ایک طرف دنیا بھر میں ’کورونا وائرس‘کی تباہ کاریوں نے ہرانسان کو دہلاکر رکھ دیا ہے، لیکن دوسری جانب بھارت کی سفاک حکومت اور فوج جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی لانے کو تیار نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس موقعے کو غنیمت جان کر، جموں و کشمیر کی سماجی و سیاسی اور قومی صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے پے درپے بڑےجارحانہ اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ اس پس منظر میں دنیا بھر کے منصف مزاج لوگوں کو کشمیر کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنی چاہیے، اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے ہرممکن کوشش و کاوش کرنی چاہیے۔
پچھلے ۷۰سال سے میں تحریک آزادی کشمیر کو ہرپہلو سے دیکھ رہاہوں۔ اس کی تاریخ، اور حق خود ارادیت (self determination)کی تحریک کے اُتارچڑھاؤ پر مسلسل غور کرتا آیا ہوں اور ۶۰برس سے اس موضوع پر لکھ بھی رہا ہوں۔ میرا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ ۲۰۱۶ءکے بعد اس تحریک کا جو دور شروع ہوا ہے اور خصوصی طور پر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جو صورتِ حال رونماہوئی ہے، اس سے یہ تحریک بڑی حدتک اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ البتہ یہ فیصلہ کن دور کتنا طویل یا مختصر ہوگا،فوری طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ آثاروشواہد یہ بتا رہے ہیں کہ ان شا ء اللہ یہ فیصلہ کن دور ہے اور اس کےلیے ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر اور مؤثر اور مربوط انداز سے طرزِفکر اور طرزِعمل اختیار کرنا ہوگا۔
اجتماعی زندگی کی جدوجہد میں ہم بہ حیثیت قوم کچھ معاملاتِ زندگی کو مؤخر کرسکتے ہیں، کچھ چیزوں کو حکمت یا مصلحت کی بنیاد پر نظرانداز بھی کرسکتے ہیں،لیکن مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے کشمیر کونہ نظرانداز کرسکتے ہیں اور نہ ثانوی حیثیت دے سکتے ہیں۔ اسے ہرحال میں مرکزی حیثیت حاصل رہنی چاہیے۔ اس معاملے پر جتنا پاکستانی قوم کو بیدار کریں گے، جتنا سیاسی جماعتوں پر اور پھر حکومت پر یاددہانی کے لیے دباؤ بڑھائیں گے، اتنا ہی اس مقصد کے لیے مفید ہوگا۔ نیز پاکستانی حکومت، عوام اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اُٹھانے اور بھارت پر عالمی دباؤ ڈلوانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ یہ مقصد محض بیانات اور ٹویٹر پیغامات سے حاصل نہیں ہوسکتا۔اس سلسلے میں بنیادی اور مؤثر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی فکر کریں گے، تو ان شاء اللہ اس کے مثبت اثرات رُونماہوں گے۔
تحریک ِ کشمیر کا موجودہ اُبھار ایک مؤثر اور فیصلہ کن مرحلے کی بنیاد ہے۔ اس کی دونوں سطحیں بہت ٹھوس اور مثبت ہیں: یعنی اس میں مقدار (quantitative) کے اعتبار سے بھی مثبت تبدیلی ہے اور معیار (qualitative) کے لحاظ سے بھی جوہری فرق واقع ہوا ہے۔ معیاری تبدیلی کی نسبت سے مقبوضہ کشمیر کے اندر قابض بھارتی فوجوں اور دہلی کے حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کا جذبہ جس درجے میں بیدار ہے اور موت کا خوف جس سطح پر ختم ہوا ہے، یہ چیز اس تحریک آزادی کی بڑی نمایاں اور نہایت قابلِ قدر خوبی ہے۔ پھر اسی دوران میں وہاں بھارت نواز مسلم لیڈرشپ جس انداز سے بے نقاب ہوئی ہے، اس نے بھارتی فریم ورک میں کشمیرکے وجود کے بے معنی استدلال کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ بلاشبہہ یہ آکاس بیل پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بنیاد فریب خوردہ لوگوں کی نظروں میں غیر مؤثر ہوئی ہے۔ اپنی جگہ یہ ایک بڑی اہم پیش رفت ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک اہم پیش رفت ہے کہ بھارت کے مختلف حلقوں، دانش وروں، میڈیا اور سیاسی گروہوں کی طرف سے بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی پر اظہار خیال ہورہا ہے،جو اس سے پہلے نہیں نظر آتا تھا۔ الحمدللہ، یہ ایک بڑی مثبت تبدیلی ہے۔ یہ پہلو اپنے اندر بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔
پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت کے سیاسی مقام، جغرافیائی کردار اور مختلف ممالک کے تجارتی مفادات کے باوجود، بین الاقوامی محاذ پر تنقید و احتساب کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، اگرچہ بظاہر وہ کمزور اور غیرمؤثر ہیں، لیکن بہرحال بلند ہونے لگی ہیں۔ یہ پہلو بتا رہے ہیں کہ ہم ایک فیصلہ کن دور کی طرف بڑھ رہے ہیں یا اس دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان امکانات کو کس طرح مؤثر انداز سے، مثبت رُخ کی جانب موڑ سکیں؟
سب سے اہم میدان خود مقبوضہ کشمیر کے اندر ہے۔اس وقت تک محترم سیّد علی گیلانی صاحب نے بڑی بصیرت، بڑی ہمت، بڑی قوت اور کمال درجے کی ثابت قدمی کے ساتھ اس تحریک کو درست رُخ پر فعال اور متحرک رکھا ہے۔ لیکن اِن دنوں اُن کی صحت زیادہ ہی مخدوش ہے۔ ان کے لیے خلوصِ دل سے دُعاے صحت کی جائے۔ خرابی صحت اور تمام پابندیوں کے باوجود محترم گیلانی صاحب کو جو معمولی سےمعمولی مواقع ملتے ہیں، ان کو قوم کی رہنمائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اب اس بات کی اشدضرورت ہے کہ گیلانی صاحب کی معاون قیادت اس طرح اُبھرے کہ وہ تحریکی سوچ اور صحیح فکر رکھنے والے افراد پر مشتمل ہو۔ وہ قیادت گیلانی صاحب کی طرح ایمان کی پختگی ، تاریخ کے گہرے شعور، بے پناہ جرأت اور حکمت و تدبر کی حامل ہو۔ جذباتی ردعمل سے بچ کر چلنے والی دُوراندیش قیادت ہو۔ ان حالات میں وہاں پر نچلی سطح تک ایسی تحریک کو منظم اور مؤثر ہونا چاہیے، جو عوامی ہو، جمہوری ہو، مربوط ہو اور منزل و مقصد کا صحیح فہم رکھتی ہو۔ اُن کی آواز میں آواز ملانے کے لیے، دنیابھر میں اُن کے حلیف اور ہم آواز حلقوں کو پوری تندہی سے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے کہ عالمی منظرنامے پر اُن کی تائید و تحسین اُنھیں قوت فراہم کرسکے۔
اس وقت بھارت یہ کوشش کر رہا ہے کہ مختلف سیاسی محاذوں پر مقامی طور پر ایسی قیادت کو اُبھارے کہ جو بظاہر آزادی کی حامی ہو یا خودمختاری کے گمراہ کن نعروں کو بلندکرے، حالانکہ بھارت کے حالیہ اقدام کا ہدف کشمیر پر اپنے جبری قبضے (occupation) کو مستقل انضمام (annexation) میں بدلنا، کشمیر کی شناخت (identity)کو ختم کرنا اور آبادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے، جو سامراجیت کی بدترین مثال ہے۔ ’خودمختاری‘ کی بات ایک فریب اور دوسری دفاعی لائن ہے، جس کی حقیقت کو سمجھنا اور دُنیا کو سمجھانا ضروری ہے۔ بڑی ہوش مندی سے سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اصطلاح بنیادی طور پر بھارتی مقاصد کو پورا کرنے کی ایک چال ہے۔ اس ضمن میں اگرچہ انھیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوسکی ہے، تاہم ان کی پوری کوشش ہے کہ نقب لگائی جائے۔
مسئلہ کشمیر میں انسانی حقوق کا پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کو بہت اہم مقام حاصل رہنا چاہیے کہ یہ بات لوگوں اور اداروں کی سمجھ میں آسانی سے آسکتی ہے۔ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کررہا ہے اور وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی رُو سے انسان کشی (Genocides)اور جنگی جرائم (War Crimes) کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس پہلو کو ساری دنیا میں اور خصوصیت سے بین الاقوامی اداروں بشمول اقوام متحدہ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور یورپین ہیومن رائٹس کمیشن پر اُٹھانا ازبس ضروری ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بات اوربھی زیادہ ضروری ہے کہ اصل ایشو بھارتی غاصبانہ قبضہ ہے اور عالمی سطح پر اس مسئلے کا طے شدہ ہدف صرف اور صرف حق خود ارادیت دلانے کے لیے استصواب راے (Plebiscite) ہے۔ یہی ایشو مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
بھارت چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو لوگ بھول جائیں، بھارت کے وعدوں کو بھی لوگ بھول جائیں، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برعکس کسی نام نہاد ثالثی (Arbitration) سے بٹوارا کرکے معاملے کو رفت گزشت کر دیا جائے۔لیکن نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حق خود ارادیت کے مرکزی ایشو ہی کو ہرسطح پر اُٹھایا جائے اور ہرسطح پر اس کو مرکزیت حاصل ہونی چاہیے۔ نیز ثالثی کے جال (Trap)سے بچنا ازبس ضروری ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت پردباؤ ڈلوانا اورمسئلے کے حل کے عمل کومتحرک اور مؤثر بنانا ضروری ہے۔کشمیر کے مستقبل کا مستقل فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی قیادت کے عہدواقرار کے مطابق ہی انجام دے سکتے ہیں۔
ہم پوری وضاحت اور نہایت واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ تھا، عالمی مسئلہ ہے اور جب تک حل نہ ہوجائے عالمی مسئلہ رہے گا۔ اسے بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے وعدہ کیا کہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق اسے طے کیا جائے گا۔ یہ کبھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں تھا۔ اس کے بنیادی فریق بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام ہیں اور اقوامِ متحدہ/ عالمی برادری بھی اس میں برابر کی شریک اور حل کروانے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس نکتے کو ہمارے عالمی اقدام (Diplomatic Offences) کا حصہ ہوناچاہیے۔ عالمی سیاست میں مفادات کے کھیل کی روشنی میں جہاں ازبس ضروری ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ کو مؤثر بنانا چاہیے جس کے لیے عالمی برادری کی سہولت کاری (Facilitation)، مداخلت (Intervention) اور دباؤ (Pressure) ضروری ہوگا،وہیں دوسری جانب ثالثی کے فریب میں پھنسنا مہلک ہوگا، جس سے ہرصورت میں بچنا لازمی ہے۔ حل ایک ہی ہے وہ یہ کہ کشمیر کے عوام کی راے دہی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔
بلاشبہہ ہماری خارجی سیاست میں بھارت کے فسطائی نظام اور بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں سے جو بدسلوکی اور امتیازی رویہ (discrimination ) روز افزوں ہے، اسے ایکسپوز کرنا بھی چاہیے اور اس کے لیے الگ سے حکمت عملی اور نظامِ کار بناناضروری ہے۔ لیکن کشمیر کے مسئلے کی خصوصی نوعیت کی بناپر اس مسئلے کو اس کے اپنی حرکیات (dynamics ) کی وجہ سے الگ اور مرکزی مسئلے کے طور پر پیش کرنا ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ بھارتی مسلمانوں اور وہاں کی اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی ضروری ہے لیکن اسے مسئلہ کشمیر سے گڈمڈ کرنے سے احتراز برتنا لازم ہوگا۔
حق خود ارادیت اور مزاحمت
یہ معاملہ بھی پوری منطقی ترتیب کے ساتھ مدِنظر رہنا چاہیے کہ جہاں ناجائز قبضہ (occupation) ہوگا، وہاں مزاحمت (resistance) ہوگی۔ غاصبوں سے آزادی حاصل کرنے کا حق (right to liberation) ایک بنیادی انسانی حق ہے، جسے اقوام متحدہ کا چارٹر بھی تسلیم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ۲۰۰ ممبر ممالک میں سے ۱۵۰سے زیادہ ملک اسی حق خود ارادیت کی بناپر آزاد ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ حق اقوامِ متحدہ نے تسلیم کیا ہے کہ: حق خودارادیت جمہوری طریقے سےنہ ملے اور اس حق کو قوت سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے توآپ کو اپنے تحفظ کے لیے مزاحمت کا بنیادی حق حاصل ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حق کے استعمال کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ لیکن نائن الیون کے بعد بھارت نے کشمیری حُریت پسندوں کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔یہ تو تازہ ترین واقعہ ہے کہ طاقت ور ملکوں کی دھونس، دھاندلی اور ظلم و جبر کو مسترد کرنے والے افغان طالبان کل تک ’دہشت گرد‘ قرار دیے جاتے تھے، لیکن آج ان سے گفتگو اور معاہدہ کرکے مسئلے کو حل کیا جارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی ’کشمیرکمیٹی‘ گذشتہ ۱۵،۲۰ سال سے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے پہلے آٹھ مہینےمیں اس کمیٹی کا کوئی سربراہ نہ تھا، اور جب سربراہ مقرر ہوا تو ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابرہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کشمیرکمیٹی کا سربراہ کابینہ کی نشستوں میں شریک تو ہوا، لیکن خود کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کا کہیں کوئی وجود تک نہ تھا۔ اب پھر یہ نشست خالی ہوگئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعتی مصالح سے بالاتر ہوکر ’کشمیر کمیٹی‘ کو حقیقی معنی میں قومی کمیٹی بنایا جائے اور ایک لائق اور متحرک شخص کو اس کا سربراہ مقررکیا جائے، جو پوری یکسوئی کےساتھ کشمیر کے کاز کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پیش کرے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ سفارتی تجربہ رکھنے والے کسی شخص کو کشمیر کے سلسلہ میں اسپیشل ایڈوائزر بنانے کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ ’کشمیر کمیٹی‘ اور اس کے سربراہ کو بالکل اس جذبے سے اپنا فرض منصبی ادا کرنا اور کمیٹی کو چلانا چاہیے کہ جس طرح غزوئہ اُحدمیں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد پہاڑ کی ایک پوزیشن پر تیرانداز ٹیم کو کھڑا کرکے فرمایا تھا کہ: ’کچھ بھی ہو آپ نے یہ پوزیشن نہیں چھوڑنی‘۔ مگر اُن کے پوزیشن چھوڑ دینے پر ریاست مدینہ کو شدید نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت کشمیرکاز کے فروغ کے لیے جموں و کشمیر اور عالمی سطح پر ایک نیا اور مؤثر کردار ادا کرے۔ اس کے لیے اسے پہل قدمی(initiative) کرکے لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔ وہاں اس وقت صدر اوروزیراعظم دونوں دردِ دل رکھنے والے سمجھ دار رہنما ہیں۔ ان سے بات کرکے آزادکشمیر میں سرکاری سطح پر کمیٹی بنائی جائے، جس میں سابقہ وزراے خارجہ اور خاص طورپرلائق سابق سفارت کاروں سے معاونت لی جائے اور ان کے اشتراک سے ایک ٹیم بنائی جائے۔
یورپ، مشرق بعید، امریکا اور عرب دنیا میں جو لوگ موجود ہیں، انھیں کردار ادا کرنے کی دعوت دی جائے۔ بھارت کے معاشی اور سیاسی بائیکاٹ کی مہم پر بھی غور ہونا چاہیے۔ جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک میں اس چیز کا کلیدی کردار تھا۔ فلسطین کی آزادی کی موجودہ تحریک اس سلسلے میں مؤثر اقدام کر رہی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹوں، جنرل اسمبلی کی قراردادوں وغیرہ کی بنیاد پر یہ کوشش کی جائے کہ قانونی طور پر بھی کشمیر کا مقدمہ عالمی اداروں اور عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے۔
سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر ا نٹر نیشنل کانفرنس کی اپنی افادیت ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ مختلف ملکوں کے پارلیمنٹیرینز سے براہِ راست ملاقات ہو اور پارلیمنٹس میں کشمیر پر قرارداد لانے کی کوشش ہو ۔ ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز سےرابطے ہوں، ان سے قراردادیں منظور کرانے کی کوشش ہو۔
یہاں پر ایک بار رُک کر یہ بات بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں ،اپنی پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے سیاسی وابستگی کو ختم کرکے ایک قومی حکومت بنائیں ؟ یا الگ الگ وجود رکھنے اور اپوزیشن کے باوجود ایک چھت تلے بیٹھ کر یہ طے کریں کہ ہم صرف اور صرف کشمیر کی آزادی، اور کشمیر میں بہترین حکومت سازی اور ڈسپلن کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور پاکستانی سیاست کو آزادکشمیر کی سیاست میں نہیں لائیں گے۔ یاد رہے کہ ۱۹۷۲ء تک پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا یہی موقف تھا۔ لیکن پاکستانی سیاسی پارٹیوں کو کشمیر کی سیاست میں دھکیلنے کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کی تھی۔ تاہم،۴۸برس کے اس تجربے سے اندازہ ہوا ہے کہ پاکستانی سیاست کے آزاد کشمیر میں عمل دخل نے جدوجہد کو بُری طرح نقصان پہنچایا ہے۔اس لیے اتفاق راے سے تمام پاکستانی سیاسی پارٹیاں ۱۹۷۲ء سے پہلے کی پوزیشن اختیار کرلیں۔یہاں پر مَیں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ۱۹۷۴ء سے آزادکشمیر میں جماعت اسلامی بھی قائم ہے، لیکن جماعت اسلامی پاکستان نے کسی درجے میں اس کی پالیسیوں اور معاملات میں کبھی کوئی دخل اندازی نہیں کی، نام اگرچہ ایک ہے لیکن ہرسطح پر اور ہردرجے میں وہ الگ تنظیم ہے اور پاکستان کی جماعت کی شاخ نہیں ہے۔
ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ آزادکشمیر فوج تو نہ بنائے لیکن پیراملٹری فورس کے بارے میں ضرور اقدام کرے، تاکہ جب ڈی ملٹرائزیشن کی بات کی جائے گی اور پاکستان کی طرف سے فوج کو نکالا جائے گا تو فطری طورپر آزادکشمیر کی اپنی سیکورٹی فورس ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پولیس کے ساتھ ساتھ نیشنل ڈیفنس فورس کی طرح سے ایک پیراملٹری فورس موجود ہو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اقوام متحدہ کمیشن کی دستاویزات میں اس کا ذکر آیا ہے ۔
اگرچہ پہلے سے متعدد ادارے موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک ’کشمیر ریسرچ گروپ‘ قائم کیا جائے، جو حکومت پاکستان کی کشمیر کمیٹی اور آل پارٹیز کشمیر کانفرنس کو مسئلہ کشمیر پر باخبراور تازہ دم رکھنے کے لیے مسلسل کام کرے۔ وہ کشمیر پر مثبت منفی تحریروں اور بیانات کو جمع کرے، تجزیہ کرے اور درست موقف کو پیش کرے۔ ساتھ ہی مذکورہ بالا اداروں کو متوجہ کرے۔ اس وقت خود بھارت میں بہت سی کتب اور مقالات شائع ہورہے ہیں، جن میں مسئلہ کشمیر کی حقیقی صورتِ حال کو جاننے اور اسے حل کرنے کا احساس نمایاں ہے۔ ا ن کتب میں زور دیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ایسی انسانیت کشی کیوں کر رہی ہے؟ ان چیزوں کو نمایاں طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بات کی ضرور ت ہے کہ بہت ہی دوٹوک طور پر مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور تحریک پر تحقیق ہو، سوشل میڈیا پربھی ہر بڑی زبان میں معاملے کی نزاکت کو مؤثر دلائل سے بیان کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ کشمیر پر دستاویزی فلمیں بنوائی جائیں۔ محض تقریری اور سماجی کانفرنسیں نہیں بلکہ عملی اور اقدامی کانفرنسیں منعقد کی جائیں، جن میں اہداف طے ہوں اور حکمت عملی کا تعین ہو۔ پھر معاملہ فہمی (لابنگ) کا محاذ ہے۔اہم سیاسی اور میڈیا کے فورم تک پہنچ کر انھیں ہم آواز (involve) بنانا ہے، انھیں اُبھارنا اور متحرک (motivate) کرنا ہے، انھیں سہولت فراہم (facilitate) کرنی ہے۔ تحقیق اور تحقیق کے نتیجے میں مختلف سطح پر ان چیزوں کی تیاری ، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پروجیکشن کرنا اور پہنچا ناایک بڑا ہی اہم کام ہے۔ یہ کام پاکستان اور دُنیابھر میں پھیلے کشمیری بھائیوں کے کرنے کا ہے۔یہ کام مقبوضہ کشمیر کے اندر سے کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے لیے بیرونِ کشمیر سے منصوبہ بندی اور باقاعدگی (systematically) سے کام کیا جانا چاہیے۔
بھارتی حکومت کا ساتھ دینے والے کشمیری مسلمانوں نے بہت کھل کر اعتراف کیا ہے کہ ’’بھارت نے ہمیں دھوکا دیا ہے اور ہم اُس پر اعتماد کرنے کی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کو پھر جھانسہ دینے کے لیے بھارتی پالیسی ساز ادارے رابطے قائم کر رہے ہیں، تاکہ انھیں اگلی مرتبہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں۔ اس ضمن میں اگر بھارتی عناصر کامیاب ہوجاتے ہیں، تو یہ بہت نقصان دہ عمل ہوگا۔ اس پس منظر میں بھارتی جارحیت کے مدمقابل قوتوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں ، انھیں تحفظ دیں، ساتھ چلائیں، ممکن حد تک اتفاق راے کے نکات پر اپنا ساتھی بنائیں اور اگر یہ ساتھ نہیں چلتے تو کم از کم یہ دوبارہ بھارتی سیاسی حکمت عملی کا حصہ نہ بنیں۔ یہ حکمتِ کار بھی ایک مفید عمل ہوگا۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت بھارت بڑی مکاری سے کوشش کر رہا ہے کہ ایک نئی ’بھارت نواز کشمیری قیادت‘ اُبھارے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وہ کئی افراد میدان میں لاچکا ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس یہ کوشش کی جائے کہ جو شخص ایسی کوشش کرے اسے بے نقاب کیا جائے۔ اس کے تعلقات اور پس منظر کو نمایاں کیا جائے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان نئے لوگوں سے بھی رابطہ کاری اور مکالمے کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔
کشمیر میں املاک کی خریدوفروخت پر محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا ایک فتویٰ ترجمان القرآن (اپریل ۲۰۲۰ء) میں شائع کیا گیا ہے،اسی طرح مسلم اور عرب دنیا کے علما سے فتوے حاصل کیے جائیں ۔مراد یہ ہے کہ بھارت، کشمیر کے مسلمانوں کی زمینوںکو حاصل کرنےاور اس طرح ان کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے جو کام کررہا ہے اور جس طرح وہ اپنے غاصبانہ قبضے کو ایک قبول عام شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا مقابلہ سیاسی اور دینی قیادتوں کو مل کر کرنا ہے۔ اس کے لیے سیاسی میدان میں اوردینی دائرے میںبھی راےعامہ بنانا نہایت اہم کام ہے۔
حکومت پاکستان کو محض تنقید کا نشانہ بنانے کے بجاے، حکومت کو آمادہ ، تیار اور مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر فعال، مربوط اور مؤثر کام کرے۔ ان کاموں میں حکومت کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے۔ توجہ دلانے کے لیے ملاقاتوں اور مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے اور کشمیر کے مسئلے پر پارٹی سیاست کی محدود اور گروہی سطح سے بلندہوکر کام کرنا چاہیے۔
مقبوضہ کشمیر کے لیے ایک ’عالمی کشمیر ریلیف فنڈ‘ کا قیام بھی نہایت ضروری ہے۔ خاص طور پر کورونا کی وجہ سے اور اس سے قبل دس مہینوں کے ’جبری کشمیری لاک ڈاؤن‘ میں مکمل کاروبار کی بندش کی وجہ سےکشمیر کے تاجروں اور عام شہریوں کا بے پناہ معاشی نقصان ہوا ہے، بلکہ معاشی تباہی ہوئی ہے۔ وہ چاروں طرف سے ۹لاکھ فوجیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں، علاج معالجے کی صورتِ حال حددرجہ ابتر ہے۔ ا ن کی سماجی بحالی اور زندگی و صحت کے لیے عالمی سطح پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک میں موجود اہلِ خیر کو اس خدمت کے لیے متوجہ کیا جائے۔ وسائل جمع کرکے ان تک پہنچائے جائیں۔ یہ کام بھی فوری توجہ چاہتا ہے۔
مجھے توقع ہے کہ جس مرحلے میں یہ تحریک داخل ہوئی ہے اس سے ان شاء اللہ قدم آگے بڑھیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تحریک کامیاب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دے کہ ہم اپنی آنکھوں سے اس کامیابی کو دیکھ سکیں۔