اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًاط وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ o (سبا۳۴:۱۳)
اے آل دائود! عمل کرو شکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں۔
سورئہ سبا میں حضرت دائود و سلیمان علیہما السلام پر اپنی نعمتوں اور احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے آل دائود کو شکرگزاری کے ساتھ عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ شکر کی مختصر توضیح کے لیے اس آیت کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ قرآن میں لفظ ’شُکر‘اسی آیت میں استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کے مشتقات اور صیغے تو بیسیوں آیتوں میں آئے ہیں لیکن لفظ شُکر اسی آیت میں ہے۔ دوسرا لفظ ’شُکور‘ (پیش کے ساتھ) سورۃ الفرقان اور سورۃ الدھر میں آیا ہے:
وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے، یا شکرگزار ہونا چاہے۔ (الفرقان ۲۵:۶۲)
ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ (الدھر ۷۶:۹)
’شکر‘قرآن کریم کا ایک وسیع المعنی اور وسیع الاطراف لفظ ہے۔ اس تشریح میں میرا مقصد تمام معانی اور تمام اطراف پر سیرحاصل گفتگو کرنا نہیں ہے، بلکہ ذیل کے چند نکات کی مختصر توضیح مقصود ہے: شکر کے معنی،شکر کی ضد ،شکر کی قسمیں ،اللہ کا شکر ،بندوں کا شکر ، شکر کی نسبت اللہ کی طرف ، شکر کی نسبت بندوں کی طرف ، صبر اور شکر کا اجتماع ، امتحان شکر ،شکر کا دنیوی صلہ۔
شکر کے معنی: ایک معنی یہ ہیں: تصور النعمۃواظھارھا ،نعمت کا تصور اور اس کا اظہار۔ اس جانور کو جو فربہ ہو دابَّۃ شَکُوْرٌ کہتے ہیںکیونکہ وہ اپنی فربہی سے اپنے مالک کی مہربانی اور اس کے احسان کا اظہار کرتا ہے، یعنی یہ کہ وہ اس کو اچھا کھلاتا پلاتا اور اس کی اچھی دیکھ ریکھ کرتا ہے۔ دوسرا معنی ہے الامتلاء من ذکر المنعم علیہ ،محسن کے ذکر سے زبان کا تر ہونا اور دل کا مملو ہونا۔ عین شکری وہ آنکھ جو آنسوئوں سے بھری ہوئی ہو۔ (مفردات راغب)
ان دونوں معنوں کے لحاظ سے اللہ کے شکر کایہ مفہوم مستنبط ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ کی نعمت کا احساس ہو اور وہ اس کا اظہار بھی کرے۔ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(الضحیٰ ۹۳:۱۱) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ نیز یہ کہ انسان کی زبان اللہ کے ذکر سے تر اور اس کا دل اس کی نعمت کا معترف رہے۔
اگر تم کفر کرو گے تو اللہ تم سے بے نیاز ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرکرو تو اسے وہ تمھارے لیے پسند کرتا ہے۔ (۳۹:۷)
اس آیت میں کفر، کفرانِ نعمت اور ناشکری کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ اس کے بعد ہی شکر کا ذکر ہے۔ اس طرح کی متعدد آیتیں قرآن کریم میں ہیں۔
شکر کی قسمیں: شکر کی تین قسمیں ہیں: ۱- زبان کا شکر ۲- دل کا شکر ۳-اعضا و جوارح کا شکر۔ مفردات امام راغب میں ہے: شکر کی تین قسمیں ہیں: دل کا شکر، یہ نعمت کا احساس ہے، اور زبان کا شکر محسن کی مدح و ثنا ہے، اور باقی تمام اعضا کا شکر، یہ نعمت کی مکافات ہے، بقدر استحقاقِ منعم۔ مکافاتِ نعمت کا مطلب یہ ہے کہ محسن کے احسان کا حق ادا کیا جائے۔ جس درجے کا محسن ہوگا، اسی درجے کا حقِ احسان ہوگا۔
اللّٰہ کا شکر: تمام نعمتوں کا حقیقی منعم و محسن اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے اس کا شکر ہر انسان پر واجب ہے۔ اللہ کا سب سے بڑا شکر اس پر ایمان لانا ہے اور یہ وہ شکر ہے کہ اس کے بغیر کوئی شخص اللہ کے غضب اور اس کی دوزخ سے نجات نہیں پاسکتا۔ شکر کی ضد، کفرانِ نعمت ہے اور سب سے بڑی ناشکری اس پر ایمان نہ لانا ہے۔ یہ ناشکری وہ حقیقی کفر ہے جوانسان کو ابدی لعنت میں گرفتار کردیتا ہے:
جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہوگی اور نہ انھیں پھر کوئی مہلت دی جائے گی۔ (البقرہ ۲:۱۶۱-۱۶۲)
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ نے کفار و مشرکین کو اپنی نعمتیں یاد دلائی ہیں اور پھر ان سے سوال کیا ہے: اَفَلَا یَشکُرُوْنَ (پھر کیا یہ شکرادا نہیں کرتے؟) ۔سورئہ یٰس میں دو بار یہ سوال کیا ہے (یٰسٓ ۳۶:۳۵‘ ۷۳)۔ کہیں لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ کا صیغہ ہے۔ کہیں لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ کا۔ کہیں قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ،کہیں فَلَوْلَا تَشْکُرُوْنَ اور کہیں وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ ___ ان تمام مقامات میں جو دعوت ان کو دی گئی ہے وہ دعوت توحید ہے۔ اللہ پر ایمان لانا اور اسی کو الٰہ واحد تسلیم کرنا، یہ ہے اللہ رب العزت کا وہ شکر جس کے بغیرنہ کوئی انسان دائرئہ کفروشرک سے باہر نکل سکتا اور نہ اللہ کی رحمت و جنت کا مستحق ہوسکتا ہے۔
انبیاے کرام کی دعوت کا ایک جز: انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں کو توحید اور بندگیِ رب کی جو دعوت دی ہے اس کا ایک جز دعوتِ شکرگزاری بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ’’اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو‘‘۔ (العنکبوت ۲۹:۱۷)
پس اے لوگو۱ اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اسے کھائو اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو۔ اگر تم واقعی اسی کی بندگی کرنے والے ہو۔ (النحل ۱۶:۱۱۴)
یہی مطالبہ مسلمانوں سے بھی کیا گیا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمھیں بخشی ہیں انھیں بے تکلف کھائو اور اللہ کا شکر ادا کرو‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۷۲)
شکر: حکمت کا اولیں ثمرہ : اللہ نے حضرت لقمان کو حکمت عطا کی اور ساتھ ہی اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔ ’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکرگزار ہو۔ جو کوئی شکر کرے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔ اور جو کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز ہے اور آپ سے آپ محمود ہے‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۲)
حضرت سلیمانؑ کی توفیق شکر کی دعا: اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو محیرالعقول نعمتیں عطا فرمائی تھیں، ان میں ایک یہ تھی کہ وہ حشرات الارض کی زبان سمجھتے تھے۔ چیونٹیوں کے سردار کی گفتگو سن کر انھوں نے یہ دعا مانگی:
اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔(النمل ۲۷:۱۹)
اللّٰہ کی بے شمار نعمتیں: قرآن کریم نے یہ حقیقت بھی انسانوں کے سامنے رکھ دی ہے کہ اللہ کی نعمتیں اور اس کے احسانات ناقابلِ شمار ہیں: ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کرنہیں سکتے‘‘(ابراھیم ۱۴:۳۴)۔ ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ (النحل ۱۶:۱۸)
ان آیات میں غفور اور رحیم کی دو صفتیں قابلِ غور ہیں۔ کچھ ایسا سمجھ میں آتا ہے کہ یہ ناشکروں کی تنبیہہ کے لیے بھی ہیں اور شکرگزاروں کی تسکین کے لیے بھی۔ تنبیہہ یہ ہے کہ جس مالک کے اپنے بندوں پر اتنے احسانات ہیں کہ وہ ان کا احاطہ نہیں کرسکتے، جن کی زندگیاں گود سے گور تک اس کے احسانات میں ڈھکی ہوئی ہیں اور جس نے ان کے بقا و ارتقا کے تمام سامان مہیا کررکھے ہیں، کیا ان کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ ایسے مہربان مالک کی بغاوت پر آمادہ ہوں‘ اس کے حقوق میں دوسروں کو شریک کریں اور ناشکری کے رویے پر اڑے رہیں۔ ان کومتنبہ رہنا چاہیے کہ وہ غفور اوررحیم ہے، اس لیے وہ ان کو توبہ و اصلاح کی مہلت دے رہا ہے۔ شکرگزاروں کی تسکین یہ ہے کہ اگرچہ وہ اس کی بے شمار نعمتوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتے لیکن وہ غفور اور رحیم ہے، اس لیے ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرے گا اور انھیں اپنے دامنِ رحمت میں چھپالے گا۔
ھر نیکی شکر ھے: پہلے گزر چکا کہ شکر کی تین قسمیں ہیں اور نیکی کا ہر کام اللہ کی نعمت ہے خواہ اس کا تعلق قلب سے ہو یا زبان سے یا دوسرے اعضا و جوارح سے۔ اس نعمت کا شکریہ اس کو انجام دینا ہی ہے۔ اس لیے تمام عبادتیں، شکر ہیں اور ہر نیکی جو مسلمان خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے، شکرہے۔ رمضان کے روزوں کو نعمت قرآن کا شکریہ، خود اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے: وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (اور تاکہ تم شکرگزار بنو)، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھیں قرآن کی جو عظیم الشان نعمت عطا کی ہے۔ رمضان کے روزے اس کا شکریہ بن جائیں۔ عبدالرحمن سلمیٰ نے کہا: ’’نماز شکر ہے، روزے شکر ہیں اور ہرنیک کام جو تم اللہ کے لیے کرتے ہو، شکر ہے، اور افضل شکر اللہ کی حمد ہے‘‘۔ (مختصر تفسیر ابن کثیر بحوالہ ابن جریر)
بندوں کا شکر: اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں ایسی ہیںجو بندوں کو دوسرے بندوں کے واسطے اور ذریعے سے ملتی ہیں۔ اس لیے ان واسطوں اور ذریعوں کا بھی علی قدر مراتب (جس کا جو درجہ و مرتبہ ہو) شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بندوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ کیونکہ ہر انسان کو اس کے وجود اور ہستی کی نعمت، والدین ہی کے واسطے سے ملتی ہے۔ والدین ہی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ ان ہی دونوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسانوں کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔ (لقمان ۳۱:۱۴)
والدین کے حقوق اور ان کا شکریہ، ایک مستقل موضوع ہے۔ اس لیے اس کی تفصیل ہم یہاں پیش نہیں کرتے اس کے لیے سورئہ لقمان اور سورئہ بنی اسرائیل کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ احادیث نبوی میں بھی اس کی تفصیل موجود ہے۔
بندوں کا شکر ادا کرنے کی اھمیت: ایک انسان جب دوسرے انسان پر کوئی احسان کرتا ہے تو شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ محسن کا شکریہ ادا کیا جائے۔ دین میں اس کی اہمیت یہ ہے کہ جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا، اللہ اس سے اپنے شکریے کو بھی قبول نہیں کرتا۔ امام ترمذی نے ابواب البر والصلۃ میں حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت نقل کی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگوں کا شکرگزارنہیں، وہ اللہ کا شکرگزاربھی نہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں: جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔
اس باب میں اشعث بن قیس اور نعمان بن بشیرؓ کی حدیث بھی ہے۔ ان حدیثوں سے لوگوں کے شکریے کی اہمیت پوری طرح واضح ہو گئی۔ قرآن کریم میں ایک کلید کے طور پر کہا گیا ہے: ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَانُ (الرحمٰن ۵۵:۶۰) ’’نیکی کا بدلہ، نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے‘‘۔ جانور بھی اپنے محسن کا احسان مانتے ہیں۔ اب اگر انسان اپنے محسن کا احسان نہ مانے تو وہ جانورسے بھی بدتر ہوا۔
شکریہ ادا کرنے کے طریقے: کسی کے احسان کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کے یہاں ہدیتاً کوئی چیز بھیجے تو جواب میں ہدیتاً اس کے یہاں کوئی چیز بھیجنی چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے اور ہدیہ دینے والے کو اس کا صلہ بھی دیا کرتے تھے۔ اگر آدمی احسان کا بدلہ اسی طرح کے احسان سے نہ دے سکے تو زبان سے اپنے محسن کی تعریف کرے اور لوگوں میں اس کے احسان کا تذکرہ کرے۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکریے کی ایک مختصر دعا بھی سکھائی ہے۔
حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ کوئی نیکی کی جائے اور وہ نیکی کرنے والے سے کہے: جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا ’’اللہ تمھیں اس کا اچھا بدلہ دے، اس نے مبالغہ کے ساتھ اپنے محسن کی ثنا کی۔ (جمع الفوائد بحوالہ ترمذی)
دوسری احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسن کی مدح و ثنا کو اس کا شکریہ قرار دیا ہے۔ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا کی مختصرسی دعا کو اگر کوئی سمجھے تو یہ اتنا بڑا بدلہ ہے کہ قیمتی سے قیمتی دنیوی ہدیہ بھی اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرما لے اور اپنی طرف سے اس کا بدلہ دے تو اس کی قیمت کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔
شکر کی نسبت اللّٰہ کی طرف: شاکر اور شکور، اللہ تعالیٰ کی صفت بھی ہے۔ شکر کی نسبت جب اللہ کی طرف ہوتی ہے تو اس کا مطلب ’قدردانی اور ثواب رسانی‘ہوتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ فرماں برداری اور نیک کام کی قدر کرتا اور اس کا انمول صلہ دیتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ہے:
یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سعی کرلے اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔ (۲:۱۵۸)
آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکرگزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑا قدردان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔(۴:۱۴۷)
اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرٌ o (فاطر ۳۵:۳۴) یقینا ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے۔
شکر کی نسبت بندوں کی طرف: بندوں کو شاکر اور شکور کہنے کا مطلب ’اعتراف نعمت اور احسان مندی‘ ہوتا ہے یعنی بندہ اپنے مالک کی نعمتوں اور اس کے احسانات کا معترف اور جذبۂ شکروسپاس سے سرشار ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات سے ایک پوری اُمت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اس کو منتخب کرلیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔ (النحل ۱۶:۱۲۰-۱۲۱)
حضرت نوحؑ کے بارے میں فرمایا: ’’اور نوح ایک شکرگزار بندہ تھا‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳)
بیک وقت صبروشکر کا اجتماع: صبر کا تعلق عام طور پر بلاومصیبت سے ہوتا ہے اور شکر کا عافیت و آرام سے۔ لیکن ایک چیز دو مختلف اعتبارات سے بیک وقت مصیبت بھی ہوتی ہے اور نعمت بھی۔ ایک مومن و مسلم پر اللہ کی طرف سے جو مصیبت آتی ہے، وہ دنیا کے لحاظ سے مصیبت ہوتی ہے اور اجرِ آخرت کے اعتبار سے نعمت ___ ایسے موقع پر صبر اور شکر کا اجتماع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے بعض ایسے بندے بھی ہوتے ہیں جو غلبۂ محبت الٰہی میں مصیبت سے لذت حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اسی کیفیت کے اظہار کے لیے کہا گیا ہے: ع ہرچہ از دوست می رسد نیکواست، یعنی دوست [اللہ] کی طرف سے جو چیز بھی پہنچے، وہ اچھی ہے۔ قرآن کریم میں صبّار اور شکور کا اجتماع شاید اسی کی طرف اشارہ ہے:
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ o (ابراھیم ۱۴:۵) ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔
یہ بات ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ کہی گئی ہے۔ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں، ابویعلیٰ نے اپنی مسند میں اور حاکم نے اپنی مستدرک میں ابوسعید خدریؓ سے مرفوعاً یہ روایت کی ہے کہ سخت ترین مصیبتیں انبیا ؑپر آتی ہیں۔ اس کے بعد اللہ کے نیک بندوں (صالحین) پر۔ اس حدیث کا یہ ٹکڑا قابلِ غور ہے۔
تم میں کوئی فرد عطاء و نعمت سے جتنا خوش ہوتا ہے، ان میں کا ایک فرد اس سے زیادہ بلاومصیبت سے خوش ہوتا تھا۔ (مسندامام اعظم مع شرح ملا علی قاری)
بلاومصیبت انبیاے کرام علیہم السلام کے لیے رفع درجات کا موجب اور اولیا کے لیے کفارۂ سیئات کا وسیلہ ہے۔ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم باب الشکر میں حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کیا ہے:
ہر مصیبت جو مجھ پر آئی اللہ تعالیٰ کے چار انعامات اپنے ساتھ لائی۔ ایک یہ کہ اس کا تعلق میری دنیا سے تھا، دین سے نہ تھا، دوسرا یہ کہ اس مصیبت سے کوئی بڑی مصیبت بھی آسکتی تھی مگر اللہ کے کرم سے چھوٹی آئی۔ تیسرا یہ کہ میں قضا و قدر پر راضی رہا، اور چوتھا یہ کہ میں اس پر اجروثواب کا امیدوار ہوں۔
امتحانِ شکر: شکر کی آزمایش ، صبر کی آزمایش سے زیادہ کٹھن ہوتی ہے۔ اس تشریح کی ابتدا میں سورۂ سبا کی جو آیت پیش کی گئی ہے اس کا دوسرا فقرہ یہ ہے: وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُo (۳۴:۱۳) ’’اور میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں‘‘۔
اس فقرے کے بارے میں امام راغب نے لکھا ہے: اس میں تنبیہہ ہے اس بات کی کہ شکرالٰہی کا پورا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے، اس لیے قرآن میں صرف دو نبیوں کو اس صفت سے متصف قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح کی ہے، یعنی حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام۔
حضرت نوح ؑکو سورئہ بنی اسرائیل میں عَبْدًا شَکُوْرًا (شکرگزار بندہ) اور حضرت ابراہیم ؑ کو سورئہ نحل میں شَاکِرًا لّاِ.َنْعُمِہٖ (اللہ کی نعمتوں کے شکرگزار) کہا گیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ دوسرے انبیاے کرام کی شکرگزاری کم تھی، بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ان دونوں نبیوں کی اس صفت کا ذکر کر کے انھیں ایک ’امتیاز‘ عطا کیا گیا ہے۔ قومِ لوطؑ پر جب عذاب آیا تو اللہ نے آلِ لوط ؑ کو عذاب سے بچا لیا۔ اس کو اللہ نے اپنا فضل قرار دیا اور اس کے بعد کہا:
کَذَالِکَ نَجْزِیْ مَنْ شَکَرَ o (القمر ۵۴:۳۵) یہ جزا دیتے ہیں ہم ہر اُس شخص کو جو شکرگزار ہوتا ہے۔
اس فقرے کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:’’ کَذَالِکَ نَجْزِیْ مَنْ شَکَرَ میں حضرت لوط ؑکی غیرمعمولی صفت شکر کی غیرمعمولی داد بھی ہے اور اس کا اعلانِ عام بھی کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عنایت صرف حضرت لوطؑ ہی کے لیے خاص نہ تھی بلکہ آج بھی جو لوگ اس کے شکر کرنے والے ہوں گے، وہ اس کی عنایتِ خاص کے حق دار ہوں گے۔ اس کا دامن رحمت بہت وسیع ہے‘‘۔ (تدبرقرآن، ج ۷، ص ۱۰۸)
شکر کا دنیوی صلہ: اللہ تعالیٰ آخرت میں اپنے شکرگزار بندوں کو جو اجر عطا فرمائے گا اور جن انعامات سے نوازے گا، وہ تو اپنی جگہ ہیں، دنیا میں اس کا صلہ یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا حقیقی شکریہ ادا کرنے سے اس کی نعمتوں اور افضال و عنایات میں اضافہ ہوتا ہے۔ نعمتوں کا حقیقی شکر یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی مرضیات میں صرف کیا جائے، اس کی معصیتوں اور نافرمانیوں میں صرف نہ کیا جائے۔سورۂ ابراہیم میں ہے:
اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔ اور موسٰی ؑنے کہا کہ ’’اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہوجائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘‘۔ (۱۴:۷-۸)
شکرگزاری پر انعامات میں اضافے کا یہ وعدہ قیامت تک تمام شکرگزاروں کے لیے ہے، اور ناشکری پر سخت عذاب کی یہ دھمکی بھی قیامت تک تمام ناشکرگزاروں کے لیے ہے۔
اللہ کی سب سے بڑی نعمت اس کی دی ہوئی شریعت ہے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ اس پرعمل کیا جائے، اس کی حفاظت کی جائے، اور اس کے نفاذ کی جان توڑ کر کوشش کی جائے۔ اس وقت دنیا میں پھیلا ہوا گھنگور اندھیرا اس کے بغیر چھٹ نہیں سکتا:
گھنگور اندھیرا چھایا ہے
یہ دھندلی شمعیں تیز کرو
منزل ہے کٹھن اور دُور بھی ہے
گھوڑوں کو ذرا مہمیز کرو