سیّد منور حسن


روزِ اوّل سے انسان پریشانیوں اور اَن گنت طوفانوں میں گھرا ہوا ہے۔ انسانیت کا یہ قافلہ وقت کے کسی خاص لمحے سے گزر کر وقت کے کسی خاص لمحے تک پہنچتا ہے۔ اہلِ دانش اس کو رنگوں سے بھر کر نت نئے عنوانات سے پیش کرتے ہیں۔ قرآن پاک نے تو اس کی گواہی دی ہے کہ انسان بڑا ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے۔ خود اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے، اپنے پیر پر کلہاڑی مارتا ہے، خود ہی محرومی کا شکار ہوتا ہے اور خود ہی اس محرومی کا رونا روتا ہے۔ پھر جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں خود ہی ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے اور منزل سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنے آپ سے بے خبر یہ ایک ایسی منزل کی طرف مسلسل گامزن رہتا ہے جو کبھی ہاتھ نہیں آتی، بلکہ بیک وقت کئی کئی منزلوں، کئی کئی کشتیوں کا سوار یہ مسافر متضاد سمتوں کے اندر رواں دواں نظر آتا ہے۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں دعوتِ انبیا ؑکی گونج سنائی دیتی ہے۔ اپنے رب کی طرف بلانے، اس کی پہچان اور شناخت قائم کرنے، چاروں طرف سے اپنے رُخ کو اپنے رب کی طرف موڑ لینے کے لیے یہ دعوت انبیا ؑکی دعوت ہے، جو ہر دور کے اندر سنی گئی۔ اس پکار کو لوگوں نے قریب اور دُور سے سنا، بہ زبان حال اور بہ زبان قال سنا، بہ اندازِ سرگوشی سنا، اور بہ آواز بلند بھی سنا۔

انبیا ؑکی یہ دعوت ان تمام حالات کو ٹھیک ٹھیک بیان کرکے انسانوں کو انسانوں کے رب کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے۔ بھولے بھٹکے اور خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو    راہِ مستقیم دکھاتی ہے۔ پورا قرآنِ پاک اس بات کا گواہ ہے، جابجا اس کی نشانیاں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس جانب متوجہ کرتا اور تسلسل کے ساتھ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تمام انبیا ؑ اسی ایک دعوت کو پیش کرتے ہیں کہ طاغوت کو ٹھکرایا جائے۔ ہر چھوٹے بڑے جھوٹے خدا سے لاتعلقی کا اعلان کیا جائے۔ دل ودماغ کی دنیا کے اندر جو بت سجے ہوئے ہیں، جن بتوں سے اُمیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں، ان سے برأت کا اعلان کیا جائے۔ قرآن کریم نام لے لے کر بتاتا ہے کہ حضرت نوحؑ کی دعوت بھی یہی تھی۔ حضرت ابراہیم ؑبھی یہی کہتے رہے۔ حضرت ہود ؑبھی یہی دعوت لوگوں میں پہنچاتے رہے، تاآنکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی دعوت اور اسی پیغام کو لے کر خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو بیدار کرنے اور منزل کی طرف لے جانے کے لیے تشریف لائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنے پانچ نام گنوائے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرا نام محمدؐ ہے، یعنی وہ جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی، خود اللہ تعالیٰ نے تعریف کی، اس کے فرشتوں اور اس کے بندوں نے تعریف کی۔ میرا دوسرا نام احمدؐ ہے، یعنی وہ نبیؐ جو سب سے زیادہ اپنے رب کی تعریف کرنے والا ہے۔ کسی نے اپنے رب کی اتنی تعریف نہیں کی، اتنی حمدوثنا بیان نہیں کی، اس کی اتنی صفات اور خصوصیات کا تذکرہ نہیں کیا جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ میرا تیسرا نام اَلْمَاحِیْ ہے جس کا سیدھا سادا مفہوم اور ترجمہ  آج کے بیان کے مطابق انقلابی ہوگا، یعنی مٹانے والا، شرک کو مٹانے والا، حرفِ غلط کی طرح ہر غلط چیز کو مٹانے والا، باطل کو مٹانے اور اس کی جگہ حق کو قائم کرنے والا، اللہ تبارک و تعالیٰ کی کبریائی کو بیان کرنے والا۔ آپ نے چوتھا نام الْحَاشِر بتایا، یعنی جمع کرنے والا کہ روزِ محشر سب سے پہلے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ حشر میں داخل ہوں گے۔ اپنی اُمت کو اور سارے لوگوں کو اکٹھا کریں گے اور آپ کے بعد دیگر انبیا ؑوہاں تشریف لے جائیں گے۔ آپ نے اپنا پانچواں نام اَلْعَاقِبْ فرمایا، یعنی وہ نبیؐ جو آخر میں آنے والا ہے، آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔

فی الحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری جدوجہد، پوری زندگی اور حیاتِ طیبہ، کش مکش کا ہرہرلمحہ اور مرحلہ کہ جس سے آپگزرے ، لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ، (الاحزاب ۳۳:۲۱) کی صورت میں ہمارے لیے مثال اور نمونہ قرار پایا۔ یہ ان سب لوگوں کے لیے دعوتِ عمل اور پیغام غوروفکر ہے جو لذت آشنائی کے مفہوم سے آشنا ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے ناگزیر ہے کہ اس پوری جدوجہد اور کش مکش کو، آپ کے شب و روز اور زندگی کے تمام معمولات، اور ساری ترجیحات کو مسلسل دیکھیں، بار بار مطالعہ کریں۔ بہت قریب سے اس کو پڑھیں، آپس میں موضوعِ گفتگو بنائیں اور جتنی کہکشاں اس کے عنوانات میں سجی ہیں، سب کو سمیٹنے کے لیے اپنے دامن کو زیادہ سے زیادہ وسیع کریں، بصیرت اور بصارت اور عمل کی نگاہوں سے اس پورے دور کا  جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی، مثال اور اتباع و پیروی کا دور ہے، کا مطالعہ کریں۔

انبیا علیہم السلام کی تحریک

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز تلاوتِ آیات، یعنی کتاب وحکمت کی تعلیم سے کیا۔ اس انقلاب اور تبدیلی لانے کا کام انبیا ؑجب بھی معاشرے کے اندر لے کر اُٹھے ہیں، اور ان کے بعد اسی طریقے سے جب معاشروں کے اندر اسلامی تحریک اُٹھتی ہے، اس نے انبیا ؑ کی پیروی میں یہی کام کیا ہے کہ معاشرے میں نئے انسان تیار کیے جائیں، تاکہ پرانے انسانوں کے حلیے میں سے نیا انسان جنم لے۔ وہ جو پہلے صرف عمر بن خطاب تھا، وہ بعد میں حضرت عمر فاروقؓ بن جائے۔ گئے گزرے اور بگڑے ہوئے لوگوں، حالات کی خرابی کے ذمے دار، فساد پھیلانے والے اور انسانوں کو باہم دست و گریبان کرنے والے لوگوں کے معاشرے کے اندر جب نبی مبعوث ہوتا ہے، اور خاتم الانبیا ؑکے بعد ایک ایسے معاشرے کے اندر جب اسلامی تحریک اُٹھ کھڑی ہوتی ہے، تو وہ پہلے سے موجود انسانوں کو فناکے گھاٹ اُتار کر کوئی نئے انسان علیحدہ سے وجود میں نہیں لاتی، بلکہ اپنی دعوت کے ذریعے، اللہ کی طرف پکارنے اور آخرت کے عنوان کے ذریعے، اللہ اور بندے کے درمیان عہدوپیمان کو تازہ کرکے انھی انسانوں کو بیدار کرتی ہے۔ ان کے کرداروعمل کی لہلہاتی فصل تیار کرتی ہے، منزل کا شعور دلاتی ہے، اور منزل کی جانب مسلسل رواں دواں رکھتی ہے۔ انھی انسانوں کے اندر سے پھر مجاہد اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے انسان پیدا ہوتے ہیں۔ کتاب و حکمت کے ذریعے ان کا تزکیۂ نفس ہوتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں نئے انسان وجود میں آتے ہیں۔ ان کی فکر کا زاویہ اور سوچ کا عنوان بدل جاتا ہے، اور زندگی کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ سمتِ معکوس میں سفر کرنے والے، مثبت اور تعمیری جدوجہد کے خوگر ہوجاتے ہیں۔

یہ معاشرے کے اندر ایک نیا انقلاب، ذہنی و فکری انقلاب، جسم و جان اور دل و دماغ کی دنیا میں اُبھرتا ہوا انقلاب ہے، جو انسانوں کے اندر ٹھاٹھیں مارتا ہے اور یکسوئی کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ پھر لوگ انشراح صدر کی کیفیت سے اپنے رب سے جڑنے اور جڑتے چلے جانے،بس اسی کا ہو رہنے، اور اسی کے دامن سے وابستہ ہونے کی دولت سے اس طرح سرشار ہوتے ہیں کہ بے خوف ہوکر مسلسل چلتے چلے جاتے ہیں۔ صرف اسی سے ڈرتے ہیں جس کا کلمہ انھوں نے پڑھا ہو، جس پر ایمان کا انھوں نے اعلان کیا ہو، جس نے ان کو پیدا کیا ، جو ان کا پروردگار ہے، جس کے پاس انھیں لوٹ کر جانا ہے، اپنا نامۂ اعمال پیش کرنا ہے اور زندگی کے تمام معمولات کے ایک ایک لمحے کی رپورٹ پیش کرنی ہے۔ اس خالق و مالک کے ساتھ وابستگی کا ایک لطف اور ایک ایمانی حلاوت ہے۔ جب ایسے سرشاروں کا وزن معاشرہ محسوس کرتا ہے تو پھر ایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ دُور دُور تک بسا ہوا منکرات کا جھاڑ جھنکار اندر کی دنیا سے بھی نکل جاتا ہے اور باہر کی دنیا بھی سکون و آشتی اور پاکیزگی کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے۔ یہ انقلاب دل کی زمین کو ہموار کرتا ہے اور اپنے رب سے ملانے، اور اسی جانب بڑھانے کے لیے نرمی و گداز اور ملائمت کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔

ھمہ گیر انقلاب

انبیا ؑکے انقلاب اور انبیا ؑ کے طریقِ کار کے نتیجے میں جب اور جہاں اسلامی تحریک بیدار ہوگی، اسلامی تحریک کا یہی ایک کام ہوگا کہ لوگوں کے سامنے تذکیر کرے، تعمیر سیرت کرے، نفوس کا تزکیہ کرے اور ان کے زاویہ ہاے نگاہ کو درست کرے۔ انبیا ؑ کا طریقِ انقلاب، ہمہ گیر انقلاب کا عمل ہے۔ یہ انقلاب جزوی نہیں بلکہ مکمل انقلاب ہے، حاشیوں اور لکیروں کا نہیں بلکہ متن کا انقلاب ہے۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو انسان کی پوری کی پوری زندگی کو متاثر کرنے والا انقلاب ہے، یعنی گھر کی محدود فضائوں سے لے کر بین الاقوامی دوائر کا انقلاب۔ جن جن اُمور پر سوچا جا سکتا ہے، جہاں جہاں تک انسان کمند ڈال سکتا ہے، جن جن جہتوں کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے، عنوانات سجائے جاسکتے ہیں، ان سب کے اندر انقلاب برپا کرنا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ انقلاب ان سب حوالوں سے تبدیلی کا پیغام اور ان سب دائروں میں ایک اللہ کا نام، وہی اوّل، وہی آخر، ہرہرحوالے سے بس اسی کی تعلیم، اسی کی دی ہوئی کتابِ انقلاب کو تھامنے کا انقلاب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک انقلابی تحریک یا تحریک اسلامی جس معاشرے کے اندر برپا ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ چلنے والوں کو معاشرے کے افراد سے کاٹتی بھی ہے، انھیں اس چلن کا باغی بھی بناتی ہے اور انھیں مجسم احتجاج بھی بناتی ہے۔ جب بھی نظریاتی، انقلابی، اصولی تحریک معاشرے کے اندر وجود پذیر ہو تو جزوی طور پر ہرانسان اس سے متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے رسالہ پڑھ لیا، کسی کی کسی سے ملاقات ہوگئی، کوئی کسی اجتماع کے قریب سے گزر گیا، کسی نے کسی اجتماع کو دُور سے دیکھ لیا، کسی نے آکر ریلی اور جلسے کو دیکھ لیا، اس طرح جزوی طور پر لوگ نظریاتی ہوتے چلے جاتے ہیں، مگر جم کر ساتھ نہ دینے اور تزکیۂ نفس کی شاہراہ پر یکسوئی سے نہ چلنے کے نتیجے میں تضادات کا شکار ہوتے ہیں۔ اچھی بات کرتے کرتے بُری بات بھی کرنے لگتے ہیں۔ اصولی بات کرتے کرتے بے اصولی کی طرف بھی نکل جاتے ہیں۔ مادیت کے طوفان میں بھی گھرے نظر آتے ہیں، اور وہاں پر کوئی اچھا عمل بھی ان سے صادر ہوجاتا ہے۔

یہ کش مکش اس بات کا پتا دیتی ہے کہ اس معاشرے میں کوئی نظریاتی تحریک موجود ہے، کوئی اصولی اور انقلابی تحریک موجود ہے، بندوں کو ان کے رب سے ملانے والی، حالات اور  منزل کا ٹھیک ٹھیک پتا دینے والی تحریک موجود ہے۔ اس معاشرے کے اندر سلیم الفطرت لوگ اپنے رب سے ملاقات کے منتظر اور بے قرار ہوتے ہیں۔ ان کے اندر طلب اور جستجو، حسنِ طلب اور طلب ِ صادق کچھ زیادہ نظرآتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آگے بڑھ کر ایک نظریاتی اور اصولی تحریک کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ سعید روحیں جذب و انجذاب کے مراحل سے گزرتی ہیں۔ ان کے لیے یہ تحریک ایک بہت بڑا سرمایہ بن جاتی ہے اور ان بے قرار روحوں کو اپنے رب سے ملا دیتی ہے کہ یہ اس سے راضی اور وہ ان سے راضی ہوجاتا ہے۔ یہ پکار پکار کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جس دعوت الیٰ اللہ کی تم بات کرتے ہو، جس تربیت و تزکیے کا تم تذکرہ کرتے ہو، ع میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے! میں تو کہیں گم ہوگیا تھا، آپ ہی کی تلاش میں تھا اور اس کی تلاش کے نتیجے میں گویا مجھے سب کچھ مل گیا، میں نے خود اپنے آپ کو دریافت کر لیا۔

دلوں پہ دستک دینے کے لیے تو بس کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے ایسے پس منظر میں بندوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے والی تحریک، جو سرتاپا بندگی اور مکمل حوالگی اور کامل سپردگی کی تحریک ہے، اس تحریک سے حسبِ توفیق استفادہ کرنے والے کا دامن جتنا وسیع ہوتا ہے، یہ اس میں اتنی ہی دولت ِرحمت، پاکیزگی و سعادت بانٹتی ہے۔ یہ تحریک نہیں بلکہ رب تعالیٰ کی نعمت ہے۔ وہ یہ سب نعمتیں بانٹتا ہے کہ زندگیوں کا سودا اسی سے ہوتا ہے۔ اس کے خزانے بے پایاں ہیں، وہ تو اپنی رحمت کے تمام خزانوں کو لٹاتا ہے۔ یہاں اور وہاں ہر جگہ پکارنے والا، منادی کرنے والا مسلسل پکارتا ہے کہ کوئی ہے جو مغفرت طلب کرنے والاہے، ہے کوئی جو رحمت کا سزاوار بنے، ہے کوئی جو ہماری طرف ایک قدم آگے بڑھے تو ہم اس کی طرف دس قدم آئیں، ہے کوئی جو صرف نیت اور ارادہ کرے، ہے کوئی جو اپنے دل کی گہرائیوں میں ہمیں پانے کی کوشش کرے…! یہ مکمل حوالگی اور کامل سپردگی کی کیفیت، دراصل لذتِ ایمان اور لذتِ آشنائی کی کیفیت ہے۔

ایک نیا انسان

یہ تحریکیں جو چہارطرف طوفان اُٹھاتی ہیں، نیکی کے جتنے عنوانات قرآن وسنت کے اندر سجے ہوئے ہیں، جن کو ہم اصطلاحاً چھوٹی نیکی اور بڑی نیکی بھی کہہ دیتے ہیں، ان تمام نیکیوں کی طرف پکارنے کے لیے، ان تمام نیکیوں کا سزاوار ٹھیرانے کے لیے، یعنی تمام نیکیوں کی طرف اپنے دامن کو وسیع کرنے کے لیے، گویا اپنے رب کی طرف بڑھنے اور بڑھتے ہی چلے جانے کے لیے یہ تحریکیں معاشرے میں ابر رحمت بن کر برستی ہیں اور برستی چلی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چٹیل پہاڑوں اور چٹانوں پر بھی سبزا اُگ آتا ہے، پتھر بھی دیکھتے ہی دیکھتے سبزا اُگل دیتے ہیں، اور ہر طرف ہریالی لہلہانے لگتی ہے، خزاں چھٹ جاتی ہے اور واقعی بہار کا موسم مشامِ جان معطر کرتا ہے۔ مگر کچھ قطعات اور رمینیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو اس بارانِ رحمت کے باوجود خزاں رسیدہ رہتی ہیں۔ اسی طرح کسی معاشرے میں اللہ کی طرف بلانے والی انقلابی تحریک برپا ہو تو آدمی خود اپنے ظرف کے مطابق اس سے مستفید ہوتا ہے۔ تحریک تمام پہلوئوں سے انسان کو مسلسل چلانے اور آگے بڑھانے کا سامان کرتی ہے۔ اس کو اُٹھا کر کھڑا کردیتی ہے، اسے معاشرے کے اندر اجنبی بنادیتی ہے، اور قلب و نظر کے اندر ایک ایسی آگ لگا دیتی ہے کہ جو چھو جائے وہ کندن بن جائے، جو قریب آجائے وہ اس کی تپش محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے اور سونے پہ سہاگہ ہوجائے۔

یہاں اس کیفیت کا احاطہ کرنے کی بھی ضرورت ہے جو معاشرے کے اندر رہتے ہوئے بھی اجنبی بن جانے کی کیفیت ہے۔ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان اس معاشرے سے نکل جائے، نہ لوگ اس کو پہچانیں اور نہ وہ کسی کو پہچانے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ دربدر ہوکر کہیں کا نہ رہے، جنگلوں کا رُخ کرلے اور خاک چھانتا پھرے۔ اس لیے کہ جس تربیت اور تزکیے کے نتیجے میں گوشہ نشینی کا جذبہ پیدا ہو، اور لوگوں سے کٹ جانے کا جذبہ پیدا ہو وہ انبیا ؑکا طریقۂ کار نہیں ہوسکتا۔ انبیا ؑتو گوشہ نشینی سے نکل کر، حرا سے سوے قوم آیا کا مصداق بنتے ہیں۔ وہ تو غاروں سے نکل کر اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے اُتر کر انسانوں کی طرف آتے ہیں۔ کن انسانوں کی طرف، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی جیسے لوگوں کی طرف آتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے کے نتیجے میں لوگوں کے دلوں کے اندر وہ بیج بوتے اور فصل اُگاتے ہیں، جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو ٹھنڈک اور تراوت دیتی ہے۔

اجنبی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ذہنی طور پر کھویا کھویا سا ہو، اسے چاروں طرف کے حالات میں کوئی مطابقت محسوس نہ ہوتی ہو۔ وہ اسی دنیا میں رہتا ہے، انھی لوگوں کے درمیان اُٹھتا بیٹھتا ہے، انھی کے درمیان معمولات اور معاملات طے کرتا ہے، انھی کی خوشی اور غمی کا حصہ بنتا ہے لیکن ان کے تمدن، کلچر اور معاشرت اور اس کی ہر اکائی سے ایک دُوری اور فاصلے پہ اپنے کو پاتا ہے۔ دعوت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ انھی کے درمیان رہے۔ اللہ کی طرف بلانے کے فرض پر لبیک کہنے کے لیے وہ انسانوں میں نظر آئے، اور اپنی گفتگو اور طرزِعمل سے مسلسل ان کے درمیان اللہ کی طرف بلانے والا بنے۔ گویا انھی کے درمیان رہتے ہوئے، ان جیسا نہ ہوتے ہوئے ایک اجنبیت کی کیفیت اس پر طاری ہوتی ہے۔ یہی مطلوب ہے۔ یہ تحریک اور دعوت الی اللہ اسی جانب لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔ اس لیے لذت آشنائی کا نام ہم نے انقلاب رکھ دیا ہے کہ یہ زیادہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔

ایمان اور انقلاب

آیئے ہم جس چیز کو ایمان کہتے ہیں، اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ راہِ حق میں ایمان اور انقلاب ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ ایک ہی حلاوت، مزہ اور شیرینی لیے ہوئے اور اپنے مفہوم و معانی کے اعتبار سے ایک ہی سمت پہ لوگوں کو لے جانے والے الفاظ ہیں۔ ہم جس چیز کو چھوٹا سا کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کہتے ہیں،     یا اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہٗ ورسولہٗ کہتے ہیں، اور اس موقع پر  ہم اکثر سنی اَن سنی کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں___ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور انقلاب سبھی کچھ اس میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ عرض ہے۔

حضرت ابوذر غفاریؓ پانچویں صحابی ہیں کہ جو ایمان لائے۔ ایمان لانے کے بعد ان سے یہ بات کہی گئی کہ ابھی اہلِ ایمان کی قوت بہت تھوڑی ہے، اہلِ ایمان کی کُل جمع پونجی بس یہی دوچار افراد ہیں، اس لیے ذرا احتیاط سے اور ذرا سنبھل کر چلنا ہے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کے دل کے اندر ایمان کی جو چنگاری پہنچی تھی، وہ شعلہ جوالہ بن کر لپکی، ضبط کا یارا نہ رہا۔ سیدھے حرمِ کعبہ میں پہنچتے ہیں جہاں کفار ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے، ان کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں اور پکار اُٹھتے ہیں: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ۔ کفارِ مکہ حیران رہ جاتے ہیں کہ ان کی یہ مجال اور یہ جرأت کہ ہماری ہی مجلس میں کھڑے ہوکر یہ نعرۂ دیوانہ و مستانہ بلند کرتے ہیں۔ پھر سب کے سب ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، انھیں زد و کوب کرتے ہیں، مارتے پیٹتے ہیں تاآنکہ حضرت ابوذر غفاریؓ بے ہوش ہوکر گر پڑتے ہیں۔ اسی حال میں وہاں سے لے جائے جاتے ہیں۔ جب ہوش میں آتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ میں کہاں ہوں؟ کس حال میں ہوں؟ بتایا جاتا ہے کہ تم اس حال میں یوں پہنچے ہو کہ تم نے وہ نعرۂ مستانہ کفار کے بیچ جاکر بلند کیا تھا، تو زیر لب مسکرائے اور کہا کہ اچھا! اس جرم کے پاداش میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ یہ جرم تو کل پھر سرزد ہوگا۔ تم کہتے ہو کہ مارا پیٹا گیا ہوں، حال سے بے حال ہوا ہوں، مجھ سے پوچھو، ایمان کی جو حلاوت، لطف و مزا اور اس کی شیرینی مجھے ملی ہے، کل پھر اپنے کیف و سُرور کو دوبالا کروں گا___ یہ کیا جذبہ ہے، یہ جذبۂ لذت آشنائی ہے۔

ہم نے بھی یہ کلمہ سیکڑوں ہزاروں دفعہ پڑھا ہوگا، مگر کب یہ عشق کی کیفیت طاری ہوتی ہے، کب یہ جنوں کا سودا ذہنوں کے اندر سماتا ہے، کب اس کے نتیجے میں نکلنے اور ہلکے اور بوجھل ہرحال میں نکلنے کے لیے انسان آمادہ اور برسرِپیکار ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے___ کیا اس پہلو پر بھی کبھی آپ نے غور کیا!

اس نعرے کے اندر انقلاب اور ایمان دو علیحدہ علیحدہ مختلف چیزوں کے نام نہیں بلکہ ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ اس کلمے نے تاریخ کی عظیم ترین حقیقت کی حیثیت سے اپنے آپ کو ایک مکمل اور اعلیٰ ترین انقلاب کی حیثیت سے منوایا ہے۔ ایسا انقلاب کہ جو انسان کے تمام باطنی اور ظاہری رویوں کو بدل دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا ایمانی انقلاب پنہاں اور سرایت کرتا ہے جو انسان کی تمام ضرورتوں اور تمام ترجیحات کو صحیح رُخ دیتا ہے۔

اس مقصد کے لیے یہ انسانوں کو اُٹھاتا، کھڑا کرتا اور جدوجہد کا پیکر بناتا ہے۔ انسان کا معاملہ مجھ سے اور آپ سے بھلا کہاں ڈھکا چھپا ہے۔ انسان بالکل ٹھیک چل رہا ہوتا ہے اور لوگ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بس کامیابی نے اس کے قدم چوم لیے کہ اچانک وہ گر پڑتا ہے، اور ناکامی سے دوچار ہوجاتا ہے۔ پھر یہی انسان ہے جو ہمت پکڑتا ہے، اُٹھتا ہے اور پھر منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ گرے گا وہی جو چلے گا، جو چلنے سے توبہ کرلے وہ کہاں گرے گا۔ جو کنارے پر بیٹھ کر محض نظارہ دیکھے گا، وہ تو صرف مشورے دے گا اور کچھ بھی نہ کرسکے گا۔ لہٰذا اس راہ پر کچھ ڈوبنے کا خطرہ مول لینا پڑے گا، تبھی تو تیرنا آئے گا۔ گرنے کو انگیز کرنا ہوگا تبھی تو چلنا آئے گا۔ منزل کی طرف مسلسل دیکھنا ہوگا تاکہ نشاناتِ منزل جب جب آئیں تب تب ایمان کے اندر اضافہ ہو، تب اللہ کے ساتھ تعلق بڑھتا ہوا محسوس ہو کہ ہاں، اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پھر یہی انسان پوری قوت سے پکار اُٹھے گا:

سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحٰنَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ (متفق علیہ)، میں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور حمد بیان کرتا ہوں، اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک اور عظمت والی ہے۔

لَّا ٓ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo (انبیائ۲۱:۱۸) نہیں ہے کوئی معبود مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا۔

وہ اپنے ہاتھوں اپنے اُوپر کیے ہوئے ظلم کو بھی یاد کرتا ہے۔ معافی اور درگزر کا در تو کبھی بند نہیں ہوتا۔ توبہ کرنا، گرنا اُٹھنا، اس کی طرف چلنا، اس کی طرف بڑھنے کے لیے عزم و ارادہ کرنا یہی مطلوب ہے۔ اس لیے کہ انسان کو جگانے، اُٹھانے، آگے بڑھانے کے لیے اور انسانیت کی اعلیٰ ترین قدروں سے ہمکنار کرنے کے لیے ایمان اور انقلاب دونوں ہم آہنگی کا تقاضا کرتے ہیں۔

ایمان کی پکار

ایک لمحے کے لیے ٹھیر کر ایمان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس پر     شب خون مارنے، اس پونجی کو اُڑا لے جانے والے شیطان کے حملے بھی موجود ہیں۔ ان حملوں سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ اس ایمان کا مسلسل جائزہ لیا جاتا رہے، اس کا احاطہ کیا جائے، اس پر چوکنا رہا جائے اور اس پر کوئی پہرے دار بٹھایا جائے۔ اس کے گھٹنے اور بڑھنے کو، جنھیں ہم قرآن اور احادیث نبویؐ کے اندر پڑھتے ہیں، واقعی محسوس کیا جائے کہ یہ شمع کبھی ٹمٹمانے لگتی ہے، کبھی اس کی لَو نیچے ہونے لگتی ہے، لیکن یہی شمع کبھی دُور دُور تک اُجالے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے، اور خود انسان کے اپنے اطراف کو روشن کرتی ہے، لہٰذا ان کیفیتوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کی جائے۔

ایمان کی فریاد بھی سنی جائے، اس کی آہ و بکا سے واقف رہا جائے۔ یہ ایمان پکار پکار کر کہتا ہے کہ غیر تو مجھ پر اتنا ظلم نہیں کرتے جتنا کہ تم خود میرے اُوپر ظلم کرتے ہو۔ تم خود ہی میری لَو کو مدھم کرنے اور اس کو بجھانے کے لیے کوشاں ہوتے ہو۔ اُدھر بلایا گیا تھا، تم اِدھر لبیک کہہ رہے ہو۔ تم نے تو عہدوپیمان باندھا تھا، گواہ بناکر اعلان و اقرار کیا تھا، پھر تمھیں کیا ہوگیا! ایمان کا احتجاج اس کے اندر سے ہوتا ہے، قراردادیں بھی منظور کرتا ہے اور ہمارے قدموں کو کبھی کبھی روکتا اور ہم سے کہتا ہے: ’’کدھر جا رہے ہو، اچھے بھلے آدمی ہو، لوگ بھی اچھا بھلا ہی سمجھتے ہیں، لیکن تم کہاں کا رُخ کر رہے ہو، یہ تمھارے ذہن میں کون سی بات سمائی ہے، اور تم نے کس جذبے سے یہ فیصلہ کرلیا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اس طرف مت جانا‘‘۔ گویا یہ ہمارے قدموں کو روکتا ہے۔ یہ مسلسل منزل کی طرف ہم کو بلاتا ہے۔ اس لیے اس کی آہ و فغاں کو سنا جائے اور اپنے ہی ہاتھوں اس پر ہونے والے ظلم کی داستان سے بے خبر نہ رہا جائے۔ اس قیمتی متاعِ حیات کو، ایمان کا جوہر سمجھ کر اسے مسلسل کلیجے سے لگائے رکھا جائے، اور اس میں اضافے کے لیے مسلسل کوشاں ہوا جائے۔

صحابہ کرامؓ کا جذبۂ لذتِ آشنائی

صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں غوروفکر کے بے پناہ جوہر موجود ہیں۔  یہ ایک مربوط سلسلہ ہے۔ یہ کوئی اتفاقی اور حادثاتی واقعات نہیں ہیں۔ یہ ایک بڑی تحریک ہیں اور اس تحریک کے اندر جو کچھ موجود ہے، اسے دیکھنا، روشنی حاصل کرنا، ہماری اپنی ضرورت اور     ذمہ داری ہے۔ ان واقعات میں سے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا ایک واقعہ ہے جو بارہا آپ نے سنا اور پڑھا ہوگا۔ اس میں ہمارے لیے غوروفکر کے لیے کئی پہلو ہیں۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے۔ صحابہ کرامؓ حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ ایک صحابی آئے اور انھوں نے ایک چادر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ نبیؐ نے اس کو پسند فرمایا۔ مجلس سے اُٹھ کر آپ  اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور پرانی اور بوسیدہ چادر جو آپ پہنے ہوئے تھے، اس کی جگہ اس نئی چادر کو زیب تن کیا اور دوبارہ مجلس میں آکر تشریف فرما اور رونق افروز ہوئے۔ حضرت سعدؓ نے دیکھا تو عرض کیا: حضوؐر  یہ چادر بہت اچھی ہے، بہت بھلی معلوم ہوتی ہے، اور خوش رنگ بھی ہے۔ اور انھوں نے آپ سے یہ چادر مانگ لی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو واپس اپنے حجرے میں تشریف لے گئے۔ اسی طرح پرانی چادر کو آپ نے زیب تن کیا اور نئی چادر لپیٹ کر، تہ کرکے لائے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو پیش کردی۔ انھوں نے فوراً اس کو قبول کرلیا۔

صحابہ کرامؓ کو یہ بات قدرے ناگوار گزری۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا: سعد! تم نے آج اچھا نہیں کیا، تم دیکھ نہیں رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نہایت ہی بوسیدہ اور پرانی چادر میں ملبوس تھے اور ایک نئی چادر ملی تو آپ نے بدل کر اس کو پہن لیا۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ حضوؐر کے سامنے کسی چیز کی تعریف کی جائے تو وہ تعریف کرنے والے کو پیش کردیتے ہیں؟ تم نے اس طریقے سے تعریف کی اور مسلسل تعریف کی تو آپ دوبارہ حجرے میں تشریف لے گئے اور چادر بدل کر آئے اور تمھیں وہ پیش کر دی اور تم نے بخوشی اسے قبول کرلیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے سنا تو اپنے ساتھی صحابہؓ سے عرض کیا کہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر   یہ کام کیا، یعنی کوئی اتفاقی طور پر عمل سرزد نہیں ہوگیا۔ میں نے تو یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ چادر جس نے حضوؐر کے جسمِ اطہر کو مَس کیا ہو وہ حاصل کروں اور وہی چادر میرا کفن بنے۔

واقعات میں آتا ہے کہ بالآخر اسی چادر کے اندر وہ کفنائے گئے لیکن اس کو کوئی نام دیجیے، اس واقعے کا کوئی عنوان تلاش کیجیے۔ چاہیں تو آپ اسے عشق مصطفیؐ کہہ لیجیے لیکن سچی بات یہ ہے کہ عشق مصطفیؐ ہی درحقیقت رب کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی چیزیں بڑی رہنمائی کرتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزں مل کر ہی بڑی بنتی ہیں۔ ہر چھوٹی نیکی بھی بڑی نیکیوں کی رغبت پیدا کرتی ہے۔ ہر چھوٹی نیکی، نیکیوں کے ایک بڑے خاندان کی طرف لے کر جاتی ہے اور  ان نیکیوں کی کشش لذتِ ایمان سے آشنا کرتی ہے۔ اس لیے صحابہ کرامؓ کے ان واقعات میں ایک سبق اور سوزوگداز پنہاں ہوتاہے، ایک پکار ہوتی ہے جس پر لبیک کہا جائے۔ ان سے حب ِ الٰہی کا ایک ایسا دَر کھلتا ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنی زندگی کا سفر سہولت سے طے کرلیتا ہے۔

موت کی یاد !

ہم ایک عجیب و غریب دنیا میں رہتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بھئی آپ لوگ تو آسمان کی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ ہم زمین پہ رہتے ہیں۔ نہیں، یہ آسمان کی باتیں نہیں، زمین کی باتیں ہیں۔ البتہ زمین کو ہم انسانوں نے چاروں طرف سے اس طرح دبوچ لیا ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے، تصورِ دنیا کو کھو چکے ہیں۔ ہم روزانہ مشاہدہ کرنے کے باوجود یہ تسلیم کرتے ہی نہیں کہ اس دنیا میں ہم مسافر ہیں۔ اصل پڑائو تو آخرت میں ہونا ہے۔ اس لیے تصورِ آخرت کو واضح کرنے کی ضرورت ہے، کہ آخرت سے مفر نہیں اوردنیا سے بھی فرار ممکن نہیں۔

دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا جاتا ہے۔ کل روزِ محشر میں خود اہلِ جنت کو بھی جس چیز پر سب سے زیادہ حسرت ہوگی، وہ دنیا میں گزرے ہوئے وہ لمحات ہوں گے جو ضائع ہوگئے۔ وہ نیکی کرسکتے تھے، اپنے رب کی طرف قربت کے کچھ قدم بڑھا سکتے تھے، کچھ بندوں کی خدمت اور کچھ لوگوں کی دل جوئی کے ذریعے، کچھ زخموں پر پھائے کے ذریعے، کچھ دکھوں کے مداوے کے ذریعے، لوگوں کی ہمت بندھاتے ہوئے اور احساسِ تنہائی سے بچاتے ہوئے اپنے رب کی یاد اور اس کے ذکر کو دوبالا کرتے ہوئے وہ نیکی کما سکتے تھے مگر کما نہ سکے۔ لہٰذا وہ لمحات جو ایسے ہی گزر گئے کچھ کیے بغیر گزر گئے اور کسی نیکی کو سمیٹنے کا ذریعہ اور سبب بن سکتے تھے مگر نہ بن سکے، ان پر تاسف، ملال اور حسرت ہوگی، کہ یہ لمحات بھی اگر نیکی کے کام میں گزرے ہوتے تو جنت کے اندر وہ درجات جو بڑی دُور تک نظر آتے ہیں، ان تک پہنچنا اوررسائی حاصل کرنا ممکن، آسان اورسہل ہوتا۔

اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ قبر کے اس گڑھے کو ہرلمحے انسان نیکی کے پھولوں سے بھر رہا ہے یا دوزخ کی آگ کے انگاروں سے۔ انسانوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ کسی نیک عمل کے نتیجے میں لمحے بھر میں نیکی کے پھول کھل اُٹھتے ہیں، اور اگلے ہی لمحے غفلت اور پھسل جانے کے سبب دوزخ کی آگ کے انگارے اور بھی دھک جاتے ہیں۔ ذرا تصور میں اس بات کو لایئے، اس گڑھے کو دیکھیے تو سہی، وہ گڑھا موجود تو ہے نا۔ ہر انسان اپنی قبر کے کنارے کھڑا ہے یا اپنی قبر کے اندر پیر لٹکائے بیٹھا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے بالآخر اس کے قدم اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور ہرلمحے یہ منظر موجود ہے، ایک بیلنس شیٹ بن رہی ہے نیکی اور برائی کی اور پھول چُننے اور آگ کے انگارے سمیٹنے کی۔

اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس چیز کو بہ کثرت یاد کرتے رہو جو دنیوی لذتوں اور ان کے اشتیاق کو ڈھانے والی ہے۔ دنیاوی لذتوں کے کیا کہنے، چشم ما روشن دل ماشاد۔ دنیاوی لذتوں کی ایک طویل فہرست ہے اور وہ ہر ایک کی جیب میں موجود ہے۔ جب پوچھیں تو وہ فرفر پڑھ کر سنائے گا کہ یہ سب لذتیں مطلوب ہیں۔ ان کی طرف مسلسل بڑھ رہا ہوں مگر مل نہیں پاتیں۔ اس قدر بے وفا ہے یہ دنیا۔ جتنا اس کی طرف چلیں اتنا ہی یہ دُور ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ اس موت کو یاد کرتے رہو۔ اس لیے تصورِ دنیا، تصورِ آخرت اور تصورِ مال، واضح ہونے کی ضرورت ہے۔ اس جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔

اپنا احتساب کیجیے!

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ انسان خود اپنے دل کے دیئے روشن کرے۔ اپنے لیے اپنے ہی اندر ایک مزکی کو، ایک مربی کو، پوری تحریک اسلامی کو اپنے اندر بٹھائے۔ دل کی محفل کو خود ہی آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس کا ہفتہ وار اجتماع بلائے۔ اس میں خود ہی آپ اپنی رپورٹ پیش کرے، اور اس رپورٹ پر خود ہی تبصرہ پیش کرے۔ اس میں آپ خود ہی محاسب ہوں، خود اپنا دامن تھام کر اپنا احتساب کریں، ’’اور اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘  کے مصداق اپنا جائزہ لیں۔ یا پھر یہ کہ جو بڑی عدالت لگنی ہے، عدالتِ کبریٰ! اس سے پہلے کوئی چھوٹی عدالت بار بار دل و دماغ کی دنیا کی لگنی چاہیے۔ عدالتِ صغریٰ، وہ عدالت جو پکار پکار کر فیصلہ دے، جو مجھ سے، آپ سے کہہ رہی ہو کہ آج یہ فیصلہ تمھارے خلاف صادر ہوا ہے، یہ فیصلہ تمھارے حق میں بھی ہوسکتا ہے۔ … آخر تم کتنے فیصلے اپنے خلاف کرائو گے۔ اس لیے یہ جو ایمان کا تقاضا ہے، یعنی احساس ذمہ داری جو بار بار سن پڑ جاتا ہے، اس احساس ذمہ داری کو اٹھایا، جگایا، بیدار کیا جائے اور اسے ہوش میں لایا جائے۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ (البقرہ ۲:۱۴۱)، اس کا بھی کوئی مفہوم ہے۔ لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ (الشوریٰ ۴۲:۱۵)، یعنی جو بوئو گے، وہی کاٹو گے، گندم بوئو گے تو گندم کاٹو گے، اور جس کے اعمال ہیں وہ اسی کے لیے ہیں کسی اور کا اس کے اندر کوئی حصہ نہیں ہے۔ لَّیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی (النجم۵۳:۳۹)، جو بوئے گا وہی کاٹے گا، جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق اس کو پائے گا۔

زندگی اور موت بھی اضافی شے ہے، اصل چیز وہی ہے ایمان، تزکیہ اور انقلاب۔ اگر ایمان ہے تو زندگی ہے، بلکہ وہ جسے موت کہتے ہیں وہ بھی زندگی ہے اور کیا خوب زندگی ہے۔ لیکن اگر ایمان نہیں ہے تو پھر یہ زندگی بھی موت ہے۔ اس حوالے سے اس زندگی کو بہتر بنانے اور مسلسل اپنے رب کی طرف چلانے کی ضرورت ہے۔

جنت کی تڑپ

ایک بڑے مشہور صحابی گزرے ہیں۔ ان کے بارے میں صحابہ کرامؓ آپس میں یہ بات کیا کرتے تھے کہ عجیب و غریب انسان ہیں۔ انھوں نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی اور جنت میں چلے گئے ہیں۔ یہ صحابی حضرت اسود راعیؓ تھے، جو پیشے کے اعتبار سے ایک چرواہے تھے۔ اُجرت پر بکریاں چرایا کرتے تھے۔ غزوئہ خیبر کے موقع پر لوگوں سے انھوں نے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ہمارے قلعے کا گھیرائو اور محاصرہ کس نے کیا ہے؟ کسی نے ان کوبتایا کہ ایک شخص ہے جو نبوت کا دعوے دار ہے، رب کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ دلوں میں گداز، نرمی اور ملائمت پیدا کرتا ہوں اور اللہ کی طرف بلانے کا کام انجام دیتا ہوں۔ حضرت اسود راعیؓ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس بزرگ ہستی سے ملنا چاہیے۔

ایک دن بکریاں ہنکاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی طرف نکل آئے اور خیمے کے اندر داخل ہوگئے۔ آپ تشریف فرما تھے، نام پوچھا اور بیٹھ گئے اور کہا کہ آپ  کیا لے کے آئے ہیں؟ رسول کریمؐ نے پوری دعوت پیش کی اور بتایا کہ بندوں کو بندوں کے رب کی طرف ہی چلنا چاہیے۔ یہی پیغام میں لے کر آیا ہوں اور اس کا نبی ہوں۔ پوچھا کہ: اچھا! میں آپ کی بات مان لوں اور سمجھ جائوں تو کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا کہ: ’’جنت ملے گی‘‘۔ پھر جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کیا، اس کی وسعتوں کا تذکرہ کیا۔ بہت خوش ہوئے، لیکن پھر کہنے لگے: حضوؐر میری طرف دیکھیے تو سہی، میں کس قدر کالا کلوٹا اور کس قدر بدشکل اور بھدا انسان ہوں۔ کیا اس کے باوجود مجھے جنت ملے گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، اللہ کو پہچان لینا اور اس کے راستے پر چلنا ،اللہ تعالیٰ تم کو  خوش شکل بنا دے گا۔ کہنے لگے: حضور ذرا میرے قریب تو ہوں۔ کس قدر بدبو میرے جسم سے اُٹھ رہی ہے، کیسا تعفن ہے، کیا اس کے باوجود میں جنت میں جاسکوں گا؟ آپ نے فرمایا: اس کے باوجود اگر ایمان ہے تو جنت میں جاسکو گے۔ وہ کہنے لگے: اچھا پھر میں ایمان لاتا ہوں، اور کلمہ پڑھ کر ایمان لے آئے، پھر فوراً یہ سوال کیا کہ ان بکریوں کا کیا کروں؟ یہ تو میرے پاس امانت ہیں،ان کو اُجرت پر چراتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: بکریوں کو قلعے کی طرف ہنکا دو۔ جب آخری بکری بھی قلعے کے اندر چلی جائے تو میرے پاس آجائو۔ انھوں نے یہی کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

معرکہ اپنے عروج پر تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ جائو اس میں شریک ہوجائو۔ وہ فوراً جاکر شریک ہوئے اور اگلے ہی لمحے شہید ہوگئے۔ تذکروں میں آتا ہے کہ غزوئہ خیبر کے ۲۰ شہدا تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ان ۲۰ شہدا کی میتیں پیش کی گئیں تو آپ سب صحابہ کرامؓ کی میتوں کے سرہانے کھڑے ہوئے، سب کو دیکھا اور دعا کی۔ جب حضرت اسودراعیؓ کے سرہانے آپ جاکر کھڑے ہوئے تو صحابہؓ نے عجیب منظر دیکھا کہ ایک نظر آپ نے ان کے چہرے پر ڈالی اور فوراً اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا اور رُخ موڑ لیا۔ صحابہؓ کچھ حیران ہوئے اور بعد میں نبیؐ سے دریافت کیا کہ حضوؐر باقی تمام شہدا کو تو آپ نے جی بھر کر دیکھا، ان کے سرہانے دیر تک کھڑے رہے لیکن حضرت اسودراعیؓ کے سرہانے لمحے بھر کے لیے کھڑے ہوئے اور اپنا رُخ پھیر لیا، یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس خاص لمحے اسودراعیؓ حوروں کے درمیان تھے، اور    اللہ تعالیٰ نے ان کو حسین و جمیل بنا رکھا تھا، اور ان کے جسم سے خوشبو کی لپٹیں اُٹھ رہی تھیں۔ میں نے مناسب نہ سمجھا کہ اس لمحے ان کی طرف زیادہ دیر تک دیکھوں۔ یوں میں آگے بڑھ گیا۔

یہی وہ صحابی ہیں جن کے ایمان نے بظاہر بہت سارے اعمال کیے بغیر بھی ان کو اپنے رب کے دربار میں اس طرح پہنچا دیا کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ عموماً جن شرائط اور سوالوں کو کرتے ہوئے وہ اس راستے پر آئے تھے، ان کا جواب بھی مل گیا۔ اس لذت آشنائی، حلاوتِ ایمان، اور اپنے رب تک پہنچنے، اس کی طرف بڑھنے کے شوق نے بالآخر انھیں ان جنتوں کی طرف پہنچایا جومطلوب ہیں، جس کی طلب ہم سب کے اندر موجود ہے، اور ہونی چاہیے۔    اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں آگے بڑھائے اور لذتِ ایمانی سے آشنا کرے۔ یہی ایمان، تزکیہ کی پہلی شرط ہے اور تزکیہ کو پانے کے لیے عدالتِ صغریٰ کا وجود اور ہر آن اپنا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔

پاکستان ایک نظریے کے تحت معرض وجود میں آیا۔ دو قومی نظریہ، یعنی اسلامی نظریۂ حیات اس کی بنیاد بنا۔ پاکستان اس دن سے برعظیم پاک و ہند کی سرزمین پر نقش ہو گیا تھا، جب یہاں محمدبن قاسم نے قدم رکھا تھا۔ برعظیم میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی تاریخ میں دور تک پھیلی ہوئی مملکت خدادادکی جڑوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ پھر انگریزوں کی حکومت کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت اور ہندو مسلم کش مکش اس کی بنیادوں میں موجود ہے۔ تاریخ کے اوراق میں پھیلے ہوئے علما، مبلغین، مجاہدین، صوفیاے کرام اور تاجروں کے کردار کے درخشاں پہلو پاکستان کے پیامبر بنے تھے۔ یہ برعظیم کے کروڑوں مسلمانوںکی جدوجہد کا ثمر اور ان کی تمناؤں اور آرزؤوں کا محور ہے۔

یوں تو ۲۰ویں صدی جدوجہد اور کش مکش کی صدی ہے ۔ اس میں روس اور چین کے اندر انقلابات رونما ہوئے اور درجنوں غلام قوموں نے استعماری استبدادسے نجات حاصل کی ۔لیکن یہ انقلابات اپنے اپنے جغرافیے کی حدود کے اندر برپا ہوئے اور آزادی نسل، علاقے اور زبان کی بنیاد پر حاصل کی گئی یا طبقاتی کش مکش کا شاخسانہ ٹھیری، جب کہ قیام پاکستان کی جدوجہد اس لحاظ سے منفرد حیثیت کی حامل ہے کہ یہ جغرافیے اور زبان، نسل اورعلاقے کی ان حد بندیوں سے ماورا و بالا ہے۔ پاکستان کے وجود اوراس کے قیام کی صورت میں جو انقلاب رونما ہوا،مذہبی، نظریاتی، تہذیبی اور سیاسی حوالوں سے اس جیسے انقلاب کی نظیر تاریخ میں ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتی ہے۔بلاشبہہ پاکستان آج ایک جغرافیے کا نام ہے لیکن یہ ایک نظریے کا مرہون منت ہے، علامہ اقبال اور قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر ہے اور برعظیم پاک و ہند کے کروڑوں مسلمانوں کی بے مثال جدوجہد کا ثمر ہے۔ جتنے بڑے پیمانے پر تحریک پاکستان چلی اور جتنے انسانوں کو اس نے متاثر کیا،  تہذیب کے دائرے میں بھی، معاشرت اور تمدن کے میدان میں بھی اور معاشی و سیاسی پیرایے میں بھی، اس پر بلاشبہہ کئی کتابیں لکھی گئی ہیںاور مزید کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

ُٓپاکستان کا عظیم الشان تحفہ ہمیں رمضان المبارک اور اس کی ستائیسویں شب میں عطا کیا گیاتھا۔ گویااللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت بے پایاں جوش میں تھی اور ہماری ٹوٹی پھوٹی جدوجہد کی مقبولیت کا اعلان ہو رہاتھا۔فضائوں میں، ہواؤں میں، آسمانوں اور زمین میں ’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘کے نعرے بلند ہورہے تھے، اور اس عالم میں لکھوکھا انسان آگ اور خون کے دریا سے گزر کر بلند کررہے تھے۔لٹے پٹے قافلوں، اجڑے ہوئے گھروں اور بہنوں بیٹیوں کے دامنِ عصمت تار تار ہونے کے باوجود غازیوں، مجاہدوں، صف شکنوں اور شہیدوں کے قافلے اپنے خوابوں کی سرزمین کی جانب مسلسل رواں دواں تھے۔

تحریکِ پاکستان میں ان لوگوں کانمایاں کردار ہے جن کے علاقوں کوکبھی بھی اس کا حصہ نہیں بننا تھا اور جنھیں پاکستان کے شجر سایہ دار سے محروم ہی رہنا تھا۔یہ ایثار اور قربانی اورجدوجہدکسی مادی مفاد کے لیے نہ تھی بلکہ اس اسلامی نظریے کے لیے تھی جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہونے جارہا تھا۔ مادی اور دنیوی فائدوں سے یہ بے نیازی اس بات کا ثبوت ہے کہ دینی و مذہبی احساس، پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا خواب اور اس کی خاطر ہر قربانی کو انگیز کرنے کا جذبہ، یہ وہ عناصر ترکیبی ہیں جو قیامِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد ہیں۔

جب پاکستان زبان ، نسل اور علاقے کے بجاے اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی بنیاد پر قائم ہوا تو ہندوبنیے نے اس کے خلاف سازشوں کے جال بننے شروع کردیے۔ قیام پاکستان کے بعدسے لے کرآج تک یہ عمل جاری ہے۔ پاکستانی قوم کو قیام پاکستان کی جدوجہد کے فوراً بعد سے تحفظ پاکستان کی جدوجہد کا مرحلہ درپیش رہاہے ،اور اس نے پوری ہمت اور حوصلہ مندی سے ان سازشوں کا مقابلہ کیاہے،اور ۶۳سال سے مسلسل میدان عمل میں برسر پیکار ہے۔ دوسری طرف اس نے پاکستان کو اس کے بنیادی مقاصد سے ہٹا کر سیکولر اور لادینیت کی طرف لے جانے کی خواہش رکھنے والے سازشی عناصر کا بھی مقابلہ کیاہے۔ یہ جدوجہد پاکستان کے مقاصد کے حصول کے لیے دی گئی قربانیوں اورمملکت خداداد کے بنیادی نظریے کے تحفظ سے عبارت ہے۔

مسلمانوں کے معاشرے میں جدوجہد آزادی کا مطلب ہی یہ ہے کہ نفاذ شریعت کا راستہ ہموار ہو، معاشرے، ریاست اور حکومت کا قبلہ درست ہو، انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام کی تعلیمات پر عمل درآمد کی راہ استوار کی جائے اوراس میں حائل رکاوٹوں کو دور کیاجائے۔نیکی کو فروغ ملے اور برائی کا استیصال ہو۔ حلال کمانے کو آسان اور حرام کمانے کو ناممکن بنادیا جائے۔ اس کا مقصد اپنے رب کی غلامی اور رسول اکرمؐ کی اتباع ہوتا ہے۔ آج بھی یہی جدوجہد جاری ہے ۔    یہ ملت اسلامیہ پاکستان کی پیشانیوں پر لکھی تحریر اور ان کی آنکھوں کی چمک اور اعتماد سے عبارت ہے۔

قیامِ پاکستان کو ۶۳ سال گزرنے کے بعدبھی یہ سوالیہ نشان ہمارے سامنے موجود ہے کہ ہم کتنے آزاد اور کس درجہ خود مختار؟ اور کن حوالوں سے اپنے آپ کو جمہوری اور عوامی کہنے کے لائق ہیں؟ آج کا پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کے پاکستان کے مقابلے میں ایک ٹھٹھری، سہمی اور خوف زدہ سی تصویر نظر آتاہے۔اس عرصے میں یہ ملک دولخت ہوا، بعض خودغرض فوجی جرنیلوں نے ادارے تباہ کیے اور جمہوری نظمِ حکومت کو مضحکہ خیز بنایا۔ آج بھی ہم اپنے لوگوں کے خلاف پراکسی وار لڑرہے ہیں،اور ایٹمی پاکستان کو امریکا کا کاسہ لیس اور خوشامدی بنادیا گیاہے۔ آج ہم جن اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں، وہ ساری اصطلاحیں آزادی کا پول کھول دیتی اور حقیقت کو بے نقاب کردیتی ہیں، مثلاً ضمیروں کی خرید و فروخت، ہارس ٹریڈنگ، وفاداری تبدیل کرنا، جعلی ڈگریاں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک، کرپشن میں آگے بنیادی حقوق میں پیچھے، ایک فون کال پر ڈھیر ہونا، ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کردینا، لاجسٹک سپورٹ اور جاسوسی تعاون فراہم کرنا، فرنٹ لائن سٹیٹ بننا، ڈرون حملے۔ ان اصطلاحات کے ہوتے ہوئے کیا کسی آزادی کا تصور کیا جاسکتاہے!

بالخصوص پچھلے ایک عشرے سے پسپائی کا عمل شروع ہواہے اور سمتِ معکوس میں پوری قوم کو دھکیلا جا رہاہے۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ’سب سے پہلے پاکستان‘کا نعرہ لگایا لیکن ان کے پورے دورِ اقتدار میں پاکستان اور اس کے مفادات کے خلاف کام ہوتا رہا، اور موجودہ حکومت بھی ان کی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ سر کی آنکھوں سے نظر آرہاہے کہ پاکستان کو تحلیل کرنے، فنا کے گھاٹ اتارنے اور آزادی و خودمختاری سے محروم کرنے کی کوششوں کے ساتھ یہ کہا جاتاہے کہ یہ سب پاکستان کے مفاد میں کیا جارہاہے۔ قومی سطح پر کمزوری، خودسپردگی اور ہتھیار ڈال دینا اصلاً مقاصد اور قومی مفاد کی موت کے مترادف ہے۔یہ سب گھاٹے کا سودا ہے۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگانے والے اقبالؒ کے پاکستان کو غیروں کے ہاتھوں گروی رکھنا چاہتے ہیں، قائد اعظم کے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے غائب کر دینا چاہتے ہیں،اور پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے نعرے کو ذہنوں سے محو کرکے اسے پرویز مشرف اور ان کے آئیڈیل اتاترک کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ یہ آج تک قوم کو یہ نہیں بتا سکے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ ایک دوست ملک افغانستان کو بھارت کی جھولی میں ڈال کر اپنی مغربی سرحدیں غیر محفوظ کرکے پاکستان کی خدمت کی جارہی ہے یا پاکستان کے دشمنوں کی؟امریکی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بن کر پورے ملک کو آگ اور خون کے حوالے کردیا گیاہے تو یہ پاکستان کے مفاد میں ہے یا امریکا کے؟

مملکت ِخداداد پاکستان جو دنیا کی واحدمسلم ایٹمی قوت ہے اور پوری دنیا کے مسلمان امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہیں، لیکن ہمارے حکمران رفتہ رفتہ اسے امریکی غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔خارجہ و داخلہ اور معاشی و دفاعی پالیسیوں میں امریکا پوری طرح دخیل ہے اورایوان اقتدار میں بیٹھے لوگ اس کے احکامات پر مکمل طور پر عمل کررہے ہیں۔ ایک طرف ڈرون حملے جاری ہیں، دوسری طرف فوجی آپریشن کے ذریعے فوج اور عوام کو آپس میں دست و گریباں کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے ملک شدید قسم کی بدامنی کا شکار ہے اور حالات انتشار اور تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ یہ بالکل امریکی منصوبے کے عین مطابق ہے کہ خراب حالات کا بہانہ بنا کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو عالمی تحویل میں لینے کے نام پر امریکا اپنے قبضے میں لے لے۔ امریکی اخبارات نے پنٹاگون کے ریکارڈ کے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے’غیر محفوظ‘ ہاتھوں میں جانے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کیا جارہا ہے اوروہاں ایک ہزار سے زائد جنگجو میرین تعینات کیے جارہے ہیں۔ ایسی ہی فوجی چھاؤنیاں صوبائی دارالحکومتوں میں تعمیر کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔اسلام آباد اور پشاور میں سیکڑوں مکانات کرایے پر لے کر انھیںمیرین ہاؤس کے طور پر اور بلیک واٹر کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جارہاہے اور وہاں بھاری اسلحہ اور مشینری لا کر رکھی جارہی ہے۔ اسلام آباد میں۲۰۰سے زائد بکتربندگاڑیاں لائی گئی ہیں۔بلیک واٹر کے اہلکار چارٹر طیاروں کے ذریعے اور بغیر ویزے کے آتے جاتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ملک بھر میں بالخصوص وفاقی دارالحکومت میں امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں مدد دینے کے لیے میرجعفر اور میر صادق تلاش کیے جارہے ہیں، اورپورے ملک سے ریٹائرڈ فوجی اور پولیس اہلکاروں کے بھرتی کرنے کا عمل جاری ہے۔

پاکستان کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کرانے اور امریکی مداخلت سے نجات دلانے کے لیے جماعت اسلامی گوامریکا گو تحریک چلا رہی ہے۔ رواں مہینے میں جب ہم ۶۴واں یومِ آزادی منارہے ہیں تو ’امریکی غلامی نامنظور‘ کا نعرہ اور بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ نعرہ اپنے اسلامی تشخص کو بچانے،اپنی آزادی کو برقرار رکھنے، ایٹمی پروگرام کی حفاظت اور امریکی و بھارتی ریشہ دوانیوں سے نجات حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ۲۰۱۰ء کا ۱۴؍اگست، ۱۹۴۷ء کے ۱۴؍اگست سے بڑی جدوجہد کا پیغام لایا ہے تاکہ امریکا کو وطنِ عزیز نکالا سے دیا جاسکے اور اس کی بے جا مداخلت سے نجات حاصل کرکے اپنی آزادی کا تحفظ کیا جاسکے۔ لہٰذا اس یوم آزادی کے موقع پرضروری ہے کہ ہم یک آواز ہو کر مطالبہ کریں کہ امریکی اتحاد کو خیرباد کہاجائے ،پاکستان میں امریکی میرینزکی تعیناتی کو روکا جائے، اسلام آباد میں سفارت خانے کے نام پر فوجی چھاؤنی کی تعمیراور بلیک واٹر کی سرگرمیوں پر فوری طور پر پابندی لگائی جائے۔ امریکا اور ناٹو کو فراہم کردہ مراعات واپس لی جائیں، لاجسٹک سپورٹ کے نام پر دیے گئے فوجی اڈے واپس ہوں اور ناٹو کے لیے سامان کی ترسیل کا سلسلہ ختم کیا جائے۔غیر ملکی فوجوں کی خطے سے واپسی اور پاکستانی فوج اور عوام کے باہمی تصادم کے خاتمے کے لیے حکمت عملی وضع کی جائے۔

۱۴؍ اگست کی پکاریہ ہے کہ غیر ملکی استعمار سے آزادی حاصل کی جائے، اس کی استحصالی پالیسیوں سے انکار اور اس سے قدم سے قدم ملا کر خود اپنے ہی پاؤںپر کلھاڑی مارنے سے گریز کیا جائے۔ قوم اپنے پیروں پر خود کھڑی ہو،اپنے معاملات خود چلانے میں خودمختار ہو، اور ہم امریکا کی فرنٹ لائن سٹیٹ کے بجاے اُمت کے پشتیبان بنیں۔ اُمت کے دکھوں کا مداوا، زخموں کے لیے پھاہااور اُمت کے دھڑکتے دلوں کے ساتھ ہم رکاب ہونا ہمارا کلچر قرار پائے۔

اس پس منظر میں تمام محب وطن عناصر اور جماعتوں کے لیے دیوار پر لکھی تحریر یہ ہے کہ  مل کر جدوجہد کریں اور امریکی غلامی سے نجات پانے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بڑا فضل اور احسان ہے ، اس کی نعمتیں بے پایاں ہیں،     کرم نوازیاں اور اپنی مخلوق کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیتیں ہر چہار طرف بکھری ہوئی ہیں، اپنے آپ کو منواتی اور چار دانگ عالم میں محبت اور الفت کاپیغام لے کر آتی ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں بندوں کا معاملہ عجیب ہے کہ اس کے وہ بندے بھی جو بظاہراس کو جانتے پہچانتے ہیں، اس کی کبریائی کے گن گاتے، اس کی بڑائی کو مانتے ہیں،اور اس کے اول و آخر اور ملجا و ماوی ہونے کو  تسلیم کرتے ہیںمگران کے اعمال و افعال ان کے ایمان، عقیدے اور ان کے ذہن وفکر کی نفی کررہے ہوتے ہیں۔ آدمی اگر دور نہ جائے اور خود اپنے اندرجھانک کردیکھے تو یہ بات دواوردو چار کی طرح واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ بندگی کے راستے پر چلنے والے بھی بار بار بار ڈگمگاتے،راہ سے بے راہ ہوجاتے ہیں، منزل کو گم کربیٹھتے ہیںاور خود اپنی ہی شناخت اور تعارف سے محروم ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں یہ سوال اٹھتاہے اور اٹھایا جانا چاہیے کہ ان اسباب و علل پر کیسے قابو پایا جائے جو بحیثیت مجموعی بندوں کی گمراہی اور اپنے رب سے دُورہونے کا سبب بنتے ہیں۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اس موضوع پر تفصیلی ہدایات موجود ہیں،اور جزئیات تک میں رہنمائی کی گئی ہے۔ جہاںیہ بتایا گیاہے کہ انسان ناشکرا واقع ہواہے،بھول اور غفلت کا شکار ہوجاتاہے، سر سے لے کر پیر تک احسان فراموش بن جاتا ہے،وہیں یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت اوراس کی جبلت میں رجوع کے، اپنے رب کی طرف لوٹنے پلٹنے کے بھی کئی عنوانات سجائے ہوئے ہیں۔اسی وجہ سے طبیعت اور مزاج میں ایک ندامت کی کیفیت ،اورہر غلط کام کے اوپر اپنے آپ کو ٹوکنے کا ایک جذبہ ہمیشہ موجودرہتاہے۔ ہر برائی اورگناہ پر ملول ہونے، تأسف کا اظہارکرنے اور طبیعت کے اندر ایک ہیجان کی کیفیت کے کئی حوالے سامنے آتے ہیں۔اسی کو توبہ واستغفار بھی کہا جاتاہے اور رجوع الی اللہ بھی۔ قرآن پاک میں اہل ایمان کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں پلٹنے والے، لوٹنے والے ، اپنے رب کی طرف بار بار رجوع کرنے والے، اور توبہ استغفار کرنے والے کاتذکرہ بار بار ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی یہ ادا بے حد پسند ہے کہ وہ بار بار راہ سے بے راہ ہواور بار بار اپنے رب سے رجوع کرے ، اس کی طرف واپس لوٹ آئے اور وہ اس کو معاف کردے۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اگر تم سب (ملائکہ کی طرح)بے گناہ ہو جائو اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کرے گا جن سے گناہ بھی سرزد ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمائے گا (اور یوں اپنی شان غفاریت کا اظہار فرمائے گا)۔ (مسلم)

بخاری اور مسلم میں یہ واقعہ بیان ہواہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور صحابہ کرام ؓ حلقہ بنائے بیٹھے ہیں تاآنکہ لوگوں نے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ کلمہ جاری ہوا کہ اس شخص کی خوشی کا کیا حال ہوگا ، اس شخص کی مسرت کا کیا حال ہوگا؟  یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم کچھ سمجھ نہیں سکے کہ کس شخص کی خوشی اور مسرت کا آپ تذکرہ فرمارہے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص ہے ، جنگل بیابان ریگستان میں چلا جاتا ہے۔ وہ ہے اور اس کا اونٹ ہے، وہ خود ہے اور اس کی سواری ہے، اور اس سواری کے اوپر اس کی ساری کائنات لدی ہوئی ہے۔اس کے کپڑے، دانہ پانی، کھانے پینے کا سامان، اور اس کی ضرورت کی تمام چیزیں اس اونٹ کے اوپر موجود ہیں۔ وہ مسافر جب چلتے چلتے تھک جاتا ہے تو یہ سوچ کر کہ کچھ دیر آرام کرلے، اونٹ سے نیچے اترتا ہے، اس کو کھڑا کرکے قریب ہی لیٹ جاتا ہے اور اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ دیر بعد جب وہ شخص بیدار ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تو وہاں ہے ہی نہیں، وہ چاروں طرف دوڑتا، گھومتاپھرتا اپنے اُونٹ کو تلاش کرتا ہے لیکن وہ کہیں ملتا ہی نہیں۔ہر چہار طرف اپنے اونٹ کو پکارنے کے بعد بھی جب اس کا نام و نشان نہیں ملتاتو وہ تھک ہار کر اپنی جگہ پر واپس بیٹھ جاتا ہے۔ چاروں طرف موت کے مہیب سایے اسے اپنی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں۔ یہ خیال اسے ستانے لگتا ہے کہ اس ریگستان میں دن کی گرمی میں ہلاک ہو جاؤں گا، رات کی سردی میں مارا جاؤں گا،بھوک اورپیاس کی شدت سے اپنی جان گنوا بیٹھوں گا۔ چاروں طرف موت ہی موت اس کو نظر آتی ہے تاآنکہ زندگی سے مایوس ہو کروہ اپنے ہاتھ کو تکیہ بناتاہے اور پھراسی جگہ پر پڑ رہتاہے۔ اسی اثنا میں اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چند لمحے بعد جب وہ شخص دوبارہ بیدا ر ہوتا ہے اور آنکھ کھول کے دیکھتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تو وہیں کھڑاہے،واپس آگیاہے۔ پھر آپؐ نے اس بات کو دہرایا کہ اس شخص کی خوشی کا کیا حال ہوگا، اس شخص کی مسرت کا کیاعالم ہوگا     جسے جنگل بیابان میں اپنا کھویا ہوا اونٹ واپس مل جائے۔ گویا زندگی اس کے اوپر مہربان ہوجائے، اور موت کے منڈلاتے ہوئے مہیب سایے اس سے رخصت ہوجائیں۔

ذرا غور کیجیے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ کیوں سنایا؟جو بات آپ اس سے آگے ارشاد فرمانے والے ہیں، جس امر سے لوگوں کو آگاہ کرنے والے ہیں۔ اصل تووہ ہے۔آپؐ نے صحابہ کرام ؓ کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ لوگواللہ تبارک وتعالیٰ کواس مسافر سے جسے جنگل بیابان میں اپنا کھویا ہوااُونٹ واپس مل جائے ، کہیں زیادہ خوشی ہوتی ہے جب اس کا ایک بھولا بھٹکا ہوا بندہ ، راہ سے بے راہ ہوجانے والا غفلت کا شکار بندہ ،اطراف کے حالات میں اپنے آپ کو گم کردینے اور اپنی شناخت کھو دینے والا بندہ پھر اس کی طرف لوٹتا ہے، پھر اس کی طرف پلٹتا ہے۔ پھر ندامت کے آنسو ہیں جو اس کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں،اور وہ اَن گنت حوالوں سے اپنے رب کو راضی کرنے کے بہانے تلاش کرتا ، طور طریقے اپناتا ہے۔

قرآن پاک اور احادیث میں تفصیل کے ساتھ یہ بات آئی ہے بالخصوص انبیاے کرام کے حوالے سے تو یہ بات بالکل دوٹوک ہے ، انھی لفظوں کے اندر قرآن پاک میں موجودہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف کوئی بندہ رجوع کرتاہے ، اپنی کسی خطااور کوتاہی کے حوالے سے معافی کا طلب گارہوتا ہے تو یہ ادا اس کواس قدر پسند آتی ہے کہ اس کی طبیعت اور کیفیت کے لحاظ سے    اللہ تعالیٰ اس کی زبان پر وہ کلمات جاری کردیتا ہے، اس کے جسم و جان کے اوپر اس عمل کو طاری کردیتاہے جو خود اس کو بڑا مقبول ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے،اور بارگاہ رب العزت میں درجات کی بلندی بھی اس کو مل جاتی ہے۔قرآن پاک میں نبوی دعائوں سے اس امرکا اشارہ ملتاہے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (الاعراف۷: ۲۳) اے رب ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر   نہ فرمایا اوررحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔

یہ کس کی دعا ہے؟حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حواکی زبان پر یہ کلمات جاری ہیں، اپنے رب سے رجوع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیاہے، اور تیری ہی ایک ذات ہے جو مغفرت کرنے والی ہے، معاف کرنے والی ہے۔ انبیاے کرام کی جتنی بھی دعائیں ہیں، ان میں اسی کا حوالہ ملتا ہے۔

اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ o (الانبیاء ۲۱: ۸۷) نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا۔

یہ حضرت یونس علیہ السلام کی دعاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان پر وہ کلمات جاری کرا دیے جو   اس کو پسند ہیں، پھر ان کو قبول کرلیا۔

ہم اس موضوع کو کتابوں میں پڑھتے ہیں، بزرگوں سے سنتے ہیں تو خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی دقیق علمی موضوع ہے، اورکبھی یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ توبڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔بلاشبہہ بڑے لوگوں کی باتیں تو ہیں ہی،اور علمی موضوع ہونے سے بھی کوئی انکار نہیںکرسکتا۔لیکن اگر ہربندے کا اپنے رب کے ساتھ تعلق ہے،اور ہر بندے کے لیے اللہ تعالیٰ نجات کے اَن گنت عنوانات چاروں طرف بکھیرتا ہے تو پھریہ تو میرا اور آپ کا موضوع ہے۔ کس سے گناہ نہیں سرزد ہوتا؟ کون ہے جو خطا کاپیکر ہونے سے انکار کرسکے؟ کس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ      وہ خیرونیکی اور بھلائی و فرمانبرداری کا  سراپاہے؟ سب اس بات سے واقف ہیں کہ بڑے بڑے عابدو زاہد اور مجاہد، اور قبولیت کا شرف حاصل کرنے والے کو بھی گناہ سے مفر نہیں ہے۔ نافرمانی کے راستے پرنہ چلنا، اس پر کسی کا قابو نہیں ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

ہر آدمی خطار کار ہے(کوئی نہیں ہے جس سے کبھی کوئی خطا اور لغزش نہ ہوئی ہو)، اور خطاکاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو(خطا اور قصور کے بعد)مخلصانہ توبہ کریں( اور  اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں)۔ (ترمذی)

انسان سے گناہ تو سرزد ہوتے ہیں، دل و دماغ بار بارنافرمانی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں، جسم و جان کی دنیا میں ان گنت مواقع پر ایسے طوفان اٹھتے ہیں جو معصیت کی طرف لے جاتے ہیں۔پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اگر انسان گنا ہ کر بیٹھے تو طبیعت پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے؟  وہ اصل مطلوب ہے۔اگر گناہ انسان کو ملول کرے اور طبیعت کے اندر ملال کی کیفیت پیدا کرے، مزاج کے اندر محرومی کا احساس پیدا کرے تو یہ توبہ اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے کی کیفیت ہے۔ اس کی قدر کرنی چاہیے،اور یہ محسوس کرنا چاہیے کہ اپنے رب کی طرف سے مجھے یہ توفیق    مل رہی ہے۔ اس توفیق ہی کے نتیجے میں پھر نیک اعمال کا صدور ہوتاہے اور گناہ کے مقابلے میں انسان نیکی کی طرف بڑھتاہے۔

ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں ، صحابہ کرام ؓ  آپ کے ارد گردبیٹھے ہیں اور ایک جنگ کے قیدی پکڑ کر لائے جارہے ہیں۔اسی اثنا میں صحابہؓ نے دیکھا کہ ان قیدیوںمیں ایک عورت بھی پکڑ کر لائی گئی ہے جوچیخ رہی ہے، چلارہی ہے، اور بآواز بلند مسلسل کہے جارہی ہے کہ ہاے میرا بچہ!ارے میرا بچہ کہیں پیچھے رہ گیاہے، میرا لخت جگر کہیں گم ہوگیا ہے؟ ماں کی مامتا اپنے بچے کے لیے بے چین ہے اورکہہ رہی ہے کہ مجھے تو تم یہاں قید کرکے یہاں لے آئے ہو، اس کو بھی قید کرو۔ گویا فرط محبت میں اپنے بچے کے لیے قید کی دہائی دے رہی ہے۔  صحابہ کرام ؓاس منظر کو دیکھ رہے تھے اوراس عورت کی چیخیں ان کے دل تک پہنچ رہی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو ایسے تمام مواقع پر حکمت و دانائی کے ساتھ لوگوں کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ کی آواز فضا کے اندر گونجی، اور اس خاص لمحے جب لوگ عورت کی چیخ و پکار سن رہے تھے،  آپؐ نے فرمایاکہ اے لوگو !کیا کوئی ماں اپنے بچے کو آگ میں ڈالنا پسند کرے گی؟جب ایک ماں کی دلدوزچیخیں سنائی دے رہی ہیں، ماں کی اپنے جگر گوشے کے لیے اٹھتی ہوئی آوازیں ہیں، اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کو متوجہ کرکے فرمایاکہ کیا کوئی ماں اپنے بچے کو آگ میں ڈالنا پسند کرے گی؟ صحابہ کرام ؓ حیران رہ گئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ کوئی ماں اپنے بچے کو کیسے آگ میں ڈال سکتی ہے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! کوئی ماں اپنے بچے سے جس قدر محبت کرسکتی ہے،پیار اور وابستگی کا اظہار کر سکتی ہے،اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔بھلا وہ اپنے بندوں کو آگ میں ڈال دے گا؟ہاں، بندے اس سے رجوع تو کریں، اس سے کچھ طلب تو کریں، ہاتھ پھیلا کر اس سے کچھ عرض تو کریں، دل و دماغ کی دنیا میں اسے جگہ تو دیں،سمائیں اور بسائیں تو سہی۔ گویا بندہ ایک قدم چلے تو سہی پھر دیکھے کہ اس کا رب کیسے دس قدم چل کر اس کے پاس آتا ہے۔

ہم جس ماحول اور معاشرے میں رہ رہے ہیں، اورگناہوں نے جس طرح ہرچہار طرف اپنا جال بچھا رکھا ہے، اس میں یہ اور بھی ضروری ہے کہ اپنے رب کی طرف پلٹا جائے۔ اس کو آپ رجوع الی اللہ کہیں، توبہ و استغفار کہیں،اپنے رب کی طرف لوٹنا پلٹنا کہیں،بار بار گناہوں کی طرف جانا اور بار بار نیکیوں کی طرف آنا کہیں،لیکن یہ وہ کیفیات ہیں کہ جن سے ہمیں لازماً گزرنا چاہیے۔

یہاںپر ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ہم کو انفرادی دائرے کے اندر  کش مکش کے لیے پیداکیاہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیںہے۔ انبیاے کرام کی تعلیمات اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ نظر آتا ہے، وہ انفردایت کے ساتھ اجتماعیت کو بھی اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری حج پر تشریف لائے ہیں، عرفات کے میدان میں ہزارہا ہزارلوگ موجود ہیں، الوادعی خطبہ اورآخری ہدایات ہیں جو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوںکے لیے آپؐ ارشاد فرمارہے ہیں۔جب آپؐ اپنی بات مکمل فرمالیتے ہیں تو خطبے کے آخر میںپوچھتے ہیں کہ اے لوگوکیا میں نے رسالت اور دعوت کا حق ادا کردیا ہے؟ سب لوگ بآواز بلند پکار کر کہتے ہیںکہ حضور آپ نے دعوت بھی پہنچا دی، پیغام بھی پہنچا دیا۔نمونہ اس کا بتا دیا، عمل اس پر کرکے دکھا دیا۔چاروں طرف انسانوں کا سمندر مجسم گواہی ہے، بزبان حال بھی اور بزبان قال بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کی تصدیق کررہاہے۔ آپ صلی علیہ وسلم جب یہ سنتے ہیں تو شہادت کی انگلی کوبلندتے ہیں، کبھی آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اور کبھی مجمع کی طرف، اور فرماتے ہیں: اللّٰھم اشھد، اللّٰھم اشھد،اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا۔

یہاں ایک لمحے کو ٹھیریں اورسوچیں کہ کیا یہ کام صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص تھا؟اور ہم انفرادی اور چھوٹے چھوٹے دائروں میں وہ کام کرتے رہیں جو ہم کررہے ہیں۔اگرحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ کامل نمونہ ہے تو لازم ہے کہ اس کی مکمل اتباع اورپیروی کی جائے۔ اس حوالے سے یہ بات ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ یہ کامل نمونہ خالص انسانی سطح پر ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ پوری زندگی معجزات میں گزر گئی ہو،خوارق عادت چیزوں کا نمونہ بن گئی ہو۔ کون واقف نہیں ہے کہ آپؐ غم اور اندوہ کا شکار ہوتے تھے،اور ایک سال توحزن و ملال کا سال کہلایا کہ جس میں حضرت خدیجۃ الکبری ؓ اورجناب ابوطالب کا انتقال ہوا۔ آپؐ  صدمات سے دوچار ہوئے ہیں۔ آپؐ  کے نوزائیدہ بیٹے اس دنیا سے رخصت ہوئے توآنکھوں میں نمی آئی اور آنسو رواں ہوئے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ کوئی پتھر مارے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چوٹ نہ لگتی ہو۔کوئی کانٹے بچھائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام سے گزر جاتے ہوں اور کانٹے چبھتے نہ ہوں۔ کانٹے چبھتے تھے، اپنا اثر دکھاتے تھے،پتھرائو کے نتیجے میں جسم اطہر لہولہان ہوتا تھا، دندان مبارک شہید ہوتے تھے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنوں کے لیے مسرت اور کبھی غصے کااظہار کیا ہے۔

ایک موقع پر حضرت ابی ابن کعبؓ نے پوچھ لیا کہ آپ ہمارے لیے دعا نہیں کرتے، نصرت الٰہی کب آئے گی؟پوچھنے والے صحابی وہ ہیں جنھوں نے شدید ترین آزمائشیں جھیلی ہیں۔ آپؐ کعبے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، سیدھے ہو کربیٹھ گئے، چہرہ انور غصے سے تمتما اٹھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ابھی دیکھا ہی کیاہے،تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں، ان کو آدھا زمین کے اندر گاڑ دیا جاتا تھا،اور باقی آدھے جسم کو آروں سے دو حصوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ لوہے کی کنگھیوں سے گوشت کو ان کی ہڈیوں سے جدا کردیا جاتا تھا۔تم جلدی کرتے ہو، عجلت کا مظاہرہ کرتے ہو۔ان واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی خالص انسانی سطح پر اگر نہ گزرتی تو اسوہ کیسے بنتا کہ جس کا اتباع کیا جاتا، جس کی پیروی کی جاتی۔

انسانی سطح پر ہی یہ بات آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تھکے ہوئے گھر پہنچے ہیںاور اطلاع ملتی ہے کہ ایک قافلہ آیا ہے۔ آپؐ فوراً تیار ہو کر اس کی طرف جانا چاہتے ہیںکہ اس کو اللہ کی طرف بلائیں، توحید کا پیغام اس تک پہنچائیں، بندگی رب کا درس اس کو دیں۔ گھر والوں نے عرض کیا کہ دن بھر کے آپ تھکے ہوئے گھر لوٹے ہیں، کل چلے جائیے گا، صبح دیکھ لیجیے گالیکن بالکل انسانی دائرے میں آپ بات بیان فرما رہے ہیںکہ کیا عجب کہ یہ قافلہ راتوں رات ہی واپس چلا جائے یا آگے نکل جائے،یا جو مہلت عمل مجھے ملی ہے اور دعوت اور پیغام پہنچانے کی جو آزادی مجھے میسر ہے، صبح ہونے سے پہلے ہی وہ ختم ہوجائے۔

کیا یہ صرف علمی واقعات ہیں جو میں نے بیان کیے اور آپ نے پڑھے ہیں۔علم تو ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اس میں تو کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیںلیکن ان میں عمل کی ایک پوری دنیا بھی آبادہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہو کر آپ پر ختم نہیں ہوتی،بلکہ آپ کے بعد آپ کی امت کو اس کامکلف بنایا گیا ہے اور اس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کو قرآن میں بیان فرمایا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ (اٰل عمرٰن۳: ۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پرایمان رکھتے ہو۔

اور فرمایا:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (اٰل عمران۳: ۱۰۴) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔

ان آیات اور حضورنبی کریمؐ کی سیرت کی روشنی میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ  کیا ہم اپنے اعزہ واقارب، اہل خانہ، برادری اور خاندان کے بارے میں،اپنے دوست احباب کے بارے میں،سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ان تک ہم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے،دعوت کا حق ادا کردیا ہے، غلط راہوں پر جانے والوں کو بار بار متوجہ کیا اور ادھر جانے سے روکنے کی کوشش کی ہے؟حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، سوال کیا جائے گا۔

توبہ و استغفار ،رجوع الی اللہ اور بندوں کو بندوں کے رب کی طرف ہنکانے کا دائرہ ساری انسانیت کو محیط ہے۔ بلاشبہہ ہم اپنے آپ کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ جو واقفیت مجھے اپنی ذات سے ہے اور جو تعارف مجھے اپنے سراپا کے ساتھ ہے، وہ کسی اور کو نہیں ہے۔ اپنی اچھی اور بری عادتوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔ اپنے اچھے اور برے اعمال کی فہرست ہمارے سامنے ہے۔ نفس کی جو فرمایشیں روز سامنے آتی رہتی ہیں، ان سے ہم بخوبی واقف ہیں۔تو ہمیں اپنے لیے بھی یہ متعین کرلینا چاہیے کہ تذکیر کے جتنے عنوانات ہو سکتے ہیں وہ قلب و ذہن کی دنیا میں سجائے جائیں اوراپنے رب کی طرف پلٹنے اور اس سے رجوع کرنے کے جتنے حوالے ہوسکتے ہیںان سب کو  مضبوط کیا جائے، لیکن پورے معاشرے کو اللہ کی طرف رجوع کرانابھی ہماری ذمہ داری ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا تقاضا ہے۔

یہ کہنا آسان ہے کہ معاشرہ بگڑ گیا ہے لیکن جس زبان سے یہ جملہ نکلتا ہے اسی کی یہ سب سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بگاڑ کو دور کرے۔اس نے تو تشخیص کر لی کہ معاشرہ      بگڑا ہواہے،اور حالات کی خرابی کا شکار ہے۔یہ کہہ کر گھر میںسکون کے ساتھ بیٹھ جانا داعی کے شایانِ شان نہیں ہے۔ یہ لوگوں سے دوری اور بے زاری کی کیفیت ہے جو اسوہ حسنہ کی پیروی کرنے والے کے لیے زیبا نہیں ہے۔معاشرے کی خرابی کی اصل وجہ ہی یہ ہے کہ نصیحت ختم ہوگئی ہے اوروعظ و تلقین کا راستہ ترک اورمنکر پر ٹوکنا بند کردیاگیا ہے۔ ایسی محفلوں میں ہم شریک ہوتے ہیں جن میں برائیاں ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ‘کاعنوان ہوتی ہیں، منکرات چاروں طرف دکھائی دیتی ہیں ۔ طبیعت اور مزاج کے اندر تھوڑی بہت گرانی تو پیدا ہوتی ہے لیکن رویے اور زبان کے اندر کم کم کوئی ایسی چیزسامنے آتی ہے جو لوگوں کو اصلاح کی طرف لے جاسکے،ان میں حالات کی خرابی کا ادراک پیدا کرسکے۔

ہم جن دنیوی مسائل کا رونا روتے ہیں۔ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا ہے تو کہتا ہے کہ صاحب چار گھنٹے بجلی نہیں تھی،رات کو تو نیند ہی نہیں آئی۔اس قدر شدید حبس تھا کہ کیا بتلائوں، اور ابھی تو اپریل کا معاملہ ہے، جون جولائی میں پتا نہیں کیا کیفیت ہوگی۔ جواب ملتا ہے کہ میرے ہاں بھی پانچ گھنٹے بجلی نہیں تھی،نہ پوچھو کہ میرا کیا حال ہوا۔ آدمی حیرانی سے منہ تکنے لگتا ہے کہ اچھا  تمھارا بھی یہی معاملہ ہے۔یہ جو بجلی کے بحران کی ہم بات کرتے ہیں، گیس کی لوڈشیڈنگ،   مہنگائی و بے روزگاری اور بد امنی کے عفریت کا رونا روتے ہیں، صنعتوں کے بندہونے، تجارت کے ختم ہونے اور کسانوں کے بے حال ہونے کی دکھ بھری کہانیاں سنتے سناتے ہیں۔ تنخواہ دارکہتے ہیں کہ گھرکے اندر تین تین تنخواہیں آتی ہیں لیکن گزارہ نہیں ہوتا۔ چادر پیرکی طرف لے جائو تو سر  کھل جاتے ہیں، سر کی طرف لے جائو تو پیر کھل جاتے ہیں، اس لیے کہ تنخواہیں جتنی ہیں اتنی ہی رہتی ہیں اور مہنگائی صبح اور شام میں اپنے آپ کو دوگنا چوگنا کرلیتی ہے۔ یہ تو چند مسائل کا ذکر ہے لیکن ان کی فہرست تو طویل ہے جس سے میں اور آپ واقف ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کاکوئی دنیوی حل ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ توبہ و استغفاراور رجوع الی اللہ ہی ان تمام مسائل کااصل حل، اور زندگی کو بہتر رخ پر ڈالنے اور حالات کو کل سے بہتر آج اور آج سے بہتر کل کا عنوان بنانے کا راستہ ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:

جوبندہ استغفار کو لازم پکڑلے (اللہ تعالیٰ سے برابر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے)تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی اور مشکل سے نکلنے اور رہائی پانے کا راستہ بنا دے گا۔ اس کی ہر فکر اور پریشانی کو دور کرے گا،اسے کشادگی اور اطمینان عطا فرمائے گااور ان طریقوں سے رزق دے گا جن کا اس کو خیال و گمان بھی نہ ہوگا۔(احمد)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے دو امانیں مجھ پر نازل فرمائیں۔ (سورۂ انفال میں ارشا فرمایا گیا)کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تم ان کے درمیان موجود ہو اور ان پر عذاب نازل کردے۔اور اللہ انھیں عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا جب کہ وہ استغفار کرتے ہوں گے، معافی اور مغفرت کے طلبگار ہوتے ہوں گے۔آپؐ نے فرمایا: پھر جب میں گزر جائوں گا تو قیامت تک کے لیے تمھارے درمیان استغفار کو(بطور امان) چھوڑ جائوں گا۔(ترمذی)

توبہ و استغفار اوررجوع الی اللہ کی یہ تحریک ہی ہمیں مسائل کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔ یہ تحریک کسی دکھاوے اور نمود و نمایش اورکسی خانہ پری اور رپورٹ کی تیاری کے لیے نہیں بلکہ طبیعت کے ابال اوربندوں کو آگ سے بچانے کے داعیے کے ساتھ ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ     اگر انفرادی دائرے میں اپنے رب سے رجوع کا کوئی حوالہ موجودہو تو چاروں طرف کے حالات میں جب لوگ راہ سے بے راہ ہورہے ہیںتوان کے لیے بھی یہ کیفیت خود بخود پیدا ہوجائے گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جس کا قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے:

طٰہٰ o مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی o اِلَّا تَذْکِرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۱-۳) ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جائو۔   یہ تو ایک یاددہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرمارہاہے کہ یہ قرآن پاک ہم نے اس لیے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت کے اندر پڑ جائو،تمھارا حال تو یہ ہوگیا ہے کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (الشعرا ۲۶:۳) ’’شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ہے کہ لوگوں کے غم کے اندر گھلے جارہے ہیںکہ یہ راہ سے بے راہ اور گمراہ ہوگئے ہیں، یہ بات کو سنتے اورجانتے نہیں ہیں، مانتے اور پہچانتے نہیں ہیں۔ عمل کی دنیا میں کسی انقلاب کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہوتے ہیں۔گویا اپنی اور لوگوں کی دنیا اور آخرت کی فکر کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے۔ناگزیر ہے کہ انفرادی دائرے میں بھی اس کی پیروی کی جائے، اوراجتماعی دائرے میں بھی ہر شخص اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرے، اور دعوت اور رجوع الی اللہ کی تحریک کا دست و بازوبنے۔اسی میں ہمارادنیا وی مستقبل محفوظ ہے، اسی کے اندر آخرت کی کامیابی، اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کی ضمانت ہے، اور اسی کے نتیجے میں شفاعت مصطفی اوردیدار الٰہی کی توقع کی جاسکتی ہے۔

ایوانِ صنعت و تجارت لاہور نے معاشی ترقی کے لیے ۲۰۲۰ء تک پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنے   کے لیے مختلف سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کر کے بنیادی خطوط طے کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔   اس حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سیدمنور حسن کا چیمبر سے ۴ مارچ ۲۰۱۰ء کا خطاب پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

معیشت کوقومی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے لیکن پے در پے حکومتوں کی ناسمجھی، عاقبت نااندیشی اور لوٹ مار نے ملکی معیشت کا جو حال کیا ہے اس سے آپ سے زیادہ کون واقف ہوگا۔ چینی حاصل کرنے، ہوش رُبا بل جمع کروانے، بلکتے بچوں کے لیے دوا حاصل کرنے، حتیٰ کہ اپنے رُوٹ کی گاڑی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے خوار ہوتے عوام کو تو ملکی معیشت کو سمجھنے کے لیے مزید شواہد کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن جو لوگ اعداد و شمار کی روشنی میں حالات کا تجزیہ کرنے کے ہنر سے آراستہ ہیں وہ نسبتاً زیادہ مایوس نظر آتے ہیں۔

قومی وقار کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کے بعد پاکستان کی خودمختاری حتیٰ کہ سلامتی تک کو دائو پر لگا دیا گیا ہے۔ ملک پر بیرونی قرضے ۵۵ ارب ڈالر سے زائد ہوچکے ہیں۔ اندرونی قرضے ۴۳ کھرب روپے ہوچکے ہیں۔ امریکی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے گذشتہ برس کے دوران ۸ ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ’’پھر بھی ہم سے     یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں‘‘۔ ہماری قیادت نے قوم کے لیے وہ راستہ چنا ہے جس میں ہمیں سیکڑوں پیاز بھی کھانے پڑ رہے ہیں اور سیکڑوں جوتے بھی۔ امریکی غلامی کے اس تاوان کے ساتھ ساتھ ہمیں جو قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ملک امریکی کالونی بن چکا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کی سیکورٹی بلیک واٹر کے تربیت یافتہ حضرات و خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں شراکت کی بنیاد پر طے شدہ پاکستان کا حصہ تک ادا نہیں کیا جا رہا اور پاکستان کے سربراہِ مملکت تک ۶ئ۱ ارب ڈالر کی معمولی رقم کے لیے ایک سے زائد مرتبہ امریکا کی منتیں کرچکے ہیں۔ ملک کے وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سے پاکستان کو مدد نہ ملی تو بجٹ خسارہ بڑھ جائے گا۔ بدامنی اور لُوٹ مار کا دور دورہ ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور نام نہاد فرینڈز آف پاکستان کو ملکی معاملات کو نچلی سطح تک بھی براہِ راست چلانے کی کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔

کالعدم این آر او سے فائدہ اٹھانے والے تین درجن سے زائد افراد ملکی سیاسی سیٹ اَپ کا حصہ ہیں، جن کے سرخیل ملک کے سربراہ ہیں۔ بدعنوانی اور بدانتظامی جب کہ ٹیکس چوری اور امرا کو حاصل بے جا مراعات کی وجہ سے قومی خزانے کو تقریباً ۸۰۰ ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بنک کی پالیسیوں کی وجہ سے امیر اور غریب طبقات میں فرق بہت زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔ گذشتہ دس سال میں تقریباً ۵ ہزار ارب روپے غریب اور متوسط طبقے سے مال دار طبقات کو منتقل ہوچکے ہیں۔ گذشتہ تقریباً دو سال کے عرصے میں ۱۶ ملین سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں۔ گذشتہ تین برس میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ۷ئ۲۶ فی صد کمی آچکی ہے۔

بھارتی ہٹ دھرمی اور پاکستانی اربابِ اقتدار کی نااہلی کی وجہ سے پاکستان کے دریا خشک ہورہے ہیں اور اب بات صرف بجلی کے بحران تک محدود نہیں ہے بلکہ خدانخواستہ قحط سالی تک پہنچتی نظرآرہی ہے۔ دریائوں کے بہائو میں ۲۱ فی صد اور ذخیرہ شدہ پانی میں ۳۴ فی صد کمی آچکی ہے۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زراعت کے شعبے میں جو تنزل نظر آرہا ہے اس کی ایک وجہ اگرچہ بارشوں کا کم ہونا بھی ہے لیکن زیادہ اہم وجہ کسانوں کو ان کی محنت کاپھل نہ ملنے کی وجہ سے ان میں پائی جانے والی مایوسی ہے۔

ان حالات میں ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی محدود تبدیلی کافی نہیں ہوگی۔ اس موضوع پر تیار کی جانے والی لاتعداد سرکاری اور غیرسرکاری رپورٹوں میں جو سفارشات دی گئی ہیں اور جو خود آپ کے چیمبر کے پیش نظر بھی ہیں، موجودہ نظام میں رہتے ہوئے شاید ان سے بہتر تجاویز نہیں دی جاسکتیں۔ ضرورت ایک بڑی اور بنیادی تبدیلی کی ہے، ایک ایسی تبدیلی جس میں سوچ، زاویۂ نگاہ، عمل کا انداز اور رویے و رجحانات سب میں بہتری لائی جائے۔ میری کوشش ہوگی کہ مختلف شعبہ ہاے زندگی میں ہمارے پیشِ نظر انتظامی تبدیلیوں اور اصلاحات کو بیان کرنے کے بجاے اس پورے فریم ورک کو آپ کے سامنے رکھ سکوں جو ہماری دانست میں پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ناگزیر ہے۔ جماعت اسلامی کے ہر منشور میں وہ اقدامات متعین طور پر بیان کردیے گئے ہیں جو اس ideals تک پہنچنے کے لیے ہمارے پیشِ نظر ہیں۔ اگر آپ ان منشورات کا مطالعہ کریں تو آپ کو ایک تسلسل اور ربط نظر آئے گا جو آپ کو پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ہماری سوچ کی پختگی اور سنجیدگی کا بھی احساس دلائے گا۔

پاکستان کے قیام کے ۶۳ برس بعد یہ کہتے ہوئے بھی دکھ محسوس ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے ملک کے تشخص اور اس کی منزل کا تعین کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے نظریاتی تشخص یا قومی اہداف کے حوالے سے ہم بالکل تہی دست ہیں، ملک کے ۱۶کروڑ عوام نہ صرف اس سے باخبر اور آگاہ ہیں بلکہ اس کے لیے ہرقربانی دینے کو تیار بھی ہیں۔ ملک کا آئین ان بنیادوں کو غیر مبہم انداز میں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ صرف اس ملک کے حکمرانوں کو اپنے طرزِعمل اور قومی پالیسیوں کو اس سوچ سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ترقی اور بڑھوتری کی باتیں محض ایک خواب ہوں گی۔

اس کے ساتھ ہمیں ترقی کے مفہوم کو درست طور پر متعین (redefine) کرنا ہوگا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ عالمی نظام میں ترقی صرف معاشی نموتک محدود ہے۔ گویا اس نقطۂ نظر کی رُو سے انسانی ترقی میں بنیادی اہمیت روپے پیسے (money) کو حاصل ہے، جب کہ انسانی فلاح محض اس کا نتیجہ قرار پاتی ہے۔ ہمیں اپنے نقطۂ نظر کے مطابق انسانیت کی فلاح کو اپنا محور قرار دینا ہوگا اور معاشی بڑھوتری محض اس کا ایک مظہر ہوگا۔ انسانی خوبیوں کو پروان چڑھانا اور ان میں اخوت و محبت پر مبنی ایسے تعلقات کو استوار کرنا ہمارا مطمحِ نظر ہوگا جس میں تعلق کی بنیاد انسانیت ہو نہ کہ پیسہ۔ اس حوالے سے ہمارے لیے کسی فرد کی جسمانی،سماجی اور اخلاقی ترقی بھی اسی قدر اہم ہوگی جتنی موجودہ دنیا میں اس کی معاشی ترقی ہے۔

  • ھمہ جھت حکمت عملی کی ضرورت: اس وژن کو اگر قابلِ عمل اقدامات کی صورت میں ڈھالا جائے تو ہمیں پانچ جہتوں میں بیک وقت کام کرنا ہوگا جن میں سے ہر ایک دوسرے سے وابستہ ہے: ۱- معاشی،۲-سماجی، ۳- انتظامی، ۴-اخلاقی اور ۵- تزویراتی یعنی اسٹرے ٹیجک۔ اس مقصد کے لیے اگلے دس سال کے لیے ایک فریم ورک تجویز کیا جاسکتا ہے۔ اس ساری کاوش کا ہدف ایک اسلامی، منصفانہ، ترقی پسند (progressive)، اور خوش حال معاشرے کا قیام ہے۔

جب ہم ان پانچ جہتوں میں کام کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر ان پانچوں میں سے اخلاقی جہت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور زندگی کے دیگر تمام دائروں میں اس کا عملی نفاذ ہوگا۔ If character is lost, everything is lost شاید ایک گھسا پٹا جملہ محسوس ہو لیکن  یہ زندگی کے پورے فلسفے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ہم جس معاشرے کے قیام کے لیے  کوشاں ہیں اس میں معاشی، سماجی، انتظامی اور اسٹرے ٹیجک تمام پہلوئوں میں اسلام کے دیے گئے بلند ترین اخلاقی معیارات کی جھلک نظر آئے گی۔

  • معاشی پھلو: معاشی میدان میں ترقی کے لیے ایک ایسا معاشرہ ہمارے پیش نظر ہے جس میں وسیع البنیاد (broad based) اور پایدار (sustainable) معاشی ترقی کا ہدف اس انداز میں حاصل کیا جائے کہ عوام کے مختلف طبقات کے درمیان سماجی و معاشی بنیادوں پر فرق کم سے کم ہو اور ہر ایک کو ملازمت اور زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی ہو۔ اس مقصد کے لیے ہمارے اگلے دس سال کا ہدف مسلسل اور وسیع تر بنیادوں پر جی ڈی پی میں سات سے آٹھ فی صد اور فی کس آمدن میں پانچ سے چھے فی صد اضافہ ہے۔ کم آمدن والے ۲۰ فی صد پاکستانیوں کے قومی آمدن میں سات فی صد حصے کو بڑھا کر ۱۵ فی صد کیا جائے گا تاکہ معاشی ناہمواریوں میں کمی کی جاسکے۔ بے روزگاری کی شرح کو ۵ فی صد تک لانا اور تمام شہریوں کے لیے فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانا بھی اسی ہدف کا حصہ ہے۔

مذکورہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جمع شدہ رقوم گردش میں لانے کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ، سرمایہ کاری میںاضافے اور برآمدات کے حجم میں ترقی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ معیشت کے تمام شعبوں میں تعلیم و تربیت کی اعلیٰ سہولیات فراہم کی جائیںاور R & Dکی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے جدید ترین ٹکنالوجی اوراعلیٰ انتظامی معیارات کو عمل میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے مؤثر انفراسٹرکچر ناگزیر ہے۔ معاشی میدان میں ان شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی جن کے نتیجے میں ملازمتیں پیدا ہوں اور ملکی مصنوعات میں اضافہ ہو۔ خصوصاً ایسے شعبہ جات کو ترقی دی جائے گی جن کے potential سے اب تک درست طور پر استفادہ نہیں کیا گیا، مثلاً سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس کو اپنی اقدار و روایات کی پاس داری کے ساتھ پروان چڑھاکر بڑے معاشی، سماجی اور اسٹرے ٹیجک فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے لیے خصوصی مراعات اور اقدامات (incentives & initiatives) کے ذریعے پیداواری صلاحیت، اعلیٰ ترین معیار اور تیار و خام مال کی سٹوریج کے ساتھ ساتھ  ڈسٹری بیوشن کی طرف بھی توجہ دی جائے گی۔

  • سماجی پھلو: سماجی میدان میں ترقی کے لیے ہر پاکستانی کے لیے بلاامتیاز شہری سہولیات اور مساوی مواقع کی فراہمی، تعلیم، صحت، صفائی جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ذریعے انسانی استعدادِ کار میں اضافے، نادار اور ضرورت مند خواتین و حضرات کے لیے سوشل سیکورٹی کے شفاف اور ہمہ گیر نظام اور پاکیزہ ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ہرسطح پر سادگی پر مبنی طرزِ زندگی کے فروغ کے ساتھ ساتھ کنزیومر کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ایسے انسانی رویے پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے گی جن پر عمل کرتے ہوئے معاشرے میں انسانوں کے درمیان امتیازات کو کم سے کم کیا جاسکے۔

سماجی شعبے میں اگلے ۱۰ برسوں میں مذکورہ بالا اہداف حاصل کرنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے سرکاری طور پر سوشل انفراسٹرکچر پروان چڑھایا جائے گا جس کے ذریعے تمام شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ خصوصی توجہ کے محتاج افراد اور علاقوں کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ایسے منصوبے تیار کیے جائیں جن کی مدد سے ان افراد اور علاقوں کو قومی زندگی میں زیادہ نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ اس سب کے ساتھ ہمارے پیش نظر یہ بھی ہے کہ انسانی ترقی اور نشوونما کے لیے بہتر ماحول ایک بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیم کا ایک ایسا یکساں نظام مرتب کیا جائے گا جو ہماری ملّی اقدار، قومی اہداف اور سماجی و معاشی حکمتِ عملی سے ہم آہنگ ہو۔ ہم تمام قومی پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں میں صاف ماحول کی فراہمی کو پیشِ نظر رکھیں گے۔

  • انتظامی پھلو: انتظامی حوالے سے کسی بھی معاشرے میں قانون کی حکمرانی، انصاف اور عدل پر مبنی نظام ناگزیر ہے۔ جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کے بہتر سے بہتر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے نہ صرف جان، مال، آبرو کے تحفظ کو یقینی بنانا ضروری ہے بلکہ بلاامتیاز حقوق کی فراہمی اورایک دوسرے کے اعتقادات اور نقطہ ہاے نظر کا احترام بھی لازم ہے۔ عدلیہ، انتخابی اداروں، ادارۂ شماریات، اسٹیٹ بنک اور دیگر احتسابی اداروں کی مکمل خودمختاری اور غیرجانب داری کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ مثبت طور پر پیش کی گئی کسی بھی تنقید یا آرا پر کسی قسم کی کوئی قدغن فکروسوچ اور ترقی کے جذبے کو ماند کردیتی ہے۔

ان انتظامی اصلاحات کو عملی صورت دینے کے لیے عدالتی عمل کو شفاف اور فعال بنانے کی طرف توجہ دی جائے گی۔ کرپشن، انتقامی رویوں اور اداروں میں انتظامی و سیاسی حوالوں سے مداخلت کے کلچر کو ختم کر کے خالص پیشہ ورانہ بنیادوں پر کارکردگی کے رجحان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اسلام کے شوریٰ کے اصول کو ہروقت اور ہرحوالے سے مدنظر رکھتے ہوئے ہرسطح پر جمہوری اور نمایندہ اداروں کو مضبوط بنایا جائے۔ تمام سرکاری اداروں میں مسلسل جائزے اور احتساب کے ذریعے کارکردگی میں مسلسل بہتری کو یقینی بنایا جائے گا۔

  • اخلاقی پھلو: ملکی قیادت کا کام صرف وسائل کی تقسیم اور انتظام ہی نہیں بلکہ قوم کی رہنمائی اور قومی کردار کی تشکیل بھی اس کی ذمہ دری ہے۔ اس حوالے سے قومی کردار کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام کی سوچ اور اُمنگوں کے مطابق ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں جبر کا ماحول پیدا کیے بغیر ذاتی احساس کی بنا پر بھلائی کے فروغ اور برائی کا راستہ روکنے کا کلچر پیدا ہو۔ افرادِ معاشرہ میں خداخوفی، دیانت داری، قانون پسندی اور رواداری کی خصوصیات پیدا کی جائیں۔ انسانی حقوق کی پاس داری اور مردو خواتین کے درمیان توازن کی بنیاد پر کردار کاتعین ہو، جس کے نتیجے میں ہر فرد کی استعدادِ کار میں اضافہ اور صلاحیتوں کا بہتر سے بہتر استعمال ممکن ہو۔

افرادِ معاشرہ میں ان اخلاقی خوبیوں کو پیدا کرنے کے لیے اسلام کے پورے نظام اور  اس کی بنیادوں کو کسی افراط و تفریط کے بغیر ایک تدریج اور تسلسل کے ساتھ قومی کردار کا حصہ بنایا جائے گا۔ تعلیم و تربیت اور میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے روایتی اور غیرروایتی طریقوں سے اسلامی ثقافت، قانون کے احترام، اور دیگر ذاتی و اجتماعی خوبیاں پیدا کرنے پر زور دیا جائے گا۔ ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا جس میں مثبت اور تعمیری سوچ پروان چڑھے۔

  • اسٹرے ٹیجک پھلو: جب ہم قومی زندگی کے اسٹرے ٹیجک پہلو کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیشِ نظر ہوتا ہے کہ ہم ملک میں سیاسی استحکام اور قابلِ اعتماد دفاعی صلاحیت کے ساتھ پایدار ترقی کو یقینی بنائیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ خودانحصاری کی بنا پر علاقائی تعاون کو یقینی بنائیں اور پاکستان کو اس قابل بنائیں کہ عالمی سطح پر اس کو ایک قابلِ قدر مقام دلایا جاسکے۔ اس سب کے لیے اندرونِ ملک اس بات کو تسلیم کرنا اور عالمی سطح پر اس کا پرچار کرنا ضروری ہوگا کہ مختلف علاقوں، اعتقادات اور کمیونٹیز کے لوگوں کے طرزِ زندگی کا احترام کیے بغیر امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

اسٹرے ٹیجک اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہرسطح پر آزاد اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔ ملکی دفاع کو مضبوط اور ایسی داخلہ و خارجہ پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جن سے پاکستان کے دوستوں میں اضافہ اور دشمنوں میں کمی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ بداندیش حکومتوں اور گروہوں کے خلاف ایک مضبوط سدِّجارحیت بھی حاصل ہو۔ ملکی وسائل کے بہتر اور زیادہ سے زیادہ استعمال اور مصنوعی طرزِ زندگی کی حوصلہ شکنی کے ذریعے خودانحصاری کو قومی شعار قرار دیا جائے گا۔ علاقائی ممالک اور تنظیمات کے ساتھ معاشی میدان میں قریبی تعاون کے ساتھ ساتھ دیگر امور پر بھی انھیں ہم خیال بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایک واضح سوچ اور وژن کے ساتھ بین الاقوامی فورموں پر فعال کردار ادا کرتے ہوئے ملکی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ ہمارے پیشِ نظر ہے کہ  ملکی سلامتی اور وقار پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر باہم مفاہمت اور رواداری کو فروغ دیا جائے۔

میں آپ کے سامنے ایک واضح سوچ اور لائحۂ عمل کے ساتھ یہ تمام باتیں رکھ رہا ہوں اور مجھے اس بات کا بھرپور احساس ہے کہ اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے قومی اداروں کی مضبوطی کو یقینی بنانا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات کسی شک و شبہے کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت عوام میںسے ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل اور اُمنگوں سے آگاہ اور ان کے حل کے لیے افرادی اور فکری صلاحیتوںسے مالا مال ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کم از کم کسی مشترکہ ایجنڈے پر قومی اتفاق راے پیدا کیا جائے۔

پاکستان کے مسائل کا ایک بڑا حصہ اس صورت میں حل ہوسکتا ہے جب کہ پاکستان کے عوام کو اپنے حکمرانوں پر اعتماد ہو۔ نہایت خوش نما اور جامع منصوبے بھی اپنے اعلان کے پہلے ہی دن سردخانے میں ڈال دیے جاتے ہیں کیونکہ نہ تو عوام کو ان کی تنفیذ کا یقین ہوتا ہے اور نہ ہی حکمران فی الواقع ان کو رُوبہ عمل لانا چاہتے ہیں۔ اگر حکمرانوں پر عوام کا اعتماد بحال ہوجائے تو پاکستانی عوام واقعتا ایک جان ہوکر بہتری کی سمت سفر کرسکتے ہیں۔ الحمدللہ ہمیں یہ اعتماد حاصل ہے۔

ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی ہر مسلمان کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے۔ دنیا بھر میں   جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت کو اجاگر کرنے، آپؐ کے دامن سے ازسر نو وابستہ ہونے، آپؐ کی سنتوں کو اپنانے اور آپؐ کی شریعت مطہرہ کو جدوجہد کا عنوان بنانے کے لیے پوری اُمت شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً تحرک اور سرگرمی کا عنوان دکھائی دیتی ہے۔

کسی معاشرے میںنبی کی بعثت نظاموں کی کش مکش کو جنم دیتی ہے۔ موجود نظام اور   قائم شدہ معاشرہ جہالت، شرک و بت پرستی اور ظلم کے ہر عنوان کو اپنے اندر سموئے ہوتاہے، جب کہ نبی بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی طرف بلانے کی دعوت پیش کرتاہے۔ اس طرح نظاموں کی یہ آویزش دور و نزدیک، ہر شے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ پرانا نظام اپنے تحفظ اور بقا کی جنگ ہر مورچے اور ہرمحاذ پر لڑتاہے،اور نبی کا پیش کردہ نظام نعرے کے مقابلے میں نعرہ، فلسفے کا متبادل فلسفہ، نظریے کا توڑ نظریہ، جدوجہد کے مقابلے میں جدوجہد،  نیز استقامت، اولوالعزمی اور صبر و حوصلہ کے چراغ روشن کرتاہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس معاشرے میں بعثت ہوئی وہ معاشرہ ان تمام خرابیوں اور برائیوں کی آماجگاہ تھا جس کا تصور انسان ہونے کے ناطے کیا جاسکتاہے۔ آپؐ کی مخالفت کرنے والے آپؐ کی ذات سے تو تعلق رکھتے تھے اور نباہ بھی کرنا چاہتے تھے، صادق و امین کہتے تھے لیکن وحی الٰہی کی بنیاد پر آپؐ جس تبدیلی اور تزکیے کی طرف بلارہے تھے وہ پرانے آباو اجداد کے دین اور ہر رسم و رواج کونگل جانے والا نظام تھا، لہٰذا جو لوگ آپؐ کی مخالفت کررہے تھے،سوچ سمجھ کر کررہے تھے،جانتے بوجھتے ایسا کررہے تھے اوراپنے نظام کے ٹمٹماتے چراغ کو ہر قیمت پر تحفظ دینا چاہتے تھے۔ اسی طرح جو آپؐ کے ہم نوا بن کر اٹھے اور آپؐ پر ایمان لانے والے اور آپؐ کے جلو میں چلنے والے قرار پائے وہ بھی دل کی گہرائی سے اس کش مکش کو مول لے رہے تھے۔ تبھی تویہ ممکن ہو سکا کہ انھیں آگ کے انگاروں پر لیٹنا بھی گوارا تھا۔

اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ نظاموں کی کش مکش میں قائم شدہ نظام کا دفاع کرنے والوں کو بھی ایک ٹیم اور معاشرے کی پشتیبانی درکار ہوتی ہے،اور نیا نظام جن دعووں، مقاصد اور اہداف کے لیے اٹھا ہو، اسے بھی اپنی تائید اور اپنے مؤقف کو واشگاف کرنے کے لیے ایک ٹیم درکار ہوتی ہے۔اس لیے ہر نبی پرانے انسانوں میں سے نئے انسان تلاش کرتا ہے، پرانے معاشرے میں سے نئے معاشرے کو اٹھاتاہے، اور پرانے عمر بن خطاب میں سے نئے حضرت عمر فاروق ؓجنم لیتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے نتیجے میں جو نئے انسان دریافت ہوئے، پرانے اور بوسیدہ معاشرے ہی سے تازہ ہوا کے جھونکے آنے شروع ہوئے، گویا  ع

’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘

تبدیلی و انقلاب کی یہ لہر جس نے پرانے سانچوں کو توڑ پھوڑ دیا، جاہلیت کے ایوانوں میں کھلبلی مچادی، افراد کی سطح پر نقطۂ نظربدلا،سوچ کے زاویے بدلے، زاویۂ ہاے نگاہ بدلے، زندگی اور اس کی ترجیحات بدلیں، اس کے ساتھ اجتماعیت کے اسلوب بدلے۔ دعوت اور طریقِ دعوت نے تربیت اور تعمیر سیرت کے نئے چراغ روشن کیے۔ آپؐ نے گئے گزرے اور ان پڑھ و ان گڑھ لوگوں کو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کا رہنمااور ان کے کردار اور سیرت کو تاریخ کے ہر دور کے لیے روشنی کا مینار بنادیا۔ قرآن پاک اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپؐ کی طبیعت کی نرمی اور گداز اور آپؐ کے اسلوب کی خیرخواہی محیط تھی انسانوںکو انسانیت کش راہوں سے روکنے، آگ میںگرنے والے لوگوں کو فلاح اُخروی کا تصور جاگزیں کرنے، اور انھیں ایک بڑے مقصد کے لیے آمادہ و تیار کرنے کے لیے۔ قرآن پاک ایک طرف یہ بتاتا ہے کہ آپؐ کس طرح قرآن پاک کی طرف لوگوں کی بلاتے رہے، نفوس کا تزکیہ کرتے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے رہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (اٰلعمران۳ : ۱۶۴) درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتاہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

دوسری طرف قرآن پاک گواہی دیتا ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (اٰلعمران۳ : ۱۵۹) (اے پیغمبرؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔

گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے آپؐ کے اندر نرمی ڈال دی تھی جو لوگوں کی توجہ کا مرکز اور انھیں جذب و انجذاب کے مراحل سے گزارنے کا باعث بنی۔

مکے میں اگر آپؐ کی دعوت کا محور ایمان باللہ، ایمان بالاخرت اور توحید و رسالت تھا اوربحیثیت داعی الی اللہ آپؐ گتھیوں کو سلجھانے، ایمان کی دعوت دل نشیں پیرایے میں دل میں اتارنے اور قلب و نظر کی دنیا کو فتح کرنے میں مصروف تھے، تومدینے میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے ذریعے حکومت الٰہیہ کے قیام سے اسلام کو مقتدر اور فرماں روا بنانے کی جدوجہد میں سراپا متحرک نظر آتے ہیں۔ مکے میں اگر توحید پر مرمٹنا ، احد احد پکارنا اور اسی پر جم جانا دعوت تھی، تو مدینے میں اللہ کی سرزمین پر اللہ کی حاکمیت کا قیام اور اسی کا نظام دعوت قرار پایا تھا۔(للّٰہ الواحد القھار)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزماں ہیں، نبوت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا۔اب کوئی نبی نہیں آناہے۔قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے لیاہواہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور شریعت بھی محفوظ ہے۔ اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقام ہے۔ فرمایا:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰلعمران۳ : ۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہوجسے انسانیت کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس مشن کو لے کر اس دنیا میں تشریف لائے اور اس کو اعلیٰ ترین صورت میں پورا کیا، پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ اس مشن کی علمبردار بنے۔

واقعات میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس لوٹے۔حضرت فاطمہ ؓ نے بڑھ کردروازہ کھولا، آپؐ کی پیشانی کو بوسا دیا ، آپؐ کو لے کر بیٹھ گئیںاور آپؐ کا سر دھونے لگیں تاآنکہ نبی اکرمؐ کو احساس ہوا جیسے فاطمہ ؓ رورہی ہیں۔ آپ ؐاٹھ کر بیٹھ گئے اور پوچھا فاطمہؓ کیا بات ہے، کیوں روتی ہو؟ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! آپؐ کے بالوں کودھول میں اٹا ہُوادیکھتی ہوں، آپؐ کے بدن پر پیوند لگے کپڑے اور وہ بھی گردآلود دیکھتی ہوں، آپؐ کے چہرہ انور پرتھکن کے آثار دیکھتی ہوں، بیٹی ہوں رونا آگیا۔ نبی اکرمؐ نے یہ سنا تو فرمایا: فاطمہؓ! گریہ و زاری نہ کر، اس لیے کہ تیرے باپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک ایسے منصب پر مامور کیاہے، ایک ایسا مشن اس کے حوالے کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ دین وہاں وہاں پہنچے گا جہاں جہاں سورج کی کرنوں کی پہنچ ہے، اور یہ دین غالب ہو کررہے گاخواہ کوئی عزت کے ساتھ قبول کرے یا ذلت کے ساتھ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غلبۂ دین کی بشارت بھی سنا رہے ہیں اور رہتی دنیا تک اپنی امت کو جدوجہد و کش مکش مول لینے کا خوگر بھی بنا رہے ہیں۔ لہٰذا اقامت دین یا غلبۂ دین کے اس مشن کو لے کر اٹھنا، دعوت الی اللہ کا سراپا بننا، اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر ان کے  رب کی طرف بلانا___ یہی راستہ ہے جو ایمان کی پکار پر لبیک کہنے کا راستہ ہے اور ظلم و جور اور ناانصافی کی طویل رات کو سحر کرنے کا راستہ ہے۔

نبی کریمؐ کے مشن اور غلبۂ دین کی اس جدوجہد نے بیسویں صدی میں اس وقت ایک منظم اور ہمہ جہت جدوجہد کی صورت اختیار کرلی جب برعظیم پاک و ہند میں سیدمودودی علیہ الرحمہ کی امارت میں اسلامی تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی، اور دوسری طرف عالمِ عرب میں حسن البنا کی قیادت میں اخوان المسلمون کی صورت میں اسلامی تحریک کو منظم کیا گیا۔ اسلام کی تعلیمات و افکار اور    نبی کریمؐ کی دعوت کو قرآن وسنت کی روشنی میں علمی استدلال کے ساتھ پیش کیا گیا۔ مغرب کی طرف سے اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج کا کسی مرعوبیت کے بغیر نہ صرف سامنا کیا گیا بلکہ مغرب کے سحر کو توڑتے ہوئے اسلام کو ایک متبادل نظریے اور مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ علمی وفکری محاذ کے ساتھ ساتھ اُمت مسلمہ کی اصلاح اور اُمت کو اس کے فرضِ منصبی اور شہادتِ حق کی ادایگی کے لیے دعوتِ دین کی بنیاد پر تحریکِ اسلامی کی صورت میں ایک منظم قوت میں بدلنے کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز بھی کیا گیا۔ الحمدللہ! آج تحریکِ اسلامی کی صورت میں اُمت مسلمہ نہ صرف ایک منظم قوت کی شکل اختیار کرچکی ہے بلکہ تحریکِ اسلامی اُمت مسلمہ کے روشن اور تابندہ مستقبل کی نوید ہے۔

حق و باطل کا یہ معرکہ برپا ہے۔ اسلام کو نظریاتی برتری حاصل ہے اور تہذیبی و نظریاتی سطح پر مغرب کو عملاً شکست ہوچکی ہے۔ اشتراکیت، سرمایہ داری، لادینیت یا کوئی بھی نظام دنیا کو ایک منصفانہ اور متوازن نظام پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دُنیا چاروناچار اسلام کی راہِ اعتدال کو اپنانے پر مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آڑ میں مسلمانوں کا گھیرا تنگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ امریکا اپنے سامراجی عزائم کے ساتھ، اسلام اور مسلمانوں سے برسرِپیکار ہے۔ افغانستان اور عراق کے غیور مسلمانوں نے جس ہمت و استقامت سے امریکی طاغوت کا مقابلہ کیا ہے اس نے امریکا کو پسپائی پر مجبور کردیا ہے۔ اہلِ پاکستان بھی امریکی غلامی اور جارحیت کے خلاف جدوجہد میں مصروف اور سراپا احتجاج ہیں۔ نبی کریمؐ کے مشن کے مصداق بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر رب کی بندگی کی طرف بلا رہے ہیں اور ظلم و ناانصافی کو مٹاکر عدل وانصاف اور امن کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں۔ گویا عالمِ اسلام میں بیداری کی ایک لہر پائی جاتی ہے، اور اسلامی تحریکیں اس کا ہراول دستہ ہیں، اور نبی کریمؐ کا مشن ایک تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کی یہ جدوجہد اور قربانیاں رنگ لاکر رہیں گی اور نبی اکرمؐ کی بشارت کے مطابق یہ مشن مکمل ہوکر رہے گا اور پوری دنیا پر دین غالب ہوکر رہے گا، ان شاء اللہ!

؎ شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

میاں طفیل محمد ؒجماعت اسلامی کے اکابرین میں ایک نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان جیسی شخصیت اور مزاج کے حامل لوگ اب خال خال دیکھنے کو ملیں گے۔الفاظ کا ذخیرہ زیادہ دیر تک اور دور تک ساتھ نہیں دیتا وگرنہ درویش صفت کہنا، فقیر منش کا عنوان دینا، سادگی کا ان پر ختم ہوجانا اور للہیت کا پیکر ہونا، مزید یہ کہ بے غرضی اور بے نفسی کا سراپا ہونا، ایسی صفات ہیں جو گفتگواور تحریرمیں باربار گنوائی گئی ہیں، فی الحقیقت میاں صاحب مرحوم ان تمام صفات اور خصوصیات کامرقع تھے۔

میاں صاحب پر اللہ کا کرم ہوا کہ ان کا تعارف سید مودودی ؒ سے ہو گیا اور مولاناؒ کو ایک بے ریا، محنتی ، فرض شناس اور حقیقی معنوں میں متقی کارکن میاں صاحبؒ کی صورت میں انعام خداوندی کے طور پر مل گیا۔ دنیوی لحاظ سے تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا تھا کہ شان دار تعلیمی کیرئیر، اپنی ریاست میں پہلا مسلمان وکیل جس کے سامنے بے شمار مواقع و امکانات ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے،اور ریاست کا راجا مُصر تھا کہ ہائی کورٹ کی ججی دلوا دے گا مگر وہ میاں طفیل محمد ہی کیا جو ان چیزوں میں الجھ جاتے۔یہ ساری باتیںفی الحقیقت ان کی نظر میں فروعات کی حیثیت رکھتی تھیں، اصل بات فریضۂ اقامتِ دین تھا۔یہی ان کی بابرکت زندگی کا نصب العین اور جلی عنوان بنا۔ اس نصب العین کی معرفت انھیںسیدمودودیؒ سے حاصل ہوئی۔اس لیے وہ ساری عمر کے لیے سید علیہ الرحمہ کے احسان مند بھی ہوئے اور نیاز مند بھی۔ میاں صاحب ؒ بلاشبہہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سامنے دنیااپنی ساری رعنائیوںکے ساتھ کھڑی تھی مگر اس مردِ درویش نے اس پر ایک نگہِ غلط انداز ڈالنا بھی گوارا نہ کیا۔سچ بھی یہی ہے کہ جو آدمی یکسو ہوجائے اور اپنے مقصدِ حیات کی معرفت حاصل کرلے، اس کے سامنے دنیا کی حیثیت مردار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ علامہ اقبالؒ نے میاں صاحب جیسے لوگوں کے لیے کہا تھا   ع

نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے

بظاہر میاں صاحبؒ نے عسرت اور تنگ دستی کی زندگی گزاری مگر عشقِ الٰہی سے سرشار لوگوں کا نشہ کوئی ترشی اتار نہیں سکتی۔ سیدمودودی ؒ سے ان کی محبت اور عقیدت کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ  وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ میرے محسن ہیںاور مجھے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ہیں۔ جس شخص کے ذریعے انھوں نے زندگی کے نصب العین کو سمجھا اور زندگی کے مقاصد کو پہچانا اور جس شخص کے ذریعے ان میں دنیاداری سے بہت دور اپنے آپ کو بسانے اور دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ بیدارہوا، اس کی قدرومنزلت، دل و دماغ کی دنیا میں اس کا مقام اور اس سے تعلّقِ خاطر ، بلاشبہہ یہ احسان شناسی ہے اور ساری عمر ’’مرہون منت‘‘ رہنے کا عنوان بھی۔یہ میاں طفیل محمدؒ کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسانی قدروں اور اخلاقیات کے ہر تقاضے کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔

میاں طفیل محمدؒ اپنی سوچ اور فکر کے اعتبارسے پختہ راے کے حامل کہے جا سکتے ہیں۔ راے قائم کرنے میں جس بصیرت و بصارت اور فراست کی ضرورت ہوتی ہے، میاں صاحب ان تمام حوالوں سے آراستہ و پیراستہ تھے،اور کبھی کبھی سخت گیری کی حد تک بھی اپنی راے پر عمل درآمدکے لیے کوشاں نظر آتے تھے۔تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ اپنی راے کو پیش کرنے اور کسی مجلس سے اس کی ہم نوائی حاصل کرنے میں جس ملکہ اورجن خصوصیات کی ضرورت پڑتی ہے،بظاہر      میاں صاحبؒ کی شخصیت میں ان کی کمی محسوس ہوتی تھی،اور وجہ یہ ہے کہ وہ معروف معنوں میں زبان آور یا چرب زبان نہیں تھے،اکل کھرے آدمی تھے۔ کم لوگ اس بات کو پوری طرح جانتے ہوں گے کہ میاں صاحب ؒ کی تحریر میں جو جامعیت اور شستگی تھی، ان کی زبان و بیان ہرگز اس کا پاسنگ نہ تھے۔ ان کی تحریر میں بلاغت ،سلاست اور جامعیت ، سبھی کچھ پایا جاتاہے۔ تقریریا گفتگو میں ان کا لہجہ کچھ اورتھا۔ ان کی تحریر میںبعض دفعہ تو سید مودودیؒ کا رنگ جھلکتا نظر آتا تھا۔ جن لوگوں نے میاں صاحب کی دست نوشت تحریر دیکھی ہے، وہ گواہی دیں گے کہ اس میں بھی سیدمودودیؒ کے ساتھ مشابہت موجود تھی۔ اگر میاں صاحب لکھنا شروع کردیتے تو بلاشبہہ آسانی سے مصنّفین کی صف میں شامل ہو سکتے تھے مگر پھر جماعتی ذمہ داریاں کیسے پوری ہوتیں۔

اس میدان میں میاں صاحب کی شخصیت اپنے مقصد زندگی کے علاوہ باقی معاملات سے بے نیاز نظر آتی ہے۔ ابتدا ہی سے جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں، رپورٹوں، ان پر تبصروں اور معاملات و تنازعات کو نمٹانے میں اس حد تک ڈوب کر اپنے آپ کو پانے کا عمل جاری رہا کہ سرکھجانے کی فرصت میسر نہ آتی تھی، اس پر مستزاد تنظیمی دوروں، کارکنوں کی خبرگیری، ان کے دکھ درد سے آشنا ہونے اور ان کی سیرت و کردار کے ہر جھول کو دور کرنے میں میاں صاحب ؒاس قدر مصروف رہے کہ قلم و قرطاس کے ذریعے اپنی تحریر کاذوق لوگوں میں پیدا نہ کرسکے۔ جماعت اسلامی کی رودادوں میں اوربعض دیگرمقامات اور عنوانات کے حوالے سے ان کی بعض تحریریں یا تقریریں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ان کے ذہنِ رسا کی گواہی دیتی ہیں۔ دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات میں ان کا مضمون اس کے باوجود کہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولاناامین احسن اصلاحیؒ کے مضامین کے ساتھ طبع ہواہے ،اپنی انفرادیت منواتا ہے اور ہر پڑھنے والے سے داد وصول کرتا ہے۔

مجھے ان کی کتابِ زیست کے اَن گنت اوراق اپنے سامنے کھلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی مربوط کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جیسے میاں صاحب ؒ نے نماز کو اپنی زندگی کا امام قرار دیاہواتھا۔انھیں نماز پڑھتا دیکھ کرپتا چلتا تھا کہ خاصانِ خدا کی نمازکیسی ہوتی ہے۔ ان کی کتابِ زندگی کی ورق گردانی کریں تو یہ بات واضح ہوجا ئے گی کہ ان کی زندگی کا محور نماز ہے اور نماز کے پرتوسے ان کی زندگی جگمگااٹھی ہے۔جس اہتمام و تیاری سے اور جس درجہ ڈوب کر انھیں ہمیشہ نماز پڑھتے دیکھا گیااورنماز کو باجماعت پڑھنے کی حرص کو ہمیشہ بیدار پایا گیا، ان کا یہ عمل دیکھنے والے کو مجسمۂ حیرت بنا دیتا تھا۔ میاں صاحب اپنی ذات میں اول و آخر جماعت تھے۔ نماز میں بھی باجماعت نماز کے حریص تھے۔ اور خشوع و خضوع ایسا کہ ادھر میاں صاحب نے اُٹھ کر نیت باندھی اور ادھر ان کا رابطہ دنیا سے منقطع ہوگیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی دوسری ہی دنیا میں پہنچے ہوئے ہیں۔ اس قدر ڈوب کر نمازپڑھتے تھے کہ خشوع وخضوع گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ میاں صاحب کو اس عالم میں دیکھ کر کارکنوں کی نمازوں میں بھی نکھار پیدا ہوتاتھا۔ اس طرح کی نماز اپنے رب سے بندے کابراہ راست رابطہ قائم کروا دیتی ہے۔ یہ چیز حاصل ہوگئی تو دونوں جہانوں کی دولت نصیب ہوگئی۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں بینائی سے محرومی کی وجہ سے خود مسجد میں نہیں آسکتے تھے۔ ان کے بیٹے اور بعض اوقات پوتے ان کو مسجد میں لاتے تھے۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ میاں صاحبؒ ان کی اس خدمت پر اتنا شکریہ ادا کرتے تھے کہ یہ لوگ شرمندہ ہوجاتے۔ میاں صاحبؒ اس حوالے سے انفرادیت کے حامل تھے کہ جب نماز کے لیے آتے تو جہاں جگہ ملتی، وہیں نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ کبھی کبھی پچھلی صف میں کھڑے ہوئے، کسی کی نظر پڑ گئی تو اس نے پہلی صف میں جگہ پیش کی تو بڑی مشکل سے اس طرح کی پیش کش قبول فرماتے۔ میاں صاحب ؒ کی خوش قسمتی کا کیا ٹھکانہ کہ انھوں نے اپنی زندگی کی آخری نماز بھی باجماعت ادا کی اور اس روز سب ملنے والوں سے بڑی بشاشت سے ملے اور سب کو دعائیں دیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی کے آخری رمضان کی تراویح مسجد میں آکر پڑھیں اورپوراقرآن کھڑے ہوکر سنا۔ ان کی زندگی سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ نماز سے اس میں نکھار پیدا کیا جائے اور پھر نکھری سنوری زندگی سے نماز کو’ کل سے بہترآج اور آج سے بہتر ہوکل‘ کا عنوان دیا جائے۔

میاں طفیل محمد ؒ نے ایک لمبی عمر پائی اور لمبی عمر کی جتنی آزمائشیں ہوتی ہیں، ان سب سے وہ دوچار رہے۔بینائی کا ختم ہوجانا، سماعت کا حددرجہ متأثر ہونا، جسم وجان کی توانائیوں کا انحطاط و اضمحلال وغیرہ،لیکن ان حوالوں میں سے کوئی حوالہ ان کے لب ولہجے میں تندی و ترشی پیدا نہ کرسکااور گلے شکوے کا کوئی پیرایہ ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکا۔ میاں صاحبؒ ہمیشہ رضا بہ قضا   نظر آئے، صبر وتحمل کا کوہِ گراں دیکھے گئے اور کسی سطح پر بھی احتجاج اور آزار کا پہلو دیکھنے میں نہ آیا۔  کم و بیش ۹۶ سال عمرپانے والا ایک شخص زندگی کے آخری لمحے تک صبر ورضاکا پیکر رہے تو اسے کیا نام دیا جائے اور شخصیت کے اس دریا کو کس کوزے میں بند کیا جائے۔ انسانی سطح پر یہ کردار اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات پر گہرا ایمان رکھنے ، اس کے ہر فیصلے پر راضی رہنے اور اسی سے خیر وصلے کی بھرپور توقع رکھنے والے کا ہی ہوسکتاہے۔

جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد بھی تقریباً ۲۲ سال تک میاں صاحب ؒ جماعت میں رکنیت کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔مجھے یاد ہے کہ جب ۱۹۹۳ء میں پالیسی مسائل پر اختلافات ابھرے تو کئی اہم اور پرانے ذمہ دار حضرات الگ جماعت بنانے کے لیے کوشاں نظر آئے اور سب کو یہ بات واضح طور پر معلوم تھی کہ اس خلفشار میں میاں صاحبؒ کی شخصیت فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے، اختلافِ راے اور اظہارِ راے میں وہ پیش پیش بھی تھے لیکن ایک ایسی مجلس میں جس میں بالآخر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ ہوناتھا، میاں صاحب محترم نے یہ کہہ کربہت سوںکو ورطۂ حیرت اور بعض کو سکتے میں ڈال دیاکہ ’’ہم الگ جماعت کیوں بنائیں، ہماری جماعت تو جماعت اسلامی ہے، اگر اس میں خرابیاں ہیں تو ہم انھیں دُور کریں گے، اگر یہ اپنی منزل سے ہٹ رہی ہے تو اصلاح کریں گے‘‘۔ مزیدارشاد فرمایا: ’’اب سے پہلے جو لوگ جماعت سے الگ ہوئے اور ان میں سے بعض نے نئی جماعت بنانے کی کوشش کی، ان سب کی کارکردگی اور انجام کس سے مخفی ہے، لہٰذا ہم اندھیرے میں تیر چلانے کے بجاے جو کچھ نظروں کے سامنے ہے،اس کی کمزوری کو رفع کریں گے اور پوری جماعت کو صحیح رخ پر استوار کریں گے‘‘۔

میاں صاحب کے اس عزم نے اَن گنت لوگوں کو اپنی راے پرنظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔اس کے بعد ۱۶ سال تک میاں صاحبؒ جماعت میں رہے، خود بھی یکسوئی اور انشراح صدر کا پیکر بنے رہے اور جماعت کے ذمہ داران کو بھی تمام امور میں مشورہ دیتے رہے اور ان کے کیے کی تحسین کرتے رہے۔شفقت اور سرپرستی کا مظاہرہ بھی جاری رہا اور کہنے سننے کے دروبست بھی  کھلے رہے۔غرض میاں طفیل محمدؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،اپنی سوچ اور فکر میںتحریک اور انقلاب تھے اور اپنے عمل اور جستجو میں بامقصد اور باعمل تھے۔ ایک پورا دفتر ان کی زندگی کے  مختلف گوشوں کو بیان کرنے کے لیے کھولا جاسکتاہے۔ انفرادی سطح پرخوشہ چینی اور ان سے سیکھنے کے اَن گنت حوالے موجود ہیں۔ اور یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ  ع

بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 

تمام تعریفیں اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے سزاوار ہیں۔ درود و سلام ہو انبیا علیہم السلام، خصوصاً خاتم النبیین پر، آپؐ کے اصحابِ کرام اور اہلِ بیت پر اور اُمت کے صدیقین، شہدا اور صالحین پر۔

سب سے پہلے میں اپنے آپ کو اور اس کے بعد تحریکِ اسلامی کے تمام وابستگان اور  محبان کو اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ موت کو یاد رکھنے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کی تاکید کرتا ہوں۔ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچی محبت دل میں بسانے اور آپؐ کی اتباع کی تاکید کرتا ہوں۔

مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی ذمہ داری (چھوٹی ہو یا بڑی، جُزوی ہو یا کُلّی) دینی  نقطۂ نظر سے نہایت سنجیدہ، نازک، گراں بار اور آزمایشوں سے پُر فریضہ ہے۔ اگر بے طلب ملی ہو تو حدیثِ مبارکہ کے مطابق اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کی تائید و نصرت اور رہنمائی و دست گیری کی اُمید رکھنی چاہیے۔ بس یہی احساس ہے جس کے نتیجے میں، جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی گراں بار ذمہ داری کا حلف میں نے اٹھایا ہے۔ کہنے کو تو یہ حلفِ امارت محض چند فقرے ہیں، لیکن انھیں  پڑھ کر ذمہ داریوں، تقاضوں اور جواب دہی کے اُمور کا ایک پہاڑ ہے جس کے نیچے انسان آجاتا ہے۔ ایسے میں خلیفۃ الرسولؐ، ثانی اثنین، رفیقِ بے مثل حضرت ابو بکر صدیقِ اکبرؓ کا وہ ارشاد یاد آرہا ہے کہ ’’لوگو!میں تمھارا امیر بنا دیا گیا ہوں۔ میں ہرگز تم سے بہتر اور برتر نہیں ہوں۔ سو، اگر میں سیدھے راستے پر چلوں تو میری مدد کرواور اگر کجی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے…… جب تک میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اِطاعت کروں، تم میری اطاعت کرو اور اگر میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کروں تو تم لوگوں پر میری اطاعت لازم نہیں‘‘۔ اسی طرح امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتے وقت اپنے احساسات جن الفاظ میں بیان فرمائے، وہ بھی دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔

جماعت اسلامی کی امارت اگرچہ پوری اُمت کی امارت کی مانند تو نہیں، لیکن بہرحال   یہ جماعت، اسلام کی نشاتِ ثانیہ اور غلبۂ دین، بلکہ اِقامتِ دین کے لیے برپا عصرِحاضر کی نہایت اہم اور کلیدی تحریک ہے۔ محترم سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، محترم میاں طفیل محمد اور محترم قاضی حسین احمد کے بعد ارکانِ جماعت نے مجھے امارت کا بوجھ اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ اپنی تمام تر کمزوریوں اور اپنے احساسِ کم مایگی کے باوجود میں نے جماعت کے طے شدہ طریقِ کار اور دستوری نظام کی پاسداری کرتے ہوئے حلفِ امارت اس اُمید پر اٹھا لیا ہے کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کی دعائوں، مشوروں، تعاون اور نظامِ جماعت کی برکتوں کے طفیل مجھے اپنی رحمت و برکت اور تائید و نصرت سے نوازے گا۔ ہم سے کام تو اُس کو لینا ہے۔ ہم اپنی ایڑیاں رگڑتے رہیں گے، چشمہ نکالنا اُس کا کام ہے۔ سو میرے بھائیو اور بہنو! میری گزارش ہے کہ اپنے اس بھائی کو اپنی دعائوں میں شامل رکھیے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ میرے مزاج کے حوالے سے بہت سے رفقا کو گلہ ہے کہ اس میں تیزی اور تندی ہے۔ یقین رکھیے یہ تیزی یا تندی اﷲ اور اس کے دین کے لیے ہوتی ہے۔ ذاتی پرخاش سے میں اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ تاہم دعا کیجیے کہ میرے تحمل میں اضافہ ہو، مزاج کی تیزی اور تندی، نرمی اور حلاوت میں تبدیل ہو جائے۔ حق اور راستی کے سامنے میرا دل و دماغ اور مزاج و طبیعت ویسے ہی سرافگندہ ہوجایا کریں جیسے خلیفۂ بے مثل سیدنا عمر فاروقؓ کے معاملہ میں دنیا نے دیکھا اور برتا۔

جماعت اسلامی میں امارت کی تبدیلی کئی اہم اور تابناک پہلو رکھتی ہے۔ صرف دو کا تذکرہ تحدیثِ نعمت ِ اجتماعی کے لیے کرنا چاہوں گا:

ا - جماعت اسلامی پاکستان کا کوئی امیر دوسرے امیر کا نہ رشتہ دار ہے، نہ ہم قبیلہ۔ ان کے خاندان جدا ہیں۔ ان کی نسلی اور علاقائی شناخت الگ ہے۔ ان کے درمیان صرف ایک تعلق اور رشتہ ہے، مقصد اور مشن کا۔ یہ بات اس برعظیم (پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش) کے معمول اور رواج میں بڑی حیران کن بھی ہے اور منفرد و ممتاز بھی۔

ب- جماعت میں امارت کے انتخابات ایک تسلسل اور تواتر سے ہوتے رہے ہیں۔ کسی ایمرجنسی میں، کسی ہنگامی صورت حال میں اور کسی بھی بحران میں انتخابِ امیر کا عمل نہ رُکا ہے اور نہ مؤخر ہوا ہے۔ بڑی باقاعدگی سے ہر پانچ سال کے بعد امیر کا انتخاب ہوتا ہے۔ دستور کی دفعات کی پابندی کرتے ہوئے مجلسِ شوریٰ کے طے کردہ ضوابط اور جماعت کی مستحکم روایات اور طریقِ کار کے مطابق جماعت اپنے امیر کا انتخاب کرتی آئی ہے۔ اس میں نہ کوئی امیدوار ہوتا ہے، نہ انتخابی مہم چلتی ہے، نہ بوگس ووٹنگ ہوتی ہے، نہ کوئی جیتتا ہے، نہ کوئی ہارتا ہے، نہ انتخاب کے بعد الزامات کا تبادلہ ہوتا ہے اور نہ کوئی تلخی ہی پیدا ہوتی ہے۔

اَللّٰہُ اَکبَرُ اَللّٰہُ اَکبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ۔ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَ لَکَ الشُّکْرُ

ہم جیسے انسانوں کی اجتماعیت اگر اِن خوبیوں سے مرصع ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ اس پر  اﷲ کا ہاتھ ہے اور یہ ہاتھ اُس وقت تک رہے گا جب تک ہماری اجتماعیت میں خلوص اور خیر غالب رہے گا۔ اللھم زد فزد۔

جماعت اسلامی ۱۹۴۱ء میں قائم ہوئی۔ پاکستان بننے کے بعد اس کی تنظیمِ نو ہوئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس جماعت کا بنیادی مقصد اﷲ کے بندوں کو اﷲ کی بندگی کی طرف بلانا رہا ہے، دین و ملت کو کمزوری و مغلوبیت سے نکال کر قوت و سرفرازی اور غلبہ و عملداری کی طرف لے جانا رہا ہے۔ اس لیے یہ ’اقامتِ دین‘ کی تحریک ہے۔ یہ دین کو جزوی اور سطحی طور پر نافذ کرنے کی نہیں، اس کو مکمل، صحیح اور جامع صورت میں قائم کرنے کی تحریک ہے۔ یہی ہمارا نقطۂ نظر ہے، ہمارا مطمحِ نظر ہے، ہماری زندگی کا مشن ہے۔ اس کام کو ہم بہت سے کاموں میں سے ایک نہیں، بلکہ اصل، بنیادی اور مرکزی کام سمجھتے ہیں۔ اسی میں اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کی رضا اور اُس کی جنت تک جانے کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ بقول سید مودودیؒ ہم دنیا کے دیگر کام تو زندہ رہنے کے لیے کرتے ہیں، مگر زندہ ہیں رضاے الٰہی کی طلب میں اور اِقامتِ دین کی جدوجہد کرنے کے لیے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ’اقامتِ دین‘ کے لیے انفرادی، جزوی اور منتشر جدوجہد نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ اس مقصد کے لیے اجتماعی، ہمہ پہلو، ہمہ گیر، جامع، مربوط، مسلسل اور منظم جدوجہد درکار ہے۔ گویا ’اقامتِ دین‘ کے لیے ’اِقامت ِ جماعت‘ ضروری ہے۔ اسی لیے ہم نے اپنی فہم کے مطابق ایک نظامِ جماعت بنایا ہے۔ جماعت اسلامی، اس کا دستور اور ادارے ’اقامت ِ جماعت‘ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہیں اور خود جماعت ’اقامت ِ دین‘ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں جماعت اسلامی کسی خاص گروہ، قبیلہ، رنگ، نسل، زبان، علاقے، فرقے، مسلک کے لوگوں کی جماعت نہیں اور نہ ہماری دعوت کی بنیاد ہی ان میں سے کسی بات پر ہے۔ یہ ایک اصولی اور نظریاتی جماعت ہے۔ یہ اسلامی نظریہ و نظام اور معاشرہ و تہذیب کی طرف بلاتی ہے۔ یہ جماعت تو اپنے امیر کی طرف بھی نہیں بلاتی بلکہ خالص اور مکمل دین کی بات کرتی ہے، مسلمانوں کو اس کے تقاضوں کی یاد دہانی کراتی ہے، اور غیرمسلموں کو بتاتی ہے کہ قرآن    ہمارے لیے بھی ہے اور تمھارے لیے بھی۔ یہ ہمارے اور تمھارے رب کی طرف سے آیا ہے اور یہ کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہر انسان کے لیے رحمت و ہدایت کی روشنی بن کر آئے تھے۔ آئو  ہم سب اس روشنی سے اپنی زندگیاں منور کر لیں۔

’اِقامتِ دین‘ کا تصور دین کی اجتماعی عمل داری میں خلل واقع ہونے اور ملّت کی  عمارتِ اجتماعی کے منہدم ہونے سے ابھر اہے۔ یوں تو یہ فریضہ پوری امت پر عائد ہوتا ہے کہ  دین کو پھر سے قائم کر کے دنیا کو اس کی برکتوں میں شریک ہونے کی دعوت دے۔ مگر بدقسمتی سے سب لوگ اس کام میں شریک نہیں۔ لہٰذا ہم نے اس آیت کے مصداق یہ جماعت بنائی ہے جو اِقامتِ دین کا مشن لے کر مسلسل مصروفِ عمل ہے۔ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴)

جماعت نے اپنی جدوجہد کے لیے قرآن و سنت کی رہنمائی میں جو طریقِ کار طے کیا ہے، وہ اس کے دستور اور بنیادی لٹریچر میں درج ہے۔ ہماری جدوجہد اسی کے مطابق ہے، مسلسل جدوجہد۔ لیکن ظاہر ہے کہ غلبۂ دین کی جدوجہد نہ ماضی میں آسان تھی اور نہ آج سہل ہے۔ اس میں طبیعتوں اور مزاجوں کی آزمایشیں بھی ہیں اور جی جان کا زیاں بھی۔ حصولِ دنیا پر قدغنیں بھی ہیں اور صبر و ثبات کی مشکل گھاٹیاں بھی۔ تھکا دینے والی ’اَن تھک‘ سعی و جہد کا لامتناہی سلسلہ بھی ہے اور نت نئے چیلنجوں اور تقاضوں کا کوہِ گراں بھی۔۔۔ اِقامتِ دین اور رضاے الٰہی کی مسلسل جدوجہد کے پل صراط سے گزرنے کے لیے مضبوط ایمان، پختہ ارادہ، گہری بصیرت، دانائی و حکمت، دل موہ لینے والا حسنِ اخلاق، مستحکم اور جاذبِ نظر شخصیت، خلوصِ نیت اور دل کی لگن درکار ہے۔ ورنہ لذات و خواہشات کے اس بت خانۂ جہاں میں پوری عمر کا سودا کر کے اسے دمِ آخر تک نبھانا کس کے بس میں ہے۔ ہم یہ خصوصیات اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پیدا کریں اور پھر اپنے رب کی مدد کے اُمیدوار ہوں، تب بات بنے گی۔ تبھی بات بن سکتی ہے۔

آج پوری دنیا اور خصوصاً ملتِ اسلامیہ کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی وسعت و سُرعت نے سب پر سب کچھ عیاں کر دیا ہے۔ اب صرف وہی بے خبر رہ سکتا ہے جو بے خبر رہنے کا طے کیے بیٹھا ہو۔ ورنہ استعمارِ جدید اور اس کی یلغار، اس کا ایجنڈا اور اس کی پیکار، اس کا طریقِ واردات اور اس کے ہتھکنڈے اور ہتھیار تو ظاہر و باہر ہیں۔ ان کی تفصیل کا نہ یہ موقع ہے اور نہ اس کی ضرورت۔ البتہ اگر ضرورت ہے تو اس بات کی کہ پوری امت کو خصوصاً اور کرۂ ارض پر آباد بنی آدم کو عموماً بیدار کیا جائے، ہوشیار کیا جائے اور تبدیلیِ حالات کے لیے آمادہ و تیار کیا جائے۔ یوں بھی یہ دنیا اب عالم گیریت (globalization) کے مرحلے میں ہے۔ ہر ایک ہر ایک سے متعلق ہو گیا ہے، سب لوگ سب لوگوں سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ کوئی اگر چاہے کہ دنیا سے، احوالِ دنیا سے، حوادثِ زمانہ سے کٹ کر، لاتعلق ہو کر جی سکتا ہے تو کم از کم اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ سب ایک دوسرے سے متاثر ہوتے اور ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ عالمی طور پر مربوط ایسی دنیا میں آنکھیں کھلی رکھنا، ذہن و قلب کو بیدار رکھنا اور ’’چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو‘‘ کا مصداق بننا ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ آپ ہوں، آپ کی مربوط و منظم جدوجہد ہو، عام آدمی کی سطح پر آپ معاشرے میں موجود اور اس سے جُڑے ہوئے ہوں، آپ کی پشت پر انسانوں کا بحرِ بیکراں ہو، ایک مشن کی لگن ہو، نقشۂ کار واضح ہو، منزل کا پتا یاد ہو، جذبے صادق ہوں، اﷲ پر بھروسا ہو، نظم و ضبط اور ڈسپلن کا بے مثل مظاہرہ ہو، اپنے وقت، صلاحیت اور مال کا بیش قدر حصہ تحریک کی جھولی میں ڈالنے کا جذبۂ فراواں ہو اور صبر و حکمت کی ڈھال ہو تو منزلیں خود پکارتی چلی آتی ہیں۔ توسیعِ دعوتِ دین کی منزل، غلبۂ دینِ مبین کی منزل، رضاے ربِ متین کی منزل۔۔۔!!

ہم کسی کے دشمن نہیں، کسی کے بدخواہ نہیں اور نہ کسی انتقامی طرزِ فکر کے علَم بردار ہیں۔ تمام بنی نوعِ آدم سے ہمیں ہمدردی ہے، ہم اُن کے خیرخواہ ہیں اور اِسی لیے ہماری دعوت کے مخاطب ہرملک اور خطے میں بسنے والے تمام انسان ہیں، خواہ اُن کا تعلق کسی رنگ و نسل سے ہو، کسی جنس و ذات سے ہو، یا کسی مذہب و مسلک سے۔ ہمارے دین نے ہر انسان کو ایک خاص نوعیت کی آزادی عطا کی ہے۔ ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور دوسروں سے اپنے اِسی حقِ آزادی کے احترام کا تقاضا کرتے ہیں۔ اپنی آزادی کا تحفظ ہمارا حق ہے۔ اگر کوئی ہماری یہ آزادی سلب کرنا چاہے تو یقینا ہم اپنے دفاع کا بھی حق رکھتے ہیں۔ مسلمان اور خصوصاً ’ملّتِ اسلامیہ پاکستان‘ جن استعماری حملوں کی زد میں ہے، اُن سے بچائو ان کا حق ہے اور اس میں ان کا ساتھ دینا ساری دنیا کے انسانوں کا فرض ہے۔

اﷲ کی یہ دنیا ہمیشہ تبدیلیوں کی زد میں رہی ہے، مگر تبدیلیوں اور انقلابات کی جو رفتار آج ہے، غیرمعمولی واقعات کے ظہور کا جو سلسلہ اب ہے، یہ پہلے نہیں تھا۔ ہم نے اپنی حیاتِ مستعار میں ملکوں کو ٹوٹتے اور بنتے، سپر پاورز کو ابھرتے اور ڈوبتے، غیرمعمولی کائناتی وسائل کو انسان کی گود میں تیزی سے گرتے، ممولوں کو شہبازوں سے پنجہ آزمائی کرتے اور دیوِ استبداد کو برف کی طرح پگھلتے دیکھا ہے۔ پچھلے چند عشروں میں ناقابلِ شکست کو سرنگوں ہوتے، ناقابلِ تسخیر کو مسخر ہوتے اور اٹل سمجھی جانے والی شے کو ٹلتے بلکہ پلٹتے دیکھا ہے--- جی ہاں پچھلے چند عشروں میں دنیا نے   یہ سب دیکھا ہے اور حیرت سے دیکھا ہے۔ مگر ہم حیران نہیں۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ (القصص ۲۸:۸۸)’’ہر شے ختم ہو جانے والی ہے، اُس ذاتِ لافانی     کے سوا‘‘۔ وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ (اٰلِ عمران ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے  نشیب و فراز ہیں، جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔

تیزی سے بدلتے اس جہاں میں خدشات و بلیّات کی کالی گھٹائیں بھی ہیں اور مواقع اور برکتوں کے روشن امکانات بھی۔ دنیا بدل نہ رہی ہو تو اسے بدلنا اور اپنے مطلب کی بدلنا بہت دشوار و محال ہے۔ مگر جب سب کچھ بدل رہا ہو، بار بار بدل رہا ہو، ہر نسل ایک جہانِ نو کا مشاہدہ کر رہی ہو تو ایسے میں دنیا کو اپنے خوابوں کے مطابق بنانا، اپنی امنگوں اور آرزوئوں کے سانچے میں ڈھالنا اور اپنے اصولوں کی بنیاد پر استوار کرنا اس سے کم دشوار و محال ہونا چاہیے۔ امکانات کے در کھلتے اور کام کے مواقع بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اسی کے ساتھ جہانِ نو کے چیلنج اور تعمیرِ جہاں کے منہ زور تقاضے بھی سیلِ بلا کی طرح سر پر کھڑے ہیں۔ حکمت و تدبر، صبر و تحمل اور جرأت و حوصلے کے ساتھ قدم بڑھا کر ہم بدلتی دنیا پر اپنا نقش ثبت کر سکتے ہیں۔ پگھلتا لوہا دستیاب ہے، اپنے سانچے میں انڈیلنے اور مطلوبہ پراڈکٹ حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ وقت،  زیادہ صلاحیت، زیادہ یکسوئی، زیادہ اتحاد و اتفاق اور اسی کے ساتھ زیادہ اخلاص، زیادہ حسنِ اخلاق اور زیادہ تعلق باﷲ۔ یہ ہمارا زادِ راہ ہے۔

ہمارا ملک پاکستان بظاہر ایک جغرافیائی وجود ہے مگر اس کی اصل و بِناے حیات ’اسلام‘ ہے۔ اسلامی اقدار، اسلامی اخوت، اسلامی تصورِ حیات، اسلامی نظامِ حیاتِ اجتماعی اور اسلامی تہذیب و تمدن ہی سے ہمارے ملک کی بقا، استحکام، سرفرازی اور ترقی ممکن ہے۔ اسلام اور اسلامی اقدار کے خلاف جو کچھ کیا جارہا ہے، چاہے وہ کسی کے دبائو پر ہی کیوں نہ ہو، یہ دراصل ملک و ملت کی بنیادیں کھوکھلی کرنے اور شجرِ ملت کی جڑیں کھودنے کے مترادف ہے۔ ایسا کرنے والوں کو ہمیں سمجھانا ہوگا، اس کام سے روکنا ہو گا، ملت کو اس کے لیے بیدار اور متحرک کرنا ہو گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے موقف، نظریے، طریقِ کار اور جدوجہد پر ہمیں کامل یکسوئی حاصل ہو، اور اس پر پختہ اعتماد و یقین کے ساتھ ہمارے دل پوری طرح مطمئن ہوں۔

قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo(الانعام ۶:۱۶۱-۱۶۳) اے نبیؐ! کہیے، میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑکا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہیے، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اِسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔

آئیے! دنیا کے موجودہ نظریاتی، روحانی اور ایمانی خلا کو اپنے دین کے بخشے ہوئے ایمان و اخلاق سے پُر کر دیں۔ راہِ نجات کی متلاشی دنیا کو ربانی ہدایت کے چشمۂ صافی سے سیراب کردیں۔ استعمارِ عہدِ حاضر کے ہاتھوں برباد ہوتی انسانیت کو رحمت للعالمینؐ کے نسخۂ کیمیا سے شفایاب ہونے کی راہ دکھا دیں۔

جماعت اسلامی اپنی عمر کے تقریباً ۷ عشرے پورے کر چکی ہے۔ اس کا نظام، اجتماعی دانش اور باہمی مشاورت سے چلتا ہے۔ اس میں یک لخت کوئی تبدیلی لے آنا نہ تو ممکن ہے اور نہ مفید۔ لیکن وقت و حالات کے تقاضوں کو اپنے اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے پورا کرنا ضروری بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنے بزرگ ساتھیوں، اپنے رفقاء کار اور اپنے بہی خواہوں کے مشوروں سے جماعت کا نظام چلائوں اور اہداف کے حصول کے لیے مناسب اِقدامات کروں۔ اس سلسلے میں ہم مرکزِ جماعت میں ایک شعبۂ تجاویز قائم کر رہے ہیں۔ جماعت کا کوئی بھی کارکن یا بہی خواہ اپنی تجاویز اور مشورے ہمیں ارسال کرے گا تو ہم اس شعبے میں انھیں باقاعدہ زیرِ غور لائیں گے اور جماعت کی اجتماعی بصیرت اور نظامِ مشاورت کے مطابق حتی الامکان مفید تجاویز پر عمل کی کوشش کریں گے۔ تاہم یاد رہے کہ تجاویز اور مشوروں میں سے بعض کو ہی اختیار کرنا ممکن ہوتا ہے۔

اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ امت اور تحریکِ اسلامی کے سامنے نت نئے ابھرتے چیلنجوں اور    وقت و حالات کے سیلابِ بلاخیز کے مچلتے تقاضوں کا ہمیں پورا شعور دے۔ ان کا سامنا کرنے کے لیے پہاڑ سے زیادہ مضبوط ایمان دے۔ صبر و حکمت سے تبدیلیِ حالات کا رخ اپنے نقشے کے مطابق موڑنے کی قوت و طاقت دے۔ ہماری دعوت، موقف اور جدوجہد کی قبولیت کے لیے اپنے بندوں کے دل کھول دے۔ ہماری بے کسی و ناتوانی کو زور اور قوت میں بدل دے۔ ہماری خامیوں اور کوتاہیوں کو اپنی رحمت سے دور فرما دے۔ ہم سے راضی رہے اور ہمیں اپنے آپ سے     راضی رکھے۔ دنیا میں بھی ہماری جدوجہد کے ثمرات و برکات دکھا کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی کرے اور آخرت میں ہمیں نبیِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت و قربت کا اعزاز بخشے، آمین!

میرے لیے خصوصی دعا فرمائیے کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ مجھے صحت و توانائی، علم و حکمت،  ایمان و اخلاقِ حسنہ، قوتِ فیصلہ و نافذہ، تدبر و بصیرت، بہترین اعوان و انصار اور محبان و مشیران کی نعمتوں سے متمتع کرے تاکہ آپ کا یہ نیا امیر خود بھی سرخرو ہو اور پوری جماعت کی سرخروئی کا بھی سبب بنے۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (البقرہ ۲:۱۲۷)

وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرہ ۲:۱۲۸)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے ملت اسلامیہ کو درپیش جن حالات میں غلبۂ دین کی تحریک کا نقشۂ کار پیش کیا اور عملاً اس تحریک کو برپا کیا، اس دور کی دو خصوصیات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں___ اول یہ کہ یہ نظاموں کی کش مکش کا دور تھا۔ ایک طرف مغرب کی لبرل تہذیب اور اس کا سرمایہ دارانہ نظام تھا جو اژدھے کی طرح پوری دنیا کو نگل رہا تھا اور اس نظام کی چکا چوند نے پورے عالم کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ دوسری طرف مشرق سے ابھرنے والا کمیونزم اور سوشلزم کا نظام تھا جو غربت کو ختم کرنے ، انسانی مساوات قائم کرنے اور سرمایہ داری کے چنگل سے لوگوں کو نجات دلانے کے خوش کن اور پرکشش نعروں اور فلسفے پر مبنی تھا لیکن یہ دراصل انسانوں کے لیے آمریت کا ایک شکنجہ تھا۔

ان دونوں نظاموں کے درمیان فکری اور نظریاتی سطح پر، اور فلسفے اور سلوگن کی سطح پر ایک آویزش تھی ،لیکن عملاً خود مغربی دنیا کی بعض اکائیاں بھی سوشلزم کی کسی نہ کسی شکل کی دلدادہ بن گئی تھیں۔ مزدور اور کسان، طالب علم اور جوان ،دانش وراور اہل قلم اور صحافی، نیز مظلوم و محروم طبقات کے دبے اور پسے ہوئے افراد ذہناً اشتراکیت کے اسیر ہو چکے تھے اور مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشروں میں رہنے کے باوجود سوشلزم کا راگ الاپتے اور اسی کی مالا جپتے تھے۔

اس پس منظر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اسلام کو ایک مکمل اور مبنی برحق اور منصفانہ نظام کی حیثیت سے از سرنو پیش کیا، جو ایک طرف فرد کی سطح پر اس کو آسودگی ، سکون اور سکینت فراہم کرتا ہے، اسے انشراح صدر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے اور ذہنی اور فکری کجی کو ہروسوسے اور شک سے پاک کرتا ہے۔ دوسری طرف افراد پر مشتمل معاشرے کو اپنے اداراتی نظام سے امن و سکون اور عدل و انصاف کی دولت سے بھی مالا مال کرتا ہے ، ضروریات زندگی بھی فراہم کرتا ہے اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب سے جوڑ کر انسانی مساوات، آزادی، اخوت اور انصاف پر مبنی نظام قائم کرتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے کیپٹلزم ، نیشنل ازم ، کمیونزم اور سوشلزم کی خرابیوں اور کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا۔ ان کے نعروں اور دعوئوں کو کھوکھلا اور    بے وقعت ثابت کیا اور انسانی ضروریات کو انسانوں کے رب ، وحیِ الٰہی اور نبوت کی کرشمہ سازیوں سے بھی متعارف کرایا۔ اس لیے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ نظری طور پر تمام نظاموں کے مقابلے میں اسلام بحیثیت نظام زندگی کے قابل قبول ، قابل عمل اور ایک ایمانی اور اخلاقی پیکج کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو گیا۔

اس دور کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ عقلیت (rationalism)کا دور تھا جو چیزوں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول کرتا، یا رد کرتا ہے۔ اس دور کا یہ دعوٰی تھاکہ عقل ہی معراج انسانیت ہے اور اسی کو زندگی کے تمام دائروں میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مولانا مودودی ؒ نے اسلامی تعلیمات ، اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کے حوالے سے جس بحث کو چھیڑا اس نے عقل کو بھی دنگ کر دیا اور اسلام بحیثیت نظام کے عقل اور استدلال ، فلسفہ اور نظریہ اور انسانی ذہن میں اٹھنے والے سارے سوالات و اعتراضات کا مسکت جواب فراہم کرتا چلا گیا۔ ا س طرح سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اس دور کے انسان کو عقلی طور پر بھی اپیل کیا اور قرآن و سنت کی تعلیم میں جو فطری کشش اور جذب و انجذاب کی خوبیاں ہیں، ان سے بھی متاثر کیا۔ مولانا مودودیؒ کی اس تحریک نے بالآخر جماعت اسلامی کا روپ دھارا اور اب اسے قائم ہوئے ۷۰ سال ہونے کو آئے ہیں۔ وقت بدلا ہے ، حالات بدلے ہیں ، کمیونزم اپنی جولانیاں دکھا کر اور چار دانگ عالم میں اپنا چرچا کرکے اور بظاہر ایک عالم کو اپنے حق میںاستوار اور متحیر کر کے ہوائوں میں تحلیل اور فضائوں میں گم ہوچکاہے، اس کی ریاست منتشر ہو چکی ہے ، اس کا فلسفہ بکھر چکاہے اور اس کا نظریاتی تار و پود ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا، اور وہ جو بیچتے تھے ۷۰ سال سے دواے دل وہ دکان اپنی بڑھا چکے ہیں۔

اس عرصے میں دنیا نے نیشنلزم کے حوالے سے بھی ان گنت تجربات کیے مگرمنہ کی کھائی ، خود اپنے پیر پر کلہاڑی ماری، اور پوری کی پوری انسانیت کو آگ اور خون کے دریا سے گزارا، اور اب نیشنلزم میں وہ اپیل ہے نہ جاذبیت اور کشش ، اور ایک نظام زندگی کی حیثیت سے ہرچند کہیں کہ ہے پر نہیں ہے والی صورت سے دوچار ہے۔ مغرب کا تہذیبی اور سرمایہ دارانہ نظام ، بلندیوں اور عروج کی ان گنت منازل سے گزرنے کے بعد اب کسی حقیقی پیغام اور مستقبل کی رفعتوں اور اُمنگوں سے عاری ہونے کا اعتراف کر رہاہے۔ اس نظام اور تہذیب کا امام امریکا اپنی اور اپنے اتحادیوں کی اور ناٹو کی فوجوں سے انسانیت پر حملہ آور ہے۔ ڈیزی کٹر اور کلسٹر بموں کی بارش ہے۔ انسانوں کی تباہی کا ہر عنوان دور تک سجا ہواہے لیکن اس نظام کے پاس انسانیت کے لیے ظلم اور بربادی کے علاوہ کوئی پیغام نہیں۔

گذشتہ کم و بیش آٹھ عشروں میں دنیا بھر میں متعدد اسلامی تحریکیں اٹھی ہیں۔ رجوع الی اللہ کے عنوان سے اٹھی ہیں ، بندوں کو بندوں کے رب کی طرف لے جانے کے پیغام کے ساتھ اٹھی ہیں، ففروا الی اللّٰہ کا مصداق بننے والوں کی تحریکیں اٹھی ہیں، اوردنیا بھر میں امریکی استعمار اور سرمایہ دارانہ تہذیب کے مظالم کے مقابلے میں دعوت، جدوجہد اور قربانی کے کلچر نے فروغ پایا ہے۔ تاریخ کے لمحۂ موجود میں     ؎

سالارِ کارواں ہے میرِحجازؐ اپنا

اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا

مصطفوی ؐ تہذیب اور مصطفویؐ کارواں منزل سے قریب تر ہو رہاہے اور تمام شیطانی اور طاغوتی قوتیں مکمل شکست اور ہزیمت سے دوچار ہوا چاہتی ہیں-

جماعت اسلامی کو اپنی ہم عصر تحریکوں میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پہلے دن سے تنظیم جماعت کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دی۔ مولانا مودودی ؒ نے ابتدا ہی میں یہ بات   بار بار دہرائی تھی کہ بدی ہر دائرے کے اندر منظم ہے، جب کہ نیکی منتشر ، اکیلی اور تنہا ہے لہٰذا نیکی اور بدی کے مقابلے میں ناگزیر ہے کہ نیکی اور خیر کی تمام قوتوں کو بھی منظم کیا جائے۔ انھیں پلیٹ فارم فراہم کیا جائے اور ایک سوچی سمجھی حکمت عملی سے آراستہ و پیراستہ کر کے ایک لمبی اور صبر آزما جنگ کے لیے انھیں تیار کیا جائے۔ اہداف اور مقاصد کو کھول کر بیان کیا جائے۔ منزل کا شعور اور  نشاناتِ منزل سے آگاہ کیا جائے اور قرآن و سنت کی تعلیم کو لے کر اٹھنے اور دنیا پر چھا جانے کا نقشہ اور فلسفہ دو اور دو چار کی طرح ذہنوں میں اتارا جائے۔

جماعت اسلامی نے روز اول ہی سے جہاں کرنے کے کام متعین کیے تھے، وہیں انھیں ایک منصوبے ، پروگرام اور نظام الاوقات کا آہنگ بھی دیا۔ ۲۰۰۸ء کو مرکزی مجلس شوریٰ نے دعوت کا سال قرار دیا ہے۔ شوریٰ کا اصل ہدف یہ ہے کہ کارکن کو رابطہ عوام کی طرف خصوصیت سے متوجہ کیا جائے۔ دعوت الی اللہ کی طرف لوگوں کو بلانا، فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، ان کی ضروریات اور مسائل سے ہم آہنگ ہو کر بھی اور اس سے ماورا آخرت کی جواب دہی، اللہ کی رضا اور حصول جنت کے لیے بھی۔

جماعت اسلامی ایمان کی تازگی، ذہنوں کی آبیاری ، قلب و نظر کی تبدیلی ، سوچ وفکر اور زاویۂ نگاہ کی پاکیزگی کو انقلاب اور اسلامی نظام کے برپا ہونے کا پہلا قدم سمجھتی ہے۔ جس معاشرے میں تعلق باللہ کی وافر مقدار موجود نہ ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق خاطر اور عشق میں ڈوبا ہوا اتباع اور پیروی کا جذبہ مفقود ہو، اس معاشرے میں اٹھنے والی انقلاب کی لہریں کسی پاکیزہ ، بابرکت اور پایدار اسلامی انقلاب کی دستک ثابت نہیں ہوتیں۔ اس اعتبار سے جماعت کی پوری تنظیم کے لیے ناگزیر ہے کہ دعوتی مہمات کو شیڈول کے مطابق مرتب کیا جائے ، ضلعوں کی سطح پر یہ مہمات چلیں ، عوامی رابطے اور ممبر سازی کاکام کریں ، صوبائی نظم ا ن کی نگرانی کریں ، صوبے کی سطح پر بننے والی دعوتی کمیٹیاں ، دعوتی مہمات کے لٹریچر اور سرگرمیوں کو قریب سے دیکھیں اور پوری جماعت اس مہم کو اوڑھنا بچھونا بنائے ، دعوت کو اپنے لیے اول و آخر قرار دے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں بندگانِ خدا تک پہنچے ، انھیں اپنا ہم نوا بنائے اور اسلامی نظام کو برپا کرکے معاشرے کے اندر ظلم کی جتنی شکلیں ، مہنگائی ، بے روزگاری ، لاقانونیت ، بد امنی ، فحاشی اور عریانی کی صورت میں موجود ہیں، ان سب سے نجات دلائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر خدا کا خوف رکھنے والا ، نبی اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کی محبت میں ڈوبا ہوا اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے معمور معاشرہ ہے۔ حالات کے جبر اور ظلم و استحصال کی ان گنت شکلوں نے ان ایمانی اور اخلاقی احساسات کو جا بجا مضمحل کیا ہے، انھیں ضعف پہنچایا ہے اور معاشرے پر غفلت کی ایک چادر تان دی ہے۔ دعوت الی اللہ، یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ، بندگی کی جوت جگانا ، دامن مصطفی ؐ میں پناہ لینا اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانا، ان کی شریعت مطہرہ کو لے کر اٹھنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو جدوجہد اور کش مکش ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں، انھیں اس کا خوگر بنانا، اس دعوتی مہم کا مقصود ہے۔

جماعت اسلامی کے کارکن کو اپنے ہم نوائوں اور ساتھیوں سے مل کر معاشرے میں بسنے والے تمام انسانوں تک خیر خواہی اور اپنائیت کا یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ پاکستان کی بھلائی بھی اس دعوت اور نظریے کے ساتھ مربوط ہے اور خود پاکستان کا وجود بھی اسلام اور نظریۂ پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔ کارکن ، ناظم اور ہر سطح کے ذمہ دارانِ جماعت دعوت الی اللہ کو اگر موضوعِ گفتگو بنائیں گے اور اس کے لیے مولانا مودودی ؒ کی تحریروں اور آج کے اسلامی اور تحریکی لٹریچر سے استفادہ کریں گے تو معاشرے کی فضا بدل سکتی ہے ، اس کا رخ تبدیل کیا جاسکتاہے اور سوچ اور فکر کے تمام دھاروں کو اسلامی انقلاب اور تبدیلی کے عنوانات سے سجایا جاسکتاہے۔

ہم جس تبدیلی کے خواہاں ہیں اس کی جڑ اور بنیاد دعوت الی اللہ ہے۔ ذہن و فکر کی تبدیلی کے بغیر جسم و جاں کا قبلہ و کعبہ درست نہیں کیا جاسکتا۔ پایدار اور دیرپا انقلاب اس بات کا متقاضی ہے کہ دلوں پر دستک دی جائے، ذہنوں کو جھنجھوڑا جائے، کچھ کرنے اور کر گزرنے کے لیے آمادگی پیدا کی جائے، ایثار و قربانی کی شمع فروزاں کی جائے اور ایک بدلے ہوئے انسان کو دریافت کیا جائے۔ یہ کام قرآن و سنت کی دعوت ہی سے ممکن ہے۔ انسانی فطرت کو اپیل کرنے والا پیغام ہی دلوں کی دنیا کو بدل سکتاہے، ان میں انقلاب برپا کر سکتاہے۔

۲۰۰۸ء کا منصوبہ، تحریک سے وابستہ ہر فرد کو متحرک کرنے کا منصوبہ ہے اور یہ منصوبہ دعوت کی ہمہ گیریت ، تربیت اور تزکیے کے بھی تمام اہداف اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ منصوبے نے اس بات کو واضح کیاہے کہ فکری اور نظری اعتبار سے دعوتی جدوجہد کو تقویت پہنچانے کے لیے جماعت کے تمام تحقیقی و اشاعتی اداروں کو بھی ٹاسک دیا جائے۔ یہ ادارے مختصر کتابچوں کی تیاری ، دو ورقوں اور ہینڈ بلوں کی اشاعت اور ان کی مسلسل فراہمی کی منصوبہ بندی کریں اور اس لٹریچر کو مناسب قیمت پر فراہم کرنے کا اہتمام کریں۔

یوم نظریۂ پاکستان ۱۴ ؍اگست ، یوم تاسیس جماعت ۲۶ ؍اگست، یوم اقبال ۹ نومبر ، یوم یک جہتی کشمیر ۵ فروری اور ان سب کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر افطار پارٹیاں ، شب بیداریاں اور عیدملن کے اجتماعات منعقد کیے جائیں ، ان سب پروگراموں کی اصل اکائی ضلعی جماعتیں ہیں۔ ضلعی نظم ہی ان پروگراموں کی تفصیلات طے کر ے اور ہر یونٹ کو مؤثر بنانے کی تدابیر سوچے اور اختیار کرے۔ اسی دعوت بالقرآن کا موضوع رفتہ رفتہ کارکنوں سے اتر کر عوام میں سرایت کرجائے۔ پورے ملک میں سیکڑوں مقامات پر لاکھوں افراد نے فہم دین اور دعوت بالقرآن کے اجتماعات کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور مرد و خواتین کی بہت بڑی تعداد کو ان پروگرامات میں دل چسپی لیتے اور    ؎ 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان

اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

کا مصداق اور عملی نمونہ بنتے دیکھاہے۔ ایسے تمام اجتماعات میں حدیث نبوی ؐ اور اسوۂ صحابہؓ پر تعلیمی نوعیت کے نصاب ترتیب دے کر پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ فہم دین اور اسلام کا حقیقی انقلابی تصور اجاگر ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موثر افراد، کلیدی شخصیات ، سربرآوردہ لوگ اور راے عامہ پر اثرانداز ہونے والوں سے خصوصی رابطے ، انھیں لٹریچر کی فراہمی ، ان کے ساتھ الگ نشستوں کا اہتمام دعوت کے فروغ میں فیصلہ کن کردار اداکر سکتے ہیں۔ برادر تنظیمات ہمارے دست و بازو ہیں۔ جہاں جہاںنظم جماعت ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، ان کی سرپرستی کرتا اور   ان کی ضروریات فراہم کرتا ہے، وہاں یہ برادر تنظیمات اپنی کارکردگی کے جوہر بکھیرتی ہیں، اپنی صلاحیت کا لوہا منواتی ہیں اور دعوت کے فروغ میں جماعت کے ہم رکاب نظر آتی ہیں۔

گذشتہ کئی برسوں سے منصوبۂ عمل میں لائبریری کے قیام اور فروغ پر زور دیا گیاہے۔  اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لائبریری کے کردار کو توسیع دی جائے۔ ان کو اور زیادہ مؤثر بنایا جائے۔کتب اور رسائل کے ساتھ ساتھ دینی ، علمی اور دعوتی سی ڈیز بھی فراہم کی جائیں۔ہرضلعی صدر مقام پر   اور جس مقام پر بھی ممکن ہو ایک ماڈل لائبریری قائم کی جائے جہاں بیٹھ کر پڑھنے کی جگہ بھی اور رسائل و جرائد بھی باقاعدگی سے آتے ہوں، اور حسن انتظام لوگوں کو متوجہ کرے تو امید ہے کہ علاقے کے ممتاز افراد اور علم دوست شخصیات، نیز طلبہ اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان لائبریریوں سے استفادہ کرسکے گی۔

بچوں اور نوجوانوں کا تناسب پاکستان کی آبادی میں نصف سے زائد ہے۔ مستقبل کا کوئی پروگرام اور کوئی منصوبہ بندی اس حقیقت کو نظر انداز کر کے ترتیب نہیں دی جاسکتی۔ صوبائی سطح پر نوجوانوں میں کام کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انھیں دین سے وابستہ کرنے کی شعوری کوشش درکار ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کے لیے تربیتی ورکشاپوں کا اہتمام ضروری ہے، اور ان کی مجموعی قوت کو تنظیم کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنے کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔

نوجوانوں میں تحرک اور سرگرمی پیدا کرنے اور انھیں بے مقصدیت کے اندھیروں سے نکال کر بامقصد زندگی کی طرف لانے کے لیے نظم جماعت کو زیادہ سنجیدہ کوششیں کرنی چاہییں۔ ایک طرف نوجوانوں کی سوچ و فکر ،ان کے مسائل اور ضروریات اور معاشرے کی بے راہروی کا احاطہ کرنا ہوگا، تو دوسری طرف مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کاایسا جال بچھانا ہو گا جو معاشرے پر اثرانداز ہو سکے اور نوجوانوں کی سیماب صفت شخصیت کو کردار کے سانچے میں ڈھال سکے۔ ہمیں اس سوال کا بھی سامنا کرنا چاہیے کہ نوجوانوں میں کام کے نتیجے میں بالآخر جماعت اسلامی کی  عددی قوت میں بھی اضافہ ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ نظریاتی کارکن اور پتّا ماری سے کام کرنے والے، نیز مکمل سپردگی اور کامل حوالگی کا نمونہ بننے والے جماعت کی صفوں میں ذمہ داریوں کے مناصب پر اور نظام اسلامی کی جدوجہد میں پیش پیش نظر آئیں۔

رابطہ عوام کی دعوتی مہم کا لازمی تقاضا ممبر سازی ہے۔ اب سے کچھ پہلے کم و بیش ۵۰ لاکھ پاکستانیوں نے ممبر سازی کے گوشوارے پُر کیے تھے اور جماعت اسلامی کے مقصد اور کام سے اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سطح کا نظمِ جماعت ممبرسازی کے بعد کے تقاضوں کو تنظیمی سانچے میں ڈھالے۔ ممبر حضرات سے رابطے، جماعت کی پالیسیوں سے انھیں باخبر رکھنے ، مختلف سرگرمیوں میں انھیں شریک کرنے اور ان کی قوت کو جماعت کے حق میں استوار کرنے کی منصوبہ بندی، دو اور دو چار کی طرح کی جانی چاہیے۔ صوبائی جماعتیں اور ان کی صوبائی نگران کمیٹیاں ضلعی سطحوں پر اس کام کی نگرانی کریں تو فی الحقیقت معاشرے میں دعوت الی اللہ کا چلن عام ہو سکے گا اور ان گنت برائیوں کے سدّباب کے لیے اور منکرات کے استیصال کے لیے ممبر حضرات سے بڑا کام لیا جاسکے گا۔

میں یہ یاد دلاتا چلوں کہ اب سے ۳۰، ۳۵ سال پہلے تک مرکزی مجلس شوریٰ اپنے سالانہ اجلاس میں جو منصوبۂ عمل ترتیب دیتی تھی، اس میں جماعتوں کے ذمے کیے جانے والے کاموں کے اہداف اور اعداد و شمار بھی طے کیے جاتے تھے لیکن تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر شوریٰ میں اس راے کو تقویت حاصل ہوئی کہ مرکزی منصوبہ محض عمومی اور اصولی طور پر کام اور اس کی جہتوں کا تعین کرے، جب کہ نظم کی نچلی سطح پر اعداد و شمار اور سال بھر میں کی جانے والی سرگرمیاں ، ان کے اہداف وہی لوگ طے کریں جنھیں یہ منصوبہ لے کر چلناہے۔ اس لیے یہ ضروری قرار پایا کہ ہر سطح پر منصوبۂ عمل کا جائزہ لیا جاتا رہے، اور کم از کم ہر سہ ماہی یہ کام ضرورکیاجائے تاکہ جائزے کے نتیجے میں مقامی سطح پر منصوبے کے اہداف میں کمی بیش کی جاسکے۔


بطور یاد دہانی یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جماعت اسلامی عملاً ایک تحریک ہے اور ایک تنظیم بھی۔ ماحول اور معاشرے میں ہونے والے مدو جزر اور اچانک درپیش آنے والے مسائل سے نہ ہم لاتعلق رہ سکتے ہیں، اور نہ کسی ’منصوبے‘ کے ہی اسیر ہو کر نئے اٹھنے والے طوفان کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی رونما ہونے والی تبدیلیاں ، اسلامی تحریکوں کو پیش آنے والے واقعات اور خود اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر پروپیگنڈے کی دنیا میں اُچھالا جانے والا کیچڑ اور اس بارے میں امت کا جو حقیقی موقف ہوسکتا ہے، اس کا احاطہ کرنا ، اس پر احتجاجی لہر اٹھانا، اپنے حکمرانوں اور دنیا بھر کی دریدہ دہن قوتوں کو للکارنا، یہ سب ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ہمارے ایمان کا تقاضا اور ہماری تحریکیت کا امتحان ہے۔ لہٰذا سال کے مختلف حصوں میں منصوبۂ عمل کے ساتھ ساتھ ہنگامی نوعیت کی منکرات کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوششیں بھی جاری رہیں گی۔

جن حالات سے اس وقت ملک گزر رہاہے ، اس میں باہم مل جل کر چلنے کی ایک عمومی فضا پیدا کرنے اور اتفاقِ راے کی حکومت قائم کر کے ایجنڈے کے کم سے کم نکات پر عمل درآمد کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قومی مفاہمت کے نام پر جہاں یہ ضروری ہے کہ کم سے کم قومی ایجنڈے کا تعین کر کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور انھیں سنہرے مستقبل کی تعمیر کی دعوت میں شریک کیا جائے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ پارٹیوں کا ٹریک ریکارڈ، ان کا ماضی اور ان کے عمومی کردار کو ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے ، بصورت دیگر قومی مفاہمت کے نام پر اسے سبوتاژ کرنے اور آپ ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کا اسلوب بھی آپ سے آپ اس میں شامل ہو جائے گا۔ کسی بھی سطح پر جماعتوں کا اتحاد یا مل جل کر چلنے کا اعلان عملاً اپنے اپنے ضعف کا اعلان بھی ہوتا ہے جو کام اکیلے اور تنہا پارٹیاں اور پلیٹ فارم انجام نہ دے سکیں، ان کے لیے مل جل کر کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے اتحادوں اور مفاہمت کا ایجنڈا مختصراور کم سے کم ہوتا ہے، جب کہ مفصل اور زیادہ سے زیادہ ایجنڈا ہرپارٹی کا اپنا منشور ہوتاہے۔

آنے والے دنوں میں چیف جسٹس اور ان کے ۶۰سے زائد ساتھیوں کی بحالی آزاد عدلیہ کی طرف پہلا قدم قرار پائے گا۔ اس بارے میں جتنی افواہیں اور سازشیں جنم لے رہی ہیں وہ عوام کے عزم کو شکست نہ دے سکیں گی۔ کم و بیش ۶۰ ہفتوں پر مشتمل وکلا کی تحریک، بنچ اور بار کا اتحاد،  سول سوسائٹی ، میڈیا اور سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کو بے معنی اور بے مقصد بنانے اور انھیں غیراہم قرار دے کر، ان کو پٹڑی سے اتارنے کی جو کوششیں بھی اِدھر اُدھر سے کی جارہی ہیں بالآخر لوگوں کے عزمِ صمیم کے سامنے وہ دم توڑ دیں گی۔ وزیراعظم نے ابتدائی ۱۰۰ دن کے لیے جس پروگرام اور ترجیحات کا اعلان کیا ہے یقینی طور پر وہ نہایت خوش کن ہے، زخموں پہ پھایا اورد کھوں کے مداوے کے مترادف ہے لیکن ابھی تک ان اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی مؤثر کوشش دیکھنے کو نہیں ملی۔ صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری ہونی چاہییں۔ طلبہ یونینز کے بارے میں بھی، ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے حوالے سے بھی اور ایف سی آر کو ختم کرنے کے بارے میں بھی مرکزی حکومت کو ایک اچھے   ہوم ورک کا ثبوت فراہم کرنا چاہیے۔

یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ عوام نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی تک اپنے  حقیقی معاشی مسائل کے حل کو ملتوی کر رکھا ہے۔ عوام اس بات کو رفتہ رفتہ پا گئے ہیں کہ جس معاشرے میں قانون کی فرماں روائی نہ ہو اور محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے نظر نہ آئیں ، وہاں مہنگائی ، بے روزگاری ، لاقانونیت اور محرومیوں کا مداوا نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ مرکز میں بننے والی اتفاقِ راے کی حکومت عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے ایک ریلیف پیکج کا بھی فوری اعلان کرے اور یہ کام اچھی تیاری اور لائحہ عمل کی مشکلات کو عبور کر کے کیا جائے۔اس سلسلے میں یہ بھی ناگزیر ہے کہ معاشیات کو جاننے والے غریب اور پسے ہوئے عوام کا درد رکھنے والے اور بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی مایوسی اور ناامیدی کو شکست دینے کا عزم رکھنے والے مل بیٹھیں اور کم سے کم وقت میں ایک ریلیف پیکج کا اعلان کریں جس پر عمل ہوتا ہوا نظر آئے اور جو کسی نہ کسی درجے میں لوگوں کے لیے واقعی سُکھ کا باعث بن سکے۔

قبائلی علاقوں اور بلوچستان سے فوج کو واپس بلانا اب دیوار پر لکھی تحریر کے مانند ہے۔ فوج کی واپسی کے ساتھ ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل حل کرنا ناگزیر ہے۔ جرگوں کا انعقاد ہونا چاہیے اور ہر جرگے کے فیصلے کو عمل کا روپ دینا چاہیے۔ امریکی ڈکٹیشن سے آزاد ہو کر اپنے مسائل اپنے ہی دائرے میں رہ کر اور اپنے ہی لوگوں کو اعتماد میں لے کر حل کیے جانے چاہییں۔ جتنے بڑے پیمانے پر بلوچستان اور صوبہ سرحد میں جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے، اس نے باہمی اعتماد کا بھی شدید بحران پیدا کیا ہے۔ مل بیٹھنے اور حسن نیت اور ارادے کی مضبوطی کے اظہار سے اور پھر فیصلے پر عمل درآمد سے اعتماد کے بحران کو شکست دی جاسکتی ہے اور اعتماد سازی اس کی جگہ لے سکتی ہے۔

صوبہ سندھ بقیہ صوبوں کے مقابلے میں جتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا سامنا کرتا رہاہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کو دہرانا ضروری ہے کہ ۱۲ ربیع الاول ، نشترپارک کراچی میں ہونے والے علما کے قتل کی از سر نو تحقیقات کرائی جائیں۔ ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو شہر کراچی میں جس طرح ۵۰ سے زائد لوگ ہلاک کیے گئے، اس پو رے واقعے کی بھی تحقیقات کی جائیں۔ نیز ۱۲مئی ۲۰۰۴ء کو کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہوئی اور سیاسی کارکنوں کو شہید کیا گیا، اس کا بھی نوٹس لیا جائے اور اب تازہ ترین واقعہ جو ۹ اپریل ۲۰۰۸ء کو ہوا ہے اور شہر کراچی کو آگ اور خون کے دریا میں دھکیل دیا گیاہے، اس کی بھی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ بلیک میلنگ کی سیاست کو ختم کیا جائے اور بھتہ خوری اور بوری بند لاش کلچر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ ناگزیر ہے کہ اس کام کو کرنے کے لیے سندھ کی صوبائی حکومت پر عزم ہو، مرکزی حکومت کی مکمل آشیر باد اسے حاصل ہو اور دبائو میں آکر، بلیک میل ہو کر، خواہ یہ دبائو عالمی اور بین الاقوامی ہویا مقامی اور خفیہ اداروں کی طرف سے ہو،ایسے دہشت گردوں کو ہر گز ہر گز اقتدار میں شریک نہ کیا جائے جو ہزاروں جانوں کے اتلاف اور اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔

سیاسی جماعتوں سے اتفاق بھی کیا جاسکتاہے اور اختلاف بھی۔ ان کے ساتھ مل کر بھی کوئی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے اور کبھی ان سے ہٹ کر بھی، لیکن ایک فسطائی گروہ کو سیاسی جماعت سمجھنے کا جو خمیازہ اہل کراچی اور سندھ نے پچھلے بیس برسوں میں بھگتا ہے، اس کی اب تلافی ہونی چاہیے۔ بہت ہو چکا۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا اور پانی سر سے بھی اونچا ہو چکا۔ عوام کی     بڑی تعداد قومی اور صوبائی سطح پر بننے والی حکومتوں سے خوش گمان ہے اور حکومتی رویوں کو اعتماد بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ جو اپنے ایجنڈے اور اس کی ترجیحات کا بار بار اعلان کر رہی ہیں۔ لہٰذا سید یوسف رضاگیلانی کی حکومت کو ایک بڑا امتحان درپیش ہے۔ ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں، لیکن وعدوں اور اعلانات کے پورا نہ ہونے اور امیدوں کے بر نہ آنے کے جو خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں اور جتنے بڑے پیمانے پر بپھرے ہوئے لوگوں کا غیظ و غضب اپنے آپ کو منوانے کے لیے جو کچھ کرسکتاہے، اس سے بھی بے خبر نہ رہنا چاہیے۔

موجودہ حکومت نے کشمیر کے بارے میں ابتدائی چند بیانات کچھ عجلت میں دے دیے تھے، ہمیں اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے۔ اہل کشمیر کی جدوجہد کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی برادری نے ان سے جو وعدے کیے ہیں، ان کے مطابق انھیں حقِراے دہی ملنا چاہیے اور پاکستان کو اپنی اخلاقی ،سفارتی اور سیاسی تائید بڑھ چڑھ کر جاری رکھنی چاہیے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور دشمن کے ہاتھ میں اپنی شہ رگ دے دینے والے بالآخر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس خود کشی سے قومی سطح پر بچنے کا واحد نسخہ یہی ہے کہ کشمیریوں کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ بھارت کے عزائم کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور اس خطے میں امریکی عمل دخل کو شکست سے دوچار کیا جائے۔

اس پورے پس منظر میں جماعت اسلامی کا کارکن بھی ایک بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ ۲۰۰۸ء کے منصوبۂ عمل پر اس کی روح کے ساتھ عمل بھی کرنا ہے اور چاروںطرف کے حالات سے باخبر رہ کر تحریکوں ، مہمات اور عوام کی آواز بن کر بھی اٹھنا ہے۔ ہم نے ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہ کر بڑی بڑی تحریکیں اٹھائی ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا ہے۔ آیندہ بھی ہمارا ہتھیار اللہ پر ایک جیتا جاگتا ایمان ، اس کی قدرت کاملہ پر  بھروسا اور اسی کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہنے کا عزم ہے اور یہ سب کام اس کی رضا اور آخرت کی فلاح کے لیے کیا جانا ہے، اور کس سے یہ بات مخفی ہے کہ اللہ تک جانے کے تمام راستے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوکر گزرتے ہیں اور سنت ثابتہ کو اپنانے سے ہموار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہرکارکن کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ کمر ہمت کس.َ  لے ، تعلق باللہ کی استواری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔ سنت نبویؐ کو اپنائے ، شریعت مطہرہ کو لے کر اٹھے اور جو جدوجہد اور کش مکش نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں، اس کا خوگر بنے اور اس بارے میں کسی لیت و لعل سے کام نہ لے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ ہمارے حالات کو سدھار ے گا ، ہمیں اپنی تائید سے نوازے گا ، ہماری ٹوٹی پھوٹی جدوجہد کو قبول کرے گا اور جن آرزوئوں اور تمنائوں کے ساتھ قربانیاں دے کر اسے باقی رکھا گیاہے، اس کو نتیجہ خیز بنائے گا اور ہم اپنے سر کی آنکھوں سے پاک سرزمین پر قرآن و سنت کا پاکیزہ نظام روبہ عمل دیکھ سکیں گے۔ ان شاء اللہ!


جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ۲۰۰۸ء کو دعوت کا سال قرار دیا ہے اور اس کے لیے ایک جامع منصوبہ اور لائحہ عمل بھی مرتب کیا ہے۔ پوری جماعت اس منصوبے کے مطابق اپنی سرگرمیاں ترتیب دے رہی ہے، اسی مناسبت سے اس ماہ کے اشارات میں محترم قیم جماعت نے منصوبے کے اصل مقاصد و اہداف اور ان احوال ومسائل پر کلام کیا ہے جو آج ملک اور تحریک کو درپیش ہیں۔ (مدیر)