لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ o اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ یَّقْدِرَ عَلَیْہِ اَحَدٌ o (البلد ۹۰:۴-۵)
اسلام دین فطرت ہے۔ وہ انسان کے جسمانی اور رُوحانی دونوں فطری تقاضوں کی تکمیل پر یکساں توجہ مبذول کرتا ہے۔ نہ وہ انسان کو مادی لذتوں میں کھو جانے کی اجازت دیتا ہے اور نہ اُن سے کلیتاً قطع تعلق کر کے صرف رُوحانی لطافتوں میں محو ہوجانے کی تلقین کرتا ہے۔ اس سورہ میں اُن اعضا اور جوارح کا ذکر کرنے کے بعد جو انسان کو اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے مرحمت فرمائے گئے ہیں‘ اُسے تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ تجھے عقاب کی قوتِ پرواز دی گئی ہے‘ اس سے کام لیتے ہوئے تمھارا فرض ہے کہ اخلاقِ حسنہ کی بلندیوں کو سر کرنے کے لیے پرکُشار ہو۔ اس مقصد کے لیے جو اعمالِ حسنہ ناگزیر ہیں اُن کا ذکر بھی کر دیا: غلاموں کو آزاد کرنا‘ قحط سالی کے دنوں میں فاقہ زدہ لوگوں کی خوراک کا اہتمام کرنا‘ یتیموں اور مسکینوں پر شفقت کرنا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایمان کے چراغ کو روشن رکھنا ‘ خود صبر کرنا اور دوسروں کو صبر اور ہمدردی کی تلقین کرنا۔ یہ وہ اعمال ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی منزل پا لیتا ہے لیکن جو غریبوں کی مادی ضروریات کو استطاعت کے باوجود پورا کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتا‘ وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ (ضیاء القرآن‘ ج ۵‘ ص ۵۶۳)
کَبَدْ کے لفظی معنی محنت و مشقت کے ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی فطرت سے ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ اول عمرسے آخر تک محنتوں اور مشقتوںمیں رہتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ابتداے حمل سے رحمِ مادر میں محبوس رہا۔ پھر ولادت کے وقت کی محنت و مشقت برداشت کی‘ پھر ماں کا دودھ پینے‘ پھر اُس کے چھوٹنے کی محنت‘ پھر اپنے معاش اور ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی مشقت‘ پھر بڑھاپے کی تکلیفیں ‘پھر موت‘ پھر قبر‘ پھر حشر اور اس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال کی جواب دہی‘ پھر جزا و سزا۔ یہ سب دَور اُس پر محنتوں ہی کے آتے ہیں‘ اور یہ محنت و مشقت اگرچہ انسان کے ساتھ مخصوص نہیں‘ سب جانور بھی اس میں شریک ہیں مگر اس حال کو انسان کے لیے بالخصوص اس لیے فرمایا کہ اول تو وہ سب جانوروں سے زیادہ شعور وا دراک رکھتا ہے اور محنت کی تکلیف بھی بقدرِ شعور زیادہ ہوتی ہے۔ دوسرے‘ آخری اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہوکر عمربھر کے اعمال کا حساب دینا ہے‘ وہ دوسرے جانوروں میں نہیں…
بعض علما نے فرمایا کہ کوئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے باوجودیکہ وہ جسم اور جثّہ میں اکثر جانوروں کی نسبت ضعیف و کمزور ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ انسان کی دماغی قوت سب سے زیادہ ہے اسی لیے اُس کی تخصیص کی گئی۔ (معارف القرآن‘ ج ۸‘ ص ۷۵۰)
انسان کے مشقت میںپیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اِس دنیا میں مزے کرنے اور چین کی بانسری بجانے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے‘ بلکہ اُس کے لیے یہ دنیا محنت اور مشقت اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے اور کوئی انسان بھی اِس حالت سے گزرے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ شہر مکہ گواہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے اپنی جان کھپائی تھی تب یہ بسا اور عرب کا مرکز بنا۔ اس شہر مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت گواہ ہے کہ وہ ایک مقصد کے لیے طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں‘ حتیٰ کہ یہاں جنگل کے جانوروں کے لیے امان ہے مگر اُن کے لیے نہیں ہے۔
ہر انسان کی زندگی ماں کے پیٹ میں نطفہ قرار پانے سے لے کر موت کے آخری سانس تک اِس بات پر گواہ ہے کہ اُس کو قدم قدم پر تکلیف‘ مشقت‘ محنت‘ خطرات اور شدائد کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس کو تم بڑی سے بڑی قابلِ رشک حالت میں دیکھتے ہو وہ بھی جب ماں کے پیٹ میں تھا تو ہر وقت اِس خطرے میں مبتلا تھا کہ اندر ہی مر جائے یا اس کا اسقاط ہو جائے۔ زچگی کے وقت اُس کی موت اور زندگی کے درمیان بال بھر سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ پیدا ہوا تو اِتنا بے بس تھا کہ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہوتا تو پڑے پڑے ہی سسک سسک کر مرجاتا۔ چلنے کے قابل ہوا تو قدم قدم پر گرا پڑتا تھا۔ بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک ایسے ایسے جسمانی تغیرات سے اس کو گزرنا پڑا کہ کوئی تغیر بھی اگر غلط سمت میں ہوجاتا تو اس کی جان کے لالے پڑ جاتے۔ وہ اگر بادشاہ یا ڈکٹیٹربھی ہے تو کسی وقت اِس اندیشے سے اُس کو چین نصیب نہیں ہے کہ کہیں اس کے خلاف کوئی سازش نہ ہوجائے۔ وہ اگر فاتح عالم بھی ہے تو کسی وقت اِس خطرے سے امن میں نہیں ہے کہ اس کے اپنے سپہ سالاروں میں سے کوئی بغاوت نہ کر بیٹھے۔ وہ اگر اپنے وقت کا قارون بھی ہے تو اس فکر میں ہر وقت غلطاں و پیچاں ہے کہ اپنی دولت کیسے بڑھائے اور کس طرح اس کی حفاظت کرے۔ غرض کوئی شخص بھی بے غَل و غَش چَین کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہے‘ کیونکہ انسان پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن‘ج۶‘ ص ۳۳۹)
]اس جدوجہد اور مشقت کی نوعیت کیا ہے؟[ ایک شخص اس لیے دوڑ دھوپ کرتا ہے کہ اُسے زندہ رہنے کے لیے ایک لقمہ اور پہننے کے لیے کپڑے کا ایک ٹکڑا میسر ہو۔ دوسرا شخص اِس لیے جدوجہد کرتا ہے کہ ایک ہزار کے دو ہزار اور ۱۰ ہزار بنائے! ایک اور شخص اقتدار و فرماں روائی یاجاہ و منصب کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ ایک اور شخص ہے جس کی ساری جدوجہد راہِ خدا میں ہوتی ہے۔ ایک اور شخص ہے جو اپنی خواہشاتِ نفس کی تسکین کے لیے مشقتیں جھیلتا ہے۔ ایک اور شخص ہے جو اپنے عقیدے اور اپنی دعوت کے لیے زحمت و مشقت برداشت کرتا ہے۔ ایک شخص دوزخ کی طرف چلتے ہوئے مشقتیں جھیلتا ہے۔ دوسرا جنت کی راہ میں سعی و جہد کرتا ہے۔ ہر کوئی اپنا بوجھ اٹھاتا اور محنت و مشقت کے ساتھ اپنا راستہ طے کرتا ہوا اپنے رب سے جا ملتا ہے۔ وہاں بدبختوں اور نافرمانوں کے لیے شدید ترین مصائب ہیں اور نیک بختوں اور فرماں برداروں کے لیے عظیم ترین راحت!
زحمت و مشقت دنیوی زندگی کی طبیعت و فطرت ہے۔ البتہ اس کی شکلیں اور اس کے اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن انجامِ کار ہے زحمت و مشقت ہی۔ سب سے زیادہ خسارے میں وہ شخص ہے جو حیاتِ دنیا میں زحمتیں اور مشقتیں جھیلتا ہے اور اس کے نتیجے میں آخرت میں ان سے زیادہ تلخ اور شدید مصائب و شدائد سے دوچار ہوتا ہے‘ اور کامیاب ترین انسان وہ ہے جو اپنے رب کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے تاکہ جب اس کے پاس پہنچے تو وہ زندگی کی مشقتوں سے محفوظ ہو جائے اور اللہ کے سائے میں عظیم ترین راحت سے ہم کنار ہو۔
آخرت کی اِس جزا کے علاوہ مختلف قسم کی کوششوں اور مشقتوں پر دنیا میں بھی کچھ جزا مترتب ہوتی ہے۔ جو شخص کسی عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کرتا ہے اُس کی طرح وہ شخص نہیں ہو سکتا جو کسی پست اور حقیر مقصد کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ دل کی طمانیت اور جان و مال کی قربانی پر راحت و سکون محسوس کرنے میں دونوں شخص برابر نہیں ہوسکتے۔ جو شخص زمین کے بندھنوں سے آزاد ہو کر جدوجہد کرتا ہے یا اِس لیے جدوجہد کرتا ہے کہ زمینی بندھنوں سے آزاد ہو‘ اُس کی طرح وہ شخص کبھی نہیں ہو سکتا جو حشرات الارض اور کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین سے چمٹتا اور زمین کی دلدل میں دھنسنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ جو شخص دعوت کی راہ میں جان دیتا ہے اُس کی مانند وہ شخص نہیں ہو سکتا جو اپنی نفسانی خواہشات کے لیے جان دیتا ہے۔ دونوں اپنی جدوجہد کے شعور اور اِن مشقتوں کے سلسلے میں جو وہ برداشت کرتے ہیں‘ یکساں نہیں ہوسکتے۔ (فی ظلال القرآن‘ ترجمہ: سید حامد علی‘ ۳۰ واں پارہ‘ ص ۲۵۴-۲۵۵)
لفظ اِنْسَانٗاگرچہ عام ہے اور اس کے عام ہونے کے کئی فائدے ہیں لیکن یہاں اس عام سے مراد خاص طور پر قرآن کے اولین مخاطب بنی اسماعیل بالخصوص قریش ہیں۔ سرزمین حرم میں ان کے بزرگ اجداد کی آمد اور سکونت اور ان کی ذریت کی ابتدائی تاریخ کا حوالہ دے کر قریش کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ آج اس سرزمین میں تم کو جو فراخی ٔ رزق و رفاہیت حاصل ہے یہ نہ سمجھو کہ یہی حال ہمیشہ سے رہا ہے یا یہ حالت تمھاری ذہانت و قابلیت کی بدولت ہوئی ہے۔ جس زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بسایا ہے‘ اس وقت یہ علاقہ ایک بالکل بنجر‘ بے آب و گیاہ اور غیرمامون علاقہ تھا۔ یہاں کے لوگوں کی زندگی خانہ بدوشانہ اور نہایت مشقت کی زندگی تھی۔ معاش کا انحصار گلہ بانی پر تھا اور ہر شخص اپنی زندگی اور اپنے گلے کی حفاظت کا ذمہ دار خود تھا۔ لوگوں کی حفاظت کے لیے کوئی نظامِ عدل اور قانون موجود نہیں تھا لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہاں بسایا تو ان کے اور ان کی اولاد کے لیے یہ دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس وادی غیرذی زرع میں ان کو رزق و فضل سے بھی بہرہ مند فرمائے اور امن سے بھی متمتع رکھے۔ یہ اسی دعا کی برکت ہے کہ رزق کے دروازے بھی کھلے اور بیت اللہ کی تولیت اور اشہرِحرم کی امن بخشی کی بدولت سفر اور تجارت کی راہیں بھی فراخ ہوئیں جس سے ان کی معاشی حالت مشقت کی جگہ رفاہیت و خوش حالی میں تبدیل ہو گئی۔ یہاں تک کہ آج تم اس کے غرور میں نہ خدا کو خاطر میں لا رہے ہو نہ اس کے رسول کو بلکہ یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہ جو کچھ تمھیں حاصل ہے یہ تمھارا پیدایشی حق ہے‘ تم اس میں ہرقسم کے تصرف کے مجاز ہو‘ کسی کی طاقت نہیں ہے کہ تمھارے اس عیش اور اس آزادی میں خلل انداز ہوسکے۔
قریش کی اس غلط فہمی کو دُورکرنے کے لیے قرآن نے جگہ جگہ حرم کی اس تاریخ کی یاددہانی کرکے ان کو متنبہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اللہ کی بخشی ہوئی نعمت پاکر طغیان میں مبتلا ہوگئے تو یاد رکھیں کہ وہ خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی ماریں گے…
مقصود اس تفصیل سے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ آج قریش کو جو مال و جاہ اور جو سطوت و اقتدار بھی حاصل ہے ‘اس میں نہ ان کی ذاتی سعی و تدبیر کو کوئی دخل ہے اور نہ ان کے خاندانی استحقاق کو بلکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور بیت اللہ کی برکت ہے جس سے وہ بہرہ مند ہو رہے ہیں‘ اور یہ برکت ان کے لیے غیرمشروط نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی‘ بیت اللہ کے مقصد کی تکمیل اور ان کے اندر مبعوث ہونے والے رسول پر ایمان کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر وہ ان شرطوں کے پابند رہیں گے تو ان کو یہ عزت و سرفرازی حاصل رہے گی ورنہ یہ سب چھن جائے گی۔ ]اُمت مسلمہ اُمت وسط ہے‘ اس کی سربلندی کے لیے بھی یہی مطالبہ ہے[۔ (تدبر قرآن‘ ج۸‘ ص ۳۷۰-۳۷۲)
(اس مشقت کا مقتضا یہ تھا کہ اس میں احساس‘ عجز و درماندگی اور زیادہ پیدا ہوتا رہتا) مراد یہ ہے کہ انسان کی ساخت و ترکیب ہی ایسی رکھ دی گئی ہے کہ اسے ساری عمر دقتوں کا‘ اور کسی نہ کسی اعتبار سے مصیبتوں ہی کا سامنا رہے۔ آج دوکان ٹوٹ گئی‘ کل کاروبار بیٹھ گیا۔ آج فلاں دشمن ستا رہا ہے‘ کل فلاں مرض نے آدبایا۔ کبھی خود بیمار‘ کبھی بیوی بچہ بیمار۔ کبھی اس عزیز کی موت کا صدمہ‘ کبھی اس دوست کی بے وفائی کا رنج۔ ساری عمر غم و صدمات ہی کے اُلٹ پھیر میں گزر جاتی ہے اور انسان کو اپنے عجز و بے بسی کا مشاہدہ قدم قدم پر ہوتا رہتا ہے۔ اس سے طبیعت میں قدرتاً شکستگی پیدا ہونی چاہیے‘ اور خودی و خودبینی کو تو پاس بھی نہ پھٹکنا چاہیے۔ لیکن کافر ان سارے واقعات سے مطلق سبق نہیں لیتا۔ مومن کو تو ہر شے میں حکمت الٰہی کی جھلک نظرآجاتی ہے‘ اور وہ ربوبیت مطلقہ پر اعتماد و اطمینان رکھ لیتا ہے۔ لیکن کافر کو دماغی الجھن اور قلبی ادھیڑبُن سے کسی حال میں مفرنہیں‘ اور نہ اُس کی حرص و ہوس کی آگ کبھی بھی بجھتی ہے۔ الاِنْسَانَ‘ انسان سے یہاں بھی مراد کافر‘ ناشکرا انسان ہے جسے زندگی کے کسی پہلو میں بھی چین نہیں۔ (تفسیر مولانا عبدالماجد دریابادی‘ ص ۱۱۹۵)
اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ یَّقْدِرَ عَلَیْہِ اَحَدٌ o (۹۰:۵)
انسان کو اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ تمھاری جو یہ خواہش ہے کہ دنیا میں ہمیشہ راحت ہی راحت ملے‘ کسی تکلیف سے سابقہ نہ پڑے‘ یہ خیال خام ہے جو کبھی حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہرشخص کو دُنیا میں محنت و مشقت اور رنج و مصیبت پیش آئے‘ اور جب مشقت و کلفت پیش آنا ہی ہے تو عقل مند کا کام یہ ہے کہ یہ محنت و مشقت اُس چیز کے لیے کرے جو اس کو ہمیشہ کام آئے اور دائمی راحت کا سامان بنے اور وہ صرف ایمان اور طاعت حق میں منحصرہے۔ آگے غافل اور آخرت کے منکر انسان کی چند جاہلانہ خصلتوں کا ذکر کر کے فرمایا: اَیَحْسَبُ اَنْ لَّمْ یَرَہٗٓ اَحَدٌ‘ یعنی کیا یہ بیوقوف یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے اعمالِ بد کو کسی نے دیکھا نہیں‘ اس کو جاننا چاہیے کہ اس کا خالق اُس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ (معارفِ القرآن‘ ج ۸‘ ص ۷۵۰)
یعنی کیا یہ انسان جو اِن حالات میں گھرا ہوا ہے ‘ اِس غرّے میں مبتلا ہے کہ وہ دنیا میں جو کچھ چاہے کرے‘ کوئی بالاتر اقتدار اُس کو پکڑنے اور اس کا سر نیچے کر دینے والا نہیں ہے؟ حالانکہ آخرت سے پہلے خود اِس دنیا میں بھی ہر آن وہ دیکھ رہا ہے کہ اُس کی تقدیر پر کسی اور کی فرمانروائی قائم ہے جس کے فیصلوں کے آگے اس کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ زلزلے کا ایک جھٹکا‘ ہوا کا ایک طوفان‘ دریائوں اور سمندروں کی ایک طغیانی اُسے یہ بتادینے کے لیے کافی ہے کہ خدائی طاقتوں کے مقابلے میں وہ کتنا بل بوتا رکھتا ہے۔ ایک اچانک حادثہ اچھے خاصے بھلے چنگے انسان کو اپاہج بنا کر رکھ دیتا ہے۔ تقدیر کا ایک پلٹا بڑے سے بڑے بااقتدار آدمی کو عرش سے فرش پر لاگراتا ہے۔ عروج کے آسمان پر پہنچی ہوئی قوموں کی قسمتیں جب بدلتی ہیں تو وہ اُسی دنیا میں ذلیل و خوار ہوکر رہ جاتی ہیں جہاں کوئی اُن سے آنکھ ملانے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔ اِس انسان کے دماغ میں آخر کہاں سے یہ ہوا بھر گئی کہ کسی کا اس پر بس نہیں چل سکتا؟ (تفہیم القرآن‘ ج ۶‘ ص ۳۳۹-۳۴۰)۔ (ترتیب: امجد عباسی)