دین میں دعا کی بڑی اہمیت ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے اعراض اللہ رب العالمین کو سخت ناپسند ہے۔ قرآن و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عبادت شرائط و آداب سے خالی نہیں ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم عبادات کے نتائج و ثمرات تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے شرائط و آداب کی تکمیل کی طرف دھیان نہیں دیتے۔
قرآن و احادیث میں دعا کے جو شرائط و آداب مذکور ہیں وہ تین قسموں میں بانٹے جاسکتے ہیں۔ کچھ شرائط و آداب دعا سے پہلے ہیں، کچھ اس کے اندر ہیں، اور کچھ اس کے بعد ہیں۔ اگر ہم مثال کے طور پر نماز کو اپنے سامنے رکھ لیں تو ان شرائط و آداب کو سمجھنا آسان ہوجائے گا کیونکہ نماز کے لیے بھی کچھ شرائط و آداب اس سے پہلے ہیں، کچھ اس کے اندر ہیںاور کچھ اس کے بعد ہیں۔ دعا سے پہلے کی دو شرطیں بڑی اہم ہیں:
یہ ایک ایسی شرط ہے جو اللہ رب العزت کی تمام عبادتوں میں لگی ہوئی ہے۔ کوئی عبادت اس شرط کو پورا کیے بغیر قبول نہیں ہوتی۔ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی کو شریک نہ کیا جائے۔ پرستش صرف اسی کی اور پیروی و اطاعت صرف اسی کے احکام و اوامر کی کی جائے۔ اس کے حکم کے علی الرغم کسی کی اطاعت نہ کی جائے اور جو کچھ کیا جائے صرف اسی کی رضا حاصل کرنے اور اسی کے حکم کی تعمیل کی نیت سے کیا جائے۔ کوئی عمل محض دکھاوے کے لیے نہ کیا جائے۔ ہر عبادت اور ہر اطاعت شرک اور ریا کی آمیزش سے پاک ہو۔ قرآن میں متعدد مقامات پر صراحت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کی جائے اور اس سے دعا مانگی جائے۔ اگر کوئی شخص اس شرط کی خلاف ورزی کرکے یہ توقع کرے کہ اس کی عبادت اور اس کی دعا بارگاہ الٰہی میں قبول کی جائے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ عبادت کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
اِِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ o اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط (الزمر ۳۹: ۲-۳) (اے محمدؐ!) یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔
قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَہٗ دِیْنِیْ o فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖط (الزمر ۳۹: ۱۴-۱۵) کہہ دو کہ میں اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اسی کی بندگی کروں گا تم اس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو۔
یہ ایک سخت تنبیہی انداز ہے جو غیراللہ کی بندگی کرنے پر مشرکین کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح کی آیتیں قرآن میں اور بھی ہیں۔ مخصوص طور پر دعا کے لیے قرآن میں کہا گیا ہے: وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ(الاعراف ۷:۲۹) ’’اور پکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہوکر‘‘۔ سورئہ مومن میں ہے: فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo (المومن ۴۰:۱۴) ’’پس اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے خواہ تمھارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندگی و طاعت کو اللہ کے لیے خالص کر کے صرف اسی کو پکارنا، اس کی دہائی دینا اور اس سے دعا کرنا کافروں کو سخت ناگوار ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکارنا اور ان کی دہائی دینا پسند کرتے ہیں۔ سورئہ مومن ہی میں دوسری جگہ ہے:
فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (المومن ۴۰:۶۵) وہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، ساری تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
آج بہت سے مسلمانوں کا بھی حال یہ ہے کہ ان کی بندگی و اطاعت اللہ کے لیے خالص رہی ہے اور نہ ان کی دعا۔ وہ اوامر الٰہی کے علم الرغم دوسروں کی اطاعت بھی کر رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ دوسروں کی دہائی بھی دے رہے ہیں۔ کاش! وہ من گھڑت تاویلات کو ترک کرکے ان آیات پر غور کرتے۔
قبولیت ِ دعا کے لیے دوسری اہم شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والے کا رزق حلال ہو اور اس کی کمائی یا ذریعۂ معاش بھی حلال ہو، حرام خوری کے ساتھ دعا قبول نہیں ہوتی۔ یہ شرط صراحت کے ساتھ صحیح حدیث میں مذکور ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی دو آیتوں سے استشہاد فرمایا ہے۔ اس لیے کہنا چاہیے کہ اکل حلال و کسب حلال کی شرط اشارتاً خود قرآن میں مذکور ہے۔
امام مسلم نے کتاب الزکوٰۃ میں اور امام ترمذی نے سورئہ بقرہ کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت کی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بلاشبہہ اللہ تمام نقائص و عیوب سے پاک ہے اور صرف حلال اور پاک چیزوں ہی کو قبول فرماتا ہے اور اس کے متعلق اس نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسولوں سے فرمایا ہے: ’’اے میرے پیغمبرو! تم پاک اور حلال غذا کھائو اور صالح عمل کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو میں پوری طرح اس سے باخبر ہوں‘‘۔ اور اپنے مومن بندوں سے اس نے کہا ہے: ’’اے ایمان لانے والو، تم میری دی ہوئی روزی میں سے حلال اور پاک چیزیں کھائو۔ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو (کسی مقدس مقام میں) لمبا سفر طے کر کے آتا ہے، پریشان مو اور غبارآلود مگر حال یہ ہوتا ہے کہ اس کاکھانا حرام، لباس حرام اور اس کا جسم حرام غذا سے پلا ہوا۔ پس اس شخص کی دعا کس طرح قبول ہو۔حضوؐر نے اپنے ارشاد میں جن دو آیتوں کا حوالہ دیا ہے ان میں سے پہلی سورۃ المومنون کی آیت۵۱ ہے اور دوسری سورئہ بقرہ کی آیت ۱۷۲ ہے۔ قبولیت ِ دعا کی اس شرط سے بھی مسلمان جو غفلت برت رہے ہیں اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۱- حضور قلب کا مطلب یہ ہے کہ دعا کے وقت داعی کا دل اللہ کی طرف متوجہ اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو دعا کے الفاظ نکل رہے ہوں اوردل کہیں اور کی ہوا کھا رہا ہو۔ دعا کے وقت اگر دل غافل ہو تو وہ قبول نہیں ہوتی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اور جان لو کہ اللہ دعا قبول نہیں کرتا کسی غافل دل کی۔ (کنزالعمال، ج ۲)
اسی معنی کی حدیث طبرانی نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ اگر دل ہی حاضر نہ ہو تو پھر تضرع اور خوف و رجا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جب آدمی دعا کر رہا ہو تو اسے شعور ہونا چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔
۲- تضرع کی شرط صراحتاً قرآن میں مذکور ہے۔ سورئہ اعراف کی آیت ۵۵-۵۶ کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آیت ۵۵ کا پہلا ٹکڑا یہ ہے: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا (اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے)۔ یہاں تضرع کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ کے سامنے اپنی ذلت، عاجزی، پستی اور ضعف کے زندہ شعور اور تازہ احساس کے ساتھ دعا کرے۔ اس کا مطلب زور زور سے چیخ چیخ کر دعا کرنا نہیں ہے کیونکہ اس کی صراحتاً ممانعت آئی ہے اور یہ آدابِ دعا کے خلاف ہے۔ مفسرین نے اس لفظ کی تفسیر تذلل تخثع اور استکانت کے الفاظ سے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے سامنے اپنے بندے کی عاجزی کو بے حد پسند فرماتا ہے۔ وہ جب اپنے آقا و مولیٰ کے سامنے گڑگڑا کر دست سوال دراز کرتا ہے تو اس کے مالک کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ قرآن میں کفار و مشرکین کی جن کیفیات و حالات کی مذمت کی گئی ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے خدا کے سامنے عاجزی کا اظہار نہیں کیا اور نہ اس کے سامنے گڑگڑائے۔
وَلَقَدْ اَخَذْنٰھُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّھِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَo (المومنون ۲۳:۷۶) اور ہم نے ان کو آفت میں پکڑا پھر نہ انھوں نے اپنے رب کے سامنے عاجزی کی اور نہ گڑگڑائے۔
قرآن ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تضرع اور اخلاص وہ چیز ہے جو دنیا میں کفار و مشرکین کو بھی بعض مصیبتوں سے بچا لیتی ہے۔ مشرکین پر ان کے شرک کی حماقت واضح کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے:
اے محمدؐ! ان سے پوچھو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمھیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکرگزار ہوں گے۔ کہو، اللہ تمھیں اس سے اور ہرتکلیف سے نجات دیتا ہے۔ پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتے ہو۔ (الانعام ۶:۶۳، ۶۴)
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔ (آیت۱۶)
ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تضرع اور اضطرار و بے قراری کی کیفیت اسے بارگاہِ الٰہی میں قابلِ قبول بنادیتی ہے۔ دعا اور ذکر دونوں ہی میں تضرع اور خوف و رجا کا مقام وہی ہے جو نماز میں خشوع اور خضوع کا ہے۔ ذکرِ الٰہی کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً (الاعراف ۷:۲۰۵) اے نبیؐ! اپنے رب کو یاد کیا کرو دل ہی دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور خوفِ خدا کے ساتھ۔
۳- خوف اور اُمید کے ساتھ دعا کرنے کی تعلیم بھی الاعراف، آیت ۵۶ میں صراحتاً موجود ہے۔ وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًاط (اور اس کو پکارو خوف کے ساتھ اور اُمید کے ساتھ)۔ اللہ کے عذاب کا خوف اور اس کے ثواب کی اُمید وہ چیز ہے جو مومن کو راہِ اعتدال پر قائم رکھتی ہے۔ وہ نہ اسے بے پروا اور نڈر ہونے دیتی ہے اور نہ اسے مایوس اور دل شکستہ بناتی ہے۔ خاص دعا کے لحاظ سے اس بات کا اندیشہ کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے دعا رد نہ کردی جائے۔ اسے دعا کے شرائط و آداب کی طرف متوجہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بیکراں کا خیال اسے قبولیت ِ دعا کا اُمیدوار بناتا ہے۔ قرآن میں انبیاے کرام علیہم السلام اور صالح بندوں کی دعا و عبادت کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس میں خوف و رجاء کا خاص طور پر ذکر ہے۔ ایک مقام پر انبیاؑ کے مختلف حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھَبًَا ط وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo(الانبیاء ۲۱:۹۰) یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑدھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔
ایک جگہ صالحین کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o (السجدہ ۳۲: ۱۶) ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
ہمیں اپنی عبادتوں اور دعائوں کو ان آیات کی کسوٹی پر کس کر دیکھنا چاہیے اور انھیں کھرا بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔ یہی حقیقی تدبیر ہے ان کے نتائج و ثمرات حاصل کرنے کی۔
دعا میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کی شرط لگانا صحیح نہیں ہے، بلکہ جو کچھ مانگنا ہو پوری قطعیت اور عزم کے ساتھ مانگنا چاہیے۔ بخاری میں ہے: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یوں نہ کہے کہ اے اللہ! مجھے بخش دے اگر تو چاہے، اے اللہ مجھ پر رحم کر! اگر تو چاہے بلکہ بغیر شرطِ قطعیت کے ساتھ دعا کرے۔ اس لیے کہ اللہ پر جبر کرنے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اگر اللہ نہ چاہے تو زبردستی اس سے کوئی چیز حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے اس کے چاہنے کی شرط لگانا بے کار ہے اور ادب دعا کے خلاف بھی ہے۔
دعا میں تصنع اور تکلف کر کے مسجّع و مقفّٰی الفاظ استعمال کرنا غلط ہے کیونکہ اس طرح دعا کی روح اس سے غائب ہوجاتی ہے۔ نہ حضور قلب باقی رہتا ہے اورنہ تضرع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے بلکہ ذہن قافیے اور سجّع کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ایک بار اپنے شاگرد حضرت عکرمہ کو چند ہدایتیں دیں، ان میں سے ایک یہ تھی: ’’دعا میں سجع سے اجتناب کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو ایسا کرتے نہیں پایا‘‘ (بخاری)۔ البتہ اگر بلاتکلف مسجّع و مرصّع الفاظ زبان سے نکلیں تو دعا ایک پارۂ ادب بھی بن جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر دعائیہ کلمات، بہترین پارہ ہاے ادب بھی ہیں۔
دعا میں اعتدائ، یعنی حد سے تجاوز کرنا بھی ایک غلط کام ہے۔ سورئہ اعراف کی آیت ۵۵ میں فرمایا گیا ہے: ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی متعدد صورتیں ہوتی ہیں:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً (الاعراف ۷:۲۰۵) اے نبیؐ! اپنے رب کو یاد کیا کرو دل ہی دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور خوفِ خدا کے ساتھ۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی مدح کرتے ہوئے ان کی ایک خاص دعا کا بیان قرآن میں اس طرح ہے: اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّا o(مریم ۱۹:۳) ’’جب کہ انھوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا‘‘۔ امام رازی نے لکھا ہے کہ اس آیت سے بھی یہی مستنبط ہوتا ہے کہ آہستگی کے ساتھ دعا کرنا مستحب ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ایک سفر جہاد میں صحابہ کرام بآواز بلند تکبیر کہنے لگا تو حضوؐر نے انھیں اس سے روکا اور فرمایا کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ ایک ایسی ذات کو پکار رہے ہو جو سمیع و قریب ہے اور وہ تمھارے ساتھ ساتھ ہے۔
امام رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: حضرت حسن بصریؒ کہتے تھے کہ کوئی شخص پورا قرآن حفظ کرلیتا تھا لیکن اس کے پڑوسی کو اس کی خبر بھی نہ ہوتی تھی۔ اسی طرح کوئی شخص تہجد کی طویل نمازیں پڑھتا تھا اور اس کے پاس لیٹے ہوئے شخص کو اس کا شعور بھی نہیں ہوتا تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو پایا ہے جو اعمالِ خیر کے اخفاء میں مبالغہ کرتے تھے۔ ہم نے ان مسلمانوں کو دیکھا ہے جو دعا میں پوری محنت صرف کرتے تھے لیکن ان کی آواز بلند نہیں ہوتی تھی، اس لیے کہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’اپنے رب کو یاد کرو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے‘‘۔
اس کے علاوہ انسان کا نفس دکھاوے اور شہرت طلبی کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اس لیے بآواز بلند دعا کرنے میں اندیشہ ہے کہ اس میں ریا کی آمیزش ہوجائے۔ اس سے بچنے کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ چیخ چیخ کر دعا نہ کی جائے۔ آج کل جلسوں میں اور مسجدوں میں زور زور سے دعا مانگنے کا جو رواج ہوگیا ہے، وہ دعا کے اس ادب سے لاعلمی کی دلیل ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو سنن و نوافل سے فارغ ہوکر بآواز بلند دعا مانگنے لگتے ہیں۔ انھیں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ دوسرے لوگوں کو جو ابھی نماز میں مشغول ہیں پریشانی ہوگی۔ البتہ اگر کوئی ضرورت داعی ہو تو درمیانی آواز کے ساتھ دعا مانگی جاسکتی ہے۔
’جامع دعا‘ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آپؐ دنیا اور آخرت دونوں ہی کی بھلائیاں طلب فرماتے تھے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ کی دعائوں کے الفاظ کم لیکن معانی بہت ہوتے تھے، یعنی آپ اپنی دعائوں کو غیرضروری الفاظ بڑھا کر طویل نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے دعا کے اس ادب کو اچھی طرح ذہن نشین کیا تھا اور وہ غیرضروری الفاظ کے اضافے کو دعا میں اعتداء قرار دیتے ہیں۔ ابوداؤد میں ہے کہ حضرت سعد بن وقاصؓ نے اپنے ایک بیٹے کو دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ’’اے اللہ! میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور اس کی نعمتیں، اور اس کا ریشم اور یہ، اور یہ، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دوزخ سے اور اس کی زنجیروں سے اور اس کے طوق سے‘‘۔
جب وہ دعا ختم کرچکے تو حضرت سعدؓ نے ان سے کہا: تم نے خیرکثیر کی دعا کی اور بہت سے شر سے پناہ مانگی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو دعا میں حد سے تجاوز کریںگے اور بعض حدیثوں میں ہے کہ لوگ وضو میں اور دعا میں حد سے تجاوز کریںگے۔ جنت کی طلب میں اس کی تمام نعمتوں اور آسایشوں کی طلب خودبخود داخل ہے۔ اسی طرح دوزخ سے استعاذہ میں اس کی تمام سزائوں اور زحمتوں سے استعاذہ خود بخود داخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سعد نے جنت کی دعا کے ساتھ اس کی نعمتوں کی تفصیل اور جہنم سے استعاذے کے ساتھ اس کی سزائوں کے ذکر کو ناپسند کیا اور ان غیرضروری الفاظ کے اضافے کو ادبِ دعا کے خلاف قرار دیا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل نے اپنے بیٹے کو کہتے ہوئے سنا: ’’اے اللہ! میں تجھ سے قصر ابیض (سفیدمحل) مانگتا ہوں جنت کے داہنے جانب‘‘۔ یہ سن کر انھوں نے کہا: جنت مانگو اور جہنم سے پناہ چاہو۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب اس اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو وضو اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے۔ اس دعا میں انھوں نے غیرضروری قید اور شرط کو ادب دعا کے خلاف قرار دیا۔ وضو میں حد سے تجاوز کی ایک صورت یہ ہے کہ بلاضرورت ہرعضو کو تین بار سے زیادہ دھویا جائے۔ اگر کسی شخص کو اپنی کوئی خاص اور وقتی حاجت و ضرورت کی دعا مانگنی نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ دعاے ماثورہ، یعنی قرآن اور احادیث میں مذکور دعائیں مانگے۔ ان میں خاص برکت بھی ہے اور وہ ان تمام بے اعتدالیوں سے محفوظ بھی ہیں جو دعا میں انسان سے ہوسکتی یا ہوجایا کرتی ہیں۔
دعا کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینے تک اُٹھا کر دعا مانگے اور دعا ختم کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرلے۔ اگر دعا کرنے والا باوضو اور قبلہ رو ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ فرض نمازوں کے بعد یا سنن و نوافل کے بعد جو دعائیں مانگی جاتی ہیں ان میں ان آداب پر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے اور مسلمان ایسا کرتے بھی ہیں۔ دعا سے پہلے اللہ کی حمدوثنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اور دعا کے بعد آمین کہنا بھی آدابِ دعا میں داخل ہے۔ دعا کے یہ آداب، احادیث ِ رسولؐ سے ثابت ہیں۔ میں طوالت کے خوف سے وہ حدیثیں یہاں نقل نہیں کر رہا ہوں۔
دعائوں کے لیے شریعت نے پنج وقتہ نمازوں کی طرح کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا ہے۔ دعا ہروقت کی جاسکتی ہے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعائوں کے لیے بہتر اوقات و حالات کا انتخاب کرنے سے ان کی مقبولیت کی زیادہ توقع پیدا ہوجاتی ہے۔ امام غزالی اور دوسرے علما و صوفیا نے ان اوقات و حالات کو یک جا کرکے بیان کیا ہے۔
ایک وقت تو پورے سال میں ایک بار آتا ہے جیسے یومِ عرفہ، اور سال کے ۱۲ مہینوں میں ایک مہینہ رمضان المبارک اور بالخصوص شب ِقدر۔ بعض اوقات ہر ہفتہ آتے ہیں جیسے جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن۔ بالخصوص نمازِ جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان اور سورج ڈوبنے سے تھوڑی دیر پہلے۔ بعض اوقات روزانہ آتے ہیں جیسے آخر شب میں سحر کا وقت، فرض نمازوں کے بعد، اذان و اقامت کے وقت اور اذان و اقامت کے درمیان بارش کے وقت۔ سجدے کی حالت میں تکثیر دعا کی ترغیب دی گئی ہے۔ روزہ دار کے لیے افطار کا وقت، مسافر کے لیے ابتداے سفر کا وقت اور حالت سفر میں، حالت اضطرار میں۔ اس حالت میں جب اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قیامت کی ہولناکی کے تصور سے جسم پر لرزہ طاری ہو۔ دعائوں کے لیے ان اوقات و احوال کے بہتر ہونے کے ثبوت میں قرآن کی آیات اور صحیح احادیث موجود ہیں۔
دعا کے بعد اس کی مقبولیت کی ایک اور شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اس کے لیے جلدی نہ مچائے۔ امام بخاری و مسلم دونوں ہی نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص بھی دعا کرے اس کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلدبازی کرکے یہ نہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی لیکن وہ قبول نہیں کی گئی‘‘۔
امام مسلم کی روایت میں یہ ہے: ’’بندے کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ مچائے۔ پوچھا گیا کہ استعجال (جلدبازی) کا مطلب کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعاگو کہنے کے لیے میں دعا کی پھر دعا کی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ قبول ہوگی اور پھر وہ دعا کرنا ترک کر دے‘‘۔
مقبولیت ِ دعا میں جلدبازی چند نادانیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک نادانی یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کی حقیقت ہی سے ناواقف ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ غلام، تسلیم و رضا کا پیکر بنا ہوا اپنے مہربان آقا کے دامن سے چمٹا رہے اور اس کے سامنے احتیاج کا ہاتھ پھیلائے رہے۔ دعا عبادت بلکہ مغز عبادت ہے اور عبادت کے اجر کا محل اصلاً یہ دنیا نہیں ہے بلکہ آخرت ہے۔ جلدباز دعاگو کی دوسری نادانی یہ ہے کہ وہ اپنی دعا کو ہرطرح قابلِ قبول سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ مقبولیت ِ دعا کی جو شرطیں ہیں وہ پوری نہ ہوئی ہوں۔ وہ جانتا ہے کہ آقا اس کا بخیل نہیں ہے اور نہ اس کے خزانے میں کوئی کمی ہے۔ وہ رحمن و رحیم بھی ہے، عادل بھی، حکیم بھی ہے اور جواد و فیاض بھی۔ اب اگر اس کی مانگی ہوئی چیز نہیں مل رہی ہے تو اس کی کوئی خاص وجہ ہوگی۔
تیسری نادانی یہ ہے کہ وہ مقبولیت ِ دعا کا صحیح مطلب نہیں جانتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بندہ جو کچھ مانگے وہ ہر حال میں اسے دے ہی دیا جائے خواہ اس کی مصلحت کے مطابق ہو یا نہ ہو، بلکہ دعا کی مقبولیت اللہ کی حکمت اور بندے کی مصلحت کے ساتھ مربوط ہے۔
انسان کی فطرت میں چونکہ جلدبازی داخل ہے اس لیے اس کے بُرے اثرات سے بچانے اور مطمئن کرنے کے لیے دعا کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتا دیا ہے کہ مومن کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی بلکہ ہمیشہ قبول کی جاتی ہے۔ البتہ قبول کرنے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہہ تمھارا رب صفت حیا سے متصف اور کریم ہے۔ جب اس کا بندہ اس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ ان ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘(ترمذی، ابوداؤد، بیہقی)۔ اس سے معلوم ہوا کہ بندۂ مومن کے دعا میں اُٹھے ہوئے ہاتھ کبھی محروم اور خالی واپس نہیں آتے بلکہ اپنے مولاے کریم سے کچھ نہ کچھ لے کر لوٹتے ہیں، لیکن یہ بات ذہن میں اوجھل نہ ہونے دینا چاہیے کہ قبولیت ِ دعا کے آداب و شرائط کا لحاظ ضروری ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: جب کوئی مسلمان ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا رشتے کو کاٹنے والی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز عطا فرماتا ہے: ۱-جو کچھ اس نے مانگا ہے دنیا ہی میں اسے دے دے ۲- اس کا اجر آخرت کے لیے ذخیرہ کردے ۳-جو خیر اس نے مانگی تھی اسی کے مثل کوئی شر اس سے دُور کردے۔ صحابہؓ نے کہا: تب تو ہم بہ کثرت دعائیں مانگیں گے۔ حضوؐر نے فرمایا: اللہ کا خزانہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ مسنداحمد ، بزار و ابویعلٰی)
اسی مضمون کی حدیثیں حضرت عبادہ بن الصامتؓ، حضرت ابوہریرہؓ، اور حضرت جابرؓ سے بھی مروی ہیں۔ ان حدیثوں میں بھی قبولیت دعا کی ایک شرط مذکور ہے، یعنی یہ کہ اس کی دعا میں کسی گناہ کی طلب یا قطع رحمی کی کوئی بات نہ ہو۔ دعا میں قطع رحمی کی ایک صورت یہ ہے کہ رشتہ داروں کے حق میں دعاے خیر کے بجاے بددعا کی گئی ہو۔
یہ حدیثیں مجھ جیسے عجلت پسند انسان کو اطمینان دلاتی ہیں کہ شرائط و آداب کے ساتھ کوئی بھی مخلصانہ دعا رد نہیں کی جاتی۔ ہم دنیا میں کوئی بھلائی مانگتے ہیں اور وہ نہیں ملتی یا کسی مصیبت اور تکلیف کو دُور کرنے کی دعا کرتے ہیں اور وہ دُور نہیں ہوتی توہم دل شکستہ اور مایوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ حدیثیں اس دل شکستگی اور مایوسی کو ختم کردیتی ہیں اور ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ مانگنے کے باوجود دنیا میں ہمیں جو کچھ نہیں ملا اس کا بدلہ آخرت میں ضرور ملے گا اور وہاں جو کچھ ملے گا وہ بہتر بھی ہوگا اور پایندہ تر بھی۔
فلسفۂ یونان کے اثر سے جب اسلامی عقائد اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں بحثیں شروع ہوئیں تو اسلامی لٹریچر میں ایک نئے علم، علمِ کلام کا اضافہ ہوا، اور تصوف بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ فلسفہ اور علمِ کلام نے جو سب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی نگاہ سے قرآن اور احادیث کے دلائل اوجھل ہوگئے اور انھوں نے بھی فلسفیوں کی طرح عقلی و دماغی تیر تکّے چلانے شروع کر دیے۔ کتاب و سنت کے معقول دلائل انسان کے دل میں اطمینان اور یقین کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف فلسفے کے عقلی دلائل قلب کو شک اور تردد میں مبتلا کردیتے ہیں۔ بہرحال فلسفیانہ بحث و مباحثے کی زد ’دعا‘ پر بھی پڑی اور اس کے بارے میں بھی لوگوں نے عقلی تیر تکے چلانے شروع کر دیے۔ تصوف میں بھی اس مسئلے میں متعدد اقوال پیدا ہوگئے۔
رسالہ قشیریہ میں جو تصوف کی قدیم اور مستند کتاب ہے، وہ اقوال نقل کیے گئے ہیں: ۱-دعا کرنا افضل ہے ۲- خاموش اور راضی برضاے الٰہی رہنا افضل ہے ۳- بہتر یہ ہے کہ بندے کی زبان دعاگو رہے اور قلب راضی برضا رہے ۴-مختلف اوقات و حالات کا حکم مختلف ہے۔ بعض حالات میں دعا کرنا خاموش رہنے سے افضل ہے اور اس وقت کا یہی ادب ہے اور بعض حالات میں خاموش رہنا دعا کرنے سے افضل ہے اور اس وقت کا یہی ادب ہے۔ اس کا معیار یہ ہے کہ اپنے قلب کو دیکھے اگر وہ دعا کا اشارہ کرے تو دعا افضل ہوگی اور اگر سکوت کا اشارہ کرے تو سکوت افضل ہوگا ۵- اپنے حال کا لحاظ کرے۔ اگر دعا کے وقت کیفیت بسط میں زیادتی محسوس کرے تو دعا افضل ہوگی اور اگر اس وقت کسی قسم کی اُکتاہٹ اور ’قبض‘ کی کیفیت محسوس ہو تو سکوت افضل ہوگا اور اگر نہ ’بسط‘ میں زیادتی ہو اور نہ ’قبض‘ میں تو دعا اور ترکِ دعا کا معاملہ برابر رہے گا۔ ۶- اگر ارادۂ دعا کے وقت ’علم‘ غالب ہو تو دعا افضل ہے، اس لیے کہ وہ عبادت ہے اور اگر اس وقت ’معرفت‘ ، ’حال‘ اور ’سکوت‘ غالب ہو تو خاموش رہنا افضل ہوگا ۷-جس دعا میں مسلمانوں کا حصہ ہو یا حق تعالیٰ کا اس میں حق ہو تو دعا بہتر ہے اور اگر اس میں خود تمھارے اپنے لیے حظ و نصیب ہو تو سکوت اولیٰ ہے۔
ان اقوال میں فلسفیانہ تصوف کی چند اصطلاحیں بھی استعمال ہوئی ہیں۔ وقت، حال، اشارہ، بسط، قبض، علم، معرفت، سکوت___ دعا کے بارے میں قرآن و حدیث کی جو تصریحات اُوپر گزریں انھیں پڑھیے اور پھر رسالہ قشیریہ میں منقول ان اقوال پر نظر ڈالیے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام اقوال تصوف میں فلسفے کو داخل کر دینے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم نہ فلسفۂ یونان کی افادیت کے قائل ہیں اور نہ ہمیں اجنبی عناصر سے مخلوط تصوف سے دل چسپی ہے، اس لیے ان اقوال و اصطلاحات کی توضیح بے کار ہے۔ البتہ ایک غلطی کا ازالہ ضروری ہے جس کا تعلق حدیث نبویؐ سے ہے۔ دعا کے سلسلے میں دوسرا قول یہ نقل کیا گیا ہے کہ خاموش اور راضی بقضا یا راضی برضاے الٰہی رہنا افضل ہے۔ اس قول کی دلیل کے طور پر رسالہ قشیریہ میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس شخص کو میرے ذکر نے مشغول کر دیا مجھ سے سوال کرنے سے، میں اس کو دوں گا، اس سے بہتر جو سوال کرنے والوں کو دیتا ہوں‘‘۔
راقم الحروف نے مشکوٰۃ، جمع الفوائد، ترغیب و ترہیب اور کنزالعمال میں یہ حدیث تلاش کی لیکن ناکام رہا، البتہ قرآن کریم کی فضیلت کے بیان میں امام ترمذی اور دارمی نے یہ حدیث روایت کی ہے: ’’ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: جس کو قرآن نے مشغول کر دیا میرے ذکر اور دعا سے میں اس کو عطا کروں گا اس سے بہتر جو سوال کرنے والوں کو عطا کرتا ہوں، پس دوسرے کلاموں پر کلام اللہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر‘‘۔ (ترمذی)
امام دارمی نے یہ حدیث باب فضل کلام اللہ علیٰ سائر کلام اللہ میں روایت ہے: ’’جس کو قرآن کی تلاوت نے مشغول کر دیا مجھ سے سوال کرنے اور میرا ذکر سے میںاس کو دوں گا سوال کرنے والوں سے بہتر اجر اور اللہ کے کلام کی فضیلت بقیہ دوسرے کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر‘‘۔ (دارمی)
یہ ایک ضعیف حدیث ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے کلام قرآنِ مجید کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اگر قرآن کی تلاوت میں اس درجہ مشغولیت رہی کہ قاریِ قرآن، اللہ کا کوئی اور ذکر اور اس سے دعا نہ کرسکا تو وہ اسے مانگنے والوں کے مقابلے میں افضل اور بہتر چیز عطا کرے گا اور اس کی یہ وجہ بھی اس میں بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ کا کلام چونکہ دوسرے تمام کلاموں سے افضل ہے۔ اس لیے اس کا اجر اور اس کی برکت بھی سب سے زیادہ ہوگی۔ اس ضعیف حدیث میں شاغل (مشغول کرنے والا) قرآن ہے اور مشغول عنہ (مشغولیت کی وجہ سے جس کی طرف توجہ نہیں کی جاسکی) ذکر بھی ہے اور دعا بھی۔ اسی حدیث میں کسی نے تحریف کر کے ان صوفیوں کو سنا دی جو ترکِ دعا کو افضل قرار دیتے تھے اور انھوں نے بلاتحقیق اسے قبول کرلیا اور پھر صاحب ِ رسالہ قشیریہ نے بھی اسے اپنی کتاب میں نقل کر دیا۔ تحریف کرنے والے نے تلاوتِ قرآن کو حذف کر کے ذکر کو شاغل اور دعا کو مشغول عنہ بنادیا حالانکہ اس حدیث میں ذکر اور دعا دونوں ہی مشغول عنہ اور قرآن شاغل تھا۔
اصل میں رضا بقضا، یعنی اللہ کے فیصلے اور اس کی مرضی پر راضی رہنے کا مطلب ان لوگوں نے صحیح نہیں سمجھا جو ترکِ دعا کو افضل کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اللہ سے اپنے لیے کچھ مانگنا مقامِ تسلیم و رضا کے خلاف ہے حالانکہ یہ خیال قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف اور بالکل غلط ہے۔ حد ہوگئی کہ ابوسلیمان دارانی نے جو اپنے وقت کے ایک بڑے صوفی تھے، ’رضا‘ کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیا: ’’ابوسلیمان نے کہا کہ ’رضا‘ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے نہ جنت کی دعا کرو اور نہ دوزخ سے پناہ مانگو‘‘ (الرسالۃ القشیریہ)۔ یہ قول جس کا بھی ہو، اللہ و رسولؐ کے اقوال کی عین ضد ہے اور صوفیاے کرام ہی کی تصریحات کے مطابق اسے قبول نہیں کرنا چاہیے۔
اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًاط وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ o (سبا۳۴:۱۳)
اے آل دائود! عمل کرو شکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں۔
سورئہ سبا میں حضرت دائود و سلیمان علیہما السلام پر اپنی نعمتوں اور احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے آل دائود کو شکرگزاری کے ساتھ عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ شکر کی مختصر توضیح کے لیے اس آیت کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ قرآن میں لفظ ’شُکر‘اسی آیت میں استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کے مشتقات اور صیغے تو بیسیوں آیتوں میں آئے ہیں لیکن لفظ شُکر اسی آیت میں ہے۔ دوسرا لفظ ’شُکور‘ (پیش کے ساتھ) سورۃ الفرقان اور سورۃ الدھر میں آیا ہے:
وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے، یا شکرگزار ہونا چاہے۔ (الفرقان ۲۵:۶۲)
ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ (الدھر ۷۶:۹)
’شکر‘قرآن کریم کا ایک وسیع المعنی اور وسیع الاطراف لفظ ہے۔ اس تشریح میں میرا مقصد تمام معانی اور تمام اطراف پر سیرحاصل گفتگو کرنا نہیں ہے، بلکہ ذیل کے چند نکات کی مختصر توضیح مقصود ہے: شکر کے معنی،شکر کی ضد ،شکر کی قسمیں ،اللہ کا شکر ،بندوں کا شکر ، شکر کی نسبت اللہ کی طرف ، شکر کی نسبت بندوں کی طرف ، صبر اور شکر کا اجتماع ، امتحان شکر ،شکر کا دنیوی صلہ۔
شکر کے معنی: ایک معنی یہ ہیں: تصور النعمۃواظھارھا ،نعمت کا تصور اور اس کا اظہار۔ اس جانور کو جو فربہ ہو دابَّۃ شَکُوْرٌ کہتے ہیںکیونکہ وہ اپنی فربہی سے اپنے مالک کی مہربانی اور اس کے احسان کا اظہار کرتا ہے، یعنی یہ کہ وہ اس کو اچھا کھلاتا پلاتا اور اس کی اچھی دیکھ ریکھ کرتا ہے۔ دوسرا معنی ہے الامتلاء من ذکر المنعم علیہ ،محسن کے ذکر سے زبان کا تر ہونا اور دل کا مملو ہونا۔ عین شکری وہ آنکھ جو آنسوئوں سے بھری ہوئی ہو۔ (مفردات راغب)
ان دونوں معنوں کے لحاظ سے اللہ کے شکر کایہ مفہوم مستنبط ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ کی نعمت کا احساس ہو اور وہ اس کا اظہار بھی کرے۔ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(الضحیٰ ۹۳:۱۱) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ نیز یہ کہ انسان کی زبان اللہ کے ذکر سے تر اور اس کا دل اس کی نعمت کا معترف رہے۔
اگر تم کفر کرو گے تو اللہ تم سے بے نیاز ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرکرو تو اسے وہ تمھارے لیے پسند کرتا ہے۔ (۳۹:۷)
اس آیت میں کفر، کفرانِ نعمت اور ناشکری کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ اس کے بعد ہی شکر کا ذکر ہے۔ اس طرح کی متعدد آیتیں قرآن کریم میں ہیں۔
شکر کی قسمیں: شکر کی تین قسمیں ہیں: ۱- زبان کا شکر ۲- دل کا شکر ۳-اعضا و جوارح کا شکر۔ مفردات امام راغب میں ہے: شکر کی تین قسمیں ہیں: دل کا شکر، یہ نعمت کا احساس ہے، اور زبان کا شکر محسن کی مدح و ثنا ہے، اور باقی تمام اعضا کا شکر، یہ نعمت کی مکافات ہے، بقدر استحقاقِ منعم۔ مکافاتِ نعمت کا مطلب یہ ہے کہ محسن کے احسان کا حق ادا کیا جائے۔ جس درجے کا محسن ہوگا، اسی درجے کا حقِ احسان ہوگا۔
اللّٰہ کا شکر: تمام نعمتوں کا حقیقی منعم و محسن اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے اس کا شکر ہر انسان پر واجب ہے۔ اللہ کا سب سے بڑا شکر اس پر ایمان لانا ہے اور یہ وہ شکر ہے کہ اس کے بغیر کوئی شخص اللہ کے غضب اور اس کی دوزخ سے نجات نہیں پاسکتا۔ شکر کی ضد، کفرانِ نعمت ہے اور سب سے بڑی ناشکری اس پر ایمان نہ لانا ہے۔ یہ ناشکری وہ حقیقی کفر ہے جوانسان کو ابدی لعنت میں گرفتار کردیتا ہے:
جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہوگی اور نہ انھیں پھر کوئی مہلت دی جائے گی۔ (البقرہ ۲:۱۶۱-۱۶۲)
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ نے کفار و مشرکین کو اپنی نعمتیں یاد دلائی ہیں اور پھر ان سے سوال کیا ہے: اَفَلَا یَشکُرُوْنَ (پھر کیا یہ شکرادا نہیں کرتے؟) ۔سورئہ یٰس میں دو بار یہ سوال کیا ہے (یٰسٓ ۳۶:۳۵‘ ۷۳)۔ کہیں لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ کا صیغہ ہے۔ کہیں لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ کا۔ کہیں قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ،کہیں فَلَوْلَا تَشْکُرُوْنَ اور کہیں وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ ___ ان تمام مقامات میں جو دعوت ان کو دی گئی ہے وہ دعوت توحید ہے۔ اللہ پر ایمان لانا اور اسی کو الٰہ واحد تسلیم کرنا، یہ ہے اللہ رب العزت کا وہ شکر جس کے بغیرنہ کوئی انسان دائرئہ کفروشرک سے باہر نکل سکتا اور نہ اللہ کی رحمت و جنت کا مستحق ہوسکتا ہے۔
انبیاے کرام کی دعوت کا ایک جز: انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں کو توحید اور بندگیِ رب کی جو دعوت دی ہے اس کا ایک جز دعوتِ شکرگزاری بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ’’اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو‘‘۔ (العنکبوت ۲۹:۱۷)
پس اے لوگو۱ اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اسے کھائو اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو۔ اگر تم واقعی اسی کی بندگی کرنے والے ہو۔ (النحل ۱۶:۱۱۴)
یہی مطالبہ مسلمانوں سے بھی کیا گیا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمھیں بخشی ہیں انھیں بے تکلف کھائو اور اللہ کا شکر ادا کرو‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۷۲)
شکر: حکمت کا اولیں ثمرہ : اللہ نے حضرت لقمان کو حکمت عطا کی اور ساتھ ہی اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔ ’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکرگزار ہو۔ جو کوئی شکر کرے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔ اور جو کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز ہے اور آپ سے آپ محمود ہے‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۲)
حضرت سلیمانؑ کی توفیق شکر کی دعا: اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو محیرالعقول نعمتیں عطا فرمائی تھیں، ان میں ایک یہ تھی کہ وہ حشرات الارض کی زبان سمجھتے تھے۔ چیونٹیوں کے سردار کی گفتگو سن کر انھوں نے یہ دعا مانگی:
اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔(النمل ۲۷:۱۹)
اللّٰہ کی بے شمار نعمتیں: قرآن کریم نے یہ حقیقت بھی انسانوں کے سامنے رکھ دی ہے کہ اللہ کی نعمتیں اور اس کے احسانات ناقابلِ شمار ہیں: ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کرنہیں سکتے‘‘(ابراھیم ۱۴:۳۴)۔ ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ (النحل ۱۶:۱۸)
ان آیات میں غفور اور رحیم کی دو صفتیں قابلِ غور ہیں۔ کچھ ایسا سمجھ میں آتا ہے کہ یہ ناشکروں کی تنبیہہ کے لیے بھی ہیں اور شکرگزاروں کی تسکین کے لیے بھی۔ تنبیہہ یہ ہے کہ جس مالک کے اپنے بندوں پر اتنے احسانات ہیں کہ وہ ان کا احاطہ نہیں کرسکتے، جن کی زندگیاں گود سے گور تک اس کے احسانات میں ڈھکی ہوئی ہیں اور جس نے ان کے بقا و ارتقا کے تمام سامان مہیا کررکھے ہیں، کیا ان کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ ایسے مہربان مالک کی بغاوت پر آمادہ ہوں‘ اس کے حقوق میں دوسروں کو شریک کریں اور ناشکری کے رویے پر اڑے رہیں۔ ان کومتنبہ رہنا چاہیے کہ وہ غفور اوررحیم ہے، اس لیے وہ ان کو توبہ و اصلاح کی مہلت دے رہا ہے۔ شکرگزاروں کی تسکین یہ ہے کہ اگرچہ وہ اس کی بے شمار نعمتوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتے لیکن وہ غفور اور رحیم ہے، اس لیے ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرے گا اور انھیں اپنے دامنِ رحمت میں چھپالے گا۔
ھر نیکی شکر ھے: پہلے گزر چکا کہ شکر کی تین قسمیں ہیں اور نیکی کا ہر کام اللہ کی نعمت ہے خواہ اس کا تعلق قلب سے ہو یا زبان سے یا دوسرے اعضا و جوارح سے۔ اس نعمت کا شکریہ اس کو انجام دینا ہی ہے۔ اس لیے تمام عبادتیں، شکر ہیں اور ہر نیکی جو مسلمان خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے، شکرہے۔ رمضان کے روزوں کو نعمت قرآن کا شکریہ، خود اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے: وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (اور تاکہ تم شکرگزار بنو)، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھیں قرآن کی جو عظیم الشان نعمت عطا کی ہے۔ رمضان کے روزے اس کا شکریہ بن جائیں۔ عبدالرحمن سلمیٰ نے کہا: ’’نماز شکر ہے، روزے شکر ہیں اور ہرنیک کام جو تم اللہ کے لیے کرتے ہو، شکر ہے، اور افضل شکر اللہ کی حمد ہے‘‘۔ (مختصر تفسیر ابن کثیر بحوالہ ابن جریر)
بندوں کا شکر: اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں ایسی ہیںجو بندوں کو دوسرے بندوں کے واسطے اور ذریعے سے ملتی ہیں۔ اس لیے ان واسطوں اور ذریعوں کا بھی علی قدر مراتب (جس کا جو درجہ و مرتبہ ہو) شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بندوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ کیونکہ ہر انسان کو اس کے وجود اور ہستی کی نعمت، والدین ہی کے واسطے سے ملتی ہے۔ والدین ہی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ ان ہی دونوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسانوں کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔ (لقمان ۳۱:۱۴)
والدین کے حقوق اور ان کا شکریہ، ایک مستقل موضوع ہے۔ اس لیے اس کی تفصیل ہم یہاں پیش نہیں کرتے اس کے لیے سورئہ لقمان اور سورئہ بنی اسرائیل کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ احادیث نبوی میں بھی اس کی تفصیل موجود ہے۔
بندوں کا شکر ادا کرنے کی اھمیت: ایک انسان جب دوسرے انسان پر کوئی احسان کرتا ہے تو شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ محسن کا شکریہ ادا کیا جائے۔ دین میں اس کی اہمیت یہ ہے کہ جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا، اللہ اس سے اپنے شکریے کو بھی قبول نہیں کرتا۔ امام ترمذی نے ابواب البر والصلۃ میں حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت نقل کی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگوں کا شکرگزارنہیں، وہ اللہ کا شکرگزاربھی نہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں: جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔
اس باب میں اشعث بن قیس اور نعمان بن بشیرؓ کی حدیث بھی ہے۔ ان حدیثوں سے لوگوں کے شکریے کی اہمیت پوری طرح واضح ہو گئی۔ قرآن کریم میں ایک کلید کے طور پر کہا گیا ہے: ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَانُ (الرحمٰن ۵۵:۶۰) ’’نیکی کا بدلہ، نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے‘‘۔ جانور بھی اپنے محسن کا احسان مانتے ہیں۔ اب اگر انسان اپنے محسن کا احسان نہ مانے تو وہ جانورسے بھی بدتر ہوا۔
شکریہ ادا کرنے کے طریقے: کسی کے احسان کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کے یہاں ہدیتاً کوئی چیز بھیجے تو جواب میں ہدیتاً اس کے یہاں کوئی چیز بھیجنی چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے اور ہدیہ دینے والے کو اس کا صلہ بھی دیا کرتے تھے۔ اگر آدمی احسان کا بدلہ اسی طرح کے احسان سے نہ دے سکے تو زبان سے اپنے محسن کی تعریف کرے اور لوگوں میں اس کے احسان کا تذکرہ کرے۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکریے کی ایک مختصر دعا بھی سکھائی ہے۔
حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ کوئی نیکی کی جائے اور وہ نیکی کرنے والے سے کہے: جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا ’’اللہ تمھیں اس کا اچھا بدلہ دے، اس نے مبالغہ کے ساتھ اپنے محسن کی ثنا کی۔ (جمع الفوائد بحوالہ ترمذی)
دوسری احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسن کی مدح و ثنا کو اس کا شکریہ قرار دیا ہے۔ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا کی مختصرسی دعا کو اگر کوئی سمجھے تو یہ اتنا بڑا بدلہ ہے کہ قیمتی سے قیمتی دنیوی ہدیہ بھی اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرما لے اور اپنی طرف سے اس کا بدلہ دے تو اس کی قیمت کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔
شکر کی نسبت اللّٰہ کی طرف: شاکر اور شکور، اللہ تعالیٰ کی صفت بھی ہے۔ شکر کی نسبت جب اللہ کی طرف ہوتی ہے تو اس کا مطلب ’قدردانی اور ثواب رسانی‘ہوتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ فرماں برداری اور نیک کام کی قدر کرتا اور اس کا انمول صلہ دیتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ہے:
یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سعی کرلے اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔ (۲:۱۵۸)
آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکرگزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑا قدردان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔(۴:۱۴۷)
اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرٌ o (فاطر ۳۵:۳۴) یقینا ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے۔
شکر کی نسبت بندوں کی طرف: بندوں کو شاکر اور شکور کہنے کا مطلب ’اعتراف نعمت اور احسان مندی‘ ہوتا ہے یعنی بندہ اپنے مالک کی نعمتوں اور اس کے احسانات کا معترف اور جذبۂ شکروسپاس سے سرشار ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات سے ایک پوری اُمت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اس کو منتخب کرلیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔ (النحل ۱۶:۱۲۰-۱۲۱)
حضرت نوحؑ کے بارے میں فرمایا: ’’اور نوح ایک شکرگزار بندہ تھا‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳)
بیک وقت صبروشکر کا اجتماع: صبر کا تعلق عام طور پر بلاومصیبت سے ہوتا ہے اور شکر کا عافیت و آرام سے۔ لیکن ایک چیز دو مختلف اعتبارات سے بیک وقت مصیبت بھی ہوتی ہے اور نعمت بھی۔ ایک مومن و مسلم پر اللہ کی طرف سے جو مصیبت آتی ہے، وہ دنیا کے لحاظ سے مصیبت ہوتی ہے اور اجرِ آخرت کے اعتبار سے نعمت ___ ایسے موقع پر صبر اور شکر کا اجتماع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے بعض ایسے بندے بھی ہوتے ہیں جو غلبۂ محبت الٰہی میں مصیبت سے لذت حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اسی کیفیت کے اظہار کے لیے کہا گیا ہے: ع ہرچہ از دوست می رسد نیکواست، یعنی دوست [اللہ] کی طرف سے جو چیز بھی پہنچے، وہ اچھی ہے۔ قرآن کریم میں صبّار اور شکور کا اجتماع شاید اسی کی طرف اشارہ ہے:
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ o (ابراھیم ۱۴:۵) ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔
یہ بات ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ کہی گئی ہے۔ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں، ابویعلیٰ نے اپنی مسند میں اور حاکم نے اپنی مستدرک میں ابوسعید خدریؓ سے مرفوعاً یہ روایت کی ہے کہ سخت ترین مصیبتیں انبیا ؑپر آتی ہیں۔ اس کے بعد اللہ کے نیک بندوں (صالحین) پر۔ اس حدیث کا یہ ٹکڑا قابلِ غور ہے۔
تم میں کوئی فرد عطاء و نعمت سے جتنا خوش ہوتا ہے، ان میں کا ایک فرد اس سے زیادہ بلاومصیبت سے خوش ہوتا تھا۔ (مسندامام اعظم مع شرح ملا علی قاری)
بلاومصیبت انبیاے کرام علیہم السلام کے لیے رفع درجات کا موجب اور اولیا کے لیے کفارۂ سیئات کا وسیلہ ہے۔ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم باب الشکر میں حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کیا ہے:
ہر مصیبت جو مجھ پر آئی اللہ تعالیٰ کے چار انعامات اپنے ساتھ لائی۔ ایک یہ کہ اس کا تعلق میری دنیا سے تھا، دین سے نہ تھا، دوسرا یہ کہ اس مصیبت سے کوئی بڑی مصیبت بھی آسکتی تھی مگر اللہ کے کرم سے چھوٹی آئی۔ تیسرا یہ کہ میں قضا و قدر پر راضی رہا، اور چوتھا یہ کہ میں اس پر اجروثواب کا امیدوار ہوں۔
امتحانِ شکر: شکر کی آزمایش ، صبر کی آزمایش سے زیادہ کٹھن ہوتی ہے۔ اس تشریح کی ابتدا میں سورۂ سبا کی جو آیت پیش کی گئی ہے اس کا دوسرا فقرہ یہ ہے: وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُo (۳۴:۱۳) ’’اور میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں‘‘۔
اس فقرے کے بارے میں امام راغب نے لکھا ہے: اس میں تنبیہہ ہے اس بات کی کہ شکرالٰہی کا پورا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے، اس لیے قرآن میں صرف دو نبیوں کو اس صفت سے متصف قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح کی ہے، یعنی حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام۔
حضرت نوح ؑکو سورئہ بنی اسرائیل میں عَبْدًا شَکُوْرًا (شکرگزار بندہ) اور حضرت ابراہیم ؑ کو سورئہ نحل میں شَاکِرًا لّاِ.َنْعُمِہٖ (اللہ کی نعمتوں کے شکرگزار) کہا گیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ دوسرے انبیاے کرام کی شکرگزاری کم تھی، بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ان دونوں نبیوں کی اس صفت کا ذکر کر کے انھیں ایک ’امتیاز‘ عطا کیا گیا ہے۔ قومِ لوطؑ پر جب عذاب آیا تو اللہ نے آلِ لوط ؑ کو عذاب سے بچا لیا۔ اس کو اللہ نے اپنا فضل قرار دیا اور اس کے بعد کہا:
کَذَالِکَ نَجْزِیْ مَنْ شَکَرَ o (القمر ۵۴:۳۵) یہ جزا دیتے ہیں ہم ہر اُس شخص کو جو شکرگزار ہوتا ہے۔
اس فقرے کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:’’ کَذَالِکَ نَجْزِیْ مَنْ شَکَرَ میں حضرت لوط ؑکی غیرمعمولی صفت شکر کی غیرمعمولی داد بھی ہے اور اس کا اعلانِ عام بھی کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عنایت صرف حضرت لوطؑ ہی کے لیے خاص نہ تھی بلکہ آج بھی جو لوگ اس کے شکر کرنے والے ہوں گے، وہ اس کی عنایتِ خاص کے حق دار ہوں گے۔ اس کا دامن رحمت بہت وسیع ہے‘‘۔ (تدبرقرآن، ج ۷، ص ۱۰۸)
شکر کا دنیوی صلہ: اللہ تعالیٰ آخرت میں اپنے شکرگزار بندوں کو جو اجر عطا فرمائے گا اور جن انعامات سے نوازے گا، وہ تو اپنی جگہ ہیں، دنیا میں اس کا صلہ یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا حقیقی شکریہ ادا کرنے سے اس کی نعمتوں اور افضال و عنایات میں اضافہ ہوتا ہے۔ نعمتوں کا حقیقی شکر یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی مرضیات میں صرف کیا جائے، اس کی معصیتوں اور نافرمانیوں میں صرف نہ کیا جائے۔سورۂ ابراہیم میں ہے:
اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔ اور موسٰی ؑنے کہا کہ ’’اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہوجائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘‘۔ (۱۴:۷-۸)
شکرگزاری پر انعامات میں اضافے کا یہ وعدہ قیامت تک تمام شکرگزاروں کے لیے ہے، اور ناشکری پر سخت عذاب کی یہ دھمکی بھی قیامت تک تمام ناشکرگزاروں کے لیے ہے۔
اللہ کی سب سے بڑی نعمت اس کی دی ہوئی شریعت ہے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ اس پرعمل کیا جائے، اس کی حفاظت کی جائے، اور اس کے نفاذ کی جان توڑ کر کوشش کی جائے۔ اس وقت دنیا میں پھیلا ہوا گھنگور اندھیرا اس کے بغیر چھٹ نہیں سکتا:
گھنگور اندھیرا چھایا ہے
یہ دھندلی شمعیں تیز کرو
منزل ہے کٹھن اور دُور بھی ہے
گھوڑوں کو ذرا مہمیز کرو
تصوف کا اقرار و انکار اور اس کے بارے میں بحث و تمحیص اور اعتراض و جوابِ اعتراض کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ اگر کسی نے اس کا انکار کیا تو اقرار کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ انکار کس تصوف کا کیا جا رہا ہے‘ اور اگر کسی نے اقرار کیا تو انکار کرنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ کس تصوف کا اقرار کیا جا رہا ہے۔ اقرار کرنے والے منکرین تصوف کے درمیان مطعون ہوتے ہیں اور انکار کرنے والے حامیانِ تصوف کے درمیان مذموم قرار پاتے ہیں۔ افراط و تفریط کے درمیان توسط و اعتدال کی راہ گُم ہو جاتی ہے اور اس پر چلنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ بعض لوگ تو ’’تصوف‘‘ کے لفظ اور اس اصطلاح پر جھگڑا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ اصطلاح پر جھگڑنا معقول بات نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ حقیقت سے زیادہ اس اصطلاح کو ماننے اور منوانے پر اصرار شروع کر دیتے ہیں اور یہ بات بھی قرین عقل نہیں ہے۔
راقم الحروف نے تصوف کی کتابوں کا جو مطالعہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین قسم کے تصوف پائے جاتے ہیں: ۱- مومنانہ تصوف‘ ۲- فلسفیانہ تصوف‘ ۳- ملحدانہ تصوف۔
ملحدانہ تصوف نے اگرچہ مسلم عوام کو بہت نقصان پہنچایا ہے لیکن علماے حق اور صوفیہ صافیہ ہمیشہ اس کی تردید کرتے آئے ہیں اور کسی مومن مخلص کو اس کے قابل ترک ہونے میں شبہہ نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک ملحدانہ تصوف اس تصوف کا نام ہے جو بزعمِ خویش اللہ تک پہنچے ہوئے لوگوں کے لیے اسلامی شریعت کو معطل قرار دیتا ہے۔ ملحداور گمراہ صوفیہ جو مسلمان کے بھیس میں دراصل منافق ہوتے ہیں‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب کوئی مسلمان مقامِ یقین پر فائز ہو کر خدا رسیدہ ہو گیا تو اب وہ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور اس طرح کے شرعی احکام کا مکلّف نہیں رہتا۔ اس گروہ کے نزدیک طریقت‘ شریعت سے بالکل علیحدہ چیز ہے‘ اس کے نزدیک شریعت مدرسۂ سلوک کے صرف مبتدی طلبہ کے لیے ہے۔
مومنانہ ‘ یعنی اسلامی تصوف جن حقائق کا نام ہے آج تک کسی مومن مخلص نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔ اس لیے کہ وہ کتاب و سنت سے بصراحت ثابت اور ایمان و اسلام کے لازمی تقاضے ہیں۔ علماے حق کے درمیان اختلاف و نزاع صرف اس تصوف میں ہے جسے ہم نے فلسفیانہ تصوف کہا ہے۔ اس تصوف کی بنیاد فلسفۂ یونان اور علم الکلام کی دور ازکار بحثوں پر قائم کی گئی ہے۔ اس میں بہت سی ایسی چیزیں داخل کر لی گئی ہیں جن کی تائید کتاب و سنت سے نہیں ہوتی۔ نیز یہ کہ قرآنی حقیقتوں کی فلسفیانہ تشریح کر کے انھیں کچھ سے کچھ بنا دیا گیا ہے اور ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ بہت سی چیزوں کے لیے انتہائی ضعیف اور موضوع حدیثوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کوئی چیز اس وقت تک قبولِ عام حاصل نہیں کرتی جب تک اس کے لیے کوئی حدیث نہ پیش کی جائے۔
جہاں تک میں نے غور کیا ہے تصوف کے انکار میں شدت اسی فلسفیانہ تصوف پر زور دینے کا نتیجہ ہے۔ صوفیہ میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جو زبان سے تویہ کہتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد کتاب و سنت پر ہے لیکن ان کی روش یہ ہے کہ جو لوگ فلسفیانہ تصوف کا انکار کرتے ہیں انھیں بھی وہ اس گروہ میں داخل قراردیتے ہیں جو مطلقاً تصوف کا منکر ہے۔ اس کے علاوہ بزرگوں کے بارے میں انھوں نے ایسی غالیانہ عقیدت اختیار کر رکھی ہے جس کا کوئی ثبوت کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے اور اسی کو انھوں نے تصوف کے اقرار و انکار کی کسوٹی بنا دیا ہے۔ جو شخص ان کی اس خود ساختہ کسوٹی پر کھرا اُترے‘ یعنی غالیانہ عقیدت میں ان کا ساتھ دے‘ وہ تصوف کا ماننے والا ہے اور جو اس پر کھوٹا ثابت ہو‘ یعنی اس عقیدت میں ان کا ساتھ نہ دے وہ تصوف کا انکار کرنے والا ہے۔ ۹۰ فی صد یہ بات بھی صادق ہے کہ انھوں نے بزرگوں کی غالیانہ عقیدت کو اپنے لیے حصولِ عقیدت کا حربہ اور وسیلہ بنا لیا ہے۔ یہ اپنے ماسبق بزرگوں کے سامنے اس لیے سر جھکاتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے سامنے سر جھکائیں‘ جو لوگ اس پر تنقید کرتے ہیں انھیں وہ تصوف کا مخالف اور اولیا کا منکر کہہ کر لوگوں میں بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کی عقیدت ان کے ساتھ وابستہ رہے اور اس میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔
تصوف کی مشہور و مستند کتابوں میں اسلامی تصوف اور فلسفیانہ تصوف ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط ہیں اور ان دونوں کے درمیان امتیاز صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہوں اور جن کے دل و دماغ بزرگوں کی اندھی عقیدت سے مائوف نہ ہوں--- ہماری اس تحریر کا موضوع چونکہ اسلامی تصوف ہے اس لیے ہم نے فلسفیانہ تصوف سے صرفِ نظر کیا ہے--- ہم حسب ذیل نکات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں:
۱- اسلامی تصوف کا ماخذ کیا ہے؟
۲- تصوف کیا ہے اور صوفی کون لوگ ہیں؟
۳- کشف و کرامات و الہام کوئی دلیل نہیں بلکہ خود ان کی صحت دلیلِ شرعی کی محتاج ہے۔
تمام صوفیۂ علّیہ بلااستثنا اس بات پر متفق ہیں کہ وہ جس تصوف کے قائل ہیں اس کی بنیاد کتاب و سنت پر قائم ہے اور یہی اس کے اصل ماخذ ہیں۔ صرف چند اقوال یہاں نقل کرتے ہیں۔
ابو عبداللہ سہل بن عبداللہ التستری (م: ۲۷۳ھ) کہتے ہیں: ہمارے طریقے کے اصول سات ہیں: کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنا‘ سنت کی پیروی‘ حلال کھانا‘ اذیت رسانی سے رُکنا‘ معصیتوں سے اجتناب‘ توبہ اور حقوق کی ادایگی۔ (نتائج الافکار القدسیہ‘ ج ۱‘ ص ۱۱۱)
ابوالحسین احمد بن ابی الحواری (م :۲۴۰ھ) کہتے ہیں: جس کسی نے اتباع سنت کے بغیر کوئی عمل کیا تو اس کا وہ عمل باطل ہوگا۔ (الرسالۃ القشیریہ‘ ج ۱‘ ص ۱۲۶)
ابوحفص عمر بن مسلمۃ الحداد (م: ۲۶۵ھ) کہتے ہیں: جو شخص ہر وقت اپنے افعال و اقوال و احوال کو کتاب و سنت پر نہیں تولتا اور جو اپنے وارداتِ قلبی میں شک کر کے اسے نہیں جانچتا اسے ’’مردانِ حق‘‘ کے گروہ میں شمار نہ کرو۔ مردان حق سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا‘‘۔ یہ جو بات ابوحفص نے فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص ایسا نہ ہو وہ اپنے دشمن نفس کے فریب سے بے خوف اور اپنے حال میں مگن ہوتا ہے اور جو شخص ایسے دشمن کی عداوت سے اپنے کو محفوظ و مامون سمجھے جس سے دشمنی کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اپنے بارے میں یہ سمجھ لے کہ کسی کا فریب اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا تو ایسا شخص اللہ کی چال سے اپنے آپ کو بے خوف سمجھ رہا ہے اور قرآن میں ہے کہ: ’’اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘۔ (الرسالۃ وشرحہا)
سید الطائفہ ابوالقاسم جنید بن محمدؒ (م :۲۹۷ھ) کہتے ہیں: جس شخص نے قرآن و حدیث کے احکام نہیں سمجھے اور ان کا علم حاصل نہیں کیا ‘ تصوف میں اس کی اقتدا نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ ہمارا یہ علم (تصوف) کتاب و سنت سے مقید ہے اور اجماع و قیاس کا مرجع بھی یہی دونوں ہیں۔
ابوعلی روذباری جنیدؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ہمارا یہ مذہب (تصوف) اصول‘ یعنی کتاب و سنت کے ساتھ مقید ہے۔ پہلے قول میں ’’علم‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دوسرے میں ’’مذہب‘‘ کا۔ پہلے لفظ سے اشارہ صحت ِعلم کی طرف ہے اور دوسرے لفظ کا اشارہ صحتِ سلوک کی طرف۔ اس سے معلوم ہوا کہ صوفیہ کسی وقت بھی اپنے علم و عمل میں کتاب و سنت سے مستغنی نہیں ہیں۔ اس قول میں اور اس سے پہلے کے قول میں اس شخص کی تردید ہے جو راہِ سلوک میں اپنے ’’وارداتِ قلبی‘‘ پر اعتمادکرتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور سچے ہیں‘ وہ انھیں کتاب و سنت پر تولنے سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہے اور یہ کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ (رسالہ قشیریہ مع شرح‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)
السید مصطفی العروسی اپنے حاشیے میں لکھتے ہیں: حضرت جنیدؒ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ طالب ِ سلوک کے لیے شرط یہ ہے کہ علما سے شریعت مطہرہ کے احکام کا علم حاصل کرکے اس پر عمل کرے۔ اس کے بعد اس راہ میں اس کی رہبری درست ہو سکتی ہے۔ اور جو شخص اس کے بغیر اللہ تک پہنچ جانے کا مدعی ہو وہ بدعتی ہے‘ نہ اس کی طرف رجوع کیا جائے گا اور نہ اس کی کسی بات پر اعتمادصحیح ہوگا۔
’’علم تصوف دائرہ کتاب و سنت کے اندر ہے‘‘، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ علم تصوف کتاب و سنت سے حاصل کیا جائے گا اور اسی کے مطابق عمل ہوگا اور جو شخص علماً و عملاً اس سے خارج ہو وہ زندیق (بے دین) ہے۔ (نتائج الافکار‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)
ابوحمزہؒ بغدادی (م: ۲۸۹ھ) کہتے ہیں: جو راہِ خدا کا علم رکھتا ہے اس پر اس راہ کی رہروی آسان ہو جاتی ہے اور اللہ تک پہنچانے والے راستے کا رہنما بجز متابعت ِ رسولؐ کوئی اور نہیں ہے‘ متابعت آپؐ کے احوال‘ افعال اور اقوال سب میں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔(الرسالۃ‘ ج ۱‘ ص ۱۷۷)
ابواسحاق ابراہیم بن داؤد رقی (م: ۳۲۶ھ) کہتے ہیں: محبت الٰہی کی علامت‘ اس کی اطاعت کو ترجیح دینا اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ہے اس لیے کہ متابعت ‘ محبت کا ثمرہ ہے۔ جو شخص کسی سے محبت کادعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی پیروی نہیں کرتا وہ اس کی محبت میں جھوٹا ہے۔ رقی ؒنے یہ بھی کہا ہے کہ ہرانسان کی قیمت اس کی ہمت کے مطابق ہوتی ہے‘ پس اگر اس کی ہمت دنیا ہے (یعنی اس کا مطمح نظر دنیا کا حصول ہے) تو اس کی کوئی قیمت نہیں اور اگر اس کی ہمت اللہ کی رضا ہے تو پھر اس کی قیمت کا ادراک کرنا ممکن نہیں ہے‘ کوئی اُسے جان نہیں سکتا۔(نتائج الافکار‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)
ابوبکر الطمستانی (م: ۳۴۰ھ) کہتے ہیں: راستہ واضح ہے اور کتاب و سنت ہمارے درمیان موجود ہیں اور صحابہؓ کا فضل و شرف معلوم ہے اس لیے بھی کہ وہ آپؐ کی صحبت میں رہے اور اس لیے بھی کہ انھوں نے آپؐ کے ساتھ ہجرت کی اور جہاد کیا‘ رہے ہم لوگ تو ہم میں سے جس نے کتاب و سنت کی صحبت اختیار کی‘ یعنی کتاب و سنت میں جو کچھ ہے اس پر عمل کیا اور جس نے اپنے نفس اور مخلوق کی اطاعت سے منہ موڑا اور اپنے دل سے اللہ کی طرف ہجرت کی وہی سچا ہے اور اس نے ابدی سعادت کا راستہ پا لیا ہے۔ (الرسالۃ‘ ج ۱‘ ص ۱۷۷)
ابوالقاسم ابراہیم بن محمد النصرآباذی (م: ۳۶۷ھ) کہتے ہیں: تصوف کی اصل یہ چیزیں ہیں: کتاب و سنت کی پابندی‘ خواہشات و بدعات کا ترک‘ مشائخ کا احترام‘ مخلوق کی معذرتوں کو قبول کرنا‘ اوراد پر مداومت‘ رخصتوں کے ارتکاب سے پرہیز‘ تاویلات کو ترک کرنا۔ اس قول میں مشائخ سے مراد وہ لوگ ہیں جو علم و عمل کے لحاظ سے کامل ہوں اور جنھوں نے ان مباحات سے بھی اعراض کیا ہو جو ذکر و عبادت میں حارج ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ یقینا احترام و اکرام کے مستحق ہیں۔ اوراد‘ وِرد کی جمع ہے‘ ان سے مراد وہ نفل عبادتیں ہیں جو بندہ اپنے رب کی رضا اور تقرب کے لیے روزانہ کرتا ہے۔ یہ عبادتیں اللہ کے لطف و کرم کو جاری رکھتی اور دلوں کو زندہ کرتی ہیں جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ میرا بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ ’’رخصتوں‘‘ سے یہاں مراد آرام و راحت‘تنعم اور لذائذ ہیں۔ ’’تاویلات‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں بندہ اپنے نفس میں یہ خیال کرے کہ نہ اسے کرنے میں گناہ ہے‘ اور نہ ترک میں گناہ ہے‘ وہ یہ نہ سوچے کہ قرب الٰہی کے حصول میں اس کا فعل یا ترک مفید ہے یا نہیں۔ (الرسالۃ مع شرح ‘ ج۲‘ ص ۱۵)
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ(م :۵۹۱ھ) کہتے ہیں: کتاب و سنت کو اپنے سامنے رکھو‘ تامل و تدبر کے ساتھ ان دونوں کا مطالعہ کرو اور انھی دونوں کو اپنا دستورالعمل بنائو اور قال و قیل اور ہوا و ہوس سے دھوکا نہ کھائو۔ (فتوح الغیب ‘ مقالہ ۳۶)
آگے چل کر وہ پھر فرماتے ہیں: سیدنا محمدؐ کے سوا ہمارا کوئی نبی نہیں کہ ہم اس کی پیروی کریں اور قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں کہ ہم اس پر عمل کریں ‘ لہٰذا تم ان دونوں کے دائرے سے باہر نہ نکلو ورنہ ہلاک ہو جائو گے۔ تمھاری خواہش اور شیطان تمھیں گمراہ کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی خواہش نفس کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔ سلامتی کتاب و سنت کے ساتھ ہے اور ہلاکت غیر کتاب و سنت کے ساتھ۔ (ایضاً)
ابوالعباس احمد بن محمد بن سہل بن عطا (م: ۳۰۹ھ) معقول و منقول دلیل کے ساتھ اتباع سنت پر زور دیتے ہیں: جو شخص اپنے آپ کو آدابِ شریعت کا پابند کردیتا ہے‘ اللہ اس کے قلب کو نور معرفت سے روشن کر دیتا ہے اور حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت سے اشرف کوئی مقام نہیں ہے‘ متابعت آپؐ کے اوامر‘ افعال اور اخلاق سب میں۔ کیونکہ حضورؐ ہی جانتے ہیں کہ وہ افضل عمل کون سا ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے اور وہ اس کے تقرب کا بہترین ذریعہ ہے‘ حضورؐ بہ نفس نفیس اپنی تمام حرکات و سکنات میں اللہ کی مدد سے‘ افضل ترین طاعات پر عامل تھے۔ لہٰذا اس میں جو شخص بھی آپؐ کی پیروی کرے گا اس کا مقام سب سے بلند ہوگا اور اسی بلند مقامی کی ایک بات یہ ہے کہ وہ اللہ کا محبوب بن جائے گا۔ اللہ خود فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ، کہہ دو‘ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تمھیں محبوب رکھے گا‘‘۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن سنت کا اتباع‘ عبادات‘ عادات و اخلاق اور اعتقادات‘ سب میں لازم ہے اور یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ان کی سنت اور طریقے کے خلاف ہے وہ باطل ہے اور جس شخص نے بھی کوئی نئی بات پیدا کی ہے جس سے سنت رسولؐ کی مخالفت ہوتی یا اس میں تغیر پیدا ہوتا ہے خواہ یہ مخالفت اور تبدیلی قول میں ہو یا عمل میں یا اعتقاد میں‘ وہ گمراہی ہے اور مردود ہے۔ (مکاتیب و رسائل‘ مکتوب ۹)
صوفیہ کے اقوال پیش کرنے سے پہلے یہ یاد دہانی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ ’’تصوف‘‘ اور ’’صوفی‘‘ کی اصطلاحیں بہت مشہور ہیں‘ لیکن صوفیۂ کرام اپنی کتابوں میں یہ بھی لکھتے آ رہے ہیں کہ یہ دونوں لفظ قرآن و حدیث میں نہیں آئے ہیں۔ اس لیے نہ ’’تصوف‘‘ کا لفظ مطلوب ہے اور نہ ’’صوفی‘‘ کا لقب مقصود ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردیؒ (م: ۶۲۲ھ) عوارف المعارف میں لکھتے ہیں: پورب سے پچھم تک اسلامی ممالک کے دونوں کناروں میں اہل قرب کے لیے ’’صوفی‘‘ کا نام معروف و مشہور نہیں ہے۔ یہ نام انھی لوگوں کے لیے معروف ہے جو خاص قسم کا لباس استعمال کرتے ہیں۔ بلاد مغرب‘ بلادترکستان اور ماوراء النہر میں بہت سے اللہ کے مقرب بندے ہیں لیکن وہ ’’صوفیہ‘‘ سے موسوم نہیں ہیں کیونکہ وہ صوفیہ کا لباس استعمال نہیں کرتے۔ اور الفاظ و اصطلاحات میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صوفیہ سے ہماری مراد ’’مقربین‘‘ ہی ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ چھٹی‘ ساتویں صدی ہجری تک ’’صوفیہ‘‘ کے نام سے وہی لوگ جانے پہچانے جاتے تھے جو خاص قسم کا لباس پہنتے تھے لیکن بعد کو لباس کی قید اُٹھ گئی اور یہ نام اس طبقے کے لیے مشہور ہو گیا جس میں پیری مریدی کا سلسلہ جاری ہو اور وہ بزرگوں کے بارے میں غالیانہ عقیدت رکھتا ہو--- شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں لکھا ہے: علوم احسان و یقین کہ آج کل تصوف کے نام سے مشہور ہوگئے ہیں… تصوف کی حقیقت جس کا نام عرف شرع میں ’’احسان‘‘ ہے۔ (ازالۃ الخفائ‘ مقصد دوم‘ ص ۱۴۲)
اس سے بھی معلوم ہوا کہ ’’تصوف‘‘ کوئی شرعی نام نہیں ہے بلکہ اس کا شرعی نام احسان ہے--- بعض علماے صوفیہ نے تصوف کو طریق تقویٰ کہا ہے اور تصوف کے لیے ’’تزکیہ نفس‘‘ کی اصطلاح تو اتنی ہی مشہور ہے جتنی خود تصوف کی اصطلاح۔ بہرحال‘ علوم احسان و یقین کہیے یا طریق تقویٰ یا تزکیۂ نفس‘ یہ سب اس تصوف کی تعبیریں ہیں جس کی بنیاد کتاب و سنت پر قائم ہے اور جسے ہم اسلامی تصوف کہتے ہیں۔
تصوف کو ’’احسان‘‘ کہنے کی وجہ وہ حدیث ہے جس میں حضرت جبریل ؑ نے صحابہ کرامؓ کے مجمع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کے بارے میں چند سوالات کیے تھے اور آپؐ نے جوابات دیے تھے۔ احسان کے بارے میں سوال و جواب کے الفاظ یہ ہیں: مجھے احسان کے بارے میں بتایئے۔ حضورؐ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ یقینا تمھیں دیکھ رہا ہے۔ (ریاض الصالحین‘ بحوالہ مسلم)
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ یہ حدیث تصوف کی بہت بڑی اصل ہے اور تصوف کی تمام مستند کتابوں میں اس سے استدلال کیا گیا ہے۔ تصوف اب ایک مستقل علم کا نام ہے اس لیے اس کی تعریف یہ کی گئی ہے:
تصوف ایک علم ہے جس سے نفوس کی پاکی‘ اخلاق کی صفائی اور ظاہر و باطن کی آبادی و آراستگی کے احوال معلوم ہوتے ہیں اور اس کا مقصد ابدی سعادت کا حصول ہے۔ (شیخ الاسلام زکریا انصاری‘ شرح الرسالۃ القشیریہ‘ ج ۱‘ ص ۶۹‘ ترمذی‘ ابن ماجہ)
اس عبارت میں علم تصوف کی فنی تعریف بھی کی گئی ہے اور اس کی غرض و غایت بھی بتائی گئی ہے۔ ائمۂ صوفیہ اپنی کتابوں میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: العلماء ورثۃ الانبیاء (مشکوٰۃ، کتاب العلم‘ بحوالہ ابودائود)‘علما انبیا کے وارث ہیں۔ اور حضورؐ نے فرمایا ہے: من عمل بما علم ورثۃ اللّٰہ علم مالم یعلم‘آدمی جو کچھ جانتا ہے جب اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ اسے ایسی باتوں کا علم عطا کرتا ہے جنھیں وہ نہیں جانتاتھا۔ صوفیہ کہتے ہیں کہ علم الوراثۃ دین میں فہم و بصیرت کا نام ہے اور اسی کو قرآن میں ’’حکمت‘ ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے:
یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیرًاط وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۲۶۹)
وہ جس کو چاہتا ہے حکمت بخشتا ہے اور جسے حکمت ملی اسے خیرکثیر کا خزانہ مل گیا مگر یاددہانی وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
میں نے محمد بن احمد بن یحییٰ صوفی کو کہتے ہوئے سنا‘ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن تمیمی کو کہتے ہوئے سنا کہ ابومحمد جریری سے تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ تصوف ہربلند اخلاق میں داخل ہونے اور ہر پست اخلاق سے خارج ہونے کا نام ہے۔ بلند اخلاق جیسے ورع‘ زہد‘ توکل‘ رضا اور تفویض وغیرہ‘ اور پست اخلاق جیسے ریا‘ عجب‘ کبر‘ حسد اور بدگمانی وغیرہ۔ (الرسالۃ القشیریہ مع شرح‘ ج ۴‘ ص ۴)
امام قشیری نے اپنی کتاب کے ’’باب التصوف‘‘ میں خود اپنی سند سے سب سے پہلے یہی قول نقل کیا ہے۔اس قول کا حاصل یہ ہے کہ ہر بلند اخلاق سے آراستگی اور ہر پست اخلاق سے پاکی و صفائی ہی حقیقی تصوف ہے۔
عمرو بن عثمان مکیؒ سے تصوف کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: ’’تصوف یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اس کام میں مشغول ہو جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت کے لیے بہترین اور مناسب ترین ہو‘‘۔
شارحین نے اس جملے کی تشریح میں لکھا ہے کہ صوفی کی شان یہ ہے کہ وہ مختلف اوقات میں اعمال‘ اخلاق ‘ احوال اور ہر عمل خیر میں سے اسی کو اختیار کرتا ہے جو اس وقت کے لحاظ سے افضل ترین و اکمل ترین شے ہو اور جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اللہ کی رضا حاصل کی جا سکتی ہو۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ ہر وقت‘ اس کے عمل کی بنیاد کتاب و سنت کے احکام پر ہوتی ہے۔کیونکہ انھی کے ذریعے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ مختلف اوقات میں کون سی چیز سب سے زیادہ مناسب ہے۔ افسوس کہ اس زمانے کے اکثر صوفیہ نے تصوف کی اس حقیقت کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے۔
حضرت معروف کرخیؒ نے فرمایا ہے کہ: تصوف یہ ہے کہ آدمی حقائق کو اختیار کرے اور مخلوق کے پاس جو کچھ ہے ا س سے مایوس ہوجائے۔
اس کی تشریح میں شیخ الاسلام زکریا انصاری لکھتے ہیں: جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو اور وہ یہ جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی نافع‘ ضار اور معطی نہیں ہے‘ نفع و ضرر اور عطا و بخشش صرف اس کے دستِ قدرت میں ہے‘ ایسا شخص یقینا انھی اعمال کو اختیارکرے گا جو اللہ سے قریب کرنے والے ہیں۔ اس کی نظر ان چیزوں پر نہ ہوگی جو مخلوق کے قبضہ و تصرف میں ہیں‘ اس کا اعتماد صرف اللہ پر ہوگا اور کسی پر نہیں۔
حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کے وزیر کو اللہ نے توفیق بخشی اور وہ بادشاہ کے دربار سے کنارہ کش ہو گیا۔ بادشاہ نے اُسے پکڑ بلوایا اور دھمکی کے انداز میں کہا‘ کیا تو مجھ سے بھاگتا ہے؟ وزیر نے کہا‘ ہاں‘ اس لیے کہ میں نے تم سے بہتر بادشاہ کو پا لیا ہے۔ بادشاہ کا غصہ اور بڑھا۔ اس نے پوچھا‘ مجھ سے بہتر بادشاہ کون ہے؟ وزیر نے جواب دیا‘ وہ بادشاہ تم سے بہتر ہے جو مجھے کھلاتا ہے مگر اسے خود کھانے کی ضرورت نہیں‘ اور تمھارا حال یہ ہے کہ جب تک تمھیں کھلایا نہ جائے تم مجھے کھلا نہیں سکتے۔ تم سے بہتر وہ بادشاہ ہے جو مجھے سُلاتا ہے لیکن خود اُسے نیند نہیں آتی‘ اور تمھارا حال یہ ہے کہ جب تک تم سو نہ جائو میں سو نہیں سکتا۔ تم سے بہتر وہ بادشاہ ہے کہ میری خطائیں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں وہ مجھے معاف فرما دیتا ہے‘ لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ معمولی قصور پر بھی مواخذہ کرتے ہو۔ تم سے بہتر وہ بادشاہ ہے کہ جب میں اس کی خدمت میں لگا تو سارا عالمِ وجود میری خدمت کرنے لگا‘ اور تمھاری خدمت کا حال یہ تھا کہ میں مجبور تھا کہ تمھارے ہر مقرب کی خدمت کروں تاکہ وہ مجھے اذیت نہ پہنچائے۔ یہ سن کر بادشاہ نے جواب دیا‘ تم نے سچ کہا‘ بے شک وہ مجھ سے بہتر ہے۔ اس کی چوکھٹ سے چمٹ جائو اور اس کی اطاعت کو غنیمت سمجھو۔ (شرح رسالہ‘ باب التصوف)
ایک بار حضرت جنیدؒ بغدادی نے فرمایا: تصوف اجتماع کے ساتھ ذکر‘ استماع کے ساتھ وجد اور اتباع کے ساتھ عمل کا نام ہے۔ شارحین اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ’’اجتماع‘‘ سے مراد اجتماع ہمت ہے‘ ذکر مع اجتماع کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ذکر پورے حضور قلب اور حسن نیت کے ساتھ کیا جائے کیونکہ غفلت مذموم ہے اور عمل‘ حسن نیت ہی سے صحیح ہوتا ہے۔ ’’وجد‘‘ تصوف کی اصطلاح میں جذبۂ اشتیاق و محبت کی زیادتی کو کہتے ہیں اور استماع سے مراد کسی ایسی چیز کا سننا ہے جو اس جذبے میں تحریک پیدا کرتی ہے۔ وجد مع استماع کا مطلب یہ ہوا کہ مؤثر مواعظ یا ایسی باتیں سُن کر جن کی سند کتاب و سنت میں موجود ہو‘ جذبۂ شوق میں زیادتی اور تحریک پیدا کی جائے۔ ’’عمل مع اتباع‘‘ میں اتباع سے مراد اتباع سنت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر عمل سنت کے مطابق ہو‘ کیونکہ ہر وہ عمل ‘ یا حال یا مقام جو اتباعِ سنت سے خالی ہو‘ بدعت ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کے صحبت یافتہ ابوبکر کتانی نے کہا ہے: تصوف اخلاق جمیلہ سے آراستگی کا نام ہے۔ جو شخص تم سے اخلاق حسنہ میں بڑھا ہوا ہے وہ تم سے صفاے قلب اور تصوف میں بڑھا ہوا ہے۔ (شرح رسالہ‘ باب التصوف)
ذوالنون مصریؒ سے اہل تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب میں کہا: یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ عزوجل کوہر دوسری شے پر ترجیح دی تو اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے انھیں ہر دوسری شے پر ترجیح عطا فرمائی۔
محشیؒ لکھتے ہیں کہ اللہ کو ہر دوسری شے پر ترجیح دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی مرضیات اور پسندیدہ چیزوں کو اس کی نامرضیات اور ناپسندیدہ چیزوں پر ترجیح دی جائے‘ اور انھیں دوسری چیزوں پر ترجیح دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ان کے عمل کے مطابق ان کا درجہ مقرر فرماتا ہے۔
یہ ہے اسلامی تصوف کی حقیقت جسے فلسفیانہ تصوف نے انتہائی پیچیدہ اور ناقابل قبول بنادیاہے۔
اب تک جو تفصیل پیش کی جا چکی‘ اس سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ سلوکِ باطن کی راہ بھی دین ہی کی روشنی میں طے کی جا سکتی ہے۔ اس روشنی کے بغیر یہ راہ خطرات سے بھری ہوئی ہے۔ اگر اللہ و رسولؐ کے احکام ‘ دینی حقیقتیں اور اس کے مسلّمات نظر سے اوجھل ہوں یا اوجھل کر دیے جائیں تو اسلامی تصوف‘ ملحدانہ تصوف کا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ جب جاہل اور مکار صوفیوں نے کشف و کرامت‘ ارادتِ قلبی اور الہامات‘ غیر شرعی حقائق اور خدا رسیدگی کے دعوے کرکے لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کیا تو علماے حق اور صوفیۂ صدق کو پوری قوت سے یہ بتانا پڑا کہ اصل شے شریعت‘ احکامِ الٰہی کی تعمیل اور اس پر استقامت ہے۔ یہ نہ ہو تو تمام دعوے غلط اور گمراہ کن ہیں۔ اصل کسوٹی کتاب و سنت ہے۔ اس پر جانچے اور پرکھے بغیر کوئی چیز قابل قبول نہیں ہے۔ اس طرح کی صراحتیں پہلے بھی گزر چکی ہیں۔ اور ہم یہاں خاص طور سے اس سلسلے کی چند صراحتیں نقل کر رہے ہیں۔
ابویزید طیفور بن عیسیٰ بسطامی (م: ۲۶۱ھ) کہتے ہیں: اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ اسے کرامتیں دی گئی ہیں یہاں تک کہ وہ ہوا میں اُڑنے لگا ہے ‘اس سے دھوکا نہ کھائو جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ امرونہی‘ حدود کے تحفظ اور اداے شریعت کے معاملے میں تم اس کو کیسا پاتے ہو۔ (الرسالۃ القشیریہ)
اس قول کی شرح کرتے ہوئے‘ شیخ الاسلام لکھتے ہیں: بسطامیؒ کے قول کی وجہ یہ ہے کہ کرامت تووہ شے ہے جو صاحب ِ کرامت کے ان کاموں میں مددگار ہوتی ہے جو اللہ سے قریب کرنے والے ہیں۔ وہ اس کے یقین کو قوی کرتی اور اللہ کی محبت و رضا پر اسے ثابت قدم رکھتی ہے‘ لہٰذا جب کوئی خارقِ عادت شے کسی بندے سے ظاہر ہو لیکن شریعت اس کی استقامت پر گواہ نہ ہو تو ایسا شخص مکروفریب اور دھوکے میں مبتلا ہے۔ (احکام الدلالۃ ‘شرح الرسالۃ‘ ج ۱‘ ص ۱۰۹)
ابوسلیمان عبدالرحمن بن عطیۃ الدارانی (م: ۲۱۵ھ) کا ارشاد ہے:میں نے جنید بغدادیؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ ابوسلیمان دارانی فرماتے ہیں: بسااوقات صوفیہ کے لطائف و نکات میں سے کوئی نکتہ کئی دنوں تک میرے دل میں آتا رہتا ہے لیکن میں اس وقت تک اس کو قبول نہیں کرتا جب تک دو شاہد وعادل‘ کتاب و سنت‘ اس کی صحت پر گواہی نہ دیں۔ (رسالہ قشیریہ مع شرح‘ ج ۱‘ ص۱۱۴)
ابوالحسن احمد بن محمد النوری (م: ۲۹۵ھ) کہتے ہیں: جس شخص کو تم دیکھو کہ وہ اللہ کے ساتھ اپنی کسی ایسی حالت کا دعویٰ کر رہا ہے جو اسے علمِ شرعی کی حد سے باہر نکالنے والی ہے تو اس کے قریب بھی نہ پھٹکو کیونکہ وہ بدعتی ہے۔ شریعت جس کے افعال واقوال کی صحت پر گواہ نہ ہو وہ مبتدع ہے اگرچہ اس سے خارق عادت باتیں صادر ہو رہی ہوں۔ کیونکہ یہ اس کے ساتھ ایک طرح کا مکر ہے۔ (ایضاً‘ ص ۱۵۰)
ابومحمد رویم بن احمد (م :۳۰۲ھ) کہتے ہیں: ’’صوفیہ کا علم روح کو صرف کیے بغیر حاصل نہیں ہوتا‘‘۔ روح کو صرف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ طاعات کی تعمیل اور شہوات سے اعراض میں اپنی پوری کوشش لگا دی جائے۔ رویم نے کہا: اگر تم اس وصف کے ساتھ اس راہ میں آنا چاہو تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے آپ کو صوفیہ کی یاوہ گوئی میں مشغول نہ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمل کے بغیر محض صوفیہ کے اقوال اور ان کے واقعات یاد کرنے اور ان کے باطل طریقوں اور اعمال سے خالی بکواس میں مشغول ہونے سے حقیقی تصوف حاصل نہیں ہوتا۔ (ایضاً‘ ص ۱۵۳)
حضرت رویم کا یہ قول دیکھیے اور آج کل کے ’’صوفیہ‘‘ کو دیکھیے۔ ۹۰ فی صد ایسے ہی لوگ ہیں جو صوفیہ کے اقوال اور ان کے واقعات یاد کر کے اور ان کی لایعنی باتوں میں مشغول ہو کر ’’صوفی‘‘ اور ’’صحیح العقیدہ‘‘ مسلمان بنے ہوئے ہیں‘اور ان کے مقابلے میں جو لوگ فرائض و واجبات کے پابند اور معاصی سے پرہیز کرنے والے ہیں انھیں تصوف کا منکر اور بدعقیدہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ابوسعید احمد بن عیسیٰ الخراز (م: ۲۷۷ھ) کہتے ہیں: ’’ہرباطن‘ جس کا ظاہر مخالف ہے باطل ہے‘‘۔ باطن سے مراد وہ بات ہے جو دل میں آتی ہے اور ظاہر سے مراد شریعت ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ دل کی جس بات کو شریعت صحیح قرار نہ دے وہ باطل ہے۔ (ایضًا‘ ص ۶۸)
اس کے قریب سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا یہ قول بہت مشہور ہے: اور ہر حقیقت‘ جسے شریعت رد کر دے وہ بے دینی ہے۔ (فتوح الغیب مع شرح ‘ ص ۷۶)
اس جامع اور بلیغ جملے کی شرح میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے لکھا ہے: اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر حکم شریعت کے خلاف کسی پر کوئی کشف ہو اور وہ دعویٰ کرے کہ اسے اس کا حکم دیا گیا ہے تو یہ دعویٰ باطل ہے‘ اور اگر وہ اس کے صحیح ہونے کا اعتقاد کرے تو کافر اور بے دین ہو جائے گا۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ (شرح فتوح الغیب‘ ص ۷۶)
شیخ جیلانی ؒ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: اگر دل میں کوئی خیال آئے یا کسی بات کا الہام ہو تو انھیں کتاب و سنت پر پیش کرو۔ (فتوح الغیب‘ ص ۷۲)
یہ قاعدئہ کلّیہ بیان کر کے شیخ جیلانی قدس سرہ نے اس کی کچھ مثالیں پیش کی ہیں‘ سب کا حاصل یہ ہے کہ غیرنبی کا الہام دلیلِ شرعی نہیں ہے‘ دلیلِ شرعی کتاب و سنت ہی ہیں۔ یہی دونوں فیصلہ کریں گے کہ وہ الہام قابلِ قبول اور قابلِ عمل ہے یا نہیں۔
ان عبارتوں سے واضح ہوا کہ کرامت ہو یا کشف یا الہام یا کوئی بھی خواب و خیال‘ جب تک کتاب و سنت ان کے صحیح ہونے پر گواہی نہ دیں وہ لائق اعتبار بھی نہیں ہیں‘ ان کا قابلِ عمل ہونا تو دُور کی بات ہے۔