دین میں دعا کی بڑی اہمیت ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے اعراض اللہ رب العالمین کو سخت ناپسند ہے۔ قرآن و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عبادت شرائط و آداب سے خالی نہیں ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم عبادات کے نتائج و ثمرات تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے شرائط و آداب کی تکمیل کی طرف دھیان نہیں دیتے۔
قرآن و احادیث میں دعا کے جو شرائط و آداب مذکور ہیں وہ تین قسموں میں بانٹے جاسکتے ہیں۔ کچھ شرائط و آداب دعا سے پہلے ہیں، کچھ اس کے اندر ہیں، اور کچھ اس کے بعد ہیں۔ اگر ہم مثال کے طور پر نماز کو اپنے سامنے رکھ لیں تو ان شرائط و آداب کو سمجھنا آسان ہوجائے گا کیونکہ نماز کے لیے بھی کچھ شرائط و آداب اس سے پہلے ہیں، کچھ اس کے اندر ہیںاور کچھ اس کے بعد ہیں۔ دعا سے پہلے کی دو شرطیں بڑی اہم ہیں:
یہ ایک ایسی شرط ہے جو اللہ رب العزت کی تمام عبادتوں میں لگی ہوئی ہے۔ کوئی عبادت اس شرط کو پورا کیے بغیر قبول نہیں ہوتی۔ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی کو شریک نہ کیا جائے۔ پرستش صرف اسی کی اور پیروی و اطاعت صرف اسی کے احکام و اوامر کی کی جائے۔ اس کے حکم کے علی الرغم کسی کی اطاعت نہ کی جائے اور جو کچھ کیا جائے صرف اسی کی رضا حاصل کرنے اور اسی کے حکم کی تعمیل کی نیت سے کیا جائے۔ کوئی عمل محض دکھاوے کے لیے نہ کیا جائے۔ ہر عبادت اور ہر اطاعت شرک اور ریا کی آمیزش سے پاک ہو۔ قرآن میں متعدد مقامات پر صراحت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کی جائے اور اس سے دعا مانگی جائے۔ اگر کوئی شخص اس شرط کی خلاف ورزی کرکے یہ توقع کرے کہ اس کی عبادت اور اس کی دعا بارگاہ الٰہی میں قبول کی جائے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ عبادت کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
اِِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ o اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط (الزمر ۳۹: ۲-۳) (اے محمدؐ!) یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔
قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَہٗ دِیْنِیْ o فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖط (الزمر ۳۹: ۱۴-۱۵) کہہ دو کہ میں اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اسی کی بندگی کروں گا تم اس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو۔
یہ ایک سخت تنبیہی انداز ہے جو غیراللہ کی بندگی کرنے پر مشرکین کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح کی آیتیں قرآن میں اور بھی ہیں۔ مخصوص طور پر دعا کے لیے قرآن میں کہا گیا ہے: وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ(الاعراف ۷:۲۹) ’’اور پکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہوکر‘‘۔ سورئہ مومن میں ہے: فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo (المومن ۴۰:۱۴) ’’پس اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے خواہ تمھارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندگی و طاعت کو اللہ کے لیے خالص کر کے صرف اسی کو پکارنا، اس کی دہائی دینا اور اس سے دعا کرنا کافروں کو سخت ناگوار ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکارنا اور ان کی دہائی دینا پسند کرتے ہیں۔ سورئہ مومن ہی میں دوسری جگہ ہے:
فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (المومن ۴۰:۶۵) وہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، ساری تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
آج بہت سے مسلمانوں کا بھی حال یہ ہے کہ ان کی بندگی و اطاعت اللہ کے لیے خالص رہی ہے اور نہ ان کی دعا۔ وہ اوامر الٰہی کے علم الرغم دوسروں کی اطاعت بھی کر رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ دوسروں کی دہائی بھی دے رہے ہیں۔ کاش! وہ من گھڑت تاویلات کو ترک کرکے ان آیات پر غور کرتے۔
قبولیت ِ دعا کے لیے دوسری اہم شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والے کا رزق حلال ہو اور اس کی کمائی یا ذریعۂ معاش بھی حلال ہو، حرام خوری کے ساتھ دعا قبول نہیں ہوتی۔ یہ شرط صراحت کے ساتھ صحیح حدیث میں مذکور ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی دو آیتوں سے استشہاد فرمایا ہے۔ اس لیے کہنا چاہیے کہ اکل حلال و کسب حلال کی شرط اشارتاً خود قرآن میں مذکور ہے۔
امام مسلم نے کتاب الزکوٰۃ میں اور امام ترمذی نے سورئہ بقرہ کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت کی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بلاشبہہ اللہ تمام نقائص و عیوب سے پاک ہے اور صرف حلال اور پاک چیزوں ہی کو قبول فرماتا ہے اور اس کے متعلق اس نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسولوں سے فرمایا ہے: ’’اے میرے پیغمبرو! تم پاک اور حلال غذا کھائو اور صالح عمل کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو میں پوری طرح اس سے باخبر ہوں‘‘۔ اور اپنے مومن بندوں سے اس نے کہا ہے: ’’اے ایمان لانے والو، تم میری دی ہوئی روزی میں سے حلال اور پاک چیزیں کھائو۔ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو (کسی مقدس مقام میں) لمبا سفر طے کر کے آتا ہے، پریشان مو اور غبارآلود مگر حال یہ ہوتا ہے کہ اس کاکھانا حرام، لباس حرام اور اس کا جسم حرام غذا سے پلا ہوا۔ پس اس شخص کی دعا کس طرح قبول ہو۔حضوؐر نے اپنے ارشاد میں جن دو آیتوں کا حوالہ دیا ہے ان میں سے پہلی سورۃ المومنون کی آیت۵۱ ہے اور دوسری سورئہ بقرہ کی آیت ۱۷۲ ہے۔ قبولیت ِ دعا کی اس شرط سے بھی مسلمان جو غفلت برت رہے ہیں اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۱- حضور قلب کا مطلب یہ ہے کہ دعا کے وقت داعی کا دل اللہ کی طرف متوجہ اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو دعا کے الفاظ نکل رہے ہوں اوردل کہیں اور کی ہوا کھا رہا ہو۔ دعا کے وقت اگر دل غافل ہو تو وہ قبول نہیں ہوتی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اور جان لو کہ اللہ دعا قبول نہیں کرتا کسی غافل دل کی۔ (کنزالعمال، ج ۲)
اسی معنی کی حدیث طبرانی نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ اگر دل ہی حاضر نہ ہو تو پھر تضرع اور خوف و رجا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جب آدمی دعا کر رہا ہو تو اسے شعور ہونا چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔
۲- تضرع کی شرط صراحتاً قرآن میں مذکور ہے۔ سورئہ اعراف کی آیت ۵۵-۵۶ کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آیت ۵۵ کا پہلا ٹکڑا یہ ہے: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا (اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے)۔ یہاں تضرع کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ کے سامنے اپنی ذلت، عاجزی، پستی اور ضعف کے زندہ شعور اور تازہ احساس کے ساتھ دعا کرے۔ اس کا مطلب زور زور سے چیخ چیخ کر دعا کرنا نہیں ہے کیونکہ اس کی صراحتاً ممانعت آئی ہے اور یہ آدابِ دعا کے خلاف ہے۔ مفسرین نے اس لفظ کی تفسیر تذلل تخثع اور استکانت کے الفاظ سے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے سامنے اپنے بندے کی عاجزی کو بے حد پسند فرماتا ہے۔ وہ جب اپنے آقا و مولیٰ کے سامنے گڑگڑا کر دست سوال دراز کرتا ہے تو اس کے مالک کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ قرآن میں کفار و مشرکین کی جن کیفیات و حالات کی مذمت کی گئی ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے خدا کے سامنے عاجزی کا اظہار نہیں کیا اور نہ اس کے سامنے گڑگڑائے۔
وَلَقَدْ اَخَذْنٰھُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّھِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَo (المومنون ۲۳:۷۶) اور ہم نے ان کو آفت میں پکڑا پھر نہ انھوں نے اپنے رب کے سامنے عاجزی کی اور نہ گڑگڑائے۔
قرآن ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تضرع اور اخلاص وہ چیز ہے جو دنیا میں کفار و مشرکین کو بھی بعض مصیبتوں سے بچا لیتی ہے۔ مشرکین پر ان کے شرک کی حماقت واضح کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے:
اے محمدؐ! ان سے پوچھو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمھیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکرگزار ہوں گے۔ کہو، اللہ تمھیں اس سے اور ہرتکلیف سے نجات دیتا ہے۔ پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتے ہو۔ (الانعام ۶:۶۳، ۶۴)
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔ (آیت۱۶)
ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تضرع اور اضطرار و بے قراری کی کیفیت اسے بارگاہِ الٰہی میں قابلِ قبول بنادیتی ہے۔ دعا اور ذکر دونوں ہی میں تضرع اور خوف و رجا کا مقام وہی ہے جو نماز میں خشوع اور خضوع کا ہے۔ ذکرِ الٰہی کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً (الاعراف ۷:۲۰۵) اے نبیؐ! اپنے رب کو یاد کیا کرو دل ہی دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور خوفِ خدا کے ساتھ۔
۳- خوف اور اُمید کے ساتھ دعا کرنے کی تعلیم بھی الاعراف، آیت ۵۶ میں صراحتاً موجود ہے۔ وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًاط (اور اس کو پکارو خوف کے ساتھ اور اُمید کے ساتھ)۔ اللہ کے عذاب کا خوف اور اس کے ثواب کی اُمید وہ چیز ہے جو مومن کو راہِ اعتدال پر قائم رکھتی ہے۔ وہ نہ اسے بے پروا اور نڈر ہونے دیتی ہے اور نہ اسے مایوس اور دل شکستہ بناتی ہے۔ خاص دعا کے لحاظ سے اس بات کا اندیشہ کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے دعا رد نہ کردی جائے۔ اسے دعا کے شرائط و آداب کی طرف متوجہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بیکراں کا خیال اسے قبولیت ِ دعا کا اُمیدوار بناتا ہے۔ قرآن میں انبیاے کرام علیہم السلام اور صالح بندوں کی دعا و عبادت کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس میں خوف و رجاء کا خاص طور پر ذکر ہے۔ ایک مقام پر انبیاؑ کے مختلف حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھَبًَا ط وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo(الانبیاء ۲۱:۹۰) یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑدھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔
ایک جگہ صالحین کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o (السجدہ ۳۲: ۱۶) ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
ہمیں اپنی عبادتوں اور دعائوں کو ان آیات کی کسوٹی پر کس کر دیکھنا چاہیے اور انھیں کھرا بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔ یہی حقیقی تدبیر ہے ان کے نتائج و ثمرات حاصل کرنے کی۔
دعا میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کی شرط لگانا صحیح نہیں ہے، بلکہ جو کچھ مانگنا ہو پوری قطعیت اور عزم کے ساتھ مانگنا چاہیے۔ بخاری میں ہے: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یوں نہ کہے کہ اے اللہ! مجھے بخش دے اگر تو چاہے، اے اللہ مجھ پر رحم کر! اگر تو چاہے بلکہ بغیر شرطِ قطعیت کے ساتھ دعا کرے۔ اس لیے کہ اللہ پر جبر کرنے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اگر اللہ نہ چاہے تو زبردستی اس سے کوئی چیز حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے اس کے چاہنے کی شرط لگانا بے کار ہے اور ادب دعا کے خلاف بھی ہے۔
دعا میں تصنع اور تکلف کر کے مسجّع و مقفّٰی الفاظ استعمال کرنا غلط ہے کیونکہ اس طرح دعا کی روح اس سے غائب ہوجاتی ہے۔ نہ حضور قلب باقی رہتا ہے اورنہ تضرع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے بلکہ ذہن قافیے اور سجّع کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ایک بار اپنے شاگرد حضرت عکرمہ کو چند ہدایتیں دیں، ان میں سے ایک یہ تھی: ’’دعا میں سجع سے اجتناب کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو ایسا کرتے نہیں پایا‘‘ (بخاری)۔ البتہ اگر بلاتکلف مسجّع و مرصّع الفاظ زبان سے نکلیں تو دعا ایک پارۂ ادب بھی بن جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر دعائیہ کلمات، بہترین پارہ ہاے ادب بھی ہیں۔
دعا میں اعتدائ، یعنی حد سے تجاوز کرنا بھی ایک غلط کام ہے۔ سورئہ اعراف کی آیت ۵۵ میں فرمایا گیا ہے: ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی متعدد صورتیں ہوتی ہیں:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً (الاعراف ۷:۲۰۵) اے نبیؐ! اپنے رب کو یاد کیا کرو دل ہی دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور خوفِ خدا کے ساتھ۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی مدح کرتے ہوئے ان کی ایک خاص دعا کا بیان قرآن میں اس طرح ہے: اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّا o(مریم ۱۹:۳) ’’جب کہ انھوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا‘‘۔ امام رازی نے لکھا ہے کہ اس آیت سے بھی یہی مستنبط ہوتا ہے کہ آہستگی کے ساتھ دعا کرنا مستحب ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ایک سفر جہاد میں صحابہ کرام بآواز بلند تکبیر کہنے لگا تو حضوؐر نے انھیں اس سے روکا اور فرمایا کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ ایک ایسی ذات کو پکار رہے ہو جو سمیع و قریب ہے اور وہ تمھارے ساتھ ساتھ ہے۔
امام رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: حضرت حسن بصریؒ کہتے تھے کہ کوئی شخص پورا قرآن حفظ کرلیتا تھا لیکن اس کے پڑوسی کو اس کی خبر بھی نہ ہوتی تھی۔ اسی طرح کوئی شخص تہجد کی طویل نمازیں پڑھتا تھا اور اس کے پاس لیٹے ہوئے شخص کو اس کا شعور بھی نہیں ہوتا تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو پایا ہے جو اعمالِ خیر کے اخفاء میں مبالغہ کرتے تھے۔ ہم نے ان مسلمانوں کو دیکھا ہے جو دعا میں پوری محنت صرف کرتے تھے لیکن ان کی آواز بلند نہیں ہوتی تھی، اس لیے کہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’اپنے رب کو یاد کرو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے‘‘۔
اس کے علاوہ انسان کا نفس دکھاوے اور شہرت طلبی کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اس لیے بآواز بلند دعا کرنے میں اندیشہ ہے کہ اس میں ریا کی آمیزش ہوجائے۔ اس سے بچنے کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ چیخ چیخ کر دعا نہ کی جائے۔ آج کل جلسوں میں اور مسجدوں میں زور زور سے دعا مانگنے کا جو رواج ہوگیا ہے، وہ دعا کے اس ادب سے لاعلمی کی دلیل ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو سنن و نوافل سے فارغ ہوکر بآواز بلند دعا مانگنے لگتے ہیں۔ انھیں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ دوسرے لوگوں کو جو ابھی نماز میں مشغول ہیں پریشانی ہوگی۔ البتہ اگر کوئی ضرورت داعی ہو تو درمیانی آواز کے ساتھ دعا مانگی جاسکتی ہے۔
’جامع دعا‘ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آپؐ دنیا اور آخرت دونوں ہی کی بھلائیاں طلب فرماتے تھے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ کی دعائوں کے الفاظ کم لیکن معانی بہت ہوتے تھے، یعنی آپ اپنی دعائوں کو غیرضروری الفاظ بڑھا کر طویل نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے دعا کے اس ادب کو اچھی طرح ذہن نشین کیا تھا اور وہ غیرضروری الفاظ کے اضافے کو دعا میں اعتداء قرار دیتے ہیں۔ ابوداؤد میں ہے کہ حضرت سعد بن وقاصؓ نے اپنے ایک بیٹے کو دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ’’اے اللہ! میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور اس کی نعمتیں، اور اس کا ریشم اور یہ، اور یہ، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دوزخ سے اور اس کی زنجیروں سے اور اس کے طوق سے‘‘۔
جب وہ دعا ختم کرچکے تو حضرت سعدؓ نے ان سے کہا: تم نے خیرکثیر کی دعا کی اور بہت سے شر سے پناہ مانگی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو دعا میں حد سے تجاوز کریںگے اور بعض حدیثوں میں ہے کہ لوگ وضو میں اور دعا میں حد سے تجاوز کریںگے۔ جنت کی طلب میں اس کی تمام نعمتوں اور آسایشوں کی طلب خودبخود داخل ہے۔ اسی طرح دوزخ سے استعاذہ میں اس کی تمام سزائوں اور زحمتوں سے استعاذہ خود بخود داخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سعد نے جنت کی دعا کے ساتھ اس کی نعمتوں کی تفصیل اور جہنم سے استعاذے کے ساتھ اس کی سزائوں کے ذکر کو ناپسند کیا اور ان غیرضروری الفاظ کے اضافے کو ادبِ دعا کے خلاف قرار دیا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل نے اپنے بیٹے کو کہتے ہوئے سنا: ’’اے اللہ! میں تجھ سے قصر ابیض (سفیدمحل) مانگتا ہوں جنت کے داہنے جانب‘‘۔ یہ سن کر انھوں نے کہا: جنت مانگو اور جہنم سے پناہ چاہو۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب اس اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو وضو اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے۔ اس دعا میں انھوں نے غیرضروری قید اور شرط کو ادب دعا کے خلاف قرار دیا۔ وضو میں حد سے تجاوز کی ایک صورت یہ ہے کہ بلاضرورت ہرعضو کو تین بار سے زیادہ دھویا جائے۔ اگر کسی شخص کو اپنی کوئی خاص اور وقتی حاجت و ضرورت کی دعا مانگنی نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ دعاے ماثورہ، یعنی قرآن اور احادیث میں مذکور دعائیں مانگے۔ ان میں خاص برکت بھی ہے اور وہ ان تمام بے اعتدالیوں سے محفوظ بھی ہیں جو دعا میں انسان سے ہوسکتی یا ہوجایا کرتی ہیں۔
دعا کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینے تک اُٹھا کر دعا مانگے اور دعا ختم کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرلے۔ اگر دعا کرنے والا باوضو اور قبلہ رو ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ فرض نمازوں کے بعد یا سنن و نوافل کے بعد جو دعائیں مانگی جاتی ہیں ان میں ان آداب پر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے اور مسلمان ایسا کرتے بھی ہیں۔ دعا سے پہلے اللہ کی حمدوثنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اور دعا کے بعد آمین کہنا بھی آدابِ دعا میں داخل ہے۔ دعا کے یہ آداب، احادیث ِ رسولؐ سے ثابت ہیں۔ میں طوالت کے خوف سے وہ حدیثیں یہاں نقل نہیں کر رہا ہوں۔
دعائوں کے لیے شریعت نے پنج وقتہ نمازوں کی طرح کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا ہے۔ دعا ہروقت کی جاسکتی ہے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعائوں کے لیے بہتر اوقات و حالات کا انتخاب کرنے سے ان کی مقبولیت کی زیادہ توقع پیدا ہوجاتی ہے۔ امام غزالی اور دوسرے علما و صوفیا نے ان اوقات و حالات کو یک جا کرکے بیان کیا ہے۔
ایک وقت تو پورے سال میں ایک بار آتا ہے جیسے یومِ عرفہ، اور سال کے ۱۲ مہینوں میں ایک مہینہ رمضان المبارک اور بالخصوص شب ِقدر۔ بعض اوقات ہر ہفتہ آتے ہیں جیسے جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن۔ بالخصوص نمازِ جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان اور سورج ڈوبنے سے تھوڑی دیر پہلے۔ بعض اوقات روزانہ آتے ہیں جیسے آخر شب میں سحر کا وقت، فرض نمازوں کے بعد، اذان و اقامت کے وقت اور اذان و اقامت کے درمیان بارش کے وقت۔ سجدے کی حالت میں تکثیر دعا کی ترغیب دی گئی ہے۔ روزہ دار کے لیے افطار کا وقت، مسافر کے لیے ابتداے سفر کا وقت اور حالت سفر میں، حالت اضطرار میں۔ اس حالت میں جب اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قیامت کی ہولناکی کے تصور سے جسم پر لرزہ طاری ہو۔ دعائوں کے لیے ان اوقات و احوال کے بہتر ہونے کے ثبوت میں قرآن کی آیات اور صحیح احادیث موجود ہیں۔
دعا کے بعد اس کی مقبولیت کی ایک اور شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اس کے لیے جلدی نہ مچائے۔ امام بخاری و مسلم دونوں ہی نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص بھی دعا کرے اس کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلدبازی کرکے یہ نہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی لیکن وہ قبول نہیں کی گئی‘‘۔
امام مسلم کی روایت میں یہ ہے: ’’بندے کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ مچائے۔ پوچھا گیا کہ استعجال (جلدبازی) کا مطلب کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعاگو کہنے کے لیے میں دعا کی پھر دعا کی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ قبول ہوگی اور پھر وہ دعا کرنا ترک کر دے‘‘۔
مقبولیت ِ دعا میں جلدبازی چند نادانیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک نادانی یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کی حقیقت ہی سے ناواقف ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ غلام، تسلیم و رضا کا پیکر بنا ہوا اپنے مہربان آقا کے دامن سے چمٹا رہے اور اس کے سامنے احتیاج کا ہاتھ پھیلائے رہے۔ دعا عبادت بلکہ مغز عبادت ہے اور عبادت کے اجر کا محل اصلاً یہ دنیا نہیں ہے بلکہ آخرت ہے۔ جلدباز دعاگو کی دوسری نادانی یہ ہے کہ وہ اپنی دعا کو ہرطرح قابلِ قبول سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ مقبولیت ِ دعا کی جو شرطیں ہیں وہ پوری نہ ہوئی ہوں۔ وہ جانتا ہے کہ آقا اس کا بخیل نہیں ہے اور نہ اس کے خزانے میں کوئی کمی ہے۔ وہ رحمن و رحیم بھی ہے، عادل بھی، حکیم بھی ہے اور جواد و فیاض بھی۔ اب اگر اس کی مانگی ہوئی چیز نہیں مل رہی ہے تو اس کی کوئی خاص وجہ ہوگی۔
تیسری نادانی یہ ہے کہ وہ مقبولیت ِ دعا کا صحیح مطلب نہیں جانتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بندہ جو کچھ مانگے وہ ہر حال میں اسے دے ہی دیا جائے خواہ اس کی مصلحت کے مطابق ہو یا نہ ہو، بلکہ دعا کی مقبولیت اللہ کی حکمت اور بندے کی مصلحت کے ساتھ مربوط ہے۔
انسان کی فطرت میں چونکہ جلدبازی داخل ہے اس لیے اس کے بُرے اثرات سے بچانے اور مطمئن کرنے کے لیے دعا کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتا دیا ہے کہ مومن کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی بلکہ ہمیشہ قبول کی جاتی ہے۔ البتہ قبول کرنے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہہ تمھارا رب صفت حیا سے متصف اور کریم ہے۔ جب اس کا بندہ اس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ ان ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘(ترمذی، ابوداؤد، بیہقی)۔ اس سے معلوم ہوا کہ بندۂ مومن کے دعا میں اُٹھے ہوئے ہاتھ کبھی محروم اور خالی واپس نہیں آتے بلکہ اپنے مولاے کریم سے کچھ نہ کچھ لے کر لوٹتے ہیں، لیکن یہ بات ذہن میں اوجھل نہ ہونے دینا چاہیے کہ قبولیت ِ دعا کے آداب و شرائط کا لحاظ ضروری ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: جب کوئی مسلمان ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا رشتے کو کاٹنے والی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز عطا فرماتا ہے: ۱-جو کچھ اس نے مانگا ہے دنیا ہی میں اسے دے دے ۲- اس کا اجر آخرت کے لیے ذخیرہ کردے ۳-جو خیر اس نے مانگی تھی اسی کے مثل کوئی شر اس سے دُور کردے۔ صحابہؓ نے کہا: تب تو ہم بہ کثرت دعائیں مانگیں گے۔ حضوؐر نے فرمایا: اللہ کا خزانہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ مسنداحمد ، بزار و ابویعلٰی)
اسی مضمون کی حدیثیں حضرت عبادہ بن الصامتؓ، حضرت ابوہریرہؓ، اور حضرت جابرؓ سے بھی مروی ہیں۔ ان حدیثوں میں بھی قبولیت دعا کی ایک شرط مذکور ہے، یعنی یہ کہ اس کی دعا میں کسی گناہ کی طلب یا قطع رحمی کی کوئی بات نہ ہو۔ دعا میں قطع رحمی کی ایک صورت یہ ہے کہ رشتہ داروں کے حق میں دعاے خیر کے بجاے بددعا کی گئی ہو۔
یہ حدیثیں مجھ جیسے عجلت پسند انسان کو اطمینان دلاتی ہیں کہ شرائط و آداب کے ساتھ کوئی بھی مخلصانہ دعا رد نہیں کی جاتی۔ ہم دنیا میں کوئی بھلائی مانگتے ہیں اور وہ نہیں ملتی یا کسی مصیبت اور تکلیف کو دُور کرنے کی دعا کرتے ہیں اور وہ دُور نہیں ہوتی توہم دل شکستہ اور مایوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ حدیثیں اس دل شکستگی اور مایوسی کو ختم کردیتی ہیں اور ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ مانگنے کے باوجود دنیا میں ہمیں جو کچھ نہیں ملا اس کا بدلہ آخرت میں ضرور ملے گا اور وہاں جو کچھ ملے گا وہ بہتر بھی ہوگا اور پایندہ تر بھی۔
فلسفۂ یونان کے اثر سے جب اسلامی عقائد اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں بحثیں شروع ہوئیں تو اسلامی لٹریچر میں ایک نئے علم، علمِ کلام کا اضافہ ہوا، اور تصوف بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ فلسفہ اور علمِ کلام نے جو سب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی نگاہ سے قرآن اور احادیث کے دلائل اوجھل ہوگئے اور انھوں نے بھی فلسفیوں کی طرح عقلی و دماغی تیر تکّے چلانے شروع کر دیے۔ کتاب و سنت کے معقول دلائل انسان کے دل میں اطمینان اور یقین کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف فلسفے کے عقلی دلائل قلب کو شک اور تردد میں مبتلا کردیتے ہیں۔ بہرحال فلسفیانہ بحث و مباحثے کی زد ’دعا‘ پر بھی پڑی اور اس کے بارے میں بھی لوگوں نے عقلی تیر تکے چلانے شروع کر دیے۔ تصوف میں بھی اس مسئلے میں متعدد اقوال پیدا ہوگئے۔
رسالہ قشیریہ میں جو تصوف کی قدیم اور مستند کتاب ہے، وہ اقوال نقل کیے گئے ہیں: ۱-دعا کرنا افضل ہے ۲- خاموش اور راضی برضاے الٰہی رہنا افضل ہے ۳- بہتر یہ ہے کہ بندے کی زبان دعاگو رہے اور قلب راضی برضا رہے ۴-مختلف اوقات و حالات کا حکم مختلف ہے۔ بعض حالات میں دعا کرنا خاموش رہنے سے افضل ہے اور اس وقت کا یہی ادب ہے اور بعض حالات میں خاموش رہنا دعا کرنے سے افضل ہے اور اس وقت کا یہی ادب ہے۔ اس کا معیار یہ ہے کہ اپنے قلب کو دیکھے اگر وہ دعا کا اشارہ کرے تو دعا افضل ہوگی اور اگر سکوت کا اشارہ کرے تو سکوت افضل ہوگا ۵- اپنے حال کا لحاظ کرے۔ اگر دعا کے وقت کیفیت بسط میں زیادتی محسوس کرے تو دعا افضل ہوگی اور اگر اس وقت کسی قسم کی اُکتاہٹ اور ’قبض‘ کی کیفیت محسوس ہو تو سکوت افضل ہوگا اور اگر نہ ’بسط‘ میں زیادتی ہو اور نہ ’قبض‘ میں تو دعا اور ترکِ دعا کا معاملہ برابر رہے گا۔ ۶- اگر ارادۂ دعا کے وقت ’علم‘ غالب ہو تو دعا افضل ہے، اس لیے کہ وہ عبادت ہے اور اگر اس وقت ’معرفت‘ ، ’حال‘ اور ’سکوت‘ غالب ہو تو خاموش رہنا افضل ہوگا ۷-جس دعا میں مسلمانوں کا حصہ ہو یا حق تعالیٰ کا اس میں حق ہو تو دعا بہتر ہے اور اگر اس میں خود تمھارے اپنے لیے حظ و نصیب ہو تو سکوت اولیٰ ہے۔
ان اقوال میں فلسفیانہ تصوف کی چند اصطلاحیں بھی استعمال ہوئی ہیں۔ وقت، حال، اشارہ، بسط، قبض، علم، معرفت، سکوت___ دعا کے بارے میں قرآن و حدیث کی جو تصریحات اُوپر گزریں انھیں پڑھیے اور پھر رسالہ قشیریہ میں منقول ان اقوال پر نظر ڈالیے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام اقوال تصوف میں فلسفے کو داخل کر دینے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم نہ فلسفۂ یونان کی افادیت کے قائل ہیں اور نہ ہمیں اجنبی عناصر سے مخلوط تصوف سے دل چسپی ہے، اس لیے ان اقوال و اصطلاحات کی توضیح بے کار ہے۔ البتہ ایک غلطی کا ازالہ ضروری ہے جس کا تعلق حدیث نبویؐ سے ہے۔ دعا کے سلسلے میں دوسرا قول یہ نقل کیا گیا ہے کہ خاموش اور راضی بقضا یا راضی برضاے الٰہی رہنا افضل ہے۔ اس قول کی دلیل کے طور پر رسالہ قشیریہ میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس شخص کو میرے ذکر نے مشغول کر دیا مجھ سے سوال کرنے سے، میں اس کو دوں گا، اس سے بہتر جو سوال کرنے والوں کو دیتا ہوں‘‘۔
راقم الحروف نے مشکوٰۃ، جمع الفوائد، ترغیب و ترہیب اور کنزالعمال میں یہ حدیث تلاش کی لیکن ناکام رہا، البتہ قرآن کریم کی فضیلت کے بیان میں امام ترمذی اور دارمی نے یہ حدیث روایت کی ہے: ’’ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: جس کو قرآن نے مشغول کر دیا میرے ذکر اور دعا سے میں اس کو عطا کروں گا اس سے بہتر جو سوال کرنے والوں کو عطا کرتا ہوں، پس دوسرے کلاموں پر کلام اللہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر‘‘۔ (ترمذی)
امام دارمی نے یہ حدیث باب فضل کلام اللہ علیٰ سائر کلام اللہ میں روایت ہے: ’’جس کو قرآن کی تلاوت نے مشغول کر دیا مجھ سے سوال کرنے اور میرا ذکر سے میںاس کو دوں گا سوال کرنے والوں سے بہتر اجر اور اللہ کے کلام کی فضیلت بقیہ دوسرے کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر‘‘۔ (دارمی)
یہ ایک ضعیف حدیث ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے کلام قرآنِ مجید کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اگر قرآن کی تلاوت میں اس درجہ مشغولیت رہی کہ قاریِ قرآن، اللہ کا کوئی اور ذکر اور اس سے دعا نہ کرسکا تو وہ اسے مانگنے والوں کے مقابلے میں افضل اور بہتر چیز عطا کرے گا اور اس کی یہ وجہ بھی اس میں بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ کا کلام چونکہ دوسرے تمام کلاموں سے افضل ہے۔ اس لیے اس کا اجر اور اس کی برکت بھی سب سے زیادہ ہوگی۔ اس ضعیف حدیث میں شاغل (مشغول کرنے والا) قرآن ہے اور مشغول عنہ (مشغولیت کی وجہ سے جس کی طرف توجہ نہیں کی جاسکی) ذکر بھی ہے اور دعا بھی۔ اسی حدیث میں کسی نے تحریف کر کے ان صوفیوں کو سنا دی جو ترکِ دعا کو افضل قرار دیتے تھے اور انھوں نے بلاتحقیق اسے قبول کرلیا اور پھر صاحب ِ رسالہ قشیریہ نے بھی اسے اپنی کتاب میں نقل کر دیا۔ تحریف کرنے والے نے تلاوتِ قرآن کو حذف کر کے ذکر کو شاغل اور دعا کو مشغول عنہ بنادیا حالانکہ اس حدیث میں ذکر اور دعا دونوں ہی مشغول عنہ اور قرآن شاغل تھا۔
اصل میں رضا بقضا، یعنی اللہ کے فیصلے اور اس کی مرضی پر راضی رہنے کا مطلب ان لوگوں نے صحیح نہیں سمجھا جو ترکِ دعا کو افضل کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اللہ سے اپنے لیے کچھ مانگنا مقامِ تسلیم و رضا کے خلاف ہے حالانکہ یہ خیال قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف اور بالکل غلط ہے۔ حد ہوگئی کہ ابوسلیمان دارانی نے جو اپنے وقت کے ایک بڑے صوفی تھے، ’رضا‘ کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیا: ’’ابوسلیمان نے کہا کہ ’رضا‘ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے نہ جنت کی دعا کرو اور نہ دوزخ سے پناہ مانگو‘‘ (الرسالۃ القشیریہ)۔ یہ قول جس کا بھی ہو، اللہ و رسولؐ کے اقوال کی عین ضد ہے اور صوفیاے کرام ہی کی تصریحات کے مطابق اسے قبول نہیں کرنا چاہیے۔