کہا جاتا ہے کہ یہ زندگی اور یہ دنیا فرق و امتیاز کی جگہ ہے اور جب انسان‘ عالمِ زیست کی حدوں سے گزر جاتا ہے توموت سب کو برابر کر دیتی ہے--- بے بسی کہ دوسروںکے کاندھوں پر انحصار‘ لباسِ افتخارسب رخصت اور دو سادہ کپڑوں میں امیروغریب سب کا آخری سفر‘ اور محلات اور جھونپڑے سب ختم‘ دو گز زمین اور منوں مٹی تلے بسیرا سب کا مقدر۔ بات سچی ہے لیکن ایک پہلو ایسا بھی ہے جس میں فرق و امتیاز باقی رہتا ہے اور اس کا بھرپور اظہار بھی ہوتاہے۔ اور وہ یہ کہ دوسرے اس موت کو کس طرح دیکھتے ہیں‘ اس غم کو کس طرح محسوس کرتے ہیں اور جنازے کے آئینے میں رخصت ہونے والے کی تصویر کیا نقش چھوڑتی ہے۔
شیخ یوسف القرضاوی نے بڑی خوب صورت بات کہی تھی کہ کچھ جنازے استصواب کی حیثیت رکھتے ہیں کہ خلقِ خدا اپنے خدا کے سامنے جانے والے کے بارے میں کیا شہادت پیش کرتی ہے۔ کراچی نے جو منظر ۱۲دسمبر ۲۰۰۳ء کو مولانا شاہ احمد نورانی کی نمازِ جنازہ میں دیکھا‘ وہ ایک عوامی استصواب سے کم نہ تھا۔ شاید قائداعظمؒ اور مولانا شبیراحمدعثمانی ؒ کے جنازے کے بعد اتنا بڑا صلوٰۃِ جنازہ کا نظارہ کراچی کی زمین پر نہیں دیکھا گیا۔ اس میں جوان اور بوڑھے‘ عالم اور عامی‘ امیر اور غریب‘ خادم اور مخدوم اور سب سے بڑھ کر ہر مسلک اور ہر مذہبی اور سیاسی رجحان سے وابستہ افراد کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ مرحوم کی مقبولیت اور خلقِ خدا کی ان سے محبت اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت‘ ان کی خدمات کا اعتراف اور ان کے رتبے اور مقام کا اظہار تھا۔ سچ ہے ؎
جس دھج سے کوئی مقتل میںگیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم متحدہ مجلسِ عمل کے صدر‘ جمعیت علما ے پاکستان کے قائد‘ ورلڈ اسلامک مشن کے سربراہ‘ ایک ممتاز عالمِ دین اور شہرہ آفاق مبلغ اور داعی تھے۔ سینیٹ آف پاکستان میں متحدہ حزب اختلاف کے قائد اور عملاً ایوان میں لیڈر آف دی اپوزیشن کا کردار ادا کررہے تھے۔ ۱۰ دسمبر کو سینیٹ کے اجلاس اور متحدہ حزبِ اختلاف کی پریس کانفرنس میں شرکت کی۔ ہنستے بولتے رخصت ہوئے کہ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء کو ۱۲ بجے دن ایک اور پریس کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔ کسے خبر تھی کہ اس وقت جب انھیں اس پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے سینیٹ آنا تھا فرشتۂ رحمت رفیقِ اعلیٰ سے ملاقات کا پروانہ لے کر آجائے گا اور ایک ابدی سفرکی طرف ان کو لے جائے گا۔ دل کا دورہ پڑا اور ہسپتال پہنچتے پہنچتے وہ اپنے مالک سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
مجھے حضرت شاہ احمد نورانی ؒسے ملنے کا پہلا موقع غالباً۵۳-۱۹۵۲ء میں نصیب ہوا جب ان کے برادرِ نسبتی اور میرے محترم اور مشفق بزرگ (جو مجھے چھوٹے بھائی کا درجہ دیتے تھے) ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کی معیت میں ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی ؒ سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ میرا طالب علمی کا دور تھا۔ وائس آف اسلام جمعیت الفلاح کا انگریزی مجلہ تھا اور ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری اس کے مدیر تھے‘ کمالِ شفقت سے انھوں نے وجودِ باری تعالیٰ پر میرا مضمون مجلے میں شائع کیا تھا۔ اس مجلے کے ذریعے مجھے برادر محترم فضل الرحمن انصاری سے قرب حاصل کرنے کا موقع ملا۔ انھی کے توسط سے سنگاپور سے شائع ہونے والے مجلہ Al-Islam سے واقفیت ہوئی جو حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی ؒ کی سرپرستی میں نکلتا تھا اور شاید اس دور میں انگریزی میں دعوتِ اسلامی کا بہترین ترجمان تھا ۔ اسی مجلے سے عظیم مبلغ حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب کی تحریروں اور سرگرمیوں سے واقفیت ہوئی تھی اور ملنے کا شوق تھا۔ پس یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ مولانا عبدالعلیم صدیقی کا انتقال غالباً ۱۹۵۴ء میں ہوا اور پھر ان کے مشن کو ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری اور مولانا شاہ احمد نورانی نے اپنے اپنے انداز میں جاری رکھا۔
انگلستان میں قیام کے دوران مولانا شاہ احمد نورانی کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں سے زیادہ گہری واقفیت ہوئی۔ وہ اسلامک فائونڈیشن‘ لسٹر تشریف لائے اور بڑی شفقت سے ہمارے کام کی تحسین فرمائی۔ اسلام آباد میں بھی انتقال سے چند ماہ قبل اصرار کر کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز تشریف لائے اور اپنی دعائوں سے نوازا۔ بیرون ملک بھی‘ خصوصیت سے لندن میں بارہا ملاقاتیں ہوئیں لیکن سچی بات ہے کہ زیادہ قریب سے ان کو دیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملی یکجہتی کونسل کے قیام کے بعد حاصل ہوا‘ اور پھر گذشتہ پورا سال تو اس طرح گزرا کہ سینیٹ اور متحدہ مجلسِ عمل کے کاموں کے سلسلے میں دن رات ان کے ساتھ رہنے اور مل کر کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کی شفقت‘ محبت‘معاملہ فہمی‘ نرم گفتاری کے نقوش دل پر مرتسم ہیں اور یہ کہنے میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ ہر روز ان سے تعلق کو گہرا کرنے کا باعث ہوا۔ ان کے رخصت ہونے سے نہ صرف قومی زندگی بلکہ ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی ایک خلا واقع ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے جاری کردہ اچھے کاموں میں مزید برکت اور افزونی پیدا کر دے۔ آمین!
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی ۱۷ رمضان المبارک ۱۳۴۶ھ (اپریل ۱۹۲۶ئ) میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کیا اور ۱۰ سال کی عمر سے تراویح میں باقاعدگی سے قرآنِ پاک سناتے رہے حتیٰ کہ آخری بار اِسی سال ختمِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ بقول مولانا نورانی اس پورے عرصے میں صرف دو سال بیماری کے باعث ختمِ قرآن نہ کرسکے۔ گویا ۶۵ سال قرآن سنایا… سبحان اللہ! جزاھم اللّٰہ خیر الجزائ۔ تعلیم عربک کالج میرٹھ اور الٰہ آباد یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ ۱۹۴۸ء سے والد مرحوم کے ساتھ تبلیغی سرگرمیوں میں شرکت کی اور غیرمسلموں تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے کے ساتھ ساتھ عیسائی پادریوں اور قادیانی مبلغوں سے مناظروں کا اہتمام بھی کیا اور کئی ہزار افراد کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی سعادت حاصل کی۔
۱۹۷۰ء میں سیاست میں قدم رکھا اور کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۷۶-۱۹۷۲ء والی اسمبلی میں ۱۹۷۳ء کے دستور کی تدوین اور ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے والی متفقہ قرارداد کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفیؐ میں ان کا مقام صفِ اول میں تھا۔ اس جدوجہد میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ۱۹۷۷ء میں سینیٹ میں منتخب ہوئے اور پھر دوبارہ ۲۰۰۳ء میں ایم ایم اے کے سربراہ کی حیثیت سے سینیٹ میں منتخب ہوئے۔ ۵۰سے زائد ملکوں کا دورہ کیا۔
مولانا شاہ احمد نورانی ایک جید عالم‘ ایک بالغ نظر مبلغ‘ ایک باکردار سیاسی قائد اور مدبر اور اسلامی اتحاد اور ملّی وحدت کے نقیب اور اس کی علامت تھے۔ جس حکمت‘ شفقت اور حسن تدبیر سے انھوں نے پاکستان کے مختلف دینی مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور انصاف اور اعتدال کے ساتھ ان کی قیادت فرمائی وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے جو آنے والوں کے لیے بھی ایک تابناک مثال رہے گا ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے