پاکستان کے ایک تحقیقی ادارے Social Policy and Development Centre نے ۲۰دسمبر ۲۰۰۳ء کو اپنی ایک رپورٹ پاکستان کے تعلیمی حالات پر شائع کی ہے جس پر قومی سطح پر غور نہ کرنا ایک مجرمانہ غفلت ہوگا۔ یہ رپورٹ کسی سیاسی ادارے کی طرف سے نہیں آئی اور اس کا مقصد کسی ایک حکومت کا احتساب نہیں بلکہ اصل میں پوری قوم کا احتساب ہے اور اب تک کی ساری ہی حکومتوں کی ناکامی پر قومی گرفت کی ضرورت کی دعوت ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ۱۹۷۲ء میں پاکستان میں ۲ کروڑ ۸۰ لاکھ افراد ناخواندہ تھے جن کی تعداد اب ۴ کروڑ ۶۰ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ۵ سے ۹ سال کی عمر کے بچوں کے اسکول میں داخلے کی صورت حال بھی اندوہناک ہے۔ ایسے ۵ کروڑ بچوں میں سے عملاً صرف ایک کروڑ ۳۰ لاکھ پرائمری کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان میں بھی اسکول چھوڑنے والوں کی شرح جو ۹۶-۱۹۹۵ء میں ۴۰ فی صد تھی وہ ۱۹۹۹ئ-۲۰۰۰ء میں بڑھ کر ۵۴ فی صد ہوگئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے مقابلے کا تو کیا سوال اس وقت عالم یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھی پاکستان ناخواندگی اور اسکول میں داخلوں کے اعتبار سے سب سے پیچھے ہے۔ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور نیپال بھی ہم سے آگے ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا کے ان ۱۲ ممالک میں شامل ہیں جو اپنی قومی آمدنی کا ۲ فی صد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ ۵۰ سال کا اوسط ۸.۱ فی صد ہے۔
اس کے ساتھ دوسرا بڑا مسئلہ تعلیم کے نظام میں یکسانیت کی کمی ہے جس سے قوم طبقوں میں بٹ رہی ہے اور بالکل مختلف ذہنی رویے وجود میں آرہے ہیں۔ اس وقت نظامِ تعلیم‘ اپنے میں مگن تین منطقوںمیںتقسیم ہوگیا ہے۔ ایک طرف انگریزی میڈیم اسکول ہیں جو بالکل دوسرا ذہن پیدا کر رہے ہیں اور دوسری طرف اُردو میڈیم اسکول ہیں جن کی تعلیمی حالت بھی دگرگوں ہے اور ان کا ذہنی اُفق بھی بالکل مختلف ہے۔ تیسرا طبقہ دینی تعلیمی اداروں کا ہے جو ان دونوں سے مختلف ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انگریزی میڈیم کے طلبہ کا دو تہائی بھارت سے دوستی‘ آزاد پریس‘ عورتوں کی مساوات‘جمہوریت اور کشمیر کے مسئلے پر بھی صرف پرامن ذرائع کا قائل ہے‘ جب کہ ایک تہائی یا اس سے بھی کم جہاد کشمیر اور شریعت کے نفاذ کے حق میں ہے۔ اس کے برعکس اُردو میڈیم اور دینی مدارس کے طلبہ کی عظیم اکثریت شریعت کے نفاذ اور جہاد کشمیر کے حق میں ہے۔ رپورٹ کے مرتبین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:
ہم ملک میں ایک سے زیادہ پاکستان تخلیق کر رہے ہیں۔ یہ طلبہ زندگی کے بارے میں متضاد نظریے رکھتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں ملک غیرمستحکم ہونے سے دوچار ہے۔ (ڈان ‘ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۳ئ)
یہ رپورٹ ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرتی لیکن جس طبقے کی طرف سے یہ آئی ہے‘ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک کی سیکولر لیڈرشپ بھی حالات پر پریشان ہے۔بنیادی مسائل دو ہی ہیں: ایک‘ تعلیم پر توجہ‘ وسائل اور مؤثر قومی جدوجہد کی کمی اور دوسرے‘ نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے تعلیم کا معاشرے اور قومی مقاصد سے متصادم ہونا۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ایک ہی مثبت بات کہی تھی کہ تعلیم کو ملک کی شناخت سے ہم آہنگ کرنا اور ملک میں ایک نصاب کی ترویج۔ لیکن عملاً ابھی تک اس کی طرف کوئی پیش رفت نہیںہوسکی کیونکہ استعماریمفادات کی اسیراین جی اوز نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔
آج کمیت (quantity) اور کیفیت (quality) دونوں اعتبار سے تعلیم کی حالت زارو زبوں ہے۔ یہ قوموں کی ترقی نہیں تنزل اور تباہی کا راستہ ہے۔ قوم اور پارلیمنٹ کو تعلیم کے مسئلے کو اولیت دینی چاہیے اور کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے اصلاحِ احوال کی فوری فکر کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں اسلامی جمعیت طلبہ تمام طلبہ تنظیموں اور اساتذہ کے تعاون سے جو کوشش کر رہی ہے وہ بہت لائقِ تحسین اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام تمام دینی اور سیاسی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر حکومت اور پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے۔ اور ترجیحی بنیادوں پر کرنے کا ہے تاکہ ہم اپنی نئی نسلوں کو تباہی سے بچا سکیں اور پاکستان عالمی برادری میں اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے۔