ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانات بے حدوحساب ہیں جن کا کوئی شمار نہیں کیاجاسکتا‘ لیکن بلاشبہہ اُس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اُس نے ہم کو خالص توحید اور بے آمیز توحید کی تعلیم دی جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی ذات‘ صفات‘ اختیارات اورحقوق میں کسی دوسرے کی ادنیٰ سے ادنیٰ شرکت کے لیے بھی کوئی گنجایش نہیں ہے اور تمام حیثیتوں سے خدائی صرف ایک معبودِ برحق کے لیے مخصوص ہے۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے‘ اس کی صحیح قدر آپ صرف اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب توحید اور شرک کے فرق کو بخوبی سمجھ لیں۔
شِرک کا لازمی خاصّہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کو بانٹتا اور انسانوں کو انسانوں سے پھاڑتا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ شہادت دیتی ہو کہ تمام دُنیا کے مشرکین کسی ایک معبود پر‘ یا چند معبودوں پر کبھی جمع ہوئے ہوں۔ ساری دنیا تو درکنار‘ زمین کے ایک خطّے میں بسنے والے مشرک بھی کسی معبود یا معبودوں کے کسی گروہ پر متفق نہیں پائے گئے۔ قبیلوں اور قبیلوں کے معبود الگ الگ رہے ہیں اور یہ جُدا جُدا بھی ہمیشہ معبود نہیں رہے بلکہ زمانے کی ہر گردش کے ساتھ بدلتے چلے گئے ہیں۔ اس طرح شِرک کبھی کسی دَور میں بھی انسانیت کو جمع کرنے والی طاقت نہیں رہا بلکہ ایک تفرقہ پرداز طاقت رہا ہے اور وہ صرف عقیدے ہی کے اعتبار سے انسانوں کو ایک دوسرے سے نہیں پھاڑتا۔ اُس کی فطرت چونکہ متحد کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے اس لیے جو تفرقے اُس کی بدولت برپا ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ انسانوں میں قوموں اور قبیلوں اور نسلوں اور زبانوں اور رنگوں اور وطنوں کے اختلافات اُبھار دیتے ہیں۔ پھر یہی اختلافات آگے بڑھ کر لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت وعداوت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ذلیل و حقیر اور ناپاک اور اچھوت سمجھنے کے محرک بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کا حق مارنے اور ایک دوسرے پر ظلم ڈھانے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخرکار انھی کی بدولت دُنیا میں خونریزیاں ہوتی ہیں‘ قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا ہے‘ لڑائیاں ہوتی ہیں اور شّروفساد سے خدا کی زمین بھرجاتی ہے۔ آج تک جتنی لڑائیاں بھی انسانوں اور انسانوں کے درمیان ہوئی ہیں‘ آپ ان کے اسباب کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان سب کے پیچھے شرک کسی نہ کسی صورت میں کارفرما رہا ہے یا اُس کی پیدا کردہ خباثتوں میں سے کوئی خباثت اُن کی محرک ہوئی ہے۔
اس کے برعکس توحید اگر شرک کی ہر آمیزش سے پاک ہو‘ تو اُس کا لازمی خاصّہ انسانیت کو بانٹنے اورانسانوں کو انسانوں سے پھاڑنے کے بجاے ان کو باہم جوڑنا اور ایک رب العالمین کی بندگی و اطاعت پر جمع اور متحد کرنا ہے۔ جتنے لوگ بھی مخلوقات کی خدائی کے ہر تصور سے اپنے ذہن کو پاک کر کے صرف ایک خدا کو معبودِ برحق مان لیں گے اور خداوندعالم کی ذات‘ صفات‘ اختیارات اور حقوق میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کی شرکت کے باطل خیال کو اپنے دل و دماغ کے ہر گوشے سے نکال باہر کریں گے‘ وہ لازماً ایک اُمت بنیں گے۔ یقینا ان میں وحدت پیدا ہوگی۔ ضرور وہ ایک دوسرے کے رفیق اور ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہیں گے۔ تاریخ میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک اللہ کی وحدانیت کے سوا کوئی دوسری چیز انسانوں کو جمع کرنے والی پائی گئی ہو۔ اگر انسان جمع ہوسکتے ہیں تو صرف اُس ایک معبود پر جو حقیقتاً ساری کائنات کا معبود ہے۔ اُسی کوماننے پر اُن کے اندر اتحاد پیدا ہوسکتا ہے اور اُسی کی بندگی پر اتفاق اُنھیں ایک دوسرے کا بھائی بنا سکتا ہے۔ توحیدِالٰہ کا نتیجہ توحیدِ اُمت ایک ایسی اَٹل حقیقت ہے جو کبھی غلط ثابت نہیں ہوئی ہے نہ غلط ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر کبھی کسی جگہ آپ دیکھیں کہ توحید پر ایمان کا دعویٰ تو موجودہے ‘ لیکن اس کا دعویٰ کرنے والی اُمت میں وحدت موجود نہیں ہے‘ بلکہ اُلٹے تفرقے اور تعصبات اور باہمی نفرت و مخالفت کے فتنے برپا ہیں‘ تو چشمِ بصیرت سے اُن کا جائزہ لے کر آپ بآسانی معلوم کرلیں گے کہ اُس اُمت میں شرک گھس آیا ہے اور اُس کے بے شمار شاخسانوں میں سے کوئی نہ کوئی شاخسانہ اس کے افراد اور گروہوں کو ایک دُوسرے سے پھاڑ رہا ہے۔ یہ بات نہ ہو تو جس طرح دو اور دو پانچ نہیں ہوسکتے‘ اسی طرح شرک کی آمیزش کے بغیر ایک خدا کے ماننے والے دس متحارب گروہوں میں بٹ نہیں سکتے۔
اب دیکھیے کہ تمام انسانوں کو ہر زمانے اور ہر دور میں ایک اُمت کے اندر جمع کرنے کے لیے توحید کی بنیاد فراہم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس وحدت کو دائم و قائم رکھنے کے لیے مزید کیا اہتمام فرمایا ہے۔
ہدایت کا واحد ماخذ: اس نے ایک رسول بھیج کر اور ایک کتاب نازل کر کے انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کے لیے ایک ایسی رہنمائی عطا فرما دی جس سے باہر جاکر انسان کو کہیں اور ہدایت تلاش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ایک اُمت میں جمع ہوجانے کے بعد انسان اگر متفرق ہوسکتے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ ان کو کسی ایک ماخذ سے پورا نظامِ زندگی نہ ملے اور وہ مختلف حالات‘ مختلف مقامات اور مختلف زمانوں میں دوسرے ذرائع سے ہدایت حاصل کرنے پر مجبور ہوں۔ ایسی صورت میں تو بلاشبہہ انسان ہدایت کے لیے بہت سے ذرائع کی طرف رجوع کریں گے اور اس سے لازماً ان کے اندر تفرقہ برپا ہوگا‘ لیکن جب ہرزمان و مکان کے لیے ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ذریعے سے ہدایت مل جائے تو وحدتِ معبود پر جمع ہونے والی اُمت کے لیے تفرقے کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا اِلا یہ کہ لوگ یا تو جہالت کی بنا پر اس کی ہدایت سے واقف ہی نہ ہوں یا پھر ذہن و فکر کی کجی کے باعث اصل ہدایت میں اپنی طرف سے کچھ گھٹائیں اور کچھ بڑھائیں‘ اور اس طرح کی کمی و بیشی کرنے والا ہرگروہ یہ دعویٰ کرے کہ اُس کا تیار کردہ دین ہی اصل دین ہے جس کی پیروی نہ کرنے والا گمراہ یا فاسق یا کافر ہے۔
صرف خدا کے سامنے جواب دہی: دوسری اہم چیز جو وحدتِ اُمت کے استحکام اور راہِ راست پر اس کے ثابت قدم رہنے کے لیے فراہم کی گئی ہے وہ یہ عقیدہ ہے کہ انسان صرف ایک خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ وہی ایک خدا دنیا میں بھی اُس کی قسمت بنانے اور بگاڑنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے اور وہی ایک خدا روزِ جزا کا بھی مالک ہے۔ اُس کے سوا نہ کوئی انسانوں کے اعمال کی بازپرس کرنے والا ہے نہ کسی کے ہاتھ میں سزا یا جزا دینے کے اختیارات ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ عقیدہ نہ صرف وحدتِ اُمت کا ضامن ہے بلکہ اِسی پر انسانی سیرت و کردار کے راست و درست رہنے کا انحصار ہے۔ اِس عقیدے کے اِن لازمی نتائج کو ضائع کر کے اگر کوئی چیز انسانوں کو پراگندہ اور بے راہ رو بنانے والی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ لوگ دنیا میں خدا کے سوا دوسری مختلف ہستیوں کو حاجت روا قرار دینے لگیں‘ اور آخرت کے بارے میں یہ سمجھنے لگیں کہ وہاں خدا کے انصاف میں مداخلت کرنے کے اختیارات کچھ دوسری ہستیوں کو حاصل ہوں گے۔
پنج وقتہ نماز کا اہتمام: اس کے بعد دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی چیزیںہم پر لازم کی ہیں جو وحدتِ اُمت کو عملاً قائم اور دائماً سرگرم رکھنے والی ہیں۔ اُن میں اوّلین چیز نماز ہے جو روزانہ پانچ وقت کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں پر فرض کر دی گئی ہے۔ اُس کے لیے ایک قبلہ مقرر ہے جس کی طرف ہرنماز کے وقت مشرق اور مغرب‘ شمال اور جنوب اور اِن مختلف سمتوںکے درمیان رہنے والے سب مسلمانوں کو رُخ کرنا ہوتا ہے۔ اِس نقشے کو ذرا چشمِ تصور کے سامنے لاکر تو دیکھیے کہ خانۂ کعبہ کے گرد نماز پڑھنے والے تمام لوگ ایک ہالہ بنے ہوئے نظرآتے ہیں اور پھر یہی دائرہ پھیلتے پھیلتے تمام روے زمین پر محیط ہوجاتا ہے۔ یہ روزانہ پانچ وقت کا عمل ہے۔ اس سے بڑھ کر وحدت کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے اور اسلام کے سوا یہ مظاہرہ آپ اور کہاں پاتے ہیں؟
اس پنج وقتہ نماز کو فرض کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے جماعت کے ساتھ ادا کرنا لازم کیا ہے اِلا یہ کہ کوئی مسلمان اپنی جگہ تنہا ہو اور اسے جماعت نہ مل رہی ہو۔ اللہ کی عبادت کا مقصد تو فرداً فرداً نماز پڑھنے سے بھی حاصل ہو سکتا تھا‘ مگر وحدت اُمت کا مقصد نماز باجماعت کے بغیر حاصل ہونا ممکن نہ تھا۔اسی لیے لازم کیا گیا کہ جہاں دو مسلمان بھی موجود ہوں وہاں ایک امام اور دوسرا مقتدی بنے اور دونوں مل کر باجماعت نماز ادا کریں۔
نماز کے لیے لوگوں کو بُلانے کا طریقہ بھی اسلام میں ایسا بے نظیر مقرر کیا گیا ہے جو دنیا کے کسی مذہبی یا لامذہب گروہ کو اپنے کسی اجتماع کی دعوتِ عام دینے کے لیے میسرنہیں ہے۔ نماز کا بلاوا دینے کے لیے روے زمین پر ہر جگہ ہر روز پانچوں وقت ایک ہی زبان میں اذان کی آواز بلند کی جاتی ہے‘ قطع نظر اِس سے کہ بلانے والوں اور بلائے جانے والوں کی اپنی زبان خواہ کچھ بھی ہو۔ اِس مشترک زبان کی اذان دُنیا میں جہاں بھی بلند ہوگی اسے سننے والا ہر مسلمان جان لے گا کہ یہ نماز کا بلاوا ہے اور فلاں مقام سے بلند ہو رہا ہے جہاں مجھے اپنے برادرانِ ملت کے ساتھ جمع ہوکر خداے واحد کی عبادت بجا لانی ہے۔ پھر کمال یہ ہے کہ اذان صرف نماز کا بلاوا ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کے پورے عقیدے کا اعلان بھی ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے رسول ہیں۔ اور میری فلاح اُسی ایک خدا کی عبادت سے وابستہ ہے جس کی طرف آنے کے لیے مجھے پکارا جا رہا ہے۔ کیا اِس سے بہترطریق دعوت کا کوئی انسان تصور کرسکتا ہے؟ یہ دعوت دُنیا میں ہر جگہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع بھی کرتی ہے اور ایک ہی عقیدے پر متفق بھی۔
پھر نماز کے اوقات‘ اُس کو ادا کرنے کے طریقے اور اس میں پڑھی جانے والی چیزیں تمام دنیا میں یکساں ہیں۔بعض جزوی چیزوں میں اگر کچھ فرق ہے تو وہ ایسا نہیں ہے کہ جنوبی افریقہ کا مسلمان شمالی امریکہ میں یا جاپان کا مسلمان مراکو یا فرانس میں جاکر یہ محسوس کرے کہ یہاں نماز کے بجاے کوئی اور عبادت کی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ نماز خداپرستی کے جذبے کو تازہ بھی کرتی ہے اور خدا پرستوں میں عالم گیر برادری کا احساس زندہ و متحرک بھی رکھتی ہے۔
روزوں کا اہتمام: ایسا ہی معاملہ روزوں کا بھی ہے۔ اگر صرف روزے کی عبادت ہی مقصود ہوتی تو ہر مسلمان کو بس یہ حکم دے دینا کافی تھا کہ وہ سال میں ۳۰ روزے جب چاہے رکھ لے۔ لیکن خداے واحد کی عبادت کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُمت ِ واحدہ بھی بنانا مقصود تھا‘ اس لیے رمضان کا ایک ہی مہینہ ہرسال روزے رکھنے کے لیے مقرر کیا گیا تاکہ سب کا روزہ ایک ساتھ شروع اور ایک ہی ساتھ ختم ہو۔ روزے کے احکام بھی یکساں رکھے گئے تاکہ تمام مسلمان عمربھر ہر سال پورے ۳۰ (یا ۲۹) دن کے روزے ایک ہی طریقے سے ایک ہی طرح کی پابندیوں کے ساتھ رکھتے رہیں۔ اس سے لازماً دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ شعور زندہ اور تازہ رہتا ہے کہ وہ ایک ہی شرع کی پابندی کرنے والی اُمت ہیں۔ اس پر مستزاد تراویح کی نماز ہے جو پنج وقتہ فرض نماز کے علاوہ ساری دنیا میں رمضان کی ہر رات کو باجماعت ادا کی جاتی ہے اور اس میں بالعموم پورا قرآن پڑھا جاتا ہے۔ یہ عبادت بھی ہے‘ خدا کے کلامِ پاک کی تبلیغ اور تذکیر بھی ہے اور وحدتِ اُمت کو اور زیادہ مضبوط و مستحکم کرنے والی چیز بھی۔ قرآن کو ہر سال مہینہ بھر تک روزانہ سننے والے خواہ اُس کی زبان سے واقف ہوں یا نہ ہوں‘ اُس کو سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں‘ بہرصورت اُن سب میں یہ مشترک احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ سب ایک کتاب کے ماننے والے ہیں اور وہ کتاب اُن کے رب کی کتاب ہے۔
فریضۂ حج: اب ذرا حج کو دیکھیے جس سے بڑھ کر ملت اسلام کے ایک عالم گیر ملت ہونے کا مظاہرہ کسی دوسری عبادت میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر اُس مسلمان پر جو حج کی استطاعت رکھتا ہو‘ یہ لازم کردیا ہے کہ وہ عمر میں ایک مرتبہ اِس فریضے کو انجام دے اور یہ فریضہ صرف چند مقررہ تاریخوں ہی میں ادا کیا جا سکتا ہے جو سال بھر میں صرف ایک بار آتی ہیں۔ اس طرح روے زمین پر جہاں بھی مسلمان آباد ہوں وہاں سے ایک ہی زمانے میں تمام ذی استطاعت مسلمانوں کو مکہ معظمہ میں جمع ہونا پڑتا ہے۔
آپ غور کیجیے یہ وہ چیز ہے جو ہر سال دُنیا کے ہر گوشے سے عام انسانوں کو کھینچ کر ایک جگہ لاتی ہے۔ صرف سیاسی مدبرین کو نہیں لاتی‘ جیسے اقوامِ متحدہ میں جمع ہوتے ہیں۔ صرف قوموں کے لیڈروں کو نہیں لاتی‘جیسے بین الاقوامی کانفرنسوں میںآیا کرتے ہیں۔ یہ ہر ملک اور ہر قوم کے عوام کو لاکھوں کی تعداد میں کھینچ لاتی ہے اور اس غرض کے لیے لاتی ہے کہ وہ سب مل کر ایک خدا کی عبادت کریں۔ ایک ساتھ خانۂ کعبہ کا طواف کریں‘ ایک ساتھ مکہ سے منیٰ اور منیٰ سے عرفات اور عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے پھر منیٰ کی طرف کوچ کریں۔ ایک ساتھ قربانیاں کریں‘ ایک ساتھ رمی جمار کریں‘ ایک ساتھ عرفات میں وقوف اور منیٰ میں چند روز قیام کریں۔ ایک ہی زبان میں سب لبیک لبیک کی آوازیں بلند کریں۔ ایک ساتھ اُس قبلے کے گرد نمازیں ادا کریں جس کی طرف رُخ کر کے ہر روز پانچ مرتبہ وہ اپنی اپنی جگہ نماز پڑھتے رہے ہیں۔
اُن میں ہر نسل‘ ہر قوم‘ ہر رنگ اور ہر وطن کے لوگ یکجا ہوتے ہیں۔ ہر زبان بولنے والے اکٹھے ہوتے ہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں سے طرح طرح کے لباس پہنے ہوئے آتے ہیں۔ اُن میں امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی۔ شاہ بھی ہوتے ہیں اور گدا بھی۔ مگر وہاں یہ سارے امتیازات ختم ہوجاتے ہیں۔ حرم کے حدود میں پہنچنے سے پہلے ہی سب کے لباس اُتروا کر ایک ہی طرح کا فقیرانہ لباسِ احرام پہنوا دیا جاتا ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص بھی یہ تمیز نہیں کرسکتا کہ کون کہاں کا رہنے والا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے۔ بڑے سے بڑے آدمی کو بھی اس کے اُونچے مقام سے اُتار کر عام انسانوں کی سطح پر لے آیا جاتا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تہذیب و تمدن رکھنے والوں کو بھی تمدن کی بالکل نچلی سطح پر رہنے والوں کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔ لاکھوں آدمیوں کے ہجوم میں طواف و سعی کرتے ہوئے ایک رئیس کو بھی اُسی طرح دھکّے کھانے پڑتے ہیں جس طرح کوئی عام آدمی دھکّے کھاتا ہے۔ خداوندعالم کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص کے دماغ سے کبریائی کا خنّاس نکال دیا جاتا ہے‘ رنگ و نسل اور زبان و وطن کے سارے تعصبات ختم کرکے دنیا کے ہر گوشے سے آنے والے مسلمانوں کے اندر ایک اُمت ہونے کا احساس اِس قوت کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے کہ اُس کا اثر کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتا۔ دُنیا کے کسی مذہب اور کسی لامذہبی گروہ کے پاس بھی اپنے پیرووں کو اس قدر عالم گیر پیمانے پر متحد کرنے اور ہر سال اس اتحاد کی تجدید کرتے رہنے کا ایسا کیمیا اثر نسخہ موجود نہیں ہے۔ یہ صرف اُس خدا کی حکمت کا کرشمہ ہے جس کی وحدت کو مان کر‘ جس کے رسول اور جس کی کتاب کی پیروی قبول کرکے‘ جس کے حضور اپنی جواب دہی کا شعور پیدا کر کے مسلمان ایک اُمت بنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا مزید فضل یہ ہے کہ اُس نے حج کی اِن برکات کو بھی صرف اُن لوگوں تک محدود نہیں رکھا جو اِس عبادت کے مناسک ادا کرنے کے لیے مرکز اسلام میں جمع ہوتے ہیں‘ بلکہ تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ موقع پیدا کر دیا کہ حج ہی کے زمانے میں وہ اپنی اپنی جگہ حاجیوں کے شریکِ حال بن سکیں۔ یہ عیدالاضحی کی نماز اور یہ قربانی جو ان تین دنوں کے اندر زمین کے ہر گوشے میں کی جاتی ہے اِسی غرض کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ دُنیا بھر کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جس روز (یعنی ۹؍ ذی الحجہ کو) حج ادا کرنے کے لیے حاجی منیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں‘ اُسی روز صبح سے وہ ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند اللّٰہُ اکبَر اللّٰہُ اکبَر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ واللّٰہُ اکبَر اللّٰہُ اکبر وَللّٰہِ الْحَمدکا ورد شروع کر دیں اور ان تکبیرات کا سلسلہ مزید چار روز تک جاری رکھیں تاکہ منیٰ میں حاجیوں کے قیام کا پورا زمانہ دنیا میں اِن تکبیرات کو بلند کرتے ہوئے گزر جائے۔ عیدالاضحی کی نماز کے لیے وہی ۱۰ ذی الحجہ کی تاریخ رکھی گئی ہے جو حاجیوں کے لیے یَومُ النّحْر(قربانی کا دن) ہے۔ حکم ہے کہ اس نماز کے لیے جاتے وقت بھی اور واپس ہوتے وقت بھی یہی تکبیرات بلند کی جائیں۔ اسی دن ساری دنیا میں نمازِعید کے بعد وہی قربانیاں شروع ہوجاتی ہیں جو منیٰ میں حاجی کرتے ہیں۔ اس طرح دنیا کا ہر مسلمان یہ محسوس کرتا ہے کہ میں اُسی اُمت کا ایک فرد ہوں جس اُمت کے لاکھوں آدمی اس وقت حج کر رہے ہیں‘ اور حج کے پورے زمانے میں وہ تکبیرات کہتے ہوئے‘ نماز پڑھتے ہوئے اور قربانی کرتے ہوئے ‘گویاحاجیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ عیدالاضحی میں اگرچہ حج جیسا عظیم اور عالم گیر اجتماع نہیں ہوتا‘ مگر اپنے اپنے مقام پر مسلمان ہر جگہ بڑے سے بڑا اجتماع کرکے نمازادا کرتے ہیں اور مجموعی طور پر تمام روے زمین پر ایک ہی زمانے میں اس عید کا منایا جانا ایک دوسرے انداز میں اُمت کی عالم گیر وحدت کا مظاہرہ بن جاتا ہے۔
اختصار کے ساتھ یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے‘ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید‘ رسالت‘ کتاب اور آخرت کے عقائد سے وہ بنیاد فراہم کر دی جس پر قوم‘ وطن‘ رنگ‘ زبان اور نسل کے تمام تعصبات ختم کرکے دنیا کے سارے انسان ایک عالم گیر اُمت بن سکتے ہیں۔ پھر عبادات کے ایسے طریقے مقرر فرما دیے جو اس اُمت میںمحض وحدت ہی نہیں‘ بلکہ پاکیزہ وحدت‘ اور سطحی و ناپایدار وحدت نہیں‘ بلکہ نہایت مضبوط عملی وحدت پیدا کرتے ہیں‘ اور اس پر مزید یہ کہ اپنے آخری رسولؐ اور اپنی آخری کتاب کے ذریعے سے اُس نے وہ مکمل نظامِ زندگی عطا فرما دیا جو پوری انسانیت کے لیے ہر زمان و مکان میں ایسا جامع قانون ہے کہ اپنی کسی ضرورت کے لیے بھی کسی جگہ اور کسی دور کے انسانوں کو ہدایت کی طلب میں کسی دوسرے ذریعۂ رہنمائی کی طرف رجوع کرنے کی حاجت باقی نہیں رہتی۔
اب اس کے بعد اس سے بڑی بدقسمتی اور شرم ناک بدقسمتی کیا ہوگی کہ جس اُمت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا جامع و مکمل نظامِ حیات دیا‘ جس اُمت کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے اُس نے اِتنا بڑا انتظام کیا‘ اور جس اُمت کے سپرد اس نے یہ کام کیا کہ وہ دنیا میں اِس دین توحید کو پھیلائے تاکہ پوری انسانیت اِس پر جمع ہو جائے‘ وہ اپنے اصل کام کو پسِ پشت ڈال کر اپنی اِس وحدت ہی کے ٹکڑے اُڑا دینے پر تل گئی ہے۔ وہ مامور تواِس خدمت پر تھی کہ دُنیا سے اُن اسباب کو ختم کر دے جس کی وجہ سے انسان انسان کو ہیچ سمجھتا ہے‘ اچھوت سمجھتا ہے‘ قابلِ نفرت سمجھتا ہے‘ حقیر و ذلیل سمجھتا ہے‘ اور خدا کی زمین کو ظلم و ستم اور قتل و غارت سے جہنم بنا دیتا ہے۔ اُس کا مشن تو یہ تھا کہ دُنیا کو ایک خدا کی بندگی‘ ایک قانونِ برحق کی پیروی‘ اور ایک عالم گیر برادری میں جمع کرکے ظلم کی جگہ عدل‘ جنگ کی جگہ امن‘ نفرت و عداوت کی جگہ خیراندیشی اور محبت قائم کرے اور نوعِ انسانی کے لیے اُسی طرح رحمت بن جائے جس طرح اس کے ہادی و رہنما محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بناکر بھیجے گئے تھے‘ لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہ اپنی قوتیں آپس کے تفرقے برپا کرنے پر صرف کر رہی ہے۔ اس کے لیے سب سے دل چسپ مشغلہ یہ بن گیا ہے کہ اس کے افراد اور گروہ آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں اور مخالفت کو بڑھا کر نفرت و عداوت کی حد تک لے جائیں۔ نیک نیتی کے ساتھ رائے اور علم و تحقیق کا اختلاف تو رحمت بن سکتا ہے اور سلف صالحین میں وہ رحمت ثابت بھی ہوا ہے‘ لیکن اب اس اُمت میں اختلاف کے معنی مخالفت کے ہوگئے ہیں اور کسی سے کسی مسئلے میں اختلاف ہوجانے کا مطلب یہ ہوگیا ہے کہ آدمی پنجے جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ جائے‘ یہاں تک کہ اُس کی تحقیروتذلیل میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے۔ اور جو کہیں اختلاف مذہبی نوعیت کا ہوجائے تو پھر اسے جہنم کے دروازے تک پہنچائے بغیر دم لینا حرام ہے۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جن کے لیے وحدت کا اِتنا بڑا سامان کیا تھا اُن کے لیے اب تفرقے کے سارے دروازے کھل گئے ہیں اور وحدت کے دروازے بند ہوتے چلے جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ مل کر نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ مسجدیں الگ ہوگئی ہیں۔ ایک مسجد میں دوسرے مسلک کا آدمی نماز پڑھ لے تو وہ جگہ ناپاک ہوجاتی ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہو۔ ایک گروہ کا آدمی دوسرے گروہ کے آدمی سے مصافحہ تک کرنے سے اجتناب کرتا ہے کہ کہیں اس کا ہاتھ گندا نہ ہو جائے۔ اناللّٰہِ وانا الیہ راجعون!
یہ سب کچھ اُسی چیز کا نتیجہ ہے جس کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں کہ مختلف لوگوں نے توحید اور دین و شرع میں نئی نئی چیزوں کی آمیزش کی ہے‘ اصل دین کے عقائد و احکام میں کچھ بڑھایا اور کچھ گھٹایا ہے۔ جو چیزیں اہم نہ تھیں اُنھیں اہم ترین بنایا ہے اور جو اہم تھیں انھیں غیراہم بنا دیا ہے اور پھر انھی آمیزشوںاور اِسی کمی وبیشی کو مدارِ ایمان قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت کے مختلف گروہ آپس ہی میں برسرِپیکار ہوگئے ہیں۔ اس حالت میں ہدایت سے بیگانہ انسانوں کو حق کی دعوت دے کر‘ اِس عالم گیر برادری میں شامل کرنا تو الگ رہا جو اس برادری میں پہلے سے شامل ہیں خود انھیں بھی اس سے خارج کرنے کا کام کارِثواب سمجھ کر انجام دیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ہمیں غیرمسلموں کے لیے ایک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور مستشرقین کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی ہے کہ یہ اُمت سرے سے کوئی اُمت ہی نہیں ہے۔ اِس وقت اشاعت ِ اسلام کی راہ میں اگر کوئی سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو وہ ہماری یہی حالت ہے۔ خدا ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں راہِ راست دکھائے۔ آمین! (عیدالاضحی کے موقع پر تقریر‘ ۲ دسمبر ۱۹۷۶ئ‘ منصورہ‘ لاہور)