسان اور سہل بھی ہوجائے گا اوران کے ذوق و شوق میں بھی اضافہ ہوگا، نیز بہترین صلاحیت کے حامل ساتھی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کرسکیں گے۔
بطور تنظیم، جماعت اسلامی کی ایک کمزوری حالیہ انتخابات میں ایک دفعہ پھر ظاہر ہوئی ہے۔ جماعت کے پاس کارکنان اوراس کے جلو میں چلنے والے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ فہم قرآن کے اجتماعات میں ۵۰،۶۰ ہزار لوگ آتے ہیں اور بڑے شوق سے جماعت کی دعوت اور ذمہ داران کی گفتگو سنتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں جہاں خواتین کے ووٹ دینے نہ دینے کی بحث ہوتی ہے اور جہاں لوگ عورتوں کو گھروں سے باہر نہیںجانے دیتے، وہاں فہم قرآن کے اجتماعات میں ہزارہا ہزار خواتین شامل ہوتی ہیں،اوررات کے وقت بھی شریک ہوتی ہیں اور دن کو بھی، کیونکہ لوگ اس کو ثواب اور دین کاکام سمجھتے ہیں۔ جماعت نے ہزارہا ہزار بلکہ لاکھوں لوگوں کو پورے ملک کے اندرفہم قرآن کے حوالے سے جمع کیاہے۔ یہی معاملہ الخدمت فائونڈیشن کا ہے کہ ہم لاکھوں لوگوں تک الخدمت کے ذریعے پہنچے ہیں اور بلا تفریق مسلک و مذہب اور زبان، ان کی خدمت کی ہے۔ان دونوں صورتوں میں رجوع کرنے والوں کو ووٹ کی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔یہ اگر ووٹر نہیں بن سکے تو اس میں ان کے بجاے تنظیم اور اس کے کارکنوں کی کمزوری کا دخل ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اجتماعات میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں ، جماعت اور اس کی قیادت سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں مگر ووٹر نہیں بن پاتے ۔ انتخابات سے پہلے کے تین مہینوں میں جماعت نے جگہ جگہ بڑے بڑے جلسے کیے، ان میںحاضری کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔لیکن وقت اور حالات نے بتایاکہ ان جلسوں میں آنے والے لوگ جنھوں نے اپناوقت اور پیسہ صرف کرکے ہمارا موقف سنا، مقررین اور انتخابی نمایندوں کودیکھا ، اس پر قائل نہ ہو سکے کہ ووٹ بھی ہمیں دیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رابطۂ عوام میں تسلسل نہیںہے ۔ ایک رابطے کے ذریعے لوگ اجتماعات میں آجاتے ہیں،سیلاب و زلزلہ زدہ علاقوں میں ہماری خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، تعلیم و صحت اور معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں ہم سے مستفید ہوتے ہیں،مگر جماعت کا کارکن انھیں اس درجہ ہم نوا نہیں بنا پاتا کہ بالآخر وہ ہمارا ووٹر بھی بن جائے۔ نچلی سطح تک اس موضوع کو زیر بحث لانا چاہیے کہ ہماری تعریف کرنے والے اورمعاشرے میں ہمارے ہم نوا لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارے موقف سے اتفاق کرنے والے بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ہمیں پسند کرنے اور ہمارے حق میں دعائیں کرنے والے بھی کم نہیں ہیں، اگر یہ سب لوگ ووٹر بن جائیں تو وہ انقلاب جو بہت دُور نظر آتا ہے بہت پہلے برپاہوسکتا ہے۔
آنے والے بلدیاتی انتخابات پھر اس کا موقع فراہم کرنے والے ہیں کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اور کارکن بہتر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں آئے اور اس حمایت کو سیاسی قوت میں بدلنے کی بھرپور کوشش کرے۔ سیاسی و بلدیاتی دائرے کے اندر فعال ہونا کئی حوالوں سے جماعت کی بھی ضرورت ہے اور عوام کی بھی۔اس میں کم سے کم کامیابی پیش نظر رہنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں پانچ سیٹوں میں سے ہمیں ایک سیٹ مل سکتی ہے وہاں دو کی کوشش نہ کریں، ورنہ وہ ایک بھی ہاتھ سے جاسکتی ہے اور ماضی میں اس طرح کے تجربات سے ہم گزر چکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں سب سے اہم رول اضلاع کا ہے۔ صوبوں کا رول اس میں ثانوی ہے کیونکہ ان کو معلوم نہیں کہ کس جگہ پر کیا حالات ہیں ۔ اضلاع کو یہ بات بہتر طور پرمعلوم ہے کہ کون کون سے مقامات ایسے ہیں جہاں انھیں زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
بلدیاتی انتخاب ایک بہترین موقع ہے کہ نوجوان قیادت کو سامنے لایا جائے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نوجوان زیادہ متحرک اور پرجوش ہوتے ہیںاور کم و قت میں زیادہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی نوجوان تحریکوں کے لیے سرمایہ ہوتے ہیں۔ نظم جماعت کو بلدیاتی انتخابات میںایسے نوجوانوں کو سامنے لانا چاہیے ، ان کے مشوروں اور تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور انھیں ضروری آزادیِ عمل دینی چاہیے تاکہ وہ تحریک کے لیے بہترین نتائج دے سکیں۔ اس تناظر میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ نوجوانوں کا سب سے بڑا اورمنظم گروہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہے۔ ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے ہو، جمعیت طلبہ عربیہ سے ہو، شباب ملی سے ہو یا کسی بھی دوسری برادرتنظیم سے۔ یہ نوجوان اس ملک کے اندر انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن و سنت کی بالادستی اور شریعت کا نفاذ، حکومت الٰہیہ کا قیام اور زندگی کے تمام دائروں میں اسلام کے احکامات اور اس کی ہدایات پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بحیثیت ذمہ دار اور کارکن یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ نوجوانوں کو بامقصد بنائیں، زندگی کے نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا عنوان ان کے دل و دماغ میں سجائیں اور زندگی اس ملک میں جن راہوں سے گزر رہی ہے، جتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہے ، حکمرانوں کے اللے تللے، لوٹ مار اور کرپشن کے کلچر کا سامنا ہے، اس کا مقابلہ نوجوانوں کی طاقت اور صلاحیت سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو متحرک، فعال اور بیدار کر کے جدوجہد کاخوگر بنایا جائے۔
ویسے تو بالعموم لیکن بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر بالخصوص ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جماعت سے وابستہ ہر فرد کو کم از کم ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حد تک حکمران جماعت کا منشور اپنی جیب میں رکھنا چاہیے تاکہ لوگوں کوبتایا جا سکے کہ انھوں نے اپنے منشور میں لکھا یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے ،کہا یہ تھا کہ کشکول توڑ دیا ہے ،اور اپنی شرائط پر قرضہ لیں گے لیکن کام اپنے منشور سے بالکل مختلف کر رہے ہیں۔جس پارٹی کو یقین ہوکہ وہ الیکشن جیت رہی ہے تووہ اچھے ہوم ورک کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ مسلم لیگ ن کویہ معلوم تھا کہ الیکشن جیتتے ہی اسے بجٹ لانا پڑے گا اور اگر تیاری نہ ہوئی تو ٹیکسوں کی بھرمار کرنی پڑے گی۔حکومت کی پانچ ماہ کی کارکردگی سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ منشور ہاتھی کے دانت کی مانند تھا جن کا معاملہ اس پہ ہوتا ہے کہ دکھانے کے اور کھانے کے اور ، یا دعوے کے مطابق ان کے پاس کوئی ٹیم نہیں تھی جو اس پر عمل درآمد کے لیے سوچ بچار کرتی اور کام کر کے لوگوں کو مشکلات سے بچاتی۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر قرض لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھتی چلی جائیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہواور قومی ادارے نجکاری کا شکار ہوتے چلے جائیں۔ اس تناظر میں مسلم لیگ ن کے منشور کے حوالے سے جماعت اسلامی کے ہر ذمہ دار اور کارکن کا اچھا ہوم ورک ہونا چاہیے۔ مناظرے یا جھگڑے کی کیفیت نہ ہو لیکن یہ بات فیلڈ میںبہ تکرار، بصداصرار اور ایک بار نہیں سوبار کہنی چاہیے کہ انھوں نے عوام سے جو وعدے کیے تھے، انھیں پورا نہیں کیا ہے۔
وقت نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ الیکشن سے احتساب نہیں ہوتا۔ بعض لوگ یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں کہ انتخاب ہی سب سے بڑا احتساب اور فیصلہ کن امر ہے، مگرمشاہدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جو آتا ہے وہ چوروں کے بادشاہ، علی بابا کا رُوپ دھار لیتا ہے اور چالیس چوروں پر سوار ہوکر حکمرانی کرتا ہے۔ عوام الناس کو یہ بتانا چاہیے کہ چوروں کو ووٹ دے کر قسمت نہیں سنور سکتی، مستقبل تابناک اور روشن نہیں ہوسکتا، حالات میں کوئی بہتری پیدا نہیں ہوسکتی۔چوروں کو ووٹ دے کر اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اورکرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا، تو اسے بسم اللہ کے اس گنبد سے باہر نکلنا چاہیے۔ ان بنیادی حقائق کی روشنی میں ہرصوبے میں وہاں کے حالات کے مطابق انتخابی حکمت عملی اور ووٹر کو مخاطب کرنے کے لیے صحیح بیان تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ملکی، صوبائی اور مقامی تمام حالات اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی انتخابی مہم کو مرتب اور منظم کرنا ہوگا۔
جماعت اسلامی نے زمام کار کی تبدیلی کے لیے جمہوریت اور انتخاب کا راستہ اختیار کیا ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے عمومی طور پر دنیا بھر میں ایک قاعدہ کلیہ اور اصول بیان کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو چلانے کے لیے سیکولرازم اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود جمہوریت۔ اگر سیکولرازم نہ ہو تو جمہوریت ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت کا اپناکوئی مذہب نہیں ہے کہ اکثریت تو مذہب نہیں ہواکرتی۔ اسی حوالے سے ہمارے ہاں بھی یہ بات کہی جارہی ہے کہ فیصلہ سازی شریعت کے بجاے اکثریت کے حوالے کر دی گئی ہے۔پاکستان کے تناظر میں یہ ایک بڑامغالطہ ہے۔ اسی لیے مثال دینی پڑتی ہے کہ شراب کی حرمت اوراس پر پابندی کے خلاف اگر اکثریت فیصلہ کرتی ہے توہم اسلامی جمہوریت کے قائل ہیں، اس کو تسلیم نہیں کریںگے۔ لیکن اس کو دوسرے طریقے سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جماعت اسلامی کی حیثیت پہلے دن سے اسٹریٹ پاور کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ جن چیلنجوں کا مقابلہ کیا گیا اور اہداف کا حصول ممکن ہو پایا ، اور مختلف حوالوں سے پارلیمنٹ نے جو فیصلے کیے، مثلاً قرار داد مقاصداورختم نبوت، تو اس کے پیچھے ایک تحریک اور سٹریٹ پاور تھی،اوراس میں جماعت اسلامی پیش پیش تھی۔ اگر نظام مصطفیؐ کی تحریک کو لوگ سب سے مضبوط اور بڑی تحریک قرار دیتے ہیں تو اصلاً وہ اسٹریٹ پاور تھی جس نے اس کو یہاں تک پہنچایا۔ پاکستان قومی اتحاد کاقیام نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہیں تھا۔ اس کے ابتدایئے، تمہید اور اہداف میں کہیں نظام مصطفیؐ کا ذکر نہیں ملے گالیکن کیونکہ عوامی سطح پر ایک بڑی تحریک تھی اور جماعت اسلامی ، اس کا کارکن اور اس کی تنظیم اس میں پیش پیش تھی تو وہ نظامِ مصطفی ؐؐ کی تحریک بن گئی۔اور کسی کے اندراتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ سوال کر سکے کہ یہ نظامِ مصطفیؐ کہاں سے آگیا۔
ہم جمہوریت اس لیے چاہتے ہیں کہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہہ سکیں۔ آنے والے دنوں میں یہ مسائل پھردرپیش ہوں گے۔ جولوگ کہتے ہیں کہ سیکولرازم کے بغیر جمہوریت اور حکومت نہیں چلتی، وہ نت نئے مسائل سامنے لاتے رہتے ہیں۔ جیسے آج کل یہ بات بہت زیر بحث ہے اور کچھ عرصے تک اسمبلیوں کے اندر آجائے گی کہ سزاے موت کوختم کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات خلافِ شریعت ہے۔ جماعت اسلامی کا کارکن اس کو شریعت کے نقطۂ نظر سے میدان عمل میں لے کر آئے کہ ہمیں کسی کو مارنے سے دل چسپی نہیں ہے لیکن شریعت کی سزائوں کا تحفظ مطلوب ہے، تو بالکل ایک دینی تحریک اُٹھ کھڑی ہوگی اور پھر اس میں سزاے موت کا معاملہ ہی نہیں بلکہ پورا دینی ایجنڈا شامل ہوجائے گا۔
شریعت اور جمہوریت کے تعلق کی نسبت سے ایک بنیادی بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ۹۵ فی صدی مسلمان ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھتا ہے اور اسے اپنی زندگی کے قانون اور ضابطے کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے، اور پاکستان کا دستور اس بنیاد پر قائم ہے کہ ریاست اور معاشرہ دونوں کے لیے اسلام رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے اور قانون سازی کا منبع قرآن و سنت ہیں۔ شریعت کوئی باہرسے لائی جانے والی چیز نہیں بلکہ جمہور کا اصل منشا اور مقصود اور ان کے دل کی آواز ہے۔ اور یہی چیز اسلامی جمہوریت کو سیکولر جمہوریت سے ممتاز کرتی ہے کہ جمہور نے ریاستی نظامِ کار کے لیے اپنی آزاد راے سے اپنے ایمان اور جذبات کے مطابق جو دستوری فریم ورک بنا دیا ہے، اب قانون سازی اسی فریم ورک کے مطابق ہوگی اور یہی حقیقی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ ان میں کوئی تضاد یا تناقض نہیں۔ سیکولر لابی جمہوریت کے نام پر جمہور کے اصل عقائد، احساسات، خواہشات اور تمنائوں کے برعکس ایک درآمد شدہ نظام اقدار ان پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اور اگر اس کے لیے پارلیمنٹ کے ادارے کو بھی دستور کی واضح دفعات اور دستور کی اسپرٹ کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر جمہور کے لیے اپنے مقاصد اور احساسات کو مؤثر بنانے کے لیے اسٹریٹ پاور کا ہتھیار ہے، جو دنیابھر میں جمہوریت کا ایک اہم ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔
یہ بھی جمہوریت ہی کا ایک خوش گوار پہلو ہے اور ہمارے نزدیک اس کی قبولیت کی ایک اہم وجہ بھی یہ ہے کہ اس سے ایک آزادی میسر آتی ہے اور حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کے عنوانات کہکشاں کی طرح دُورتک سجے نظرآتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی کے پاس وہ اسٹریٹ پاور موجود ہے جو معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے اور اس حقیقت کو ہمارے مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ سٹریٹ پاور اسے برادرتنظیموں سے بھی میسرآتی ہے اور جب عوام کے مسائل سامنے آتے ہیںتوجماعت اسلامی کے نہایت بزرگ اور ضعیف کارکن بھی جو ان ہوجاتے ہیںاور جوانوں سے زیادہ تحرک اور جوش و سرگرمی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ نیز وہ عوام بھی اس میں متحرک ہوجاتے ہیں جو الیکشن کے وقت چاہے برادریوں اور روایتی سیاسی وفاداریوں کی گرفت میں ہوں لیکن اہم قومی ایشوز پر دل کی بات کہنے اوراس کے لیے کٹ مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی تحریکوں کی دو روزہ عالمی کانفرنس کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ تحریکات کی قیادت میں اس اعتبار سے مکمل طور پر یکسوئی پائی گئی کہ اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے اسلامی تحریکوں کو پُرامن جدوجہد کرنی چاہیے اور اس کے لیے جمہوری راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے شریعت کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ کسی پر کوئی چیز تھوپ دی جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن پر امن جدوجہد اور اپنی دعوت کی بنیاد پردل و دماغ مسخر کرکے لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانا،انھیں اپنے جلو میں لے کر چلنا اور پھر اس کے مطابق ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔ کانفرنس میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جنھوں نے اپنے سیکڑوں اور ہزاروں ساتھیوں کی لاشیں اٹھائی ہیں اور اپنی آنکھوںسے جوانوں کا خون بہتے اور بوڑھوں،عورتوں اور بچوں پر ظلم ہوتے دیکھا ہے لیکن انھوں نے بھی یہ بات کہی کہ اسلامی تحریکوں کا راستہ پُر امن ہے۔
نہ شریعت بندوق کی نالی کے ذریعے قائم ہوتی ہے اور نہ امن۔ ریاست کے لیے قوت کے استعمال کا ایک مقام اور حق ہے لیکن یہ اختیار بھی حق اور ضابطے کا پابند ہے۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قرآن کا واضح حکم ہے اور یہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اور تاریخ کا سبق ہی یہ ہے کہ جو تبدیلی بندوق کے ذریعے آتی ہے، اسے باقی رکھنے کے لیے بھی بندوق ہی کی کارفرمائی ضروری ہوتی ہے اور اس طرح انسانی معاشرہ اور ریاست بندوق کے اسیر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرے کے لیے ہدایت اور اصلاح کے اس راستے کی ضد ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبیؐ کے ذریعے انسانیت کی ابدی ہدایت کے لیے ہمیں دیا ہے اور بات بھی بہت واضح ہے۔ ہماری دعوت اور تحریک پُرامن اس لیے ہے کہ جن کے پاس پیغام ہو، وہ پُرامن ذرائع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اسلام کی دعوت مقبول ہے اورقرآن و سنت پر مبنی پروگرام لوگوں کے دل کی آواز ہے۔ اگر اسلامی تحریکیں اپنے اندر، لوگوں کے دلوں پر دستک دینے کی صلاحیت پیدا کریں، اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو اپنا ہم نوابنانے کی کوشش کریں، اور اپنے کردار سے یہ ثابت کریں کہ وہ قرآن و سنت کی فرماںروائی اور عدل و انصاف کے نظام کا نفاذ چاہتی ہیں،تو عوام الناس ان کا ساتھ دیں گے۔
نائن الیون کے بعد اہل مغرب ، مغربی تہذیب اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام نے اسلام کو فنا کے گھاٹ اتارنے، اس کی قیادت کو چارج شیٹ کرنے اور پوری دنیاکی نگاہ میں اخلاقی طور پر اس کو گرانے اور سیاسی طور پر اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس سے اسلامی تحریکوں کو نقصان پہنچا ہے (اگر اسے نقصان کہا جائے جو اخوان کو مصر میں ہوا ہے یا افغانستان میںہوا)۔لیکن اگر بیلنس شیٹ بنائی جائے تواس نقصان کے مقابلے میں فائدہ زیادہ ہوا ہے۔ اخوان المسلمون سے لوگوں نے براء ت کاعلان نہیں کیا کہ آیندہ اس پلیٹ فارم پر نہیں آئیں گے ، بلکہ وہ جوق در جوق آ رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں اور اخوان نے پوری قیادت کے پابند سلاسل ہونے اور تنظیم پر پابندی لگنے کے باوجود تحرک اور مسلسل احتجاج کی ایک نظیر قائم کی ہے۔
یہی معاملہ بنگلہ دیش کا ہے جہاں پھانسیوں کی سزائیں سن کر لوگوں کے اندربے چینی اور اضطراب پیدا ہوا ہے،مگر جہاں جہاں اسلامی چھاترو شبر ہڑتال کی اپیل کرتی ہے وہاں مکمل ہڑتال ہوتی ہے۔ ہزاروں افراد کے پابند سلاسل کیے جانے کے باوجود گرفتاریوں کے لیے ہر جگہ درجنوں لوگ اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ یہ قوت کہاں سے آئی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ مسلسل جدوجہد ، مقصد کے ساتھ وابستگی اور اس کے لیے پیروں کو غبار آلود کرنے کا نتیجہ ہے۔ چار دانگ عالم میں بنگلہ دیش جماعت کوئی اتنی جانی پہچانی اور لوگوں کے درمیان اتنی مقبول نہیں تھی جتنی اب ہوئی ہے۔ پھانسیوں کی سزا ئیں ہوں یاجیلوں میں جانے کا معاملہ ہو، یا زخموں سے چور لوگ ہسپتالوں کے اندر موجود ہوں، ان تمام نقصانات کے باوجود یہ تحریکیں آگے بڑھی ہیں۔ ان کا راستہ روکنے کے لیے مغرب اور اس کے گماشتوں نے جتنے ہتھکنڈے استعمال کیے وہ سارے ناکارہ ہوگئے ہیں۔ وہ سارے اوزار اور ہتھیار فرسودہ قرارپائے ہیں جو اسلامی تحریکوں کو ذبح کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔
مغرب کی تازہ حکمت عملی یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کو تشدد کی طرف دھکیلا جائے اور اس بات کو ممکن بنایاجائے کہ وہ ردعمل کاشکار ہو کر انتقامی کارروائیوں کی طرف چل پڑیں۔اشتعال، غصے اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں ان کے کارکنان سڑکوں پر آ کرمعاشرے کا نقصان کریں تاکہ اس کے نتیجے میں ان پرگرفت کرنا اورہاتھ ڈالنا آسان ہوجائے اور عوام اور ان کے درمیان بھی بے اعتمادی پیدا ہو جس کے نتیجے میں وہ عوامی تائید سے محروم ہوجائیں۔چاروں طرف سے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، ان کا جینا دوبھر کیاجارہا ہے،ان سے سارے حقوق چھینے جا رہے ہیں، دیوار کے ساتھ لگاکربند گلی کا اسیر بنایا جارہا ہے، تاکہ وہ اپنا نام ہی بھول جائیںاور اپنی شناخت ہی گم کربیٹھیں ۔ کل وہ بنیاد پرست تھے، پھرمتشدد قرار پائے، اور پھر دہشت گرد ، اب کوئی اور بھی مرحلہ آجائے گا۔ بین الاقوامی سطح پر یہ بات توطے کر لی گئی ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے لیکن دہشت گرد ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے ۔ اگر مسلمان نہیں ہے تووہ دہشت گرد نہیں ہے۔ سارے رویے اور ساری کوششیں اس کی غمازی کرتی ہیں۔ امریکا میں کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ ایک آدمی نے درجنوںلوگوں کوقتل کردیا، لیکن کبھی ایسے آدمی کودہشت گرد نہیں کہاگیا۔ اگر وہ امریکی ہے، ان کا ہم مذہب اورہم پیالہ و ہم نوالہ ہے، توکہا جاتا ہے کہ وہ نفسیاتی مریض تھا اور ردعمل میں اس نے یہ کیا،اور پھر ایک دو دن کے بعد ہی وہ خبر غائب بھی ہوجاتی ہے۔ اور اگر ایسا کرنے والا مسلمان ہے تو پہلے ہی لمحے سے بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ دہشت گرد نے یہ کام کیا ہے، اور پھر تبصروں اور تجزیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
اسلامی تحریکوں میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے اور یہ خود ان تحریکات کی کامیابی کی علامت ہے ۔اسی طرح خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو دعوت کے ابلاغ کے لیے ہر وقت بے چین اور مضطرب رہتی ہے۔ جوانوں کی جوانی اورخواتین کے قوت و طاقت سے سرشار جذبوں اور رویوں کی قدر کرتے ہوئے انھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ پُرامن راستہ اپنائیں۔ دعوت و تبلیغ اور دل و دماغ کو اپیل اور مسخرکر کے اپنی قوت میں اضافہ کریں اور اپنے حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔وہ تحریکیں جوپرامن راستوں کو اپناتی ہیں، قاعدے ضابطے کا اپنے آپ کوپابند بناتی ہیں وہ دیر تک اور دُور تک چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بقاکے لیے تحریکوں کا پُرامن رہنا ضروری ہے۔ تشدد کا راستہ اپنانے سے مقاصد دم توڑ دیتے ہیں اور فنا کے گھاٹ اُترجاتے ہیں، اور تحریکوں کے اندر غیر مطلوب چیزیں در آتی ہیں ۔
امریکا اور مغرب کے موجودہ ہتھکنڈے ایک ہاری ہوئی جنگ جیتنے کے حیلے بہانے ہیں ، وہ جنگ جو میدان جنگ کے اندرافغانستان میں ہاری گئی ہے،وہ جنگ جو تہذیب وتمدن ، معاشرت اور خاندانی نظام اور اخلاقیات کے دائرے میں الحمدللہ مسلمانوں نے بڑی حد تک جیتی ہے، اس فتح کو چھین لینے اور اس کو فراموش کردینے کی تمام تدبیریں کی جا رہی ہیں۔ یہ ہمارے شوق کی بات نہیں کہ امریکا کو للکارا جائے اور اسے دیس نکالا دینے کی بات کی جائے۔ ہمیں امریکا سے کسی خاص سطح پرکوئی دشمنی بھی نہیں ہے اور امریکا میں بسنے والے کروڑوںلوگوں سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے ۔مگر ہمارے تہذیب و تمدن سے انکار ،اور اپنے رویوں اوراقدامات پر غیر ضروری اصرار کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک وہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں، ہمیں دراصل اس سے اختلاف ہے۔ حالات سے اسی واقفیت کے نتیجے میں جماعت اسلامی اپنی پالیسیاں بناتی اور ’گوامریکا گو‘ تحریک چلاتی ہے جو دراصل ایک نظریاتی اور تہذیبی کش مکش کی علامت ہے۔
اس تناظر میں جماعت کے ذمہ داران اور کارکنان کو غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اگلے سال کے اوائل میں امریکی فوجوں کو افغانستان سے جانا ہے(اگرچہ امریکا یہ اعلان کر رہا ہے کہ اس کی چند ہزار فوج افغان قیادت کے تحفظ کے لیے تربیت کے نام پر افغانستان میں رہے گی)۔ امریکا کے جانے کے بعدجو بھی امریکا کی پسند کے حکمرانوں کا تحفظ کرے گا، اس کا حشر اس سے بھی زیادہ برا ہوگا جتنا امریکا کے ہوتے ہوئے ہوا ہے۔اس بات کی اہمیت کو سمجھنا اور عوام الناس تک پہنچانا چاہیے کہ خطے پر امریکی اور ناٹو فورسز کا قبضہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ اس خطے کے وسائل پر نظر رکھی جائے،اور ان کو بالآخرامریکی خواہش کے مطابق قابو میں لایا جائے، بلکہ یہ خطہ پوری دنیا میں سب سے اہم خطہ ہے کیونکہ یہاں امریکا کے نئے عالمی نظام کی سب سے زیادہ مزاحمت ہے۔یہاں پاکستان، ایران اور افغانستان موجود ہیں، اور متحرک اسلامی تحریکیں موجود ہیں۔ یہاں چین ہے، مزاحمت کرتی ہوئی وسطی ایشیا کی ریاستیں ہیں۔
ایران کے حوالے سے یہاں ایک بات محض افہام و تفہیم کے لیے کہنی ضروری ہے اور اسی بنیاد پر ہم اپنے ارباب حل و عقد سے یہ بات کہتے ہیں کہ امریکا کی اہمیت کے پیش نظرہم اس سے لڑائی نہیں لڑنا چاہتے،اس کی دشمنی نہیں مول لینا چاہتے،لیکن اس پوری پالیسی پر نظرثانی کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ ایران کی صورت میں ایک مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ پچھلے ۱۲ سال میں عراق اور افغانستان کے بارے میں امریکا اور ایران کی پالیسیاں ایک جیسی ہیں،اگرچہ ابھی یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اس میں زیادہ فائدہ کس کو ہوا ہے؟عراق میں سنی حکومت کے بدلے میں شیعہ حکومت قائم ہوگئی ہے۔ افغانستان میں ایک دیوبندی یا مذہبی حکومت تھی، اس حکومت کو ہٹا یا گیا تو ایران کے مقاصد پورے ہوئے۔ گویا ایران اور امریکا نے یہ بتائے بغیر کہ دونوں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، اپنی خارجہ پالیسی کو اس طریقے سے ترتیب و تشکیل دیا کہ ایک نے دوسرے کو فائدہ پہنچایا اوردونوں نے اپنے دشمن کو نقصان پہنچایا ۔ پاکستان کو بھی امریکا کے ساتھ اپنے فوائد سمیٹنے،اہداف حاصل کرنے اور اپنی ترجیحات کے مطابق معاملات طے کرنے کے لیے ایک نئی خارجہ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ آزاد خارجہ پالیسی وہی ہوتی ہے جو قومی مقاصد کی آبیاری کرے اورملک و ملت کے لیے سودمند ثابت ہو۔ پاکستان ابھی تک اس خطے میں اس خارجہ پالیسی پر عمل کر رہا ہے جو دراصل امریکی مفادات کی نگران ہے اور امریکی ترجیحات کے مطابق کام کرتی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی ہے۔ اس کا مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے اور اتفاق راے سے فیصلے ہوئے ہیں لیکن اس میں بنیادی بات یہی ہے کہ دہشت گردی کا آغاز تو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے ہوا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا حصے دار بنا ہواہے اور ضرورت سے زیادہ جس میں دل چسپی لے رہاہے، اگرماضی کی طرح ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کا یہ کردار جاری رہتا ہے، امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس شیئر کرتے ہیں، ڈرون حملوں کو برداشت کرتے ہیں جو وار آن ٹیرر کاہی ایک عکس ہیں۔ اس کے لیے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جاتی ہے ، حساس ائیرپورٹ اس کے حوالے کیے جاتے ہیں، انٹیلی جنس شیئر کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین سے ہوتے تھے، اب باہر سے ہو رہے ہیں، مگر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی معاونت کے بغیر یہ حملے باہر سے ہوسکیں۔ باہر بیٹھ کر یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کہاں حملہ کرناہے جب تک کہ مقامی طور پر انٹیلی جنس فراہم نہ کی جائے۔دہشت گردی کے اس مسئلے کو آل پارٹیز کانفرنس جس حدتک ایڈریس کرسکتی تھی اس نے کیا ہے اور یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ ڈرون حملے ختم کیے جائیں اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جان چھڑائی جائے۔ اگر یہ دونوں کام نہیں ہوپاتے بلکہ ایک کام نہیں ہوپاتا تو دوسرا بھی نہیں ہوگا اور دوسرا نہیں ہوگا تو دہشت گردی کی ایک فضا موجودرہے گی۔
اس مسئلے کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے کہ مغربی قوتوں اور بھارت کا اس پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں انارکی و اشتعال کی فضاپیدا کر کے ایک ناکام ریاست کی صورت پیدا کی جائے، اورانتشار کویہاں تک پہنچادیاجائے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرا م کے غلط اور غیر ذمہ دار ہاتھوں میں جانے کا واویلا کر کے اسے بین الاقوامی کنڑول میں لینے کی کوشش کی جائے ۔ملک بھر میں جگہ جگہ جوحملے ہو رہے ہیں، ممکن نہیں ہے کہ سارے مقامی لوگ ہی کررہے ہوں ۔خودآئی ایس آئی اور ایف سی کے عہدیدار اور موجودہ و سابق حکمران یہ بیانات دے چکے ہیں کہ افغانستان میں بیٹھ کر بھارت،بلوچستان میں پیسہ اورہتھیار کی تقسیم کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کر رہا ہے ۔
بھارت کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں ایک نئی اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت تھی لیکن حکومت اس حوالے سے بھی قومی توقعات پر پورا نہیں اتری ہے۔ میاں نوازشریف بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کے لیے بے چین اور مضطرب ہیں ۔ بھارت کے ساتھ دوستی کے بیانات دے کر اپنے دل و دماغ کی تشفی کرتے اور کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں ۔ بھارت سے دوستی کا راگ الاپنا کشمیریوں کے ساتھ دشمنی کا اعلان کرنے کے مترداف ہے۔ حکمرانوں کی بھارت کے ساتھ وارفتگی کا یہ عالم اس کے باوجود ہے کہ پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے اور تجارت کے نتیجے میں پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بھارت کی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی اور جو کارروائی وہ سرحد کے ہونے سے کرسکتا ہے اس سے محروم ہے، یہ درجہ ملنے کے بعد پاکستان کے اندراس کی دخل اندازی میں اضافہ ہوجائے گا۔ وہ افغانستان میں بیٹھ کر افغانستان کو بھی کنٹرول کرنا چاہے گا اور چین کوبھی اس کی حدود میں رکھنے کے منصوبے پر عمل کرے گا۔
بھارتی صدر، وزیراعظم اورفوجی جرنیل مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے اندر دہشت گردی آسمان سے نہیں ٹپکتی بلکہ پاکستان سے آتی ہے۔ حکومت ِ پاکستان نے اس طرح کے الزامات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کوئی یاد نہیں دلاتا کہ بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو دہشت گردی کے اندر خود کفیل ہے اور اسے باہر سے کسی دہشت گرد یا دہشت گردی کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت میںدرجنوں علیحدگی کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیںجوپوری کی پوری ٹرین اغوا کر لیتی ہیں۔ ایسے واقعات جن میں انگلی پاکستان کی طرف اٹھائی جاتی ہے، ان کے بارے میں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساراان کا اپنا کیا دھرا ہے، چاہے وہ سمجھوتا ایکسپریس کا معاملہ ہو یا بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا۔ خود ان کے اپنے لوگ گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان کو مورد الزام ٹھیرانے اور اس پردہشت گردی کا ملبہ گرانے کے لیے یہ کام ہم نے کیا ہے۔ پاکستان کو مذاکرات کی میز پر یہ بات کرنی چاہیے کہ دہشت گردی بھارت کے اندربھی بھارت ہی سے ہوتی ہے اورپاکستان بھی اس کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ جہاں ایک وزیراعلیٰ اور مستقبل میں وزارت عظمیٰ کا دعوے دارمسلمانوں کا قتل عام کرتا ہے، وہاں دہشت گردوں کی کمی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اقلیتیں اتنی غیر محفوظ نہیں ہیں جتنی بھارت میں ہیں، چاہے وہ پارسی اور عیسائی ہوں یا سکھ اور مسلمان۔ وہ تہہ تیغ کیے جاتے ہیں، مستقبل سے نااُمید اور مایوس کیے جاتے ہیں اور زندگی کے تمام دائروں کے اندر دیوار سے لگائے جاتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ اس کی زبان میں بات کرنے کے بجاے میاں نوازشریف اور حکومت پاکستان نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے لیے منت سماجت کا رویہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے من موہن سنگھ کوبرتری و بالادستی حاصل رہی ہے ۔ اس نے نہ صرف تمام ایشوز پر بھارتی مؤقف کو مضبوطی سے پیش کیابلکہ کھل کر کہا کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ میاں نواز شریف بالعموم یہ بات کہتے ہیں کہ اٹل بہاری واجپائی کی پاکستان آمد پرجو معاہدہ ہوا تھا، وہیں سے بات دوبارہ شروع کی جائے گی۔ اس کو انھوں نے ملاقات سے پہلے بھی دہرایا مگرمنموہن سنگھ نے اسے بالکل درخور اعتنا نہ سمجھا۔ میاں صاحب کی جنرل اسمبلی کی تقریر بھی تضادسے بھرپور تھی۔ انھوں نے ایک طرف یہ کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہیے، وہاں یہ بھی کہا کہ واجپائی کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا، مذاکراتی عمل کا آغاز وہیں سے کیا جائے گا حالانکہ واجپائی کے ساتھ معاہدے میں اقوام متحدہ کے کردار اور اس کی قراردادوں کا سرے سے کوئی ذکرہی نہیں تھا، بلکہ مسئلہ کشمیر کوشملہ معاہدے کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ آیندہ دنوں میں یہ تضاد ایک بڑاعنوان بننے جا رہا ہے۔ اوریہ ایک ایسا سیاسی ایشوہے جس کے لیے لوگوں کو متحرک اور بڑے پیمانے پر یکجا اور جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف جماعت کی سیاسی اور قومی پالیسی کوواضح کرنے کا موقع ملے گا بلکہ حکومت بھی دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہوگی۔
ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جماعت سے وابستہ ہر فرد کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گاہے کوئی ایک نکتہ ایک بڑی سیاسی تحریک میں بدل جاتا ہے۔ وہ نکتے جو تحریک بن کر اُبھرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو اپیل کرتے ہیں ، انھیں اپنے د ل ودماغ میں تازہ رکھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام جماعت اسلامی کے کارکن ہی کو کرنا ہے۔ کوئی اور پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے پاس ایسی اسٹریٹ پاور ہو جو یہ کام کرسکے، جس کے پاس سیاسی فہم ، دُور اندیشی اور فہم و فراست ہو،اوراتنی سیاسی بصیرت و بصارت ہو کہ دُور کی بات سوچ کر لوگوں کواس پر مجتمع کر سکے۔ جماعت کے ذمہ داران اور کارکنان کو ان ایشوز پر آپس میں بات کرتے رہنا چاہیے تاکہ جب کچھ کرنے اور میدان میں نکلنے کا عنوان سجے تو ہمارے لیے کوئی گتھی ایسی نہ ہو جو سلجھائی نہ جاسکے اور کوئی گرہ ایسی نہ ہو جس کو کھولا نہ جاسکے، بلکہ تمام چیزیں ہمارے سامنے دو اور دو دوچار کی طرح واضح ہونی چاہییں۔
مختلف قومی و بین الاقوامی ایشوز پر واضح، دو ٹوک اور جرأت مندانہ کردار ہی جماعت اسلامی کو عوام کی نظروں میں قابل اعتماد بنائے گا۔ جماعت اسلامی کے ہر سطح کے ذمہ داراور کارکن کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن کے ذریعے کامیاب ہونے کی حکمت عملی کا آغاز نئے انتخابات کے بگل بجنے اور برسرِاقتدار حکمران طبقے کی شکست و ریخت سے بہت پہلے دینی، سماجی، رفاہی اور سیاسی دائروں میں عوامی اُمنگوں اور آرزوئوں کا ترجمان بننے سے ہوگا۔ جماعت اسلامی ایک وسیع البنیاد ایجنڈے کے ساتھ زندگی کے لگ بھگ تمام دائروں میں نہ صرف موجود بلکہ متحرک ہے۔ انفرادی طور پر ہمارے پاس ہردائرے میں انسانی اور عوامی خدمت کی اچھی مثالیں موجود ہیں۔ ضرورت ایک شاہ ضرب (master stroke)کی ہے جو ان تمام کاموں کو آپس میں مربوط کرکے بالآخرایک مکمل سیاسی تبدیلی کی صورت میں جلوہ گر ہوگی۔ ان شاء اللہ!
انتخابات کا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا اور ان سطور کی اشاعت تک حکومت سازی کا مرحلہ بھی صورت پذیر ہو چکا ہوگا۔ مستقبل کے لیے نیک تمنائیں اپنی جگہ لیکن پاکستان میں انتخابات کے نتائج ہمیشہ لوگوں کے ذہنوں میں اَن گنت سوالات پیدا کر دیتے ہیں اور بعض اصولی مباحث بھی ازسر نو شروع ہوجاتے ہیں۔
سرفہرست بحث یہ ہوتی ہے کہ انتخابات تبدیلی کا ذریعہ ہیں یا نہیں؟ انتخابات جس طرح منعقد ہوتے ہیں، جس طریقے سے نتائج کا اعلان ہوتا ہے اور جس طرح ان میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں، کہیں ۲ لاکھ ووٹ بھی لمحوں کے اندر گن کر بتا دیے جاتے ہیں اور کہیں چند ہزار ووٹ بھی حتمی نتائج سے اپنے آپ کو ہم کنار نہیں کر پاتے، توبجا طور پر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اس انتخابی عمل کی کتنی اصلاح ممکن ہے ؟ اور سیاسی قیادت کو بروے کار لانے کا یہ طریقہ کہاں تک تبدیلی یا انقلاب کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے ؟ اس مرتبہ بالخصوص الیکشن کمیشن کے غیر جانب دار ہونے اور انتخابات کو منصفانہ کرانے کی اپنے تئیں تمام تر کوششوں کے باوجود جس نوعیت کے انتخابات ہوئے ہیں، اور عوام کی توقعات کا جس طرح خون ہوا ہے انھوں نے ان تمام سوالات کو مزید تقویت فراہم کردی ہے۔
انتخابات پرتقریباً ہر جماعت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ شکایات کا ایک پلندا بار بار الیکشن کمیشن کا نام لے کر دکھایا اور سنایا جارہا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نہ صرف اس دل خراش داستان سے بھرے ہوئے ہیں بلکہ دستاویزی ثبوتوں کا بھی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اسکرین اور صفحۂ قرطاس کی زینت بن گیا ہے اور شکوک و شبہات کے نقوش گہرے کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ پنجاب ہو یا سندھ، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا، لاہور ہو یا کراچی یا دوسرے چھوٹے بڑے شہر، ہرجگہ دھرنے دیے جارہے ہیں اور جماعت اسلامی تو ناقد اورستم زدہ تھی ہی، دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ (ن )، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت سب نے اس احتجاج میں جزوی یا کلی طور پر شرکت کی ہے۔
انتخابات میں الیکشن کمیشن اندھے بہرے کی حیثیت سے کام کرتا ہوا نظر آیا ہے۔ جن معاملات میں اسے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تھا بشمول آرٹیکل ۶۲، ۶۳ پر عمل درآمد، امیدواروں کی سکروٹنی، کراچی میں فوج کی معاونت سے ووٹر لسٹ کی تصدیق،نئی حد بندیوں، پولنگ اسٹیشنوں میں فوج کی تعیناتی ، ری پولنگ اور ری الیکشن کے حوالے سے جن مطالبات ودلائل پر توجہ دینی چاہیے تھی، وہ اس کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آئی۔ فخر الدین جی ابراہیم اور ان کی ٹیم سے توقع تھی کہ وہ نئی روایت قائم کرے گی اور منصفانہ ، غیرجانب دارانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے گی، لیکن اس ضمن میں قوم کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
الیکشن کا عمل شروع ہوا تو آرٹیکل ۶۲، ۶۳ کے نفاذ اور اُمیدواروں کی سکروٹنی کے عمل کو مذاق بنا دیا گیا۔ قومی دولت لوٹنے ، قرضے ہڑپ کرنے ، ٹیکس ادا نہ کرنے ، کرپشن میں ملوث اور جعلی ڈگری والے انتخابی عمل سے باہر نہ کیے جا سکے۔ حد یہ ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے جن جعلی ڈگری والوں کو جیل بھجوایا انھیں بھی آزاد کرکے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ پھر سرمایے کے غیر معمولی استعمال کے ذریعے میڈیا میں اشتہاری مہمات سے الیکشن کمیشن نے آنکھیں بند کرلیں اور امیدواروں کی انتخابی مہم میں پیسے کے بے د ریغ استعمال سے بھی نظریں پھیر لی گئیں، اور یوں قرضہ خور، ٹیکس چور، کرپشن میں لتھڑے ہوئے جعلی ڈگریوں والے اپنی دولت و ثروت کے بل بوتے پر عوام کی امنگوں کا خون کرتے اور الیکشن کمیشن اور اس کے ضابطۂ اخلاق کا مذاق اڑاتے نظر آئے ۔
پھرالیکشن کے دن جس طرح ووٹ کا تقدس پامال کیا گیا، اس نے الیکشن کمیشن کی اہلیت اور انتظامات پربے شمار سوالیہ نشانات لگا دیے۔ اسی لیے فخرالدین جی ابراہیم پر اعتماد کا اظہار کرنے والے بھی چیخ اٹھے کہ کیا ان کی موجودگی میں یہی الیکشن ہونے تھے؟ اور کیا ایسے ہی الیکشن کا ہمیں انتظار تھا؟ یہ الیکشن کہ جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ صاف ستھرے اور شفاف ہوں گے، انتخابی عمل میں یہ تمام اصطلاحیں بے معنی ہو کر رہ گئیں ۔ الیکشن نتائج کے حوالے سے جو واقعات سامنے آئے ہیں،ان کو دہرانے کا فائدہ تو نہیں ہے لیکن یہ الیکشن فی الحقیقت اس قابل نہیں ہیں کہ انھیں پوری طرح اور ہراعتبار سے قابلِ قبول قرار دیا جاسکے، نتائج کے حوالے سے تحفظات میں لازماً مزید اضافہ ہوگا۔ انتخابات کو جھرلو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، انجینئرڈ الیکشن کہا جاتا ہے، ان سب اصطلاحوں کا اطلاق اس الیکشن پر ہوتا ہے۔ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ جیت گئی، عوام ہار گئے، اور اس قدر سلیقے سے سارا کام ہوا کہ کم کم اس کا احساس ہے کہ عوام سے ـ’فتح‘ چھن گئی ہے۔
الیکشن سے قبل ایم کیو ایم کے علاوہ تمام جماعتوں نے متفقہ طور پرمطالبہ کیا تھا کہ کراچی میں ووٹرلسٹوں کی فوج کی موجودگی میں ا ز سرنو تصدیق ہونی چاہیے ۔سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ دیا لیکن الیکشن کمیشن نے اس فیصلے پر سرے سے عمل درآمد ہی نہیں کیا ۔ محض ہاتھی کے دانت دکھانے کے لیے کمیشن نے کچھ کاسمیٹک اور نمایشی قسم کی چیزیں ضرور کیں لیکن فیصلے پر عمل ہوتا نظر نہیں آیا۔نہ فوج کی موجودگی میں ووٹرز کی تصدیق ہوسکی اور نہ حدبندیوں کا معرکہ از سر نو انجام دیا جاسکا۔ محض ڈیکوریشن کے لیے دو چارحد بندیا ںکی گئیں جو نہ قابلِ ذکر تھیں اور نہ قابل فہم ۔ اہل کراچی و حیدر آبادیہ مطالبہ بھی زور شور سے اٹھاتے رہے کہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر فوج ہونی چاہیے اور اس کے پاس اختیارات ہونے چاہییں تاکہ حسب ضرورت وہ کوئی کارروائی کرسکے۔ اس مطالبے کی حمایت میں جو دلائل دیے جاسکتے تھے اورجو تبادلۂ خیال اور گفتگو الیکشن کمیشن سے کی جاسکتی تھی وہ سب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا اور الیکشن کمیشن نے کوئی ایک مطالبہ بھی نہ مانا۔ اس لیے اہل کراچی کو تمام کوششوں اور کاوشوں اوریہ دیکھنے کے باوجود کہ ایم کیو ایم جیسی تنظیم وہاں دفاعی پوزیشن اختیار کر رہی ہے، یہ خدشہ رہا کہ الیکشن شفاف نہیں ہوسکیں گے اور یہی ہوا۔
بالکل اسی طریقے سے ملک کے دوسرے حصوں بالخصوص فاٹا میں جس طرح پولنگ ختم ہوتے ہی سارے ڈبے ایجنسیوںکے لوگ اٹھا کر لے گئے اور اپنے طور پر گنتی کرکے جگہ جگہ نتائج کا اعلان کیا،اسی طرح بلوچستان میں بھی انتخابی نتائج کی اپنی اپنی مرضی کے مطابق صورت گری کی گئی ، اس نے بھی صاف ستھرے اور شفاف الیکشن کا بھانڈا پھوڑ دیا اور اس کے اندر سے شفافیت کی روح ہی نکال لی ۔ ایک لاکھ ۸۰ ہزار اور ۲لاکھ ووٹ جس طرح لمحوں کے اندر گن کر نتیجہ بیان کر دیا گیا، اور چند ہزار کا رزلٹ کئی دن بعد سامنے آیا، اس نے بھی سوالات کو جنم دیا اور طبیعتوں کے اندر ایک تکدر اور ردعمل کی کیفیت پیدا کی جس کی وجہ سے اب پہلے تو پورے ملک میں اور اب بھی کئی جگہ دھرنے ہو رہے ہیں۔
انتخابی عمل کو پراگندا کرنے اور پراگندا کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا بازار یوں تو پورے ملک میں گرم تھا مگر کراچی کا مسئلہ سب سے الگ اور ایک مستقل چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شہر میں (اور حیدر آباد میں بھی ) اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ تھا۔ پولنگ اسٹیشنوںپر قبضہ کر لیا گیا، پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیااور ایم کیو ایم کے لوگ اپنی مرضی سے کارروائی کرتے رہے، ٹھپے لگاتے رہے۔یہ وہ حالات تھے جن میں ایک فوری رد عمل رونما ہوا جس کا کم از کم یہ اثر ضرو ر ہوا ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں اور دنیا بھرمیں اور کراچی میں بھی ان انتخابی دھاندلیوں اور الیکشن کو ہائی جیک کرنے کے گھناؤنے کھیل کا چرچا ہوا اور کراچی کے مسئلے کو الگ کرکے حل کرنے کی ضرورت کا احساس ہر سطح پر رونما ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں انتخابات منعقد ہی نہیں ہوئے اور اس پر ایک خاص گروہ کو حسب سابق مسلط کر دیا گیا۔ تاہم یہ بات اب طے شدہ حقیقت کے طور پر تسلیم کرلی گئی ہے کہ ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کی جماعت اور اس کی ضرورت ہے۔ اس کے خیال میںکچھ سیٹیں اس کی جیب میں ایسی پڑی رہنی چاہییں جس کے نتیجے میں کسی بھی حکومت کو گرانے اور بنانے میں اس کا رول موجود رہے اوروہ اپنی مرضی کی پالیسیوں کو پاپولر ، خوش نما اور ہردل عزیز ہونے کے طور پر بیان کرسکے۔
خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ویسے تو مخلوط حکومتیں بہت کم نتائج دکھانے کی صلاحیت کامظاہرہ کر پاتی ہیں اور بہت سے خطوط جن کا اظہار کرکے ان پر چلنے کی بات کرتی ہیں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ ان پر چل سکیں۔ مخلوط حکومت کے صبح شام اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ گذشتہ حکومت میں اتحادیوں کا بلیک میلنگ اور دبائو کی سیاست پر مبنی کردار ہمارے سامنے ہے، البتہ خیبر پختونخوا میں جو جماعتیں مل کر حکومت بنانے جا رہی ہیں، ان کے حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہے کہ ان کا تاثر بدعنوان اور کرپٹ پارٹی کا نہیں ہے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن کرپشن بہت زیادہ ہے۔بے پناہ اوربے تحاشا کرپشن اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کرکے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت بنانے اور اسے بیرون ملک میں جمع کروانے کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔
اس اعتبار سے صوبے میں کرپشن فری حکومت عوام کے بہت سے دکھوں کا ازالہ کرسکتی ہے۔ ہماری تمنا اور دعا یہی ہے کہ یہ حکومت تسلسل کے ساتھ اپنے حصے کا کام کرے اور ایک اچھے ٹیم ورک کے ساتھ صوبے کے عوام کی خدمت کرے ۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحا لی کا ہے۔ ڈرون حملوں ،ملٹری آپریشن اور خودکش حملوں، نیز گم شدہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے صورت حال خاصی ابتر ہے اور یہ مسئلہ مرکزی ہے، صوبائی نہیں ۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے بارے میں وفاقی حکومت کیا پالیسی اختیار کرتی ہے؟ خارجہ پالیسی کو کس طرح سے دوبارہ ترتیب دیتی ہے؟ اس کی ترجیحات کا کس طرح از سر نو تعین کیا جاتا ہے؟ اس کا صوبے کی صورت حال پر اثر پڑے گا۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کے باہمی تعاون سے ہی بہتری کی جانب پیش رفت ہو سکتی ہے اور کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں ترقی وخوش حالی اسی وقت ممکن ہے جب سرمایہ کاری کے لیے مناسب ماحول فراہم کیا جائے اور سرمایہ کاری کے عمل کو تیز رفتاری سے بڑھایا جائے تاکہ ملکی پیداوار اور بڑھے اور لوگوں کو روزگار ملے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دہشت گردی کا سد باب ہواور معاشرہ پُر امن راستے پر چل سکے۔
حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کی لہر نے خیبر پختونخوا میںاپنا زیادہ اثر دکھایا اور ہم وہاں اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔پنجاب میں ایک نہیں دو لہروں سے مقا بلہ تھا اور نتائج کے اعتبار سے وہاں مسلم لیگ (ن ) کا پلہ بھاری رہا۔ لیکن یہاں بھی ہمیں یہ نقصان ہوا کہ لوگوں کی جوبڑی تعداد آزمائے ہوئے لوگوں کی طرف نہیں جانا چاہتی تھی ، اس نے تحریک انصاف کا انتخاب کیا۔ پیپلز پارٹی کے الیکشن ہارنے کابجا طور پر شور ہے اور اس کی مرکزی اسمبلی اور سندھ کے سوا صوبائی اسمبلیوں میں تعداد نمایاں طور پر کم ہوئی ہے، البتہ یہ کہنا درست نہیں کہ وہ میدان سے بالکل باہر کر دی گئی ہے ۔ قومی سطح پر بھی اس کی پوزیشن دوسری ہے اور صوبہ سندھ میں اس کو اکثریت حاصل ہے خواہ وہ کسی طرح بھی حاصل کی گئی ہو۔اس صوبے کی حد تک وہ کسی کو شامل کیے بغیر حکومت بنا سکتی ہے۔گو، نظر یہی آرہا ہے کہ ایم کیو ایم اپنی تمام بدنامیوں کے باوجود اس کی شریکِ اقتدار ہوگی۔ پیپلز پارٹی نے بدترین پانچ سالہ دور حکومت کے باوجود اتنا نہیں کھویا جتنا لوگ تصور کر رہے تھے اورتجزیہ نگار بتا رہے تھے ۔ گو، ان کی مرکزی مہم کمزور تھی، لیکن اشتہارات کے ذریعے اس نے ماضی قریب و بعید کی مہمات اور پوزیشن کو کیش کروایا۔ بالکل یہی معاملہ اس سے پہلے مسلم لیگ ق کے ساتھ ہوچکا ہے۔
۲۰۰۸ء میں یہ شور بہت مچا کہ مسلم لیگ ق الیکشن جیت ہی نہیں سکتی لیکن اس نے جو سیٹیں لی تھیں،وہ بعد میں حکومت بچانے کے کام آئیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جبراورظلم کی حکومت ہو یا آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے والی حکومت، لوگ ان چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیںاور مسائل میں اضافہ کرنے اور امریکا کی غلامی کرنے والی پارٹی کی جھولی میں بھی کچھ نہ کچھ سیٹیں ضرور ڈال دیتے ہیں۔ یہ پہلے ق لیگ کے ساتھ ہوا اور اب پیپلز پارٹی کے ساتھ۔ جتنا غم و غصہ پریس اور میڈیا یا عوام کی سطح پر نظر آتا دکھائی دیتا تھا،اس کا صحیح معنوں میں کوئی ردعمل یا عکس انتخابی نتائج میں سے دکھائی نہیں دیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا سے مرکزی اسمبلی میں تین اور صوبائی اسمبلی میں سات، پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کرنے (خواتین کی دو نشستیں بھی متوقع ہیں)کے با وجود یہ احساس بجا طور پر پایا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی اس کامیابی سے دُور نظر آتی ہے جو ہمارے پیش نظر تھی اورجو نظم جماعت، امیدواران اور کارکنان کی آرا اور تجزیے کے نتیجے میں محسوس ہوتی تھی۔ بہت چھوٹے دائرے میں کامیابی ہوئی۔ کارکن اگرچہ اس لحاظ سے مطمئن ہوتا ہے کہ ہماری جدوجہد دین کے غلبے کی جدوجہد ہے اور ہمارے ذمے اپنے حصے کا کام کرنا ہے لیکن یہ بات پھر بھی درست ہے کہ ہم الیکشن کو تبدیلی کا ایک ذریعہ سمجھتے رہے اور سمجھتے ہیں، اس لیے یہ کارکردگی اور نتائج کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ جن پر سنجیدہ غور و فکر اور ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی ، معاشی، تہذیبی اور آبادی کے لحاظ سے منظرنامے کو سامنے رکھ کر مؤثر حکمت عملی اور نقشۂ کار تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا ضرورت کے سلسلے میں کچھ اُمور کی طرف اشارہ کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ چند حقائق کو ذہن میں تازہ کر لیں تا کہ ہمارا اصل مقصد اور ہدف سامنے رہے۔
بنیادی بات جس کی تذکیر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان محض ایک ’سیاسی‘،’مذہبی‘ یا ’اصلاحی‘ جماعت نہیں ہے بلکہ وسیع معنوں میں ایک نظریاتی تحریک ہے جو پوری انسانی زندگی کی اسلام کے جامع اور ہمہ جہتی نظریۂ حیات کی روشنی میں تعمیر نو کرنا چاہتی ہے تاکہ انسانی زندگی، اللہ کی بندگی میں گزاری جا سکے اور انسانوں کے درمیان عدل و احسان کی بنیاد پر یہ تمام معاملات مرتب اور منظم ہو سکیں۔ اس کے لیے جماعت اسلامی تمام ممکن تدابیر سے کام لے رہی ہے، جیسے اسلام کے علم کو پھیلانا، قدیم اور جدید جاہلیتوں کی پیدا کردہ گمراہیوں کو دور کرنا، سوچنے سمجھنے والے طبقوں کو علمی حیثیت سے یہ بتانا کہ اسلام ہمارے تمام مسائل کو کس طرح حل کرتا ہے۔ جماعت کا کام صرف یہ دعوتی خدمت ہی نہیں بلکہ اس نے ان تمام امور کی اصلاح اور مسائل کے حل کے لیے زندگی کے ہر گوشے میں سر گرم جد و جہد برپا کی ہے۔ اقامت دین ہمارا اصل ہدف اور منزل ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اصلاح کے لیے ہمہ گیر کوشش اس کا ذریعہ ہے۔ سیاست کی اصلاح، اچھی ’قیادت‘ کے بروے کار لانے کی سعی اور نظام حکمرانی کو اسلام کے اخلاقی، سماجی،فلاحی اور اصلاحی مقاصد کے لیے مؤثر طور پر استعمال کرنے کے لیے حالات سازگار کرنا اس کا ہدف ہے۔ پھر جس حد تک اختیارات حاصل ہوں انھیں استعمال کر کے تبدیلی لانا اس جد و جہد کااہم حصہ ہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی نگاہ میں یہ جد و جہد بھی عبادت کا ایک حصہ ہے اور اس سے حاصل ہونے والی قوت کو استعمال کرنے کی سعی بھی جوانتخابی عمل میں ہماری شرکت کا سبب ہے، اس ہمہ گیر جد و جہد کا ایک ضروری حصہ ہے۔
جماعت اسلامی کی جد جہد کے اس اہم ترین پہلو کو جماعت کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے چند الفاظ میں یوں ادا کیا تھا کہ:
جماعت جس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے وہ ایک اور صرف ایک ہے، اور وہ ہے اللہ کے دین کو عملاً پوری طرح سے پوری زندگی میں نافذ کیا جائے، اس کے سوا اس جماعت کا کوئی مقصد نہیںہے۔ سیاسی کام بھی اگر ہم کرتے ہیں تو سیاسی اغراض کے لیے نہیں کرتے ، محض اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو دین حق کے قیام میں مانع ہورہی ہیں۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے تبدیلی کے جس راستے کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے وہ ہمہ جہتی ہے اور اس کی ہر جہت دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث ہے۔ یہ راستہ ایمان کے احیا، فکر و ذہن کی تبدیلی، اخلاق و کردار کی تعمیر، اصلاحِ معاشرہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، انسانوں کی خدمت ، اور ان کو منظم جدو جہد کے لیے اجتماعی تبدیلی کے لیے سر گرم کرنے کا راستہ ہے۔ راے عامہ کی تعمیر اور سیاسی اور دیر پا تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کا مستقل طریقہ کار اس کے دستور میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے:
۱-وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ اللہ اور رسول کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہو گی۔
۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳- جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیش نظر ہیں۔
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جد وجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
اس طریق کار کی روشنی میں اور پاکستان کے حالات کو سامنے رکھ کر جماعت اسلامی نے جمہوری عمل میں ہر سطح پر مؤثر شرکت اور انتخابات کے ذریعے قیادت کی تبدیلی اور سیاسی نظام کی نئی صورت گری کا راستہ اختیار کیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس جد و جہد کی نوعیت اور حکمت کو یوں واضح کیا ہے:
یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ ہم اس وقت، جس مقام پرکھڑے ہیں، اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ہوگا اور جس منزل تک ہم جانا چاہتے ہیں ، اس کو واضح طور پر سامنے رکھنا ہو گا، تا کہ ہمارا ہر قدم اسی منزل کی طرف اُٹھے، خواہ ہم پسند کریں یا نہ کریں، نقطۂ آغاز تو لا محالہ یہی انتخابات ہوں گے، چوں کہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظام حکومت تبدیل ہو سکتاہے اور حکمرانوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ہے ، جس سے ہم پُر امن طریقے سے نظام حکومت بدل سکیں اورحکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔ اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس ، دھوکے، دھاندلی، علاقائی یا مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہو سکیں، انتخابات دیانت دارانہ ہوں۔
لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کر نے کا موقع دیا جائے ۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول ، مقاصد اور پروگرام پیش کریں اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہو سکتاہے کہ پہلے انتخابات میں ہم عوام کے طرزِ فکر اور معیار انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکیں، لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظام حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظام انتخاب پر نظر ثانی کر سکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخاب کو از سر نو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہر حال آپ یک لخت جست لگاکر اپنے انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔
اس سلسلے میں مولانا محترم نے اپنے تمام کارکنوں کو صاف الفاظ میں یہ ہدایت بھی دی کہ ان کو نہ صرف صبر اور محنت سے جد وجہد جاری رکھنی ہے بلکہ اس کے جو آداب اسلام نے مقرر کیے ہیں ان کے پورے اہتمام کے ساتھ یہ جد و جہد کرنی ہے، اور وقتی نتائج سے بے پروا ہو کر اپنے اصل مقصد کے حصول کے لیے ایمان اور احتساب کے ساتھ سر گرم عمل رہنا ہے:
اگر واقعی آپ چاہتے ہیں کہ یہاں اسلامی نظام زندگی برپا ہو تو پہلے اس خیال کو ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ اصل کام بہر حال انتخاب جیتنا ہے خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے، بلکہ خوب سوچ سمجھ کر یہ طے کر لینا چاہیے کہ انتخاب صحیح طریقے سے جیتنا ہے خواہ اس کی کوشش کرتے ہوئے آپ ایک دو چار نہیں دس انتخاب ہارتے چلے جائیں۔ صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے انتخاب جیتنے کے لیے ہمیں عوام میں مسلسل کام کرکے اپنی قوم کی ذہنی سطح کو بلند کرنا پڑے گا۔ اس کے اخلاق کو بلند کرنا پڑے گا، تاکہ وہ اسلامی نظام کو سمجھنے کے قابل ہو سکے۔ اس کی راے کو تیار کرنا ہوگا کہ وہ بھلے اور برے میں تمیز کر کے غلط قسم کی اپیلوں کو رد کر دے۔ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ پروگرام قبول کر ے جو اسلامی اصول کے مطابق بھی ہو اور معقول و معتدل اور قابلِ عمل بھی۔ نیز ان لوگوں کو اپنے معاملات کی سر براہی کے لیے منتخب کرے جو اپنی اہلیت اور سیرت و کردار کے لحاظ سے قابل اعتماد ہوں۔
تبدیلی کے صحیح اور غلط طریقوں کی نشان دہی کرتے ہوئے مولانا محترم نے اس تحریک اور اس قوم کو یہاں تک متنبہ کر دیا تھا کہ:
خدا کی قسم، اور میں قسم بہت کم کھایا کرتا ہوں، کہ جماعت نے جو مسلک اختیار کیا ہے ، وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی دہشت پسنددانہ تحریک کے ذریعے سے یا کسی قسم کی خفیہ تحریک کے ذریعے سے ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب پربا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ جمہور ی ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ [ہماری یہ راے] ۔۔۔۔قطعاً کسی سے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ قطعا ً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں اور ہمارے اوپر یہ الزام نہ لگنے پائے ۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوںسے قائم نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ لوگوں کے خیالات نہ تبدیل کر دیے جائیں۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ ، یا کسی قسم کی سازش کے یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں کے ذریعے اور جھوٹ اور اس طرح کی کسی اور مہم کے ساتھ انتخابات جیت بھی لیے جائیں ، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو چاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے یہ اس طرح اکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔
جماعت اسلامی کے مقصد ، اس کی پالیسی اور اس کے طریق کار کے ان بنیادی نکات کی روشنی میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تحریک اسلامی کے بے لوث کارکنوں کو ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی تمام بشری کمزوریوں کے با وجود جماعت اسلامی اور اس کے کار کنوں نے حالیہ انتخابا ت میں اپنے بنیادی اصولوں اور اہداف کی روشنی میں پورے اطمینانِ قلب، ذہنی یکسوئی اور عملی انہماک کے ساتھ شرکت کی۔ اس نے قوم کے سامنے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک واضح پروگرام پیش کیا۔ اس کا منشور ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے جس میں پاکستان کے موجودہ حالات کی روشنی میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اصلاح کار کے واضح خطوط کار پیش کیے گئے ہیں اور تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مدینہ کے ماڈل کا جو نقشہ جماعت اسلامی کے منشور میں پیش کیا گیا ہے اس کی آواز ِبازگشت دوسری جماعتوں کی انتخابی مہم میں بھی سنی جا سکتی تھی۔
مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں تین امور بالکل واضح ہیں:
اولاً: جماعت اسلامی محض ایک انتخابی جماعت نہیں وہ اقامت ِدین کے مقصد کے لیے ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک ہے جس نے دین کا ایک واضح تصور ، امت اور انسانیت کے سامنے پیش کیا ہے اور الحمد للہ اس فکر اور اس نقطۂ نظر کے اثرات ملک اور خطے میں ہی نہیں دنیا کے طول و عرض میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ہمار ا اصل ہدف اقامت دین ہے اور سیاسی جد و جہد اس کا ایک حصہ ہے نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔
دوم: جماعت اسلامی نے انسانی زندگی میں تبدیلی کے لیے جو طریق کار اختیار کیا ہے وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی ، قلب کی کیفیات، ذہن کے ادراک، فکر کی تشکیل، کردار کی تعمیر، اداروں کی اصلاح اور معیشت ، معاشرت، ثقافت، قانون اور حکمرانی کے نظام اور آداب کار سب ہی کی نئی صورت گر ی پر محیط ہے۔ یہ طریق کار منہج نبوی ؐ پر مبنی ہے اور ہر دور میں مطلوبہ تبدیلی کے لیے یہی طریق کار مؤ ثر اور کامیاب ہو سکتا ہے۔
سوم: مقصد اور طریق کار کی روشنی میں جو بھی نظام کار ترتیب دیا جائے اور وقتی مصالح، حالات اور چیلنجوں کی روشنی میں جو بھی پالیسیاں ترتیب دی جائیں،نیز مقصد کے حصول کے لیے جو بھی انتظامات اور اقدام کیے جائیں وہ اجتہادی نوعیت کے امور ہیں اور ان پر حالات اور تجربات کی روشنی میں سوچ بچار اور ترک و اختیار کا سلسلہ اصولوں سے وفاداری اور بدلتے ہوئے حالات کے اِدراک کے ساتھ دلیل اور مشاورت سے ہوتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک مستقل عمل ہے اور قرآن کے الفاظ میں اس حکمت کا حصہ ہے جس کی تعلیم نبوت کا ایک اہم وظیفہ تھی۔
جماعت اسلامی نے ملک اور دنیا کے حالات کی روشنی میں جو طریق کار اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ اس کے نصب العین کا فطری تقاضا ہے، البتہ ملک میں رائج انتخابی نظام میں کن اصلاحات اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے اورپھر انتخابات میں شرکت کی صورت میں سیاسی ایجنڈے کی تشکیل، انتخابی مہم کے طور طریقے، اسلوب اور آداب وغیر ہ میں کیا روش اختیار کی جانی چاہیے اور اس میں کب کس نوعیت کی اور کس حد تک تبدیلیوں کی ضرورت ہے___ یہ وہ اُمور ہیں جن میں تجربات کی روشنی میں مشاورت کے ساتھ غور و فکر ہوتا رہنا چاہیے۔ عملی میدان میں کامیابی کے لیے اس عمل کو سنجیدگی سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
۲۰۱۳ء کے انتخابات کے باب میں ایک بڑا اہم سوال انتخابی نظام ، الیکشن کمیشن کے کردار اور اس پورے عمل میں مختلف عناصر اور قوتوں کے کردار کا ہے۔ اس سلسلے میں جن مشکلات اور چیلنجوں کا سابقہ رہا ہے، ان میں سے کچھ کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ اس نظام میں مطلوبہ تبدیلی کی کوششیں پوری دیانت داری اور معاملہ فہمی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات تبدیلی کا ذریعہ بنیں اور عوام اس نظام سے مایوس نہ ہو جائیں۔جماعت اسلامی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے گی اور تمام سیاسی جماعتوں اورملک کے سوچنے سمجھنے والے افراد اور اداروں کو اس عمل میں بھر پور شرکت کی دعوت دیتی ہے، اس لیے کہ اگر انتخابی نظام کی اصلاح نہ کی گئی اوراسے ان غلطیوں اور خامیوں سے پاک نہ کیا گیا جو کھل کر سامنے آ گئی ہیں تو انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا جو ہر اعتبار سے بڑے خسارے کا سودا ہے۔
دوسرا پہلو جماعت کی اپنی انتخابی مہم ، اس کی پالیسیوں، اہداف اور مقاصد کی کماحقہٗ وضاحت، اس کے کارکنوں اور ہمدردوں کی خدمات، اور اس سلسلے میں رونما ہونے والے مثبت اور منفی پہلووں کا ہے۔ نیز یہ سوال بھی بہت سے ذہنوں میںموجود ہے کہ کیا تنظیمی یا سیاسی حکمت عملی کے میدانوں میں کسی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے یا یہ کہ کیا رائج الوقت اداراتی اور انتظامی ڈھانچے ہی کے بہتر اور مؤثر استعمال سے ان خامیوں اور کمزوریوں کو دور کیا جا سکتا ہے جن کا تجربہ ہوا ہے؟ یہ سب وہ سوال ہیں جن پر ہمیں پوری دیانت داری سے غور کرنا چاہیے۔ اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر مشاورت اور اندرونی حلقوں اور بیرونی مخلصین کے ساتھ تبادلۂ خیال کے ذریعے آیندہ کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی نے اسلام کی روشنی میں قوم کے سامنے ایک واضح راہ عمل پیش کی ، اس نے انتخابات میں جو نمایندے قوم کے سامنے پیش کیے وہ اپنی سیرت و کردار، اپنی صلاحیت کار، اور عوامی خدمت کے اعتبار سے بہت نمایاں تھے اور ان پر کسی حلقے سے بھی کسی قسم کی بد عنوانی یا بے قاعدگی کے باب میں انگشت نمائی نہیں کی جا سکی۔ نیز ہمارے کارکنوں نے جس جذبے، اَ ن تھک محنت اور قربانی اور ایثار سے یہ جد وجہد کی وہ بھی اپنی مثال آپ تھی۔ ان سب پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ان تمام اُمور پر قلبی اطمینان کے علی الرغم یہ سوال اہم ہے کہ نتائج ہماری توقعات کے مطابق کیوں نہ ہوئے؟
اس امر کے اعتراف میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں کہ معاشرے کے بڑے حصے تک ہم اپنی دعوت پہنچا ہی نہیں سکے ہیں۔ اپنے پیغام سے ان کو آگہی دے ہی نہیں سکے ہیں۔ جماعت اسلامی کا پیغام قرآن و سنت کی تعلیم کے علاوہ کسی اور شے کا نام نہیں ہے۔ مختلف علاقوں میں بسنے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ مختلف سماجی تجربوں سے گزر کر قرآن و سنت سے کچھ نہ کچھ ہم آہنگی ضرور پیدا کر لیتے ہیں مگر دعوت کو مقامی سانچوں کے اندر ڈھال کر پیش کرنے اور اسے پوری بلند آہنگی اور اپنی وسعتوں اور ہمہ جہت مقام کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے لیے شب و روز محنت کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ’دیوانگی‘ اور ’جنون‘ کی کیفیتوںکا تعلق ہے، ہم کہاں تک وہ کیفیات اپنے تمام کارکنوں، معاونین اور ہمدردوں میں کم سے کم مطلوبہ حد تک بھی پیدا کر سکے ہیں؟ بلاشبہہ ہر دور کے اندر کچھ نام، کچھ مثالیں اور کچھ نمونے ضرور دیکھنے میں اور سننے کو ملتے ہیں اور کچھ لوگوں کے رویے واقعی متاثر کن ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی پوری جماعت نے رابطہ عوام کے نتیجے میں عوام کو اپنی دعوت اور پیغام کے ساتھ کہاں تک مکمل طور پرآگاہ اور ہم آہنگ کر لیا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
الیکشن گھر گھر جا کر دستک دینے ، لوگوں کے دکھوں کو بانٹنے اور ان کے مسائل سے آگہی حاصل کرنے کا نام ہے۔ اس میں ہم کتنے کامیاب ہوئے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ انتخابات کے موقعے پر جو جوش و خروش پیدا ہوتا ہے ،اس کو منظم طریقے سے استعمال کرنے کے نتیجے میں اس کے کئی رخ سامنے آسکتے ہیں۔بے چین، بے کل اور بپھرے ہوئے لاکھوں لوگ سڑکوں پر اژدہام کرکے انقلاب کی منزل کو قریب کرسکتے ہیں ، لوگوں کو یقین سے سرشار کر کے انھیں بڑی قربانی کے لیے آمادہ کرسکتے ہیں۔ دعوت کے ابلاغ اور لوگوں کو ہم نوا بنانے کے حوالے سے آیندہ کا لائحہ عمل کیا ہو؟ دعوت کو کیسے فروغ دیا جائے؟ اور جو رویے ہم اپناتے رہے ہیں ان کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ اب تک دعوت کو تحریری اور تقریری طریقوں سے پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اس میں جدت کیسے پیدا ہو؟ اس پر بھی سوچنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں انتخابات جیتنے کے لیے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں ، جس طرح لائق انتخاب افراد (electables)کو مرکزی کردار دیا جاتا ہے، مقامی سطح پر انتخابی مہم کس طرح چلائی جاتی ہے اور ملکی سطح پر کس طرح لہریں اٹھائی جاتی ہیں، یہ سب امور بھی غور طلب ہیں۔ ان میں سے کون سا طریقہ کس حد تک جائز اور قابل قبول ہے اور کن حدود کا اہتمام ضروری ہے کہ ان کی پامالی سے ساری جدوجہد کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے لیکن ان کے بغیر اگر یہ بازی سر نہیں کی جاسکتی تو پھر ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ بھی بڑا قابلِ غور مسئلہ ہے۔
اسی طرح انتخابات کے حوالے سے بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ لوگ پیسا خرچ کرتے ہیں اور ایک حد تک اس بات کو درست مانا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس اتنا پیسا نہیں ہے جتنا دیگر لوگوں کے پاس ہے لیکن ہمارے پاس اس کا متبادل موجود ہے۔ ہمارا کارکن مفت کام کرتا ہے،پوسٹر اور جھنڈے لگاتا ہے، بلکہ مہمات میںاپنی جیب سے خرچ کرتا ہے۔ دوسری پارٹیوں میں ایسا نہیں ہے۔ان کا تو ٹکٹ بھی لاکھوں روپے دینے کے بعد ملتا ہے۔ اگر شخصیتوں کو بنایا اور کھڑا کیا جائے اور ان کے حوالے سے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے تو ہماری معاشرتی روایت کے مطابق لوگ اس شخصیت کی طرف دیکھتے اوراس کی بات سنتے ہیں، اس طرح بعض رکاوٹوں کو بآسانی عبور کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کہاں احتیاط ضروری ہے اور کہاں نئے تجربات کی ضرورت ہے؟ یہ بھی غور طلب ہے۔
اس پس منظر میں کچھ اور بھی بنیادی سوالات ذہنوں میں کروٹیں لے رہے ہیں۔ خصوصیت سے ترکی، عرب دنیا، ملائیشیا اور دوسرے مسلم ممالک میں اسلامی قوتوں نے جو تجربات کیے ہیں، ان کو بھی غور سے دیکھنے اور ان کے تجربات کی روشنی میں سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن اپنے حالات کے مطابق نئی راہوں کی تلاش نہ صرف یہ کہ شجر ممنوعہ نہیںبلکہ وقت کی ضرورت بنتی جا رہی ہے۔ بلاشبہہ یہ راہ مسائل اور مشکلات سے عاری نہیں اور اپنی پیچیدگیاں بھی رکھتی ہے اور امکانات بھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انمل بے جوڑ پیوندکاری سے اجتناب کیا جائے اور اپنے حالات کے مطابق ایک سوچے سمجھے عمل کے ذریعے تسلسل کو مجرح کیے بغیر تبدیلی اور نئے تجربات کے امکانات کا جائزہ لیا جائے اور مفید اور قابلِ عمل اقدامات سے گریز نہ کیا جائے۔
انتخابات کا مرحلہ گزر جانے کے بعد کارکنان کو از سر نو کمربستہ ہونا چاہیے۔ معاشرے کی قدروں اور ترجیحات، دکھوں اور مسائل اور حالات کو بتدریج ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سمجھنا چاہیے کہ بندوں کا کام بندگی کرنا ہے اور بندوں کے رب کا کام ربوبیت اور خدائی کرنا ہے ۔ بندے اگر بندگی کا کام پورا کر لیں تو ان کا رب بھی اپنی مشیت کے تحت نئے فیصلے نازل کرتا ہے اور تبدیلیوں کا ایک نیا عنوان دُور تک پھیلاتا ہے ۔ اس پس منظر میں کارکنوں کو تازہ دم اور متحرک رہنا چاہیے اور اپنے اطراف کے معاملات میں دل چسپی لے کر منزل کے حصول کی جانب پیش قدمی کرنی چاہیے۔
تحریک اسلامی ایک جد و جہد اور کش مکش کا نام ہے۔ یہ جد وجہد اور کش مکش ہرزمانے میں جاری رہی ہے، آج بھی جاری ہے اور آیندہ بھی جاری رہے گی۔ فی الحقیقت یہ انبیا وصلحا کا راستہ ہے۔ اس راستے میں اپنے پائوں غبار آلود کرنے والے در اصل انبیا ؑکے راستے کے راہ رو ہیں۔ یہ راستہ بہر حال پھولوں کی سیج نہیں لیکن جو اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلنے کا عزم کرتا ہے، اللہ کی مدد و نصرت اور تائید اس کے ہم رکاب ہو جاتی ہے، اس کا دست و بازو ہو جاتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک اسلامی کا کارکن اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو دُور کرے۔ جذبۂ صادق اور عزمِ صمیم کے ساتھ منزل کے حصول کے لیے جد و جہد کرے اور آگے بڑھے ۔ جتنے جذبے خالص ہوتے جائیں گے، منزل قریب آتی جائے گی۔ نشان منزل یہ ہے کہ دنیا کی بھلائیاں تحریک اور اس کے جلو میں چلنے والوں کا مقد ر بنتی چلی جائیںگی۔چراغ سے چراغ جلے، تاریکیاں چھٹ جائیں اور روشنی اس امت اور انسانیت کا مقدر بن جائے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارا حامی و ناصر بن جائے، آمین!
کسی بھی معاشرے میں جب قومی سطح کے انتخابات ہوتے ہیںتو اس کے نتیجے میں ایک نیاسیاسی اور انتخابی کلچر وجود میں آتا ہے۔معاشرے کے مختلف ادارے باہمی تعاون کی نئی سبیلیں تلاش کرتے ہیںاور مل جل کر معاشرے کی خدمت کے نئے منصوبے بناتے ہیں۔منتخب لوگ بھی جن وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ برسراقتدار آتے ہیںاور جس منشور کی پاسبانی کو اپنی ذمہ داری قرار دیتے ہیں، ان وعدوں کو پورا کرنے اور دعوؤں میں رنگ بھرنے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں۔
پاکستان میں ایک طویل آمریت کے بعد فروری ۲۰۰۸ء میں انتخابات ہوئے تو لوگوں نے بجا طور پر یہ توقعات قائم کیں کہ حالات سدھریں گے، مواقع بڑھیں گے اور معاشرے میں سلگتے ہوئے مسائل کے جنگل سے نجات ملے گی۔ لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘۔پانچ سال ہونے کو آئے ہیں،کوئی وعدہ ایسا نہیں جو وفاہوتا نظر آئے ، کوئی دعویٰ ایسا نہیں جس کی قلعی کھل نہ گئی ہو، اور کوئی امید ایسی نہیں جو یاس میں تبدیل نہ ہو گئی ہو۔ انتخابات جیتنے اور حکومت بنانے والوں نے اقتدار سنبھالتے ہی دو نکاتی یقین دہانی کرائی اور ببانگ دہل اس کا اعلان کیا کہ عوام نے پرویزمشرف اور اس کی پالیسیوں کو مسترد کردیا ہے اور یہ کہ ہم تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر مفاہمت کی پالیسی پر عمل کریں گے، ایک دوسرے کے خلاف کردار کشی کی مہم اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے گریز کریں گے اور عوام کے دکھوں کا مداوا سب کا ایجنڈا قرار پائے گا۔ عوام نے ان دونوں باتوں کا خیرمقدم کیا، انھیں اپنے دل کی آواز سمجھا اور’ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘ کے مصداق یہ گمان کیا کہ ان کی تمنائوں اور آرزوئوں کی تکمیل کا خواب اپنی تعبیر کو پہنچا چاہتا ہے۔ مگر پچھلے پانچ سالوں میں جو کچھ ہوا، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ وہی چال بے ڈھنگی، وہی ایڈہاک ازم، لوٹ مار کے نت نئے طریقے اور عوام کی خدمت سے عاری رویے اور منصوبے۔جن اعلانات اور کانوں میں رس گھولنے والی باتوں کے ساتھ آج کی حکومت برسر اقتدار آئی تھی، وہ اعلانات محض اعلانات ہی ثابت ہوئے۔ پرویز مشرف اور اس کی پالیسیاں زور و شور سے جاری ہیں اور مفاہمت کی پالیسی کے نام پر حکمران اتحاد اوراپوزیشن جماعتیں جس طرح ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑ رہی ہیں، وہ سب پر عیاں ہے۔
زندگی کے تمام دائروں میں جس درجے لاقانونیت نظر آتی اوردکھائی دیتی ہے، خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے روز افزوں واقعات جس طرح خوف اور دہشت کی فضا پیداکرتے ہیں، آفرین ہے کہ عوام نے تو اس صورت حال کا جرأت و بہادری اور مصمم ارادے سے مقابلہ کیا ہے، ملک کی تعمیر نو میں بھی دل چسپی کا اظہار کیا ہے، قومی یک جہتی کو بھی پارہ پارہ ہونے سے بچایا ہے اور حکمرانوں کو بھی مسلسل آئینہ دکھایا ہے، لیکن خود حکمران جس طرح امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، اسی سے ڈکٹیشن لیتے ہیں، اس کے کہے پرعمل کرتے ہیں، اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اسی سے اپنی پالیسی اور ترجیحات کا تعین کراتے ہیں، اس نے پاکستان کو غلامی کی بدترین صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں جمہوری تقاضوں کے بالکل برعکس اداروں سے متصادم ہونے کی راہ اختیار کی،اور یہ پیپلزپارٹی کی ریت اور روایت رہی ہے ۔ اس کا پورا ٹریک ریکارڈ تصادم اور محاذ آرائی کی پالیسی سے عبارت ہے۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹونے ’ادھر تم ادھر ہم‘ کا نعرہ لگایا تھا اور’جو اسمبلی کے اجلاس میں ڈھاکہ جائے وہ ایک طرف کا ٹکٹ لے کر جائے‘اس دھمکی آمیز رویے کو اپنایا تھا،اور ’جو ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی‘ اس لب و لہجے میں بات کی تھی۔ منجملہ دیگر امور کے یہی وہ رویہ ہے جس کے نتیجے میں ہمارا مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا۔وہ دن ہے اور آج کا دن، پیپلزپارٹی محاذ آرائی اور تصادم کی سیاست پر یقین رکھتی اور عمل کرتی آرہی ہے۔ جو لوگ اس پارٹی کی حکمرانی اور اس کی تاریخ سے واقف ہیںان کے لیے یہ بات حیرانی کا موجب نہیں ہے۔ آج بھی سپریم کورٹ کو للکارا جا رہا ہے، اسے بائی پاس کیا جا رہا ہے، اس کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، اور اس کے فیصلوں کی خلاف ورزی کر کے لاقانونیت اور دستور سے بغاوت کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔پیپلزپارٹی کا اگر یہ خیال ہے کہ وہ کیکر کا درخت اُگائیں گے اور اس پرسے آم اتاریں گے تو یوسف رضا گیلانی کے معاملے میں وہ دیکھ چکے ہیںکہ جو کچھ انھوں نے بویا تھا وہی کاٹا،اور اب راجا پرویز اشرف کے معاملے میں بھی اس سے مختلف رویے کی انھیں توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں اور مظلوم اور ہمدرد بن کر عوام کے سامنے ٹسوے بھی بہاتے ہیں۔ عدالت کو اس معاملے میں مضبوطی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے فیصلوں پر کماحقہ عملدر آمد ہوتا نہ دیکھے تو آئین کے مطابق اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد ہی میں ملک و قوم کی بقا ہے،اور محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑاکرنے سے ہی آئین و قانون کی بالادستی ممکن ہے۔ سپریم کورٹ نے اب تک اولوالعزمی اور آئین کو بالادست رکھنے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ توقع یہی ہے کہ وہ اسی ریت کو جاری رکھے گی، اور یہ بھی احتمال ہے کہ پیپلزپارٹی بھی محاذآرائی کی روش سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔
پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی حکومت کا اصل سلوگن جمہوری حکومت رہا ہے مگر جو حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہ مانتی ہو اور پارلیمنٹ کے فیصلوں اور قراردادوں کو رتی برابر اہمیت نہ دیتی ہو، وہ کس منہ سے اپنے آپ کو جمہوری حکومت کہہ سکتی ہے؟غیر جمہوری رویوں اور طورطریقوں کو اپنا کر جمہوریت کا لیبل لگانا ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے
کے مترادف ہے۔ حکومتی سطح پر اداروں کو باہم متصادم کرنے کی روش معاشرے کی چولیں ڈھیلی کر دیتی ہے، معاشرے کی پہچان گم ہو جاتی ہے، اس کا تشخص گہنا جاتا ہے اور معاشرہ اپنی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت زندگی کے تمام دائروں میں دیکھا جاسکتا اور اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔پرویز مشرف کی طرح عوامی نمایندہ ہونے کی دعوے دار یہ اتحادی حکومت بھی عوام کے دکھوں میں اضافے کا سبب بنی ہے اور زخموں کو پھاہا بھی میسر نہیں ہے۔ اتحادی جماعتوں نے مرکز اور صوبوںمیں عوام کو مایوس کیا ہے۔ان سب کی عدم کارکردگی اور برے طرزِ حکمرانی کی وجہ سے لوگوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ان سب کا ویژن اور اپروچ الگ الگ ہے مگر اپنے اپنے مفادات اور وقتی اور عارضی طور پر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے جمع ہو گئے ہیں۔
بلوچستان اور کراچی کے حالات میں ایک درجہ مماثلت بھی پائی جاتی ہے اور عمومی طور پر اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے دکھوں کی دنیا بھی آباد ہے۔بلوچستان کو جس احساس محرومی نے آگھیرا ہے، اس کا مداوا احساس شرکت سے ہی کیا جا سکتاہے، محض زبانی جمع خرچ سے نہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ یہ احساس بلوچوں میں کیسے پیدا کیا جائے؟ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ بلوچوں کے ساتھ مذاق بند کیا جائے، ان کا تمسخر نہ اڑایا جائے، اور وزیراعلیٰ تک کا مہینے میں ۲۵ دن اسلام آباد میں مقیم رہ کر محض کوئٹہ میں کابینہ کا اجلاس کر کے یہ دعویٰ نہ کیا جائے کہ بلوچستان کے حالات تبدیل کرنے کا کام کیا گیا ہے۔ بلوچوں کو لالی پاپ کی ضرورت نہیں ہے، لوری دے کر انھیں خوش نہیں کیا جا سکتا۔ محض پیکیج کے نام پر انھیں دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور وسائل سے مالامال صوبہ ہے۔ اپنے وسائل میں سے اگر وہ اپنا حق طلب کرتے ہیں تو امانت و دیانت اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے اور وہاں کے وسائل کو وہاں کے مفلوک الحال عوام پر خرچ کیا جائے۔ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے بھی کوئی کام نہ کیا اور کسی کو علم نہیں کہ ایک سو سے زیادہ ارب روپے جو بلوچستان کے عوام کے لیے دیے گئے ہیں وہ کہاں گئے؟ عوام کی حالت بدتر اور جان، مال اور عزت کی پامالی ماضی کی طرح جاری ہے۔ مرکزی حکومت کی طرح صوبائی حکومت بھی ایک ناقابل معافی جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔
صوبائی کابینہ میں تمام پارٹیاں شریک ہیں، تمام ایم پی اے وزیر بنے ہوئے ہیںاور اپنے لیے دونوں ہاتھوں سے وسائل اور مراعات اکٹھی کر رہے ہیں لیکن بلوچوں کو انھوں نے محرومیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اب اگر وفاقی وزیر داخلہ اورآئی جی ایف سی بلوچستان یہ بیان دیتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کر رہا ہے، تو دشمن سے تودشمنی کی ہی توقع کی جا سکتی ہے۔اور دشمن کے ساتھ اگر مذاکرات کی میز پر بیٹھا جائے تو اس کا گلہ بھی کیا جانا چاہیے اور کبھی بلوچستان کے ایشو پر مذاکرات کا بائیکاٹ بھی کیا جانا چاہیے تاکہ اس کی مداخلت بند ہو۔ لیکن حالات کو درست کرنے اوراپنے گھر کو پُرامن بنانے کی ذمہ داری تو مرکزی اور صوبائی حکومت کی ہے،اور بظاہر یہ دونوں حکومتیں اس جانب بڑھتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔ابھی موقع ہے کہ بلوچستان کے حالات کو درست کیا جا سکے، وہاں ہونے والے ظلم کی چادرکو ہٹایا جا سکے، ناانصافی کی طویل رات کو سحر کیا جا سکے لیکن جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی حکومت جمہوری رویوں سے بالکل ناآشنا نظر آتی ہے۔عوام کے دلوں میں اس کے لیے نفرت،مذمت، احتجاج، دوریوں اور گالیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
کراچی کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا براے تاوان کے حوالے سے حکومت سندھ میں شریک تینوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگاتی ہیںاورایک دوسرے کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھیراتی ہیں،اور جب وہ ایسا کہہ رہی ہوتی ہیں تو سچ بول رہی ہوتی ہیں۔سندھ کی صوبائی حکومت چوری اور بھتہ خوری کے مشترکہ نکتے پر قائم ہے اور یہ بات زبان زد عام ہے کہ صوبے کی حکومت پس پردہ ہاتھوں میں ہے۔ وزیر اعلی کی حیثیت محض نمایشی ہے۔ پیپلزپارٹی کو سندھ میں اکثریت حاصل ہے، وہ اکیلے اور تنہا حکومت بنا سکتی ہے لیکن دہشت گردوں کواپنی گود میں بٹھا کر اس نے عوام کی پیٹھ پر بھی ظلم کا کوڑا برسایا ہے اور دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بھی بنی ہے۔ ایم کیو ایم یا اے این پی کے مینڈیٹ میں سرے سے یہ بات تلاش نہیں کی جا سکتی کہ انھیں حکومت میں ہونا چاہیے لیکن جرائم کی فہرست جب طویل ہو جاتی ہے اور بوری بند لاشیں، بھتہ خوری اور لوگوں کا جینا حرام کرنے کے ذرائع استعمال کر لیے جاتے ہیں، تو حکومت کی پناہ میں گزربسر کرنا ایسی پارٹیوں کا منشور بن جاتا ہے۔ صوبہ سندھ میں یہ ٹرائیکا جس کی حکومت وہاں پر قائم ہے، ان تمام مسائل، مصائب اور حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہے۔جب تک دہشت گرد حکومت میں شامل رہیں گے کراچی اور سندھ کے شہریوں کے حالات کو درست کرنا ممکن نہیں ہوگا ، جان و مال کا عدم تحفظ روزمرہ کا معمول رہے گا اور نجات کی کوئی صورت بن نہ پائے گی۔
خیبر پختونخوا کی صورت حال بھی ابتری سے دوچار ہے۔صوبائی حکومت نے عوامی خزانے کی لوٹ مار کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جسے تین تین مرتبہ ہجرت پر مجبور کیا گیاہے، گھر سے بے گھر اور لاوارث بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لاتعداد سکول اور ہسپتال ہیںجو دہشت گردی کی نذر ہوگئے ہیں،اور بین السطور یہ بات کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ سوات جیسے ضلع میں تمام سکولوں کو اگر بھک سے اڑا دیا گیا تو یہ سارے واقعات کرفیو کے دوران پیش آئے۔ لوگوں نے اپنے سر کی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھا اور ان گواہوں کی ایک بڑی تعداد ان تمام علاقوں میں موجود ہے جہاں لوگوں کو ان کی ضروریات سے محروم کرکے عنوان یہ دیا گیا کہ دہشت گردی پر قابوپانے کے لیے فوجی آپریشن ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخوااس بات کا مستحق ہے کہ وہاں جن بچوں سے مستقبل چھین لیا گیا ہے اور جن عوام کو صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا ہے، مرکزی و صوبائی حکومت ان کے لیے تعلیم اور صحت کے مراکز تعمیر کرنے پر توجہ دے۔
اس پورے عرصے میں پنجاب حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ اس نے جمہوری رویوں کو برقرار رکھا ہے، عوام کے دکھوں کا لحاظ اور پاس کیا ہے، اور مرکز کی طرف سے مداخلت اور حالات کو بگاڑنے کی کوششوں کے باوجود تحمل اور بُردباری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ حالانکہ اس کے پاس اتنے وسائل تھے اور اتنی دانش و بینش اسے میسر تھی کہ اگر وہ لوڈ شیڈنگ کے بارے میں مرکزی حکومت سے کامل بے اعتنائی برتتے ہوئے اسے کم کرنے یا کنٹرول کرنے کے اقدمات کرتی اور اس کی گنجایش موجود تھی، تویقینی طور پر یہ ایک بڑا کارنامہ ہوتا لیکن اس نے بھی سواے مرکز کو چارج شیٹ کرنے کے کچھ نہ کیا اوراپنے فرائض کی ادایگی سے پہلوتہی کرتے ہوئے عوام کے دکھوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ اسی لیے پنجاب بالخصوص لاہور لوڈشیڈنگ کے سب سے بڑے مراکز کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی محسوس ہوا کہ مصنوعی اور نمایشی اقدامات، دکھاوے کے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے عنوانات تو بہت سجائے گئے، چاہے وہ سستی روٹی سکیم ہو یا لیپ ٹاپ کی تقسیم کا معاملہ ہو لیکن حقیقی طور پر مہنگائی کو ختم کرنے اور بے روزگاری کوکم کرنے کے جو منصوبے اور اقدامات ہوسکتے تھے، وہ سامنے نہیں آسکے۔ اور یہی معاملہ کم و بیش لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کا نظر آیا۔ دہشت گردی کے واقعات بھی اس کی گواہی دیتے ہیں،اور عمومی طور پر جو لاقانونیت ہے اور جو ظلم کی نئی نئی داستانیں رقم ہوتی اور آشکار بھی ہوتی ہیں، ان سے بھی اس کا اندازہ ہوتاہے۔ پنجاب میں جس طرح پرائمری ہی سے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جا رہا ہے، تعلیم مخلوط کی جارہی ہے، اور جس طرح لیپ ٹاپ تقسیم کرکے حکومتوں کے اصل فرائض اور ذمہ داریوں سے پہلوتہی کی جا رہی ہے، نیز طلبہ کو جن دائروں میں ہمت افزائی کی ضرورت ہے اور سہولتیں فراہم کرنے اور ضرورتیں پوری کرنے کی طرف توجہ دی جانی چاہیے، ان سے جس طرح پہلو تہی کی جارہی ہے، اس سے ایک ایسے سماج کا نقشہ سامنے آ رہا ہے جو بے پیندے کے لوٹے سے بھی گیا گزرا ہو۔
بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کاجو امیج استعماری طاقتوں کی پاکستان و اسلام دشمنی،اور حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی اورغلط پالیسیوں کی وجہ سے بن رہا ہے، وہ پاکستان کے وقار کی بھی نفی کرتا ہے اور جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کا رونا بھی روتا ہے۔ اگر امریکا اپنی پالیسی کے تحت پاکستان کو ایٹمی پروگرام سے محروم کرنا چاہتا ہے اور اسے بین الاقوامی کنٹرول میں دینے اور اس کو محفوظ ہاتھوں میں دینے کا راگ الاپنا چاہتا ہے، تو اس کی پالیسی کے تمام عناصر ترکیبی اس طرف نشان دہی کر رہے ہیں کہ وہ ملک میں انارکی کو فروغ دینا چاہتا ہے، بدنظمی اور لاقانونیت کی فضا کو بڑھوتری دینا چاہتا ہے اور اس کے لیے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے مسلسل دبائو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ ملک کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والے قتل ومقاتلہ میں اس پہلو سے اور امریکی سازش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کوشش اور سازش تو یہی ہے کہ سنی اور شیعہ باہم دست و گریبان ہو جائیںجیسا کہ عراق میں کیا گیا لیکن ابھی تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔اگر معاشرے میں شیعہ سنی کو فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں باہم متصادم کردیا جائے تو کوئی خوشی غمی کی تقریب، کوئی ادارہ، کوئی محلہ اور بستی اس سے نہیں بچ سکیں گے۔دونوں طرف کے عوام اور سربرآوردہ لوگوں نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی چاہتے ہیں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنانے میں پیش پیش ہیں۔ ان کی طرف سے اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ کوئی بھی ذی ہوش انسان معصوم لوگوں کے قتل کی تائید اور کوئی صاحب ِ ایمان اس پر خوشی کا اظہار نہیں کرسکتا،تاہم حکومتی اداروں کوامن عامہ برقرار رکھنے اورفرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد پھیلانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ ادانہیں کرسکے۔ حکمران خوابِ غفلت میں مدہوش ہیں اور مستقبل کی فکر مندی کے بجاے اس سے لاپروا دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس میں اس کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ جسے سینٹرل ایشیا کے وسائل تک پہنچنا ہے، وہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔جو چاہتا ہے کہ چین کی دہلیز تک اس کی رسائی ہو جائے، وہ پاکستان کے بغیر ایسا کرنے سے قاصر نظر آئے گا۔ جو ایران کو سبق سکھانا چاہتا ہے اسے پاکستان کی ضرورت کا احساس ستائے گا۔ جو افغانستان کے پہاڑوں اور چٹانوں سے شریعت کو ابھرتا دیکھے گا اور اس پر قدغن لگانے اور اس کا راستہ روکنے کا خواہاں ہوگا، وہ پاکستان کے بغیر یہ کام نہیں کرسکتا۔ جو یہ چاہتا ہے کہ مصنوعی طورپربھارت کو اس خطے کا تھانیدار بنا دے ،اس کے قدکاٹھ میں اضافہ کرکے اسے بلاشرکت غیرے اس خطے کا والی اور وارث بنادے، اسے پاکستان کا تعاو ن درکار ہوگا۔ امریکا اپنے نئے عالمی نظام کی تنفیذکے لیے ان تمام نکات کو اپنا ایجنڈا سمجھتا ہے، اور اس کی جزئیات تک کو نافذ کرنے کے لیے بے تاب اور بے قرار نظر آتا ہے لیکن اس کباب کے اندر ہڈی پاکستان کو سمجھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کو جو مقام دیا ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے بلاخوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگراسے کوئی محب وطن قیادت میسر آجائے اور اخلاص و للہیت کے ساتھ خدمت کے جذبے سے سرشار اپنے آپ کو پائے تو پاکستان اس پورے خطے کو نیا آہنگ دے سکتا ہے۔اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی اپنی اس اہمیت کو پیش نظر رکھ کر بنا رہے ہوتے تو یہاں دودھ اور شہد کی نہریں نہ بھی بہہ رہی ہوتیں لیکن اتنا ضرور ہوتا کہ دہشت گردی کو دندنانے کا موقع نہ ملتا، جان و مال کا تحفظ یقینی دکھائی دیتا اور حکومتیں جن مقاصد کے لیے قائم کی جاتی ہیںان کی تکمیل کرتی ہوئی نظر آتیں۔ افسوس کہ حکمران، سول و ملٹری بیوروکریسی اور پالیسی ساز ادارے خود ہی اپنی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہوئے’ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ کا مصداق بنے ہوئے ہیں اور غیروں کے دست نگر بن کر اپنے تشخص کو پامال کرنے اور بحیثیت قوم کے خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کبھی بھی ہماری جنگ نہ تھی۔ یہ اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے، اس کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے امریکی جنگ تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ پلوں کے نیچے سے جس قدر پانی بہا ہے اور سروں کے اوپر سے جس قدرپانی گزرا ہے، اس نے دو اور دو چار کی طرح یہ بات واضح کر دی ہے۔ اس جنگ سے دہشت گردی کو فروغ ملا ہے۔ اس نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے، اور مسجدوں اور امام بارگاہوں اور پبلک مقامات اور محفوظ دائروں سے گزر کر ایبٹ آباد ، کامرہ اور نیول بیس کراچی میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ صرف طاقت سے کرنے کی حکمت عملی تجربے سے غلط ثابت ہو چکی ہے۔ طاقت کے استعمال سے دہشت گردی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے پھیلائو اور وسعت کو کسی پیمانے سے ناپا نہیں جا سکتا ۔ امریکی فرمایش اور ’ڈومور‘ کی گردان پر ہم نے جس طرح اپنے لوگوں کے خلاف ملٹری آپریشنز کیے ہیں ، اور اس کے نتیجے میں پورے ملک میں جو تباہی ہوئی ہے، وہ اس کی گواہی دے رہی ہے۔دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے تین نتائج بالکل واضح ہیں۔ جگہ جگہ اور جا بجا فوجی آپریشن اور ڈرون حملے اس جنگ کا منطقی نتیجہ ہیں۔ گم شدہ افراد کا المیہ اور ان کی تعداد میں روزافزوں اضافہ اسی کا شاخسانہ ہے۔حکومت نے ڈرون حملوں پر جس طرح خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، اس نے اس حقیقت کو اظہرمن الشمس کردیا ہے کہ حکومت اور فوج کے ایما پر ہی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جو کام پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو کر شروع کیا تھا وہ کام منتخب حکومت پوری آب و تاب کے ساتھ اور امریکا وناٹو سے وفاداری نبھاتے ہوئے جاری رکھے ہوئے ہے اور قوم اور پارلیمنٹ دونوں کی واضح ہدایات کا مذاق اُڑا رہی ہے۔
خارجہ امور کے حوالے سے یہ بات کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ ایک ڈکٹیٹر نے افغانستان میں ایک بابرکت شرعی حکومت کو تہس نہس کرنے میں امریکا کا ساتھ دیااور افغانوں کی اپنی حکومت کو ڈھلان پر چھوڑ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکا اور اس کے حواری افغانستان میں بدترین شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ایک ہزیمت ہے جو سایے کی طرح ان کا پیچھا کر رہی ہے۔ اور لاکھوں ٹن بارود کی برسات بھی افغانوں کے عزم صمیم اور ان کے جذبۂ جہاد کے سامنے ٹھیر نہیں سکی۔ امریکا اور اس کے ۴۰ شریک ممالک کی کیل کانٹے سے لیس افواج پچھلے ۱۱سال سے افغانستان میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ افغانوں اور پاکستان کو اس کے نتیجے میں جو مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے اعداد و شمار بھی دور تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب سے کم و بیش ربع صدی پہلے اگر سوشلزم کا قبرستان افغانستان ثابت ہوا تھا تو آج امریکا، اس کے تھنک ٹینکس اور اس کے حلیفوں کی بصیرت و بصارت اور دُور اندیشی و دُوربینی کا قبرستان بھی افغان کوہساروں اور ریگزاروںمیں پھیلا ہوا ہے۔ جس ویژن کے ساتھ جارج بش نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کی تھیں وہ ویژن ضعف کے حوالے ہو چکا ہے، ناکامی و نامرادی اس کا مقدر بن چکی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پاکستان اس منظرنامے کو دیکھتے ہوئے ماضی قریب کی تمام پالیسیوں پر نظرثانی کرتی اور ایک نئی آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دیتی۔ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر تین قراردادیں منظور کیں جو خارجہ پالیسی کا جائزہ لینے اور اس کے اہداف اور پاکستان کی ضروریات کا ازسر نو تعین کرنے کی دعوت دیتی رہیں لیکن پارلیمنٹ کو سپریم اور بالادست کہنے اور اس کی مالا جپنے والے ایک قدم بھی اس سمت میں آگے نہ بڑھ سکے اور پارلیمنٹ کی یہ متفقہ قراردادیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی صدارت میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی اور ساری جماعتوں نے بڑے جوش و خروش اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ اس کی قرارداد بھی انھی نکات پر مشتمل تھی کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نجات پائی جائے، آزاد خارجہ پالیسی کی طرف قدم بڑھائے جائیں اور خطے میں پاکستان کے مفادات کی نگہبانی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہ کُل جماعتی کانفرنس اور اس کی قرارداد بھی نشستند و گفتند و برخاستند کی نذرہوگئی۔
سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے نتیجے میں جو جانی نقصان ہوا وہ اپنی جگہ لیکن وقار کا، تمکنت کا اور توقیر کا جو جنازہ سلالہ سے اٹھااس نے پوری قوم کو مضطرب اور بے چین کر دیاتھا، اور اس کے نتیجے میں اگر ناٹو سپلائیز بند کردی گئی تھیں تو قوم نے اس کا خیر مقدم بھی کیا تھا اور بڑے پیمانے پر مظاہرے کر کے یہ بات بھی باور کرائی تھی کہ ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے جینا چاہتے ہیں اور جو لوگ ہماری خودمختاری کو چیلنج کر رہے ہیں اور ہمارے جوانوں کو شہید کر رہے ہیں، ان کے ساتھ دوستی ہو سکتی ہے نہ ان کی جنگ میں شریک رہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نادر موقع فراہم ہو اتھا کہ پارلیمنٹ کی ہدایات کی روشنی میں خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے اور امریکی جنگ کو خیرباد کہا جائے لیکن سیاسی اور فوجی قیادت امریکی دبائو کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ اوراس کے ضعف ، کمزوری اور حب الوطنی میں کمی کے نتیجے میں عوامی مخالفت کے علی الرغم ناٹو سپلائی کا بحال ہونا پوری قوم کے لیے شرمندگی اور ندامت کا باعث بنا۔ جماعت اسلامی نے نہ صرف ناٹو سپلائی بلکہ امریکا کے پورے ایجنڈے (ڈرون حملے ، ملٹری آپریشنزاور ریمنڈ ڈیوس جیسے ہزاروں امریکیوں اور ان کے ایجنٹوں کی موجودگی) کے خلاف آواز اٹھائی ہے ، تسلسل کے ساتھ ’گو امریکا گو‘ تحریک چلائی ہے، اور اس کے ذریعے قیام پاکستان کے مقاصد کو بھی آشکار اورذہنوں میں تازہ کیا ہے، اور امریکا کی سازشوں اور امت مسلمہ اور اسلام کے بارے میں اس کی سوچ و فکر اور پالیسیوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا ہے جس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف ایک عمومی بیداری کی لہر موجود ہے۔ بجاے اس کے کہ عوامی راے کا احترام کیا جاتااور حب الوطنی کے تقاضے پورے کیے جاتے،دشمن کو کمک پہنچانے، اس کے ضعف کو قوت میں بدلنے اور ناٹو سپلائیز کے بند ہونے سے جو کمزوری اس میں واقع ہو گئی تھی، اس کو دورکرنے کی شعوری کوشش کی گئی ۔ تاریخ میں ایسے عقل و دانش سے محروم اور عاقبت نااندیش لوگوں کی شاید مثال نہ ملتی ہو، جو اس طرح کے اقدام سے اپنے ہی پیر پر کلھاڑی مارتے ہوںاور دشمن کی صفوں کو مضبوط کرنے کا ذریعہ اور سبب بنتے ہوں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان استعماری قوتوں کا دست نگر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ملکوں نے بیرونی امداد پر اپنی معیشت استوار کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کبھی اقتصادی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔ بیرونی امداد اور قرضوں کی معیشت نوآبادیاتی نظام کے بظاہر ختم ہوجانے کے بعد معاشی طور پر قوموں کو بیڑیاں پہنانے ، ہتھکڑیاں لگانے اور زبان پر پہرے بٹھانے کے وہ طور طریقے ہیں جو اب خاصے پرانے ہو گئے ہیں۔ساری دنیا استعمار اور سامراج کے ہتھکنڈوں سے کچھ نہیں تو اپنے تجربوں سے گزر کر واقف ہوگئی ہے۔ پاکستان کی بجٹ اور معاشی پالیسی سازی میں جس طرح آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک اور امداد دینے والے اداروں کا عمل دخل بڑھ گیا ہے، اس سے کون واقف نہیں ہے۔ان اداروں کے عمل دخل سے حالات مسلسل خراب ہوئے ہیں، مہنگائی کے عفریت نے لوگوں کا جینا دوبھر کیا ہے، غریب کی غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور غریبوں کی تعداد میں بھی۔چاروں طرف احساس محرومی کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں اور مجبور و بے کس عوام اپنی ناداری اور بے کسی و بے بسی پر سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں۔ چادر سر کی طرف لے جائیں تو پیر کھل جاتے ہیںاور پیروں کی طرف لے جائیں تو سر کھل جاتا ہے لیکن کوئی ان کا پُرسان حال نہیں ہے۔ بے روزگاری’ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ کا مقام پا چکی ہے۔ معاشی دائرے کے اندرمحرومیوں کی یہ داستان معاشرے کو جونقصان پہنچاتی ہے اور جس کش مکش میں مبتلا کرتی ہے وہ سب کچھ یہاں دکھائی دے رہا ہے۔
اخلاقی گراوٹ کا اگر ذکر کیا جائے تو اس میںیہ تمام عوامل کارفرما ہیں۔ پورے معاشرے کو جس طرح فحاشی و عریانی، بے حیائی اور جنسی ہیجان کے اندر مبتلا کردیا گیا ہے، اور میڈیا کے ذریعے نظریہ پاکستان کی جس طرح نفی کی جا رہی ہے، اس کی بنیادوں کو جس طرح کھوکھلا کیا جا رہا ہے اور نئی نسل کے مستقبل کو جس طرح تاراج کیا جا رہا ہے، بے مقصدیت اور بے ہدف زندگی کو جس طرح عام کیا جا رہا ہے، یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان سے اس کے نظریاتی تشخص کو چھین لیا جائے اور جس تحریک پاکستان کے نتیجے میں اور جس جدوجہد اور قربانیوں کے بعد اس ملک کو حاصل کیا گیا ، اُس کو ذہنوں سے اوجھل کر دیا جائے۔نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں جس طرح تحریفات کی جا رہی ہیںاور جن کے لیے اربوں روپے مغربی استعمار سرکاری اور غیر سرکاری راستوں سے خرچ کر رہا ہے، اس کا حاصل یہ ہوگا کہ نئی نسلیں ملک و ملت کی تاریخ سے بے خبر، اپنی اقدار سے بے نیاز اور ملک کے مقصد وجود سے لاتعلق ہوں گی اور حرص و ہوس ہی ان کا مقصد حیات بنا دیا جائے گا۔
اس پورے پس منظر میں جو پہلے پرویز مشرف اور اس کی حکمرانی کے دور میں اور پھر آصف زرداری اور اتحادی حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے اس انتہا کو پہنچا ہے،ملک میں انتخابات کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے۔ حکمران جماعت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب تر ہو رہی ہے اور انتخابات اُمید کی کرن کی حیثیت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ یہ خدشات موجود ہیں کہ حکمران انتخابات کے عمل کو ایک سال آگے دھکیلنا چاہتے ہیںاورعین ممکن ہے کہ یہ منظرنامہ بیرونی طاقتوں کے ایما پر ہی ترتیب دیا جا رہا ہوکہ آصف زرداری اور ان کے حکمران ٹولے سے بہتر امریکا کا خدمت گزار کوئی نہیں ہو سکتا۔قومی انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا شوشہ اسی لیے چھوڑا گیا ہے۔ جماعت اسلامی ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کے حق میں رہی ہے لیکن پیپلزپارٹی اب بلدیاتی الیکشن کے لیے بے قراری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو بجا طور پر یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ساڑھے چار سال میں یہ کام کیوں نہیں کیاگیا اور کیوں اس کے فوائد سے بے زاری اور بے اعتنائی کا ارتکاب کیا گیا۔ اور اب عجلت کا یہ عالم ہے کہ ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل قانون صوبائی اسمبلی کو اپنے قانون سازی کے حق اور عوام اور میڈیا کو احتساب اور نظرثانی کے استحقاق سے محروم کرنے کے لیے گورنر ہائوس میں کلیا میں گڑ پھوڑنے کی مشق کے بعد آرڈی ننس کے ذریعے مسلط کرنے کا شرم ناک کھیل کھیلا گیا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ جمہوری اور سیاسی حکومتیں قائم ہوتی ہیں تو وہ بلدیاتی انتخاب سے گریز کی راہ اختیار کرتی ہیں اور فوجی حکومتیں برسراقتدار آتی ہیں تو وہ اپنی سیاسی اور قانونی حیثیت کو تسلیم کرانے کے لیے بلدیاتی انتخابات کا رخ کرتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت چارمرتبہ عوام نے دیکھی ہے لیکن ان کے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات ہوتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں حکومتی اختیارات استعمال کرکے کامیابی حاصل کی جائے اور پھر بلدیاتی کامیابی کے نتیجے میں قومی الیکشن کو متاثر کرنے اور اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کی آسان اور کامیاب کوشش کی جائے۔
اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقی اپوزیشن گرینڈ الائنس کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائے اور اس یک نکاتی ایجنڈے پر آگے بڑھے کہ حکومت قومی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، ایک قابل قبول مکمل طور پر غیر جانب دار عبوری حکومت سامنے لائی جائے، اور شفاف انتخابی فہرستوں کے ذریعے انتخاب کا اہتمام کیا جائے۔ اپوزیشن کی جماعتیں بظاہر اس تجویز سے متفق تو نظر آتی ہیں لیکن پیش رفت اور پیش قدمی کے لیے آمادگی کم کم دکھائی دیتی ہے۔یہ بات کہ گرینڈ الائنس نہ ہونے کی صورت میں جماعت اسلامی ایم ایم اے کی بحالی کی طرف جائے گی یا تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے ساتھ کسی الائنس یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں قربتیں پیدا کرے گی، اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ تمام جماعتوں، سیاسی گروہوں اور رہنمائوں سے ہمارے رابطے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور تعاون کی راہیں تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اپنے طور پر بھی مسائل کو سمجھنے اور ترجیحات کے تعین کی کوشش کی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنا منشور بھی شائع کر دیا ہے لیکن صحیح معنوں میں انتخابی حکمت عملی اسی وقت بنے گی جب انتخابی تاریخوں کا اعلان ہوگا۔جو ہوم ورک اس دوران کیا جا رہا ہے، اس کے نتیجہ خیز ہونے یاصحیح طور پر اختیار کرنے کا وقت بھی وہی ہو گا۔
رابطہ عوام مہم کے دوران ہم یہ بات تسلسل سے کہہ رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ اس بات کو فروغ ملے اور بڑے پیمانے پر اس کو دہرایا جائے کہ پچھلے چھے سات الیکشن میں عوام نے جن پارٹیوں کو ووٹ دیے اور انھیں ایوان اقتدار تک پہنچایا، انھوں نے سواے مہنگائی وبے روزگاری، لاقانونیت و ٹارگٹ کلنگ اور امریکی غلامی کے ، عوام کی جھولی میں کچھ نہیں ڈالا۔ حکمران خود عیش و عشرت میں ہیں لیکن عوام کے حصے کڑوے کسیلے پھل آئے ہیں۔اگر لوگ انھی پارٹیوں کو جھولیاں بھرکے ووٹ دیں گے تو پھر بعد میں جھولیاں بھر کے بد دعائیں دینے سے تقدیر نہیں بدلے گی۔ ملک وملت کی قسمت بدلنی ہے تو ووٹ دینے کا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ عوام اس پوری صورت حال سے واقفیت کے نتیجے میںاس جدوجہد میں شامل ہوں جو جماعت اسلامی بڑے پیمانے پر لے کر چلی ہے۔ یہ جدوجہد ’گوامریکا گو‘ کے قومی مطالبے کے واضح اظہار سے شروع ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی غلامی سے نجات ایک فلسفہ بھی ہے، نظریہ بھی ہے ،مقبول نعرہ بھی ہے، غلامی سے نجات کا راستہ اور آزادی کا پروانہ بھی ہے۔ امریکی غلامی سے نجات کے بغیر قومی وملّی اتحاد و اتفاق، عزت و وقار اور ترقی و کمال کی منزل پر نہیں پہنچا جا سکتا۔
رابطہ عوام کے نتیجے میں ہمیں لوگوں تک پہنچنا چاہیے، ان کے دروں اور دلوں پر دستک دینی چاہیے اور انھیں صورت حال سے آگاہ کرکے اس پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ووٹ دینے کے رویے پر نظرثانی کرتے ہوئے ان جماعتوں کو مسترد کریں جو ان کے لیے مشکلات اور مصائب کا سبب بنی ہیں اور ملک کی آزادی کو امریکا کی نئی غلامی میں دے دینے کا ذریعہ بنی ہیں۔ یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کرپٹ حکومت کے ذریعے کرپٹ معاشرہ ہی قائم ہوتا ہے اور کرپٹ حکمران عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نہ کوئی کام کرسکتے ہیں اور نہ ان کے ذریعے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔ یہ صرف پورے ملک کے اندر سرگرمی اور جدوجہد کے نتیجے میں ممکن ہے کہ عام آدمی جماعت اسلامی کی طرف رُخ کرے اور اپنا اور اپنے اہل خانہ کا ووٹ جماعت ا سلامی کے حق میں استعمال کرکے حالات کا رُخ بدلے اور ملک و قوم کو اس تاریک رات سے نجات دلائے جس کی جاں گسل گرفت سے نکلنے کے لیے وہ تڑپ رہی ہے۔
لوگ اس بحث میں بھی جا بجا کنفیوژن سے دوچار نظر آتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے کسی تبدیلی یاانقلاب کی گھن گرج نہیں سنی جا سکتی۔ یہ بات تسلیم ہے کہ انتخاب مکمل انقلاب کا راستہ نہیں ہے لیکن جزوی انقلاب اور جزوی تبدیلیاں بہتری کی طرف مائل کرنے اور منزل کو قریب کرنے کا ایک ذریعہ ضرور ہیں۔ اگر انقلابی ووٹرز کی تعداد بڑھتی چلی جائے اوروہ جماعت اسلامی کی پشتی بانی کریں تو یقینی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انتخاب کا راستہ بھی انقلاب کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اگر عوام اور ووٹرز حکمرانوں کو، ظالموں اور جاگیرداروں کو، سیکولر لابی اور امریکی ایجنٹوں کو ووٹ نہ دیںاور انھیں بڑے پیمانے پر غیر مقبول بنا دیں تو اس کے نتیجے میں بھی اس تبدیلی کے دروازے کھل جائیں گے جو مطلوب ہے اور جس کے نتیجے میں ان شاء اللہ ’سٹیٹس کو‘ کے بت گرجائیں گے۔ اس لیے جماعت اسلامی نہ صرف اپنے بہی خواہوں اور خیرخواہوںسے، اپنے سے ہمدردی رکھنے والوں اور حمایت کرنے والوں سے یہ اپیل کرتی ہے کہ بلکہ ملک کے اہل دانش و بینش سے، سوچ اور فکر رکھنے والوں سے، ظالمانہ معاشی نظام کے دو پاٹوں میں پسنے والے انسانوں سے، دکھی لوگوں سے، غریبوں سے، محروموں، بے کس و مجبوروں سے بھی یہ اپیل کرتی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے جلو میں آجائیں۔ عدل و انصاف کا نظام قرآن و سنت کی فرماں روائی کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا کش مکش مول لے کر اسلامی نظام کی طرف بڑی تعداد میں لوگوں کو راغب کریںاور اسلام کے بابرکت نظام کو قائم کرنے کی نیت اور ارادے کے ساتھ انتخاب کے ذریعے تبدیلی کو یقینی بنائیں۔
کتابچہ دستیاب ہے۔منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ قیمت: ۱۳ روپے۔
اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ کوئی آدمی عقیدے میں پختہ ہو یا کمزور، یہ ضمنی بحثیں ہیں، لیکن اصلاً جس عقیدے کا حامل جو شخص ہوتا ہے اس کے اعمال، افعال، رویے اور کردار پر لازماً اس کا گہرا اثر اور چھاپ ہوتی ہے۔
عقیدۂ آخرت اس یقین کا نام ہے کہ یہ دنیا اور یہ زندگی فانی ہے۔ اس عالم کے بعد ایک دوسرا عالم وجود میں آنا ہے۔ جس طرح سے عالم دو ہیں، اس طرح سے زندگیاں بھی دو ہیں۔ گویا اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اصلاً زندگی تو ایک ہی ہے، جس چیز کا نام ہم نے موت رکھا ہوا ہے، اس کی آمد سے وقتی اور عارضی طور پر محض زندگی کا مرحلہ بدل جاتا ہے مگر زندگی اور اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ اس زندگی کو ہم عارضی یا ناپایدار زندگی کہتے ہیں، اور وہ زندگی جو موت کے دراوزے سے گزر کر شروع ہوتی ہے، پایدار، باقی رہنے والی، دائمی اور ہمیشہ کی زندگی قرار پاتی ہے۔ قرآن پاک میں جابجا اس حوالے سے جواب دہی کا احساس اور آخرت کا حوالہ موجود ہے:
وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرہ ۲:۴) اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
اَیَحْسَبُ الْاِِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo (القیامۃ ۷۵:۳۶) کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟
تمام اعمال کی جواب دہی اسی عقیدۂ آخرت کی بنیاد پر ہے۔ محاسبۂ اعمال کی تفصیل قرآن پاک کے اوراق کے اندر بکھری ہوئی ہے۔ سورئہ واقعہ، سورئہ معارج، سورئہ حاقہ، سورئہ قیامہ، سورئہ تکویر اور سورئہ نبا، یہ وہ سورتیں ہیں کہ جن میں قیامت اور آخرت کی ہولناکیوں اور مجرمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا تذکرہ ہے، نیز روزِ محشر کی تفصیلات ہیں۔ سورج کا لپیٹ دیا جانا اور ستاروں کا بے نور ہو جانا، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، جو انسان جو کچھ لے کر آیا ہے، اس کو اپنا کیا دھرا سب معلوم ہوجائے گا، جب آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے اور جب دریا ایک دوسرے سے مل کر بہہ نکلیں گے، جس دن صور پھونکا جائے گا اور یکایک قبروں سے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے، اور اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے اور پکاریں گے: ہاے ہماری کم بختی، کس نے ہماری خواب گاہوں سے ہمیں جگادیا اور یہ تو وہی قیامت کادن ہے، جس کا حق تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے اس کے بارے میں سچی خبریں ہم تک پہنچائی تھیں___ یہ وہ منظرکشی ہے جس سے تسلسل کے ساتھ آخرت اور اس کی جواب دہی اور اس حوالے سے انسانوں کے اعمال کو دیکھا اور پرکھا جانا سامنے آتا ہے۔
ایمان کے بعد انسانی زندگی کو سنوارنے، اس کو حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اوراس کو درست رُخ دینے کے لیے اور منزل کا شعور بخشنے کے لیے اگر کوئی عقیدہ ہے تو وہ آخرت کا عقیدہ ہے۔ آخرت کی فکر کے لیے یہ پوری منظرکشی قرآنِ مجید اور احادیث میں ملتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو مطلوب ہے،اس لیے کہ فکرِ آخرت انسانی جمود کو توڑنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ جب انسان بے عمل ہوجائے، غلط راہوں پر چل نکلے، گم کردۂ راہ ہوجائے، سب کچھ جانتے ہوئے عملی زندگی میں انجان سا بن جائے، تو یہ آخرت کی فکر انسان کے جمود کو توڑنے اور اس کے ایمان پر لگ جانے والے زنگ کو اُتارنے، دیگر افکار اور پریشانیوں سے کاٹ کر آخرت کے شعور کی طرف لانے کے لیے نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔
جناب صدیق اکبرؓ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرانے ساتھی تھے۔ عمر میں بھی دو ہی سال کا فرق تھا، گویا بچپن ہی سے ایک دوسرے کو دیکھتے آئے تھے۔ جناب صدیق اکبرؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! آپؐ پر تو بڑھاپا آگیا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ہاں، مجھے بوڑھا کر دیا سورئہ ہود، سورئہ واقعہ، سورئہ مرسلات، سورئہ نبا اور سورئہ تکویر نے۔ (ترمذی)
ان سورتوں کی اگر تلاوت کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ وہی سورتیں ہیں جن میں قیامت اور آخرت کا بیان ہے۔ ان میں اس پکڑ، بازپُرس اور تنبیہ کا بیان ہے جو آخرت برپا ہونے سے پیش تر کی جارہی ہے۔ نبی کریمؐ ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے تو آپؐ پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی تھی۔ آپؐ چونکہ داعیِ اعظم اور داعیِ اوّل تھے، اس لیے یہ خوف بھی آپؐ کو ستاتا تھا کہ اگر یہ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے تو لازماً پکڑے جائیں گے،اور اس طریقے سے بارگاہِ رب العزت میں دھر لیے جائیں گے۔ یہ وہ کیفیت تھی کہ جس میں جواب دہی اور دوسروں کی نجات کے لیے فکرمند ایک داعی کی حیثیت سے آپؐ سرشار رہتے تھے۔ لوگوں تک پہنچنا، ان کے دلوں پر دستک دینا، ان کو سیدھے راستے پر لانا، جہنم کی آگ سے بچانا اور قبر کی پکڑ سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام جتن کرنا، ان کی فکرمندی کا عنوان تھا۔
اپنی گھریلو زندگی میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس فکرمندی میں گُھلے جاتے تھے۔ ان کیفیات کا تذکرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی احادیث میں ملتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے حضوؐر کو بارہا یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا ، ’’اے اللہ! مجھ سے آسان حساب لیجیے‘‘، تو میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! آسان حساب کی کیا صورت ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایک شخص کے اعمال نامے کو دیکھے گا اور بس اس سے صرفِ نظر فرما لے گا، تو یہ آسان حساب ہوگا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ! اس دن جس شخص سے واقعی پوچھ گچھ ہوگئی تو وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا۔ اسی لیے آپؐ نے یہ دعا بھی سکھائی۔
موت جس چیز کا نام ہے، اور جس سے ہم بہت اچھی طرح واقف ہیں، یہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ موت کے بعد کے جو واقعات قرآن اور حدیث میں ملتے ہیں، وہ تو اور بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ ان کے تذکرے سے بھی آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اوراعمال کے اندر تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری دُور کرنے کا جذبہ انسان کے اندر پروان چڑھتا ہے۔ موت سے زیادہ یقینی چیز کوئی بھی نہیں۔ یہ بڑی ہی تلخ حقیقت ہے اور اس کڑوے گھونٹ کو پیے بغیر گزارہ بھی نہیں ہے۔ اس سے انسانوں کو مَفر نہیں ہے۔
حضرت سعد بن معاذؓ بڑے جلیل القدر صحابیؓ ہیں۔ نبی کریمؐ آپ کی نمازِ جنازہ پڑھا رہے ہیں۔ آپؐ ہی کے مبارک ہاتھوں ان کی تدفین عمل میں آرہی ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں سے قطع نظر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی کریمؐ کے ذریعے سے ہمیں یہ تعلیم دے رہا ہے کہ قبر کی پکڑ کسے کہتے ہیں، قبر کا سکڑ جانا اور اس کے نتیجے میں انسانوں کا بھینچا جانا کسے کہتے ہیں، اور قبر کی حقیقت کیا ہے!
حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے اَن گنت واقعات ہیں جو صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے ملتے ہیں کہ وہ کس فکر کے اندر غلطاں و پیچاں رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیق اکبرؓ کہتے کہ کاش! میں تنکا ہوتا۔ اس کا کوئی حساب کتاب تو نہیں ہوتا، اور اس کی کوئی پوچھ گچھ تو نہیں ہوتی۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ کاش! کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ میں چھوٹ جائوں۔
آخرت کا بہت گہرا تعلق فکرِ دنیا سے ہے۔ ان دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال ہی انسان کو راہِ راست پر رکھتا ہے۔ اگر انسان فکرِ دنیا کے اندر دُور تک چلا جائے توفکرِ آخرت اس سے گم ہوجاتی ہے۔ اس لیے فکرِ آخرت کی دولت پانے کے لیے خود دنیا کا تصور واضح اور دوٹوک ہونا چاہیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی جماعت کے ساتھ چل رہے تھے کہ کوڑے کے ڈھیر پر بکری کا مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ آپؐ نے صحابہ کی طرف رُخ کر کے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بکری کے اس بچے کو ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرامؓ قدرے حیران ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو بکری کا مرا ہوا بچہ ہے، ہم میں سے تو کوئی اس کو مفت میں لینا بھی گوارا نہیں کرے گا۔
ذرا دیکھیے کہ کس طرح آپؐ تعلیم دیتے ہیں، کیسے ذہنوں کو آمادہ کرتے اور لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حیثیت اس بکری کے مرے ہوئے بچے سے بھی کم تر ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس دنیا کی فکر میں ہم دن رات لگے رہتے ہیں، تگ و دو کرتے ہیں اور اسی کے غم میں نڈھال ہوتے، جوانی کے اندر بوڑھے نظر آنے لگتے ہیں، اس دنیا کی یہ حیثیت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: دریا کے اندر انگلی ڈالو اور باہر نکالو تو جو پانی اس انگلی کے اُوپر لگا رہ جائے گا، وہ دنیا کی زندگی ہے، اور جو ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی باقی رہے گا، وہ آخرت کی زندگی ہے۔
یہ دنیا تو لمحوں، مہینوں، اور برسوں کی اتنی طوالت کے باوجود بہت کم، بہت ہی بے مایہ اور بے حیثیت ہے، جب کہ آنے والی زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی ہے، جس کی کامیابی اصل کامیابی اور ناکامی اصل ناکامی ہے۔ اس دنیا میں پائی جانے والی کامیابی عارضی ہے، پانی کا بُلبلہ ہے کہ ابھی ہے اور ابھی نہیں۔ یہاں کی ناکامی اور یہاں کا غم بھی بالکل عارضی ہے کہ وہ اچانک ختم ہوجاتا ہے۔ دنوں کی رفت گزشت کے نتیجے میں ذہنوں سے دُھل جاتا ہے۔ اس لیے تصورِ آخرت کے ساتھ ساتھ خود تصورِ دنیا بھی احادیث پاک میں بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے۔ ملازم کو دیکھا تو اس کو آواز دی اور کہا کہ جائودیکھو میرے اُونٹوں میں سے جو سب سے اچھا اُونٹ ہے، وہ اللہ کی راہ میں دے دو اور قربان کر دو۔ کچھ دیر کے بعد ملازم آیا اور اطلاع دی کہ کام ہوگیا ہے۔ شام کو جب آپؓ اپنے گھر پہنچے تو دیکھا کہ اُونٹوں میں سے جو سب سے اچھا سُرخ اُونٹ تھا، وہ اسی طرح زندہ سلامت کھڑا ہے۔ آپؓ نے ملازم کو بلایا اور کہا کہ نیک بخت میں نے تجھ سے کہا تھا کہ سب سے اچھا اُونٹ اللہ کے راستے میں دے دو، اور تو نے نہایت ہی مریل اُونٹ اللہ کے راستے میں قربان کردیا۔ اس نے کہا: یہ تو دراصل وہ اُونٹ ہے جو آپؓ سواری میں استعمال کرتے ہیں، بُرے وقت میں کام آتا ہے، سفر میں آپؓ کا ساتھ دیتا ہے، اس لیے میں نے اس اُونٹ کو رہنے دیا۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ ارے نیک بخت! تجھے پتا ہی نہیں کہ مجھے کس دن کی سواری کے لیے اُونٹ مطلوب تھا۔ جب کوئی سواری میسر نہ ہوگی تو اس لمحے کے لیے مجھے یہ اُونٹ مطلوب تھا۔ میں اس دن کے لیے یہ اُونٹ چاہتا تھا کہ جب کسی انسان کو سایہ بھی میسر نہ آئے گا اور کوئی بھی سہارا اس کو نہیں ملے گا___ یہ ہے تصورِ دنیا اور تصورِ آخرت۔ یہ تصور درست ہوگا تو فکر بھی درست ہوگی اور صحیح رُخ پر اس کی تشکیل ہوگی۔
اس زندگی میں تصورِ مال کا درست ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ مال کی حقیقت کیا ہے؟ وہ جو واقعہ آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے اور اُمہات المومنینؓ سے پوچھا کہ گھر میں کچھ کھانے کے لیے ہے؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آج ایک بکری ذبح کی گئی تھی اسے محلے میں، رشتہ داروں میں اورعزیزو اقارب میں تقسیم کر دیا گیا ہے، بس دست کا ایک ٹکڑا باقی ہے۔ دیکھیے آپؐ نے کیا فرمایا؟ آپؐ نے فرمایا: جو دے دیا گیا، دراصل وہی باقی ہے اور جو رہ گیا وہ کس کے کام آنا ہے۔
اصل مسئلہ تو تصورات کا ہے۔ اگر تصورات درست ہوں گے تو فکر بھی درست اور ٹھیک ہوگی اور عمل کی وادی میں آدمی صحیح سمت کی طرف چلے گا۔ یہ تصورِ آخرت ہی تو ہے کہ جو دے دیا گیا وہی دراصل باقی ہے اور جو باقی رہ گیا، وہ بھلا کس کے کام آنا ہے۔
ہمارا روزمرہ کا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جب دینے کا موقع آتا ہے تو بھلے سے بھلا آدمی بھی یہ سوچنے لگتا ہے کہ چلو گھر کی صفائی کا نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔ لوگ پھٹے پرانے کپڑے، گھسے پٹے جوتے اور ٹوٹے پھوٹے برتن اور دوسرا سامان وغیرہ نکال نکال کر راہِ خدا میں دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات نہیں ہوتی کہ میں یہ اپنے آپ کو دے رہا ہوں، اس لیے کہ جب ہم وہاں پر پہنچیں گے تو یہی پھٹے پرانے کپڑے اور ٹوٹے پھوٹے جوتے، اور گیا گزرا سامان ہمارا انتظار کر رہا ہوگا کہ تم نے اپنے آپ کو یہی دیا تھا نا۔ اب یہی کھائو، پیو اور عیش کرو!
ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہی نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ خیال تو یہی ہوتا ہے کہ راہِ خدا میں دیا جا رہا ہے۔ اگر انسانی ذہن اس بات کو سوچنے اور بالآخر اس کے مطابق اپنے یقین کو پختہ کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے کہ یہ دراصل میں اپنے آپ کو دے رہا ہوں، یہ فی الحقیقت خود میری ذات کے لیے سرمایہ کاری ہے، تو اس کا رویہ بدل جائے گا۔ پھر وہ بہتر سے بہتر دے گا، اچھے سے اچھا دے گا، جس چیز سے محبت کرتا ہے، اسی سے انفاق کرے گا۔ اس لیے تصورِ مال کا درست ہونا، تصورِ دنیا کا درست ہونا ضروری ہے اور اسی کے نتیجے میں تصورِ آخرت درست ہوتا ہے جو مطلوب ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ مشہور صحابی ہیں۔ نبی کریمؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے سورئہ مطففین کی آیت: یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (وہ دن جب تمام انسانوں کو بارگاہِ رب العزت میں لاکھڑا کیا جائے گا۔۸۳:۶) کی تلاوت کی اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! روزِ محشر جو ہزار سال سے بھی بڑا دن ہوگا، کس کے اندر یہ طاقت اور مجال ہوگی کہ اللہ کی بارگاہ میں کھڑا رہ سکے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ابوسعید! وہ دن نافرمانوں اور مجرموں اور باغیوں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔
مصیبت کا دن تو ویسے ہی بڑا سخت ہوتا ہے۔ مصیبت کی گھڑی ٹلنے کو نہیں آتی۔ کسی آزمایش سے انسان دوچار ہوجائے تو لگتا ہے کہ نہ معلوم کب سے اس آزمایش کے اندر گھرا ہوا ہے۔ کچھ یاد بھی نہیں آتا کہ کبھی خوشی و مسرت سے بھی ہم کنار ہوا تھا لیکن آپؐ نے فرمایا کہ مومنوں کے لیے اس دن کو آسان بنا دیا جائے گا اور وہ اپنے رب کے جلوے سے سرفراز ہوںگے، اور ان کے چہرے شاداں و فرحاں ہوں گے، سورئہ قیامہ کی آیت کَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ (۷۵: ۲۰-۲۲) کی گویا آپؐ نے تشریح فرمائی کہ اس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوںگے، شاداں و فرحاں ہوں گے، چمکتی دمکتی پیشانیوں کے ساتھ پُرامید نگاہوں کے ساتھ، اپنے رب کی طرف بڑھ رہے ہوںگے، اس نعمت کو لینے کے لیے اور انعامات کا مستحق ٹھیرنے کے لیے اور اپنے رب کے دربار سے سرخ رُو ہونے کے لیے۔
ایک طرف یہ منظر ہے کہ لوگ شاداں و فرحاں ہوںگے اور اُمید بھری نگاہوں سے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ وہاں ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ کچھ چہرے اُداس ہوں گے، آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی، اور ان کو یہ خیال ستا رہا ہوگا کہ عنقریب ایک کمرتوڑ سلوک ان کے ساتھ کیا جانے والا ہے۔ ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کی تصویر میں یہ فرق بڑا واضح ہوگا۔ ایک گروہ رحمتِ الٰہی کی اُمیدیں لیے ہشاش بشاش ہوگا، چمکتی پیشانیوں اور کھِلے چہروں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہوگا، وہیں دوسرا گروہ عذابِ الٰہی کے اندیشوں سے بدحواس، اور اپنے رب کی پکڑ اور اس کے دربار میں جو سلوک اس کے ساتھ کیا جانا ہے اس کی سختی سے بے حال ہوگا۔
روزِ محشر کا یہ بیان قرآن پاک کے اندر اور بہت سے مقامات پر موجود ہے اور احادیث میں نبی اکرمؐ نے تفصیل سے اسے بیان فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ میدانِ حشر کا یہ منظر موت کے دروازے سے گزر کر ہی نظر آئے گا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہم تو اس کے تذکرے سے بھی تھوڑے سے گریزاں اور کتراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی مجلسوں کا موضوع تو آخرت اور موت کی یاد ہوا کرتا تھا۔ لوگ اس حوالے سے اپنی پوری زندگی کو استوار کرتے اور اس کو بنیاد بناتے تھے۔ ادھر ہمارے ہاں اگر بھری بزم کے اندر کوئی موت کا تذکرہ لے بیٹھے تو لوگ اسے بدشگونی سمجھتے ہیں۔
پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی، وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ(القیامۃ ۷۵:۲۹)، یعنی جاں کنی کا مرحلہ۔ جب انسان نہ چل سکے گا، انھی پنڈلیوں کے بل پر ہی تو انسان چلتا پھرتا اور جولانیاںدکھاتا ہے۔ ادھر سے مال بھیجا، اُدھر سے چھڑا لیا، اُدھر اتنے لینے کے دینے اور اِدھر اتنے دینے کے لینے، یہاں اکائونٹ کھولا اور وہاں اکائونٹ کھولا، لمحوں کے اندر دولت مند بن گیا۔ اِدھر لوگوں کو ملازم رکھا اوراُدھر برطرف کر دیا، ایک قلم اور ایک دستخط سے نہ جانے کتنے لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرڈالا۔
پھر جب رب کی طرف لوٹنے کا سفر شروع ہوتا ہے تو ایک ایک کر کے منظر بدلتے چلے جاتے ہیں۔ کسی موذی بیماری یا طویل علالت کا زمانہ شروع ہوتا ہے تو وہی جہاں دیدہ، مشہور و معروف، محفل کی جان اور اپنے بچوں کے لیے آسمان کے تارے توڑ لانے کے لیے سرگرم فرد بستر سے لگا پڑا ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرے بچوں کو بلائو، مگر بچے مال و دولت سمیٹنے میں اور مینجمنٹ کی ذمہ داریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ پیغام ملتے ہی کہتے ہیں کہ کس مصروف وقت میں ابّاحضور یا دادا جان نے ناگاہ طلب فرمایا ہے۔ ایک اُکتاہٹ، ایک بے زاری کی کلونس چہرے پر چھا جاتی ہے، اور جب آتے ہیں تو جلد واپس جانے کا بہانہ پہلے ہی سے گھڑ کے ساتھ لاتے ہیں۔ ابا حضور کی آنکھیں توو ہی ہوتی ہیں لیکن دھندلائی ہوئی اور دیکھنے سے انکاری۔ وہی کان ہوتے ہیں لیکن سننے سے عاری ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے پہچاننے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ زبان سے کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں پاتے۔ کہتے کچھ ہیں، مگر ادا کچھ ہوتا ہے۔ اس لمحے کوئی سعادت مند بچہ پکارتا ہے کہ بلائو ڈاکٹر یا حکیم کو، بلائو قاری صاحب کو کہ آیت کریمہ کا ختم کرائیں، سورئہ یٰس کی تلاوت شروع کر دو۔
یہ کوئی انوکھا منظر نہیں ہے، یہ عمل تو روز ہمارے گھروں میں ہوتا ہے۔ اس منظر سے تو ہم روز گزرتے ہیں اور پھر اُس کے بعد اُٹھ کر چلے آتے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے کہ جو گن کر بتا سکے کہ اس نے کتنے لوگوں کو کندھا دے کر قبر تک پہنچایا ہے۔ ہم اَن گنت اور لاتعداد لوگوں کے جنازوں کو کندھا دیتے ہیں۔ وہ بھی اَن گنت اور لاتعداد ہیں کہ جن کی قبر کے کنارے کھڑے ہوکر، انسان کو قبر میں اُتارنے کا منظر ہم دیکھتے ہیں اور کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ذرا اس قبر کو اور گہرا کھودو اور میت کو مزید نیچے اُتارو۔ اسے نیچے اُتارنے میں پانچ چھے منٹ لگتے ہیں اور مٹی ڈالنے میں مزید چند منٹ۔ پھر اس کے اُوپر مٹی یا پتھر رکھنے کی کوشش ہوتی ہے کہ ہوا کا تازہ جھونکا تک اسے نہ پہنچ پائے۔ مٹی ڈال کر اس دنیا سے اس کا رابطہ اور ناتا بالکل منقطع اور ختم کر دیا جاتا ہے___ مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ’اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا، اور اسی میں ہم تمھیں لوٹا رہے ہیں، اور اسی سے ہم تمھیں دوبارہ اٹھائیں گے‘‘۔
اس طرح سب لوگ جمع ہوکر میت کو منّوں مٹی تلے دبا دیتے ہیں۔ اس دوران میں کسی کو کوئی خوف نہیں آتا کہ یہ میرا دوست ہے، یہ میرا بھائی ہے، یہ میرا باپ ہے، یہ میرا بیٹا ہے، یہ میری ماں ہے، جسے ہم منوں مٹی تلے دبا رہے ہیں۔ یہ سارے دوست، احباب اور رشتہ دار ہی ہوتے ہیں۔ یہ پرائے نہیں، بلکہ اپنے ہوتے ہیں،یہ غیر نہیں، بلکہ دلوں میں بسے ہوتے ہیں کہ جن کی جدائی کے غم سے آنکھوں کے اندر نمی تیر رہی ہوتی ہے، جن کے لیے دلوں کے اندر گداز ہوتا ہے، خود خوف و خشیت کے اندر مبتلا ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انسان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جیسے باقی سب کوتو مرنا ہے، لیکن مجھے تو زندہ رہنا ہے ع
سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں
موت کے جس دروازے سے گزر کر حشر کا میدان آتا ہے، اس موت کے بارے میں کوئی بات ایسی نہیں ہے کہ جو ہم سے پوشیدہ ہو، یاجس سے ہم لاعلم ہوں۔ ابتدا میں، مَیں نے چند احادیث کے ذریعے عرض کرنے کی جسارت کی ہے کہ موت کس طرح زندگی کا تعاقب کرتی ہے اور پھر موت خود زندگی بن جاتی ہے۔ کیسا ہی باصلاحیت اور بااختیار انسان ہو یا کتنا ہی تندرست و توانا انسان ہو، بالآخر موت کے ہاتھوں زچ ہو جاتا ہے۔ پھر چاروں طرف یہ خبر پھیل جاتی ہے۔ بہت سے لوگ سوگوار ہوجاتے ہیں لیکن اس خبر کو تو پھیلنا ہی ہوتا ہے۔ یہ ہم ہیں کہ اس کی آمد کا انکار کرتے ہیں۔ وہ جن کے ہاتھوں نہ معلوم کتنے سیکڑوں ہزاروں انسانوں کو شفا ہوئی ہوتی ہے، اور جن کے ہاتھوں لوگوں کے بقول ہمیشہ کامیاب آپریشن ہوتا ہے، خود اسی مرض کے اندر چلے جاتے ہیں۔ گویا جو دوسروں کے لیے مسیحا ہوتے ہیں، اپنی مدد آپ نہیں کرپاتے۔ کون کون سا منظر ہے، جسے ہم نے نہیں دیکھا ہے اور جس سے ہم ناواقف ہوں۔
اس لیے موت کی یاد کے حوالے سے، جوانتہائی یقینی حقیقت ہے، اور جس سے زیادہ کوئی یقینی بات نہیں ہے، اس سے غفلت کو دُور کرنا، غفلت کے پردوں کو ہٹانا، اور یہ بھولا بسرا سبق ذہنوں کے اندر تازہ کرنا، دانش مندی بھی ہے اور سعادت مندی بھی کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اس کو ہرگز دوام اور بقا نہیں ہے، جب کہ موت کے بعد کی زندگی کو بقا اوردوام ہے۔
شیخ جمال الدین کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ انھیں تاتاریوں نے گرفتار کرلیا اور موت بالکل آنکھوں کے سامنے تھی۔ تاتاری سردار نے تضحیک کے انداز میں ان سے پوچھا کہ شیخ تم زیادہ اچھے ہو کہ یہ کتا زیادہ اچھا ہے؟ شیخ نے ایک لمحے توقف کے بعد کہا کہ اگر میں اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجائوں کہ میرا ایمان سلامت رہے تو میں اس کتے سے بہتر ہوں، لیکن اگر اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجائوں کہ میرا ایمان سلامت نہ رہے تو یہ کتا مجھ سے بہتر ہے۔
وہ تاتاری سردار کی تضحیک کا نشانہ بھی نہ بنے اور پتے کی بات بھی کہہ گئے کہ اصل پہچان تو انسان کا ایمان ہے۔ یہ پہچان باقی ہے، تو پھر انسان ان راہوں پر چلتا ہے کہ جو مطلوب ہیں اور منزل کی طرف لے جانے والی ہیں۔
یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ ارادے اور عزمِ مصمم کا تعلق مضبوط ایمان سے ہے۔ محض ایمان لانے کے اعلان کے نتیجے میں کسی ارادے پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل انسانی زندگی کو سنوارنے، حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے اور درست رُخ دینے اور منزل کا شعور بخشنے کے لیے آخرت ہی وہ عقیدہ ہے جو بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی سے فکرِدنیا اور فکرِآخرت میں اعتدال و توازن پیدا ہوتا ہے اور انسان کا تصورِ زندگی درست ہوتا ہے۔موت وہ اٹل حقیقت ہے جس کے تذکرے سے آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اور اعمال کے اندر تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری کو دُور کرنے کے لیے انسان کے اندر جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ قرآن و حدیث میں موت کی ہولناکی، اور روزِمحشر کے مناظر کو بار بار تازہ کرنے سے انسان خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے فکرمند ہوتا ہے ۔ وہ راہِ خدا میں بہترین مال دیتا ہے کہ اصل دینا یہی ہے۔ وہ علم و عمل میں مطابقت پیدا کرتا ہے۔ ہرلمحے اپنے جائزے اور احتساب کا اہتمام کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں جان و مال لٹا کر سبقت لے جانے والوں میں ہوجاتا ہے۔ یقینا ایسے ہی لوگ روزِ محشر شاداں و فرحاں اپنے رب کی رضا و خوش نودی اور اس کی جنت کے مستحق ٹھیریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں استقامت دے اور اپنی رضا و خوش نودی کا مستحق ٹھیرائے، آمین!
اپنے روزانہ کے پروگرام میں
تفھیم القرآن سے آدہا گہنٹہ ، گہنٹہ
…… قرآن کا مطالعہ بھی رکھیں ……
اس کے فوائد آپ کو بچشمِ سر خود نظر آئیں گے
رمضان المبارک کی آمد سے ہر صاحب ایمان کے دل کی کلی کھِل اٹھی ہے۔ہر چہار طرف رمضان کی آمد اور اس کے استقبال کے لیے طبیعتوں کو آمادہ کرنے کے سامان فراہم کیے جارہے ہیں۔ ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو جانتا پہچانتا ہے اور اپنے زندگی کے شب وروز اور معمولات سے واقف ہے، لازم ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک کا بڑی بے چینی سے انتظار کرے، اس کے استقبال کی تیاری کرے، اور بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کی جو شکلیں رمضان المبارک میںنظر آتی اور دکھائی دیتی ہیں،ان کا نہ صرف پہلے سے احاطہ کرے، بلکہ ان تمام حوالوں سے اپنی زندگی کو اس ماہِ مبارک میں مکمل طور پر تبدیل کرنے اوریکسوئی اور طمانیت کے ساتھ اپنے رب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھاکہ جب آپ رجب کا چاند دیکھتے تھے تو یہ دعا فرماتے تھے: اَللّٰھُمَّ بَارِکَ لَنَا فِی رَجَبْ وَ شَعْبَانْ وَبَلَغْنَا رَمَضَان، (اے اللہ! ہمیں رجب اور شعبان کی برکتیں عطا فرمائیے،اور رمضان المبارک تک پہنچا دیجیے)۔ ماہِ رمضان کی آمد سے دو مہینے پہلے ہی آپؐ کی طبیعت کا یہ اشتیاق چھلکا پڑتا تھا۔ رمضان المبارک کا استقبال کرنے کے لیے طبیعتوں کو جس طرح آمادہ ہونا چاہیے، اس دعا میں اس کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو رمضان المبارک سے بھرپور استفادہ کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ اس کی برکتوں کو سمیٹا جا سکے،اس کی رحمتوں کا سزاوار ہوا جاسکے، اس سے مغفرت کے پروانے حاصل کیے جاسکیں، دوزخ سے آزادی حاصل کی جائے اور نجات کی جانب چلا اور بڑھا جاسکے۔
اس حدیث کوبالعموم ایسے بیان کیا جاتا ہے جیسے جبرئیل ؑامین نے کوئی بد دعا کی ہواور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرما ئی ہو۔حالانکہ بات اس سے مختلف ہے۔جب چاروں طرف بہار کا موسم ہو،پورا معاشرہ لہلہا رہا ہو، دُور تک پھیلا ہوا منظر گل وگلزار بناہوا ہو اور ہرگرا پڑا بیج برگ و بار لا رہا ہو، چٹانیں بھی سبزہ اگل رہی ہوں اور پتھروں سے بھی سبزے کی نمو نظر آتی ہو، ان حالات کے اندربھی اگر کوئی بیج واقعی گرا پڑا رہ جائے، برگ و بار نہ لاسکے، اور اپنی نمو اور افزایش کا سلسلہ شروع نہ کرسکے، تواس کے لیے بد دعا کی نہیں بلکہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ واقعی وہ اس قابل تھا کہ ہلاک ہو جائے۔بالفاظ دیگر اس حدیث کے اندر ترغیب و تشویق اورتحریص کی ایک پوری دنیا آباد ہے کہ رمضان المبارک کو سمجھو، اس کے شب و روز کی برکات کو جانواور پہچانو، اس میں جو کچھ حسنات پنہاں ہیں، ان کو حاصل کرنے کے لیے اپنے دامن کو پھیلائو۔ اپنے رب سے رجوع کرنے کے جو عنوانات ہو سکتے ہیں، ان کو سجائو۔ جنت کے سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔ شیاطین قید کردیے گئے ہیں، نیکی کرنا آسان ہوگیا ہے۔ برائی اور گناہ کے لیے حالات کے اندر ایک ناسازگاری، اور طبیعتوں کے اوپر ایک گرانی جو پہلے نہ بھی پائی جاتی ہو، موجود ہے۔ ہرشخص یہ مصمم ارادہ کرلے، یہ نیت دل کی گہرائی کے اندرسمو لے کہ بہت سے رمضان المبارک یوں ہی گزر گئے ہیں لیکن اس رمضان کو یوں ہی نہیں گزرنے دینا ہے، بلکہ اس کے اندر جو کچھ برکات موجود ہیں،ان سے استفادہ کرنا ہے۔ دل و دماغ کی دنیا میں جو کانٹے بچھے ہوئے ہیں، منکرات کے جوجھاڑ جھنکار نظر آتے ہیں، معصیت کے جو طوفان اٹھے ہوئے ہیں، گناہ کے لیے لذت اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف بڑھنے میں کوئی قدغن نظر نہیں آتی ہے، ان تمام چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ جو شخص اس ماہِ مبارک میںروزے دار کا روزہ افطار کرائے تو اس روزے دار کے اجر میں کوئی کمی کیے بغیربارگاہ رب العزت سے اس افطار کرانے والے کو بھی اس روزے دار جتنا اجر اور ثواب مل جاتا ہے۔صحابہ کرام ؓ میں نیکی کے معاملے میں سبقت لے جانے، خیر کا کوئی عنوان ترک نہ کرنے اور اس تک پہنچنے کی کوئی سبیل تلاش کرنے کی آرزو، خواہش اور تڑپ بدرجۂ اتم موجود تھی۔ حضرت سلمان فارسیؓ جو اس خطبے کے راوی ہیں،انتہائی ناداری اور کس مپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے اور اکثر صحابہ کرام ؓ کی یہی کیفیت تھی، یہ بات سن کر بے قرار ہوگئے اور عالم بے تابی میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور ہم جیسے لوگ جنھیں اپنی افطاری کا سامان بھی میسر نہیں ہے،وہ بھلا دوسروں کو کیا افطار کرائیں گے۔تو کیا ہم اس عظیم اجر، ثواب اور صلے سے، اور خیر کے اس کام سے محروم رہیں گے؟ نیکی کی طرف جانے کی ایک تڑپ اورنیکیوں کا انبار لگانے اور اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی کسک ہے کہ یہ بات سنتے ہی بول پڑے ہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اگر تم لسی یا پانی کے ایک گھونٹ سے بھی کسی کو افطار کرائو گے تو اجر اور صلے سے محروم نہ رہو گے۔ہاں، اگر کسی کے اندر یہ استطاعت ہے کہ وہ روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے، تو روز محشر وہ حوض کوثر پر جام کوثر سے فیض یاب ہوگااور اپنے جاے مقام تک پہنچنے میں اسے پیاس تک محسوس نہ ہوگی۔
الحمد للہ ہمارے معاشرے میں افطار پارٹی اور افطار ڈنر کا ایک کلچر موجود ہے۔ اس کو جاری رہنا چاہیے،اس کے اپنے فوائد ہیں لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ میں جب افطار پارٹی کرتا ہوں تو اپنے جیسے لوگوں کو بلاتا ہوںاور چاہتا ہوں کہ اگر مجھ سے بھی بڑے رتبے اور شان و شوکت اور سٹیٹس کے لوگ آ جائیں تو افطار پارٹی کو چار چاند لگ جائیں گے۔افطار پارٹی فائیو سٹار بن جائے گی۔ اس خواہش کی وجہ سے ہمدردی وغم خواری کے مستحق لوگ محروم اور سوالیہ نشان بنے رہتے ہیں۔ اسی طرح گاہے ہم سوچتے ہیںکہ یہ جو سڑک پر پتھر کوٹتے رہتے ہیں، روڑے ڈھوتے اور مشقت اٹھاتے رہتے ہیں، ان کا کیا روزہ ہوتا ہوگا؟ حالانکہ یہ بڑا نازک معاملہ ہے ۔ روزے دارکی ہر نیکی جس پس منظر اورجس نیت سے کی گئی ہو،جس مشقت کو اٹھا کر اور جس قربانی کا پیکر بن کر کی گئی ہو، اس حساب سے اللہ تعالیٰ ۱۰ گنا سے لے کر ۷۰۰ گنا تک اس کا اجر پھیلاتے اور بڑھاتے ہیںلیکن حدیث قدسی کے مطابق روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ میری خاطرشب و روز کی مشقتیں اٹھاتاہے، بھوک اور پیاس برداشت کرتا ہے ۔ قوی مضمحل ہوں، اعصاب جواب دے رہے ہوں،اور دل و دماغ کی دنیااڑی اڑی اور ویران سی ہو، اس کے باوجود بھی وہ میری رضا کے لیے روزے کی طرف آتا ہے تو یہ معاملہ کسی عددی ہندسے پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کا اجر میں ہی دوں گا۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ میں ہی اس کا اجر ہوں، یعنی بندے نے روزہ رکھا اور اسے اس کا رب مل گیا۔جب رب مل جائے تو پھر کسی اور چیز کی طلب باقی نہیں رہتی ہے۔ساری نعمتیں قدموں میں ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ ساری رحمتیں اور مغفرتیں وسعت دامن کے ساتھ ساتھ چلنے والی ہو جاتی ہیں۔
روزے کی فرضیت کے بارے میں قرآن پاک کی آیات اپنے اندر جو شیرینی،مٹھاس، ٹھنڈک اور طراوٹ لیے ہوئے ہیں اور جس طرح ہر پیرایہ، عنوان میں بندہ اور رب کے درمیان حجابات کو اٹھانے، واشگاف اندازمیں تعلق باللہ کی استواری اور آبیاری کرتی ہیں،وہ ایک عجیب اور انوکھا منظر پیش کرتی ہیں ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶) اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ (یہ بات تم انھیں سنادو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔
اس انداز میں کس قدر اپنائیت،طمانیت اور چاہت ہے، بندوں کی نسبت اپنی طرف فرمائی،میرے بندے کہا !! اور یہ سب روزے کا صلہ ہے ۔ بندگیِ رب کی مسافتیں طے ہو رہی ہیں، قربتیں پیدا ہو رہی ہیں،فاصلے سمٹ رہے اور دوریاں ختم ہو رہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روزہ نفس پر شاق ہونے کے اعتبار سے تمام عبادات میں نمایاں ہے ۔جس قدر انسانی مرغوبات ہیں، پسند اور چاہت کے عنوانات ہیں، سب پر کچھ نہ کچھ پابندیاں، قواعد و ضوابط کے بندھن،اور پہرے بٹھادیے جاتے ہیں۔ حلال و طیب، جائز اعمال سال کے گیارہ مہینے جن پر کوئی قدغن نہیں، اس ماہِ مبارک میں ان کو از سر نو ترتیب دیا جاتاہے۔ بندۂ مومن اپنے رب کی رضا، اس کی ہدایت کی پابندی اور اس کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کے لیے بخوشی ان پابندیوں کو قبول کرتاہے۔ ایمان کی لذت سے آشنا ہوتاہے۔ تعلق باللہ کا کیف و سرور، کچھ مشقت اٹھا کر،پابندیاں سہ کر دوچند ہوجاتاہے۔روزہ سخت کوشی کی تربیت دیتاہے۔ ایک طرف کھانا پینا، سونا اور آرام کرنا کم، جب کہ دوسری طرف غیبت، جھوٹ، لڑنا جھگڑنا، فضول اور نکمی و بے مقصد گفتگو بھی روزے کے اعلیٰ مقاصد کی نفی قرار پاتے ہیں۔ بلاشبہہ روزہ کھانے پینے کے شوق کو اُکسا دیتاہے، اس اکساہٹ کو دبانا، نہ کہ پرورش دینا، اس سے نجات پانا نہ کہ ناز نخرے اٹھانا مطلوب ہے اور تزکیہ نفس کے جلی عنوات سے عبارت ہے۔ جن حضرات کو تسلسل سے روزہ رکھتے ہوئے ۶۰،۷۰ سال ہوگئے ہوں، انھوںنے گرمی کے روزے، سردی کے روزے، جوانی کے روزے، بڑھاپے کے روزے، صحت کے روزے، عدم صحت کے روزے،غربت اور ناداری کے روزے،سہولتوں اور آسایشوں کے روزے رکھے ہوں گے۔ خوش حالی اور خستہ حالی،سفر و حضر، دھوپ چھائو ں، تنگی ترشی سے گزرے ہوںگے۔ وہ سراپا اس کی گواہی دیں گے کہ یہ عبادت ہر طرح کے حالات میں بندگی کی تربیت دیتی ہے۔ برسہا برس اس فرض کی پکار پر لبیک کہتے کہتے، اس عبادت سے استغنا اور بے نیازی نہیں پیدا ہوتی،بلکہ طلب،آرزو اور کیف و سرور کی لذت و آشنائی، بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
رمضان المبارک صیام اور قیام سے عبارت ہے، یعنی دن کو روزے اور رات کو قرآنِ پاک کے ساتھ شغف اور تعلق کی آبیاری !دن بھر نفس کو بھوکا پیاسا رکھ کر اس قابل بنایا جاتاہے کہ قرآن سن سکے اور جذب وانجذاب کے مراحل سے گزر سکے ۔ یوں نفس کی کثافتیں دور کی جاتی ہیں تاکہ قرآن پاک سے حقیقی مناسبت پیدا ہوسکے ۔ دن بھر نفس کو قابو کیا جاتاہے۔ منہ زور گھوڑے کو لگام دی جاتی ہے۔ پھر منزل (قرآن پاک )کی طرف اسے روانہ کر دیا جاتاہے۔ صیام اور قیام، دونوں سے مل کر ہی وہ انسان تشکیل پاتاہے جو اسلام کا انسانِ مطلوب ہے۔
یہ بات ذہن و دل کے دوردرازگوشے میں بھی مستحضر رہنی چاہیے کہ ’عبادات ‘ ازخود مطلوب ہیں۔ ان میں پنہاں حکمتیں، مادی اور دینوی فوائد اپنی جگہ لیکن ان کا اللہ کی ہدایت وحکم ہونا اس امر کے لیے کافی ہے کہ انھیں دائماً ظاہری آداب اور باطنی محاسن سے آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور ان کے لیے سنتِ ثابتہ سے رہنمائی لی جائے۔ آخرت کی جواب دہی کے تصو رکو زندہ و تابندہ کیا جائے اور بجا طور پر دنیا میں خلافت اور نیابت کے جس منصب پر ہمیں فائز کیا گیا ہے، عبادات سے اس کردار کو ادا کرنے میں مدد لی جائے۔
روزے کی نفسیات اور جزئیات پر جس قدر غور کیا جائے،حقیقت یہ ہے کہ بندگی رب کا سفر طے کرنے، معراج ِانسانیت کو پہنچنے، نیز انسانی معاشروں کو قیادت و سیادت فراہم کرنے، معروف کی چمن بند ی اور منکر کے جھاڑ جھنکار سے نجات دلانے کے لیے ’روزہ ‘ فیصلہ کن عمل انگیز (catalyst) کا کردار ادا کرتاہے ۔ مستحکم قوتِ ارادی،عزمِ صمیم، کرنے اور کر گزرنے کا داعیہ، تعلق باللہ کی استواری، اپنے رب سے ایک اٹوٹ اور جیتے جاگتے تعلق کی آبیاری،اس کی رضا جوئی کی بڑھتی ہوئی طلب، یہ وہ صفات ہیں جو روزے سے پیدا ہوتی ہیں۔
اس بار رمضان المبارک اس حال میں طلوع ہو رہاہے کہ پوری اُمت میں بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے۔ ہزار ہا ہزار فرزندانِ توحید اور شمعِ رسالت ؐ کے پروانے اپنے رب کی طرف دیوانہ وار بڑھ رہے ہیںاور طاغوت کی فرماں روائی کو چیلنج کررہے ہیں۔ قرآن وسنت کی بالادستی کے لیے اور اسلام کو ایک نظامِ حیات کے طور نافذ کرانے کے لیے شب و روز کی کوششوں اور مشقتوں میں اپنے پیروں کو غبار آلود کررہے ہیں۔
رجب سنہ ۲ ہجری میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ گویا پچھلی اُمت منصب قیادت و رہنمائی سے ہٹادی گئی اور اُمت مسلمہ کو اس ذمہ داری پر فائز کردیاگیا۔ سن ۲ہجری کے اگلے مہینے، شعبان المعظم میں رمضان کے روزے فرض کردیے گئے ۔ گویا قیادت و سیادت کی تربیت اور تزکیے کا اہتمام اور رہنمائی کے منصب کے لیے صلاحیت و استعداد کو پرورش دینے کا عمل رمضان المبارک سے جوڑ دیا گیا۔ سنہ ۲ہجری کے اگلے مہینے، رمضان المبارک میں،جہاد وقتال کا حکم نازل ہوا۔ ہمارے حالات آج بھی سنہ ۲ہجری کے تین ماہ میں ربانی فیصلوں اور ان کی ترتیب میں اُمت کے لیے کچھ کرنے اور کر گزرنے،بے خطر آتش نمرود میں کودپڑنے اور اُمت کی بگڑی بنانے کی طرف بلا رہے ہیں۔ نہتے اور بے سروسامان غازیوں، مجاہدوں اور صف شکنوں کے قافلے رواں دواں ہیں، پیروں کو غبار آلو د کرتے ہوئے، سرسے کفن باندھ کر جان ہتھیلی پر لیے بآواز بلند پکارتے ہوئے کہ ع یہ بندہ دو عالم سے خفا تیرے لیے ہے، منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نشانات منزل عبور کررہے ہیں۔ رمضان المبارک ان جذبوں کو مہمیز دینے کے لیے طلوع ہو رہا ہے، بھولا ہوا سبق یاد دلانے اور تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر، ماضی سے اپنے رشتے استوار کرنے کے لیے رب کی رضا اور اس کی جنتوں کے حصول کے لیے میری نماز،میری قربانی، جینا اور مرنا رب العالمین کے لیے ہے، اس کا ورد کرتے ہوئے پوری اُمت میں ایک طرف جہاد کا کلچر فروغ پارہاہے اور اس کے ساتھ ساتھ دعوت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کی تحریک زور پکڑ رہی ہے ۔ بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی طرف لے جانے کی تدبیر روبۂ عمل آرہی ہے۔
لوگ اس شعور سے مزین اور آشنا ہوتے جارہے ہیں کہ اُمت کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، ۵۷ حکومتیں ہیں،اتنی ہی فوجیں ہیں، ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بھی ہے، مادی وسائل، جغرافیائی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے خطے،اُمت کے ہم رکاب ہیں___ لیکن اے بسا آرزو، یہ سارے وسائل دشمن کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، اسے لا جسٹک سپورٹ فراہم کی جارہی ہے۔اللہ اور اس کے رسولؐ کے باغیوں کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں،انھیں کھل کھیلنے کا موقع جابجا دیا جارہاہے۔سارے مسلم حکمران، الاماشاء اللہ،امریکا اور مغرب کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، غیروں کی دی گئی ہر ڈکٹیشن انھیں قبول ہے، طاغوت کی ہر پالیسی پر آمنا وصدقنا اور بلاچوں وچراسرتسلیم خم کردینا ہمارے حکمرانوں کا شیوہ ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں نوجوان غول درغول ردعمل کا شکار ہورہے ہیں، اشتعال کے حوالے ہورہے ہیں، ’جہاد ‘ کی نئی نئی تعبیریں بھی سامنے آ رہی ہیں ۔ لیکن جدوجہد کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہواہے___ قال اللّٰہ وقال الرسول کی پکارجا بجاسنی جارہی ہے، منبر و محراب سے وابستگی میں اضافہ روز کا تجربہ ہے، ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر جانیں نثار کرنے والے، ڈنکے کی چوٹ پر شمع رسالت کے پروانے بنے ہوئے ہیں،ختم نبوت کے عقیدے سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کے لیے استدلال کی قوت اور قوت کے اظہار کے لیے سرگرداں ہیں ۔ ایسے میں رمضان المبارک کی ساعتیں بآواز بلند بھی اور بانداز خفی بھی ع فضائے بدر پیدا کر نے ......کی سرگوشیاں کررہی ہیں!
قرآن پاک کی رہنمائی، اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا، شب قدر کی فیصلہ کن اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے جڑی ہوئی یقین سے سرشار، انشراح صدر کی دولت، حالتِ روزہ کی پاکیزہ گھڑیاں اُمت کے ایجنڈے پر غور وفکر کے لیے صرف ہونی چاہییں ۔ اُمت کی زبوں حالی کہ ع ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات، اور اس کے متوازی، بیداری اور رجوع الی اللہ کی لہر کی قدر افزائی اور حوصلہ افزائی کی اجتماعی طور پر ضرورت ہے۔
رمضان المبارک کی رہنمائی ہمہ جہت ہے، ہمہ وقت ہے، ہر لمحے اور تاقیامت ہے۔ غزوۂ بدربھی اگر محض ایک واقعہ ہوتاتو تاریخ کا حصہ بن چکاہوتا، ماضی کے جھروکوں میں گم ہوگیا ہوتا، لیکن یہ رہنمائی ہے ۔ ایک ابدی پیغام ہے اور قیامت تک کے لیے دیوارپر لکھی تحریر ہے ع بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ! اس کے پیغام میں تازگی و نمو ہے، سیرابی اور شادابی ہے کہ جب عقیدوں کی جنگ ہو، تہذیبوں کا معرکہ ہو یا اصولوںکی آویزش___اس میں عددی قوت،اسلحہ اور ساز وسامان، آلات ِ حرب و ضرب ثانوی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں، فیصلہ کن حیثیت اور اقدام کی صلاحیت عقیدہ و اصول کی ہوجاتی ہے۔ قیامت تک یہی کلیہ کارفرمارہے گا ۔ رسیوں اور لاٹھیوں کو سانپ سمجھ کر ان سے خوف زدہ ہونے والے ایک تاریخ رقم کریں گے اور اژدھوں اور سانپوں کو بے معنی اور پرکاہ کے برابر اہمیت نہ دینے والے بھی ۔ تن و توش کروفر اور سائنس وٹکنالوجی کی ایجادات پر غرہ کرنے والے اور ناخدائوں کو خدا بنانے والے بھی موجود رہیں گے اور کئی کئی وقت کے فاقوں سے پیٹ پر پتھر باندھنے والے اور جنت کی خوشبو اور اس کی لپٹوں سے سرشار ہونے والے بھی حق و باطل کے اس معرکے میں اپنی گردنوں پر سرسجائے، گردنیں کٹوانے کے لیے تیار نظر آئیں گے!
اہل علم ہی یہ کام کرسکتے ہیں کہ اُمت کو باور کرائیں کہ ہمارا اصل ہتھیار،ایٹم بم نہیں ہے، گو ہمیں اس کا بھی حکم دیا گیاہے کہ وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ (اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو۔ انفال ۸:۶۰)___ مگر ہمارا اصل ہتھیار اپنے رب پر جیتا جاگتا ایمان، قرآن پاک کی رہنمائی اور ہدایت کو سینے سے لگانا اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تک جانے کے تمام راستے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو کر گزرتے ہیں، آپؐ کی سنتوں کو اپنانا، آپؐ کی شریعت کے نفاذ کے لیے اٹھنا، اور آپؐ جو جدوجہد اور کش مکش ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں اس کا خوگر بننا، کامیابی کی نوید ہے۔
رمضان المبارک، تذکیر کاعنوان ہے: ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘‘ کا امید افزا پیغام ہے۔ ہمیں اس پیغام کو نہ صرف رمضان میں بلکہ باقی گیارہ مہینوں میں بھی تازہ رکھنے اور مقدور بھر اُمت کے ایک ایک فرد تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخرالزماں ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں قیامت تک قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، بالکل اسی طریقے سے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ اور آپؐ کی تعلیمات کو بھی محفوظ رہنا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کی اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے کہ اس مشن کو لے کر اُٹھے اور اس ہدایت کی علَم بردار بنے۔ آپؐ کی تعلیمات کا خود بھی پیکر بنے، اس کے سانچوں میں ڈھلے، اور دُور تک پھیلی ہوئی دنیا تک آپؐ کا پیغام پہنچائے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں جو اسوہ حسنہ چھوڑا ہے ، ظاہر ہے کہ جو لوگ قائم مقام ہیں، اُمت کی حیثیت سے آپؐ کے مشن کے علَم بردار ہیں، انھیں اس بارے میں بھی رہنمائی وہیں سے لینی چاہیے۔
واقعات میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، اپنے منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وہاں بیٹھے تھے، ان سے کہا کہ عبداللہ! مجھے قرآن سنائو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قدرے حیران ہوئے، عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! میں قرآن سنائوں؟ یہ قرآن تو آپؐ پر نازل ہوا ہے، آپؐ ہی سے ہم نے سنا ہے، آپؐ ہی سے ہم تک پہنچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں، عبداللہ! آج تو جی چاہتا ہے کہ کوئی پڑھے اور میں سنوں۔ حکم تھا، آپؐ اسی طرح منبر پر تشریف فرما رہے اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے نیچے بیٹھے ہوئے سورئہ نساء کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچے: فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا o (النساء ۴:۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریںگے جب ہم ہراُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘، تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اندازہ ہوا کہ جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں، حسبک حسبک، عبداللہ ٹھیرجائو، عبداللہ ٹھیرجائو۔ سراُٹھاکر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ آں حضوؐر کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس گواہی، شہادت اور ذمہ داری کے احساس سے گویا دبے جا رہے ہیں، اور آنکھوں سے آنسوئوں کا رواں ہونا تو پورے جسم و جان کی کیفیت کی گواہی دے رہا ہے کہ اندر کیا ہلچل ہے، کیا کیفیت ہے کہ جس سے آپؐ گزر رہے ہیں۔
گویا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس لمحے سے پریشان ہیں جب پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اس پیغام کو پہنچایا، لوگوں کے دلوں کو گرمایا، ان کے جسم و جان کو ان راہوں پر لگایا، تم نے لوگوں کو منزل کا شعور دیا، تم نے انھیں جدوجہد کا پیکر بنایا، تم نے چاردانگ عالم میں اس نئی کش مکش کی داغ بیل ڈال کر اس کی طرف ان کو بلایا؟ یہ احساس اور احساس کی شدت آپؐ کو رُلا رہی ہے۔
یہ اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے اور آپؐ رہتی دنیا تک اُمت کو اس حوالے سے رہنمائی دے رہے ہیں۔ جو لوگ اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں وہ اُن پوری بستیوں کے ذمہ دار ہیں جہاں وہ اپنے شب وروز بسر کرتے ہیں، اور علیٰ ہذا القیاس ملک اور قوم کے۔ کبھی اتفاقاً آدمی اپنے آپ سے یہ سوال کرلے کہ قرآن تو میں بھی پڑھتا ہوں کہ اگر پوچھ لیا جائے کہ ان بستیوں میں تم نے کیا کام کیا، کتنے دلوں پر دستک دی، کتنے دل کے دریچے کھولنے کا تم ذریعہ اور سبب بنے، اور کتنے دریچہ ہاے دل ایسے تھے جو تکتے رہ گئے کہ کوئی آئے اور بتائے تو سہی کہ اسلام کہتے کس کو ہیں!
آپ نے وہ واقعہ بھی پڑھا ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت ِ قیام میں ہیں، اور سورۂ ابراہیم کی تلاوت فرما رہے ہیں۔ جب اس آیت پر پہنچے: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (ابراہیم ۱۴:۳۶) ’’پروردگار، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کردیں، لہٰذا ان میں سے) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو۱ُ درگزر کرنے والا مہربان ہے‘‘، تو اس آیت کو پڑھتے تھے اور روتے تھے اور بار بار آیت کے اس حصے کو پڑھتے تھے فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ، تاآنکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جبرئیل امین ؑ کو بھیجا۔ جبرئیل ؑامین تشریف لاتے ہیں اور ماجرا پوچھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو پڑھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ انھوں نے تو اپنی اُمت کے لیے سبھی کچھ مانگ لیا کہ جو لوگ میرا اتباع کرنے والے ہیں وہ تو میرے ہیں، لیکن جو لوگ معصیت کے راستے پر جانے والے، گمراہ ہوجانے والے ہیں، تو تو۱ُ خود ہی بڑا معاف کرنے والا ہے۔ گویا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اُمت کے لیے سبھی کچھ مانگ لیا، لیکن جب میں ان کی اس دعا کو پڑھتا ہوں تو اپنی اُمت کا خیال ستاتا ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں جو مسلسل آنسو رواں ہیں، اپنی اُمت کے بارے میں فکر کو اس کا سبب بتا رہے ہیں۔ واقعات میں آتا ہے کہ حضرت جبرئیل امین ؑ واپس جاتے ہیں اور پھر یہ خوش خبری اور مژدہ سناتے ہیں کہ آپؐ کی اُمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ آپ کو خوش کر دے گا۔
اگر ہم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقامی کرنی ہے، اور ان کے مشن کو لے کر آگے چلنا ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیںہے جب تک اسوئہ حسنہ کا کامل اتباع نہ کیا جائے۔ جب تک حالتِ قیام سے، قرآنِ پاک کے ساتھ شغف سے، فی الواقع ایک مستحضرعلم سے، اور وسعتِ علم کے نتیجے میں اپنے آپ کو بنایا نہ جائے، کوئی بڑا کام تو دُور کی بات ہے، اس ذمہ داری کا ہلکا سا بوجھ بھی نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے طور طریقوں اور رویوں میں، اپنے شب و روز کے معمولات اور اپنے مشاغل و مصروفیات میں تبدیلی لانی چاہیے، اور اس بات کو دیکھنا چاہیے کہ جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اس کے بوجھ کو ہلکا کرنے اور فی الحقیقت اس کو نبھانے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ فرداً فرداً کوئی کسی کو نہیں بتا سکتا لیکن ہرشخص اپنے بارے میں خود جانتا ہے، اسی کے مطابق اس کو اپنے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ آپ چاہیں تو اس کا دوسرا نام تعلق باللہ رکھ دیں، یعنی ہر بندے کا اپنے رب کے ساتھ جو تعلق اور استواری ہے، مسلسل اس میں منہمک رہنا ضروری ہے، لیکن بدرجۂ اولیٰ کہ ع جن کے رتبے ہیں سوا، ان کی سوا مشکل ہے۔
گویا جو لوگ ان راہوں پر چلے ہیں اور لوگوں پر ذمہ دار قرار پائے ہیں ان کا فرض ہے کہ رب کے ساتھ اپنے تعلق کو مستحکم اور مضبوط کریں۔ جس کا کام کررہے ہیں اسی کے ساتھ رابطہ اگر ٹوٹا رہے گا، جس کی دعوت لے کر اُٹھے ہیں اسی کے ساتھ تعلق اگر ضعف اور کمزوری کا شکار ہوگا، تو سوچیے کہ کہاں سے طاقت ملے گی، اور کہاں سے نصرت و تائید آئے گی۔ نصرت و تائید کی بات بسااوقات لفظوں میں سمجھ نہیں آتی۔ یہ جو انسان کی طبیعت میں انشراحِ صدر پیدا ہوتا ہے، قدموں کے اندر جمائو اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے، انسان نامساعد حالات میں صبر کی چٹان نظر آتا ہے،اور حالات کی خرابی کے باوجود تحمل کاکوہِ گراں نظر آتا ہے، اسی کو نصرت اور تائید کہتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندوں اور اپنے راستے پر چلنے والوں کی کس کس طریقے سے مدد کرتا ہے۔ کیسے وہ ان کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتے ہیں، کیسے وہ ان کے پیر بن جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں، اور کیسے وہ ان کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتے ہیں۔
سیرت کے ہر واقعے کے اندر رہنمائی موجود ہے۔ کچھ نہیں تو آنکھوں کے لیے نمی، دلوں کے لیے گداز اور قلوب کے لیے خوف و خشیت کی کیفیت موجود ہے۔ اگر ان تمام واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ جوڑ لیں کہ ایک واقعہ پیش آیا، پھر دوسرا پیش آیا، صبح کو یہ ہوا، پھر دوپہر کو یہ اور شام کو یہ ہوا۔ پھر لوگوں نے کانٹے بچھا دیے۔ پھر لوگ پتھر برسانے اور گالیاں دینے لگے۔ پھر لوگوں نے حالتِ نماز میں اوجھ رکھ دی، پھر لوگوں نے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ یہ تمام واقعات کسی ترتیب کے ساتھ جمع کرلیں تو جوڑتے جوڑتے لگے گا کہ واقعی یہ تو پہلے دن سے کسی منزل کا تعین کرکے کسی انقلاب کی طرف رہنمائی ہو رہی ہے، اور لوگوں کو ایک بڑے مقصد کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ یہ اتفاقی اور حادثاتی طور پر رونما ہونے والے واقعات نہیں ہیں۔ سیرت کے تمام واقعات ایک مقصد کی طرف لے جاتے ہیں، منزل کا شعور دیتے ہیں۔
واقعۂ طائف پر نظر ڈالیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب و شدائد کا دور مکے میں گزارا ہے۔ مکے میں جب دعوت و تبلیغ اور اللہ کی طرف بلاتے ہوئے آپؐ کو ایک مدت گزر گئی، تو یہ احساس ہوا کہ بہت تھوڑے لوگ اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں اور اس کو بہت کم پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ گویا ایک تجزیہ کیا، جائزہ لیا، اور پھر آپؐ نے طے کیا کہ مکہ کے لوگ تو بات قبول ہی نہیں کرپا رہے ہیں، چلو طائف کا رُخ کرتے ہیں، اور طبیعت اور مزاج کے اندر یہ بات رچی بسی تھی کہ کیا عجب کہ طائف کے لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں، اور یہ دعوت محض نظریاتی اور لفظوں کا پھیر نہ رہے بلکہ سلطنت بن جائے۔ کیا عجب کہ یہ دعوت ریاست قرار پائے، یہ دعوت مقتدر ہوجائے، اس دعوت کا سکّہ رواں ہوجائے، یہ دعوت قیل و قال کے حوالوں سے بھی جانی پہچانی جائے اور احکامات و ہدایات کے نازل ہونے اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی۔ کس قدر وژن ہے، کیسی بصیرت و بصارت ہے، کس قدر دُوراندیشی اور دُوربینی ہے کہ اس دعوت کو یہاں پر وہ فروغ حاصل نہیں ہو رہا، لیکن وہ تمکن اور غلبہ جو اس دعوت کے اندر پنہاں ہے، اور حالات کی بہتری اسی وقت ہاتھ آئے گی جب یہ دعوت غالب آجائے گی۔ اس تجزیے اور ان امیدوں کے ساتھ، اس سوچ اور فکر کے ساتھ آپؐ نے طائف کا سفر کیا۔
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت اپنی ہے اور یہ خود ایک موضوع ہے، اور لوگوں نے اس پر بہت لکھا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو پوری کائنات کا فرماں روا ہے، قہار و جبار ہے، طاقت کے ہرسرچشمے کا مالک ہے، وہ اپنے محبوب ترین بندے کو دیکھتا ہے کہ ستایا جا رہا ہے، اُلٹے پیروں لوٹایا جارہا ہے، جابجا پتھروں اور گالیوں کی یورش میں ایک مضبوط انسان کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے۔ کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تلاش کرنا مشکل ہے۔ بعض لوگ خود ہی پوچھتے ہیں اور خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں۔ اگر انسانی الفاظ اور جذبات کا سہارا لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کیا گزر رہی ہوگی کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ترین بندے کو ان کیفیات سے گزار رہا ہوگا، مشکلات و مصائب میں دیکھ رہا ہوگا۔ یہ اصل اسوئہ حسنہ ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
اللہ تعالیٰ چاہتے تو ایک لمحے کے اندر کن فیکون کے مصداق اسلامی نظام قائم ہوجاتا ، توحید کی امارت قائم ہوجاتی، دین غالب ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے تو صرف کرنے اور کہنے کا معاملہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ۲۳ سال لگے ہیں اور ساری مشکلات اور صعوبتوں کو انگیز کیے ہوئے ہیں۔ گویا اس سنت اور اسوہ کو قائم کرنا مطلوب تھا کہ رہتی دنیا تک جو لوگ اس دعوت کے غلبے کے لیے اُٹھیں گے، ان کے سامنے یہ اسوہ ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین بندے کو ان راہوں سے گزارا تو ہمیں ایسے ہی ہتھیلی پر سرسوں جمانے کو نہیں ملے گی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا رُخ کیا ہے، اور آپ دیکھیں کہ کس وژن اور بصیرت و بصارت کے ساتھ، اور دعوت کے غلبے کی تمنا اور آرزو کے ساتھ یہ سفر کیا ہے۔ لیکن یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ اہلِ طائف نے آپؐ کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا، اس کے سامنے لغت بیچاری ہاتھ جوڑ کے کھڑی ہوجاتی ہے کہ مجھ سے نہیں بیان کیا جاتا، کہ کیا سلوک آپؐ کے ساتھ روا رکھا گیا۔ کسی نے کہا کہ اچھا تو اللہ میاں کو کوئی اور نہیں ملا تھا نبی بنانے کے لیے، تمھی رہ گئے تھے، ایسے آدمی کو تو میں نبی نہیں مان سکتا، یعنی طنز اور تمسخر کے جوتیر اور نشانے ہوسکتے تھے، وہ سب لگائے گئے۔ اہلِ طائف نے دل کو چھلنی اور دل و دماغ کی دنیا کو ویران کرنے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو انسانی سطح پر کیا جاسکتا ہے۔ ٹولیوں میں لوگ آتے، دھکا دے کر گرانے کی کوشش کرتے، اور کہتے نبی ہو، گرتے کیوں ہو؟ سیدھے کھڑے رہو نا!___ اب ذرا تصور کیجیے کہ کن اُمیدوں کے ساتھ آپؐ گئے ہیں، کیا توقعات لے کر آپؐ نے یہ سفر کیا ہے اور کیا کچھ پیش آرہا ہے۔ گویا دعوت کے راستے میں آپ بہت کام کریں گے لیکن نتیجہ بالکل مختلف نکلے گا۔ آپ منزل کی طرف چلنے کی بے شمار شعوری کوششیں کریں گے جن کا نتیجہ دو جمع دو چار کی صورت میں نکلنا چاہیے لیکن وہ صفر نکلتا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ اس راستے میں ان مشکلات کو انگیز کیے، صعوبتوں کو اُٹھائے اور ان آزمایشوں کو جھیلے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
صبح سے لے کر شام ہوگئی ہے، ہر دَر پہ آپ دستک دیتے ہیں، ہر دل کی دنیا کو بسانے اور ویرانوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کوئی ایک فرد نہیں ملتا جو بات سننے والا ہو، جو آپؐ کی دعوت پر توجہ دینے والا ہو۔ کس قدر مایوسی ہونی چاہیے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آیندہ کے لیے آدمی کو کچھ نہ کرنے کا طے کرلینا چاہیے کہ یہ انسان تو عجیب و غریب ہیں، یہ تو خونخوار بھیڑیے ہیں۔ ان سے کیا بات کرنی، یہ سب جہنمی ہیں۔ لیکن نہیں، داعی کبھی فتوے نہیں دیتا، لوگوں سے مایوس نہیں ہوتا، اپنے حصے کا کام کرنا اور لوگوں سے اچھی اُمیدیں اور توقعات باندھنا اس کے ذمے ہے۔
واقعات میں آتا ہے کہ جب آپؐ بالآخر طائف سے واپس لوٹنے لگے تو اہلِ طائف نے جو کچھ کرچکے تھے، اسی پر بس نہ کیا بلکہ گلی کے بچوں کو، لچے لفنگوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا۔ آپؐ چلتے جاتے تھے اور بچے آپؐ پر پتھرائو کر رہے تھے۔ حضرت زید بن حارثہؓ جو آپؐ کے ہمراہ تھے، ان کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ جب آپؐ پر سامنے سے پتھرائو ہوتا تھا تو سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوجاتے تھے مگر پتھرائو پیچھے سے شروع ہوجاتا تھا۔ جب پتھرائو پیچھے سے شروع ہوجاتا تو آپ ڈھال بننے کے لیے پیچھے کھڑے ہوجاتے تھے۔ لیکن ایک فرد ہے اور چاروں طرف سے پتھروں کی یورش اور بارش ہے۔ کیسے تحفظ دے، کیسے ڈھال بنے؟ وہ اپنا کام کررہے تھے، اپنے درجات بلند کر رہے تھے، اپنے آپ کو رضاے الٰہی کا مستحق بنا رہے تھے۔ آپؐ کے جسمِ اطہر سے اس قدر خون رسا کہ آپؐ کے نعلین مبارک میں خون کھڑا ہوگیا اور آپؐ کے پائوں اس میں جم گئے۔ کتنی آسانی سے میں نے بیان کر دیا ہے اور آپ نے پڑھ لیا ہے۔ ذرا اس کا تصور تو کیجیے کہ کیا ہوا ہوگا اور کیا بیتی ہوگی، کتنا وقت لگا ہوگا کہ خون رستے رستے پیروں کو جوتے کے اندر جما دے!
یہ واقعہ پیش آتا ہے تاآنکہ آپ بستی سے نکل کر ایک درخت کے نیچے سستانے کو بیٹھتے ہیں۔ اس وقت حضرت جبرئیل امین ؑ تشریف لاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام لے کر آتے ہیں کہ یہ فرشتہ ساتھ لایا ہوں، آج اللہ تبارک وتعالیٰ بے حد غضب ناک ہے کہ اس نے اپنے محبوب ترین بندے کو دیکھا ہے کہ کس طرح وہ ستایا گیا ہے۔ آج اللہ تبارک و تعالیٰ سخت جلال کے عالم میں ہے، یہ فرشتہ ساتھ لایا ہوں، آپ اشارہ کیجیے کہ اللہ کے حکم سے یہ فرشتہ طائف کی اس بستی کو جو دو پہاڑوں کے درمیان آباد ہے، ان دونوں پہاڑوں کو ملادے، بستی ریزہ ریزہ ہوجائے، خاک و خون اور پوری تاریخ کے اندر عبرت کا نشان ہوجائے۔ انسانی سطح پر ذرا تصور کیجیے کہ کس قدر سنہری پیش کش ہے، کہ جن لوگوں نے ستایا ہے اور اس سلوک سے دوچار کیا ہے،ان سے انتقام لینے کا نادر ترین موقع ہاتھ آگیا کہ ان کو تہس نہس کردیا جائے، فنا کے گھاٹ اُتار دیا جائے اور ان کا کوئی نام لیوا باقی نہ چھوڑا جائے۔ ذرا غور کیجیے کہ کیسے آدمی صبر سے کام لے، کیسے حوصلے کا عنوان بنے،وسیع الظرفی کسے کہتے ہیں، عالی ظرفی کس چیز کا نام ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں، یہ نہیں تو ان کے بعد والے ایمان لے آئیں گے۔ کیسی توقعات ہیں۔ جو توقعات ان سے باندھی تھیں وہ تو پوری ہوئی نہیں، لیکن یہ نہیں تو بعد والے اور آیندہ نسلیں ایمان لے آئیں گی۔ یہ زندہ رہیں گے تو آیندہ نسلیں مسلمان ہوں گی۔ وژن دیکھیے، بصیرت و بصارت دیکھیے، توقعات اور اُمیدوں کا محل دیکھیے، صبروتحمل کا کوہِ گراں دیکھیے، اور انسانوں کے ساتھ خیرخواہی دیکھیے۔
یہ الفاظ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلتے ہیں اور پھر آپ سجدے میں چلے جاتے ہیں، اپنے رب سے مناجات کرتے ہیں۔ ہم کلامی کا شرف حاصل کرتے ہیں، اور اپنی پوری کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہیں،اور الفاظ سے لگتا ہے کہ شاید اپنے رب سے گلہ بھی کر رہے ہیں۔ اپنائیت کے الفاظ و انداز میں جو شکوہ ہوسکتا ہے وہ کر رہے ہیں کہ مولا! تو نے مجھے کن کے حوالے کر دیا ہے، جو میری بات کو سمجھتے نہیں ہیں، میرے پیغام کو جانتے نہیں ہیں۔ اس میں ان کے لیے گنجایش رکھ رہے ہیں کہ سمجھ نہیں رہے اس لیے مخالفت کر رہے ہیں۔ ان جملوں کے اندر ان کی خیرخواہی مطلوب ہے، اور اتباع و پیروی اور دعوت و انقلاب کے راستے پر چلنے والوں کے لیے رہنمائی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ مولا! جو کچھ ہوگیا ہے اگر تو اسی پر راضی ہے تو میں بھی اس پر راضی ہوں، یعنی میرا رب راضی ہے تو پھر سارا جگ راضی ہے۔ پھر یہ لوگ پتھر ماریں تو میں راضی ہوں، پھر یہ لوگ مجھے کانٹوں پر چلائیں تو میں راضی ہوں۔ یہ خون میں نہلائیں تو میں راضی ہوں۔ پھر یہ مجھے خالی ہاتھ لوٹائیں تو میں راضی ہوں۔ گویا رب کی رضا ہی اصل چیز ہے۔
تعلق باللہ کی یہ کیفیت ایک داعی دوسروں میں اسی وقت پیدا کرسکتا ہے جب خود اس کے اندر اس تعلق کی آبیاری بدرجہ اولیٰ موجود ہو۔ اللہ کے ساتھ تعلق کی آبیاری ہر روز اور ہر صبح و شام کا کام ہے، اتفاقی یا حادثاتی طور پر کبھی کبھار کرنے کا کام نہیں۔ قرآن و سنت اور سیرت و حدیث کے حوالے سے مسلسل اپنی طبیعتوں کو نکھارنے کا اہتمام کرنا تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن اور ذمہ دار کا فرض بنتا ہے۔ روزانہ کچھ وقت مقرر کریں کہ ان اوقات میں انفرادی دائرے میں اور چل پھر کر اجتماعی دائرے میں اپنے رب کے ساتھ قربت کی منازل کو طے کریں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے اور میں نے آپؐ کے چہرۂ انور کو دیکھ کر پہچان لیا کہ آپؐ کچھ فرمانے والے ہیں۔ میں متوجہ ہوگئی کہ دیکھوں آپؐ کیا ارشاد فرماتے ہیں، لیکن آپؐ گھر کے اندر داخل ہوئے، وضو فرمایا اور خاموشی سے مسجد کی طرف چلے گئے۔ میں مسجد کی دیوار سے کان لگا کر کھڑی ہوگئی کہ دیکھوں آپؐ کیا ارشاد فرماتے ہیں۔آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ لوگو! اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: اگر تم منکر کے خلاف نہیں اُٹھو گے، منکر کو نہیں روکو گے، اس کی طرف لوگوں کو متوجہ اور تنبیہہ نہیں کرو گے تو تم مجھ سے لمبی لمبی دعائیں مانگو گے، میں ان کو تمھارے منہ پر دے ماروںگا۔ تم مجھ سے التجائیں اور گزارشیں کرو گے میں ان کو نامنظور کردوں گااور تمھاری طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھوں گا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے بس اتنا ہی ارشاد فرمایا اور منبر سے نیچے اُتر آئے۔
گویا منکر کو دیکھنا اور برداشت کر لینا گوارا نہیں ہوسکتا۔ چاروں طرف معاشرے میں منکرات کے جھاڑ جھنکاڑ بچھے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف دیوہیکل منکرات دندناتے پھرتے ہیں، انھی کی پالیسیاں ہیں، انھی کے حوالے سے لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہے اور حرام کاری کے کاروبار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہماری طبیعت پر کتنے گراں گزرتے ہیں؟ کچھ کرنے اور کر گزرنے کے لیے کتنی آمادگی پیدا ہوتی ہے؟ کتنے اقدامات اور تدبیریں ہیں جو ہم انفرادی اور اجتماعی دائروں میں اختیار کرتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بدرجۂ اولیٰ ہم سے پوچھی جانی ہے۔ ہم جو دین کے دعوے دار بن کر اُٹھے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہؓ اسی طرف رہنمائی فرما رہی ہیں۔
جماعت اسلامی از اوّل تا آخر ایک دینی تحریک ہے اور بجاطور پر اس کے فرائض اور ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ اپنے جلو میں چلنے والوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق دعوت اور آپؐ کے اسوئہ حسنہ سے بار بار آگاہ کرے،تذکیر اور یاد دہانی کا فریضہ انجام دے، اور مسلسل تعمیرسیرت اور کردار سازی کا کام انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی دائروں کے اندر بھی جاری رکھے۔ اسی مقصد کے پیش نظر جماعت اسلامی نے دعوت وتربیت کا ایک جال بچھایا ہے تاکہ چاروں طرف کے حالات میں غفلت کے جو عنوان پنہاں اور پوشیدہ ہیں، لوگ ان سے بچ سکیں اور اپنے رب کے ذکر قرآن پاک اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی طرف چلیں اور اس کے ذریعے ان راہوں کو پا سکیں جو منزل کی طرف لے جاتی ہیں۔
اس پورے کام میں جو چیز مطلوب ہے، قرآنِ پاک نے اس کا حوالہ دیا ہے:
وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الرّٰشِدُوْنَ o فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ o (الحجرات ۴۹:۷-۸) مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنایا اور کفروفسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
یعنی اس تمام تربیت اور تزکیے سے ایک ایسا انسان مطلوب ہے جس کے دل و دماغ میں ایمان کی محبت پیوست ہوجائے،اور ایمان سے ہٹنے اور اس سے دُور جانے کا تصور بھی ذہن اور عمل کے اندر محال ہوجائے۔ قلوب کے اندر یہ محبت اس طرح رچ بس جائے کہ اس کے نتیجے میں ہرمعصیت، ہر گناہ اور ہر نافرمانی انسان کو جیتے جی ایک عذاب سے دوچار کردے۔ یہ جو چاروں طرف گناہوں کا کاروبار نظر آتا ہے اور انسان کو اپنی طرف بلاتا اور بہلاتا پھسلاتا ہے، معصیت اور نافرمانی کے اَن گنت عنوانات دنیا کو بنانے، حالات کو بہتر کرنے، اور زندگی کو کل سے بہتر آج اور آج سے بہتر کل کی شکل دینے کے لیے موجود ہیں، اور پھر انسان کے جسم و جان کو راحت پہنچانے کے وہ تمام مراحل جو نافرمانی کے ذیل میں آتے ہیں، ان کے قریب جانے یا ان کا خیال آنے سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ یہ منزل مقصود ہے کہ انسان کے اپنے اندر ایک مربی و مزکی اور ایک محتسب موجود ہو، کوئی روکنے ٹوکنے اور اندر سے خبردار کرنے والا ہو جو ہاتھ پکڑ لے اور کہے کہ بھلے آدمی یہ تمھیں کیا ہوگیا ہے، یہ تم کیا کر رہے ہو۔
ہر شخص خود ہی اپنا جائزہ لے کر اپنے بارے میں حتمی راے دے سکتا اور فتویٰ صادر کرسکتا ہے کہ اس آیت کے اندر جو کیفیت بتائی گئی ہے، اس میں اس کیفیت سے کتنی قربت، اور طبیعت اور مزاج کے اندر کس قدر رچائو موجود ہے۔ اگر یہ کیفیت ہے اور اس کے اندر بڑھوتری ہے تو یہ مطلوب ہے، اور یہ عمل زندگی کے آخری سانس تک جاری رہنا ہے۔ دعوت و تربیت کے مختلف مراحل فی نفسہٖ ہمیں پوری زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتے اور اس کے لیے تیار کرتے ہیں کہ ہم خود اپنے نگران اور مربی، اور ایک مدرس و مقرر کی حیثیت سے مسلسل اپنے اُوپر نگاہ رکھ سکیں، اور اس آیت کا مصداق بننے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے کوشاں ہوں۔
جماعت اسلامی اور اس کے وابستگان معاشرے کے اندر جو کام کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ حضور نبی کریمؐ کو اسی کے لیے مبعوث کیا گیا تھا اور آپؐ نے اپنی زندگی اسی جدوجہد میں لگا کر اس کا حق ادا کر دیا۔ غلبۂ دین کی جدوجہد میں حصہ لینا، اقامت دین کا فریضہ انجام دینا، بڑے پیمانے پر انسانوں کو ظلم کی طویل رات سے نجات دلانا، جھوٹے خدائوں اور طاغوت کی فرماں روائی سے بچانا اور انھیں اپنے رب کی طرف بلانا، ظاہر ہے کہ یہ کام ثبات و استقامت اور اولوالعزمی، اور ہر طرح کی آزمایش کو خندہ پیشانی سے جھیلنے کا مطالبہ و تقاضا کرتا ہے، اور یہ تمام کیفیات اور ساری خصوصیات اسلامی تحریک کے کارکن کے لیے مطلوب ہیں۔ ان صفات کو پیدا کیے بغیر انسان مایوسی کا شکار ہوتا ہے، حالات کی خرابی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے اور خود اپنے آپ سے سوال کرکے اور اپنے آپ سے لاجواب ہوکر کسی کونے کھدرے میں اپنے آپ کو پاتا ہے۔ جماعت کے لٹریچر میں یہ بات جابجا موجود ہے کہ آپ اپنی تربیت گاہ خود بلائیں جس کے ناظم بھی آپ ہوں اور کارکن بھی، خود ہی اپنے آپ کو رپورٹ پیش کریں اور خود ہی اس پر تبصرہ کریں، اور جائزہ لیں کہ انبیاؑ کے وارث کی حیثیت سے غلبۂ دین کی جدوجہد کے ایک کارکن کی زندگی جس ڈگر پر گزر رہی ہے، جن ترجیحات کے مطابق بسر ہورہی ہے، پسند و ناپسند کے پیمانے باربار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر جس سمت میں چل پڑے ہیں___ کیا ان کا دعوت و انقلاب سے کوئی تعلق ہے!
غلبۂ دین کی جدوجہد کے حوالے سے یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ نیکی کو اپنانے اور خیر کی طرف بڑھنے، بھلائی کا شعور پیدا کرنے، حسنات کے حرص و لالچ کو اپنی طبیعت کے اندر پانے کا رجحان تو موجود ہوتا ہے، لیکن خیر کا کوئی علم اپنے نتیجے اور انتہا کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ شر کا علم بھی موجود نہ ہو۔ شر کے جو سرچشمے ہیں، برائی کی جو جڑیں ہیں، اس کا جو پورا نظام ہے، فتنے اور اس کے جو اسباب ہیں، فی زمانہ شر کی جو حکمت عملی اور اس کی یلغار کی جو صورتیں ہیں، اس باطل اور کفر کے اندر جس طرح کی کہہ مکرنیاں ہیں، ان کے بارے میں علم حاصل کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح کہ خیر کے بارے میں۔
حضرت حذیفہ بن یمانؓ مشہور صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ دیگر صحابہ کرامؓ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتے تھے تو خیر، بھلائی اور نیکی اور جنت کے بارے میں سوال کرتے تھے، لیکن میں جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر اور فتنوں کے بارے میں پوچھتا تھا، اور ان کے سدباب اور مقابلے کے حوالے سے سوال کرتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کے درمیان جو مختلف طبقات ہیں اور بعد میں اُمت نے مختلف حوالوں سے ان سے استفادہ کیا ہے، حضرت حذیفہؓ اس لحاظ سے یکتا اور منفرد اعزاز رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے فتنوں اور مسلمانوں کی ناکامیوں اور ہزیمتوں کے حوالے سے بھی تمام پیشین گوئیوں کو حاصل کیا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو اس حوالے سے جب دقت پیش آتی تھی اور معاملہ فہمی کا مسئلہ درپیش ہوتا تھا تو وہ حضرت حذیفہؓ سے رجوع کرتے تھے۔
اس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ معاشرے کے اندر بدی کے جو رجحانات ہیں، بدی کی اُٹھنے والی تحریکوں کی جو بنیادیں اور کلیات ہیں، ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور طاغوت کی فرماں روائی کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے جتنے ہاتھ آگے بڑھتے ہیں ان ہاتھوں کو روکنا، ان چہروں کو پہچاننا، ان رویوں سے آگاہ ہونا اور ان کے طور طریقوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا بالکل مطلوب ہے۔ ورنہ آپ کی تحریک اُدھوری رہے گی، اور کام کے اندر جس زور وشور کا اظہار ہونا چاہیے، جس توجہ اور انہماک کا عنوان ہونا چاہیے، وہ مفقود ہوگا۔ اگر آپ رزم خیروشر کے پورے منظرنامے سے آگاہ نہیں ہوں گے تو اپنی جدوجہد کو صحیح رُخ نہیں دے سکیں گے۔