سقوطِ بغداد (۹ اپریل ۲۰۰۳ئ)کے بعد صدام کی گرفتاری یا موت کی خبر کسی وقت بھی متوقع تھی اور یہ امریکہ کے لیے باعثِ خفت ہے کہ ’’فتح‘‘کے آٹھ مہینے کے بعد اسے یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ "We got him" (ہم نے اسے پکڑلیا!)۔
بظاہر معلوم یہی ہوتا ہے کہ مخبری یا صدام کے اپنے محافظوں کی بے وفائی کے سبب امریکہ اس تک پہنچ سکا اور اسے پہلے نشہ زدہ کیا گیا اور پھر گرفتاری کے ڈرامے کو ٹیلی وژن کے اسکرین پر دکھایا گیا۔ یہ بھی معنی خیز ہے کہ ۱۴ دسمبر۲۰۰۳ء کو گرفتاری کے اعلان سے ایک ہفتہ پہلے جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کے لیے عراقی ججوں پر مشتمل عدالت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ گویا یہ سب اسی ڈرامے کی مختلف کڑیاں ہیں اور ہرمنظر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دکھایا جا رہا ہے۔
امریکہ نے صدام کو ’جنگی قیدی‘ (prisoner of war) قرار دیا ہے اور وہ قابض فوجوں کی تحویل میں ہے۔ ہمیں صدام کی ذات سے کوئی دل چسپی نہیں اور اس نے جو کچھ کیا‘ اس کی سزا وہ اللہ کے قانونِ مکافات کے مطابق یہاں اور آخرت میں ضرور بھگتے گا--- جس میں وہ ذلت بھی شامل ہے جو اس کا مقدر ہوگئی ہے۔ لیکن یہ گرفتاری اور جس طرح اس کی تشہیر کی گئی ہے وہ امریکہ کے کردار کو سمجھنے کے لیے ایک کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر امریکہ ایک مہذب ملک ہے تو وہ بھی بین الاقوامی قانون کا اسی طرح پابند ہے جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک۔ لیکن امریکہ خود کو ہر قانون اور ضابطے سے بالا سمجھتا ہے اور ان تمام قوانین اور معاہدات بشمول جنیوا کنونشنز کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا جو اسے جنگ اور جنگی قیدیوں کے باب میں کسی درجے میں بھی پابند کرتے ہیں۔ جنگ کے دوران جب عراق نے امریکہ کے جنگی قیدیوں کو ٹی وی پر دکھایا تھا تو امریکہ چیخ اُٹھا تھا کہ یہ جنیوا کنونشنز کے خلاف ہے۔ لیکن خود امریکہ نے جس طرح سے صدام کے بیٹوں کی لاشوں کی نمایش کی اور اب جس حقارت کے ساتھ صدام کو بہ ایں ریش دراز دکھایا‘شیوکیے جانے اور دانتوں سے ڈی این اے حاصل کرنے کے مناظرکو پیش کیا اور چوہے کے بل کی داستانیں نشر کیں‘ انھیں بھلا کون سے قانون یا ضابطے کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔
قیدیوں کی تحقیرایک مذموم حرکت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن امریکہ کے لیے یہ سب روا ہے۔ اس نے تو اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ جنگی جرائم کی کورٹ کو تسلیم کرنے تک سے انکار کر دیا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک سے دو طرفہ معاہدات کر رہا ہے کہ امریکہ کے فوجی بین الاقوامی کریمنل کورٹ کی دسترس سے باہر رہیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ ایک مہذب ریاست کا نہیں بلکہ ایک غنڈا ریاست (Rogue State) کا کردار ادا کر رہا ہے اور طاقت کے نشے میں چور‘ خود کو ہر قانون سے بالا رکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ ایک عالمی لیڈر کا نہیں ایک Master اور Bully کا کردار ادا کر رہا ہے اور دنیا کی نگاہ میں اب امریکہ کی یہی پہچان ہے۔ پھر اگر دنیا کے لوگ امریکہ کو امن کے لیے خطرہ اور خود اپنے لیے ایک ناپسندیدہ کردار تصور کرتے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور؟ اس کے بعد بھی اگر صدربش یہی پوچھتے ہیں اہل دنیا ہم سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ تو اس کے سوا کیا کہا جائے کہ ع
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
دوسرا پہلو‘ جس میں عرب اور مسلمان ممالک اور ان کی قیادتوں کے لیے بھی بڑا سامانِ عبرت ہے اور خود امریکہ کے لیے بھی‘ یہ ہے کہ اب اس پر بحث ہو رہی ہے کہ صدام پر مقدمہ کیسے چلایا جائے؟ اس لیے کہ اگر یہ کھلا مقدمہ ہو اور صدام سارا کچا چٹھا عدالت کے سامنے رکھ دے تو صدام کے جرائم سے کہیں زیادہ خود امریکہ کے جرائم اور گھنائونے کردار کا نقشہ دنیا کے سامنے آئے گا اور معلوم ہوگا کہ امریکہ عرب‘ مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک میں کیا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ صدام نے ۱۲ ہزار صفحات پر مشتمل جو دستاویز عام تباہی کے ہتھیاروں کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو دی تھی امریکہ نے اس میں سے ۹ ہزار صفحات پر masking tape لگا دیا تھا کہ اس میں اس کے اپنے کردار کا ذکر تھا۔اب یہ سب چیزیں کھل کر دنیا کے سامنے آئیں گی۔
اس کے علاوہ صدام کو صدام بنانے میں امریکہ نے کیا کردار ادا کیا ہے یہ بھی دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ رچرڈسیل (Richard Sale)کی ایک تحقیقی رپورٹ کے بموجب جو اس سال اپریل میں یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل نے شائع کی ہے کہ امریکی سی آئی اے کا پہلا رابطہ نوجوان صدام حسین سے ۱۹۵۹ء میں قائم ہوا جو عراق کے مقبول عوام حکمراں جنرل عبدالکریم قاسم کو قتل کرنے کے منصوبے کے سلسلے میں تھا۔ جنرل عبدالکریم قاسم وہ شخص تھا جس نے عراق کی مغرب نواز شہنشاہیت کا تختہ الٹا تھا اور عراقی قوم پرستی اور اشتراکیت کے نظریے پر استوار بعث پارٹی کے ذریعے امریکہ نے اس کا کام تمام کر دیا۔ عرب محقق اور تجزیہ نگار عادل درویش کی کتاب UNHOLY BABYLON: The Secret History of Saddam's War میں پوری دستاویزی شہادتوں کے ساتھ صدام اور بعث پارٹی کے گھنائونے کردار اور ان کے سی آئی اے سے تعلقات کی تفصیلات آچکی ہیں اور خود بعث پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے اعتراف کیا تھا کہ "We came to power on CIA train" (ہم امریکی گاڑی پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے تھے)۔ اس گاڑی میں صدام حسین کا ایک خاص مقام تھا‘ یعنی پارٹی کی خفیہ جاسوسی تنظیم کی سربراہی۔ پارٹی کا یہی وہ عنصر تھا جو Iraqi National Guardsmen کے عنوان تلے سیاسی مخالفین اورسی آئی اے کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق لوگوں کو چن چن کر قتل کر رہا تھا۔
صدام سی آئی اے ہی کے تعاون سے ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا بالآخر عراق کا مطلق العنان فرمانروا بنا اور اس حیثیت سے ہی وہ امریکہ کا منظورِ نظر تھا خاص طور پر جب امریکہ نے اسے ایران کے خلاف استعمال کیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد سے عراق پر بھی دوسرے عرب ممالک کی طرح پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایران کے خلاف جنگی خدمات کے عوض ۱۹۸۲ء میں صدر ریگن نے وہ پابندیاں اٹھائیں اور صدام کو صرف معلومات ہی نہیں بلکہ اسلحہ‘ کیمیاوی اور گیس کے ہتھیار اور ایک ارب ۲۰ کروڑ ڈالر کی مالی امداد بھی دی۔ اور وہ امداد اس کے علاوہ ہے جو سعودی عرب اور کویت سے دلوائی گئی۔ موجودہ سیکرٹری دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ جو اُس وقت ریگن کے نمایندے کے طور پر ۲۰ دسمبر ۱۹۸۳ء کو صدام سے ملے اور اسے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ پھر ۱۹۸۴ء میں بغداد کا دورہ کیا اور جس وقت صدام کردوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کررہا تھا جو امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی سے فراہم کی گئی تھی‘ تب کھلے عام امریکہ اس کی پیٹھ تھپک رہا تھا۔ یہ اور سارے حقائق ویسے تو اب کسی نہ کسی طرح سامنے آچکے ہیں لیکن امریکہ خائف ہے کہ صدام کے مقدمے کے ذریعے سے یہ ساری کالک اس کے منہ پر مَلی جائے گی۔ اس لیے وہ بین الاقوامی مقدمے سے کنی کترا رہا ہے اور صدام کی سرپرستی کے اپنے گھنائونے کردار کے اس طرح طشت ازبام ہونے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
صدام کی گرفتار ی سے امریکہ کی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوابلکہ اس میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ عراق میںامریکی قبضے کے خلاف جو تحریک برپا ہے اس میں کمی کا امکان نہیں اور صدام کی گرفتاری سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ اس کی پشت پر صدام نہیں (وہ تو ایک تہہ خانے میں پناہ لیے ہوئے تھا اور منشیات کے ذریعے اپنے غم غلط کرنے میں مصروف تھا)‘ بلکہ پوری قوم ہے اور محض صدام یا القاعدہ کی دہائی دے کر اس کی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔
عالمِ اسلام کے لیے بھی اس میں عبرت کا مقام ہے کہ کس طرح وہ قائدین جو اس پر مسلط ہیں‘ وہ دوسروں کے آلہ کار رہے ہیں اور ہیں‘ اور وہ جو اپنے عوام پر ظلم ڈھانے کے لیے بڑے جری ہیں جب آزمایش آتی ہے تو کس طرح چوہوں کی طرح بلوں میں گھستے اور اپنی جان بچاتے نظر آتے ہیں۔ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ وہ نظام جس میں باگ ڈور ایسے آمروں کے ہاتھ میں ہو‘ کتنا کمزور اور بودا ہوتا ہے اور کس طرح تاش کے پتوں کے گھروندے کی طرح زمین بوس ہو جاتا ہے۔ استحکام‘ دستور اور قانون کی حکمرانی‘ اصولوں کی بالادستی اور اداروں کے استحکام سے حاصل ہوتا ہے۔ آج ہماری کمزوری کی اصل وجہ ہی اجتماعی نظام کا یہ بگاڑ اور اجتماعی احتساب کا فقدان ہے۔ خود اپنے گھر کی اصلاح وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بات صرف عراق اور صدام کی نہیں‘ ہر مسلمان ملک اور وہاں پر مسلط ہر آمر کا مسئلہ ایک ہی ہے۔ نام اور جگہ مختلف ہے۔ اگر مسلم عوام یہ سبق سیکھ لیں اور اپنے معاملات ان باہر سے مسلط کیے جانے والے نام نہاد مسیحائوں کے ہاتھوں سے لے کر خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو چند سالوں میں زندگی کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ فاعتبروا یااولی الابصار!