جنوری ۲۰۰۴

فہرست مضامین

اکھنڈ بھارت کا نیا نقشہ ٔ راہ

پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۰۴ | شذرات

Responsive image Responsive image

ہندو ذہن اور سیاست برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ ہمارے تجربات ہزار سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی وہ نئی نسل جسے آزادی کے بعد کی فضا میں پلنے کا موقع ملا ہے بدقسمتی سے اس تاریخ اور تجربے سے نابلد ہے۔ پاکستان کا قیام کسی وقتی مصلحت کے تحت نہیں ہوا بلکہ ساری جدوجہد مسلمانوں کے جداگانہ تہذیبی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے لیے تھی۔ بھارت کی قیادت ایک بار پھر تقسیم کی لکیر کو مٹانے اور اکھنڈ بھارت کے لیے نئے نقشۂ راہ (road map) پر عمل پیرا ہونے کے لیے سرگرم ہے۔ واجپائی صاحب یا تو ملاقات سے گریزاں اور سارک کانفرنس میں آنے اور نہ آنے کے باب میں آنکھ مچولی کھیل رہے تھے‘ یا ایک دم ’’نرم سرحدوں‘ اور مشترک کرنسی‘‘ کی بات کرنے لگے ہیں۔ اسی سلسلے کی  ایک کڑی وہ ٹریک ٹو اقدامات ہیں جن کی تفصیل ایک سابق سفارت کار نیاز نائیک نے  ۱۸دسمبر ۲۰۰۳ء کے ڈان میں بیان کی ہے اور جس کا ہدف ۲۰۱۰ء تک پاکستان کو بھارت کے مشترک کرنسی کے جال میں پھنسانا اور بھارت کی معاشی اور مالیاتی گرفت میں دے دینا ہے۔ اب تک اس منصوبے پرایک طرح سے خاموشی سے کام ہو رہا تھا مگر اب اسے کھل کر بیان کیا جارہا ہے اوراس سلسلے میں بائیسویں میٹنگ ۱۸-۲۲ جنوری ۲۰۰۴ء کو متوقع ہے۔ نائیک صاحب کے الفاظ میں اس نقشۂ راہ کو سمجھ لیجیے:

دونوں فریق جلد ہی تین بڑے مسائل پر گفتگو کریں گے: دفاعی بجٹ میں کمی‘ جوہری پابندی پر دستخط اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کا فروغ۔ ان بڑے مسائل پر ابتدائی تفہیم کشمیر کے مسئلے کے حل کی طرف لے جائے گی۔ ہم نے ہندستان پاکستان کے لیے ایک نئی مشترک کرنسی جس کا نام ’’روپا‘‘ ہو‘ ۲۰۱۰ء تک رائج کرنے کی تجویز پیش کی ہے‘ اور اس حوالے سے ہمیں دونوں حکومتوں سے حوصلہ افزا ردعمل ملے ہیں۔ یہ آزادانہ منتقل ہونے والی کرنسی ہوگی جس کا ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن کی حمایت سے اجرا کیا جائے گا۔ ہماری غیر رسمی ملاقات کا مقصد اشیا کی آزادانہ نقل و حمل میں سہولت ہے تاکہ یورپی یونین کے طرز پر ایک معاشی یونین بن سکے۔ ہم علاقائی اتحادکے لیے کام کر رہے ہیں اور دونوں فریقوں کو اس معاملے میں اپنی متعلقہ حکومتوں کی بڑھتی ہوئی حمایت حاصل ہے۔

واجپائی صاحب کے بیان کا پس منظر نیاز نائیک کے تفصیلی نقشۂ کار سے سامنے آجاتا ہے اور صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ اصل اہداف کیا ہیں۔ یہ خطرناک کھیل مختلف سطحوں پر کھیلا جا رہا ہے اور اس نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق سیکڑوں افراد متحرک ہوگئے ہیں اور روزانہ کسی نہ کسی طائفے یا وفد کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ وہ وقت آگیا ہے کہ تمام حقائق سے قوم کو آگاہ کیا جائے اور اسے بیدار کیا جائے کہ اس کے اپنے ملک کی قیادت کس طرح ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ معاشی خودمختاری اور تہذیبی تشخص کو دائو پر لگانے پر تلی ہوئی ہے۔ یورپ کی مثالیں بڑی خوش کن ہیں مگر کیا ہمارے تاریخی تجربات اور یورپ کے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات میں کوئی مناسبت ہے؟ اور کیا ہمارے علاقے کے زمینی حقائق جن میں بھارت کا حجم ‘ عزائم اور علاقائی ہی نہیں عالمی طاقت بننے اور بالادستی مسلط کرنے کے اہداف شامل ہیں‘ کسی ایسے وژن کے لیے کوئی جواز فراہم کرسکتے ہیں؟

علاقے کا کون سا ملک ہے جو بھارت سے زخم خوردہ نہیں۔ پاکستان تو پہلے ہی دن سے خصوصی ہدف ہے لیکن کیا بنگلہ دیش ۱۹۷۱ء کی ساری لفاظی کے علی الرغم آج بھارت کی چیرہ دستیوں پر چِلّا نہیں رہا؟ سری لنکا کی خانہ جنگی میں بھارت کا کیا کردار رہا ہے؟مالدیو کو کس طرح قابومیں کیا گیا ہے؟ نیپال اور بھوٹان ہندو اور بدھ ریاستیں ہونے کے باوجود کس طرح بھارت کی سازشوں اور دست درازیوں کا شکار ہیں؟ خود سارک آج تک کیوں پنپ نہیں سکی؟ کیا یورپ میں معاشی یونین جرمنی اور فرانس کے تنازعات کو طے کرنے اور ان دونوں بڑے ملکوں کے مسلسل قربانیاں دینے کے بغیر وجود میں آگئی؟ کیا یورو‘ معاشی اور مالیاتی پالیسیوں میں ہم آہنگی اور یورپ کے ایک مرکزی بنک اور مارسٹرک ٹریٹی کے تحت بجٹ سازی کی پالیسی پر ۲۰ سال عمل کرنے سے پہلے وجود میں آگیا تھا‘ اور کیا آج بھی یونین کے سارے ممالک نے یورو کو اختیار کرلیا ہے؟ غرض سیاسی‘ تہذیبی اور معاشی ہر پہلوسے یہ تمام ترک تازیاں نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہیں بلکہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر ضرب کاری ہیں اوربے وقت کی راگنی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ البتہ یہ سب ایک خطرناک کھیل کا ضرور پتا دیتی ہیں جس کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنا پاکستانی قوم کی ضرورت ہے۔