بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کو آج سب سے بڑا خطرہ اس ’اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ‘ سے ہے جو گذشتہ ۱۰ برسوں میں امریکا اور بھارت کے درمیان پروان چڑھی ہے اور جسے مستحکم کرنے میں افغانستان میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے خونیں اور انسانیت کش واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے لیکن جس طرح اُس وقت کی امریکی قیادت نے اسے اپنے استعماری مقاصد کے لیے استعمال کیا اور جس طرح آج کی امریکی قیادت اسے استعمال کر رہی ہے، وہ انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک باب ہے۔ جن ۱۹ افراد پر اس جرم کے ارتکاب کا الزام ہے، ان میں سے کسی ایک کا بھی تعلق نہ افغانستان سے تھا، نہ عراق سے اور نہ پاکستان سے___ لیکن اس واقعے کے نام پر جس طرح افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی گئی اور اس پورے علاقے میں دورِحاضر کی سب سے طویل اور خون آشام جنگ برپا کر دی گئی، اور جس طرح پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلا گیا اور اب نت نئے انداز میں اسے نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ ایک گھنائونا استعماری کھیل ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔
افسوس ہے کہ پاکستان کی مفاد پرست اور عاقبت نااندیش قیادت بار بار چوٹیں کھاکر بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی، دوست اور دشمن میں تمیز سے محروم ہے اور دوسروں کی جنگ کو اپنے گھر میں لاکر اپنے ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ بلاشبہہ ملک میں اندرونی مسائل کا بھی ایک انبار ہے لیکن جس چیز نے ملک کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کو معرضِ خطر میں ڈال دیا ہے، وہ امریکا کی آہنی گرفت ہے جس کے نتیجے میں ان ۱۰ برسوں میں عملاً ملک امریکا کی غلامی اور محکومی میں آگیا ہے، اور آج زندگی کے ہرشعبے اور میدان میں اس کا حکم چل رہا ہے اور وہ حکمرانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح اپنے مفاد کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ’دوستی‘ اور ’شراکت‘ ایسے الفاظ ہیں جو اپنے معنی کھوچکے ہیں اور مفادات کا کھیل ہے جس نے ہر میدان میں تباہی مچا دی ہے۔
America has no friends or enemies, only interests.
یعنی امریکا کا نہ کوئی دوست ہے اور نہ دشمن___ سارا معاملہ صرف اور صرف مفادات کا ہے۔
پاک امریکا تعلقات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ گذشتہ ۶۳ برسوں میں سارے نشیب و فراز، دوستی اور دشمنی، امداد اور پابندیاں صرف امریکی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ نام کچھ بھی دے لیں، اصل حقیقت یہی ہے کہ ہمیشہ ہمارے تعلقات صرف وقتی اور عارضی رہے ہیں اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ ’دوستی‘ کے عنوان سے امریکا کی محکومی کی ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔
ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ امریکا سے دشمنی یا تصادم نہ ہمارے مفاد میں ہے اور نہ ہم اس کی صلاحیت اور استعداد رکھتے ہیں، البتہ ہمیں پوری دقّتِ نظر سے یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکا کے مفادات کیا ہیں اورہمارے مفادات کیا ہیں۔ جہاں ان میں مطابقت ہو، وہاں تعاون ہوسکتا ہے اور جہاں ان میں عدم مطابقت ہو، وہاں ہمیں اپنے مفادات کا ہرقیمت پر تحفظ کرنا چاہیے اور امریکا کو وہ حیثیت ہرگز نہیں دینی چاہیے جس سے وہ ہم پر اپنے مفادات کو مسلط کرسکے اور ہمیں محض اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرے۔
ماضی میں بھی ہمارا ریکارڈ کچھ بہتر نہیںرہا۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے بدقسمتی سے جو کچھ ہورہا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم امریکی مفادات کے تابع مہمل بن کر رہ گئے ہیں اور ملک اپنی آزادی اور خودمختاری تک سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ قومی غیرت و حمیت کا کوئی پاس باقی نہیں رہا ہے اور حالت یہ ہے کہ اب ملک کی سلامتی بھی دائو پر لگ گئی ہے، نیز بش کے بقول اس ’کروسیڈ‘ (صلیبی جنگ) میں امریکا تنہا نہیں بلکہ بھارت بھی پوری چابک دستی سے اس میں شریک ہوگیا ہے اور امریکا اور بھارت اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے بڑی ہم آہنگی کے ساتھ پاکستان کے گرد دائرہ تنگ کر رہے ہیں۔ اگر پاکستانی قوم یک آواز ہوکر امریکا اور بھارت کے اس خطرناک کھیل کا بروقت مقابلہ نہیں کرتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ ہم خدانخواستہ اپنی آزادی ہی نہیں اپنے وجود سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ امریکا کی دوغلی پالیسی کے تمام خدوخال کو اچھی طرح سمجھا جائے، نیز اس کھیل میں بھارت کے کردار کا بھی پورا ادراک کیا جائے، اور پھر مقابلے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی بنائی جائے جس پر قومی اتفاق راے پیدا کر کے بھرپور انداز میں عمل کیا جائے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ تاریخِ انسانی کی روشنی میں اور خصوصیت سے ۲۰ویں صدی کے دوران بین الاقوامی تعلقات کے باب میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، ان کا ادراک کرتے ہوئے چند حقائق پر نگاہ ڈالی جائے تاکہ آیندہ کی حکمت عملی زیادہ حقیقت پسندی کے ساتھ مرتب کی جاسکے۔
پوری تاریخِ انسانی میں جنگ خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ رہی ہے اور بالعموم طاقت ور اقوام نے اپنے سے کمزور اقوام کو جارحیت کا نشانہ بناکر اپنے دروبست کا حصہ بنایا ہے یا کم از کم اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح کمزور ممالک نے اپنے تحفظ کے لیے طرح طرح کے راستے اختیار کیے ہیں جن میں اپنے دفاع کے لیے طاقت کے حصول کے ساتھ دوسرے ممالک سے امداد باہمی کے معاہدے اور سیاسی الحاق اور اشتراک قابلِ ذکر ہیں۔ امن کے قیام کے لیے قوت اور مقابلے کی قوت کی موجودگی ہی اصل ضمانت رہے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں اور خصوصیت سے عالمی سیاست میں خلافت اسلامی کے زیراثر بین الاقوامی قانون کی ترقی وجود میں آئی جس کے تحت طاقت کے استعمال سے ہٹ کر سفارت کاری اور معاہدات اور روایات (conventions) کے ذریعے عالمی سیاسی تعلقات کو مرتب اور منظم کرنے کا دروازہ کھلا جسے یورپ کی تاریخ میں ۱۷ویں صدی میں وسٹفائل کے معاہدے (Treaty of Westfile)کی شکل میں اور پھر ۱۹ویں اور ۲۰ویں صدی میں جنیوا کنونشنز اور لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کے اداروں کی شکل میں ایک عالمی نظام براے قیامِ امن کی صورت دی گئی۔
اقوام متحدہ کا چارٹر اور حقوقِ انسانی کا عالمی اعلان اندھی طاقت کے مقابلے میں قانون، اصولِ انصاف اور اشتراکِ باہمی کی بنیاد پر اختلافی امور کو طے کرنے اور مفادات کے درمیان توازن اور توافق کے حصول کا نظام قائم کرنے کی ایک کوشش ہے جس کے نتیجے میں اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اور طاقت ور اقوام کو ایک گونہ بالادستی دیے جانے کے علی الرغم، عالمی امن اور تنازعات کے حل کا ایک نظام وجود میں آیا ہے۔ اسی زمانے میں جنگ کی ٹکنالوجی اور ایٹمی سدّجارحیت کی وجہ سے جنگ اور خصوصیت سے عالمی جنگ سے انسانیت کو بچانے کا ایک راستہ رونما ہوا، البتہ اقوام متحدہ کا نظام ہو یا ایٹمی عدم پھیلائو کا انتظام، سب ہی میں پانچ بڑے ممالک کو ہمیشہ بالادستی حاصل رہی اور اس بالادستی کو ان طاقت ور ممالک نے اپنے اپنے مفاد میں استعمال بھی کیا۔ تاہم عسکری، سیاسی اور معاشی قوت میں عدم توازن کے باوصف اقوام کی قانونی اور اخلاقی برابری کے اصول کو کم از کم نظری طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ جنگ کو سیاسی اختلافات کے حل یا مفادات کے حصول کا ذریعہ تسلیم کرنے کی نفی کی گئی اورسب کو ایک عالمی قانون کا پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔
ان مثبت پہلوئوں کا حاصل یہ ہوا کہ امیر اور غریب، طاقت ور اور کمزور سب کو اپنی اپنی حدود میں رہنے اور جینے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ نیز عالمی اداروں کو اس سلسلے میں ایک واضح کردار ادا کرنے کا اختیار دیا گیا۔ عالمی راے عامہ بھی ایک قوت کی حیثیت سے اُبھری اور اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اور طاقت ور اقوام کے اپنے مفاد میں قانون، اصول اور روایات کو نظرانداز کرنے کے علی الرغم ایک ایسی صورت پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں طاقت ور اقوام کے لامتناہی حقِ غلبہ پر ضرب پڑی اور طاقت ور کی طاقت کی حدود (limits of power of the powerful) کی حقیقت واشگاف ہوئی۔ روس کو اس کا تلخ تجربہ افغانستان میں ہوا اور امریکا نے ویت نام میں اس کا مزہ چکھا اور اب عراق اور افغانستان میں ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے۔
افغانستان میں راے عامہ کے جو سروے امریکا اور ناٹو کے زیرنگرانی ہوئے ہیں، ان کی رُو سے آبادی کے ۸۰ فی صد نے امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی اور جنگ بندکرنے اور صلح اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی ہے۔ پاکستان میں ایک نہیں گیلپ کے تین جائزوں کی رُو سے ۹۰ فی صد امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مخالف ہیں۔ برطانیہ کی آبادی کا ۷۲ فی صد برطانوی افواج کے افغانستان سے ایک سال کے اندر اندر انخلا کا مطالبہ کر رہا ہے اور خود امریکا میں صدر اوباما کی افغان پالیسی کے خلاف راے دینے والوں کی تعداد اب ۵۰ فی صدسے بڑھ گئی ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین کی ۲۱جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں اس کے مضمون نگار سیوماس مائلن (Seumas Milne) نے لکھا ہے:
افغانستان میں کوئی فریق بھی دوسرے کو پچھاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، البتہ اس سال طالبان کے حملے پچھلے سال کے مقابلے میں ۵۰ فی صد زیادہ ہوگئے اور شہری اموات ۲۳ فی صد بڑھ چکی ہیں۔ یہ جنگ اپنے بدلتے ہوئے مقاصد میں سے ہر ایک میں ناکام ہوچکی ہے___ دہشت گردی کو پھیلنے سے روکنے، افیون کی پیداوار ختم کرنے، جمہوریت کی ترویج اور خواتین کی حیثیت بہتر بنانے کے لیے صورتِ حال حقیقت میں مزید خراب ہوگئی ہے، بلکہ اب تو امریکا اور ناٹو کی ساکھ تک دائو پر لگی ہوئی ہے۔ عرصے سے افغانستان کی پیچیدہ صورت حال سے نکلنے کا ایک واضح راستہ تھا، یعنی تمام نمایاں افغان طاقتوں بشمول طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے غیرملکی افواج کی واپسی جس کی ضمانت خطے کی دیگر طاقتوں نے دی ہو۔ مسئلے کا یہ حل عرصے سے جنگ کے مخالفین پیش کر رہے ہیں، اب جنگ کے حامی بھی اس کے قائل ہو رہے ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ برسرِزمین حالات کتنے خراب ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ عراق میں جو کچھ ہوچکا ہے اس کو تقویت دینے کا باعث ہے، یعنی امریکا کی اپنی مرضی بذریعہ طاقت نافذ کرنے کی حدود۔ اگر امریکی فوج کو جس کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں، ایک خستہ حال فوج دنیا کے ایک غریب ترین ملک میں شکست سے دوچار کرسکتی ہے تو یقینا اس کے مضمرات ایک نئے عالمی نظام کے لیے سنگین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے قریب ترین حلیف شکست کے اظہار سے بچنے کے لیے ہرممکن حربہ آزمائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ کئی ہزار مزید افغان اور ناٹو افواج ایک ایسی جنگ کی قیمت چکائیں گے جس کے لیڈر یہ جانتے ہیں کہ وہ اس جنگ کو جیت نہیں سکتے۔
تاریخ کے ان تجربات کی روشنی میں جہاں یہ بات صحیح ہے کہ عسکری، سیاسی اور معاشی قوت کا تفاوت ایک حقیقت ہے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طاقت ور اپنی طاقت کے زعم میں جب سب حدود کو پامال کردیتے ہیں تو قدرت کا یہ قانون ہے کہ طاقت کا ایک نیا توازن رونما ہوتا ہے جس کے نتیجے میں جو کمزور ہیں وہ بالآخر غالب ہوتے ہیں اور جو طاقت ور ہیں وہ بے بس ہوجاتے ہیں۔ امریکا آج دنیا کی طاقت ور ترین مملکت ضرور ہے لیکن اس کا اقتدار اب زوال پذیر ہے۔ اس کی معیشت قرضوں تلے دبی ہوئی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اس کی عسکری جولانیوں کے سبب دنیا کے عوام کی عظیم اکثریت اس کو عالمی امن اور اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ اس کی ٹکنالوجی دہشت گردوں سے کہیں زیادہ عام انسانوں کے قتلِ عام کا آلہ بن گئی ہے۔ ایک امریکی تحقیقی ادارے کے مطابق امریکی افواج کے حملوں اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں صرف ۳ فی صد دہشت گرد نشانہ بنے ہیں، جب کہ ۹۷ فی صد سویلین شہری ہیں جن میں بوڑھے، عورتیں اور بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں اور عوام میں امریکا کے خلاف نفرت کے سونامی کو جنم دے رہے ہیں۔ امریکا کے ایک اور تھنک ٹینک Natonal Bureau of Economic Research، (واقع کیمبرج، مساچوٹس) نے اسی ماہ اپنی ۷۰صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں افغانستان میں صرف ۱۵ مہینے میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں مرنے والے ۴ہزار سویلین اموات کا ریکارڈ پیش کیا گیا ہے اور یہ مبنی برحقیقت تنبیہہ بھی کی گئی ہے کہ افغانستان میں انتقامی کارروائیاں کرنے والوں اور خودکش بم باروں کی اکثریت ان کی ہے جو امریکی اور ناٹو افواج کی کارروائیوں میں شہید ہونے والے عام افراد کا انتقام لینا چاہتے ہیں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ئ)
یہی صورتِ حال پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کی تباہ کاری کے نتیجے میں رونما ہورہی ہے۔ برطانیہ کی ایک چوٹی کی Communication Agency (GCHQ) نے اپنی جولائی ۲۰۱۰ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں القاعدہ کی قیادت تو منتشر ہوئی ہے لیکن سیکڑوں شہری بھی ہلاک ہوگئے اور انسانی حقوق کے ایک نمایاں وکیل پروفیسر فلپ آرسٹان نے (جو اقوام متحدہ کی طرف سے ان حملوں کی تحقیقات کر رہے تھے) ڈرون حملوں کے قانونی جواز کو چیلنج کیا ہے۔ (دی نیشن، ۲۵ جولائی ۲۰۱۰ئ)
افغانستان میں عوامی تحریکِ مزاحمت کی حقیقت کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اس تحریک کو ’دہشت گردی‘ کہنا اور پھر اس عنوان سے پورے ملک کو تخت و تاراج کرنا ایک سامراجی جارحیت ہے۔ اس تحریک کا اصل ہدف بیرونی قبضے سے نجات ہے۔ ایک مغربی صحافی Jere Van Dyler نے، جو افغانستان اور اس علاقے کے بارے میں ۱۹۷۰ء سے لکھ رہا ہے جس کو طالبان نے ۴۵ دن (۲۰۰۸ئ) اپنی تحویل میں رکھا، اپنے ایامِ اسیری کی داستان My Time as a Prisoner of the Taliban نامی کتاب میں بیان کی ہے۔ اس نے نیویارک میں اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بڑے پتے کی بات کہی ہے جو افغانستان اور خود پاکستان کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے صحیح حکمت عملی کی تشکیل میں مددگار ہوسکتی ہے۔ اس نے کہا کہ: ’’القاعدہ کے برعکس، طالبان امریکا کے خلاف اپنی مرضی سے برسرِجنگ نہیں ہیں۔ وہ امریکی سرزمین پر ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ وہ ہمارے اس لیے دشمن ہیں کیونکہ ہم وہاں ہیں‘‘۔ (دی نیشن، ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ئ)
۱- طاقت کا عدم توازن اپنی جگہ، لیکن ضروری نہیں طاقت ور ہی ہمیشہ غالب رہیں۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ بالآخر مظلوم ظلم کا جوا اُتار پھینکنے میں کامیاب ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ حق پر ہوں اور اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہدکریں۔
۲- امریکا اپنی طاقت کے زعم میں اور اپنے سامراجی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہوا لیکن وہ ایک دلدل میں پھنس گیا ہے اور افغانستان پر قبضہ ختم کرنے کے سوا اس کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کے لیے جنگ کی قیمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے نجات کا راستہ انخلا کی حکمت عملی ہے اور اس کے لیے جتنی جلد منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا اہتمام کیا جائے اتنا بہتر ہے۔
شروع میں امریکا کے جو بھی مقاصد اور اہداف ہوں اور نظریاتی طور پر امریکا کے نوقدامت پسندوں اور بش انتظامیہ کی جو بھی سوچ ہو، نوسال کے تجربات کے بعد امریکی قیادت بھی اپنے بنیادی مقاصد اور حکمت عملی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔ اس میں افغانستان کے زمینی حقائق کے ساتھ امریکا کی معاشی اور مالی حالت، داخلی مسائل اور ضروریات، عالمی اور ملکی راے عامہ اور افغانستان سے آنے والے فوجیوں کے تابوت، سب ہی پالیسی کی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ امریکا کا ایک نام وَر دانش ور اور سابق صدارتی مشیر رچرڈ این ہاس (Richard N. Haass) اس وقت Council of Foreign Relations کا سربراہ ہے، اس کا ایک اہم مضمون نیوزویک کی ایک حالیہ اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ امریکا کے پالیسی ساز حلقوں میں اسے بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ اس کے چند نکات کو سامنے رکھنا امریکی قیادت کے ذہن کو سمجھنے میں مددگار ہوگا۔ اس کا کہنا ہے: افغانستان میں امریکا آج جو جنگ لڑ رہا ہے وہ بش انتظامیہ کی پالیسی سے مختلف اور بارک اوباما کی اپنی پسند کی جنگ بن چکی ہے اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا انتخاب اس کی واضح علامت ہے۔ رچڑد ہاس کی سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ: ’’افغانستان میں امریکی خون اور خزانے سے کی گئی سرمایہ کاری لاحاصل ہے، اور اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے وہاں کے منصوبوں کو کم کریں اور ان کی سمت بھی بدلیں‘‘۔
رچرڈ ہاس یہ تجزیہ کرتا ہے کہ جنگ کے اوّلیں مقاصد میں افغانستان اور عراق ہی نہیں پورے شرق اوسط میں ایسی حکومتوں کا قیام تھا جو امریکا کے زیراثر اور دنیا کے ان علاقوں میں اس کے ایجنڈے کے مطابق کام کرسکیں اور اس طرح مقامی حکومتوں کے ذریعے امریکا کے مقاصد حاصل ہوسکیں۔ یہ ماڈل وجود میں نہیں آسکا اور نہ اس کی کامیابی کا کوئی امکان ہے۔ اس لیے اب ہدف یہ ہونا چاہیے کہ افغانستان میں کمزور لیکن ضروری فرائض انجام دینے والی حکومت وجود میں آجائے جسے کوئی امریکا کے مفادات کے خلاف استعمال نہ کرسکے۔ پھر اس نے افغانستان کی تقسیم، یعنی مقامی قیادتوں کو اُبھارنا، اور علاقائی لشکروں کی تشکیل اور طالبان کے بارے میں زیادہ لچک دار رویے کی حمایت کی ہے جس پر ڈیوڈ پیٹریاس نے عمل شروع کر دیا ہے اور جسے اب صدر کرزئی نے بھی عملاً قبول کرلیا ہے۔ اس نئی حکمت عملی کے کیا نتائج نکلتے ہیں، یہ تو مستقبل ہی بتائے گا مگر امریکا کی افغان پالیسی کیا ہونے جارہی ہے اور اس کے پس منظر میں پاکستان کے کردار اور خود پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مستقبل کے خدوخال پر ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔
امریکا اس وقت افغانستان میں جو جنگ لڑ رہا ہے اس کے اس طرح لڑے جانے کی نہ کوئی قدروقیمت ہے اور نہ وہ کامیابی سے ہم کنار ہورہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امریکی مقاصد کا دوبارہ تعین کیا جائے اور برسرِزمین مداخلت کو بھی واضح طور پر کم کیا جائے۔ افغانستان بہت زیادہ امریکی جانیں لے رہا ہے، بہت زیادہ توجہ لے رہا ہے اور بہت زیادہ وسائل جذب کر رہا ہے۔ جتنی جلد ہم یہ تسلیم کرلیں کہ افغانستان کوئی ایسا مسئلہ نہیں جسے حل کیا جانا ہے بلکہ ایسی صورتِ حال ہے جس کو ٹھیک کرنا ہے، اتنا ہی بہتر ہے۔
پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت اور پالیسی ساز اداروں کے لیے اس آخری جملے، یعنی less a problem to the fixed, than a situation to be managed (ایک مسئلہ نہیں جسے حل کرنا ہے بلکہ صورت حال ہے جسے ٹھیک کرنا ہے) میں غوروفکر کا ایک خزانہ پوشیدہ ہے۔ پوری بحث کا خلاصہ مسئلے کے فوجی حل کے مقابلے میں سیاسی حل کی طرف مراجعت ہے۔
حالات کے اس جائزے کی روشنی میں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا افغانستان میں خود کس طرف جارہا ہے اور پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو کس طرف دھکیل رہا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کے مقاصد، اہداف اور مفادات اور پاکستان کے مقاصد، اہداف اور مفادات میں کتنا جوہری فرق ہے، اور امریکا کی اپنی افغان پالیسی اور جو پالیسی وہ پاکستان پر مسلط کر رہا ہے اس میں کتنے بنیادی تضادات ہیں، اور کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ پاکستان اپنے اہداف کا اور اپنی حکمت عملی کا تعین اپنے مقاصد اور مفادات کی روشنی میں کرے اور امریکا اور اس کی مسلط کردہ پالیسیوں سے دامن چھڑا کر خود اپنی وضع کردہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کی شرکت نہ پسند کی جنگ تھی اور نہ ہمارے مفادات کی روشنی میں ضروری جنگ۔ اس جنگ کا تعلق ہماری اپنی کسی ضرورت سے نہ تھا بلکہ یہ ہم پر جبر کے ہتھیاروں سے مسلط کی گئی، اور مشرف حکومت نے محض خوف اور ذاتی مفادات خصوصاً اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ملک کو اس آگ میں جھونکا۔ اگر ان نوبرسوں کا ایک میزانیہ پوری دیانت داری اور معروضی انداز میں مرتب کیا جائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا نتیجہ ممکن ہی نہیں کہ یہ ہراعتبار سے خسارے کا سودا تھا۔ موجودہ حکومت نے آزاد خارجہ پالیسی اور امریکا کی گرفت سے نکلنے کے قومی مطالبے کو یکسر نظرانداز کرکے پرویز مشرف کی پالیسی کو اور بھی قبیح انداز میں آگے بڑھایا اور نقصانات کو دوچند کر دیا۔ امریکا اور برطانیہ نے این آر او کی بیساکھیوں کے سہارے جس سیاسی قیادت کو ملک کی باگ ڈور سونپی اور جس طرح خود فوج کی قیادت کو اس انتظام کا حصہ بنایا، وہ بڑی دل خراش داستان ہے لیکن اب وہ کوئی راز نہیں۔ ملک کی معیشت کو جس طرح بیرونی امداد کا اسیر بنایا گیا وہ بھی ایک کھلی کتاب ہے اور اس وقت جو صورتِ حال ہے، وہ یہ ہے کہ امریکی قیادت لالچ اور خوف جس میں لالچ کا کردار کم اور خوف کا زیادہ ہے، کے ذریعے ہماری قیادت کی نکیل پکڑ کر اسے اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہے اور اس خطرناک کھیل میں بھارت کا کردار روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے سامنے اصل حقائق کو بے کم و کاست پیش کیا جائے اور پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کی بازیافت کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے۔
ہالبروک صاحب جو افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے سفیر مقرر کیے گئے ہیں، دوسال میں ۱۴ بار پاکستان تشریف لائے ہیں اور ہربار پاکستان آنے سے پہلے یا اس کے فوراً بعد بھارت بھی تشریف لے گئے ہیں جہاں سے اہم پالیسی اعلانات بھی کرتے رہے ہیں۔ ایڈمرل مولن کی الطاف و عنایات اس سے بھی زیادہ ہیں۔ وہ ماشاء اللہ ۱۹ بار تشریف لائے ہیں اور سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں سے اعلیٰ ترین سطح پر شیروشکر ہوئے ہیں۔ ڈیوڈ پیٹریاس اور دوسرے فوجی اور سیاسی کرم فرمائوں کے ٹڈی دل اس پر مستزاد ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر خود محترمہ ہیلری کلنٹن صاحبہ کی ایک سال میں دو بار آمد اور صدراوباما کے دربار میں ہمارے حکمرانوں کی پیشیاں اور ان کے فرامین کی بارش___ اس آئینے میں پاکستان کی بے چارگی کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اصل آقائوں کے چند ارشادات بھی سامنے رکھنا ریکارڈ کی درستی کے لیے مفید ہوگا:
محترمہ ہیلری کلنٹن صاحبہ فرماتی ہیں اور بار بار اس کی تکرار کر رہی ہیں کہ: l مجھے یقین ہے کہ بن لادن یہاں پاکستان میں ہے l اسامہ کہاں ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی انتظامیہ کے بعض عناصر کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے؟ l ابھی کچھ ایسے اضافی اقدامات ہیں جن کے لیے ہم پاکستان سے کہہ رہے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ یہ اقدامات اُٹھائے گا lکسی کے ذہن میں یہ شبہہ نہیں رہنا چاہیے کہ اگر امریکا کے خلاف کسی حملے کا سرا پاکستان تک پہنچا تو اس کا ہمارے تعلقات پر بہت تباہ کن اثر ہوگا۔
ہیلری کلنٹن اور ناٹو کے سیکرٹری جنرل دونوں نے پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ بڑے جارحانہ انداز میں کیا ہے اور ان کی تشریف آوری کے بعد ایڈمرل مولن نے صاف الفاظ میں نہ صرف یہ کہا ہے کہ اسامہ اور القاعدہ کی قیادت پاکستان میں ہے بلکہ پاکستانی اخبار دی نیشن، بھارتی اخبار دی ہندو اور برطانوی اخبار گارڈین کے الفاظ میں: ’’اپنی قیادت کو کھلے الفاظ میں بتا دیں کہ امریکا پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے توقع کرتا ہے کہ وہ امریکا کے سلامتی کے مفادات کا لحاظ رکھے‘‘۔
ہالبروک صاحب نے پاکستان، بھارت اور افغانستان سے واپسی پر لندن میں فرمایا ہے کہ: ’’برطانیہ اور امریکا کے لیے یہ ناگزیر ہے اور ان کے ایجنڈے میں یہ بات سرفہرست ہے کہ مل کر پاکستان کے ساتھ اس طرح کام کیا جائے کہ پاکستان خطے کے مسائل کے حل کا حصہ ہو‘‘ (دہلی ٹائمز، ۲۶ جولائی ۲۰۱۰ئ)۔ اس سے قبل رچرڈ ہالبروک صاحب نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’واشنگٹن سمجھتا ہے کہ اس کوشش میں اسلام آباد کا کردار مبہم ہے اور نظر نہیں آتا‘‘۔ (ڈان، ۱۶جولائی ۲۰۱۰ئ)
امریکا کے سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستان کی قیادت کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ انھیں ان تمام عناصر کے خلاف جنگ کرنا ہوگی جو افغانستان میں امریکیوں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ نیویارک ٹائمز اپنے ۲۳ جنوری ۲۰۱۰ء کے اداریے میں پاکستان کو تحکمانہ شان سے متنبہ کرتا ہے:
پاکستان افغان طالبان کو آگے بڑھنے کا موقع دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا، اور واشنگٹن کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسلام آباد اس حقیقت کا سامنا کرے۔ مسٹر گیٹس نے جب کھلے عام یہ کہا کہ: ’’اسلام آباد اس سرطان کے ایک حصے کو نظرانداز کرے اور یہ ظاہر کرے کہ اس کا کوئی اثر اس کے ملک کے قریب نہیں ہوگا‘‘ تو دراصل انھوں نے پاکستان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’ہمیں امید ہے کہ وہ نجی ملاقات کے دوران زیادہ سخت رہے ہوں گے‘‘۔
امریکا کے نیشنل سیکورٹی کے ایڈوائزر جنرل جیمز جونز کے احکامات بھی سامنے رہیں تو تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’پاکستان کو اپنے ملک میں موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف کسی امتیاز کے بغیر سخت کارروائی کرنا ہوگی۔ ہمیں پاکستان کی حدود کے اندر ایسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر شدید تشویش ہے جن کا مقصد ہمارے طرزِ زندگی اور آپ کے طرزِزندگی پر حملہ کرنے اور غیرمستحکم کرنے اور افغانستان میں ہمارے اسٹرے ٹیجک مقاصد کے حصول میں کامیابی کو روکنا ہے‘‘۔
اور خود صدر اوباما نے اپنی دسمبر ۲۰۰۹ء کی تقریر میں پاکستان کو صاف لفظوں میں متنبہ کردیا کہ ’’ہم دہشت گردوں کے لیے ایسی محفوظ جنت برداشت نہیں کرسکتے جس کا مقام معلوم ہے اور جن کے ارادے واضح ہیں‘‘۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق: ’’نجی طور پر سرکاری حکام نے پاکستان کے قائدین کو تنبیہہ کی ہے کہ اگر وہ اقدام نہیں کرتے تو امریکا کرے گا‘‘۔ (اداریہ، ۸جولائی ۲۰۱۰ئ)
ان تمام احکامات، دھمکیوں اور ڈرون حملوں کی روشنی میں پاکستان کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے ہیڈکوارٹر کا یہ اعلان سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے:’’پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کا امریکا کے ساتھ باہمی تعلقات کے فریم ورک میں تحفظ کیا جائے گا‘‘۔ (بحوالہ دی نیشن، ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ئ)
کیا اس پر سر پیٹ لینے اور انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے کے علاوہ کسی ردعمل اور اقدام کی ضرورت نہیں؟
؎ جس کشتی کی پتواروں کو، خود ملاحوں نے توڑا ہو
اس کشتی کے غم خواروں کو، پھر شکوۂ طوفاں کیا ہوگا
امریکا کے اس خطرناک کھیل میں بھارت ہرسطح پر شریک ہے۔ صدر بش کی حکومت نے جس وقت جنرل پرویز مشرف سے کہا تھا: ’تم یا ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے‘‘ اور پاکستان کو پتھر کے زمانے کی طرف لوٹا دینے کی دھمکی دی تھی، اس وقت بھی بھارت امریکا کے دوش بدوش کھڑا تھا اور افغانستان پر امریکی حملے کے لیے اپنا کندھا دینے کی بات نہیں کر رہا تھا بلکہ پاکستان پر بھی حملے کے اشارے دے رہا تھا۔ پھر افغانستان میں امریکی جنگ کے دوران بھارت شریک رہا ہے اور افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے ساتھ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں مصروف ہے۔
لندن کی جنوری ۲۰۱۰ء کی کانفرنس میں بھارت کے کردار کو کم کرنے کی پاکستان کی کوشش کے جواب میں جولائی ۲۰۱۰ء میں کابل میں جو کانفرنس ہوئی ہے اس میں بھارت کے کردار کو بحال کیا گیا ہے۔ ہیلری کلنٹن اور ہالبروک نے بھارت کے کردار کو ایک حقیقت کے طورپر پیش کیا ہے اور کھل کر یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت کے کردار کا حدود اربعہ متعین نہیں کرسکتا۔ہالبروک نے دہلی میں کہا ہے کہ افغانستان میں بھارت کا ایک ’اہم کردار‘ ہے اور واشنگٹن پہنچ کر پاکستان کے منہ پر یہ کہہ کر ایک طمانچہ رسید کیا کہ: ’’لیکن اس وقت کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان کو یہ طے کرنے کا اختیار ہے کہ پڑوسی ملک میں کیا ہو‘‘۔(دی نیشن، ۱۶ جولائی ۲۰۱۰ئ)
دی ہندو کی ۲۳ جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت کے مطابق رچرڈ ہالبروک نے بھارت کو یقین دلایا ہے کہ ’’اسے ایک انتشار کے شکار ملک افغانستان کے حل میں بڑا کردار ادا کرنا ہے‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’پاکستان افغانستان پر قبضہ کرنے والا نہیں ہے اور نہ طالبان ہی، بلکہ خطے کے ہرملک کو اس کا حصہ ہونا ہے۔ یہ بھارت کو طے کرنا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا کیا کردار چاہتا ہے۔ بھارت کے لیے ہماری حمایت کم ہونے والی نہیں ہے۔ ہم سب سمجھتے ہیں کہ خطے میں اس کا مرکزی کردار ہے‘‘۔
یہ امر بہت اہم ہے کہ لندن کانفرنس میں افغانستان کے مسائل کے حل میں پڑوسی ممالک کا ذکر تھا لیکن کابل کانفرنس میں اعلان کیا گیا ہے کہ: ’’افغانستان کے پڑوسی اور قریبی پڑوسیوں کو سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش ہے اور یقینا اس میں بھارت بھی شامل ہے‘‘۔
علاقے کی مستقبل کی سیاست میں امریکا اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے بارے میں اب کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں۔ امریکا اس علاقے میں بھارت کی مکمل پشت پناہی کررہا ہے، اس کی معیشت اور فوجی قوت دونوں کو تقویت دینے میں سرگرم ہے اور اسے چین، جو پاکستان کا سب سے قابلِ اعتماد دوست ہے، کے مقابلے کے لیے تیار کررہا ہے۔ امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ صرف چین ہی کے لیے خطرہ نہیں، پاکستان بھی اس کی زد میں ہے۔
مشترک اقدار
پاکستان کا قیام ایک نظریے کی بنیاد پر ہوا ہے جس کا واضح الفاظ میں اعلان قرارداد مقاصد اور پاکستان کے دستور میں کردیا گیا ہے۔ بلاشبہہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں جو اصول بیان کیے گئے ہیں، وہ بحیثیت مجموعی اسلامی اصولوں اور اقدار سے ہم آہنگ ہیں اور ان کی بنیاد پر دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکا سے ہمارے تعلقات استوار ہونے چاہییں لیکن یہاں بھی یہ مشکل آڑے آتی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہمیشہ امریکا ہی نے کی ہیں اور آج بھی خود امریکا ہی کررہا ہے اور امریکا کی پشت پناہی میں اسرائیل اس سے بھی چار قدم آگے ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر تمام اقوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن امریکا زبانی جمع خرچ کے علی الرغم فلسطین، کشمیر اور دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی حمایت سے گریز کررہا ہے یا عملاً حق خودارادیت کی مخالفت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر آزاد ممالک میں باہر سے قیادت کی تبدیلی کی کوششوں کا مخالف ہے اور امریکا اکھاڑپچھاڑ کے اس کھیل میں پوری طرح ملوث ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر دوسرے ممالک پر فوج کشی کو ناجائز قرار دیتا ہے، مدافعت کے سوا جنگ کا دروازہ بند کرتا ہے لیکن امریکا دنیا کے ۴۰ سے زیادہ ممالک میں ۸۶۵ فوجی اڈے رکھتا ہے جن میں ہمیشہ اس کے لاکھوں فوجی موجود رہتے ہیں (ان کی تفصیل امریکا کے مشہور Cats Institute کے فیلو ڈوگ بانڈو (Doug Bandow) نے اپنی کتاب Foreign Follies: America's New Global Empireمیں دی ہے)۔
امریکا کی، اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزیوں کی داستان بڑی طویل ہے لیکن پاکستان کے ساتھ مشترک اقدار کا معاملہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی شناخت اسلام ہے اور امریکا کے بااثر عناصر، مغرب کی دوسری اقوام کی طرح، جس طرح اسلام اور مسلمانوں پر فکری اور تہذیبی یلغار کیے ہوئے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو دہشت پسندی اور وحشت اور درندگی کی علامت بناکر پیش کر رہے ہیں، قرآن اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک اور تذلیل میں مصروف ہیں اور مسجد کے مینار اور مسلمان خاتون کے حجاب تک کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، اس پس منظر میں ’مشترک اقدار‘ کی بات کرنا حقائق سے صرفِ نظر کرلینے کے مترادف ہے۔ اسی طرح جمہوریت کو ایک قدرِ مشترک کہا جاتا ہے لیکن امریکا نے دنیا بھر میں جمہوریت کے قتل اور سول اور فوجی آمروں کی پشت پناہی کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے، وہ الم ناک ہی نہیں ہوش ربا بھی ہے۔
ہم دل و جان سے چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک میں ہرشخص اور ہر قوم کے عقیدے، دین اور تہذیب و تمدن کا احترام ہو اور اختلاف کو حدود میں رکھ کر مشترکات میں تعاون اور اختلافی امور و معاملات میں رواداری کا طریقہ اختیار کیا جائے لیکن مغربی اقوام نے جو جنگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برپا کی ہوئی ہے، اس کی موجودگی میں ’مشترک اقدار‘ کی بنیاد متزلزل ہوچکی ہے۔
رہامعاملہ اعتمادِ باہمی کا، تو اس کا جو حشر امریکا نے کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ صدر اوباما اور ہیلری کلنٹن سے لے کر مغربی میڈیا تک سب پاکستان سے اعتماد کی کمی (trust deficit) کا رونا رو رہے ہیں۔ کوئی بیان ایسا نہیں ہے جس میں پاکستان، اس کی سیاسی اور عسکری قیادت، اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف زہرافشانی نہ کی جارہی ہے۔ ’ڈو مور‘ کا جو راگ صبح وشام الاپا جارہا ہے وہ ’اعتمادِ باہمی‘ کی مثال ہے یا بے اعتمادی کا ثبوت!
مشہور مقولہ ہے: ’’اعتماد سے اعتماد پیدا ہوتا ہے‘‘۔ اس کے برعکس یہاں امریکا نے ’’بے اعتمادی سے بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے‘‘ کی فضا پیدا کر دی۔ امریکا کی قیادت کو اپنا دوغلاپن نظر نہیں آتا اور پاکستان سے شکوہ و شکایت بلکہ اس پر بے جا الزامات کا ہرلمحے چرچا کر رہا ہے۔ ابھی وکی لیکس (wikileaks) نے جو ساڑھے نو ہزار سرکاری دستاویزات شائع کی ہیں، وہ پاکستان پر الزام تراشیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ کیا اس اعتماد کی کمی کی موجودگی میں ’اعتمادِ باہمی‘ کی بات ممکن ہے؟
اسی طرح اگر اشتراکِ مفادات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک محدود دائرے کو چھوڑ کر، پاکستان اور امریکا کے مفادات میں کوئی مطابقت نہیں۔ امریکا کا اصل ہدف پوری دنیا میں اپنی بالادستی کو قائم کرنا اور قائم رکھنا ہے اور اس کے چوٹی کے دانش وَر اور حکمت عملی کے ماہر صاف کہہ رہے ہیں کہ کم از کم اگلے ۵۰سال میں کوئی طاقت ایسی اُبھرنے نہیں دینی چاہیے جو امریکا کی بالادستی کو چیلنج کرسکے۔ اسی وجہ سے چین اور عالمِ اسلام کا اُبھرتا ہوا اتحاد امریکا کا ایک بڑا ہدف ہیں۔ اسرائیل کے ذریعے شرقِ اوسط کا امن تباہ کیا گیا ہے اور اسے ایک ایٹمی طاقت بنایا گیا ہے لیکن پاکستان کی ایٹمی صلاحیت امریکا کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے اور اس سے پاکستان کو محروم کرنا بھی امریکا کے لیے ایک ’اسٹرے ٹیجک‘ ہدف کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایٹمی پھیلائو کا سارا شور اسی و جہ سے ہے اور ایٹمی اثاثوں تک دہشت گردوں کی رسائی کا واویلا اسی سلسلے میں کسی جارحانہ اقدام کے لیے زمین ہموار کرنے کے لیے ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ ایران کو بھی نشانہ بنانے کے امریکی عزائم ۲۷جولائی ۲۰۱۰ء کی ایک خبر سے واضح ہوتے ہیں:
امریکا کے اندازے کے مطابق خلیج فارس، افغانستان، پاکستان اور آبناے کوریا دنیا کے خطرناک ترین علاقے ہیں اور اس نے ان علاقوں میں جاسوسی کے لیے ایک نیا خلائی سیارہ OTV خلا میں چھوڑا ہے، اس کا اصل نام X37B ہے۔ یہ لیزر ہتھیاروں سے مسلح ہے۔ امریکی اسے جارحانہ ہتھیار قرار نہیں دیتے مگر امریکی مینوٹار IV میزائل سے مل کر یہ ایک ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس میزائل کی رفتار ۵ہزار ۷سو ۹۲کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، اس لیے دشمن کو دفاع کا موقع نہیں دیتا۔ یہ اتنا طاقت ور ہے کہ اپنے ہدف کو خواہ اسے کتنا ہی محفوظ بنایا گیا ہو، زد پر لے سکتا ہے۔ اس میزائل کو مستقبل کا ہتھیار کہا جا رہا ہے۔ یہ جوہری ہتھیاروں سے مسلح نہیں ہے لیکن اس کے لیزر ہتھیار ٹام ہاک میزائل سے سات گنا زیادہ تیزرفتار ہیں۔ مینوٹارIV میزائل کو سمندر، زمین یا فضا سے چلایا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور ایران کو بھی یہ سوچنا ہے کہ امریکا اس ہتھیار کو ان کی جاسوسی کے لیے استعمال کرے گا اور بہت محفوظ مقامات پر رکھے گئے اسلحے کو بھی نشانہ بناسکتا ہے۔ یہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے لیے بہت خطرناک ہے اور اسی طرح ایران کے جوہری پروگرام کے لیے بھی۔ امریکی کسی تکلف کے بغیر ایران پر حملے کی بات کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کو بھی کھلی دھمکی دی ہے کہ اگر ٹائم اسکوائر جیسا واقعہ دوبارہ ہوا تو اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۷ جولائی ۲۰۱۰ئ)
پاکستان کے مفاد کا تقاضا چین سے دوستی اور تعاون میں ہے اور چین امریکا کا اوّلین ہدف ہے اور بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے وہ امریکا کا حلیف اور معاون کار ___ ہمارے اور امریکا کے مفادات میں کہاں ’اشتراک‘ ہے؟
پاکستان توانائی کے بحران کا شکار ہے اور امریکا پاکستان کے ایران سے گیس اور بجلی کے تعاون اور چین سے انرجی کی افزایش کے لیے چشمہ کنال بیراج کے تسلسل میں دو نئے ری ایکٹر حاصل کرنے کا مخالف ہے۔ ہیلری کلنٹن نے اپنے حالیہ دورے کے موقع پر دونوں کا راستہ روکنے کی بات کی ہے۔ یہ مفادات کے ’اشتراک‘ کی مثال ہے یا ان کے تصادم اور تضاد کی!
پاکستان کی اوّلیں ضرورت ملک میں امن و امان کا قیام اور عوام کے جان، مال اور آبرو کی حفاظت ہے لیکن ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ اور اس میں پاکستان کی شرکت نے ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا ہے اور امن و امان کے قیام کا کوئی امکان اس وقت تک نظر نہیں آتا جب تک پاکستان اس جنگ سے دست کش نہ ہو اور مسائل کا سیاسی حل نہ نکالے۔ امریکا افغانستان میں تو سیاسی حل کی بات کر رہا ہے مگر پاکستان پر اس کا سارا دبائو اس سمت میں ہے کہ قوت کا استعمال تیز تر کرو، نئے محاذ فی الفور کھولو اور اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ کرو۔
پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات کا فیصلہ خود کرے اور اس کی سرزمین کو دوسرے اپنے مفاد کے حصول کے لیے استعمال نہ کریں لیکن امریکا نے پاکستان کو اس طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے کہ عسکری پالیسی ہو یا معاشی پالیسی، تعلیم ہو یا صحت کی منصوبہ بندی، فوج اسکائوٹس حتیٰ کہ پولیس تک کی تربیت، سب کچھ امریکا کی خواہش کے مطابق، بلکہ سب پالیسیاں اس کے احکامات کی روشنی میں ترتیب دی جارہی ہیں۔ کیری لوگر بل کے تحت امریکی امداد کی تقسیم اور نگرانی اب بلاواسطہ امریکا اور اس کی طے کردہ ایجنسیاں اور این جی اوز کریں گی۔ اس کے لیے انتظامی اور مالیاتی کنٹرول کا نیا نظام وضع کیا گیا ہے اور امریکی عملہ ہرشعبے کی نگرانی کے لیے ملک میں آئے گا اور اس کے لیے اس نے بڑی تعداد میں ملٹی انٹری ویزا تک پر اختیار حاصل کرلیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں نصاب، اساتذہ اور طلبہ کی تربیت بھی امریکی نگرانی میں ہوگی۔ خیالات پر اپنا اجارہ قائم کرنے کے لیے امریکی امداد کے اس پیکج میں ۵۰ ملین ڈالر میڈیا کی تربیت اور ترقی یا بالفاظ صحیح تر فکروخیال پر قبضے (thought control) کے لیے رکھے گئے ہیں۔
امریکی ڈرون حملوں میں اوباما کے صدر بننے کے بعد تین گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کے ذریعے صبح و شام ہماری حاکمیت کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں اور اس خونی کھیل میں پاکستان کی حکومت عملاً شریک ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے باوجود زرداری گیلانی حکومت نے ان کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ وزیردفاع احمدمختار نے اس کی ’افادیت‘ کا اعتراف کیا ہے اور امریکا میں پاکستانی سفیر نے ۲جولائی ۲۰۱۰ء کو اپنے ایک بیان میں یہ تک ارشاد فرما دیا ہے کہ ’’پاکستان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم ڈرون حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں چاہتے‘‘۔ (Pakistan's Drone Dilemma، طیب صدیقی، ڈان، ۱۸ جولائی ۲۰۱۰ئ)
واضح رہے کہ جولائی ۲۰۱۰ء تک ۱۴۴ ڈرون حملوں میں امریکا نے پاکستان کے ۱۳۶۶ عام شہریوں کو ہلاک کیا ہے (ملاحظہ ہو: رپورٹ US National Counter Terrorism Centre ڈان، ۱۸جولائی ۲۰۱۰ئ)، جب کہ القاعدہ کے کتنے لوگ ان میں نشانہ بنے ہیں، ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ مئی ۲۰۰۹ء میں امریکی حکومت کے مشیر جنرل ڈیوڈ کلیمولین نے امریکی کانگریس کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ:’’۲۰۰۶ء کے بعد سے ہم القاعدہ کے ۱۴ سینیررہنمائوں کو قتل کرسکے ہیں اور اسی دوران ہم نے ۷۰۰ سے زیادہ پاکستانی شہریوں کو قتل کیا ہے‘‘۔ (ڈان، ۱۸جولائی ۲۰۱۰ئ)
اُوپر وکی لیکس دستاویزات کا ذکر آیا تھا، ان میں بھی بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کی شہادت موجود ہے جن کا اعتراف نہیں کیا گیا بلکہ جن کو سرکاری طور پر دبا دیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ ہوش ربا حقائق اس بل میں سامنے آئے ہیں جو امریکا کے دو ارکان کانگریس نے ایوان میں اسی مہینے پیش کیا ہے اور جس میں پاکستان کی سرزمین پر ایسے امریکی فوجی کارندوں کا اعتراف کیا گیا ہے جن کے لیے امریکی قانون کے مطابق کانگریس سے اجازت نہیں لی گئی ہے اور پاکستانی اخبارات اور سیاسی کارکنوں کے واویلا کے باوجود پاکستان کی سرزمین پر ان کے موجود ہونے کا انکار کیا جاتا رہا ہے۔
ایک ڈیموکریٹ اور ایک ری پبلکن، دو امریکی سینیٹروں نے اس ہفتے ایک بل پیش کیا ہے، جس میں افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے جو وہاں جنگجوئوں کے خلاف خفیہ کارروائیاں کر رہی ہیں: ’’ہمیں معلوم ہے کہ امریکی افواج کانگرس کی اجازت کے بغیر پاکستانی حدود کے اندر خفیہ کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں‘‘۔ سینیٹر کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں اس قرارداد کی خلاف ورزی ہیں جو ویت نام جنگ کے بعد منظور ہوئی جس کے مطابق امریکی صدر کو صرف اس صورت میں فوج باہر بھیجنے کی اجازت ہے جب کانگریس نے فیصلے کی تائید کی ہو یا امریکا کو کوئی سنگین خطرہ درپیش ہو۔
دوسرے سینیٹر ران پال نے کہا کہ امریکی فوج نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں نمایاں طور پر بڑھا دی ہیں اور کوئی اعداد وشمار نہیں دیے جاتے۔ ڈیڑھ سال قبل اوباما کے صدر بننے کے بعد پاکستان میں بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں پر بھی انھوں نے توجہ دلائی۔ پاکستان میں امریکی فوج کی بڑھتی ہوئی سرگرمی کا امریکا کی حفاظت سے بہت کم تعلق ہے۔ درحقیقت یہ جتنے دشمنوں کو شکست دے رہی ہے، اس سے زیادہ دشمن پیدا کررہی ہے۔ انتظامیہ اپنے پیش رو کی طرح نائن الیون کے بعد کی اصل قرارداد کے الفاظ کو غلط استعمال کر رہی ہے تاکہ وسیع تر علاقائی جنگ جاری رہ سکے اور کانگرس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
زمین پر امریکی افواج کی موجودگی بجاطور پر زیادہ متنازع ہے لیکن امریکی افواج اور برطانوی ایس اے ایس افواج برسوں سے پاکستان میں مختلف مقامات پر کام کر رہی ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ حکومت ِ پاکستان کی اجازت کے بغیر ہوا، اور اکثر امریکی اور پاکستانی افواج کے درمیان بداعتمادی کی وجہ سے، مگر حالیہ حملے کے بعد واشنگٹن اور اسلام آباد کو چاروناچار ماننا پڑا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کو یہ تسلیم کرنے میں تامّل رہا کہ امریکی افواج بغاوت کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستانی فوج کو تربیت دے رہی ہیں، اس بات کو جانے دیں کہ بعض اوقات امریکی افواج پاکستان کی حدود کے اندر بھی کارروائیاں کرتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ۸۰ فی صد پاکستانی، طالبان سے لڑنے میں امریکی امداد کو مسترد کرتے ہیں، خاموشی زیادہ دانش مندانہ تھی۔ مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ یہ خفیہ جنگ جوامریکا اسلام آباد کی منظوری سے لڑ رہا ہے بہت سوں کو قبول نہیں ہوگی۔ بہرحال امریکی صدر کو اس لیے منتخب کیا جاتا ہے کہ وہ امریکی عوام کا تحفظ کرے اور یہ توقع کرنا کہ کوئی انتظامیہ اس لیے اقدام نہ کرے کہ حالات خود ٹھیک ہوجائیں گے، ایک خام خیالی ہے۔
معیشت کے میدان میں پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ معاشی ترقی تیزرفتاری سے ہو اور ملک سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو، ملکی وسائل ملک کی معیشت کی ترقی اور عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے استعمال ہوں۔ قرضوں کا بار کم ہو اور ملک میں ظاہری شان و شوکت پر فضول خرچی کے بجاے بچت کو بڑھانے اور سرمایہ کاری کی طرف اسے استعمال کرنے کا اہتمام ہو۔ لیکن عملاً یہ ہو رہا ہے امریکا کی اس تباہ کن جنگ کی اصل قیمت پاکستان کے غریب عوام ادا کررہے ہیں۔ جنگ کے ان نو برسوں میں جو نقصان پاکستان کی معیشت کو پہنچا ہے اس کو سائنسی انداز میں آج تک متعین نہیں کیا گیا۔ سب سے پہلے ۲۰۰۴ء میں امریکا کی مرکزی کمانڈ کی ویب سائٹ پر یہ آیا کہ پاکستان کو ۱۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ جب سینیٹ میں یہ مسئلہ راقم اور اسحاق ڈار صاحب نے اٹھایا تو ویب سے یہ اعداد و شمار ہٹا دیے گئے۔ پھر وزارتِ خزانہ نے ۲۰۰۹ء میں ۳۵ ارب ڈالر کے نقصان کا ذکر کیا اور ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء کے سالانہ معاشی جائزے میں یہ رقم ۴۳ارب ڈالر لکھی گئی۔ حال ہی میں (۱۱ جون ۲۰۱۰ئ) آئی ایم ایف نے اپنا Poverty Reduction Strategic Paper (PRSP-II) شائع کیا ہے جسے حکومت ِ پاکستان کی وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے مطابق: ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شرکت کے باعث پاکستان کو جو نقصان ہوا ہے، اس کی تفصیل اس طرح ہے:
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی قیمت جو پاکستان نے ادا کی: (ارب روپوں میں)
۰۵-۲۰۰۴ء
۰۶-۲۰۰۵ء
۰۷-۲۰۰۶ء
۰۸-۲۰۰۷ء
۰۹-۲۰۰۸ء
براہِ راست
۱۰۳.۶۷
۰۶۰.۷۸
۴۹۹.۸۲
۵۲۷.۱۰۸
۰۳۳.۱۱۴
بالواسطہ
۰۰۰.۱۹۲
۷۲۰.۲۲۲
۴۰۰.۲۷۸
۸۴۰.۳۷۵
۷۶۰.۵۶۳
کُل قیمت
۱۰۳.۲۵۹
۷۸۰.۳۰۰
۸۹۹.۳۶۰
۳۶۷.۴۸۴
۷۹۳.۶۷۷
اس تخمینے کی رُو سے پاکستان نے اوسطاً سالانہ ۴۰۱ ارب روپے کا نقصان اٹھایا ہے، جب کہ اس پورے عرصے میں امریکا نے صرف ایک ارب ڈالر کے قرضے معاف کیے ہیں اور کُل ۱۵ ارب ڈالر دیے ہیں جن میں سے ۹ ارب ڈالر ان سالانہ اخراجات کی ادایگی تھی جو فوج نے ادا کردیے تھے، کوئی مدد نہیں تھی۔نام نہاد مدد صرف ۶ ارب ڈالر تھی اور آیندہ کے لیے ۵ئ۱ ارب ڈالر سالانہ کے حساب سے کیری لوگر بل کے ذریعے پانچ سال میں ۵ئ۷ ارب ڈالر دینے کا وعدہ ہے جسے امریکا خود اپنے طے کردہ پروگرام پر اپنے معتمدعلیہ اداروں کے ذریعے خرچ کرنے کی بات کررہا ہے۔ غضب ہے کہ راہ داری کی جو سہولت پاکستان نے امریکا اور ناٹو اقوام کو دی ہے اور جس کے تحت ایک اندازے کے مطابق ۴ہزار ٹرک ماہانہ افغانستان جارہے ہیں، ان کی راہ داری کے مصارف پورے طور پر وصول نہیں کیے جارہے اور جو نقصان سڑکوں کو اس سے ہو رہا ہے اس کی تلافی کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ مشرف اور موجودہ حکمرانوں نے کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ صرف اس سے کیا جاسکتا ہے امریکا کی جنگ کا پیٹ بھرنے کے لیے ہزاروں شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکت اور معذوری پر مستزاد اوسطاً ۴۰۰ ارب روپے سالانہ پاکستان کے غریب عوام نے دیے ہیں، جب کہ اس زمانے میں کُل سالانہ ترقیاتی بجٹ دو ڈھائی سو ارب سے بھی کم رہا ہے۔ غربت میں اضافہ ہوا ہے، فاقہ کشی سے اموات بشمول خودکشیاں بڑھی ہیں، بے روزگاری اور مہنگائی بڑھی ہے اور عام انسانوں کے لیے جان و مال کا عدم تحفظ اتنا بڑھ گیا ہے کہ گیلپ کے تازہ ترین جائزے کے مطابق آبادی کا ۹۰ فی صد عدم تحفظ کا شکار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر ہم امریکا سے مدد نہ لیں تو معیشت کابھٹہ بیٹھ جائے گا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کا بھٹہ اس جنگ نے بٹھایا ہے اور اگر صرف وہ وسائل جو اس جنگ کی آگ میں ہم نے جھونکے ہیں صرف وہ ملک کی معاشی ترقی پر صرف ہوئے ہوتے تو ترقی کی رفتار دگنی ہوسکتی تھی۔
پاکستان کے سیاسی اور معاشی مفادات پر تو کاری ضرب لگی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ بھارت سے جو خطرہ پاکستان کو ہے اور جو مسائل ہمارے درمیان نزاع کا باعث ہیں وہ اور بھی اُلجھ گئے ہیں۔ شمال مغربی محاذ پر فوجوں کے منتقل ہونے سے ہمارا جنوبی محاذ کمزور ہوا ہے اور بھارت نے پاکستان پر ’اچانک حملے‘ کا ایک نیا جارحانہ منصوبہ تیار کرلیا جس کی امریکا نے جھوٹے منہ بھی مذمت نہیں کی۔ ممبئی کے واقعے کے سلسلے میں بھارت کے ساتھ امریکا بھی پاکستان کو بلیک میل کرنے میں شریک ہوگیا۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے اصولی موقف کی تائید تو کجا، امریکا نے اپنے اوّلیں موقف کو ترک کر کے اسے صرف بھارت اور پاکستان کا دوطرفہ مسئلہ قرار دے دیا۔ پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے میں بھی امریکا نے کوئی مؤثر اقدام کرنے سے گریز کیا اور سب سے بڑھ کر پاکستان پر دبائو ڈال کر افغانستان اور بھارت کے درمیان واہگہ کے راستے راہداری معاہدہ کے لیے پیش خیمہ کے طور پر ایک MOU پر دستخط کرائے جس کی ہیلری کلنٹن صاحبہ نے بنفس نفیس شہادت دی۔ یہ معاہدہ پاکستان کی ۴۶سالہ پالیسی کے خلاف ہے اور اس پر تجارتی اور ٹرانسپورٹ برادری سخت نکتہ چین ہے۔
امریکا نے ایک طرف بھارت سے نیوکلیر ٹکنالوجی اور نیوکلیر ایندھن کی فراہمی کا معاہدہ کیا اور نیوکلیر سپلائی گروپ کو بھی اپنے اثرورسوخ کے ذریعے بھارت سے تعاون پر آمادہ کیا اور دوسری طرف نہ صرف یہ کہ پاکستان کو وہی سہولت فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے بلکہ پاک چین معاہدے کی بھی مخالفت کر رہا ہے اور نیوکلیر سپلائی گروپ میں چین کا راستہ روکنے کا عندیہ دیا ہے۔
یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ بار بار کے مطالبات کے باوجود نہ امریکا اور یورپ نے پاکستان کی مصنوعات کو اپنی منڈیوں میں داخلے کی وہ سہولتیں دی ہیں جو علاقے کے دوسرے ممالک کو حاصل ہیں اور نہ فاٹا میں برآمدی زون کے سلسلے میں ہی کوئی پیش رفت کی ہے جس کا وعدہ پانچ سال قبل کیا گیا تھا۔
صاف ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر میدان میں پاکستان اور امریکا کے مفادات میں اشتراک نہیں اور پاکستان سے امریکا کے تعلقات میں کوئی جوہری فرق واقع نہیں ہوا بلکہ جس طرح ماضی میں امریکی مفاد کی حد تک وقتی اور عارضی تعلقات تھے، اسی طرح آج بھی ہیں اور ہرلمحہ امریکی قیادت آنکھیں دکھانے اور ہاتھ مروڑنے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں امریکا سے تعلقات اور خارجہ پالیسی کے بنیادی خدوخال پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔
امریکا سے تعلقات پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر استوار ہونے چاہییں نہ کہ امریکا کے مفادات کے تابع۔ ہمارے لیے اپنی آزادی اور خودمختاری کی بازیافت اور ملکی سلامتی اور معیشت کے استحکام کے لیے اوّلیں ضرورت امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے اپنے کو علیحدہ کرنا ہے۔ اس کے لیے خارجہ پالیسی اور علاقائی حکمت عملی دونوں کو ازسرنو مرتب کرنا ضروری ہے۔ امریکا سے باہمی بنیادوں پر معاملہ ضرور کیا جائے لیکن فوری طور پر اس جنگ سے نکلنے کی طرف اقدام ضروری ہے۔ نیز ڈرون حملوں کے بارے میں دوٹوک وارننگ کہ اب انھیں ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا اور ایئرچیف کے اس اعلان کی روشنی میں کہ سیاسی قیادت اگر فیصلہ کرے ہماری ایئرفورس ان ڈرون حملوں کو ناکام بناسکتی ہے، پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔ امریکا اور ناٹو کو سپلائی ڈرون حملوں کے خاتمے اور راہداری کے معقول معاوضے کے ساتھ مشروط کیا جائے۔ ملک دہشت گردی کی جس لہر کی لپیٹ میں آگیا ہے خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کی جنگ سے لاتعلقی کا اس پر گہرا اثر پڑے گا۔ لیکن اس کے ساتھ مذاکرات اور مسئلے کے سیاسی حل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ قوم کی دینی اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے اور سب کے تعاون سے ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ امریکا کی معاشی مدد اور آئی ایم ایف کی زنجیروں سے نجات حاصل کی جائے اور اپنے ملکی وسائل، بیرون ملک پاکستانیوں کے تعاون اور دوست ممالک خصوصیت سے چین اور مسلم ممالک کے مشوروں سے معاشی ترقی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے مناسب حکمت عملی وضع کی جائے۔
اس سلسلے میں ہم اس بات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس میں ۲۲؍اکتوبر کو جو متفقہ قرارداد منظور کی ہے اور جس کی روشنی میں پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اپریل ۲۰۰۹ء کو جو تفصیلی سفارشات ایک واضح نقشۂ کار کی شکل میں دی ہیں، ان میں نئی پالیسی اور اس پر عمل درآمد کے لیے مؤثر حکمت عملی کے واضح خدوخال موجود ہیں۔ ان کی بنیاد پر قومی اتفاق راے کی قوت سے آزاد خارجہ پالیسی اور خودانحصاری پر مبنی معاشی ترقی اور اجتماعی خوش حالی کا منصوبہ بناکر اس پر جنگی بنیادوں پر عمل ہی میں ہماری نجات ہے۔ اس طرح ہم فوج اور قوم دونوں کو اس آزمایش سے نکال سکیں گے جس میں امریکا کے مفادات کی خدمت میں پرویز مشرف کے دور میں ملک کو جھونک دیا گیا اور زرداری گیلانی دور میں پارلیمنٹ کی قرارداد کے برعکس حالات کو اور بھی دگرگوں کر دیا گیا۔ اس دلدل سے نکلنے کا راستہ آج بھی واضح ہے لیکن اس کے لیے مفادات کی قربانی، اللہ پر بھروسا اورقوم کو ساتھ لے کر اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
(اس تحریر کا کتابچہ منشورات، منصورہ، لاہور سے دستیاب ہے۔ قیمت: ۱۱ روپے)