جنوری ۲۰۰۴

فہرست مضامین

اُمت کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل

| جنوری ۲۰۰۴ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

بین الاقوامی کانفرنس کا اعلامیہ

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی صدسالہ تقریبات کے موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کی دعوت پر ’’احیاے اسلام اور اُمت مسلمہ‘‘ کے عنوان سے ایک دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس ۶-۷ دسمبر ۲۰۰۳ء کولاہور کے ایوانِ اقبال میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں قطر‘اُردن‘ لبنان‘ مصر‘ فلسطین‘ مراکش‘ ایران‘ کویت‘ سوڈان‘ نیپال‘ تیونس‘بنگلہ دیش‘ ملائیشیا اور امریکہ سے اسلامی تحریک کے قائدین‘ مفکرین اور دانش وروں نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک ۲۲ نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں مستقبل کی حکمتِ عملی کے اہم نکات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہم اس اعلامیے کا مکمل متن قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

۱-            سب سے زیادہ اہم بات اور اُمت کے کرنے کا اولین کام یہ ہے کہ ہر سطح پر مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات سے بخوبی آگاہ ہوں اور اس بات کا عزم صمیم کریں کہ وہ اپنی انفرادی‘ اجتماعی اور قومی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کریں گے۔ اسلامی تعلیمات کو عام کرنا‘ اس پر عمل کرنا اور کرانا ان کی زندگیوں کا اہم ترین مقصد قرار پائے۔

۲-            طاغوت اپنے پورے لائو لشکر کے ساتھ مسلمانوں‘ اسلام اور اسلامی تحریکوں بحیثیت مجموعی پوری انسانیت پر حملہ آور ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ اسلامی تحریکوں پر بے بنیاد الزامات لگا کر انھیں بالکل ہی ختم کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے اس نے       دینی مدارس اور علما کے خلاف زبردست پروپیگنڈے کا بازار گرم کر رکھا ہے تاکہ دینی مدارس اور    علما دونوں کے خلاف اقدامات کرنے کا جواز پیدا ہو جائے۔ اسی طرح نفاذ شریعت کے لیے سرگرم دینی عناصر زیر عتاب ہیں۔ دوسری جانب یہی قوتیں اخلاقی بے راہ روی‘ عریانی‘ بے حیائی اور اخلاقی فساد پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ طاغوت بدی کو فروغ دینے اور نیکی کو مٹانے پر تلاہوا ہے۔ اُمت مسلمہ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ خود کو اور انسانیت کو طاغوت کی تباہ کاریوں سے محفوظ کرنے کے لیے منظم اور متحد ہو کر اسوۂ حسنہؐ کی روشنی میں پرامن اور مؤثر جدوجہد کرنے پر کمر بستہ ہو جائے تاکہ دنیا کو تباہی سے بچایا جا سکے۔ نیز ظلم کے خاتمے‘ انصاف کے قیام اور آزادی کے حصول کے لیے تمام تر جدوجہد اسلامی احکامات کے مطابق اور پرتشدد اور خفیہ سرگرمیوں سے پاک ہو اور اس میں انتقام اور دہشت گردی کا کوئی شائبہ بھی نہ پایا جائے۔

۳-            اسلام دشمن قوتیں باہم یک جا ہو کر اُمت مسلمہ پر حملہ آور ہیں۔ ان حالات میں اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تمام فروعی اختلافات کو ختم کر کے پوری دنیا کے مسلمان متحد ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔

۴-            درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ مسلم دنیا میں تعلیمی معیار کو بلند کیا جائے۔ اپنے ایجنڈے میں تعلیم کو اولیت دی جائے۔ اپنی تہذیبی اقدار کا تحفظ کیا جائے اور جہالت اور جاہلانہ رسوم کا خاتمہ کیا جائے۔ علماے حق اور اسلامی مفکرین کے تعاون سے مثالی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور موجودہ تعلیمی اداروں کو بہتر بنایا جائے۔

۵-            آزاد مسلم ممالک میں اسلامی شریعت کو عملاً نافذ کیا جائے تاکہ عدل‘ انصاف‘ مساوات اور امن و امان کا دور دورہ ہو اور مسلم ممالک پوری دنیا کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ  بن سکیں۔

۶-            اسلامی احکام اور شعائر کے مطابق اجتہاد اور جہاد کی ذمہ داریاں پوری احتیاط اور اسلامی آداب کے مطابق ادا کی جائیں۔ اگر اجتہاد فکری زندگی اور تابندگی کے لیے ضروری ہے تو جہاد انسانی زندگی کو عدل اور انصاف کے مطابق استوار کرنے کا ذریعہ ہے۔ جہاد کو طاغوت نے اپنے مذموم پروپیگنڈے سے دہشت گردی کا جو نام دیا ہے‘ کانفرنس اسے مسترد کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ جہاد‘ ظلم اور استعماری قبضے کے خاتمے اور عدل کے قیام کا ذریعہ ہے۔ یہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس پر کوئی پابندی قبول نہیں کی جا سکتی۔

۷-            اُمت کے تمام مکاتب فکر میں اتفاق‘ اتحاد‘ یگانگت‘ برداشت‘ تحمل اور وسعت نظر کے اصولوں کو اپنایا جائے۔ اختلاف رائے کو علمی سطح تک محدود رکھا جائے۔ دشمن کی سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے اس کو اس بات کا موقع نہ دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کو مسلک کے اختلاف کے نام پر باہم لڑا دے۔

۸-            اُمت مسلمہ کو ائمہ کفر کے برپا کیے ہوئے فتنوں اور خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کی جائے۔ یہ عناصر متحد ہو کر اُمت مسلمہ کو اپنی چیرہ دستیوں کا ہدف بنا رہے ہیں۔ ان کی کھلی اور چھپی سازشوں کو طشت ازبام کیا جائے۔

۹-            ملت کے اجتماعی و سیاسی معاملات اور قومی قیادت کے نصب و عزل کے لیے انتخابات کا منصفانہ جمہوری طریقہ اپنایا جائے۔ اسلام شورائیت کا قائل اور آمریت کا شدید مخالف ہے‘ اس لیے تمام معاملات‘ مشاورت کے ذریعے طے کیے جائیں۔ آمریت اور استعمار کی حاشیہ بردار قیادتوں کے طرز عمل سے ملت کو نجات دلائی جائے تاکہ اجتماعی زندگی کا نظام آزادی‘ جمہوری اور شورائی اصولوں کے مطابق پروان چڑھ سکے۔

۱۰-         ملت اسلامیہ کو اس کے قومی‘ معدنی‘ زرعی اور خام وسائل پر استعماری قوتوں کی روز افزوں اجارہ داری سے نجات دلانے اور حکمرانوں کو دشمنوں کا آلہ کار بننے سے روکنے کے لیے افہام و تفہیم اور ابلاغ عامہ کے تمام مؤثرذرائع استعمال کیے جائیں۔

۱۱-         ملی وسائل کی ظالمانہ تقسیم کے موجودہ نظام کے خاتمے اور چند مراعات یافتہ طبقات کی اجارہ داری سے نکال کر امانت و دیانت کے ساتھ اُمت کی بہبود اور اس کے وسیع تر مفاد میں خرچ کرنے کے منصوبے بنائے جائیں تاکہ غربت کا خاتمہ ہو سکے اور ملت اسلامیہ حقیقی اور دیرپا معاشی اور معاشرتی ترقی حاصل کر سکے اور مظلوم انسانوں کو ان کے حقوق مل سکیں۔

۱۲-         اس حقیقت کو واشگاف کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کیا جائے کہ اسلام کسی تہذیبی تصادم کا نہیں بلکہ تہذیبوں کے درمیان پرامن بقاے باہمی کا علم بردار ہے۔ اسلام انسانی مساوات‘ حقوق کے تحفظ اور احترام آدمیت اور مذہب کی آزادی کا دین ہے۔ تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نعرہ مغربی دنیا نے متعارف کرایا ہے جو ایک خطرناک رجحان ہے۔ یہ نفرت پر مبنی نعرہ ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ ہم اس بات کے حامی ہیں کہ مختلف ادیان اور تہذیبوں کے درمیان معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ مکالمے اور گفت و شنید کے ذریعے طے پائیں تاکہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔

۱۳-         عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کے پرکشش نام پر استعمار پوری دنیا کو اپنے معاشی اور تہذیبی شکنجے میں جکڑنے کے لیے پوری شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ ملت کو اس خطرے سے آگاہ کیا جائے تاکہ متحد اور منظم ہو کر خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔

۱۴-         ملت اسلامیہ اپنی موجودہ سیاسی‘ معاشی‘ اقتصادی اور تعلیمی پستی میں استعماری طاقتوں کے رول اور ریشہ دوانیوں کے پورے شعور اور احساس کے ساتھ اس صورت حال کی تمام تر ذمہ داری صرف استعماری قوتوں پر ڈالنے کے بجاے حقیقت پسندی کے ساتھ خود بھی   اپنی کارکردگی کا جائزہ لے کر اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کی اصلاح کرے۔ داخلی خرابیوں پر   قابو پائے بغیر خارجی دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔

۱۵-         کشمیر‘ فلسطین‘ افغانستان‘ عراق‘ شیشان‘ مشرقی یورپ‘ اراکان اور مورولینڈ کے مظلوم مسلمانوں اور دیگر مظلوم اور محکوم اقوام کے حق خود مختاری کو تسلیم کرانے اور ظالم کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے اپنا پورا وزن ڈالا جائے۔

۱۶-         اعلیٰ تعلیم‘ تحقیق‘ سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی کو اولیت دی جائے اور اس بات کا بطورِ خاص اہتمام کیا جائے کہ طلبہ میں جدید علوم میں تحقیق کے ساتھ دینی روح اور جہادی جذبہ پیدا ہو۔

۱۷-         مشنری تنظیموں اور بیرونی این جی اوز کے تحت براہِ راست یا بالواسطہ چلنے والے تعلیمی اداروں پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ وہ ہماری نئی نسل کو اپنے رنگ میں رنگ کر اُمت مسلمہ کے خلاف استعمال نہ کر سکیں۔ مغربی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے مسلمانوں کے قائم کیے ہوئے رفاہی اور خیراتی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ اس سے متاثر ہو کر بہت سے مفید اداروں کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس طرزِ عمل کی اصلاح کی جائے۔

۱۸-         بیرونی امداد پر سرگرم عمل نام نہاد این جی اوز کا احتساب بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ان کا اصل ہدف ہمارے خاندانی نظام کی تخریب‘ تہذیبی اقدار سے انحراف اور ایمان کی بنیادوں کو تشکیک کا نشانہ بنانا ہے۔ یہ تنظیمیں استعماری مقاصد کی تکمیل کے لیے مسلم دنیا میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کے لیے اہل دانش تمام وسائل   بروے کار لا کر اپنا مذہبی اور ملّی فرض ادا کریں۔

۱۹-         اُمت مسلمہ کے عالمی مسائل پرمضبوط آواز اٹھانے کے لیے او آئی سی کو نہ صرف فعال بنایا جائے بلکہ میڈیا‘ تجارت‘ تعلیم‘ صنعت اور دفاع کے شعبوں میں مشترکہ مؤقف اور پالیسیاں اپنائی جائیں تاکہ اُمت مسلمہ اپنا عالمی کردار ادا کرے اور کشمیر‘ فلسطین‘ شیشان‘ اراکان‘ مورولینڈ وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں کو استعمار کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے اُمت ِمسلمہ تعمیری کردار ادا کر سکے۔

۲۰-         ابلاغ عامہ کی تمام اصناف ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ انٹرنیٹ‘ اخبارات و جرائد ایک بہت بڑی قوت ہیں۔ ان کو انسانوں کی اصلاح‘ امن عامہ‘ محبت و اخوت اور اسلام کے پیغام کی تشہیر اور ملت کے مفاد میں استعمال کرنے کے منصوبے بنائے جائیں۔ اس وقت یہ قوت بڑ ی حد تک بدامنی کے فروغ‘ بے حیائی اور عریانی عام کرنے اور تشدد کا پرچار کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ اس کا تدارک ضروری ہے۔

۲۱-         اسلام نے خواتین کو جو حقوق‘ احترام کا مقام اور تحفظ عطا کیا ہے اسے اجتماعی زندگی میں پوری دیانت داری کے ساتھ بروے کار لایا جائے۔ عورتوں کی حق تلفی کے رواجی اور جاہلانہ طریقوں اور رسومات کا خاتمہ کیا جائے جن کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ سیکولر عناصر عورتوں کے حقوق کے معاملے کو اسلامی احکام کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں اس کا موقع نہ دیا جائے۔

۲۲-         ملت اسلامیہ کے وہ لوگ جو معلومات کی کمی یا کسی غلط فہمی کے باعث ایسی راہوں پر چل پڑے ہیں جن کا نقصان اُمت کو اور فائدہ استعماری قوتوں کو پہنچ رہا ہے‘ انھیں چاہیے کہ وہ کھلے دماغ کے ساتھ اپنی روش پر نظرثانی کریں اور دشمن کی تقویت کا ذریعہ بننے کے بجاے اُمت کے ساتھ تعاون اور اس کی تقویت کی راہ اپنائیں۔

یہ کانفرنس اپنے اس پختہ یقین کا اظہار کرتی ہے کہ طاغوتی قوتیں اپنے وسائل‘ عسکری قوت اور مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود ناکام اور نامراد ہوں گی اور ان شاء اللہ باطل مغلوب اور حق غالب ہو گا اور اسلام کا آفاقی‘ عادلانہ اور منصفانہ نظام مظلوموں کو ظلم سے نجات دلائے گا اور اللہ کا کلمہ سربلند ہو گا۔ ان شاء اللہ!

یہ کانفرنس جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد اور منتظمین کی شکر گزار ہے کہ ایسے نازک مرحلے اور موڑ پرایک طویل عرصے کے بعد دنیاے اسلام کے چیدہ اور منفرد علما‘ رہنمائوں اور دانش وروں کو مل بیٹھنے‘ اپنے خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔ کانفرنس کو توقع ہے کہ اس کی جانب سے جاری کیا جانے والا یہ متفقہ اعلامیہ دنیاے اسلام کے لیے ایک بروقت پیغام ثابت ہو گا جس کے ان شاء اللہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ باہمی ملاقاتوں‘ تبادلہ خیال اور تعاون کا یہ سلسلہ مزید جاری رہے گا۔