تصوف کا اقرار و انکار اور اس کے بارے میں بحث و تمحیص اور اعتراض و جوابِ اعتراض کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ اگر کسی نے اس کا انکار کیا تو اقرار کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ انکار کس تصوف کا کیا جا رہا ہے‘ اور اگر کسی نے اقرار کیا تو انکار کرنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ کس تصوف کا اقرار کیا جا رہا ہے۔ اقرار کرنے والے منکرین تصوف کے درمیان مطعون ہوتے ہیں اور انکار کرنے والے حامیانِ تصوف کے درمیان مذموم قرار پاتے ہیں۔ افراط و تفریط کے درمیان توسط و اعتدال کی راہ گُم ہو جاتی ہے اور اس پر چلنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ بعض لوگ تو ’’تصوف‘‘ کے لفظ اور اس اصطلاح پر جھگڑا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ اصطلاح پر جھگڑنا معقول بات نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ حقیقت سے زیادہ اس اصطلاح کو ماننے اور منوانے پر اصرار شروع کر دیتے ہیں اور یہ بات بھی قرین عقل نہیں ہے۔
راقم الحروف نے تصوف کی کتابوں کا جو مطالعہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین قسم کے تصوف پائے جاتے ہیں: ۱- مومنانہ تصوف‘ ۲- فلسفیانہ تصوف‘ ۳- ملحدانہ تصوف۔
ملحدانہ تصوف نے اگرچہ مسلم عوام کو بہت نقصان پہنچایا ہے لیکن علماے حق اور صوفیہ صافیہ ہمیشہ اس کی تردید کرتے آئے ہیں اور کسی مومن مخلص کو اس کے قابل ترک ہونے میں شبہہ نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک ملحدانہ تصوف اس تصوف کا نام ہے جو بزعمِ خویش اللہ تک پہنچے ہوئے لوگوں کے لیے اسلامی شریعت کو معطل قرار دیتا ہے۔ ملحداور گمراہ صوفیہ جو مسلمان کے بھیس میں دراصل منافق ہوتے ہیں‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب کوئی مسلمان مقامِ یقین پر فائز ہو کر خدا رسیدہ ہو گیا تو اب وہ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور اس طرح کے شرعی احکام کا مکلّف نہیں رہتا۔ اس گروہ کے نزدیک طریقت‘ شریعت سے بالکل علیحدہ چیز ہے‘ اس کے نزدیک شریعت مدرسۂ سلوک کے صرف مبتدی طلبہ کے لیے ہے۔
مومنانہ ‘ یعنی اسلامی تصوف جن حقائق کا نام ہے آج تک کسی مومن مخلص نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔ اس لیے کہ وہ کتاب و سنت سے بصراحت ثابت اور ایمان و اسلام کے لازمی تقاضے ہیں۔ علماے حق کے درمیان اختلاف و نزاع صرف اس تصوف میں ہے جسے ہم نے فلسفیانہ تصوف کہا ہے۔ اس تصوف کی بنیاد فلسفۂ یونان اور علم الکلام کی دور ازکار بحثوں پر قائم کی گئی ہے۔ اس میں بہت سی ایسی چیزیں داخل کر لی گئی ہیں جن کی تائید کتاب و سنت سے نہیں ہوتی۔ نیز یہ کہ قرآنی حقیقتوں کی فلسفیانہ تشریح کر کے انھیں کچھ سے کچھ بنا دیا گیا ہے اور ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ بہت سی چیزوں کے لیے انتہائی ضعیف اور موضوع حدیثوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کوئی چیز اس وقت تک قبولِ عام حاصل نہیں کرتی جب تک اس کے لیے کوئی حدیث نہ پیش کی جائے۔
جہاں تک میں نے غور کیا ہے تصوف کے انکار میں شدت اسی فلسفیانہ تصوف پر زور دینے کا نتیجہ ہے۔ صوفیہ میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جو زبان سے تویہ کہتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد کتاب و سنت پر ہے لیکن ان کی روش یہ ہے کہ جو لوگ فلسفیانہ تصوف کا انکار کرتے ہیں انھیں بھی وہ اس گروہ میں داخل قراردیتے ہیں جو مطلقاً تصوف کا منکر ہے۔ اس کے علاوہ بزرگوں کے بارے میں انھوں نے ایسی غالیانہ عقیدت اختیار کر رکھی ہے جس کا کوئی ثبوت کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے اور اسی کو انھوں نے تصوف کے اقرار و انکار کی کسوٹی بنا دیا ہے۔ جو شخص ان کی اس خود ساختہ کسوٹی پر کھرا اُترے‘ یعنی غالیانہ عقیدت میں ان کا ساتھ دے‘ وہ تصوف کا ماننے والا ہے اور جو اس پر کھوٹا ثابت ہو‘ یعنی اس عقیدت میں ان کا ساتھ نہ دے وہ تصوف کا انکار کرنے والا ہے۔ ۹۰ فی صد یہ بات بھی صادق ہے کہ انھوں نے بزرگوں کی غالیانہ عقیدت کو اپنے لیے حصولِ عقیدت کا حربہ اور وسیلہ بنا لیا ہے۔ یہ اپنے ماسبق بزرگوں کے سامنے اس لیے سر جھکاتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے سامنے سر جھکائیں‘ جو لوگ اس پر تنقید کرتے ہیں انھیں وہ تصوف کا مخالف اور اولیا کا منکر کہہ کر لوگوں میں بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کی عقیدت ان کے ساتھ وابستہ رہے اور اس میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔
تصوف کی مشہور و مستند کتابوں میں اسلامی تصوف اور فلسفیانہ تصوف ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط ہیں اور ان دونوں کے درمیان امتیاز صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہوں اور جن کے دل و دماغ بزرگوں کی اندھی عقیدت سے مائوف نہ ہوں--- ہماری اس تحریر کا موضوع چونکہ اسلامی تصوف ہے اس لیے ہم نے فلسفیانہ تصوف سے صرفِ نظر کیا ہے--- ہم حسب ذیل نکات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں:
۱- اسلامی تصوف کا ماخذ کیا ہے؟
۲- تصوف کیا ہے اور صوفی کون لوگ ہیں؟
۳- کشف و کرامات و الہام کوئی دلیل نہیں بلکہ خود ان کی صحت دلیلِ شرعی کی محتاج ہے۔
تمام صوفیۂ علّیہ بلااستثنا اس بات پر متفق ہیں کہ وہ جس تصوف کے قائل ہیں اس کی بنیاد کتاب و سنت پر قائم ہے اور یہی اس کے اصل ماخذ ہیں۔ صرف چند اقوال یہاں نقل کرتے ہیں۔
ابو عبداللہ سہل بن عبداللہ التستری (م: ۲۷۳ھ) کہتے ہیں: ہمارے طریقے کے اصول سات ہیں: کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنا‘ سنت کی پیروی‘ حلال کھانا‘ اذیت رسانی سے رُکنا‘ معصیتوں سے اجتناب‘ توبہ اور حقوق کی ادایگی۔ (نتائج الافکار القدسیہ‘ ج ۱‘ ص ۱۱۱)
ابوالحسین احمد بن ابی الحواری (م :۲۴۰ھ) کہتے ہیں: جس کسی نے اتباع سنت کے بغیر کوئی عمل کیا تو اس کا وہ عمل باطل ہوگا۔ (الرسالۃ القشیریہ‘ ج ۱‘ ص ۱۲۶)
ابوحفص عمر بن مسلمۃ الحداد (م: ۲۶۵ھ) کہتے ہیں: جو شخص ہر وقت اپنے افعال و اقوال و احوال کو کتاب و سنت پر نہیں تولتا اور جو اپنے وارداتِ قلبی میں شک کر کے اسے نہیں جانچتا اسے ’’مردانِ حق‘‘ کے گروہ میں شمار نہ کرو۔ مردان حق سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا‘‘۔ یہ جو بات ابوحفص نے فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص ایسا نہ ہو وہ اپنے دشمن نفس کے فریب سے بے خوف اور اپنے حال میں مگن ہوتا ہے اور جو شخص ایسے دشمن کی عداوت سے اپنے کو محفوظ و مامون سمجھے جس سے دشمنی کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اپنے بارے میں یہ سمجھ لے کہ کسی کا فریب اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا تو ایسا شخص اللہ کی چال سے اپنے آپ کو بے خوف سمجھ رہا ہے اور قرآن میں ہے کہ: ’’اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘۔ (الرسالۃ وشرحہا)
سید الطائفہ ابوالقاسم جنید بن محمدؒ (م :۲۹۷ھ) کہتے ہیں: جس شخص نے قرآن و حدیث کے احکام نہیں سمجھے اور ان کا علم حاصل نہیں کیا ‘ تصوف میں اس کی اقتدا نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ ہمارا یہ علم (تصوف) کتاب و سنت سے مقید ہے اور اجماع و قیاس کا مرجع بھی یہی دونوں ہیں۔
ابوعلی روذباری جنیدؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ہمارا یہ مذہب (تصوف) اصول‘ یعنی کتاب و سنت کے ساتھ مقید ہے۔ پہلے قول میں ’’علم‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دوسرے میں ’’مذہب‘‘ کا۔ پہلے لفظ سے اشارہ صحت ِعلم کی طرف ہے اور دوسرے لفظ کا اشارہ صحتِ سلوک کی طرف۔ اس سے معلوم ہوا کہ صوفیہ کسی وقت بھی اپنے علم و عمل میں کتاب و سنت سے مستغنی نہیں ہیں۔ اس قول میں اور اس سے پہلے کے قول میں اس شخص کی تردید ہے جو راہِ سلوک میں اپنے ’’وارداتِ قلبی‘‘ پر اعتمادکرتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور سچے ہیں‘ وہ انھیں کتاب و سنت پر تولنے سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہے اور یہ کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ (رسالہ قشیریہ مع شرح‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)
السید مصطفی العروسی اپنے حاشیے میں لکھتے ہیں: حضرت جنیدؒ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ طالب ِ سلوک کے لیے شرط یہ ہے کہ علما سے شریعت مطہرہ کے احکام کا علم حاصل کرکے اس پر عمل کرے۔ اس کے بعد اس راہ میں اس کی رہبری درست ہو سکتی ہے۔ اور جو شخص اس کے بغیر اللہ تک پہنچ جانے کا مدعی ہو وہ بدعتی ہے‘ نہ اس کی طرف رجوع کیا جائے گا اور نہ اس کی کسی بات پر اعتمادصحیح ہوگا۔
’’علم تصوف دائرہ کتاب و سنت کے اندر ہے‘‘، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ علم تصوف کتاب و سنت سے حاصل کیا جائے گا اور اسی کے مطابق عمل ہوگا اور جو شخص علماً و عملاً اس سے خارج ہو وہ زندیق (بے دین) ہے۔ (نتائج الافکار‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)
ابوحمزہؒ بغدادی (م: ۲۸۹ھ) کہتے ہیں: جو راہِ خدا کا علم رکھتا ہے اس پر اس راہ کی رہروی آسان ہو جاتی ہے اور اللہ تک پہنچانے والے راستے کا رہنما بجز متابعت ِ رسولؐ کوئی اور نہیں ہے‘ متابعت آپؐ کے احوال‘ افعال اور اقوال سب میں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔(الرسالۃ‘ ج ۱‘ ص ۱۷۷)
ابواسحاق ابراہیم بن داؤد رقی (م: ۳۲۶ھ) کہتے ہیں: محبت الٰہی کی علامت‘ اس کی اطاعت کو ترجیح دینا اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ہے اس لیے کہ متابعت ‘ محبت کا ثمرہ ہے۔ جو شخص کسی سے محبت کادعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی پیروی نہیں کرتا وہ اس کی محبت میں جھوٹا ہے۔ رقی ؒنے یہ بھی کہا ہے کہ ہرانسان کی قیمت اس کی ہمت کے مطابق ہوتی ہے‘ پس اگر اس کی ہمت دنیا ہے (یعنی اس کا مطمح نظر دنیا کا حصول ہے) تو اس کی کوئی قیمت نہیں اور اگر اس کی ہمت اللہ کی رضا ہے تو پھر اس کی قیمت کا ادراک کرنا ممکن نہیں ہے‘ کوئی اُسے جان نہیں سکتا۔(نتائج الافکار‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)
ابوبکر الطمستانی (م: ۳۴۰ھ) کہتے ہیں: راستہ واضح ہے اور کتاب و سنت ہمارے درمیان موجود ہیں اور صحابہؓ کا فضل و شرف معلوم ہے اس لیے بھی کہ وہ آپؐ کی صحبت میں رہے اور اس لیے بھی کہ انھوں نے آپؐ کے ساتھ ہجرت کی اور جہاد کیا‘ رہے ہم لوگ تو ہم میں سے جس نے کتاب و سنت کی صحبت اختیار کی‘ یعنی کتاب و سنت میں جو کچھ ہے اس پر عمل کیا اور جس نے اپنے نفس اور مخلوق کی اطاعت سے منہ موڑا اور اپنے دل سے اللہ کی طرف ہجرت کی وہی سچا ہے اور اس نے ابدی سعادت کا راستہ پا لیا ہے۔ (الرسالۃ‘ ج ۱‘ ص ۱۷۷)
ابوالقاسم ابراہیم بن محمد النصرآباذی (م: ۳۶۷ھ) کہتے ہیں: تصوف کی اصل یہ چیزیں ہیں: کتاب و سنت کی پابندی‘ خواہشات و بدعات کا ترک‘ مشائخ کا احترام‘ مخلوق کی معذرتوں کو قبول کرنا‘ اوراد پر مداومت‘ رخصتوں کے ارتکاب سے پرہیز‘ تاویلات کو ترک کرنا۔ اس قول میں مشائخ سے مراد وہ لوگ ہیں جو علم و عمل کے لحاظ سے کامل ہوں اور جنھوں نے ان مباحات سے بھی اعراض کیا ہو جو ذکر و عبادت میں حارج ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ یقینا احترام و اکرام کے مستحق ہیں۔ اوراد‘ وِرد کی جمع ہے‘ ان سے مراد وہ نفل عبادتیں ہیں جو بندہ اپنے رب کی رضا اور تقرب کے لیے روزانہ کرتا ہے۔ یہ عبادتیں اللہ کے لطف و کرم کو جاری رکھتی اور دلوں کو زندہ کرتی ہیں جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ میرا بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ ’’رخصتوں‘‘ سے یہاں مراد آرام و راحت‘تنعم اور لذائذ ہیں۔ ’’تاویلات‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں بندہ اپنے نفس میں یہ خیال کرے کہ نہ اسے کرنے میں گناہ ہے‘ اور نہ ترک میں گناہ ہے‘ وہ یہ نہ سوچے کہ قرب الٰہی کے حصول میں اس کا فعل یا ترک مفید ہے یا نہیں۔ (الرسالۃ مع شرح ‘ ج۲‘ ص ۱۵)
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ(م :۵۹۱ھ) کہتے ہیں: کتاب و سنت کو اپنے سامنے رکھو‘ تامل و تدبر کے ساتھ ان دونوں کا مطالعہ کرو اور انھی دونوں کو اپنا دستورالعمل بنائو اور قال و قیل اور ہوا و ہوس سے دھوکا نہ کھائو۔ (فتوح الغیب ‘ مقالہ ۳۶)
آگے چل کر وہ پھر فرماتے ہیں: سیدنا محمدؐ کے سوا ہمارا کوئی نبی نہیں کہ ہم اس کی پیروی کریں اور قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں کہ ہم اس پر عمل کریں ‘ لہٰذا تم ان دونوں کے دائرے سے باہر نہ نکلو ورنہ ہلاک ہو جائو گے۔ تمھاری خواہش اور شیطان تمھیں گمراہ کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی خواہش نفس کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔ سلامتی کتاب و سنت کے ساتھ ہے اور ہلاکت غیر کتاب و سنت کے ساتھ۔ (ایضاً)
ابوالعباس احمد بن محمد بن سہل بن عطا (م: ۳۰۹ھ) معقول و منقول دلیل کے ساتھ اتباع سنت پر زور دیتے ہیں: جو شخص اپنے آپ کو آدابِ شریعت کا پابند کردیتا ہے‘ اللہ اس کے قلب کو نور معرفت سے روشن کر دیتا ہے اور حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت سے اشرف کوئی مقام نہیں ہے‘ متابعت آپؐ کے اوامر‘ افعال اور اخلاق سب میں۔ کیونکہ حضورؐ ہی جانتے ہیں کہ وہ افضل عمل کون سا ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے اور وہ اس کے تقرب کا بہترین ذریعہ ہے‘ حضورؐ بہ نفس نفیس اپنی تمام حرکات و سکنات میں اللہ کی مدد سے‘ افضل ترین طاعات پر عامل تھے۔ لہٰذا اس میں جو شخص بھی آپؐ کی پیروی کرے گا اس کا مقام سب سے بلند ہوگا اور اسی بلند مقامی کی ایک بات یہ ہے کہ وہ اللہ کا محبوب بن جائے گا۔ اللہ خود فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ، کہہ دو‘ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تمھیں محبوب رکھے گا‘‘۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن سنت کا اتباع‘ عبادات‘ عادات و اخلاق اور اعتقادات‘ سب میں لازم ہے اور یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ان کی سنت اور طریقے کے خلاف ہے وہ باطل ہے اور جس شخص نے بھی کوئی نئی بات پیدا کی ہے جس سے سنت رسولؐ کی مخالفت ہوتی یا اس میں تغیر پیدا ہوتا ہے خواہ یہ مخالفت اور تبدیلی قول میں ہو یا عمل میں یا اعتقاد میں‘ وہ گمراہی ہے اور مردود ہے۔ (مکاتیب و رسائل‘ مکتوب ۹)
صوفیہ کے اقوال پیش کرنے سے پہلے یہ یاد دہانی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ ’’تصوف‘‘ اور ’’صوفی‘‘ کی اصطلاحیں بہت مشہور ہیں‘ لیکن صوفیۂ کرام اپنی کتابوں میں یہ بھی لکھتے آ رہے ہیں کہ یہ دونوں لفظ قرآن و حدیث میں نہیں آئے ہیں۔ اس لیے نہ ’’تصوف‘‘ کا لفظ مطلوب ہے اور نہ ’’صوفی‘‘ کا لقب مقصود ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردیؒ (م: ۶۲۲ھ) عوارف المعارف میں لکھتے ہیں: پورب سے پچھم تک اسلامی ممالک کے دونوں کناروں میں اہل قرب کے لیے ’’صوفی‘‘ کا نام معروف و مشہور نہیں ہے۔ یہ نام انھی لوگوں کے لیے معروف ہے جو خاص قسم کا لباس استعمال کرتے ہیں۔ بلاد مغرب‘ بلادترکستان اور ماوراء النہر میں بہت سے اللہ کے مقرب بندے ہیں لیکن وہ ’’صوفیہ‘‘ سے موسوم نہیں ہیں کیونکہ وہ صوفیہ کا لباس استعمال نہیں کرتے۔ اور الفاظ و اصطلاحات میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صوفیہ سے ہماری مراد ’’مقربین‘‘ ہی ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ چھٹی‘ ساتویں صدی ہجری تک ’’صوفیہ‘‘ کے نام سے وہی لوگ جانے پہچانے جاتے تھے جو خاص قسم کا لباس پہنتے تھے لیکن بعد کو لباس کی قید اُٹھ گئی اور یہ نام اس طبقے کے لیے مشہور ہو گیا جس میں پیری مریدی کا سلسلہ جاری ہو اور وہ بزرگوں کے بارے میں غالیانہ عقیدت رکھتا ہو--- شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں لکھا ہے: علوم احسان و یقین کہ آج کل تصوف کے نام سے مشہور ہوگئے ہیں… تصوف کی حقیقت جس کا نام عرف شرع میں ’’احسان‘‘ ہے۔ (ازالۃ الخفائ‘ مقصد دوم‘ ص ۱۴۲)
اس سے بھی معلوم ہوا کہ ’’تصوف‘‘ کوئی شرعی نام نہیں ہے بلکہ اس کا شرعی نام احسان ہے--- بعض علماے صوفیہ نے تصوف کو طریق تقویٰ کہا ہے اور تصوف کے لیے ’’تزکیہ نفس‘‘ کی اصطلاح تو اتنی ہی مشہور ہے جتنی خود تصوف کی اصطلاح۔ بہرحال‘ علوم احسان و یقین کہیے یا طریق تقویٰ یا تزکیۂ نفس‘ یہ سب اس تصوف کی تعبیریں ہیں جس کی بنیاد کتاب و سنت پر قائم ہے اور جسے ہم اسلامی تصوف کہتے ہیں۔
تصوف کو ’’احسان‘‘ کہنے کی وجہ وہ حدیث ہے جس میں حضرت جبریل ؑ نے صحابہ کرامؓ کے مجمع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کے بارے میں چند سوالات کیے تھے اور آپؐ نے جوابات دیے تھے۔ احسان کے بارے میں سوال و جواب کے الفاظ یہ ہیں: مجھے احسان کے بارے میں بتایئے۔ حضورؐ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ یقینا تمھیں دیکھ رہا ہے۔ (ریاض الصالحین‘ بحوالہ مسلم)
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ یہ حدیث تصوف کی بہت بڑی اصل ہے اور تصوف کی تمام مستند کتابوں میں اس سے استدلال کیا گیا ہے۔ تصوف اب ایک مستقل علم کا نام ہے اس لیے اس کی تعریف یہ کی گئی ہے:
تصوف ایک علم ہے جس سے نفوس کی پاکی‘ اخلاق کی صفائی اور ظاہر و باطن کی آبادی و آراستگی کے احوال معلوم ہوتے ہیں اور اس کا مقصد ابدی سعادت کا حصول ہے۔ (شیخ الاسلام زکریا انصاری‘ شرح الرسالۃ القشیریہ‘ ج ۱‘ ص ۶۹‘ ترمذی‘ ابن ماجہ)
اس عبارت میں علم تصوف کی فنی تعریف بھی کی گئی ہے اور اس کی غرض و غایت بھی بتائی گئی ہے۔ ائمۂ صوفیہ اپنی کتابوں میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: العلماء ورثۃ الانبیاء (مشکوٰۃ، کتاب العلم‘ بحوالہ ابودائود)‘علما انبیا کے وارث ہیں۔ اور حضورؐ نے فرمایا ہے: من عمل بما علم ورثۃ اللّٰہ علم مالم یعلم‘آدمی جو کچھ جانتا ہے جب اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ اسے ایسی باتوں کا علم عطا کرتا ہے جنھیں وہ نہیں جانتاتھا۔ صوفیہ کہتے ہیں کہ علم الوراثۃ دین میں فہم و بصیرت کا نام ہے اور اسی کو قرآن میں ’’حکمت‘ ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے:
یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیرًاط وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۲۶۹)
وہ جس کو چاہتا ہے حکمت بخشتا ہے اور جسے حکمت ملی اسے خیرکثیر کا خزانہ مل گیا مگر یاددہانی وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
میں نے محمد بن احمد بن یحییٰ صوفی کو کہتے ہوئے سنا‘ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن تمیمی کو کہتے ہوئے سنا کہ ابومحمد جریری سے تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ تصوف ہربلند اخلاق میں داخل ہونے اور ہر پست اخلاق سے خارج ہونے کا نام ہے۔ بلند اخلاق جیسے ورع‘ زہد‘ توکل‘ رضا اور تفویض وغیرہ‘ اور پست اخلاق جیسے ریا‘ عجب‘ کبر‘ حسد اور بدگمانی وغیرہ۔ (الرسالۃ القشیریہ مع شرح‘ ج ۴‘ ص ۴)
امام قشیری نے اپنی کتاب کے ’’باب التصوف‘‘ میں خود اپنی سند سے سب سے پہلے یہی قول نقل کیا ہے۔اس قول کا حاصل یہ ہے کہ ہر بلند اخلاق سے آراستگی اور ہر پست اخلاق سے پاکی و صفائی ہی حقیقی تصوف ہے۔
عمرو بن عثمان مکیؒ سے تصوف کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: ’’تصوف یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اس کام میں مشغول ہو جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت کے لیے بہترین اور مناسب ترین ہو‘‘۔
شارحین نے اس جملے کی تشریح میں لکھا ہے کہ صوفی کی شان یہ ہے کہ وہ مختلف اوقات میں اعمال‘ اخلاق ‘ احوال اور ہر عمل خیر میں سے اسی کو اختیار کرتا ہے جو اس وقت کے لحاظ سے افضل ترین و اکمل ترین شے ہو اور جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اللہ کی رضا حاصل کی جا سکتی ہو۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ ہر وقت‘ اس کے عمل کی بنیاد کتاب و سنت کے احکام پر ہوتی ہے۔کیونکہ انھی کے ذریعے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ مختلف اوقات میں کون سی چیز سب سے زیادہ مناسب ہے۔ افسوس کہ اس زمانے کے اکثر صوفیہ نے تصوف کی اس حقیقت کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے۔
حضرت معروف کرخیؒ نے فرمایا ہے کہ: تصوف یہ ہے کہ آدمی حقائق کو اختیار کرے اور مخلوق کے پاس جو کچھ ہے ا س سے مایوس ہوجائے۔
اس کی تشریح میں شیخ الاسلام زکریا انصاری لکھتے ہیں: جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو اور وہ یہ جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی نافع‘ ضار اور معطی نہیں ہے‘ نفع و ضرر اور عطا و بخشش صرف اس کے دستِ قدرت میں ہے‘ ایسا شخص یقینا انھی اعمال کو اختیارکرے گا جو اللہ سے قریب کرنے والے ہیں۔ اس کی نظر ان چیزوں پر نہ ہوگی جو مخلوق کے قبضہ و تصرف میں ہیں‘ اس کا اعتماد صرف اللہ پر ہوگا اور کسی پر نہیں۔
حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کے وزیر کو اللہ نے توفیق بخشی اور وہ بادشاہ کے دربار سے کنارہ کش ہو گیا۔ بادشاہ نے اُسے پکڑ بلوایا اور دھمکی کے انداز میں کہا‘ کیا تو مجھ سے بھاگتا ہے؟ وزیر نے کہا‘ ہاں‘ اس لیے کہ میں نے تم سے بہتر بادشاہ کو پا لیا ہے۔ بادشاہ کا غصہ اور بڑھا۔ اس نے پوچھا‘ مجھ سے بہتر بادشاہ کون ہے؟ وزیر نے جواب دیا‘ وہ بادشاہ تم سے بہتر ہے جو مجھے کھلاتا ہے مگر اسے خود کھانے کی ضرورت نہیں‘ اور تمھارا حال یہ ہے کہ جب تک تمھیں کھلایا نہ جائے تم مجھے کھلا نہیں سکتے۔ تم سے بہتر وہ بادشاہ ہے جو مجھے سُلاتا ہے لیکن خود اُسے نیند نہیں آتی‘ اور تمھارا حال یہ ہے کہ جب تک تم سو نہ جائو میں سو نہیں سکتا۔ تم سے بہتر وہ بادشاہ ہے کہ میری خطائیں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں وہ مجھے معاف فرما دیتا ہے‘ لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ معمولی قصور پر بھی مواخذہ کرتے ہو۔ تم سے بہتر وہ بادشاہ ہے کہ جب میں اس کی خدمت میں لگا تو سارا عالمِ وجود میری خدمت کرنے لگا‘ اور تمھاری خدمت کا حال یہ تھا کہ میں مجبور تھا کہ تمھارے ہر مقرب کی خدمت کروں تاکہ وہ مجھے اذیت نہ پہنچائے۔ یہ سن کر بادشاہ نے جواب دیا‘ تم نے سچ کہا‘ بے شک وہ مجھ سے بہتر ہے۔ اس کی چوکھٹ سے چمٹ جائو اور اس کی اطاعت کو غنیمت سمجھو۔ (شرح رسالہ‘ باب التصوف)
ایک بار حضرت جنیدؒ بغدادی نے فرمایا: تصوف اجتماع کے ساتھ ذکر‘ استماع کے ساتھ وجد اور اتباع کے ساتھ عمل کا نام ہے۔ شارحین اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ’’اجتماع‘‘ سے مراد اجتماع ہمت ہے‘ ذکر مع اجتماع کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ذکر پورے حضور قلب اور حسن نیت کے ساتھ کیا جائے کیونکہ غفلت مذموم ہے اور عمل‘ حسن نیت ہی سے صحیح ہوتا ہے۔ ’’وجد‘‘ تصوف کی اصطلاح میں جذبۂ اشتیاق و محبت کی زیادتی کو کہتے ہیں اور استماع سے مراد کسی ایسی چیز کا سننا ہے جو اس جذبے میں تحریک پیدا کرتی ہے۔ وجد مع استماع کا مطلب یہ ہوا کہ مؤثر مواعظ یا ایسی باتیں سُن کر جن کی سند کتاب و سنت میں موجود ہو‘ جذبۂ شوق میں زیادتی اور تحریک پیدا کی جائے۔ ’’عمل مع اتباع‘‘ میں اتباع سے مراد اتباع سنت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر عمل سنت کے مطابق ہو‘ کیونکہ ہر وہ عمل ‘ یا حال یا مقام جو اتباعِ سنت سے خالی ہو‘ بدعت ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کے صحبت یافتہ ابوبکر کتانی نے کہا ہے: تصوف اخلاق جمیلہ سے آراستگی کا نام ہے۔ جو شخص تم سے اخلاق حسنہ میں بڑھا ہوا ہے وہ تم سے صفاے قلب اور تصوف میں بڑھا ہوا ہے۔ (شرح رسالہ‘ باب التصوف)
ذوالنون مصریؒ سے اہل تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب میں کہا: یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ عزوجل کوہر دوسری شے پر ترجیح دی تو اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے انھیں ہر دوسری شے پر ترجیح عطا فرمائی۔
محشیؒ لکھتے ہیں کہ اللہ کو ہر دوسری شے پر ترجیح دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی مرضیات اور پسندیدہ چیزوں کو اس کی نامرضیات اور ناپسندیدہ چیزوں پر ترجیح دی جائے‘ اور انھیں دوسری چیزوں پر ترجیح دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ان کے عمل کے مطابق ان کا درجہ مقرر فرماتا ہے۔
یہ ہے اسلامی تصوف کی حقیقت جسے فلسفیانہ تصوف نے انتہائی پیچیدہ اور ناقابل قبول بنادیاہے۔
اب تک جو تفصیل پیش کی جا چکی‘ اس سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ سلوکِ باطن کی راہ بھی دین ہی کی روشنی میں طے کی جا سکتی ہے۔ اس روشنی کے بغیر یہ راہ خطرات سے بھری ہوئی ہے۔ اگر اللہ و رسولؐ کے احکام ‘ دینی حقیقتیں اور اس کے مسلّمات نظر سے اوجھل ہوں یا اوجھل کر دیے جائیں تو اسلامی تصوف‘ ملحدانہ تصوف کا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ جب جاہل اور مکار صوفیوں نے کشف و کرامت‘ ارادتِ قلبی اور الہامات‘ غیر شرعی حقائق اور خدا رسیدگی کے دعوے کرکے لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کیا تو علماے حق اور صوفیۂ صدق کو پوری قوت سے یہ بتانا پڑا کہ اصل شے شریعت‘ احکامِ الٰہی کی تعمیل اور اس پر استقامت ہے۔ یہ نہ ہو تو تمام دعوے غلط اور گمراہ کن ہیں۔ اصل کسوٹی کتاب و سنت ہے۔ اس پر جانچے اور پرکھے بغیر کوئی چیز قابل قبول نہیں ہے۔ اس طرح کی صراحتیں پہلے بھی گزر چکی ہیں۔ اور ہم یہاں خاص طور سے اس سلسلے کی چند صراحتیں نقل کر رہے ہیں۔
ابویزید طیفور بن عیسیٰ بسطامی (م: ۲۶۱ھ) کہتے ہیں: اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ اسے کرامتیں دی گئی ہیں یہاں تک کہ وہ ہوا میں اُڑنے لگا ہے ‘اس سے دھوکا نہ کھائو جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ امرونہی‘ حدود کے تحفظ اور اداے شریعت کے معاملے میں تم اس کو کیسا پاتے ہو۔ (الرسالۃ القشیریہ)
اس قول کی شرح کرتے ہوئے‘ شیخ الاسلام لکھتے ہیں: بسطامیؒ کے قول کی وجہ یہ ہے کہ کرامت تووہ شے ہے جو صاحب ِ کرامت کے ان کاموں میں مددگار ہوتی ہے جو اللہ سے قریب کرنے والے ہیں۔ وہ اس کے یقین کو قوی کرتی اور اللہ کی محبت و رضا پر اسے ثابت قدم رکھتی ہے‘ لہٰذا جب کوئی خارقِ عادت شے کسی بندے سے ظاہر ہو لیکن شریعت اس کی استقامت پر گواہ نہ ہو تو ایسا شخص مکروفریب اور دھوکے میں مبتلا ہے۔ (احکام الدلالۃ ‘شرح الرسالۃ‘ ج ۱‘ ص ۱۰۹)
ابوسلیمان عبدالرحمن بن عطیۃ الدارانی (م: ۲۱۵ھ) کا ارشاد ہے:میں نے جنید بغدادیؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ ابوسلیمان دارانی فرماتے ہیں: بسااوقات صوفیہ کے لطائف و نکات میں سے کوئی نکتہ کئی دنوں تک میرے دل میں آتا رہتا ہے لیکن میں اس وقت تک اس کو قبول نہیں کرتا جب تک دو شاہد وعادل‘ کتاب و سنت‘ اس کی صحت پر گواہی نہ دیں۔ (رسالہ قشیریہ مع شرح‘ ج ۱‘ ص۱۱۴)
ابوالحسن احمد بن محمد النوری (م: ۲۹۵ھ) کہتے ہیں: جس شخص کو تم دیکھو کہ وہ اللہ کے ساتھ اپنی کسی ایسی حالت کا دعویٰ کر رہا ہے جو اسے علمِ شرعی کی حد سے باہر نکالنے والی ہے تو اس کے قریب بھی نہ پھٹکو کیونکہ وہ بدعتی ہے۔ شریعت جس کے افعال واقوال کی صحت پر گواہ نہ ہو وہ مبتدع ہے اگرچہ اس سے خارق عادت باتیں صادر ہو رہی ہوں۔ کیونکہ یہ اس کے ساتھ ایک طرح کا مکر ہے۔ (ایضاً‘ ص ۱۵۰)
ابومحمد رویم بن احمد (م :۳۰۲ھ) کہتے ہیں: ’’صوفیہ کا علم روح کو صرف کیے بغیر حاصل نہیں ہوتا‘‘۔ روح کو صرف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ طاعات کی تعمیل اور شہوات سے اعراض میں اپنی پوری کوشش لگا دی جائے۔ رویم نے کہا: اگر تم اس وصف کے ساتھ اس راہ میں آنا چاہو تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے آپ کو صوفیہ کی یاوہ گوئی میں مشغول نہ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمل کے بغیر محض صوفیہ کے اقوال اور ان کے واقعات یاد کرنے اور ان کے باطل طریقوں اور اعمال سے خالی بکواس میں مشغول ہونے سے حقیقی تصوف حاصل نہیں ہوتا۔ (ایضاً‘ ص ۱۵۳)
حضرت رویم کا یہ قول دیکھیے اور آج کل کے ’’صوفیہ‘‘ کو دیکھیے۔ ۹۰ فی صد ایسے ہی لوگ ہیں جو صوفیہ کے اقوال اور ان کے واقعات یاد کر کے اور ان کی لایعنی باتوں میں مشغول ہو کر ’’صوفی‘‘ اور ’’صحیح العقیدہ‘‘ مسلمان بنے ہوئے ہیں‘اور ان کے مقابلے میں جو لوگ فرائض و واجبات کے پابند اور معاصی سے پرہیز کرنے والے ہیں انھیں تصوف کا منکر اور بدعقیدہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ابوسعید احمد بن عیسیٰ الخراز (م: ۲۷۷ھ) کہتے ہیں: ’’ہرباطن‘ جس کا ظاہر مخالف ہے باطل ہے‘‘۔ باطن سے مراد وہ بات ہے جو دل میں آتی ہے اور ظاہر سے مراد شریعت ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ دل کی جس بات کو شریعت صحیح قرار نہ دے وہ باطل ہے۔ (ایضًا‘ ص ۶۸)
اس کے قریب سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا یہ قول بہت مشہور ہے: اور ہر حقیقت‘ جسے شریعت رد کر دے وہ بے دینی ہے۔ (فتوح الغیب مع شرح ‘ ص ۷۶)
اس جامع اور بلیغ جملے کی شرح میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے لکھا ہے: اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر حکم شریعت کے خلاف کسی پر کوئی کشف ہو اور وہ دعویٰ کرے کہ اسے اس کا حکم دیا گیا ہے تو یہ دعویٰ باطل ہے‘ اور اگر وہ اس کے صحیح ہونے کا اعتقاد کرے تو کافر اور بے دین ہو جائے گا۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ (شرح فتوح الغیب‘ ص ۷۶)
شیخ جیلانی ؒ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: اگر دل میں کوئی خیال آئے یا کسی بات کا الہام ہو تو انھیں کتاب و سنت پر پیش کرو۔ (فتوح الغیب‘ ص ۷۲)
یہ قاعدئہ کلّیہ بیان کر کے شیخ جیلانی قدس سرہ نے اس کی کچھ مثالیں پیش کی ہیں‘ سب کا حاصل یہ ہے کہ غیرنبی کا الہام دلیلِ شرعی نہیں ہے‘ دلیلِ شرعی کتاب و سنت ہی ہیں۔ یہی دونوں فیصلہ کریں گے کہ وہ الہام قابلِ قبول اور قابلِ عمل ہے یا نہیں۔
ان عبارتوں سے واضح ہوا کہ کرامت ہو یا کشف یا الہام یا کوئی بھی خواب و خیال‘ جب تک کتاب و سنت ان کے صحیح ہونے پر گواہی نہ دیں وہ لائق اعتبار بھی نہیں ہیں‘ ان کا قابلِ عمل ہونا تو دُور کی بات ہے۔