فتنہ انکارِ حدیث پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ بظاہر خردمندی کے علم بردار یہ حضرات اپنے باطن میں رسالت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے انکار کا ناسور پالے ہوئے ہیں۔
اب سے تقریباً پچاس برس پہلے ‘نوتشکیل شدہ ریاست پاکستان میں منکرین حدیث نے باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ ان کا اصل مقصد تحریک احیاے اسلام کا راستہ روکنا تھا۔اگرچہ اس فتنے کی تاریخ قدیم ہے‘ لیکن عصرِحاضر میں اس کا بڑا سبب مطالبہ نظامِ اسلامی ہی بنا۔ شعبہ معارف اسلامیہ‘ کراچی یونی ورسٹی کے سابق صدر پروفیسر افتخاراحمد بلخی ]م:۱۹۷۴ئ[‘ بلند پایہ عالم دین‘ معروف استاد‘ انفرادیت کے حامل محقق اور علومِ اسلامیہ بالخصوص ذخیرئہ حدیث پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے منکرین حدیث کا ہر قابلِ ذکر اقدام نوٹ کیا‘ ہرگھات پر نظر رکھی اور ہر اعتراض کو اصل مآخذ کی بنیاد پر مدلل انداز سے رد کیا۔
بلخی مرحوم نے غلام احمد پرویز] م: ۱۹۸۵ئ[ کے ہاں ترجمے کی غلطیوں‘ عربی سے ناواقفیت اور فہم دین و منصب ِ رسالتؐ سے بے خبری کوبے نقاب کرنے کے ساتھ مولانا مودودی کے دفاع کا بھی حق ادا کیا ہے۔ دفاع ان معنوں میں کہ منکرینِ حدیث نے دین اسلام کا حلیہ بگاڑنے کے لیے حدیث کے استہزا اور مولانا مودودی کے رد کے لیے بیک وقت اور بیک زبان جو مہم چلائی تھی‘ یہ کتاب اس دو طرفہ حملے کا بھرپور جواب ہے۔ یہ کتاب نہ صرف حجیتِ حدیث کے استدلالی سرمائے سے مالا مال ہے بلکہ مولانا مودودی کے دفاع کا فریضہ بھی ادا کرتی ہے۔ اس طرح مصنف نے دفاعِ دین کے جذبے سے اور اپنے وسیع مطالعے کی مدد سے انکارِ حدیث کی معاصر سرگرمیوں کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ (سلیم منصورخالد)
بعض افراد اپنے کام اور پیغام کے حوالے سے اپنے شخصی وجود سے نکل کر ایک تحریک‘ عہد یا رویے کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ تاہم تاریخ میں ایسی شخصیات خال خال ہی ہوتی ہیں۔ علامہ محمد اقبال ایسی ہی ایک باکمال شخصیت تھے۔ شہرت‘ دولت اور قوت کی حامل شخصیات سے بعض اوقات افسانوی حکایتیں منسوب کر دی جاتی ہیں یا پھر اُن کو حاسدانہ اور رقیبانہ الزام تراشی کی آگ میں جلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افسوس کہ اقبال کے ساتھ بھی بہت سے ’دانش وروں‘ نے یہی معاملہ کیا۔
اقبال نہ معصوم عن الخطا تھے اور نہ کوئی فوق البشر۔ غلطی اور کوتاہی کا صدور ہر کسی سے ممکن ہے لیکن اقبال شکنی کی گذشتہ ایک سو سالہ روایت میں اُن کے کرم فرمائوں نے اتہام و الزام کی جو گولہ باری ان پر کی‘ اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے دشمن اور حاسد‘ بڑے ہی چھوٹے لوگ تھے۔ مختلف اوقات میں وضع کیے جانے والے ایسے سترہ الزامات کی فہرست پروفیسرموصوف نے اس کتاب میں پیش کی ہے۔ مثال کے طور پر: طوائف کا قتل‘ شراب نوشی‘ معاشقے‘ سر کا خطاب‘ مسلم سامراجیت‘ بداعمالی‘ تضاد فکر‘ وغیرہ وغیرہ۔
مصنف نے اس نوعیت کے الزامات کا پس منظر پیش کرتے ہوئے داخلی و خارجی شواہد کی بنیاد پر ہر الزام کا جواب پیش کیا ہے اور اپنی اس کاوش کو دستاویزی حوالوں سے مرصع کیا ہے۔ یہ ایک مشکل اور صبرآزما کام تھا‘ جسے پیش کرنے کے لیے صبر ایوب کی صفت سے نسبت ضروری تھی۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے الزامات ’’سنا تھا‘‘، ’’کیا ہوگا‘‘ اور ’’مشہور تھا‘‘ جیسے اسلوبِ بیان کے رہینِ منت ہیں‘ جب کہ بعض چیزوں کو زندگی کے ارتقائی جواز سے یکسر کاٹ کر اقبال کے مجموعی سراپے پر تھوپ دیا گیا ہے۔ مصنف نے ہر الزام کا باریک بینی سے مطالعہ کرکے الزام لگانے والے کا کمال تعاقب کیا ہے اور اس الزامی مہم کا جائزہ لیتے ہوئے اقبال کو ایک انسان‘ ایک شاعر اور ایک مسلمان کی حیثیت سے جانچا اور پرکھا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کو اپنے ’’انقلابی‘‘شعور کے باوجود علامہ اقبال کا ’شاہین‘ ناپسند ہے کہ وہ بے چارے کبوتر کو شکار کرتا ہے۔ اس ’معصومانہ اعتراض‘ کے پس پردہ محرکات پر بھی بحث کی جاتی تو اچھا تھا۔ اس ضمن میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بعض لوگوں نے علامہ سے تمام تر عقیدت کے باوجود‘ بعض پہلوئوں سے اقبال سے علمی اختلاف کیا ہے‘ کیا ایسے حضرات (مثلاً سلیم احمد وغیرہ) کو اقبال مخالفین کے کیمپ میں دھکیل دینا مناسب ہے۔
سہیل عمر نے تقریظ میں بجا طور پر متوجہ کیا ہے کہ ]ایوب صابر[ اقبال دشمنی کے اس مخفی رویے کا بھی محاکمہ کریں جو علامہ کے چند نادان دوستوں کے ہاں نظرآتا ہے مثلاً:اقبال مجدد مطلق ہیں‘ اقبال تاریخِ انسانی کے عظیم ترین شاعر ہیں‘ اقبال دنیا کے سب سے بڑے مفکر ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی تہمتیں زیادہ خطرناک ہیں جو امین زبیری ایسے لوگوں نے اقبال پر لگائی ہیں۔ (ص ۹)۔ مجموعی طور پر یہ کتاب اقبالیاتی ادب میں ایک فکرانگیز اضافہ ہے۔ (س- م- خ)
سائنسی معلومات پر مبنی اس کتاب کو اسلامی نقطۂ نظر سے ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے‘ یعنی سائنس کو ‘ جسے ایک لادینی علم سمجھا جاتا ہے‘ اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کا خالق و مالکِ کائنات ہونا ثابت ہو۔ اگرچہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ایک انتہائی اہم اور ضروری کام ہے‘ لیکن سیکڑوں برس کی غفلت اور علمی تحقیق سے دُوری کے سبب آج ہمیں اسلامی تعلیمات سے جدید علوم کی مطابقت پیدا کرنے کا کام ایک کوہِ گراں معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اس مقصد کے لیے ابتدائی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔
زیرِنظرکتاب بھی ایک ایسی ہی کوشش ہے لیکن شاید اتنی کامیاب نہیں ہے۔ کتاب میں اگرچہ آیاتِ قرآنی کے حوالے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں حمدیہ کلمات جابجا دیے گئے ہیں‘ تاہم مصنف سائنسی معلومات کوایک جامع اور باضابطہ طریقے سے پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ غالباً انھیں سائنس پر مناسب عبور حاصل نہیں ہے جس کے سبب انھوں نے کئی باتیں خلافِ حقیقت بھی لکھ دی ہیں‘ مثلاً: یہ کہ ’’خلا میں (بے وزنی کی کیفیت کے سبب) ہم ایک پورے خلائی جہاز (اور کسی بھی بڑی سے بڑی چیز) کو اپنی انگلی کے ذریعے اٹھا سکتے ہیں‘‘۔ (ص۱۹)۔ اسی طرح سائنس میں power (اردو: طاقت) ایک اصطلاح ہے جس کا ایک مخصوص اور معین مفہوم ہے مگر زیرنظر کتاب کے مصنف نے اس لفظ کو عمومی انداز میں جابجا اس طرح استعمال کیا ہے کہ اس کے معنی بالکل مبہم ہوجاتے ہیں‘ مثلاً: Power of Gravity‘ Power of Heat ‘ Air Power‘ Power of Water‘اور (water's) Power to Dissolve وغیرہ۔ پھر اسی لفظ کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرنا (He has power over every thing) سائنسی ہی نہیں‘ دینی نقطۂ نظر سے بھی نامناسب ہے‘ کیونکہ سائنسی اصطلاح power کااطلاق محض مادی اجسام پر کیا جا سکتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے کوئی نسبت نہیں ہے جس کے لیے ’’قدرت‘‘ (Authority)کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔
کتاب میں پروف ریڈنگ کی غلطیاں بکثرت ہیں۔ اس کی پیش کش (layout) میں بھی نہ صرف خوب صورتی اور کشش نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں خاصی غفلت اور تساہل سے کام لیا گیا ہے۔ خصوصاً صفحہ ۵۱ پر متن اور لے آئوٹ کی اغلاط کی بھرمارہے۔
اگر یہ کتاب آزمایشی اور تجرباتی بنیادوں پر شائع کی گئی ہے تو ہماری درخواست ہے کہ اسے دوبارہ شائع کرنے سے پہلے اس پر بھرپور اور ہمہ گیر نظرثانی کی جائے اور درج بالا گزارشات کو ملحوظ رکھا جائے۔ (فیضان اللّٰہ خان)
۲۰۰۳ء کو محترمہ فاطمہ جناح کے سال کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تو ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے متعدد کتابیں منظرِعام پر آئیں۔ زیرِنظرکتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کتاب کا موضوع صوبۂ بلوچستان کے حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح کی یادوں اور خدمات کا احاطہ ہے۔ ایک حصے میں محترمہ کی اُن سرگرمیوں (مختلف علاقوں کے دوروں‘ عوامی و سیاسی اجتماعات میں شرکت اور عوام سے خطاب) کی تفصیل فراہم کی گئی ہے جن کا تعلق صوبۂ بلوچستان سے ہے۔ دوسرے حصے میں محترمہ فاطمہ جناح سے متعلق بلوچستان کے اہلِ قلم کے مضامین و منظومات شامل ہیں۔ اس کتاب کے خاص مشمولات درج ذیل ہیں:
۱- جولائی ۱۹۴۳ء میں کوئٹہ میں خواتینِ بلوچستان مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی روداد اور تقریریں۔ اس اجلاس میں محترمہ فاطمہ جناح بھی شریک تھیں۔ مولف نے یہ تفصیلات ہفتہ وار الاسلام (کوئٹہ‘ خواتین نمبر) بابت ۷؍رجب ۱۱ جولائی ۱۹۴۳ء سے حاصل کی ہیں۔
۲- ’’مادرِ ملت بلوچستان میں --- قدم بہ قدم‘‘ کی توقیت بھی اہم ہے۔
۳- بیرسٹر یحییٰ بختیار اور قاضی محمد عیسیٰ سے محترمہ فاطمہ جناح کی مراسلت ۔
کتاب کے مولف کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے۔ وہ اس سے قبل کئی علمی و ادبی تصنیفات و تالیفات اُردو دنیا کو دے چکے ہیں۔ تازہ کتاب بھی ان کے معیارِ قلم کی روایت کا حصہ سمجھی جانی چاہیے۔ (رفاقت علی شاہد)
انٹرنیٹ دورِ جدید کی انتہائی اہم دریافت و ایجاد ہے۔ اس نے فاصلے ختم کر دیے ہیں اور رابطوں کے اخراجات میں بھی غیرمعمولی کمی کر دی ہے۔ مذکورہ کتاب میں انٹرنیٹ کے بارے میں تعارفی مضامین کے علاوہ درجنوں سائٹس کا سرسری تعارف بھی شامل ہے جو اسلام‘ اسلامی تعلیمات‘ قرآن‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ‘ مسلم دنیا اور مسلمانوں کے وسائل وغیرہ کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔
ایک طرف تو انٹرنیٹ کے ذریعے انارکی‘ خلفشار اور فحاشی کو پھیلانے کا کام وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسی سائٹس کا قیام خوش آیند ہے جو اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قائم ہوئی ہیں‘ متین خالدنے محنت شاقہ کے بعد اہم سائٹس کے کوائف اس کتاب میںجمع کر دیے ہیں۔ ایسی سائٹس بھی موجود ہیں جہاں سے آپ قرآن پاک اٹھارہ زبانوں میں حاصل (ڈائون لوڈ)کر سکتے ہیں‘ اسی طرح اسلامی تاریخ کے تمام واقعات کی تفصیلات جان سکتے ہیں‘ روز مرہ مسائل کا شرعی حل جان سکتے ہیں اور کعبۃ اللہ اور مسجد نبویؐ کی اذان سن سکتے ہیں وغیرہ۔
اس کتاب کا ایک اور قابلِ تعریف پہلو یہ بھی ہے کہ مصنف نے اپنی حد تک قادیانیوں کی اور یہودیوں کی سائٹس کے پتے بھی دیے ہیں تاکہ ایسی اسلام دشمن طاقتوں سے آگاہی ہوسکے۔ موجودہ دور کی ضروریات کے اعتبار سے یہ ایک قابلِ قدر کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
آئینِ پاکستان میں متفقہ طور پر قرآن و سنت کو سپریم لا قرار دیا گیا ہے لیکن اقتدار کی راہداریوں میں براجمان بیوروکریسی‘ اس آئین کی جس طرح بے حُرمتی کرتی چلی آ رہی ہے اس کی ایک جھلک فاضل مصنف نے زیرنظر کتاب میں دکھائی ہے۔
جون ۲۰۰۲ء میں سپریم کورٹ نے ربا کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر سودی نظام کے حق میں حکومتی وکیل کاظم رضا اور یونائٹیڈ بنک کے وکیل راجا اکرم نے دلائل دیے۔ مصنف نے ان دلائل پر بحث کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ قرآن وسنت سے متصادم ہیں اور اس معاملے میں حکومتی بدنیتی واضح ہوتی ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ دنیابھر میں سود سے نجات کے لیے کوشش اور تجربے ہو رہے ہیں‘ مثلاً: جاپان نے سود زیرو کے قریب کر دیا ہے اور دوسرے ممالک کو صنعت کے لیے ایک فی صد یا اعشاریہ ۵ فی صد پر قرض دے رہا ہے (ص ۷۳)۔ سوڈان میں جاری اسلامی بنک کاری‘ پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں اور پاکستان کے تجویز کردہ ماڈل پر مبنی ہے (ص ۸۱)۔ اس طرح بعض دیگر اسلامی ممالک (بنگلہ دیش وغیرہ) میں بھی کامیابی کے ساتھ بلاسود بنک کاری ہو رہی ہے۔
مذکورہ کتاب کے باب ششم میں فاضل مصنف نے ترقی پذیر ممالک پر امریکہ‘ ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مار دھاڑ اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی بے حمیتی کے نمونے جمع کیے ہیں۔
مختصر یہ کہ اس موضوع پر یہ ایک عمدہ اور مفید و معاون کتاب ہے۔ البتہ پروف خوانی مزید توجہ سے ہونی چاہیے۔ (عبدالجبار بھٹی)
اخوان المسلمون کے بانی اور مرشدعام سید حسن البناؒشہید کی داستانِ عزیمت کو ناول کے دل چسپ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے اپنی اس کاوش میں ادبی اور تحریکی دونوں تقاضوں کو نبھانے کی کوشش کی ہے۔
اس ناول سے سید حسن البناؒ کی ابتدائی زندگی‘ تعلیمی کارناموں‘ سماجی خدمات‘ دعوتی سرگرمیوں‘ اس دور میں مصر کے سیاسی حالات‘ اخوان المسلمون کے قیام‘ اسے درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات اور قیدخانوں میں ڈھائی جانے والی صعوبتوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ حسن البنا شہید کو کس طرح شہید کیا گیا۔اسی طرح اصلاحِ احوال اور غلبۂ دین کے لیے اخوان المسلمون کے قائد کی فکرمندی‘ فرقہ بندی کے خلاف چارہ جوئی‘ تزکیہ نفس پر زور‘ حکیمانہ دعوتی اسلوب‘ لذتِ تقریر اور مدلل اندازِگفتگو سمیت ان کی شخصیت کے کئی پہلوئوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مصنف کا اصلاحی اسلوب پورے ناول پر محیط ہے۔ ناول سادہ اور بیانیہ نثرمیں لکھا گیا ہے۔ ناول کی فنّی باریکیوں سے قطع نظر‘مصنف نئی نسل کے سامنے حسن البنا شہیدؒ کی شخصیت کو ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں اور اس میں وہ کامیاب ہیں۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)
ڈاکٹر حمیدؒاللہ کے انتقال کے بعد اہلِ علم نے ان کی یاد کا حق ادا کر دیا ہے۔ یقینا یہ معاشرے کی زندگی کی علامت ہے۔ ایک طرف یادگاری مضامین کا سلسلہ شروع ہوا تو دوسری طرف کتب آناشروع ہوگئیں۔ اس سلسلے کی زیرِنظر کتاب حسنِ ترتیب اور حسنِ طباعت کے لحاظ سے بڑی دل کش ہے۔ حسنِ تدوین کے لیے سید قاسم محمود کا نام ضمانت ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کے چند اہم مضامین سلیقے سے ترتیب دے کر جمع کر دیے گئے۔
کتاب میں ۱۲ خطبات بہاولپور کی تلخیص و تسہیل اور ۴۰ استفسارات کے جواب شامل ہیں۔ پہلے حصے میں حمیداللہ مرحوم کی شخصیت پر چند مطبوعہ مضامین (محمود احمد غازی‘ صلاح الدین شہید‘ شاہ بلیغ الدین) ہیں۔ آخر میں ایک ہی صاحب کے نام ان کے مکتوبات ہیں جن پر وضاحتی نوٹ بھی دیے گئے ہیں۔ ان تین طرح کے آئینوں میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی شخصیت چلتی پھرتی دیکھی جاسکتی ہے اور ان کی وسعتِ نظر اور تبحرعلمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
غرض یہ کتاب ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کے لیے نہایت موزوں اور قرار واقعی خراجِ عقیدت و تحسین ہے جس کا مطالعہ قاری کو ان کی زندگی اور کام کے ہر پہلو سے بلاواسطہ آگاہی دیتا ہے۔ کتاب کے نام میں ’’بہترین‘‘ کے بجاے ’’منتخب‘‘ زیادہ بہتر ہوتا۔ (مسلم سجاد)