ایک گرتی ہوئی قوم کو بہترین حالات فراہم کر کے ایک زریں موقع بہم پہنچایا جاتا ہے۔ اگر وہ فی الواقع سنبھلنا چاہتی ہے تو سنبھل لے۔ دوسرے لفظوں میں اس کے پاس راہِ حق پر مستقیم نہ ہوسکنے کے جتنے عذرات ہوتے ہیں ان کو ختم کردیا جاتا ہے کہ لو اب تم اپنی نیتوں اور عزائم کا پورا پورا مظاہرہ کرلو۔ اس طرح کی آزمایشِ نعمت میں گھرنے والی قوم اگر خوش نصیب ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے موقع سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتی ہے اور نہ صرف خود پستی سے اُبھر آتی ہے بلکہ وہ دوسری اقوام کو بھی سہارا فراہم کرتی ہے۔ لیکن اگر اس کے اعمال کی نحوست اس پر بالکل مسلط ہی ہوگئی ہو اور وہ خداداد موقع کو ضائع کر دے اور یہ ثابت کر دے کہ اس کی ساری عذر تراشیاں جھوٹی تھیں، کوئی ارادۂ اصلاح ان کے پیچھے موجود ہی نہیں تھا، تو پھر جتنی بڑی نعمت دی گئی ہوتی ہے اتنا ہی بڑا عذاب اس کی اُوٹ میں سے برآمد ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ انگریز کی غلامی اتباعِ اسلام میں حائل ہے اور ہمیں ایک الگ خطہ ٔ ارضی اگر مہیا ہوجائے تو ہم خدا کی کتاب کے ایک ایک شوشے کو زمین پر قائم کرکے دکھا دیں گے۔ ہمیں آزادی ملے تو سہی پھر ہم ہوں گے اور اسلام ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان دعاوی اور اعلانات کو کسوٹی پر رکھنے کے لیے مطلوبہ خطۂ ارضی بھی فراہم کر دیا ہے اور انگریزی اقتدار کی سِل کو بھی ہمارے سینوں سے ہٹا لیا ہے۔ اب یہ ہمارے ذمے ہے کہ ہم اپنے آپ کو سچا ثابت کریں یا جھوٹا؟ اور ہماری کوششیں اسی کو پیدا کرنے کے لیے وقف ہیں، تو نہ صرف ملّتِ پاکستان خود سنبھل جائے گی اور اللہ کی مزید نعمتوں کی مستحق ہوگی بلکہ دوسری مسلم اور غیرمسلم اقوام کے لیے اُبھرنے کا سہارا بنے گی۔ اور اگر بدقسمتی سے تذکیر کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں اور اللہ کی نعمت سے اجتماعی طور پر مذاق کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر کون کہہ سکتا ہے کہ کیا کچھ نہ ہوگا۔
جس صورتِ حالات میں ہم گھرے ہوئے ہیں اس کا ٹھیک ٹھیک تقاضا یہ ہے کہ دل و دماغ کی ایک ایک رمق، دوڑ دھوپ کا ایک ایک لمحہ اور جیب کی ایک ایک کوڑی اصلاح کی منظم جدوجہد میں جھونک دی جائے ورنہ بڑے بڑے متقی کا حشر فاسقین کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ (’رسائل و مسائل‘، ادارہ، ترجمان القرآن، جلد۳۴، عدد۳، رمضان ۱۳۶۹ھ، اگست ۱۹۵۰ئ، ص ۱۹۲-۱۹۳)