جنوری ۲۰۰۴

فہرست مضامین

ایل ایف او‘ ادارتی استحکام اور اعتماد کا ووٹ

پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۰۴ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہّٰ الرحمٰن الرحیم

اکتوبر۲۰۰۲ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں (دسمبرمیں) جو پارلیمنٹ وجود میں آئی تھی‘ اس نے اپنا پہلا سال جوں توں کرکے مکمل کرلیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور ظفراللہ جمالی کے   نام نہاد اشتراک اقتدار پرمبنی حکومت کے پہلے سال کو جنرل صاحب کے تین سالہ بلاشرکت غیرے اقتدار کا تسلسل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل کی ساری کوشش اور کاوش کے باوجود جنرل پرویز مشرف کی ہٹ دھرمی‘ جمالی حکومت کی کمزوری اور علاقے کے بارے میں امریکی پالیسی کے باعث پارلیمنٹ اپنی بالادستی قائم نہ کر سکی۔ اس طرح پورا سال ایک ایسی  کش مکش کی نذر ہوگیا جس کے نتیجے میں جمہوری سفر صحیح معنوں میں شروع ہی نہیں ہوسکا۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔

اس صورت حال سے ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت کی معاملہ فہمی کی جو تصویر قوم کے سامنے آتی ہے وہ اپنے اندر تشویش کے بے شمار پہلو رکھتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اللہ تعالیٰ جو بھی مواقع قوم کو دے رہا ہے‘ اس کی قیادت ان کو ضائع کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی طاقتیں پوری مسلم دنیا پرشدید یورش کر رہی ہیں اور ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ دینی تشخص اور ملّی وقار سب اس کی زد میں ہیں‘ ہماری قیادت خطرناک حد تک عاقبت نااندیشی کی روش پر گامزن ہے بلکہ اس مہلک راستے پر چلنے پر مصر ہے۔

سالِ گذشتہ (۲۰۰۳ئ)کے آخری مہینے کے وسط میں (۱۷ دسمبر کے آس پاس) تین واقعات ایسے ظہور پذیر ہوئے ہیں جن پر سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اگر بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بظاہر آزاد اور مستقل بالذات (self-contained) ہونے کے باوجود ان واقعات میں واضح طور پر باہمی ربط و تعلق نظر آتا ہے۔

پہلا واقعہ ۱۸ دسمبر سے شروع ہونے والی مجلسِ عمل کی عوامی تحریک ہے جو اگرچہ ایل ایف او کے بارے میں حکومت کے مسلسل لیت ولعل اور سردمہری کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے لیکن دراصل اب وہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کو جو خطرات اس وقت درپیش ہیں اور جن کے بارے میں حکومتِ وقت تجاہل اور تغافل ہی کی مجرم نہیں بلکہ عملاً ان کو اور بھی گمبھیر کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے‘ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو بیدار اور منظم کرنے کا عنوان بن گئی ہے۔ تحریک کے شروع ہوجانے کے بعد حکومت نے ایل ایف او کی حد تک مجلسِ عمل سے طے شدہ معاملات کو پارلیمنٹ میں دستوری ترمیمی بل کی شکل میں لانے کے لیے کچھ سرگرمی دکھائی ہے (ان سطور کے ضبطِ تحریر میں لاتے وقت تک کچھ پیش رفت کے آثار نظر آ رہے ہیں گوبعد از خرابیِ بسیار)۔ لیکن ایم ایم اے نے افہام و تفہیم اور معاملہ فہمی کی اعلیٰ صفات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری تنازعے کا حل نکالنے کے لیے ایک بار پھر دستِ تعاون بڑھایا ہے مگر اس واضح اعلان کے ساتھ کہ دستوری گتھی کو سلجھانے میں تعاون کو کسی صورت میں بھی اقتدار میں اشتراک یا جنرل پرویز مشرف پر کسی درجے میں بھی اعتماد کے اظہار سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بنیادی وجہ جنرل صاحب کی خارجہ‘ داخلہ‘ ثقافتی اور نظریاتی پالیسیوں سے مجلس کا شدید اختلاف ہے ۔ ملک کی تعمیرِنو کے لیے مجلس اپنے ایجنڈے پر کسی سمجھوتے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔

مجلسِ عمل نے ایک طرف پوری بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری تنازعے کے حل کی ایک اور کوشش پر آمادگی کا اظہار کیا ہے (اور ہماری دعا ہے کہ یہ کوشش کامیاب ہو اور ماضی کی کوششوں کی طرح درمیان میں تعطل کی نذر نہ ہو جائے) تو دوسری طرف پاکستان اور اُمت مسلمہ کو درپیش معاملات کے سلسلے میں اسے جنرل صاحب کی پالیسیوں سے جو اصولی اور جوہری اختلاف ہے‘ اس پر پوری استقامت دکھا کر تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعانوا علی الاثم والعدوان (نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں تعاون کرو مگر گناہ اور زیادتی و بے انصافی کے باب میں ہرگز تعاون نہ کرو) کے قرآنی اصول کے مطابق اپنی پالیسی پر ثابت قدم رہنے کی اعلیٰ مثال قائم کی گئی ہے۔

ہم اس امر کا بار بار اظہار کرچکے ہیں کہ ایل ایف او کا مسئلہ محض کوئی نظری مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس پر پورے نظام کے جواز (legitimacy)کا انحصارہے اور اس کے ساتھ ہی ملک کے مستقبل کے جمہوری نظام کے ارتقا کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔ ایل ایف او کے تحت انتخابات میں شرکت ایک ناگزیر برائی اور ایک وقتی ضرورت تھی کہ اس کے بغیر جمہوری عمل شروع نہیں ہوسکتا تھا اور پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکتی تھی۔ لیکن ایک بار جب پارلیمنٹ وجود میں آگئی اور سول حکمرانی کے دور کا آغاز ہوگیا تو اولین اہمیت اس چیز کو حاصل تھی کہ دستوری اور جمہوری مسلمات کے سلسلے میں ایل ایف او کے بنیادی انحرافات‘ کی تصحیح کر دی جائے اور وہ یہ ہیں:

                ۱-            دستوری ترمیم کا حق کسی ایک فرد کو حاصل نہیں ہے اور نہ سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ خود دستوری ترمیم کرے یا کسی کو کرنے کا اختیار دے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام دستوری ترامیم منتخب پارلیمنٹ کے سامنے لائی جائیں اور وہ ان میں سے جن کو مناسب سمجھے قبول کرے اور جن کو ملک اور قوم کے مفاد کے خلاف سمجھے انھیں رد کر دے۔

                ۲-            جمہوریت کا سب سے بنیادی اصول عوامی نمایندوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ دستور کی حفاظت کریں۔ دستور کے مطابق حکومت سازی کا فریضہ انجام دیں‘ قانون سازی اور پالیسی سازی کا منبع عوام کا منتخب ایوان ہو اور حکومت اور اس کے سارے کارپرداز (سول ہوں یا فوجی) اس کے سامنے جواب دہ ہوں اور اس کی طے کردہ پالیسی پر گامزن!

                ۳-            دستور‘ پارلیمنٹ اور منتخب نمایندوں پر کسی فرد یا گروہ کو بالادستی حاصل نہ ہو اور جس طرح سول انتظامیہ اور باقی تمام ادارے دستور کے مطابق سول حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں‘ اسی طرح فوج بھی سول حکومت کے ماتحت ہو۔

                ۴-            ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی‘ پارلیمانی اور وفاقی نظام کا جو نقشہ قوم کے مکمل اتفاق سے وضع کیا گیا ہے اسے بحال کیا جائے اور پوری دیانت سے اس پر عمل کیا جائے۔ اگر یہ مقصد ایک جست میںحاصل نہ ہو تب بھی اقساط میں اور تدریج کے ساتھ اس ہدف کو حاصل کرنے کی جدوجہد کی جائے۔

بنیادی طور پر یہی چار چیزیں ہیں جن کے تحفظ کے لیے ایل ایف اوکے اوپر سارے مذاکرات ہوئے اور اس کی ۲۹ دفعات میں سے ۲۲ کو مصلحتاً قبول کر کے باقی سات میں ایسی ترامیم کرانے کی کوششیں کی گئیں جو دستور کو ان چاروں اصولوں سے کم سے کم حد تک ہم آہنگ کرسکیں۔ بلاشبہہ جو معاہدہ مجلسِ عمل اور حکومت کے درمیان ہوا ہے وہ معیاری نہیں‘ صرف گوارا حد تک قابلِ قبول ہے لیکن یہ حکمت کا تقاضا تھا کہ سیاسی تعطل سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ بنایا جائے اور کم از کم حد تک جمہوری عمل کو شروع کردیا جائے تاکہ رخ تبدیل ہو‘ اور آیندہ زیادہ سیاسی قوت حاصل کر کے دستوری نظام اور سیاسی پالیسیوں کو مزید جمہوری بنایا جائے۔ گاڑی کو پٹڑی پر لانا پہلی ضرورت ہے۔ پھر اس کو اچھی رفتار سے چلانے اور منزل تک پہنچنے کے بہترین طریقوں پر گامزن کرنے کی سعی و جہد ہوسکتی ہے۔

یہی وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر مجلسِ عمل نے کم سے کم قابلِ قبول پیکج کو قبول کرنے اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کر دیا ہے کہ ہمیں جنرل پرویز مشرف اور جمالی حکومت کی بیشترپالیسیوں سے شدید اختلاف ہے اور ہم ان کو اعتمادکا ووٹ کسی قیمت پر نہیں دے سکتے۔ ہم حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتے ہوئے ان پالیسیوں کو تبدیل کرانے کی جمہوری اور عوامی جدوجہد جاری رکھیں گے اور حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔

یہ حکمت کی شاہراہِ وسط ہے اور ہماری دعا ہے کہ حکومت اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اب کوئی اور چال نہ چلے اور جلد از جلد پارلیمنٹ میں دستوری ترامیم کا بل لاکر نئے سال کا آغاز ایک بہتر جمہوری فضا کو ہموار کرنے سے کرے۔ ہم علی وجہ البصیرت اس راستے کو اختیار کررہے ہیں اور ایک خاص لابی کی طرف سے ’’بی ٹیم‘‘ اور ’’ملا-ملٹری اتحاد‘‘ کی سطحی پھبتیوں سے آمریت سے جمہوریت کی طرف لوٹنے کی راہ کھوٹی نہیں کی جاسکتی۔ البتہ دو باتیں بہت صاف ہیں اور ان کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔

اولاً :ہم نے یہ دستوری پیکج وقت کی نزاکت اور ضرورت کے مطابق قبول کیا ہے اور اسے کم سے کم آخری حد(bottom line) کے طور پر اختیارکیا ہے۔ یہ ہماری حکمت عملی کا پہلا قدم ہے۔ جیسے جیسے ہمیں مزید عوامی تائید حاصل ہوگی اور دوسری سیاسی قوتوں کا تعاون ملے گا ہم مزید دستوری ترامیم کے ذریعے اپنے تصور کے مطابق اصلاحات کرنے کے لیے جدوجہد جاری رکھیںگے اور دستور کو ۱۹۷۳ء کے اصل دستور کی دفعات اور روح کے مطابق ایک حقیقی اسلامی پارلیمانی اور وفاقی دستور بنانے اور اس میں مزید بہتری لانے کی کوشش جاری رکھیں گے‘ نیز جہاں جہاں اور جس حد تک اس سے انحراف ہوا ہے اس کی تصحیح کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ موجودہ حالات میں دستوری اصلاح کا عمل ایک ہی ہلّے میں مکمل نہیں ہو سکتا۔

دوسری چیز یہ ہے کہ خارجہ اور داخلہ میدانوں میں جو غلط پالیسیاں جنرل صاحب نے اختیار کی ہیں اور جن کی طوعاً وکرہاً جمالی حکومت تائید کر رہی ہے‘ ان پر گرفت کرنے اور انھیں تبدیل کرنے کے لیے پارلیمانی اور عوامی جدوجہد ہم جاری رکھیں گے اور جہاں جتنی قوت ہمیں حاصل ہے اس کو ہر غلطی کی اصلاح کے لیے استعمال کریں گے۔ ہم عوامی قوت کو اس طرح منظم و موثر بناناچاہتے ہیں کہ پاکستان کی اسلامی اور جمہوری شناخت مضبوط تر ہو‘ ملک پر امریکی سامراجی اقتدار کی گرفت سے نجات حاصل کی جائے اور اپنی آزادی‘ حاکمیت‘ معاشی خودانحصاری‘ دفاعی صلاحیت اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی مکمل حفاظت ہو‘ قومی کشمیرپالیسی اور ملت اسلامیہ سے ہماری وفاداری اور اس کے تمام مسائل کے بارے میں پوری یکسوئی کے ساتھ حق وانصاف کی مکمل پاس داری کرتے ہوئے ہم اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے‘ بھارت سمیت‘ ہم دوستی کے قائل ہیں مگر یہ دوستی عزت اور حق وا نصاف کی بنیادوں پر ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ قوموں اور گروہوں کے درمیان دوستی اور تعاون اسی وقت پایدار ہوسکتے ہیں‘ جب وہ ہر قسم کے جبر‘ دبائو اور ناانصافی سے پاک ہوں۔ مجلسِ عمل اور تمام دینی اور جمہوری قوتیں ان شاء اللہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ ہماری جدوجہدکسی تصادم کے لیے نہیں ہے بلکہ ان مقاصد کے لیے عوام کو بیدار کرنے‘ ان کو منظم کرنے اور تمام دینی اور جمہوری قوتوں کو ملک و قوم کی آزادی اور اس کے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل سرگرم عمل رکھنے کے لیے ہے۔ یہ کام ہمیں حکمت اور استقامت کے ساتھ اور پورے تسلسل سے انجام دینا ہے۔ یہ کوئی وقتی کام نہیں بلکہ ایک مستقل ذمہ داری ہے جو جہدِمسلسل ہی سے پوری کی جا سکتی ہے۔


اس مہینے کا دوسرا اہم واقعہ راولپنڈی کے حساس علاقے میں لئی نالہ پُل کو پانچ بموں سے اڑانے سے متعلق ہے جس کا بظاہر ہدف جنرل پرویز مشرف کا قافلہ تھا۔ اس واقعے کی مذمت ہم نے بروقت کی اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں نے اسے ایک مجرمانہ اور ناقابلِ معافی فعل قرار دیا ہے۔ ہم تشدد کی سیاست کے ہمیشہ سے مخالف ہیں اور اسے صحت مند معاشرے کے لیے ایک عظیم خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ ہم آج نہیں کہہ رہے بلکہ تحریکِ اسلامی کا پہلے دن سے یہ موقف ہے کہ تبدیلی کا صحیح طریقہ دعوتی‘ جمہوری اور دستوری طریقہ ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے دستور میں بڑے واشگاف الفاظ میں یہ کہا ہے‘ہمیشہ اس پر عمل کیا ہے اور سب کو اس کی دعوت دی ہے:

جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی‘ یعنی تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو ان تعمیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔(دفعہ ۵)

نیزقائدِ تحریک مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے دنیا کی تمام اسلامی تحریکات کو مخاطب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں تلقین کی کہ اسلامی انقلاب کی راہ سازش اور تخریبی حربوں سے ہموار نہیں کی جاسکتی۔ ان کا ارشاد ہے:

اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے‘ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے‘ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا‘ وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔ (’’دنیاے اسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار‘‘، تفہیمات‘ جلد سوم‘ ص ۳۶۲-۳۶۳)

مولانا مودودیؒ نے جنرل محمد ایوب کو بھی متنبہ کیا تھا کہ انھوں نے فوجی انقلاب کا راستہ اختیار کر کے قوم کو بہت غلط راستے پر ڈالا ہے۔ اسی طرح عالمِ اسلامی میں فوج کے سیاسی کردار پر انتباہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھاکہ ’’یاد رکھیے جو تبدیلی بندوق کی نالی سے آتی ہے وہ بندوق کی نالی ہی سے تبدیلی کا خطرہ مول لیتی ہے‘‘۔ اس اصولی پوزیشن کی روشنی میں راولپنڈی کے واقعے کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے جو باتیں سامنے آتی ہیں ان میں سے چند پر ٹھنڈے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ یہ غوروفکر قوم کے تمام عناصر کے لیے بشمول اس ملک کی فوجی قیادت ضروری ہے ۔

پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم میں اصل استحکام اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اس میں اولاً مکمل طور پر دستور اور قانون کی حکمرانی ہو‘ اور ثانیاً افراد کے مقابلے میں اداروں کے استحکام کی فکر کی جائے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت جو بات سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہی تھی وہ تاریخ کا روشن ترین سبق ہے۔ اُمت غم و اندوہ میں نڈھال تھی اور حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی تک نے یہ کہہ دیا تھا کہ جو کہے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں‘ اس کا سر قلم کر دوں گا‘ لیکن دین حق اور مزاجِ نبوت کے شناسا حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کی آیات تلاوت کر کے یاد دلایا کہ کوئی انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ حی و قیوم صرف اللہ کی ذات ہے اور جس نے اللہ کے دین کو تھاما وہ استحکام کی راہ پر گامزن ہوا۔ یہی بات خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ علیکم بسنتی وسنۃ خلفاء الراشدین ‘یعنی مسلمانوں کے لیے صحیح راستہ اللہ کے رسول اور اس کے راشد خلفا کی سنت کی پیروی ہے ۔ گویا اللہ کا رسول اللہ کو پیارا ہوا لیکن اس کی سنت اور اس کے راستے پر چلنے والوں کی سنت ابدی ہے اور استحکام اور تسلسل کی ضامن ۔

لہٰذا استحکام قانون کی حکمرانی اور اداروں کے دوام سے حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ خیر ہے جسے دنیانے بھی تجربات سے سیکھا ہے۔ قومی معاملات میں استحکام اداروں کے مستحکم ہونے سے آتا ہے اور جہاں کسی نظام کا انحصار محض افراد پر ہو وہ بہت ہی بودا اور کمزور ہے۔ فرانس کے اس وزیراعظم کا مشہور واقعہ ہے جس کی قیادت میں فرانس نے جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کی تھی کہ کوئی انسان ناگزیر نہیں۔ جب کسی نے کہا: جناب وزیراعظم! آپ فرانس کے اقبال کے لیے ناگزیر ہیں‘ تو اس نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’قبرستان ناگزیر انسانوں سے بھرا پڑا ہے‘‘۔ اور جب دوسری جنگ کے دوران ونسٹن چرچل سے پوچھا گیا کہ فتح کے بارے میں تمھارے اعتماد کی بنیاد کیا ہے تو اس نے کہا کہ اگر انگلستان کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو انگلستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

ہمارا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے اداروں کے استحکام کو نظرانداز کیا ہے اور ہر مدعی نے یہی ڈھونگ رچایا ہے کہ ملک کی سالمیت اور ترقی کا انحصار میری ذات پر ہے‘ میں ہی عقل کل اور ہر دستور اور قانون سے بالا ہوں۔ ملک غلام محمد نے بھی یہی کھیل کھیلا اور دستور ساز اسمبلی اور قانون کی حکمرانی کا تیا پانچہ کرڈالا۔ جنرل ایوب خان نے بھی یہی کیا اور جب ان پر دل کا دورہ پڑا تو  ٹی وی پر آکر چل پھر کر انھیں دکھانا پڑا کہ وہ زندہ ہیں۔ ایوب کا اپنا بنایا ہوا دستور ان کی زندگی میں ہی ان کا ساتھ نہ دے سکا اور خود انھوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جگہ مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خاں (مارچ ۱۹۶۹ئ) کو اقتدار سونپ دیا۔ ایوب ہوں یا یحییٰ‘ ذوالفقارعلی بھٹو ہوں یا نواز شریف‘ جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف‘ سب اس مغالطے کا شکار اور اداروں کی کمزوری‘ تباہی اور عدمِ استحکام کے مجرم ہیں۔ اس واقعے کا اصل سبق یہ ہے کہ دستور‘ قانون اور اداروں کی فکر کی جائے اور انھیں مستحکم کیا جائے۔

دوسری بات سوچنے کی یہ ہے کہ کسی سطح پر بھی سیاست میں قوت اور گولی کے استعمال کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ جس طرح سے یہ چیز افراد اور گروہوں کے لیے غلط ہے اسی طرح یہ ان لوگوں کے لیے بھی غلط ہے جن کو قوم اور ملک کی حفاظت اور اس کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اور قوم کے تمام عناصر کو بشمول فوج اور پولیس اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہر ایک اپنے اپنے دستوری دائرے میں رہ کر اپنا کردار ادا کرے۔ ’’قانونِ ضرورت‘‘ کے نام پر جس سیاسی دہشت گردی اور فوجی مداخلت کا دروازہ ہماری عدالتوں نے کھول دیا ہے‘ اب اسے ہمیشہ کے لیے بند ہوجانا چاہیے۔ سطحی انداز میں ایک دہشت گردی کی مذمت اور آئینی دہشت گردی کے دوسرے تمام اسالیب سے اغماض حالات کو سدھارنے کا راستہ نہیں۔ ہم پوری دیانت اور دردمندی سے دہشت گردی کے ہر راستے کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ اس پر قوم کا اجماع ہو۔ سب کے لیے ضروری ہے کہ خلوصِ دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ان حدود کی پاسداری کا عہد کریں جو اداروں کے استحکام‘ دستوری نظام کی پرورش اور ترقی‘ قانون کی بالادستی اور حقوق کی مکمل پاسداری کی راہ ہموار کرسکے۔

اس افسوس ناک واقعے پر جنرل صاحب کے ممدوح ملک امریکہ کے ایک روزنامے واشنگٹن ٹائمز نے جو اداریہ لکھا ہے‘ اس کے کچھ حصے اس لائق ہیں کہ جنرل صاحب خود اور ان کے وہ ساتھی جو ہر روز جنرل صاحب کے ہاتھ مضبوط کرنے کے راگ الاپتے ہیں (اور درحقیقت وہ اداروں کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عامل ہیں) ذرا غور سے پڑھیں:

قاتلانہ حملے کے واقعات عجیب اور حیرت انگیز ہیں۔ جس نے بھی بم نصب کیے اس نے بڑے حیرت انگیز طور پر کیا ہوگا اس لیے کہ ۸۰۰ سے ۱۰۰۰ پونڈ تک کے بم خفیہ طور پر اتارے اور نصب نہیں کیے جاسکتے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہ بم فوج کی دسویں کور کے ہیڈکوارٹر سے آدھے میل کے فاصلے پر اور ملک کے محفوظ ترین علاقے میں واقع پُل پر نصب کیے گئے تھے۔ امکانات یہ ہوسکتے ہیں کہ مشرف کے اندرونی حلقے میں سے کوئی اس کے خلاف سازش کر رہا ہے‘ یا اس کو ڈرامائی انداز سے تنبیہہ کر رہا ہے۔ غیر یقینی تفصیلات سے قطع نظر‘ قاتلانہ حملہ اس ضرورت کو واضح کرتاہے کہ پاکستان کو اپنے موجودہ صدر کے بغیر‘مستقبل کے لیے جمہوریت کو اندرونی طور پر مضبوط کرنے کی تیاری کرنا چاہیے۔ پاکستان میں کیا ہوتا اگر اس بم نے مشرف کو قتل کر دیا ہوتا؟ اس کے بارے میں اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔ مگر اب اس پر سوچنا چاہیے۔ صدارتی قتل کے نتیجے میں سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل یوسف اقتدار سنبھالیں گے۔ دونوں سیاسی طور پرکمزور شخصیات ہیں اور ان کی قیادت عدمِ استحکام اور غیریقینی صورت حال ---ایک فوجی انقلاب تک لے جائے گی۔ (اداریہ واشنگٹن ٹائمز‘ مشرف پر حملہ‘ ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ئ)

بات صرف واشنگٹن ٹائمز ہی کی نہیں۔ جب خود جنرل صاحب سے ۱۸ دسمبر والے انٹرویو میں رائٹر کے نمایندے نے اس مسئلے سے ان کا سامنا کرایا تو جنرل صاحب کا جواب شنید اور ان کے چہرے کی کیفیات دیدنی تھیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ ملاحظہ ہو:

بہت سے غیرملکی سرمایہ کاروں اور مغربی سفارت کاروں کو اندیشہ ہے کہ اگر جنرل مشرف جانشینی کے کسی واضح نظام کے بغیر مر گئے تو پاکستان عدمِ استحکام اور انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ انھوں نے اس سے اتفاق کیا کہ نظام اور اداروں کو ابھی قائم ہونا ہے۔ جب اصرار کیا گیا کہ جانشینی کا نظام کیسے چلے گا؟ تو جنرل مشرف نے غیریقینی کا اظہار کیا: ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ کسی دوسرے جنرل کا مسئلہ ہے۔ میرے خیال سے یہ نظام کی بات ہے۔ ارے! میں نے تو اس پر درحقیقت سوچا ہی نہیں‘‘۔ پوچھا گیا کہ اتوار کے واقعے میں بال بال بچ جانے کے بعد‘ اس ممکنہ واقعے کے بارے میں اب سوچنا چاہیے تو انھوں نے اتفاق کیا: ’’ہاں‘ یہ کرنا چاہیے‘‘۔(رائٹر‘ ڈان‘ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۳ئ)

ہم جنرل صاحب کے قافلے پر حملے کی ایک بار پھر مذمت کرتے ہیں اور اس رجحان کو قوم اور ملک کے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم اُتنا ہی ضروری اس امر کا اظہاربھی سمجھتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی ضرورت اداروں کا استحکام‘ دستور کا احترام‘ قانون کی بالادستی اور انصاف پر مبنی امن اور احترامِ باہمی ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا وہ تباہی کا راستہ ہے اور اس سے ملک اور قوم کو بچانا اس کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے۔ واشنگٹن ٹائمز اور خود رائٹر کے نمایندوں نے جو سوال اٹھائے ہیں اور جنرل صاحب نے جو جواب دیے ہیں‘ کیا یہی وہ مستحکم جمہوریت (sustainable democracy) ہے جس کے عطا کرنے کا دعویٰ جنرل صاحب نے کیا ہے؟


اس مہینے کا تیسرا اہم واقعہ کشمیر پر جنرل پرویز مشرف کا افسوس ناک ہی نہیں شرم ناک یوٹرن (U-turn) ہے۔ ۱۸دسمبر کو رائٹر کو دیے جانے والے انٹرویو ہی میں انھوں نے ۵۶سالہ قومی پالیسی کو دریابرد کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی قراردوں کو ایک طرف رکھ کر استصواب کے متبادل سرابوں کی بات کی ہے اور اسے ’’لچک‘‘ اور ’’میانہ روی‘‘سے تعبیرکیا ہے‘ اور اس خطرے کا بھی اظہار کر دیا ہے کہ اگر بھارت ان کی اس half-way پسپائی کا خیرمقدم نہیں کرتا تو پاکستان میں انتہا پسندوں کو اُبھرنے کا موقع مل جائے گا۔

جنرل صاحب کے الفاظ ان کے ذہن اور منصوبوں کو سمجھنے کے لیے سامنے رکھنا ضروری ہیں:

ہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حق میں ہیں لیکن اب ہم نے ان کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ ہرچیز‘ خود عسکریت پسندی میں کمی بنیادی طور پر مکالمے کے عمل کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ سیاسی مکالمہ واقع نہیں ہوتا‘ تو کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟ یہ اعتدال پسند ہیں جو ہاریں گے اور انتہاپسند ہیں جو جیتیں گے اور ٹھیک یہی دراصل واقع ہو رہا ہے۔

جنرل صاحب نے اتنے کھل کر یہ بات پہلی بار کہی ہے لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے اور اس کے بعد امریکہ کی گرفت میں جکڑے جانے کے بعد وہ آہستہ آہستہ اس مقام کی طرف پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ انھوں نے لچک کی بات بار بار کی۔ پھر وہ چار نکاتی فارمولے کا راگ الاپتے رہے جس میں سیاست خارجہ کا ایک مضحکہ خیز اصول انھوں نے وضع کیا کہ ہر وہ حل ترک کر دیا جائے جو کسی بھی فریق کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ اس کا نتیجہ بندگلی کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ پھر انھوں نے جنگِ آزادی اور حق خوداختیاری کے لیے جدوجہد اور دہشت گردی کے فرق کو عملاً نظرانداز کرنا شروع کر دیا‘ حتیٰ کہ بھارت کی نام نہاد سرحد پار دہشت گردی کے الفاظ تک کی بازگشت خود ان کے بیانوں میں سنائی دینے لگی۔ پھر اعتماد قائم کرنے والے اقدامات (CBMs)کے گن گائے جانے لگے۔

اس کے بعد وہ قلابازی لگائی گئی جو بھارت کی ۵۶سالہ سرحدی خلاف ورزیوں کا خود بھارت کے لیے ایک انعام تھی‘ یعنی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والوں کی طرف سے سیزفائر اور اسے سیاچن تک پھیلا دینا! اس کے بعد ایک ہی اور بم ہو سکتا تھا اور وہ جنرل صاحب نے خود ہی ۱۸دسمبر کو ۱۹۷۱ء کے ۱۶دسمبر کا ماتم کرنے والی قوم پر داغ دیا۔ بھارت برابر اعلان کررہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قرردادیں بے کار اور غیرمتعلق ہوچکی ہیں۔ اس بارے میں جنرل صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوتے ہیں ایسے صدمے سے دوچار کیا ہے قوم سکتے کے عالم میں ہے۔ جمالی صاحب کہہ رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہی کشمیر کے مسئلے کا حل ہوسکتی ہیں۔ وزیرخارجہ معذرتیں کر رہیں کہ جنرل صاحب کا مفہوم یہ نہیں‘ وزیراطلاعات اپنے ردے چڑھانے کی مشق فرما رہے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا ترجمان سرکھجلا رہا ہے‘ مگر جنرل صاحب نے وہ اعلان کر ڈالا جس سے بھارت کی قیادت کی باچھیں کھل گئیں اور ان کے ایوانوں میں گھی کے چراغ جلائے گئے اور امریکہ اُچھل پڑا کہ بالآخر پاکستان نے ریفرنڈم سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔

بات بہت واضح ہے اور وزیرخارجہ‘ وزیراطلاعات اور دفترخارجہ کی یاوہ گوئیاں اس پر پردہ نہیں ڈال سکیں۔ امریکہ اور بھارت نے اپنا مقصد بظاہر حاصل کرلیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان رچرڈ بوشر (Richard Boucher) کے الفاظ قابلِ غور ہیں:

امریکہ صدر مشرف کی تجویز کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی حیثیت متعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے مطالبے کو ترک کرنا ایک تعمیری قدم ہے۔

اس پر بھارت کا ردعمل بھی قابلِ غور اور ہماری قیادت کے لیے مقامِ عبرت ہے۔ جنرل صاحب کے اعلانِ پسپائی پر نہ صدرِ مملکت گویا ہوئے اور نہ بھارتی وزیراعظم۔ کابینہ کی سلامتی کی کمیٹی نے باقاعدہ اس پر غور کیا (ہمارے وزیراعظم کو تو بیان کا علم بھی نہ تھا) اور وزیرخارجہ یشونت سنہا نے کہا:

اگر کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف میں تبدیلی آگئی ہے یا اس میں کوئی اصلاح اور ترمیم کی گئی ہے تو بھارت اس کا خیرمقدم کرے گا۔ سخت گیر موقف پاکستان نے اختیار کر رکھا تھا اور وہ مذاکرات میں کشمیر کو مرکزی حیثیت دینے پر اصرار کرتا تھا ‘ جب کہ ہم نے ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کیا۔

اور پھر اس لچک کی ایک جھلک کشمیر کے اخبار کشمیر ایج کو انٹرویو دیتے ہوئے یشونت سہنا نے دکھائی:

پاکستان کشمیر میں عسکریت پسندی کی حمایت ترک کر دے کیونکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جس سے ہم کسی صورت دستبردار نہیں ہوسکتے۔

ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کے کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کے اس اعلان کے صرف پانچ دن پہلے نئی دہلی میں امریکہ کی سابق وزیرخارجہ مینڈلین آل برائٹ نے تو بھارتی قیادت کی موجودگی میں اور پاکستان کی ایک سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے مصالحتی بیانات پر ٹھنڈا پانی انڈیلتے ہوئے کہا تھا :

میرا خیال ہے کہ استصواب یا ریفرنڈم ہی کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ اس کا کوئی اور راستہ بھی ہے۔

لیکن اپنے ہی جرنیل صاحب نے جو کارگل کے ہیرو بھی سمجھے جاتے ہیں‘ استصواب رائے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور اسے لچک‘ آدھا رستہ طے کرنا اور اعتدال کا رویہ قرار دیا  ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے --- گویا اب ہر پسپائی بہادری اور جرأت مندی ہے۔ اصولوں سے ہر انحراف کا نام اعتدال اور ماڈریشن ہے‘ حق پر اصرار انتہاپسندی ہے اور آزادی اور خودمختاری کی بات تشدد اور دہشت گردی کے مترادف ہیع

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے!

جنرل صاحب کا یہ اعلان درحقیقت اس بگاڑ کا ایک مظہر ہے جو شخصِ واحد کی حکمرانی اور ایل ایف او کے نام پر انھیں مختارِ کل بنا دینے کا نتیجہ ہے۔ جب ایک شخص پورے نظام کا کرتا دھرتا بن جائے اور ہر جواب دہی اور احتساب سے بالا ہو‘ نہ اسے کابینہ کی ضرورت کا احساس ہو‘ اور نہ اس کی رائے کا خیال ہو اور نہ پارلیمنٹ کی ہم نوائی اور تائید اس کے لیے کوئی اہمیت رکھتی ہو‘ اور نہ قوم کے احساسات‘ جذبات اور عزائم کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت ہو تو پھر قومیں ایسے ہی انحرافات اور حادثات سے دوچار ہوتی ہیں۔ مشرقی پاکستان ہم نے اس کے نتیجے میں کھو دیا۔ فلسطین کے معاملے میں یاسرعرفات نے یہی کیا۔ عراق میں صدام یہی کھیل کھیلتا رہا اور بالکل اسی طرح اب کرنل قذافی نے بھی ہر احتساب سے بالاہو کر اپنی دفاعی صلاحیت کو خود ہی دریابرد کر دیا ہے اور کوئی نہیں جو تباہی کے اِنھی ہتھیاروں کے بارے میں اسرائیل کا نام بھی لے! آمریت اور فردِ واحد کی حکمرانی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ دراصل یہ اس نظام کا بگاڑ ہے جس میں قوم‘ پارلیمنٹ‘ کابینہ‘ سب غیرمتعلق ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ہمارا سب سے پہلا اعتراض یہی ہے کہ جنرل صاحب کو اس اعلان کا حق اور اختیار کس نے دیا؟ انھوں نے دستور‘ قانون‘ روایات‘ قومی احساسات و عزائم‘ ہر چیزکی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور قوم کی قسمت سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی صدارت آج تک آئینی و اخلاقی جواز سے محروم ہے۔ چیف آف اسٹاف بھی وہ محض خود اپنے دعوے اور خود اپنی مدت ملازمت کو توسیع دینے سے بنے ہوئے ہیں جس کا کوئی قانونی اور دستوری جواز نہیں۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلی معاملات‘ دستور کے تحت صدر وزیراعظم کی ہدایت (ایڈوائس) کا پابند ہے‘ بجز ان معاملات کے جہاں دستور نے اس کو اختیار (discretion) دیا ہو۔ لیکن جنرل صاحب خود کو کسی دستور‘ قانون اور ضابطے کے پابند نہیں اور یہ دستوری نظام سے ایسا انحراف ہے جس کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسے قائداعظم نے شہ رگ قرار دیا تھا اور اسے قیامِ پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیر کا تنازع محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے جیسا کہ بے نظیربھٹو نے بھارت اور چین کے سرحدی تنازعے کے مماثل قرار دے کر کیا ہے۔ یہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ ہے جس کے بڑے حصے پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور اس قبضے کو پاکستان ہی نہیں‘ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قانون کے تحت ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام نے اس غاصبانہ قبضے کو قبول نہیں کیا اور اس کے خلاف سرگرمِ جہاد ہیں اور بیش بہا قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان کی سلامتی اور معاشی وجود ریاست جموں و کشمیرکے مستقبل سے وابستہ ہے۔ پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۷ موجود ہے جو کشمیر کے مستقبل کو استصواب رائے سے وابستہ کرتی ہے۔ یہ ہمارا قومی موقف ہے اس میں تبدیلی کا کسی کو اختیار نہیں۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارا اور کشمیری عوام کا موقف جس قانونی‘ سیاسی اوراخلاقی بنیاد پراستوار ہے وہ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں۔ بھارت نے یہ دعویٰ کیا کہ ڈوگرہ مہاراجا نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں (جس کا کوئی ثبوت نہیں)۔ پھر ایک نام نہاد دستور ساز اسمبلی نے اس الحاق کی توثیق کر دی اور اس طرح وہ بھارت کا اٹوٹ انگ بن گیا۔ اقوامِ متحدہ نے بھارت کے اس دعوے کو غلط قرار دیا اور بالآخر خود بھارت نے تسلیم کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے جو وہاں کے عوام کی مرضی کو استصواب کے ذریعے معلوم کر کے کیا جائے گا۔

وقت کے گزرنے سے اس مسئلے کے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی کسی بھی پہلو پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یورپی استعمار کئی صدیوں تک درجنوں ممالک پر قابض رہے مگر اس سے ان کے آزادی کا حق متاثر نہیں ہوا۔ میکائوکا چینی علاقہ ۵۰۰ سال استعمار کے قبضے میں رہا لیکن اس پر چین کا حق ثابت رہا اور بالآخروہ چین کو حاصل ہوگیا۔ ہانگ کانگ ۱۰۰سال برطانیہ کے قبضے میں رہا لیکن پھر چین کی طرف لوٹا۔ مرورزمانہ کا ان معاملات پر کبھی اثر نہیں پڑتا لیکن ظلم ہے کہ جس طرح برطانوی سامراج نے کشمیری عوام کو نظرانداز کرکے ڈوگروں کے ہاتھوں انھیں فروخت کر دیا تھا اسی طرح ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے دستبردار ہوکر خود اپنے اور کشمیری عوام کے قانونی موقف پر خاک ڈال رہے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہٹا دیا جائے تو پھر ڈوگرہ مہاراجا کی دستاویز الحاق کے سوا کیا چیز باقی رہ جاتی ہے؟

اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں بہت کچھ ہے اور چند باتوں کا تعلق استصواب کے  طریق کار کی تفصیلات سے ہے جو جزوی اور ضمنی ہیں۔جوہری باتیں صرف تین ہیں‘ یعنی:

                ۱-            جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل کا مسئلہ متنازع اور غیرتصفیہ شدہ ہے اور اس امر کو ابھی طے ہونا ہے کہ ریاست کے مستقبل کی حیثیت (status) کیا ہوگی؟

                ۲-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام اپنی آزاد مرضی سے کریں گے۔

                ۳-            یہ فیصلہ بین الاقوامی انتظام میں آزاد استصواب رائے کے ذریعے ہوگا جس میں بھارت یا پاکستان کسی کی مداخلت نہ ہو‘ اور وہاں کے عوام شفاف طریقے سے اپنا مستقبل طے کر لیں۔

یہ کوئی سرحدی تنازع نہیں اور نہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ ہے جیسا کہ بھارت دعویٰ کرتا ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جن قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کی بات جنرل صاحب نے کی ہے وہ کیا اصول طے کر رہی ہیں اور ان کو ایک طرف رکھنے سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔

سب سے اہم مرکزی قرارداد ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی ہے۔ UNCIP کی یہ قرارداد اہم قانونی بنیاد ہے جس میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ:

ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ ایک آزادانہ اور غیرجانبدار استصواب کے جمہوری ذریعے سے طے کیا جائے گا۔

یہ قرارداد ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء کی قرارداد پر مبنی ہے جس میں پاکستان اور بھارت نے اس اصول کو تسلیم کیا تھا یعنی:

حکومتِ ہندستان اور حکومتِ پاکستان اپنی اس خواہش کا ازسرنو اعلان کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل کی حیثیت کا تعین عوام کی رائے کے مطابق کیا جائے اور اس مقصد کے لیے طے شدہ شرائط کے مطابق دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر رہی ہیں تاکہ ایسے منصفانہ اور معتدل حالات پیدا کیے جاسکیں جن میں آزادانہ اظہار یقینی ہو۔

جب بھارت نے کشمیر میں نام نہاد دستور ساز اسمبلی کے ذریعے ان قراردادوں سے نکلنے کی کوشش کی تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء کو دو ٹوک الفاظ میں یہ طے کیا:

The Security Council,

Having heard statements from representatives of the Governments of India and Pakistan concerning the dispute over the State of Jammu and Kashmir,

Reminding the Government and authorities concerned of the principle embodied in its resolutions of 21 April 1948 (S/726), 3 June 1948, March 1950 (S/1469) and 30 March 1951 (S/2017/Rev,1), and the United Nations Commission for India and Pakistan resolutions of 13 August 1948 (S/1100, Para 75) and 5 January 1949 (S/1196, Para 15),that the final disposition of the State of Jammu and Kashmir will be made in accordance with the will of the people expressed through the democratic method of a free and impartial plebiscite conducted under the auspices of the United Nations,

1. Reaffirms the affirmation in its resolution of 30 March 1951 and declares that the  convening of a Constituent Assembly as recommended by the General Council of the "All Jammu and Kashimr National Conference" and any action that Assembly may have taken or might attempt to take to determine the future shape and affiliation of the entire State or any part thereof, or action by the Assemby, would not constitute a disposition of the State in accordance with the above principle;

2. Decides to continue its consideration of the dispute.

(Resolution Adopted by the Security Council, 24 January 1957 (S/3779).

واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ اور اس کے متعلقہ اداروں نے کشمیر کے مسئلے پر ۱۸ قراردادیں منظور کی ہیں اور کشمیر کا مسئلہ آج بھی اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔

ہم یہ بات بھی بڑے دکھ سے کہنے پر مجبور ہیں کہ جس طرح جنرل صاحب قِسم قِسم کے بیانات کی چاند ماری کر رہے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاست خارجہ کے بنیادی اصولوں اور اسالیب تک سے ناواقف ہیں۔ ایسے اعلانات کر کے وہ خود اپنی قوم کے پائوں پر کلہاڑی ما رہے ہیں۔

یہ بھی سفارت کاری کا ایک اصول ہے کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے کوئی کھلاڑی اپنے بہترین پتے میز پر نہیں ڈالتا لیکن جنرل صاحب کا انداز ایک ماہر سفارت کار کا نہیں ایک اناڑی جواری کا سا ہے جس کے مقدر میں اپنی دولت لٹانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

بھارت کی قیادت سے معاملہ کرنے کا گر کسی کو سیکھنا ہو تو قائداعظم سے سیکھے جنھوں نے کانگریس کی قیادت سے پچاس سال چومکھی لڑی اور بالآخر پاکستان حاصل کر کے رہے۔ نہرو اور بھارتی صحافت ان پر پھبتی کستے تھے کہ جناح کے پاس کیا دھرا ہے وہ ایک ٹائپ رائٹر کے سہارے اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن قائداعظم نے قوم کو ساتھ لے کر دو دشمنوں کا مقابلہ کیا یعنی انگریز حکمران اور کانگریس قیادت۔

۱۹۰۶ء میں جداگانہ انتخاب کے مطالبہ سے لے کر ۱۹۴۶ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیے راہداری کے مطالبے تک وہ کانگریس کی قیادت سے جان دار سفارت کاری کے ذریعے اپنے مطالبات منواتے رہے‘ اور ہر کامیابی کے بعد نئے مطالبات پر بات چیت کے لیے اسے مجبور کرتے رہے‘ جب کہ ہماری قیادت کایہ حال ہے کہ نیوکلیر پاور ہوتے ہوئے بھی صرف رعایتیں دے رہے ہیں‘ بھارتی مطالبات مان رہے ہیں‘ مسلسل پسپائی اختیار کررہے ہیں اور پھر بھی ابھی تک ان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بھیک ہی مانگ رہے ہیں۔ سفارت کاری کا یہ اسلوب ذہنی شکست اور سیاسی اور مادی کمزوری کا مظہر ہے۔ جنرل صاحب نے یہ راستہ اختیار کرکے پوری قوم کا منہ کالا کیا ہے اور ہمارے قومی مفاد پر ضرب کاری لگائی ہے۔ امریکہ کے آگے تو انھوں نے گھٹنے ٹیکے ہی تھے اور اب بھارت کے آگے بھی ہتھیار ڈالتے نظر آرہے ہیں۔ کیا قوم نے اس ملک کی فوج کو اپنا پیٹ کاٹ کر اسی ذلّت کے لیے منظم اور مضبوط کیا تھا؟

ہم صاف کہنا چاہتے ہیں جنرل صاحب نے جو کچھ کہا ہے ‘وہ ان کی ذاتی پسپائی تو ہو سکتی ہے پاکستان کی قوم کی پالیسی اور موقف نہیں ہو سکتا اور جموں و کشمیر کے غیور مسلمان بھی اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی آزادی‘ ایمان اور تہذیبی شناخت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔ وہ سیاسی جدوجہد سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے لڑرہے ہیں اور ان شاء اللہ ایک دن اسے حاصل کر کے رہیں گے۔ بھارت کی سات لاکھ فوج ان کے عزم و ایمان اور جذبۂ جہاد کو مضمحل نہ کرسکی۔ موجودہ پاکستانی قیادت کی بے وفائی بھی ان شاء اللہ ان کی ہمتوں کو پست نہیں کر سکتی اور ان کو یقین ہے کہ پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور سب سے بڑھ کر وہ جن کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ان کا اصل سہارا ہے۔ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ کشمیر پالیسی کا ایک بار پھر صاف الفاظ میں اعلان کرے اور جنرل صاحب کا احتساب کرے تاکہ وہ یا کوئی اور طالع آزما قوم کے اصولی موقف سے ہٹ کر کوئی بات نہ کہہ سکے۔

کشمیر کا مسئلہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور بھارت ہی نہیں پوری دنیا کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ امن وہی دیرپا ہو سکتا ہے جو انصاف پر قائم ہو۔ ظلم اور مجبوری کی خاموشی یا محکومی ہمیشہ عارضی ہوتی ہے اور حق بالآخر غالب ہوکر رہتا ہے۔ پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے مسلمان ان ۸۰ ہزار شہیدوں کے خون سے کبھی غداری اور بے وفائی نہیں کریں گے جنھوں نے حق اور اصول کی خاطر اپنی جانیں دی ہیں۔ سیاسی جدوجہد ہو یا فوجی مقابلے--- ان میں نشیب و فراز توآسکتے ہیں اور آتے رہتے ہیں لیکن جو قوم اپنی آزادی اور ایمان کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم کرلیتی ہے پھر اسے کوئی محکوم نہیں کر سکا۔ عزت اور آزادی وہ چیزیں ہیں جن کا سودا نہیں کیا جاتا اور حق وہ شے ہے جو اپنی ذات میں حق ہے۔ وہ اعتدال‘ سمجھوتے اور انتہاپسندی کی اصطلاحوں سے بالاتر شے ہے۔ نہ وہ کسی تراش خراش کا متحمل ہوتا ہے اور نہ اسے کسی جھوٹے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی بیساکھیوں کا محتاج نہیں‘ بلکہ خود اپنی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اور بالآخر باطل پر غالب رہتا ہے۔ جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا۔

آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرکے کیا اور کہاں کہاں لچک دکھائے بلکہ اصل ایشو یہ ہے کہ اپنی آزادی‘ اپنا ایمان‘     اپنا دین‘ اپنی تہذیب‘ اپنی معیشت اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے کس طرح سینہ سپر ہوجائے تاکہ باہرسے دبائو ڈالنے والوں اور اندر سے دبنے والوں دونوں کا مقابلہ کر کے اپنا اصل مقام حاصل کرے۔ استقامت اور حکمت ہی ہمارا اصل زادِ راہ ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ پر بھروسا اور اس سے مدد اور نصرت کی طلب!

جوئے خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے

آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟