اگست ۲۰۱۰

فہرست مضامین

یومِ آزادی اور درپیش چیلنج

سیّد منور حسن | اگست ۲۰۱۰ | خصوصی تحریر

Responsive image Responsive image

پاکستان ایک نظریے کے تحت معرض وجود میں آیا۔ دو قومی نظریہ، یعنی اسلامی نظریۂ حیات اس کی بنیاد بنا۔ پاکستان اس دن سے برعظیم پاک و ہند کی سرزمین پر نقش ہو گیا تھا، جب یہاں محمدبن قاسم نے قدم رکھا تھا۔ برعظیم میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی تاریخ میں دور تک پھیلی ہوئی مملکت خدادادکی جڑوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ پھر انگریزوں کی حکومت کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت اور ہندو مسلم کش مکش اس کی بنیادوں میں موجود ہے۔ تاریخ کے اوراق میں پھیلے ہوئے علما، مبلغین، مجاہدین، صوفیاے کرام اور تاجروں کے کردار کے درخشاں پہلو پاکستان کے پیامبر بنے تھے۔ یہ برعظیم کے کروڑوں مسلمانوںکی جدوجہد کا ثمر اور ان کی تمناؤں اور آرزؤوں کا محور ہے۔

یوں تو ۲۰ویں صدی جدوجہد اور کش مکش کی صدی ہے ۔ اس میں روس اور چین کے اندر انقلابات رونما ہوئے اور درجنوں غلام قوموں نے استعماری استبدادسے نجات حاصل کی ۔لیکن یہ انقلابات اپنے اپنے جغرافیے کی حدود کے اندر برپا ہوئے اور آزادی نسل، علاقے اور زبان کی بنیاد پر حاصل کی گئی یا طبقاتی کش مکش کا شاخسانہ ٹھیری، جب کہ قیام پاکستان کی جدوجہد اس لحاظ سے منفرد حیثیت کی حامل ہے کہ یہ جغرافیے اور زبان، نسل اورعلاقے کی ان حد بندیوں سے ماورا و بالا ہے۔ پاکستان کے وجود اوراس کے قیام کی صورت میں جو انقلاب رونما ہوا،مذہبی، نظریاتی، تہذیبی اور سیاسی حوالوں سے اس جیسے انقلاب کی نظیر تاریخ میں ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتی ہے۔بلاشبہہ پاکستان آج ایک جغرافیے کا نام ہے لیکن یہ ایک نظریے کا مرہون منت ہے، علامہ اقبال اور قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر ہے اور برعظیم پاک و ہند کے کروڑوں مسلمانوں کی بے مثال جدوجہد کا ثمر ہے۔ جتنے بڑے پیمانے پر تحریک پاکستان چلی اور جتنے انسانوں کو اس نے متاثر کیا،  تہذیب کے دائرے میں بھی، معاشرت اور تمدن کے میدان میں بھی اور معاشی و سیاسی پیرایے میں بھی، اس پر بلاشبہہ کئی کتابیں لکھی گئی ہیںاور مزید کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

ُٓپاکستان کا عظیم الشان تحفہ ہمیں رمضان المبارک اور اس کی ستائیسویں شب میں عطا کیا گیاتھا۔ گویااللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت بے پایاں جوش میں تھی اور ہماری ٹوٹی پھوٹی جدوجہد کی مقبولیت کا اعلان ہو رہاتھا۔فضائوں میں، ہواؤں میں، آسمانوں اور زمین میں ’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘کے نعرے بلند ہورہے تھے، اور اس عالم میں لکھوکھا انسان آگ اور خون کے دریا سے گزر کر بلند کررہے تھے۔لٹے پٹے قافلوں، اجڑے ہوئے گھروں اور بہنوں بیٹیوں کے دامنِ عصمت تار تار ہونے کے باوجود غازیوں، مجاہدوں، صف شکنوں اور شہیدوں کے قافلے اپنے خوابوں کی سرزمین کی جانب مسلسل رواں دواں تھے۔

تحریکِ پاکستان میں ان لوگوں کانمایاں کردار ہے جن کے علاقوں کوکبھی بھی اس کا حصہ نہیں بننا تھا اور جنھیں پاکستان کے شجر سایہ دار سے محروم ہی رہنا تھا۔یہ ایثار اور قربانی اورجدوجہدکسی مادی مفاد کے لیے نہ تھی بلکہ اس اسلامی نظریے کے لیے تھی جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہونے جارہا تھا۔ مادی اور دنیوی فائدوں سے یہ بے نیازی اس بات کا ثبوت ہے کہ دینی و مذہبی احساس، پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا خواب اور اس کی خاطر ہر قربانی کو انگیز کرنے کا جذبہ، یہ وہ عناصر ترکیبی ہیں جو قیامِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد ہیں۔

جب پاکستان زبان ، نسل اور علاقے کے بجاے اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی بنیاد پر قائم ہوا تو ہندوبنیے نے اس کے خلاف سازشوں کے جال بننے شروع کردیے۔ قیام پاکستان کے بعدسے لے کرآج تک یہ عمل جاری ہے۔ پاکستانی قوم کو قیام پاکستان کی جدوجہد کے فوراً بعد سے تحفظ پاکستان کی جدوجہد کا مرحلہ درپیش رہاہے ،اور اس نے پوری ہمت اور حوصلہ مندی سے ان سازشوں کا مقابلہ کیاہے،اور ۶۳سال سے مسلسل میدان عمل میں برسر پیکار ہے۔ دوسری طرف اس نے پاکستان کو اس کے بنیادی مقاصد سے ہٹا کر سیکولر اور لادینیت کی طرف لے جانے کی خواہش رکھنے والے سازشی عناصر کا بھی مقابلہ کیاہے۔ یہ جدوجہد پاکستان کے مقاصد کے حصول کے لیے دی گئی قربانیوں اورمملکت خداداد کے بنیادی نظریے کے تحفظ سے عبارت ہے۔

مسلمانوں کے معاشرے میں جدوجہد آزادی کا مطلب ہی یہ ہے کہ نفاذ شریعت کا راستہ ہموار ہو، معاشرے، ریاست اور حکومت کا قبلہ درست ہو، انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام کی تعلیمات پر عمل درآمد کی راہ استوار کی جائے اوراس میں حائل رکاوٹوں کو دور کیاجائے۔نیکی کو فروغ ملے اور برائی کا استیصال ہو۔ حلال کمانے کو آسان اور حرام کمانے کو ناممکن بنادیا جائے۔ اس کا مقصد اپنے رب کی غلامی اور رسول اکرمؐ کی اتباع ہوتا ہے۔ آج بھی یہی جدوجہد جاری ہے ۔    یہ ملت اسلامیہ پاکستان کی پیشانیوں پر لکھی تحریر اور ان کی آنکھوں کی چمک اور اعتماد سے عبارت ہے۔

قیامِ پاکستان کو ۶۳ سال گزرنے کے بعدبھی یہ سوالیہ نشان ہمارے سامنے موجود ہے کہ ہم کتنے آزاد اور کس درجہ خود مختار؟ اور کن حوالوں سے اپنے آپ کو جمہوری اور عوامی کہنے کے لائق ہیں؟ آج کا پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کے پاکستان کے مقابلے میں ایک ٹھٹھری، سہمی اور خوف زدہ سی تصویر نظر آتاہے۔اس عرصے میں یہ ملک دولخت ہوا، بعض خودغرض فوجی جرنیلوں نے ادارے تباہ کیے اور جمہوری نظمِ حکومت کو مضحکہ خیز بنایا۔ آج بھی ہم اپنے لوگوں کے خلاف پراکسی وار لڑرہے ہیں،اور ایٹمی پاکستان کو امریکا کا کاسہ لیس اور خوشامدی بنادیا گیاہے۔ آج ہم جن اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں، وہ ساری اصطلاحیں آزادی کا پول کھول دیتی اور حقیقت کو بے نقاب کردیتی ہیں، مثلاً ضمیروں کی خرید و فروخت، ہارس ٹریڈنگ، وفاداری تبدیل کرنا، جعلی ڈگریاں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک، کرپشن میں آگے بنیادی حقوق میں پیچھے، ایک فون کال پر ڈھیر ہونا، ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کردینا، لاجسٹک سپورٹ اور جاسوسی تعاون فراہم کرنا، فرنٹ لائن سٹیٹ بننا، ڈرون حملے۔ ان اصطلاحات کے ہوتے ہوئے کیا کسی آزادی کا تصور کیا جاسکتاہے!

بالخصوص پچھلے ایک عشرے سے پسپائی کا عمل شروع ہواہے اور سمتِ معکوس میں پوری قوم کو دھکیلا جا رہاہے۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ’سب سے پہلے پاکستان‘کا نعرہ لگایا لیکن ان کے پورے دورِ اقتدار میں پاکستان اور اس کے مفادات کے خلاف کام ہوتا رہا، اور موجودہ حکومت بھی ان کی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ سر کی آنکھوں سے نظر آرہاہے کہ پاکستان کو تحلیل کرنے، فنا کے گھاٹ اتارنے اور آزادی و خودمختاری سے محروم کرنے کی کوششوں کے ساتھ یہ کہا جاتاہے کہ یہ سب پاکستان کے مفاد میں کیا جارہاہے۔ قومی سطح پر کمزوری، خودسپردگی اور ہتھیار ڈال دینا اصلاً مقاصد اور قومی مفاد کی موت کے مترادف ہے۔یہ سب گھاٹے کا سودا ہے۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگانے والے اقبالؒ کے پاکستان کو غیروں کے ہاتھوں گروی رکھنا چاہتے ہیں، قائد اعظم کے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے غائب کر دینا چاہتے ہیں،اور پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے نعرے کو ذہنوں سے محو کرکے اسے پرویز مشرف اور ان کے آئیڈیل اتاترک کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ یہ آج تک قوم کو یہ نہیں بتا سکے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ ایک دوست ملک افغانستان کو بھارت کی جھولی میں ڈال کر اپنی مغربی سرحدیں غیر محفوظ کرکے پاکستان کی خدمت کی جارہی ہے یا پاکستان کے دشمنوں کی؟امریکی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بن کر پورے ملک کو آگ اور خون کے حوالے کردیا گیاہے تو یہ پاکستان کے مفاد میں ہے یا امریکا کے؟

مملکت ِخداداد پاکستان جو دنیا کی واحدمسلم ایٹمی قوت ہے اور پوری دنیا کے مسلمان امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہیں، لیکن ہمارے حکمران رفتہ رفتہ اسے امریکی غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔خارجہ و داخلہ اور معاشی و دفاعی پالیسیوں میں امریکا پوری طرح دخیل ہے اورایوان اقتدار میں بیٹھے لوگ اس کے احکامات پر مکمل طور پر عمل کررہے ہیں۔ ایک طرف ڈرون حملے جاری ہیں، دوسری طرف فوجی آپریشن کے ذریعے فوج اور عوام کو آپس میں دست و گریباں کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے ملک شدید قسم کی بدامنی کا شکار ہے اور حالات انتشار اور تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ یہ بالکل امریکی منصوبے کے عین مطابق ہے کہ خراب حالات کا بہانہ بنا کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو عالمی تحویل میں لینے کے نام پر امریکا اپنے قبضے میں لے لے۔ امریکی اخبارات نے پنٹاگون کے ریکارڈ کے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے’غیر محفوظ‘ ہاتھوں میں جانے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کیا جارہا ہے اوروہاں ایک ہزار سے زائد جنگجو میرین تعینات کیے جارہے ہیں۔ ایسی ہی فوجی چھاؤنیاں صوبائی دارالحکومتوں میں تعمیر کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔اسلام آباد اور پشاور میں سیکڑوں مکانات کرایے پر لے کر انھیںمیرین ہاؤس کے طور پر اور بلیک واٹر کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جارہاہے اور وہاں بھاری اسلحہ اور مشینری لا کر رکھی جارہی ہے۔ اسلام آباد میں۲۰۰سے زائد بکتربندگاڑیاں لائی گئی ہیں۔بلیک واٹر کے اہلکار چارٹر طیاروں کے ذریعے اور بغیر ویزے کے آتے جاتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ملک بھر میں بالخصوص وفاقی دارالحکومت میں امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں مدد دینے کے لیے میرجعفر اور میر صادق تلاش کیے جارہے ہیں، اورپورے ملک سے ریٹائرڈ فوجی اور پولیس اہلکاروں کے بھرتی کرنے کا عمل جاری ہے۔

پاکستان کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کرانے اور امریکی مداخلت سے نجات دلانے کے لیے جماعت اسلامی گوامریکا گو تحریک چلا رہی ہے۔ رواں مہینے میں جب ہم ۶۴واں یومِ آزادی منارہے ہیں تو ’امریکی غلامی نامنظور‘ کا نعرہ اور بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ نعرہ اپنے اسلامی تشخص کو بچانے،اپنی آزادی کو برقرار رکھنے، ایٹمی پروگرام کی حفاظت اور امریکی و بھارتی ریشہ دوانیوں سے نجات حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ۲۰۱۰ء کا ۱۴؍اگست، ۱۹۴۷ء کے ۱۴؍اگست سے بڑی جدوجہد کا پیغام لایا ہے تاکہ امریکا کو وطنِ عزیز نکالا سے دیا جاسکے اور اس کی بے جا مداخلت سے نجات حاصل کرکے اپنی آزادی کا تحفظ کیا جاسکے۔ لہٰذا اس یوم آزادی کے موقع پرضروری ہے کہ ہم یک آواز ہو کر مطالبہ کریں کہ امریکی اتحاد کو خیرباد کہاجائے ،پاکستان میں امریکی میرینزکی تعیناتی کو روکا جائے، اسلام آباد میں سفارت خانے کے نام پر فوجی چھاؤنی کی تعمیراور بلیک واٹر کی سرگرمیوں پر فوری طور پر پابندی لگائی جائے۔ امریکا اور ناٹو کو فراہم کردہ مراعات واپس لی جائیں، لاجسٹک سپورٹ کے نام پر دیے گئے فوجی اڈے واپس ہوں اور ناٹو کے لیے سامان کی ترسیل کا سلسلہ ختم کیا جائے۔غیر ملکی فوجوں کی خطے سے واپسی اور پاکستانی فوج اور عوام کے باہمی تصادم کے خاتمے کے لیے حکمت عملی وضع کی جائے۔

۱۴؍ اگست کی پکاریہ ہے کہ غیر ملکی استعمار سے آزادی حاصل کی جائے، اس کی استحصالی پالیسیوں سے انکار اور اس سے قدم سے قدم ملا کر خود اپنے ہی پاؤںپر کلھاڑی مارنے سے گریز کیا جائے۔ قوم اپنے پیروں پر خود کھڑی ہو،اپنے معاملات خود چلانے میں خودمختار ہو، اور ہم امریکا کی فرنٹ لائن سٹیٹ کے بجاے اُمت کے پشتیبان بنیں۔ اُمت کے دکھوں کا مداوا، زخموں کے لیے پھاہااور اُمت کے دھڑکتے دلوں کے ساتھ ہم رکاب ہونا ہمارا کلچر قرار پائے۔

اس پس منظر میں تمام محب وطن عناصر اور جماعتوں کے لیے دیوار پر لکھی تحریر یہ ہے کہ  مل کر جدوجہد کریں اور امریکی غلامی سے نجات پانے کی کوشش کریں۔