…مگر واقعہ کیا ہے؟ یہاں جو تعلیم اورتربیت آپ کو ملتی ہے‘ جو ذہنیت آپ کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ جو خیالات‘ جذبات اور داعیات آپ کے اندر پرورش پاتے ہیں‘ جو عادات‘ اطوار اور خصائل آپ میں راسخ ہوتے ہیں‘ اور جس طرزِفکر‘ رنگِ طبیعت اور طریق زندگی کے سانچے میں آپ ڈھالے جاتے ہیں‘ کیا وہ سب مل جل کر اِس زمین‘ اِس آب و ہوا اور اس موسم سے کوئی مناسبت بھی آپ کے اندر باقی رہنے دیتے ہیں؟…
جو تعلیم افراد کو اپنی سوسائٹی اور اس کی حقیقی زندگی سے اجنبی بنا دے اس کے حق میں اس کے سوا آپ اور کیا فتویٰ دے سکتے ہیں کہ وہ افراد کو بناتی نہیں بلکہ ضائع کرتی ہے؟ ہر قوم کے بچے دراصل اس کے مستقبل کا محضر ]نوشتہ[ہوتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے یہ محضر ایک لوحِ سادہ کی شکل میں آتا ہے‘ اور قوم کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خود اس پر اپنے مستقبل کا فیصلہ لکھے۔ ہم وہ دیوالیہ قوم ہیں جو اس محضر پر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود لکھنے کے بجاے اسے دوسروں کے حوالے کردیتی ہے کہ وہ اس پر جو چاہیں ثبت کر دیں‘خواہ وہ ہماری اپنی موت کا فتویٰ ہی کیوں نہ ہو۔
آپ غور تو کیجیے‘ کس قدر سخت خسارے میں ہے وہ قوم جو اپنی بہترین انسانی متاع دوسروں کے ہاتھ بیچتی ہے؟ ہم وہ ہیں جو انسان دے کر جوتی اور کپڑا اور روٹی حاصل کرتے ہیں۔ قدرت نے جو انسانی طاقت (man power)اور دماغی طاقت(brain power) ہم کو خود ہمارے اپنے کام کے لیے دی تھی وہ دوسروں کے کام آتی ہے…اِن ہٹّے کٹّے جسموں میں جو قوت بھری ہوئی ہے ‘ اِن بڑے بڑے سروں میں جو قابلیتیں بھری ہوئی ہیں‘ اِن چوڑے چکلے سینوں میں جو دل طرح طرح کی طاقتیں رکھتے ہیں‘ جنھیں خدا نے ہمارے لیے عطا کیا تھا‘اِن میں سے بمشکل ایک دو فی صدی ہمارے کام آتے ہیں‘ باقی سب کو دوسرے خرید لے جاتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ اس خسارے کی تجارت کو ہم بڑی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا اصل سرمایۂ زندگی تو یہی انسانی طاقت ہے۔ اسے بیچنا نفع کا سودا نہیں بلکہ سراسر ٹوٹا ہے۔ (’’خطبہ تقسیمِ اسناد‘‘، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن‘جلد ۲۴‘ عدد۱-۲‘ محرم و صفر ۱۴۶۳ھ‘ جنوری فروری ۱۹۴۴ئ‘ ص ۶۴-۶۶)