ماہنامہ ترجمان القرآن کی ’’اشاعتِ خاص‘‘ کا سرِورق دیکھا تو عجیب لگا کیونکہ معمول سے ہٹ کر تھا۔ مضامین کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ علم کے موتی ایک گلدستے کی صورت میں جمع ہوگئے ہیں ‘ان سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔ خلیل الرحمن چشتی نے ’’تحریک احیاے دین کے قافلہ سالار‘‘ میں کمال اندازِ بیاں سے تاریخ کے پس منظر کے ساتھ مولانا کی خدمات کا ذکر بہت جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک عام قاری کے لیے جو مولانا کی شخصیت کے بارے میں لاعلم ہو تصویر کا پورا رخ پیش کرتا ہے۔ یہ مضمون جہاں مولانا مودودیؒ کی علمی خدمات کا احاطہ کرتا ہے وہاں جماعت کی جدوجہد کو بھی تاریخی تناظر میں پیش کرتا ہے۔’’یاد ہے مجھ کو ترا حرفِ بلند‘‘پڑھ کر اندازہ ہوا کہ مولانا بہت بڑے پائے کے قانون دان بھی تھے۔ ’’مودودی نمبر‘‘سے ہمیں ایک صدی پر محیط مسلمانوں کی دینی‘ علمی و سیاسی خدمات اور احیاے اسلام کی جدوجہد سے آگہی ہوئی۔ مولاناؒ پر اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے کہ انھوں نے اس صدی میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کر کے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔
’’اشاعتِ خاص‘‘ کے مضامین کو اعلیٰ معیار کا پایا‘ تاہم ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیالات‘ تجزیے اور اجماع امت سے متعلق مشورے سے دل آزاری ہوئی۔ سرورق سے کئی سوالات ذہن میں اٹھے۔ہزاروں سالوں پر محیط فکرمودودیؒ سے شخصیت پرستی کا سوال بھی ذہن میں اٹھا اگرچہ پروفیسر خورشید احمد کے بقول یہ ’’احسان مندی اور محسن شناسی‘‘ ہے۔
’’اشاعتِ خاص‘‘ کے مطالعے سے قبل میں مولانا مودودیؒ کو بڑاآدمی سمجھتا تھا لیکن اسے پڑھ کر یقین ہوگیا کہ میں تو کچھ بھی نہیں سمجھتا تھا۔ سید صاحب تو اس سے کہیں زیادہ‘ بہت زیادہ بڑے انسان تھے۔ انھیں قریب سے دیکھنے والوں کی تحریریں بتا رہی ہیں کہ وہ ’’عظمتِ کردار‘ وسعتِ ظرف‘ علوے ہمت‘ درویش مزاجی‘ اِتقا‘ توکل‘ تحمل‘ صداقت شعاری‘ ایثار‘ تدبر‘ دردمندی‘ ذہانت‘ فراست اور شگفتہ مزاجی‘‘ جیسی عمدہ‘ مسنون اور اب ناپید ہوتی ہوئی خصوصیات کے حامل رہنما تھے۔بیرونی تحریکی شخصیات کے مزید مضامین ہونے چاہییں۔ اگلے شمارے میں یہ کمی دُور ہو جائے تو بات بن جائے گی۔مولانا محترم کی زندگی کے آخری چند ماہ‘ چند ہفتے‘ چند روز‘ روزِ وداع اور سفرِوداع پر بھی معلومات اس تاریخی سلسلے کا حصہ بنایئے۔ اب تحریک کے ہم سفروں کی بڑی تعداد مولانا مرحوم سے زمانی طور پر بُعد کے سبب یہ جاننا چاہے گی۔ یہ معلومات بھی اِن شاء اللہ مفید ہوں گی۔
’’اشاعتِ خاص‘‘ کے سرورق پر ایک صدی سے دوسری صدی اور پھر صدیوں سے ہوتے ہوئے ایک ہزاریے سے دوسرے ہزاریے کی طرف پیش رفت کی جس طرح مؤثر جدول بندی کی گئی ہے وہ مجھے بہت پسند آئی‘ اور واقعی قابلِ ستایش ہے یہ منظرنامہ! اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ مولاناؒ کی فکروعمل جو ان کی تحریروں و تقریروں سے لے کر تشکیلِ جماعت اسلامی تک اور پھر ان کی منظم تحریک کا ربط عالمی اسلامی تحریکوں اور شخصیتوں و دیگر بین الاقوامی اداروں اور افراد سے عبارت ہے‘ اس کے اثرات وثمرات صرف ایک صدی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ بے کنار ہوکر ہزاریوں میں منتقل ہوتے رہیں گے۔
غزالیِ عصر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بلاشبہہ اس صدی کے عظیم انسان تھے۔ ان سے عقیدت و محبت تو پہلے بھی تھی مگر اس اشاعتِ خاص نے مجھے اپنے مرشد کا مزید گرویدہ بنا دیا ہے۔
’’راوانڈا: ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی‘‘(دسمبر ۲۰۰۳ئ) پڑھ کر دلی مسرت ہوئی کہ کس طرح راونڈا کے مظلوم مسلمان صبروضبط کا دامن تھامے‘ حالات کا جائزہ لیتے رہے‘ خانہ جنگی میں مبتلا دونوں دھڑوں کو بلاامتیاز مذہب و ملت‘ پناہ اور تحفظ دیتے رہے اور اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار سے دعوتِ اسلام دیتے رہے۔ اس کے اثر سے ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ کیا عالمِ اسلام بالخصوص پاکستان کو مسلمان کرنے اور مسلمان ہونے والوں کے لیے اپنے فرائض کا احساس ہے!