جنوری ۲۰۰۴

فہرست مضامین

نصیحت و خیرخواہی

ولید شبلی | جنوری ۲۰۰۴ | تذکیر

Responsive image Responsive image

ترجمہ: خدابخش کلیار

باہم نصیحت(تواصی) دعوت دین کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے اور سب سے زیادہ حساس بھی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اُمت مسلمہ کے مقصد وجود سے مشروط ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَا اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ (اٰل عمران۳:۱۱۰) ’’تم اس دنیا میں وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ، بدی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ چنانچہ اس کے اس مقام و منزلت کی بنا پر اس کو فریضہ اقامت دین میں سنگ ِبنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ لہٰذا جہاںاس سے صحیح کام لیا گیا‘ وہاں دعوت کا عمل مؤثر انداز میں آگے بڑھا اور وہ بارآور بھی ہوا‘ اور جہاں اس سے پہلوتہی کی گئی وہاں معاملہ اس کے برعکس رہا۔

اہمیت

ا س کی اہمیت زندگی کے مختلف دائروں‘ حکومت‘ فوج‘ میدانِ سیاست اور ایسے ہی دیگرمیدانوں سے مربوط ہونے کی بنا پر دوچند ہے۔ لہٰذا نصیحت اور خیرخواہی کے عمل کا صحیح    فہم وادراک ہمارے لیے بے حد ضروری ہے تاکہ حق کی نصیحت اور دعوت الی الخیر کا فریضہ     بہ طریق احسن انجام دیا جاسکے۔

ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دعوت کے منافی ہر موقع سے بچتے ہوئے کیسے ہم ایک دوسرے کو مؤثر نصیحت کریں؟ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کس موقع پر نصیحت واجب ہے اور کہاں اس کی پذیرائی ہوگی‘ کون سااسلوب سب سے مؤثر ہے‘ اوراس کے لیے کون سا وقت مناسب ہے اور دعوت کے عمل پر اس کے مثبت یا منفی اثرات کس حد تک ہوں گے۔

اسلام میں ایک دوسر ے کونصیحت اور حق کی تلقین کوئی نفلی کام نہیں ہے بلکہ وہ شرعی ، دعوتی اور تحریکی کام کا ایک اہم عنصر ہے۔ ابن ماجہ نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے، آپؐ نے اﷲ کی حمد وثنا کی اور فرمایا: ’’لوگو! اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو ، اس سے قبل کہ تم دعا کرو اور میں قبول نہ کروں‘ تم سوال کرو جسے میں پورا نہ کروں اور تم مجھ سے مدد مانگو اور میں تمھاری مدد نہ کروں‘‘۔

دعوت کے لحاظ سے اسلام نے اسے فرد کی ذمہ داری قرار دیا ہے کہ جب بھی اِس کا موقع میسر آئے تواُس پر لازم ہے کہ وہ آگے بڑھے، نصیحت کرے، اور خود بھی نصیحت کو قبول کرے اور بھلائی پر مشتمل اپنی رائے کا اظہار کرے۔ یہ ایک عظیم اصول ہے ۔ نصیحت کو کسی ایک گروہ تک محدود نہ رکھا جائے کیوں کہ نصیحت سے تو کوئی بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔اﷲ کا فرمان ہے:  وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (العصر۱۰۳:۱-۳) زمانے کی قسم‘ انسان درحقیقت خسارے میں ہے‘ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے‘ اور نیک اعمال کرتے رہے‘ اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبرکی تلقین کرتے رہے۔

کسی بھی دعوت کی نشوونما اور اس کا موسم بہار بلکہ اس کی بقا کئی ایک عوامل کی مرہونِ منت ہوتی ہے‘اور ان میں سے ایک اہم عمل ایک دوسرے کو نصیحت ہے۔ جب باہمی نصیحت ایک  صحت مند دائرے میں دی جائے ، اسے مطعون نہ کیا جائے‘ اور اسے نظامِ غالب سے خروج کی کوئی قسم نہ سمجھا جائے‘ اور وہ جاری رہے تو کام فروغ پائے گا، برگ وبار لائے گا اور اسے اکھاڑ پھینکنا مشکل ہو گا۔

ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ جب وہ کسی فرد میں‘ جماعت میں، نظام میں یا ریاست میںکوئی عیب یا انحراف دیکھے تو وہ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل میں حقِ وصیت ادا کرے۔ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط  وَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ  o (اٰل عمران۳:۱۰۴) ’’تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔

ایک بیدار مغز قیادت کا فرض ہے کہ دعوت کے کسی بھی عمل میں نصیحت کو قبول کرے۔وہ قرآن سے آئے ، تنقید سے آئے یا ادراک ِزمانہ سے ۔ اس پر لازم ہے کہ مخالف آرا کو مناسب مقام دے ، ان کی قدر کرے اورخواہ وہ کیسی ہی ہوں انھیں احمقانہ قرار نہ دے ۔ اختلاف کے باوجود دوسری رائے کا قبول کرنا‘ اور اس کا احترام، کام کے فروغ اور اس کے استقرار کے عوامل میں سے ایک اہم عمل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی غیبی اشارہ اور متعلقہ مسئلے کے لیے کوئی رہنمائی اس ذات کی طرف سیہو‘  جس کے ہاتھ میں عمل کا نتیجہ ہے۔ ہر تنقید نقصان دہ یا معیوب نہیں ہوتی۔دوسری رائے کو سننا ، اسے اپنانا اور اس میں موجود خیر کو اخذ کرنا‘ مسلمان کے لیے اہمیت اور افادیت کا حامل ہے۔

دوسری رائے کو نہ سننا اوراس کے مفید پہلو کو قبول نہ کرنا‘ رائے کو روک دینے کی ایک صورت ہے۔ قساوت قلبی کے یہی معنی ہیں۔ یہ عقل کی گمراہی پر منتج ہو سکتا ہے۔ جب اصحابِ فہم وفراست میں سے آخری فرد گمراہ ہو جائے تو پھر اﷲ ہی جانتا ہے کہ اس سے کس قدر ناانصافی اور انحراف واقع ہوگا۔ لہٰذا ہر فرد پر باہمی نصیحت کو اپنانا لازم ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں،  اپنی شخصیت میںاور اپنی سرگرمی میںاپنا رجوع دعوت و شریعت کی طرف رکھے۔

وہ قیادت جو فکری راہ نمائی کے منصب پر فائز ہو‘ اس پر لازم ہے کہ وہ نصیحت ، تنقید اورادارے کی طرف سے اختلاف ِرائے کی حوصلہ افزائی کرے اور دعوت کے حوالے سے   جملہ قوتوں سے استفادہ کرے۔وہ کسی ایک کو بھی اظہار سے نہ روکے، خواہ اس کی کوئی بھی  رائے ہو۔اس کا شعار یہ ہوکہ ’’تمھارے اندر کوئی بھلائی نہیں اگرتم یہ بات (بطور نصیحت یا تنقید) نہ کہو‘ اور ہمارے اندر کوئی بھلائی نہیں اگر ہم اسے نہ سنیں‘‘۔(قول حضرت عمرؓ )

پس ہوش مند قیادت پر واجب ہے کہ وہ باہمی نصیحت کو اس کا اصل مقام دے، اسے اپنے افراد کے دلوں میںپختہ کرے‘ اور اس بارے میں ان کی تربیت کرتی رہے۔قیادت اورافراد کو باہم اس طرح مربوط ہونا چاہیے جس طرح کہ اعصاب جسم کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں تو جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔

شرائط و آداب

نصیحت و خیرخواہی کے لیے متعدد شرائط ہیں جنھیں ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔

درست نیت :ہر نصیحت کرنے والے کا فرض ہے کہ وہ بطریق احسن نصیحت کرے اور جسے نصیحت کی جائے وہ اسے بطریق احسن قبول کرے ۔ نصیحت صرف اور صرف اﷲ وحدہ کے لیے ہو اور اس میں کسی دنیوی غرض کی ملاوٹ نہ  ہو۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلاَ یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاo (الکہف۱۸:۱۱۰) ’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے‘‘۔ لہٰذا نصیحت کو شرح صدر کے ساتھ قبول کیا جائے اور اچھے پہلو کو ہی پیش نظر رکھا جائے‘ نیت پر شک نہ کیا جائے۔

خلوصِ نیت: جو شخص نصیحت کرے اسے چاہیے کہ وہ خلوصِ نیت کو بدرجہِ اتم ملحوظ رکھے۔ رسولؐ اﷲ کاارشاد گرامی ہے:’’یہ بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے ایسی بات کرے جسے وہ سچ سمجھے‘ جب کہ تونے اس کے ساتھ جھوٹ بولا ہو‘‘۔ جب مسلمان کی پوری زندگی سراپا صدق و دیانت ہے تونصیحت کی حالت میںتو سچائی واجب تر ہے۔اس لیے کہ اگر وہ صحیح ہے تواس میں خیر کثیر ہے‘  اور اگر وہ جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے تو یہ باعث ِ فساد بھی ہے اور خیانت کی ایک شکل بھی۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔!

مؤثر دعوت : سلف کا قول ہے:’’ کامل ترین اسلوب کے ساتھ نصیحت کرو، اور نصیحت کسی بھی اسلوب میں ہو اسے قبول کرلو‘‘۔ لہٰذا نصیحت کے لیے بڑا مثالی اسلوب اختیار کیا جانا چاہیے۔ اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ وہ علیٰحدگی میں ہو‘ نرمی و خیرخواہی کے ساتھ ہو‘  اوراس میں احساسِ برتری کا کوئی شائبہ تک نہ ہو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:  فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ o (اٰل عمٰرن۳:۱۵۹) ’’پیغمبرؐ! یہ اﷲ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو،کہ جب تمھاراعزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تواﷲ پر بھروسا کرو‘ اﷲ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔

حقیقت پسندی: یہ ناگزیر ہے کہ ہماری نصیحت مبنی برحقیقت ہو۔ کسی معمولی بات کو نہ تو ہم اہم بنا کر پیش کریں اور نہ کسی اہم بات کو غیراہم۔ معاملے کی اہمیت کا اندازہ اس کے تناسب سے ہی لگائیں۔ ہمیں اسے پیش کرنے ، یااس کی تردید کرنے میں انتہا پسندی اور   مبالغہ آرائی سے اجتناب کرنا چاہیے اور اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہماری نظر میں رہے : وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ  اِلَی اﷲِط ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبِّیْ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُصلے وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ o (الشوریٰ ۴۲:۱۰)’’تمھارے درمیان جس معاملے میں بھی اختلاف ہو، اس کا فیصلہ کرنا اﷲ کا کام ہے ۔ وہی اﷲ میرا رب ہے ، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اس کی طرف میں رجوع کرتا ہوں‘‘۔

کھلے دل سے قبولیت: جب تک نصیحت کا معاملہ شریعت اور اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے دائرے میں ہو ، ہمیں چاہیے کہ ہم اسے شرح صدر کے ساتھ قبول کریں اور سیدنا عمرؓ کا اتباع کریں۔انھوں نے فرمایا: ’’لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرا پسندیدہ وہ شخص ہے جو میرے عیب مجھے تحفے میں بھیجے‘‘۔

امام شافعیؒ نے فرمایا:’’ میں نے کبھی کسی سے اس خواہش کے ساتھ بحث نہیں کیکہ اس سے کوئی غلطی سرزد ہو‘اور میں نے کبھی کسی سے گفتگو نہیں کی مگر یہ چاہتے ہوئے کہ اﷲ تعالیٰ میری اور اس کی زبان پر حق کو ظاہر فرما دے۔ اور میں نے کبھی کسی پر حق اور حجت وارد نہیں کی اور اس نے مجھ سے اسے قبول کر لیا ہو‘مگر یہ کہ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ مجھے اور میں اسے محبوب ہوں۔ اور جب بھی کبھی کسی نے حق کے معاملے میں مجھے بڑا سمجھا تو وہ میری نظروں سے گر گیا اور میں نے اسے دھتکار دیا۔ مجھے یہ بات محبوب ہے کہ لوگ میرے علم سے فائدہ اٹھائیں اس کے بغیر کہ اس میں سے کچھ بھی میری طرف منسوب کیا جائے‘‘۔

اثرات ونتائج

جب ایک دوسرے کو نصیحت کی ادایگی صحیح طریقے اور مذکورہ امور کا خیال رکھ کر کی جائے گی توا س سے عمدہ نتائج برآمد ہو ں گے۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

کام کا فروغ اور اہداف کا حصول: وہ عمل جو نصیحت و خیرخواہی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا وہ بہتر اہداف حاصل کرے گا اور زیادہ موثر ثابت ہوگا۔ یہ اس لیے کہ تمام کے تمام افراد دعوت کے میدان میں ایک شخص کے دل کی طرح ہوتے ہیں اور ان کے مابین مادی یا نفسانی پردے حائل نہیں ہوتے۔

بہتر فیصلے تک رسائی: باہمی نصیحت کے نتیجے میں کسی بھی مسئلے کے بارے میں قیادت کے سامنے مختلف آرا کے سامنے آنے سے کسی بھی پالیسی یا نقطۂ نظر کے مختلف پہلو سامنے آجاتے ہیں جس سے کسی بہتر فیصلے پر پہنچنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ مختلف افراد کی رائے سامنے آنے کا یہ بھی ایک فائدہ ہوتا ہے کہ ہر فرد اپنا کار منصبی اطمینان اور شرح صدر کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ نیز وہ اپنے ماہرانہ مشوروں سے اپنی قیادت کے نظم و نسق کے تحت اور اس کی مدد کے ساتھ اپنی ہمہ پہلو صلاحیت کو بروے کار لاتے ہوئے عمل کرتا ہے اور قیادت کی صحیح او ر مناسب فیصلہ کرنے میں معاونت کرتا ہے۔

اگر کسی وجہ سے کسی مسئلے پر اختلاف رائے ہو جائے لیکن اگر افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کو جذبۂ خیرخواہی کے ساتھ حق بات کی نصیحت اور صبرکی تلقین کی روح رائج ہو‘ اور معاملات میں صدق و دیانت اور شفافیت مقصود ہو تو اختلاف رائے کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے‘ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ مخالفانہ رائے کو نہ دبایا جائے بلکہ نقطۂ نظر کو جانا جائے۔ البتہ اس کا اہتمام ہو کہ چھوٹا بڑے کا احترام کرے اور بڑا چھوٹے سے شفقت کا مظاہرہ کرے‘ اور جب مسئلے کی کوئی راہ نکل آئے تو پھر اس پر شرح صدر ہونا چاہیے۔ دوبارہ اسے اچھالا نہیں جانا چاہیے ‘ اور اختلاف کو وہیں دفن کر کے متفقہ فیصلے کو لے کر چلنا چاہیے۔ اس طرح سے اختلافی مسائل کا بخوبی احاطہ کیا جاسکتا ہے۔

روح رفاقت کو تقویت: جب ہر فرد کے پیش نظر اﷲ کی رضا کا حصول ہو‘او ر افراد اور قیادت کے مابین خیرخواہی کا جذبہ کارفرما ہو‘ اور ہر فرد اپنے دل کی بات بلاتردد کہہ سکے،جب کہ اس کو خدا کا خوف بھی دامن گیر ہو تو ایسی صورت میں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس ہوگا۔ہوش مند قیادت اپنے افراد میں روحِ رفاقت کو فروغ دیتی ہے اور اپنے اور کارکنوں کے درمیان کسی بھی  نوعیت کے فاصلے پیدا نہیں ہونے دیتی۔ یہ روحِ رفاقت نصیحت و خیرخواہی سے ہی پروان چڑھتی ہے۔

اخوت و یک جہتی کا فروغ: جب باہم نصیحت کے عمل کے ساتھ حلقہء دعوت، قیادت بھی اور افراد بھی، باہم مربوط ہوجائیں توحقیقی روح اخوت فروغ پاتی ہے۔  وہ سب مل کرکام اور افراد دعوت کے معیار کو بلند کرتے ہیں اور سب کے سب ایک ہی شخص کا دل بن جاتے ہیں ۔ یک جان یک قالب ہوجاتے ہیں۔ ہر فرد آئینے کی مانند ہو جاتا ہے جس میں دوسروں کو اپنی ذات نظر آتی ہے ‘اور ہرشخص خواہ فرد ہو یا قیادت‘ دوسروں کے ہاںاپنے لیے بڑی محبت کا احساس پاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں باہمی اخوت و یک جہتی فروغ پاتی ہے‘ باہمی اعتماد بڑھتا ہے‘ ہر سطح پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور مجموعی طور پر دعوت کا کام تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔ یوں نصیحت و خیرخواہی فریضہ اقامت دین کی احسن طور پر ادایگی کے لیے مہمیزکا کردار ادا کرتی ہے اور ہرفرد دل و جان سے اس فرض کی ادایگی میں جُت جاتا ہے۔ (المجتمع ‘ ۲۵ مئی ۲۰۰۲ئ)