تربیت کے معنی ترقی اور نشوونما کے ہیں۔ ترقی اور نشوونما کسی سمت میں اور کسی منزل کی طرف ہوتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو بہت سے سانچوں میں ڈھال سکتا ہے اور جو شخصیت اور صلاحیتیں اللہ نے عطا کی ہوں ان کو بہت سارے پہلوئوں سے پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
تربیت کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اُس مقصد کے حصول کے لائق بنائیں‘ اُس کا اہل بنائیں جو ہمارے پیشِ نظرہے۔ اس لحاظ سے تربیت کا عمل‘ اس کا نہج‘ اس کا طریقۂ کار اور اس کے اجزا مقصد کے لحاظ سے متعین ہوں گے۔
فوج میں تربیت کے معنی یہ ہوں گے کہ جسمانی طور پر اور لڑنے کی صلاحیت کے لحاظ سے اتنی تربیت ہو کہ جنگ جیتی جا سکے اور دشمن کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ایک مدرسے میں تربیت کے معنی یہ ہوں گے کہ علمی صلاحیتیں‘ علم کی تطبیق‘ بیان و اظہار اور تجزیے کی صلاحیتیں پروان چڑھائی جائیں۔ اس لحاظ سے جب ہم تربیت کے لیے جمع ہوں تو زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے یہ چیز روزِ روشن کی طرح واضح ہو کہ وہ کیا مقصد ہے جس تک پہنچنے کے لیے ہم اپنی شخصیت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ جتنا وہ مقصد صاف اور واضح ہوگا‘ اتنی ہی صحیح سمت میں‘ صحیح راستے پر‘ صحیح طریقے سے آگے بڑھنا اور اپنی منزل تک پہنچنا آسان ہوگا۔
ہمیں ایک جماعت کی صورت میں جمع کرنے اور منظم کرنے والی چیز اس دنیا میں غلبۂ اسلام کی جدوجہد ہے۔ اس کے لیے اچھا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ایک اچھا مسلمان ہونے کے لیے ایمان اور اسلام کا یہ مطالبہ ہے کہ مسلمان اپنا مال اور جان اللہ کی راہ میں لگائے۔ چونکہ اب عرصے سے ایک اچھے مسلمان کی تعریف سے یہ حصہ خارج ہو چکا ہے‘ اس لیے ہم کو اس کو بھی علیحدہ سے اپنے ذہن میں تازہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ایسا مسلمان‘ مسلم‘ مطیع‘ متقی اور محسن بندہ دیکھنا چاہتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہو‘ جس سے وہ محبت کرتا ہو۔ ہماری کوشش ہو کہ ہم ویسا بنیں اور اگر ویسا نہ بن سکیں تو اس کے جتنے قریب پہنچ سکیں اتنا قریب پہنچیں‘ اور ایسا بننے کی کوشش میں لگے رہیں‘ کم از کم اس کوشش سے بے نیاز نہ ہوں۔ لیکن اسی کے اندر یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جدوجہد میں ہم اپنی قوتیں‘ صلاحیتیں‘ محنتیں‘ مال و دولت‘ یہ سب لگانے کے قابل ہوں۔
اگر ہم تربیت کے مقصد کو بہت مختصر انداز میں بیان کرنا چاہیں‘ ذہن نشین کرنا چاہیں تو بنیادی طور پر تووہ مقصد اللہ کی جنت کا حصول ہے جس کی طرف اس نے اپنی کتاب ہدایت میں بار بار بلایا اور پکارا ہے اور دعوت دی ہے: وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِـّکُمْ وَجَـنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۳) ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘‘۔ لہٰذا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تربیت کا وہی عمل مفید ہوگا جس میں تربیت کرنے والے کی نگاہوں میں یہ منزل ہمیشہ واضح رہے اور اسی پر نگاہیں جمی رہیں۔ اسی کے لیے بے چینی اور خلش رہے کہ میں وہ کام کروں کہ میرا قول و فعل اور عمل مجھے جنت کے قریب کر دے‘ اور ان کاموں سے دُور رہوں جو جنت سے دُور کریں اور نارِ جہنم سے قریب کر دیں۔ اگر میں بات یہیں ختم کر دوں تو یہ بھی کافی ہے۔ اس لیے کہ تربیت کے لیے بہت طویل تقریروں کی اور لمبے مباحث کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آدمی ایک ہی بات پا لے تو یہ اس کی تربیت کے لیے کافی ہوسکتی ہے۔
حدیث میں ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے عرض کی کہ اُس کو قرآن کی کچھ تعلیم دیں جس کو وہ باقاعدگی سے پڑھا کرے اور اس سے ہدایت حاصل کرتا رہے۔حضورؐ نے حضرت علیؓ کو اس کی تعلیم و تربیت پر مامور فرمایا۔ انھوں نے اس کو سورئہ زلزال کی تعلیم دی۔ جب آخری آیت پر پہنچے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّـرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸)’’پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘--- اس نے کہا یہ میرے لیے کافی ہے۔ غور کیجیے کہ اگر اتنی ہی بات کسی آدمی کے ذہن میں رہے کہ اگر وہ ذرہ برابر بھی برائی کرے گا تو وہ سامنے آئے گی اور ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا تو وہ بھی سامنے آئے گی‘ تو یہ بھی اس کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے اور صحیح راستے پر چلانے کے لیے کافی ہے۔
ایک روایت کے مطابق جب حضرت علیؓ نے حضورؐ کے سامنے اس بات کو بیان کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو‘ وہ آدمی تو فقیہہ بن گیا۔ اس نے سمجھ لیا ہے کہ دین کا ماحصل کیا ہے۔ دین کا ماحصل تو یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ اس اندیشے اور اس خیال سے اپنے اعمال پر نگاہ رکھے کہ اسے ان کا جواب اللہ تعالیٰ کو دینا ہے۔
اگر ہم صرف اتنی بات کو بھی پا لیں کہ اس ساری تربیت کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی جنت کی منزل سے قریب ہوسکیں‘ اور یہی ایک ترازو اگر ہاتھ میں رہے اور دل میں لٹکی ہوئی ہو اور جو بات بھی منہ سے نکلے اور جو کام بھی کیا جائے ‘ اور جہاں بھی آدمی کا وقت لگے اور مال خرچ ہو‘ وہاں توجہ صرف اسی طرف ہو اور اسی ترازو پر ہم تول کردیکھ لیں کہ آیا یہ مجھے اپنی منزل سے قریب کرنے والی چیز ہے یا دُور کرنے والی‘ تو صرف یہی ایک بات بھی ایک فرد کی تربیت کے لیے کافی ہوسکتی ہے‘ اگر اس کو اختیار کرلیا جائے۔
تربیت کے لیے جس عمل اور محنت کی ضرورت ہے وہ منزل کی مناسبت سے آدمی کو نصیب ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کے سامنے وہ منزل ہو کہ جس کی وسعت میں زمین و آسمان سماجائیں تو اسی کی مناسبت سے وہ اپنی تربیت کریں گے‘اور جتنی وسیع جنت ہے اتنی ہی وسعت اور اتنی ہی بلندی پر اڑان اور پرواز کے لیے‘ ان کے پاس میدان ہوگا اور فضا ہوگی۔ اس کے نتیجے میں انسان کے دل‘ نظر‘ سوچ اور اخلاق و اعمال سب میں یہ وسعت پیدا ہوگی۔اصحاب الجنۃ‘ جو جنت میں جانے والے ہیں‘ ان کا جو سانچہ قرآن مجید نے پیش کیا ہے اس کے مطابق وہ اپنے آپ کو بنائے گا۔ درحقیقت اصل چیز تو منزل کا شعور اور اس کا واضح ہونا اور اس کا مطلوب ومقصود بننا ہے‘ اور اس کی خاطر کوشش کرنا اور محنت کرنا ہے اور اسی پر نگاہیں جمائے رکھنا ہے۔
نصب العین کے معنی نگاہ کو کسی چیز پر جما دینے کے ‘ نظر کو ٹھیرا دینے کے ہیں۔ چنانچہ جہاں نگاہ اٹک جائے وہاں دل بھی اٹک جاتا ہے‘ اور جس کے نگاہ اور دل دونوں اسیر ہو جائیں تو پھر پورا عمل اور زندگی اسی کے پیچھے لگ جاتی ہے۔ ایک مسلمان کی نگاہ و دل جہاں ٹھیرنی چاہیے‘ جو اس کا مطمح نظر ہونا چاہیے‘ اور جس کی اسے تلاش اور طلب ہونی چاہیے وہ جنت ہے! لہٰذا نگاہ جس کی تلاش میں رہے وہ جنت ہے اور دل میں جس کی طلب اور آرزو ہو وہ جنت ہے اور جس کے اوپر اپنی کوششوں کو‘ اعمال کو‘ محنتوں کو اور اپنے آپ کو جانچنا چاہیے وہ جنت ہے۔
تربیت کی راہ میں یہ پہلی چیز ہے جو ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رہنی چاہیے۔ جنت کے حصول کے لیے بہت سارے اعمال ہیں۔ ان میں جو سب سے بڑا عمل ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ اسی لیے ایمان کی نشانیوں میں ‘ ایمان کی علامتوں میں ‘ اور ایمان میں سچے اور کھرے ہونے کی کسوٹی میں یہ بھی ہے کہ درحقیقت مومن وہی ہیں جو ایمان لائیں اور اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو اونٹ کے کوہان سے تشبیہ دی ہے۔ گویا دین میں جو سب سے اعلیٰ اور اونچا مقام ہے وہ جہاد کو حاصل ہے۔ ہماری یہ تحریک قائم ہی اسی بنیاد پر ہوئی ہے۔ اسی چیزنے ہم سب کو جمع کیا ہے کہ دین کے مطالبات میں اقامت دین کا مطالبہ‘ اور دین کے فرائض میں سے جہاد کا فرض‘ اور دین میں مطلوب اشیا میں سے دین کے غلبے کا کام‘ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمارے ہاں سرفہرست ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے قرب اور اس کی طرف توجہ‘ اس کی طرف رغبت اور اس کی قربت اور اس کے ساتھ مناجات اور اس کی خاطر بھوکا پیاسا رہنا اور اس کی خاطر اپنی محبوب دنیا کو قربان کرنا‘ یہ چیزیں کوئی کم درجے کی ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیںاور لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔
قرآن مجید کی مختلف سورتیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کا حکم ساتھ ساتھ دیا ہے۔ اگر ایک طرف یہ فرمایا کہ قُمْ فَاَنْذِرْ o (مدثر ۷۴:۲) ’’اٹھ اور (لوگوں کو) ڈرا‘‘ تودوسری طرف فوراً بعد یہ حکم بھی دیا کہ یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً o (مزمل ۷۳: ۱ -۲) ’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘‘۔ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا o (’’اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو‘‘۔(مزمل ۷۳:۸)۔ اگر یہ فرمایا کہ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ o (والضحیٰ ۹۳:۱۱)‘ کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت کی نعمت دی ہے اس کو دوسروں تک پہنچائو‘ بیان کرو تو اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ o (الم نشرح ۹۴:۷)‘ کہ جب بھی فارغ ہو تو پھر اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ جوڑو‘ اسی کی طرف رغبت اختیار کرو۔ اگر یہ حکم دیا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o (العلق ۹۶:۱)‘ یعنی اللہ کے نام سے پڑھو اور سنائو جوہدایت کہ تمھارے پاس آئی ہے تو آخر میں یہ بھی فرمایا کہ سجدہ کرو اور اس سے قریب ہوجائو۔ جہاں یہ فرمایا: وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖط ھُوَ اجْتَبٰکُمْ (الحج ۲۲:۷۸)‘ کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘ اور اسی کے لیے اس نے تم کو منتخب کیا ہے ‘ وہاں یہ بھی فرمایا کہ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِط ھُوَ مَوْلٰکُمْج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُo (۲۲:۷۸) ‘اللہ کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلو۔ وہی تمھارا مولیٰ ہے بہترین دوست اور بہترین مددگار۔ گویا جہاں بھی اقامت دین کا‘ خدا کی طرف بلانے کا حکم دیاہے وہاں خدا سے تعلق مضبوط کرنے کا حکم بھی دیا ہے‘ اس سے بھی ان دونوں پہلوئوں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جہاد کا کام اللہ کے ساتھ گہرے تعلق اور للہیت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ لیکن جوچیز مقصود ہے‘ وہ یہی ہے کہ انسان اپنے ارادے سے اللہ کی بندگی اختیار کرے اور اس کی راہ میں اپنی جان و مال‘ سب کچھ لگا دے۔جو کچھ اللہ نے دیا ہے وہ بھی لگا دے اور اگر وقت آئے تو اپنا سر بھی اس کے قدموں میں نثار کر دے۔
تربیت کے مقصد کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ دنیا میں جو کام ہمیں کرنا ہے‘ اس کام کے جو تقاضے اور مطالبات ہیں‘ ان کی مناسبت سے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ہمیں اس بات کا پورا ادراک‘ شعور اور فہم ہو کہ ہم دنیا میں کیا کرنے آئے ہیں۔
ہم نے پہلے دن سے اس بات کو واضح کیا ہے کہ ہمارے سامنے جو مقصد ہے وہ ایک نئی دنیا کی تعمیر ہے۔ اس کو ہم ’’عالمگیر اسلامی انقلاب‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں اور ’’امامت عالم کے منصب کو حاصل کرنے‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے ’’انسانی زندگی کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لینے‘‘ کی تعبیربھی اختیار کی ہے لیکن سب کا مقصد ہے دنیا کی امامت‘ انسانوں کی رہنمائی اور ایک نئی تہذیب و تمدن کی تعمیر۔ یہ دراصل ہمارا مقصد ہے اور ہرشخص کے سامنے یہمقصد واضح ہونا چاہیے۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان باصلاحیت ہو‘ بہت اچھا بولنے والا ہو‘ اچھا لکھنے والا ہو‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو تب ہی وہ دنیا کی قیادت سنبھال سکتا ہے۔ اس امت کے اولین دور میں جن لوگوں نے دنیا کی امامت سنبھالی اور ساری دنیا کو فتح کرلیا وہ مکہ کے چھوٹے چھوٹے تاجر تھے۔ مدینہ کے معمولی کسان اور عرب کے صحرائوں میں بکریاں چَرانے والے بدو تھے۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں تو بڑا حقیر ہوں اور میرا کام اتنا ہی ہے کہ اپنے گائوں میں ایک اجتماع کر لیا کروں‘ بس اتنا ہی کام کافی ہے۔ ممکن ہے کرنے کا کام بہت تھوڑا ہو لیکن ذہن میں اس بات کا واضح اور صاف ہونا بہت ضروری ہے کہ اصل مقصد وہ نہیں ہے جو آدمی گائوں میں کر رہا ہے‘ اصل مقصد اجتماع کرنا یا کتاب پڑھا دینا بھی نہیں ہے‘ اور اصل مقصد جلوس نکالنا بھی نہیں ہے بلکہ اصل مقصد تو ساری دنیا کو تبدیل کر دینا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کوششیں جو جگہ جگہ ہو رہی ہیں‘ وہ سب مل کر اس عظیم الشان مقصد کی کامیابی کا ذریعہ ضرور بنیں گی۔ لیکن جب تک ہر کوشش کا رخ وہی نہ ہو اور ہر کوشش سے مطلوب وہی عظیم الشان تغیر وتبدل نہ ہو‘ اس وقت تک انسان وہ نہیں بنے گا جو وہ بننا چاہے۔
عرب کے بدو‘ کسان اور تاجر اس لیے عظیم الشان انسان بن گئے تھے کہ ان کو یہ بات معلوم تھی اور ان کے سامنے یہ منزل واضح اور روشن تھی کہ بالآخر قیصروکسریٰ کے محلات اور ان کی سلطنتیں ان کے ماتحت آنے والی ہیں۔
مکہ میں بھی یہ بات عام تھی کہ اگر تم لوگوں نے لا الٰہ الا اللہ کو اختیار کرلیا تو عرب اور عجم تمھارے زیرنگیں آجائیں گے۔ ہجرت کی طرف سفر کرتے ہوئے جب دو آدمی اس حالت میں نکلے تھے کہ پیچھے دشمن قتل کے درپے تھا اور آگے مدینہ میں کیا صورت حال پیش آنے والی تھی‘ آیا پناہ ملے گی بھی یا نہیں‘ اس کا کچھ اندازہ نہیں تھا۔ اس وقت بھی حضورؐ نے سراقہ بن جعشم کو جب امان کا پروانہ لکھ کر دیا تھا تو یہی پیشنگوئی فرمائی کہ ایک دن آئے گا کہ کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھ میں ہوں گے۔
غور کیجیے کہ کن حالات میں یہ بات کہی جا رہی ہے۔ اوپر سورج ہے اور نیچے ریگستان‘ کوئی لشکر اور فوج نہیں ہے اور ایران کی حکومت اس وقت کی سپرپاور ہے اور ایسے میں آپؐ پیشنگوئی فرماتے ہیں کہ اے سراقہ ایک دن آئے گا کہ کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے۔
غزوئہ خندق کا واقعہ اپنے ذہن میں تازہ کیجیے کہ ہزاروں کا لشکر مدینہ کو تباہ کرنے کے لیے پورے عرب سے اُمڈ آیا ہے۔ پشت پر یہودی چھرا گھونپنے کے لیے تیار تھے۔ کہیں سے بھی کوئی سلامتی کی راہ سجھائی نہیں دیتی تھی۔ لوگوں کے دل سینوں میں اُلٹ رہے تھے‘ حالات دیکھ کر حوصلے پست ہو رہے تھے۔ صرف ایک چھوٹی سی خندق نے مدینہ کو محفوظ کر رکھا تھا۔ ان حالات میں جب وہ خندق کھودی جا رہی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی خندق کھودنے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شریک تھے۔ ایک موقع پر ایک سخت چٹان پر گدال مارتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ مجھے قیصر کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ پھر دوسرا گدال چٹان پر مارا اور فرمایا کہ مجھے کسریٰ کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ ان حالات میں جب ہر طرف سے دشمن گھیرے میں لیے ہوئے تھا اور ذرا سی چوک سے مدینہ تباہ و برباد ہو سکتا تھا‘ اس وقت بھی آپؐ کی نظر عالمِ انسانیت کی امامت پر تھی اور جو منصب ابراہیم علیہ السلام کے سپرد کیا گیا تھا‘ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاط (البقرہ ۲:۱۲۴) ’’میں تم کو سارے انسانوں کا امام بنانے والا ہوں‘‘، وہی منصب سامنے تھا۔
یہ بات میں نے اتنی تفصیل سے اس لیے بیان کی ہے کہ تربیت میں جہاں ایک طرف نظر اس جنت پر ہونی چاہیے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں اور اسی کی طرح اپنے آپ کو بنانا چاہیے‘ وہاں دوسری طرف دنیا کی منزل بھی سامنے رہنی چاہیے ۔ سوچ میں‘ اعمال میں‘ برتائو میں‘ اخلاق میں وہی رویہ کارفرما ہونا چاہیے جو اہل جنت کی سوچ‘ اہل جنت کے اخلاق اور اہل جنت کے اعمال میں مطلوب ہے۔ نظر اور قلب میں وہی وسعت ہونی چاہیے جیسی کہ جنت کی وسعت ہے‘ اور فیصلوں میں وہی شادابی اور تازگی ہونی چاہیے جو جنت کی شادابی اور تازگی ہے‘ اور وہی سدابہار حوصلے اور محنتیں درکار ہیں کہ جس طرح سدابہار جنت کے پھل ہیں‘ اور اسی طرح کے ایمان اور اخلاق کی بہتی ہوئی نہریں ہونی چاہییں جو کہ جنت میں بہہ رہی ہوں گی۔ دنیا میں جب یہ سب کچھ ہوگا تب جاکر ہی جنت نصیب ہوگی اور دنیا کی امامت کی منزل سر ہوگی۔
دنیا کے اندر جو منزل ہے وہ کسی ضلع‘ گائوں اور دیہات تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ منزل تو اس ملک کو اور سارے عالم کو اس کے پیدا کرنے والے کے لیے مسخر کرنا ہے۔ کوئی آدمی جس کی صلاحیت کتنی ہی کم کیوں نہ ہو‘ وہ گونگا ہو یا بہرہ‘ دیہاتی ہو یا اَن پڑھ‘ ہر ایک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ میں اس قافلے میں شریک ہوں جو بالآخر اس سارے عالم پر غالب آنے والا ہے۔ اس سے ایک فرد کی سوچ اور صلاحیتیں پروان چڑھیں گی۔ اگر یہ مقصد واضح اور صاف ہو اور نگاہوں کے سامنے موجود ہو تو پھر اسی لحاظ سے آدمی کے اندر حوصلہ اور ہمت پیدا ہوگی اور تربیت اور عمل کے لیے جو محنت اور کوشش درکار ہے وہ کرنے کے قابل ہوسکے گا۔
تربیت کا انحصار نہ افراد کے جمع ہونے پر ہے‘ نہ تقریروں پر اور نہ دروس قرآن پر ہی ہے بلکہ تربیت کا انحصار ایک فرد کی اپنی ذات پر ہے۔ تربیت کی کنجی تقریروں میں یا دوسروں میں تلاش نہ کیجیے بلکہ وہ کنجی آپ کے دل میں ہے‘ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر صرف گفتگوئوں اور تقریروں سے تربیت ہوجایا کرتی تو انبیا علیہ السلام کی اتنی موثر وعظ و نصیحتیں اور تقاریر رائیگاں نہ جاتیں۔ جولوگ نہ ماننا چاہتے تھے ان کو ایمان کی دولت بھی نصیب نہ ہوئی‘ اور جو لوگ کوئی کام نہ کرنا چاہتے تھے ان سے کوئی نیک عمل صادر نہیں ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس حکمت کے تحت پیدا کر کے دنیا میں بھیجا ہے اس کی بنیاد ہی یہ ہے کہ وہ ہم میں سے ہر شخص کو الگ الگ آزمانا چاہتا ہے۔ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط (الملک ۶۷:۲)‘ یعنی موت اور زندگی کی یہ ساری بساط بچھائی ہی اس لیے گئی ہے کہ وہ ہمیں آزما کر دیکھ سکے کہ ہم میں سے کون حسنِ عمل‘ نیک عمل کرتا ہے۔نیکی ہی حسین ہوتی ہے۔ جس کے اعمال نیک ہوتے ہیں اسی کے اعمال حسین بھی ہوتے ہیں۔ یہی اس دنیا میں پیدایش کا مقصد ہے اور اس کے لیے اپنا ارادہ‘ اپنا عزم اور اپنی کوشش ہی وہ معیار اور ذریعہ ہے جس سے کسی کی تربیت ممکن ہے۔
اگر ہم یہ چاہیں کہ کسی کے پاس جادو کی چھڑی ہو اور وہ ہلائے تو اس کے نتیجے میں تربیت ہو جائے اور ہم نیک بن جائیں‘ تو یہ جادو کی چھڑی اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کو بھی نہیں عطا کی تھی۔ انبیا کو بھی محنت کرنا پڑتی تھی اور انبیا کی بات بھی وہی سنتے تھے کہ جو سننا چاہتے تھے۔ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی (النمل ۲۷:۸۰) ’’تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ اَفَاَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَو کَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَo (یونس ۱۰:۴۳) ’’مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انھیں کچھ نہ سوجھتا ہو؟‘‘
سیدنا مسیح علیہ السلام کے معجزات تو ایسے تھے کہ مفلوج چلنے لگتے تھے اور اندھے دیکھنے لگتے تھے اور کوڑھی اچھے ہوجایا کرتے تھے اور مٹی کے پرندے اڑنے لگتے تھے اور مردے زندہ ہوجایا کرتے تھے لیکن بنی اسرائیل کے وہ عوام‘ علما اور فقہا جو بیت المقدس میں آپ کی باتیں سن رہے تھے ان کے اندھے پن کا‘ ان کی بے عملی کا اور ان کی مفلوجیت کا کوئی علاج نہ ہو سکا تھا۔ اس لیے کہ انھوں نے خود اپنا علاج نہیں کرنا چاہا۔ اللہ تعالیٰ اسی کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت چاہتا ہے۔ اسی کی بہتری چاہتا ہے جو اپنی بہتری چاہتا ہے اور بہتری کے لیے کوشش کرتا ہے۔
جب تک اس نکتے کو نہیں سمجھا جائے گا کہ تربیت کا انحصار تقریروں‘ درس قرآن یا گفتگو پر نہیں ہے بلکہ تربیت کا انحصار ایک فرد کی اپنی ذات‘ مرضی اور ارادے پر ہے‘ تربیت نہیں ہوسکتی۔ تربیت کے عمل میں ایک شخص کی ذات کی حیثیت وہی ہے جو ایک کسان کے لیے کھیت کی ہوتی ہے‘ ایک دکاندار کے لیے اس کی دوکان کی ہوتی ہے اور ایک تاجر کے لیے اس کے کاروبار کی ہوتی ہے۔ ایک کسان خوب جانتا ہے کہ گھربیٹھ کر دعا کرنے سے یا کسی اور کے دعا دینے سے یا آسمان سے بارش کے برسنے سے فصل نہیں اگے گی۔ وہ ہل لے کر نکلے گا‘ ہل چلائے گا‘ بیج بوئے گا‘ اس کی نگہداشت کرے گا‘ تب جاکر پانی بھی فائدہ دے گا‘ سورج بھی گرمی پہنچائے گا‘ بیج بھی نشوونما پائے گا‘ درخت بھی نکلے گا اور پھل بھی آئیں گے۔ اس محنت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوگا۔ اس کو اپنے کھیت کی ذمہ داری خود سنبھالنا پڑے گی۔ تب کہیں جاکر کھیت اس کو فصل دے گا۔ دکان دار بھی جانتا ہے کہ وہ اگر دکان پر تالا ڈال کر گھر بیٹھا رہے تو کسی چھو منتر سے دکان کھل کر اس کو نفع نہیں دے گی۔ کسی کے پاس کوئی ایسا نسخہ نہیں ہے۔ اس کو دکان کھولنا ہی پڑے گی‘ صبح سے شام تک مال بیچنا پڑے گا‘ خون پسینہ ایک کرنا پڑے گا‘ تب کہیں جاکے چار پیسے کھرے ہوں گے۔
اسی طرح یہ دکان جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی شخصیت میں لگا دی ہے اور یہ کھیتی جو اس نے آپ کو اپنی روح اور اخلاق کی دی ہے ‘اس کو سینچنے کی ذمہ داری آپ کو خود اٹھانا پڑے گی۔ جب آپ یہ عزم کریں گے کہ اللہ نے مجھ کو وہ کچھ بخشا ہے کہ جس کی اگر میں تربیت کروں تو وہ اس لائق ہو سکتا ہے کہ ملائکہ سے بھی اوپر جاکر اللہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ منزل موجود ہے‘ وہاں پہنچنا بھی مشکل نہیں ہے لیکن پرواز خود کرنا پڑے گی۔ اگر میرے اندر حوصلہ اور ہمت نہیں ہے تو میں منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ وہ جنت بھی میرے نصیب میں آسکتی ہے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائے‘ اور امامت عالم کا وہ منصب کہ جہاں دنیا کی ساری طاقتیں اسلام کے مقابلے میں سرنگوں ہوجائیں وہ بھی میرے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے لکھا ہوا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی بغیر محنت اور کوشش کے مجھے نہیں مل سکتی۔
ایک طرف اگر آپ کے سامنے منزل ہو اور دوسری طرف آپ کو اس امکان پر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے ہیں وہ پورے ہوں گے اور تیسری طرف اگر آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ نہ تقریروں سے تربیت ہوتی ہے نہ دروس قرآن سے اور نہ تربیت گاہ سے ہی تربیت ہوتی ہے بلکہ تربیت صرف اپنے عمل اور کوشش سے ہوتی ہے‘ تو آپ تربیت کی کنجی کو پالیں گے۔ اس کے بعد تقاریر‘ درس قرآن‘ تربیت گاہیں اور ماحول اس کھاد‘ پانی اورروشنی کی طرح کام کرتے ہیں جس سے بیج کو پروان چڑھایا جاسکتا اور تربیت کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ کوشش ہی نہ کریں‘ بیج ہی نہ ڈالیں‘ اس کی نگہداشت نہ کریں تو پھر پانی‘ کھاد‘ زمین کتنی ہی زرخیز کیوں نہ ہو‘ سونا اگلنے والی ہی ہو‘ وہ آپ کو کچھ نہیں دے گی۔
ہر شخص کے اندر اللہ تعالیٰ نے سونا اُگلنے والی مٹی رکھی ہوئی ہے جیسا کہ میں نے مثال دی کہ عرب کے بدو معمولی انسان تھے لیکن دنیا کے قائد بن گئے۔ جواَن پڑھ تھے‘ اُمّی تھے‘ ان میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو بہترین جرنیل‘ حکمران‘ علما اور جج اور فقہا ثابت ہوئے۔ مدینہ کی درس گاہ سے وہ لوگ بن کر نکلے کہ جنھوں نے سارے عالم پر حکومت کی اور ہزاروں برس تک دنیا کی رہنمائی کی۔ ان میں قیادت کی صلاحیت موجود تھی لیکن وہ اپنی صلاحیتوں سے بے خبر تھے۔ جس طرح ایٹم کا چھوٹا سا ذرّہ نہیں جانتا کہ اس کے اندر کتنی بڑی قوت پوشیدہ ہے۔ جب ایٹم کا وہ معمولی ذرّہ خود سے آگاہ ہو جاتا ہے یا کوئی دوسرا اس کو آگاہ کر دیتا ہے تو وہی اتنی بڑی قوت پیدا کر دیتا ہے کہ ایٹم بم بن کے لاکھوں انسانوں کو ایک سیکنڈ میں تباہ کر سکتا ہے اور لاکھوں کلوواٹ کی قوت پیدا کرسکتا ہے۔
اسی طرح ہر انسان کے اندر وہ امکانات موجود ہیں کہ وہ بہت اونچا اڑ سکتا ہے‘ بہت اونچی پرواز کر سکتا ہے اور وہ ساری منازل طے کرسکتا ہے جو منازل اللہ نے انسان کے لیے کھول دی ہیں‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ لیکن یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ ہوگا وہ میرے کرنے سے ہی ہوگا۔
اگر ایک شخص محض خواہش ہی کرتا رہے‘ تمنا ہی کرتا رہے‘ دعا کرتا رہے اور دوسروں سے دعائوں کی درخواست کرتا رہے اور یہ سوچے کہ تمنائوں اور آرزوئوں سے کام چل جائے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ اس سے کام نہیں ہوگا۔ اصل چیز عمل ہے۔ عمل کم ہو یا زیادہ‘ عمل سے ہی زندگی بنتی ہے‘ جنت بھی جہنم بھی۔ جب آپ کچھ کرنے پر لگ جائیں گے خواہ تھوڑا کریں‘ تو تھوڑا تھوڑا کر کے بہت ہو جاتا ہے۔ قطرہ قطرہ کرکے دریا بن جاتا ہے‘ ذرہ ذرہ مل کر ریگستان بن جاتا ہے۔ ایک ایک کرکے آپ نیک اعمال اختیار کرلیں گے اور ایک ایک کرکے اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرلیں گے۔ البتہ یہ سب کچھ خود کرنے سے ہوگا۔ اگر خود کام نہیں کریں گے تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔یہ تربیت کا بڑا اہم پہلو ہے جو ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے۔
تربیت کے عمل میں ایک اہم پہلو ترجیح‘ ایثار اور قربانی کا ہے۔ یہ دین کی راہ میں اور تربیت میں بڑا بنیادی عمل ہے۔ انسان کی پوری زندگی اسی چیز میں بسرہوتی ہے کہ مختلف چیزیں انسان کی توجہ‘ اس کے مال‘ اس کے عمل اور اس کی محنت کی طلب گار ہوتی ہیں۔ اب اسے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کسے ترجیح دے اور کسے رد کرے۔ نیکی اور بدی ایک ساتھ آجائیں تو کسے اختیار کرے؟ دو چیزیں وقت مانگتی ہیں‘ کس کو وقت دیا جائے؟ بعض دفعہ بہت چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں جہاں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ سردیوں کی صبح ہے‘ گرم گرم بستر ہے‘ موذن کی آواز بلند ہوجاتی ہے‘ اب یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ گرم بستر چھوڑ دوں اور رب کی پکار پر لبیک کہوں یا سوتا پڑا رہ جائوں۔ گھر میں کسی کام میں مشغولیت ہے‘ اذان کی آواز آجاتی ہے‘ یہاں بھی ترجیح کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ نماز کے ذریعے پانچ وقت اسی چیز کی تربیت ہوتی ہے۔
اس طرح ترجیح‘ ایثار اور قربانی کا یہ عمل ساری عمرجاری رہتا ہے۔ اسی ترجیح کی بنا پر انسان کو اپنے بہت سے سارے رشتہ دار‘ اپنے تعلقات اور بعض دفعہ اپنا ذاتی مفاد تک قربان کرنا پڑتا ہے۔ البتہ ترجیحات کے اس عمل میں ہمیشہ ترجیح اس کام کو دی جانی چاہیے جس میں اللہ کی رضا ہو اور جس سے دنیا میں اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات حصے میں آتے ہوں۔ اسی کو ترجیح دینا چاہیے اور اسی کے پیچھے اپنے آپ کو لگانا چاہیے۔
اپنی منزل کی طرف جستجو‘ مختلف امور پر مختلف امورکو ترجیح دینا‘ اسلام میں بہت ساری عبادات میں اس کی تربیت دی گئی ہے۔ پانچ وقت نماز میں اسی بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ سارا کام چھوڑ کر نکل جائو‘ اللہ کے گھر تک جائو‘ نماز ادا کرو اور واپس آجائو۔ یہ اپنی ذات پر اور اپنے مفاد پر خدا کے حکم کو ترجیح دینا ہے اور اس کی تربیت ہے۔نماز تو گھر میں بھی پڑھی جاسکتی ہے اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گھر میں‘ تنہائی میں‘ یا کسی گوشے میں کھڑے ہوکر نماز ادا کی جائے تو مسجد کے مقابلے میں شاید زیادہ خشوع و خضوع ہوتا اور زیادہ توجہ ہوتی۔ گھر میں پڑھی جانے والی نماز کے مقابلے میں مسجد میں نماز کی ادایگی ۲۷ درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ مسجد میں شاید خشوع و خضوع میں کمی آجاتی ہو لیکن یہ تربیت کہ آدمی اللہ کی پکار پر لبیک کہے اور سب کچھ چھوڑ کے نکل کھڑا ہو‘ سارے کاروبار ترک کر دے اور اللہ کی پکار پر حاضر ہو جائے‘ نماز باجماعت اور مسجد میں آئے بغیر ممکن نہیں۔ سورۂ جمعہ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ (الجمعہ ۶۲:۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو‘‘۔
اللہ کو یاد کرنا‘ تنہائی میں خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا اپنی جگہ فضیلت رکھتا ہے اس کے لیے اور مقامات ہیں۔ لیکن اللہ کی پکار پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ کی یاد کی طرف دوڑ پڑنا اور سارا کاروبار زندگی ترک کر دینا‘ یہ اصل چیز ہے جو مطلوب ہے اور نماز کے ذریعے اس کی بار بار یاد دہانی اور تربیت کی جاتی ہے۔ جب آپ گوشے میں کھڑے ہیں تو کوئی چیز قربان نہیں کر رہے ہیں لیکن جب آپ گھربار چھوڑ کر نکلتے ہیں تو آپ قربانی دیتے ہیں اور اصل چیز تو یہ ترجیح‘ ایثار اور قربانی ہی ہے جس سے شخصیت بنتی ہے۔
صبح سے شام تک بارہا اس سوال کا سامنا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے‘ کسے ترجیح دی جائے اور کسے نہ دی جائے‘ یہ کیا جائے اور وہ نہ کیا جائے۔ اسی طرح یہ پہلو کہ غصہ آ رہا ہے یہ بات منہ سے نکالنی چاہیے یا نہیں‘ یہ وعدہ کیا ہے اس کو پورا کرنے میں میرا یہ نقصان ہوتا ہے وعدہ پورا کروں یا نہ کروں‘ سچ بولوں تو یہ نقصان ہوگا اور جھوٹ بولوں تو یہ فائدہ‘ آیا سچ بولوں یا جھوٹ‘ اگر ملکی انتخابات ہیں ترجیحات کا مسئلہ پیش آتا ہے کہ کس کا ساتھ دیا جائے۔ گویا قدم قدم پر یہ مسئلہ پیش آتا ہے۔ عملاً تربیت یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ آپ بہت ساری چیزوں کو ترک کرتے ہیں اور یہ تربیت مسلسل ہوتی ہے۔
حج کی تربیت بھی یہی ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر آدمی جاتا ہے اور ایک پتھر کے گھر کے گرد چکر کاٹتا ہے اور ایک میدان میں جاکر کھڑا ہو جاتا ہے اور واپس آجاتا ہے۔ حج کا خلاصہ جو میں نے بیان کیا ہے‘ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ حج کے اندر کوئی چیز کرنا یا پڑھنا ضروری ‘ لازمی یا ناگزیر نہیں ہے کہ جس کے بغیر حج نہ ہوسکے۔یہ سب کس لیے ہے‘ اسی لیے کہ اللہ کی راہ میں نکلو اور اس کی پکار پر لبیک کہو اور اس کی خاطر سب کچھ چھوڑ دو‘ گھر بھی چھوڑ دو‘ رشتہ داروں کو بھی چھوڑ دو‘ لباس بھی بدل لو‘ سفر کرو‘ اس کے گھر تک آئو۔ اللہ ہی کو اپنا محبوب سمجھو‘ اسی کے لیے اس کے گھر کے گرد چکر لگائو‘ اسی کے دربار میں حاضری دو اور اسی کے سامنے کھڑے ہوجائو۔ یہی دراصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق‘ دین کی خاطرجدوجہد اور اس کے لیے قربانی کی تربیت ہے۔
انسان تنہا نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی تو بنتی ہی دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں ہے۔ بیوی بچے‘ ماں باپ‘بھائی بہن‘ دوست احباب اور رشتہ داروں کے ساتھ مختلف تعلق ہیں جن پر انسانی زندگی محیط ہے۔ دراصل انسان کا امتحان ہی یہی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق میں عدل اور احسان کے اوپر قائم رہے۔ دوسروں کے حقوق پورے پورے ادا کرے۔ اگر کسی کے ساتھ بات کرے تو بہترین بات کرے‘ یا بھلی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ اگر کسی کے ساتھ معاملہ کرے تو انصاف کا معاملہ کرے‘ احسان کا معاملہ کرے۔ اپنی ذات سے کسی انسان کو ایذا نہ پہنچائے۔ راستے میں اگر کوئی ایذا پہنچانے والی چیز ہو تو اس کو بھی ہٹا دے۔ اس پر بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اگر کسی کتے کو پیاسا دیکھیں اور اس کو پانی پلا دیں تو اس پر بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں بلی کو آدمی بھوکا مار دے تو اس پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
باہم مل جل کر رہنے میں‘ تعلق‘ رشتہ داری اور حقوق کی ادایگی میں ناگواریاں ہو سکتی ہیں اور تلخیاں بھی۔ مگر یہ سب صبر کرنے‘ محبت کرنے‘ ایک دوسرے سے قریب آنے کی تربیت کا ایک ذریعہ اور موقع ہے جو درس و تقریر سے الگ ہٹ کے میسرآسکتی ہے۔
اسی طرح اپنے ماحول سے آدمی سیکھتا ہے۔ باہم ملنے جلنے سے‘ چلنے پھرنے سے بہت سی باتیں ایسی سامنے آتی ہیں جو آدمی کو ناپسند ہوں اور بہت سی ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جو پسندیدہ ہوں۔ اس میں بھی انسان کا امتحان ہوتا ہے اور اس میں دین نے جو اصول سکھائے ہیں‘ باہمی اصلاح کے طریقے بتائے ہیں ان کی آزمایش ہوتی ہے کہ اگر آدمی کسی برائی کو دیکھے تو کس طرح اس کی اصلاح کرے اور اگر اچھائی دیکھے تو کس طرح اس کی تحسین کرے۔
کوئی انسان مثالی انسان نہیں ہو سکتا سوائے اللہ کے رسولوں کے۔ کوئی بستی مثالی بستی نہیں ہو سکتی سوائے جنت کی بستی کے۔ اس لیے آپ جہاں جہاں بھی انسانوں کے اندر چلیں گے‘ پھریں گے آپ کو اچھائیاں بھی دکھائی دیں گی اور خرابیاں بھی ملیں گی۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ ان سب کے ساتھ جینا اور ان سب کے ساتھ رہنا سیکھیں۔ ان کی اصلاح کی کوشش کرنا آپ پر فرض ہے۔ یہ بھی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
جہاں تک تعلق تقاریر‘ درس قرآن اور لٹریچر وغیرہ کا ہے تو وہ خود تو کسی انسان کی تربیت نہیں کرتے بلکہ یہ ایک ذریعہ ہیں۔ ان کی مثال بارش کی سی ہے۔ جب بارش برستی ہے تو کھیت بھی اس سے سیراب ہوتے ہیں اور کنوئوں کے اندر بھی پانی ذخیرہ ہوتا ہے اور تالابوں کے اندر بھی اور بہت سی جگہوں پر پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سیراب وہی ہوگا جو اس کو اپنے اندر جذب کرے‘ محفوظ کرے۔ درس قرآن اور تقاریر سے بھی تب ہی فائدہ اٹھایاجا سکتاہے کہ اگر ان کو اپنے ذہن‘ دماغ اور سینوں میں محفوظ کیا جا سکے۔ جو باتیں قابلِ عمل ہوں ان سے فائدہ تب حاصل کیا جاسکتا ہے‘ جب ان پر نگاہ رہے۔ تقریر فی نفسہ آپ کو فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اگر آپ خود فائدہ حاصل کرنا چاہیں گے تو پھر وہ سارے فوائد آپ کے استفادے کے لیے موجود ہوں گے جو تقریر کے اندر پائے جاتے ہیں۔
یہ تربیت سے متعلق کچھ بنیادی باتیں ہیں۔ اگر آپ انھیں ملحوظ رکھیں‘ اپنے ذہن میں تازہ رکھیں اور عمل کی کوشش کریں تو مجھے امید ہے کہ یہ باتیں ان شاء اللہ آپ کے لیے برکت کا‘ بہتری کا اور نشوونما اور ارتقا کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
(کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)