’’میں اور یوسف قرضاوی صاحب جامعہ ازہر کے ایک ہی اسکول کی جماعت نہم میں پڑھتے تھے۔ ایک روز ہم چھٹی کے وقت اسکول کے بڑے دروازے سے باہر نکلے تو سامنے ’اخوان اسکائوٹس‘ کے نوجوان نعرے لگا رہے تھے: ’’اللہ ہمارا مقصود ہے، رسول ہمارے رہبر و رہنما ہیں، قرآن ہمارا دستور ہے، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کی راہ میں موت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے۔ پاس ہی ایک گاڑی سے اعلان کیا جا رہا تھا کہ آج رات مرشدعام حسن البنا خطاب فرمائیں گے، شرکت کی اپیل کی جاتی ہے۔ ہم دونوں تیزتیز قدموں سے گاڑی کے پیچھے ہی چلنا شروع ہوگئے۔ گاڑی اخوان المسلمون کے دفتر کے سامنے جاکر رُک گئی۔ ہم نے پروگرام کی تفصیل دریافت کی تو معلوم ہوا کہ امام البنا بھی اسی دفتر میں موجود ہیں۔ وہ اسی وقت پہنچے تھے۔ ہم دونوں نے سلام عرض کیا، انھوں نے نہ صرف شفقت کا اظہار کیا بلکہ تھوڑی دیر کے بعد کھانے میں بھی شریک ہونے کے لیے کہا۔ یہ امام البنا سے ہماری پہلی ملاقات اور الاخوان المسلمون سے ہمارا پہلا تعارف تھا!‘‘
بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے سابق سربراہ اور مصر کے اعلیٰ پائے کے عالم و مربی ڈاکٹر احمد العسَّال راقم کو اپنی زمانۂ طالب علمی اور اخوان سے وابستگی کی یادیں سنا رہے تھے۔ آج ہمارے یہ انتہائی محترم و محسن مربی ۸۲ سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے تو ان سے وابستہ ایک ایک بات یاد آنے لگی۔ ڈاکٹر احمد العسَّال مرحوم سے راقم کا پہلا تعارف دورانِ تعلیم ہوا تھا۔ قطر کے معہد دینی میں تفسیر و حدیث کی اکثر نصابی کتابوں پر مؤلف کا نام احمدالعسَّال لکھا ہوا تھا۔ تب ان کے بارے میں صرف یہی معلوم تھا کہ جامعۃ ازہر کے بڑے عالم دین ہیں، جو دین کا واضح اور جامع تصور رکھتے اور بہت مؤثر و آسان انداز سے طلبہ کو سمجھانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان آیا تو کچھ عرصے کے بعد، اسلام آباد میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے ہاں ڈاکٹرصاحب سے پہلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ پھر ملاقاتوں کا ایک تسلسل رہا اور ان سے کسب ِ فیض کا سلسلہ بھی۔ ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل علامہ یوسف القرضاوی کی زیرسرپرستی قائم ہونے والے عالمی اتحاد العلما کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ہوئی۔ اخوان اور امام البنا سے اپنی یادوں کا تذکرہ مرحوم نے اسی آخری ملاقات میں کیا تھا۔
احمد العسَّال (مرحوم) ۱۶ مئی ۱۹۲۸ء کو مصر کے ضلع غربی بسیون کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ تقریباً ۱۰ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا جس پر انھیں شاہ فاروق میڈل ملا جو ۱۲سال سے کم عمر میں قرآن حفظ کرنے والوں کو دیا جاتا تھا۔ حفظ قرآن کے دوران ہی میں پرائمری کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ مختلف تعلیمی مراحل سے گزرتے ہوئے وہ جب جامعہ ازہر کی زیرنگرانی چلنے والے معہد دینی میں پہنچے تو وہاں (علامہ) یوسف القرضاوی ان کے ہم جماعت تھے۔
ڈاکٹر احمد العسَّال فرما رہے تھے: ’’معہد میں اخوان کے مکتب ارشاد (مجلسِ عاملہ) کے ایک رکن جناب بہی الخولی بھی پڑھاتے تھے۔ انھوں نے ہم دونوں (عسال،قرضاوی) سے ہرہفتے اتوار اور منگل کو ملاقات کا وقت طے کر دیا۔ پھر ہم گویا ان کی زیرتربیت اور ان کا ربط تھے۔ میں ۲۰سال کا تھا کہ ۱۹۴۸ء میں اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ ہم طلبہ نے اس پابندی کے خلاف مظاہرہ کیا تو شیخ یوسف القرضاوی اور مجھ سمیت کئی ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ہماری پہلی گرفتاری تھی۔ جیل پہنچے تو اخوان کے کئی قائدین گرفتار تھے۔ شیخ محمد الغزالی اور امام البنا کے دست راست شیخ عبدالمعز عبدالستار بھی گرفتار شدگان میں شامل تھے۔ ہمیں ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل کیا جاتا رہا، تقریباً نو ماہ کے بعد رہا کیا گیا تو ہمارے سالانہ امتحانات گزر چکے تھے۔ ڈاکٹر طٰہٰ حسین اس وقت وزیرتعلیم تھے۔ مختلف کوششوں کے بعد گرفتار شدہ طلبہ کے لیے الگ سے امتحان کا انتظام کردیا گیا اور اس طرح الحمدللہ ہمارا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ گیا۔
جامعہ ازہر کی کلیہ شرعیہ میں داخل ہوئے، لیکن ۱۹۵۳ء میں دوبارہ گرفتار کرلیے گئے۔ ہمیں جنگی جیل میں رکھا گیا۔ ۱۹۵۶ء میں رہائی ہوئی اور اس کے بعد اپنی تعلیم مکمل کی۔ ڈاکٹر احمد العسَّال نے تو دورانِ گرفتاری تعذیب و تشدد کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس ضمن میں ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر جاسر العودہ کی ایک تحریر پڑھنے کو ملی۔ اخوان المسلمون کے ایک انتہائی جلیل القدر رہنما عبدالقادر عودہ شہید کے بھتیجے ڈاکٹر جاسرعودہ لکھتے ہیں:’’تقریباً دو سال پہلے میرے محسن، میرے مربی اور میرے استاد، مرحوم احمد العسَّال نے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ میں پہنچا تو انھوں نے خلافِ معمول بہت پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ صرف میں اکیلا ہی کھانے پر مدعو تھا اور اتنا ڈھیر سارا انتظام کیا گیا تھا۔ پوچھا تو کہنے لگے: میں نے تمھارے لیے یہ اہتمام اس لیے کیا ہے کیونکہ میں تمھارے چچا عبدالقادر عودہ شہید کے حسن سلوک کا جواب انھیں تو نہیں دے سکا، کم از کم تمھیں ہی دے دوں۔ ہم جنگی جیل میں گرفتار تھے، مجھ پر بے تحاشا تشدد کیا جارہا تھا۔ اسی دوران میں جیلر، عبدالقادر عودہ کو لے کر سامنے سے گزرے۔ انھوں نے مجھے دیکھا تو وہیں رُک گئے اور اپنے ساتھ جانے والے پولیس افسروں کو زوردار آواز میں ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’بے گناہ اور نیک سیرت نوجوان کو مار ہی دینا چاہتے ہو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ میری طرف بڑھے۔ میرے گال سے ایک لوتھڑا کٹ کر لٹک رہا تھا اور قریب تھا کہ وہ گال کٹ کر گرجاتا۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے لوتھڑے کو دوبارہ اپنی جگہ چپکایا اور کچھ دیر وہاں سے اُٹھنے سے انکار کر دیا۔ عبدالقادر عودہ شہید نے میرے ساتھ یہ احسان اس وقت کیا، جب خود انھیں کچھ روز بعد پھانسی پر لٹکاتے ہوئے شہید کیا جانا طے تھا۔ اسی طرح ان کا مجھ پر یہ بھی احسان ہے کہ ایک بار میں نے مقاصد ِ شریعت پر چھوٹی سی تحریر لکھی۔ انھوں نے اس کی بہت تعریف کرتے ہوئے میری حوصلہ افزائی کی۔ میں شہید کے احسانات کا بدلہ انھیں تو نہیں لوٹا سکا، البتہ انھیں یاد کرتے ہوئے آج تمھیں بلا لیا‘‘۔
ڈاکٹر عسَّال مرحوم نے کبھی اس تشدد کا ذکر نہ کیا تھا۔ جیل کے زمانے کا ذکر آ بھی جاتا تو بتاتے کہ ہم پر بہت سختی کی گئی۔ ہمیں ہر چیز سے محروم کر دیا گیا، حتیٰ کہ قرآن کریم اور دینی کتب سے بھی۔ گویا قرآن سے چند روز کی فرقت ہی سب سے بڑی سزا تھی جو انھیں ہمیشہ یاد رہتی، حالانکہ قرآن تو اکثر اسیروں کے سینوں میں محفوظ تھا اور ہمیشہ ورد زبان رہتا تھا۔
جیل سے رہائی اور تعلیم مکمل کرلینے کے بعد بھی احمد العسَّال کی آزمایشیں ختم نہیں ہوئیں۔ حکومت نے ان پر پابندی لگا دی کہ کہیں ملازمت نہیں مل سکتی۔ کچھ عرصہ پرائیویٹ اسکولوں میں عربی زبان اور دینی علوم کی تعلیم دیتے رہے، پھر انھیں اور شیخ یوسف القرضاوی کو جامعہ ازہر کے سربراہ شیخ شلتوت کے ایما پر ریاست قطر میں ملازمت مل گئی۔ اس دور کے بارے میں عسّال مرحوم فرماتے تھے: ’’ہم جب قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے تو وہاں بھی عرب قومیت کی تحریک جڑ پکڑ چکی تھی، بالخصوص طلبہ کے ذہن میں یہ خناس بھرا جا رہا تھا کہ عہدِاسلام لد چکا، اب عرب ازم کا زمانہ ہے۔ ہم نے آواز اٹھائی کہ نہیں، اسلام کسی صورت ختم نہیں ہوسکتا اور عرب قومیت اسلام کے بغیر نری جاہلیت ہے۔ اسلام، قرآن ہے، اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ہم نے پورا تعلیمی سال اسی موضوع پر تقاریر، کانفرنسوں اور مشاورتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہم نے عرب بعث ازم کا مطالعہ کر کے ان کی ایک ایک بات کا رد کیا‘‘۔ وہ کہتے تھے: ہم عربی زبان اور عرب تاریخ کی بنیاد پر ایک قوم ہیں۔ ہم کہتے: قرآن کریم کے بغیر عربی زبان زندہ ہی نہیں رہ سکتی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کی تاریخ کے بغیر کوئی تاریخ، تاریخ ہی نہیں کہلا سکتی۔
تعلیمی سال کے اختتام پر چھٹیاں ہوئیں۔ ہم مصر چھٹیاں گزارنے گئے تو وہاں بھی ہماری شکایات پہنچ چکی تھیں۔ مجھے اور شیخ یوسف قرضاوی صاحب کو پھر گرفتار کرکے تحقیقاتی ایجنسیوں کے سپرد کر دیا گیا۔ کسی کو ہمارے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ ہم سے پوچھ گچھ شروع ہوئی، ہم نے جواب دیا: ہم دونوں جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل ہیں، دین کی دعوت ہمارا فریضہ ہے، یہ بھی نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ خیر ہماری رہائی ہوئی لیکن جب چھٹیوں کے بعد واپس دوحہ قطر پہنچے تو ہمارے پاسپورٹ کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا گیا اور واپس مصر جانے کا کہا گیا، تاکہ دوبارہ گرفتار ہوجائیں۔ اس موقع پر میں نے مصر جانے کے بجاے برطانیہ جانے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا پروگرام بنا لیا، جب کہ قرضاوی صاحب قطر ہی میں رہے۔
۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۰ء تک میں برطانیہ رہا۔ اس دوران میں کیمبرج یونی ورسٹی سے اصولِ فقہ میں پی ایچ ڈی کی اور برطانیہ میں دعوتِ اسلامی کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا موقع ملا۔ پھر مجھے لیبیا جاکر دعوت و تربیت کی سرگرمیاں منظم کرنے کے لیے کہا گیا۔ وہاں پہنچا تو کچھ عرصے کے بعد کرنل قذافی کا انقلاب آگیا۔ وہاں سے سوڈان چلے جانے کو کہا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہاں جنرل جعفر نمیری کا انقلاب آگیا۔ بعدازاں میں ریاض یونی ورسٹی کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگیا۔ اس دوران میں مرشدعام عمر تلمسانی مرحوم نے مصر واپسی کا کہا۔ میں ملازمت چھوڑ کر مصر واپس چلا گیا۔ وہاں پھر گرفتاریوں کے لیے چھاپے پڑنا شروع ہوگئے اور مجھے دوبارہ ریاض یونی ورسٹی آنا پڑا۔ اسلام آباد میں اسلامی یونی ورسٹی کی بنیاد رکھی گئی تو مجھے بھی وہاں طلب کرلیا گیا، جہاں کچھ عرصے کے لیے یونی ورسٹی کا سربراہ رہنے کے علاوہ مختلف اوقات میں مختلف ذمہ داریاں ادا کیں اور ۲۰۰۳ء میں مصر واپس آگیا۔ اسلام آباد قیام کے دوران میں افغان مسئلے نے بھی بہت وقت لیا اور آخرکار اللہ تعالیٰ نے افغانستان کو روسی پنجے سے نجات عطا کی۔
طویل سفر کے بعد عالم ربانی، علم، حلم، شائستگی اور محبت کا پیکر، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو اور ہردم اصلاح و فلاح اُمت کے لیے فکرمند، فیصل مسجداسلام آباد کے خطیب اور پاکستان سے والہانہ محبت رکھنے والے ڈاکٹر احمد العسَّال ۱۰جولائی ۲۰۱۰ء کو قاہرہ میں ابدی راحت پاگئے۔ بچپن کے ہم جولی، سفروسلاسل کے ساتھی اور کئی دعوتی کتابوں کی تیاری میں شریک مؤلف علامہ یوسف القرضاوی اتفاق سے اس وقت مصر ہی میں تھے۔ انھوں نے جگری دوست کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اخوان کی پوری قیادت نمازِ جنازہ میں شریک تھی۔ رہے دعا کرنے والے اور ان کے جنتی ہونے پر یقین رکھنے والے، تو وہ لاکھوں کی تعداد میں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر احمد العسَّال سے آخری ملاقات چند ماہ قبل ترکی کے شہر استنبول میں ہوئی تھی۔ وہاں علامہ یوسف القرضاوی صاحب کے قائم کردہ عالمی اتحاد العلما کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس تھا۔ دنیابھر سے آئے ۴۵ منتخب ارکان کی مجلس میں، حُسنِ اتفاق سے میری نشست ڈاکٹر احمد العسَّال کے پہلو میں تھی۔ دورانِ اجلاس جب بھی موقع ملتا یا کوئی وقفہ ہوتا، عسال مرحوم پاکستان کے بارے میں کوئی نہ کوئی استفسار کرتے۔ ایک ایک ساتھی،ایک ایک سیاسی جماعت، دینی ادارے اور افراد و شخصیات کے بارے میں پوچھتے اور پاکستان کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے۔ اجلاس کے اختتام پر پھر الگ سے ایک تفصیلی نشست کی اور اخوان، جماعت کے علاوہ پاکستان، افغانستان اور کشمیر کی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ بار بار یہ بھی کہا: پاکستان میں گزرنے والا عرصہ میری زندگی کا بہترین عرصہ ہے۔ پاکستان عالمِ اسلام کا اثاثہ ہے، اس اثاثے کی حفاظت ہم سب کی مشترک ذمہ داری ہے___!