ایک بندہ مومن کے لیے رمضان المبارک ، اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا احسان اور عظیم تحفہ ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی نیک اور بھلا کام کرتا ہے تو اس کو ایسا ثواب ہوتا ہے، جیسے اورمہینوں میں فرض کا ثواب، اور جو کوئی اس مہینے میں ایک فرض بجا لائے تو اس کو ستّر فرضوں کا ثواب ملتا ہے۔
اس مہینے کی ابتدا میں رحمت ہے اور اس کے درمیانی دنوں میں مغفرت وبخشش ہے، اور اس کے آخری حصے میں دوزخ سے آزادی ہے۔ اس مہینے میں کثرت سے کلمۂ شہادت و استغفار پڑھنا، اللہ تعالیٰ سے جنت کی دُعا کرنا اور دوزخ سے پناہ مانگنا ایک بندئہ مومن کا وظیفۂ حیات ہے۔
اللہ ربّ العزت کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں دین کا صحیح فہم نصیب کیا، اور ایک دین دار نظم سے منسلک ہو کر اجتماعی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا۔ اس گئے گزرے دور میں ہرطرف پھیلی ہوئی تاریکی اور جہالت کو دیکھیے۔ دین سے دُوری اور گریز کی اَن گنت راہوں کو دیکھیے۔ پھر اپنی خوش بختی کا اندازہ کیجیے کہ اس مالک و خالق نے اپنے دین کی سربلندی کے لیے ہمیں منتخب کیا ہے۔ کیسی خوش نصیبی ہمارے حصے میں آئی ہے کہ اس نے اپنا محبوب بندہ بننے، عبادالرحمٰن میں اپنا نام لکھوانے، اور اپنی خوش نودی کے نصب العین کے تحت جدوجہد کرنے والوں میں ہمیں شامل کیا ہے۔
لیکن یہی خوش بختی ایک گراں بار ذمہ داری اور نازک فریضہ بھی ہے… اس سے پہلو تہی کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے کم نہیں۔ اس کام میں تھوڑی سی سستی اور تساہل بھی سخت پکڑ اور کڑی باز پرس سے ہمکنار کرنے والی ہے۔ اس فانی دنیا کے مقابلے میں ہمیشہ قائم و باقی رہنے والی زندگی کے لیے قیمتی اثاثہ اور متاع بے بہا جمع کرنے کا یہ بڑا نادر موقع ہے۔اپنے ربّ سے تعلق مضبوط کرنے اور اس کی قربت حاصل کرنے کا یہ بہترین زمانہ ہے۔ ایمان کا بڑھنا، اس میں روزافزوں اضافہ اور ترقی، انسان کی فلاح، اس کی کامرانی اور اس کی کامیابی کے لیے اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں سرخروئی اور مغفرت کا یہ پیشگی پروانہ ہے۔
ہم پر اللہ ربّ العزت کے اَن گنت احسانات اور نوازشیں تقاضا کرتی ہیں کہ ہم ہرلمحہ اس کا شکر ادا کریں۔ شکر کی بہترین شکل اللہ کے سامنے جواب دہی کا زندہ احساس ، رجوع الی اللہ کی اُمنگ اور انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ ذکر کی مکمل ترین اورمؤثر ترین صورت نماز ہے۔ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دینے کے بعد اس کے تمام تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا مسلسل جہاد ہے۔
رمضان المبارک ایک بار پھر رحمت و کرم کی بارش کا وسیلہ کر بن رہا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ اس مبارک ماہ کی ویسی ہی قدر کریں جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ فریضہ اقامت دین کی جدوجہد کے ایک کارکن کی نظر سے دیکھیں تو یہ مہینہ اپنے آپ کو علم دین سے لیس کرنے، خوب اجر سمیٹنے، چھوٹی بڑی نیکیاں اپنا شعار بنا لینے، اپنے نفس پر قابو پانے، ایک مجاہد کا سا مضبوط ایمان پیدا کرنے، مردِمومن کی سی دُور رس نگاہ پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ مختصر یہ کہ اپنے مالک حقیقی سے قرب حاصل کرنے، اور اپنے آپ کو اس کے انعامات اور فضل کا مستحق قرار دینے کا مہینہ ہے۔ اگر ہم ان نعمتوں کی قدر کرنے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کا ارادہ کریں گے، تو وہ ہمیں اپنی عائد کردہ ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے قابل بنائے گا اور بحیثیت مجموعی دین کا اچھا کارکن اور اپنی راہ کا زیادہ مستعد سپاہی بننے کا حوصلہ عطا کرے گا اور ہرآن ہماری مدد بھی فرمائے گا۔
ضروری ہے کہ ان دنوں اپنے معمولات کو دوسرے دنوں کے مقابلے میں بالکل تبدیل کردیجیے۔ اپنا زیادہ وقت تلاوت قرآن کریم، نماز اور مطالعے میں گزاریے۔ اٹھتے بیٹھتے مسنون اذکار کا سہارا لیجیے۔ جب بات کیجیے تو نیکی کی بات کیجیے۔ اپنے رب ّسے دُعائیں کیجیے، گناہوں پر معافی مانگیے، اُسی مالک حقیقی کے سامنے گریہ و زاری کیجیے اورمغفرت طلب کیجیے۔
تحریک اسلامی کے دشوار اور کٹھن راستوں کو ہم اس وقت تک طے نہیں کر سکتے، جب تک کہ ہماری سیرت پختہ اور ایمان مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہو، اور ہم میں بے پناہ صبر اور خدا خوفی کا داعیہ موجود نہ ہو۔ زندگی کی آسایشوں اور دنیا کی چمک دمک میں اُلجھ کر ہم اکثر اپنے مقصدِ حیات ہی کو بھول جاتے ہیں۔ ہم اس وقت تک ثابت قدمی اورمستقل مزاجی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے، باطل کے مقابلے میں چٹان ثابت نہیںہو سکتے، جب تک کہ ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی، ربّ کی بندگی کے مفہوم سے پوری طرح آشنا نہ ہو اور خواہشات نفس کی غلامی سے نکلنے کی ہم نے مشق نہ بہم پہنچائی ہو۔
ہمیں نہ صرف خود حق کے راستے پر چلنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی چلنے کی دعوت دینا ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنی زندگیوں میں دین کو قائم کرنا ہے بلکہ اپنے ماحول ، معاشرے اورپورے ملک میں دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ اس کام کے لیے ہمیںخلوص کی وافر مقدار، مضبوط ایمان کی دولت اور صبرو حکمت کا سرمایہ درکار ہے۔ اسی طرح انتہائی پختہ سیرت و کردار، عزم و ارادے اور اللہ کی معیت، نصرت، توفیق اور اس کی رضا کی ضرورت ہے۔
رمضان المبارک ہمارے لیے ایک بیش بہا نعمت ہے۔ ایک گراںقدر نقد سرمایہ ہے، لیکن افسوس کہ کم ہی لوگ اس سے کماحقہٗ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سچ بات ہے کہ بیش تر کے حصے میںتو سواے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں آتا۔ماہ رمضان کے سلسلے میں چند باتیں خصوصی توجہ چاہتی ہیں:
اس ماہ کے دوران ہر روز دو نوافل خصوصی طور پر پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دُعا کیجیے کہ وہ آپ کے ارادے و عزم کو پختہ کرے۔ وہ اپنی حفاظت میں رکھے اور ان قیمتی لمحات کو غیر شعوری طور پر بے عملی، تساہل، اور فضول باتوں میں ضائع ہونے سے بچائے۔
پھر مہینہ بھر ایک پروگرام ترتیب دے کر اس پر عمل کیجیے، روزانہ اس پروگرام کی پابندی کو اپنے اوپر بالکل لازم کر لیجیے، اپنا احتساب کیجیے اور خود کو ہرگز کوئی رعایت نہ دیجیے۔ اگر کبھی آپ کے اپنے بنائے ہوئے پروگرام میںکوئی کمی رہ جائے تو اسے پورا کیے بغیرچین سے نہ بیٹھیے۔
اس بات کو اپنی نظروں سے کبھی اوجھل نہ ہونے دیں کہ ہماری ساری کوششوں کا مقصد اپنے ربّ کی رضا کا حصول ہے۔ یہ رضا اس خالق و رازق سے مضبوط تعلق پیدا کیے بغیرممکن نہیں ہے۔ تعلق باللہ ہی سعادت کا وہ سرچشمہ ہے، جہاں سے ہم زندگی کے ہر گوشے میں اللہ کے دین کی اقامت کا جذبہ اور لگن پاسکتے ہیں۔ جتنا ہم اس راہ میں شوق و ذوق سے پیش پیش ہوں گے، اتنا ہی اپنے نصب العین سے قریب تر ہوں گے اور جس قدر اس میدان میں پیچھے رہتے جائیں گے، اتنا ہی اپنے نصب العین سے دُور ہوتے جائیں گے۔ اس امر کی خصوصی کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارے خیالات اور اعمال اپنے ربّ کے لیے خالص ہوں۔
اس منصوبہ بندی اور پروگرام میں جن امور کا خیال رکھنا اور جن باتوں پر اپنا احتساب و جائزہ لیتے رہنا ہے، ان میں یہ امور بھی پیش نظر رہیں:
نماز: فرض نمازوں کو پورے اہتمام سے ادا کیجیے۔ اس کے لیے شعوری کوشش اورتیاری کی ضرورت ہے۔ نماز میں الفاظ کی ادایگی شعوری طور پر کیجیے۔ قرآن کے نئے حصے یاد کرکے تلاوت کیجیے۔ رکوع و سجود جن کیفیات و جذبات کا مظہر ہیں، ان کو دل و دماغ میں تازہ کریں۔ خاص اہتمام کیجیے کہ کوئی نماز بلا جماعت نہ ہو۔
اس ماہ نوافل کا بھی زیادہ سے زیادہ اہتمام کیجیے، کچھ تو اپنے اوپر خود ہی لازم کر لیجیے، اورپورے ماہ پابندی سے ان کو ادا کیجیے۔ نماز تہجد کے لیے جو آسانی اس ماہ میسر آتی ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھایئے۔ کوشش کیجیے کہ کسی رات نمازِ تہجد کا ناغہ نہ ہو… اس کا انحصار آپ کی اپنی شعوری کوشش دل کی حضوری پرہے۔
قرآن: یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ قرآن پاک سے خصوصی تعلق استوار کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ سہل پسندی کی نذر ہونے سے بچیے، بلکہ اہتمام کرکے پورا قرآن سماعت کیجیے۔ بہتر یہ ہے کہ پڑھے جانے والے رکوعات کو پہلے ہی ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیا جائے تاکہ رمضان میں پورے قرآن کی تلاوت ہوجائے۔ وقت کی پابندی ضرور کیجیے اور اس کے لیے ایک مناسب وقت اختتام سحری سے طلوع آفتاب تک کا ہے۔ یا جو وقت بھی آپ نے مقرر کیا ہے، اس کے علاوہ بھی زیادہ سے زیادہ وقت تلاوت قرآن میں صرف کیجیے… باقاعدہ مطالعے کے لیے قرآن کا کوئی حصہ منتخب کر لیجیے (مثلاً آخری منزل)، اور اسے زیادہ گہری نظر سے تفہیم القرآن یاکسی اور تفسیر کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ بعض حصوں، خصوصاً آخری پاروں اور منتخب رکوعات کے حفظ کا اہتمام بھی کیا جاناچاہیے۔
مطالعہ: اس میں اصل چیز باقاعدگی ہے۔ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکالیے۔ جوکتابیں آپ چاہیں منتخب کر سکتے ہیں۔ کچھ بطور مشورہ تجویز بھی کی جا رہی ہیں:
لٹریچر… سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے کو اوّلیت دیجیے اور اس کے ساتھ ، دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات مسلمان کے روزو شب، ہدایات، خاصانِ خدا کی نمازیں، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، اساس دین کی تعمیر، حقیقتِ نفاق، اسوہ صحابہ، ماثورات وغیرہ۔
انفاق:اس ماہ سعید میں انفاق فی سبیل اللہ اپنے اوپر لازم کر لیجیے، خواہ کتنی ہی چھوٹی مقدار اور قلیل رقم کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اس قربانی اور جذبے کو دیکھتا ہے، جو اس کا بندہ اس کی راہ میںکرتا ہے۔ اپنے ربّ سے دُعا بھی کیجیے کہ وہ اپنی راہ میں آپ کے انفاق کو قبول کرلے۔ مزید کی توفیق بھی طلب کیجیے اور دیے ہوئے مال پرستّر گنا اجر کایقین رکھیے۔
کفّارہ:گناہ ہر حال میں گناہ ہے۔ لیکن اس وقت، جب کہ انسان، اللہ کی خاطر روزے کی حالت میں ہو، یہ گناہ کہیں زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ گناہوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کیجیے اور جو گناہ پھر بھی ہو جائیں، ان پر ایک مقررہ رقم بطور کفّارہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیجیے۔ اس طرح خود کو گناہوں سے باز رکھنے میں آسانی ہوگی اور نیکی کی راہ پر آگے بڑھ سکیں گے۔
اعتکاف:ممکن ہو تو آخری عشرے میں اعتکاف کی سعادت حاصل کیجیے۔ دس دن کے اس مجاہدے کو آپ ذاتی احتساب، تزکیہ نفس اور آیندہ زندگی، رضاے الٰہی کی طلب میں گزارنے کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے اکسیر پائیں گے۔
دعوت الٰی اللہ :عوام کے دل بھی اس ماہ نسبتاً زیادہ اپنے ربّ کی طرف راغب ہوتے ہیں۔دعوتِ دین کے کام کے لیے یہ موسم بہار ہے۔ ہر طرف نیکی کا چرچا ہوتا ہے۔ ہماری تھوڑی سی کوشش بھی لوگوں کے دل دعوت الی اللہ کے لیے مسخر کر سکتی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ اپنے محلے اور قرب و جوار میں جو بااثر، رسوخ والے اور باصلاحیت افراد ہوں، ان کو ہدف بنا کر کام کیجیے۔ ان کے لیے اللہ سے خصوصی دعائیں کرنا، دعوت کے اس کام کو آسان کر دے گا۔ اپنی بہترین کوششیں اس امر پر مرکوز کیجیے کہ عوام صرف نماز، روزہ پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ ان عبادات کے تقاضوں کو سمجھ کر، ان کی ادایگی کی خاطر ہمارے ساتھ آملیں۔ اجتماعی سرگرمیوں میں اور دیگر اس طرح کے موقعوں پر، عبادات کی غرض پر روشنی ڈالیے تاکہ رمضان المبارک زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دین کا حقیقی اور وسیع مفہوم سمجھانے کا مبارک ذریعہ ثابت ہو۔
دُعائیں:دُعا مومن کا ہتھیار ہے۔ ذہن نشین کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ سے اپنی دُعاؤں کو شرف قبولیت دلانے کا اس سے اچھا موقع پھر نہیں مل سکتا۔ ہمیشہ اس اعتماد کے ساتھ اللہ سے مانگیں کہ خلوص دل سے طلب کی ہوئی کوئی اچھی چیز اللہ تعالیٰ رَدّ نہ فرمائے گا… افطارسے قبل دُعا کی قبولیت احادیث سے ثابت ہے۔ ان لمحات کو ہرگز ضائع نہ ہونے دیجیے۔
سونے، جاگنے، مسجد میں داخل ہونے، باہر نکلنے، افطار و سحری کرنے، شکریہ ادا کرنے اور نیا کپڑا پہننے وغیرہ کے موقعے پر جو دُعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، انھیں یاد کیجیے اوراہتمام سے بار گاہ ربّ العزت میں پیش کیجیے۔ اپنے لیے، اپنے والدین کے لیے، دعوتِ دین میں مصروف افراد کے لیے اور تحریک کے رفقا کے لیے بالعموم اور جن سے آپ قریبی تعلق محسوس کرتے ہیں ان کے لیے بالخصوص دُعائیں کیجیے۔ جن لوگوں سے آپ روابط قائم کیے ہوئے ہیں اور انھیں دعوتِ دین پہنچا رہے ہیں، ان کے دلوں کو دعوتِ حق کی طرف پھیردینے کے لیے اللہ سے نصرت مانگیے۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان، برما، شام، عراق، مصر، بنگلہ دیش، چیچنیا، سنکیانگ اور بھارت میں آزمایشوں سے دوچار مسلمانوں کی مشکلات کے خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیے۔
اسی طرح رمضان کا یہ مہینہ اسلامی اور قومی تاریخ کے اہم واقعات کی یاد دہانی لے کر آتا ہے۔ غزوۂ بدر اور فتح مکہ دو ایسے سنگ میل ہیں، جو تحریک احیاے اسلامی کے مستقبل کے لیے روشنی فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح سندھ میں دعوتِ دین کی آمد کی یاد میں یوم باب الاسلام اور رمضان میں قیامِ پاکستان وغیرہ تاریخ ساز واقعات ہیں۔ ان تاریخی مواقع کی یاد تشکر اور احتساب کے جذبے سے منانے کا اہتمام کیجیے۔ عوام میں ملّی و قومی جذبات کی آبیاری کے لیے تدابیر اختیار کیجیے۔
اللہ کریم سے دُعا ہے کہ وہ ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرمائے، ہماری سعی و جہد کو اپنے لیے خالص کر لیے اور ہم سے وہ کام لے ، جس سے وہ راضی ہو جائے۔ آمین!