ہماری زندگیوں میں ایک ایسا موڑ، ایسا مرحلہ اور ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے جو ہمیں ماضی کی یاد دلا دیتا ہے۔ ایک ناگوار اور اذیت بھری صورت حال جو ہم پر اس خاص لمحے کی بدولت واقع ہوئی ہو، یا پھر ایسا کوئی غیرمعمولی لفظ، اپنی وحشت ناکی کے سبب ہمارے ذہن سے چپک کر رہ گیا ہو، یا پھر کوئی ایسا دل خراش واقعہ جس کا ہم نے اپنی جاگتی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہو۔ ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ وقت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے اور ہم کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے کیا فائدہ اٹھایا اور مجموعی طور پر ہمارا حاصل کیا ہے؟ ہم نے اپنی زندگیوں کو کس نہج پر ڈھالا ہے؟
ہم کبھی اوجِ کمال پہ تھے لیکن اب وہ سوتے خشک اور بنجر پڑے ہیں جہاںسے علم و عرفان کے چشمے اُبلتے تھے، ہماری خوابیدہ اور پوشیدہ صلاحیتیں کہیںدفن ہوچکی ہیں۔ اب ہمارا مقصدِحیات صرف اور صرف اِسی عارضی دنیا کی نمود و نمایش کا حصول ہے۔ ہمارے اذہان میں اُس وقت کی یاد بھی سر اٹھا رہی ہے جب ہم خالقِ کائنات کے سچے اور فائز المرام خادم اور غلام تھے اور اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ہم تفکر ، پریشانی اور ندامت کے عمیق گڑھے میں گرے روحانی طور پر کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم لاعلم ہیں بلکہ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہم نے اپنے مقصد، اپنے ہدف کی جانب پیش رفت نہیں کی ہے۔
ہم اپنی اصلاح کے خواہاں ہیں___ اور ہمیں بخوبی علم ہے کہ ہم میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ آیئے، ہم ذاتی اصلاح کا آغاز دوبارہ کریں۔ آیئے، ہم اپنے منتشر خیالات و احساسات کو مجتمع کریں اور اپنے عہد پر عمل پیرا ہونے کا عزمِ صمیم کریں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اب کی بار نہ تو ہم اسلامی تعلیمات کو فراموش کریں گے اور نہ اپنے ارادوں میں ناکام ہی ہوں گے۔ ہم زیادہ سے زیادہ روزے رکھیں گے، نمازکے قیام میں مزید پابندی لائیں گے، تلاوتِ قرآن پاک کا معمول زیادہ کریں گے___ ہم دنیا کو بدل دیں گے اور اسے ایک بہتر مقام بنا دیں گے۔
ہم اس کام کی ابتدا تو اعلیٰ عزم اور انتہائی جوش و خروش کے ساتھ کرتے ہیں لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے، ہمارے عزائم وارادے متزلزل ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر وقت کی دبیز تہوں میں معدوم ہوجاتے ہیں، ہم اپنے اہداف و مقاصد کو طاقِ نسیان پر رکھ دیتے ہیں۔ ہم ایک بار پھر ارادوں، وعدوں اور اصلاح احوال کے حسین تصور میں کھو جاتے ہیں، حتیٰ کہ ہم دوبارہ اپنا جائزہ لیتے نظر آتے ہیں۔
ہم اس غفلت سے کیسے نجات پاسکتے ہیں؟ ہم اپنے نیک ارادوں کو مستقل عملی شکل کیسے دے سکتے ہیں؟___ میں یہ نہیں کہتی کہ ان تمام استفسارات کے جواب میرے پاس موجود ہیں۔ تاہم، اپنے ان تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اپنی روز مرہ زندگی کو اسلامی تعلیمات و عقائد و اخلاقیات کے مطابق ڈھالنے کے لیے چند رہنما نکات پیش ہیں:
ہمارا ہر فعل، ہر عمل اور ہر لفظ، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہونا چاہیے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)
یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے ، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دِین کو اُسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار ، دین خالص اللہ کا حق ہے ۔(الزمر ۳۹:۲-۳)
نیک نیتی اور اخلاص کے بغیر افعال و اعمال ایسے ہی ہیں جیسے ایک مسافر کے پاس پانی والے برتن میں مٹی ہی مٹی ہو۔ یہ وزن اس کے لیے سراسر بوجھ ہے اور اسے اس سے قطعی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐ کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنے بندے کے دل سے نکلنے والی ہردعا اور عرض کو سنتا ہے اور پکارنے والے کو اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ (البقرہ ۲:۱۸۶)
بلاشبہہ جب ہم تفکرات و پریشانیوں میں گھِر جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہماری خبرگیری کی قدرت رکھتی ہے۔ اس ضمن میں فرمانِ الٰہی ہے:
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے، جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ (النمل ۲۷:۶۲)
ہم میں سے کسی شخص کے لیے اپنے مقاصد و اہداف کے حصول کو آج ہی سرانجام دینے کے بجاے کل پر ٹال دینا نہایت ہی آسان ہے ،کیونکہ اس طور ہم اپنی نااہلی اور بے قاعدگی کو منطق کی دبیز تہہ میں دفن کرسکتے ہیں۔ ہماری زبان پر اکثر یہی کلمات ہوتے ہیں: ’’ان شاء اللہ میں کل اپنی زندگی میں تبدیلی لائوںگی‘‘ لیکن یہ ’کل‘ کبھی نہیں آتی اور آپ کا یہ ارادہ بھی کبھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ قرونِ وسطیٰ کے کسی عالم نے کہا تھا:
اپنی تساہل پسندی آج کا کام کل پر ٹالنے کے خطرناک اصول کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیجیے۔ یہ شیطان کی فوج کا سب سے طاقت ور سپاہی ہے۔ وہ بات نہ کیجیے، وہ ارادہ نہ باندھیے جس کے لیے آپ دلی طور پر تیار نہیں ہیں۔ اس عمل کے باعث آپ کسی اور کو نہیں، بلکہ خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اپنے ارادوں اور اپنے عزم کو ذوق و شوق اور مثبت انداز فکر عطا کیجیے۔
عام طور پر ہم ابتدا ہی سے بڑے بڑے منصوبوں کے خواب دیکھنے لگتے ہیں لیکن جب یہ عملی طور پر تکمیلی شکل اختیار نہیں کرتے تو ہم حوصلہ ہار دیتے ہیں۔ ہم مایوس ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ کوئی بھی معمولی یا ادنیٰ کام چھوٹا نہیں ہوتا۔ ایک دن نبی کریمؐ سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام اللہ تعالیٰ کو بہت مرغوب ہے، تو آپؐ نے فرمایا: ’’وہ کام جو باقاعدگی اور تسلسل سے کیا جائے، اگرچہ وہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ (بخاری، فتح الباری)
بڑے بڑے، بے فائدہ اور اندھا دھند ڈگ بھرنے کے بجاے، چھوٹے چھوٹے مفید اور مسلسل قدم، عظیم کامیابیوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں محاورتاً ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نوالہ اتنا لیں جتنا چبا سکیں اور نگل سکیں۔ ہمیشہ ابتدا چھوٹے چھوٹے کاموں سے کیجیے۔ چھوٹے چھوٹے منصوبے بنایئے تاکہ آپ اپنے ارادوں کو مستقل اور آسانی کے ساتھ جاری رکھ سکیں اور پھر اس کے بعد ذرا مشکل کام میں ہاتھ ڈالیں۔ یہ لائحہ عمل آپ کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہوگا، اور آپ مزید کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گے۔ ان شاء اللہ وقت گزرنے کے ساتھ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی زندگی، آپ کے معمولات میں عظیم انقلاب رونما ہوچکا ہے۔
جو فرد آپ پر تنقید کرتا ہے وہی آپ کا دوست ہے، اور جو آپ کی غلطیوں کو اُچھالتا ہے اسے آپ سے قطعی محبت وہمدردی نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نصیحت ان کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے جو اسے اپنی گرہ سے باندھ لیتے ہیں، لہٰذا ان افراد کو اپنا دوست بنایئے جو اچھے ساتھی ثابت ہوں۔ اچھے ساتھی ہی آپ کو صحیح مشورہ دیں گے اور یہ سچے دوست ہی آپ کے ارادوں کی تکمیل میں آپ کے مددگار ثابت ہوںگے۔ ان افراد کی صحبت سے پرہیز کیجیے جو آپ کے عزم کو متزلزل کرنے کی یا آپ کے پاے استقلال میں لرزش لانے کی کوشش کریں۔ حضرت علیؓ کے اس فرمان کو ہمیشہ مدنظر رکھیے:
ہمیشہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو، تم ان جیسے ہی ہوجائو گے، اور بُرے لوگوں کی صحبت سے بچو تاکہ تم ان کے شر سے محفوظ رہ سکو۔
اپنے اہداف و مقاصد کی ایک فہرست بنا لیں اور اسے اپنے سامنے دیوار پر لٹکا دیں۔ اس فہرست کو اپنی ڈائری میں بھی لکھ لیجیے۔ اسے اپنے بٹوے میں بھی رکھیں اور یا پھر اسے اپنے لاکر کے اندر چسپاں کردیں۔ پھر آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لیے کیے جانے والے کاموں کو ترتیب وار اپنی نوٹ بک میں تحریر کرتے جائیں، حتیٰ کہ آپ کمپیوٹر پر بھی اپنے نام سے بنائی گئی فولڈر/فائل پر ان اقدامات کو درج کرسکتے ہیں۔ اپنے آپ کے ساتھ مخلص رہیے کہ اپنے اہداف و مقاصد پر تنقیدی نظر ڈالتے رہیے۔ اس عمل کے ذریعے آپ سُست نہیں ہوں گے۔ مسلم میں بیان کردہ ایک حدیث کے مطابق جب نبی کریمؐ کسی کام کا آغاز کرتے تو اسے ختم کردیتے۔ حدیث قدسی ہے:
میرے بندے میری قربت اور وصل حاصل کرنے کے لیے اس وقت تک خفیہ طور پر نوافل ادا کرتے رہتے ہیں، جب تک میں ان کی طرف متوجہ نہیں ہوجاتا۔ (بخاری)
مَایَازَلُو یہ خاص لفظی اصطلاح، وصلِ الٰہی کے حصول و جستجو کی سعی کے لیے تسلسل اور تواتر کا اشارہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے بھی فرمایا: ’’حج اور عمرہ بار بار کرتے رہو‘‘۔
یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے کہ بعض اوقات ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا ایمان متزلزل ہو رہا ہے، یا ہم میں جہدِ مسلسل کی اُمنگ اور جوش و جذبہ ماند پڑ رہا ہے۔ اس ضمن میں رسولؐ اللہ کا فرمان ہے:
جس طرح جسم پر لباس پہنتے پہنتے پتلا اور بوسیدہ ہوجاتا ہے، اسی طرح دل میں بھی ایمان کا ضعف پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے دعامانگو کہ وہ تمھارے دل میں ایمان تازہ کردے۔ (الحاکم)
عبادتِ الٰہی اور نیک افعال سرانجام دینے کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ کسی اور طرف توجہ نہ کرے۔ ان افعال کا تسلسل تو ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ جب ہم میں قوت اور آمادگی اور خواہش موجود ہوتی ہے تو ہم جان توڑ کوشش کرتے ہیں، اور جب ہم ان قوتوں سے محروم ہوتے ہیں، تو جو کچھ ہمارے بس میں ہوتا ہے، وہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دین میں بہت آسانی ہے اور جو دین میں اپنے لیے غیرمعمولی مشکلات پاتا ہے، وہ دین کے مطابق نہیں چل سکتا۔ لہٰذا تمھیں دین کے معاملے میں انتہاپسندی سے بچنا چاہیے، بلکہ صحیح ترین چیز اپنانا چاہیے۔(بخاری)
ایک دوسری حدیث کے مطابق رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اپنے اعمال و افعال میں اعتدال پیدا کرو، پھر تم اپنا مقصد حاصل کرسکو گے‘‘۔ (بخاری)
بہتر زندگی گزارنے کے لیے اپنے جذبے کو تحریک دیجیے۔ اس کے بہترین ذرائع قرآن عظیم، نبی کریمؐ، آپؐ کے صحابہ کرامؓ، آپؐ کے متقی جانشین اور علماے کرام ہیں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی زندگی پر نظر دوڑایئے۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں ان کی عبادت کے معمول میں بہت شدت پیدا ہوچکی تھی۔ کسی نے ان سے کہا کہ وہ عبادتِ الٰہی میں کمی کیوں نہیں کرتے اور خود کو آرام کیوں نہیںپہنچاتے؟ آپ نے جواب دیا: ’’جب گھڑدوڑ شروع ہوتی ہے تو اختتامی نقطے کے قریب پہنچ کر گھوڑے اپنی تمام تر توانائی صرف کرڈالتے ہیں، اور میری زندگی میں جو کچھ بھی باقی بچا ہے،وہ اس سے کہیں کم ہے‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی وفات تک اسی تندہی سے عبادتِ الٰہی میں مصروف رہے۔
عامر بن عبداللہ کی زندگی کو بھی پیش نظر رکھیے۔ ایک دفعہ آپ سے کسی نے پوچھا: آپ ساری ساری رات کیسے جاگ لیتے ہیں اور شدید گرمی و تپش میں پیاس کیسے برداشت کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: کیا اس سے بھی بہتر کوئی چیز ہے کہ صبح کا کھانا رات تک ملتوی کردیا جائے، اور رات کی نیند دن پر قربان کردی جائے۔ جب رات آتی تو وہ کہتے: ’’دوزخ میں دہکتی آگ کا تصور مجھے سونے نہیں دیتا‘‘ اور وہ پھر صبح تک جاگتے رہتے۔
پھر الرابی ابن خزائم کی زندگی کی تصویر ملاحظہ کیجیے۔ ابوحیان نے بتایا کہ ان کے والد نے کہا: الرابی ابن خزائم ٹانگوں سے معذور تھے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے ان کو اٹھا کر لے جایا جاتا تھا۔ بعض لوگوں نے ان سے کہا: آپ کی معذوری کے سبب آپ کو تو مسجد میں نماز کے لیے آنے کی چھوٹ ہے۔ آپ نے جواب میں ایک حدیث سے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’نماز کے لیے بلاوے کی آواز حی علی الصلٰوۃ میرے کانوں میں سنائی دیتی ہے، لہٰذا تمھیں اگر نماز کے لیے رینگتے ہوئے بھی جانا پڑے تو اسی طرح جائو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ پر بے انتہا لطف و کرم کرتے ہوئے مسلمانوں کو عبادت کے متعدد طریقے مرحمت فرمائے ہیں۔ ان میں سے کچھ جسمانی حرکات و سکنات پر مشتمل ہیں، مثلاً نماز، کچھ مالی ہیں، مثلاً زکوٰۃ و صدقہ، کچھ الفاظ پر مشتمل ہیں، مثلاً دعا اور ذکر۔
ان مختلف آسان طریقوں میں پوشیدہ حکمت، مختلف افراد کی آمادگی اور صلاحیتوں کی نوعیت میں امتیاز کو ظاہر کرتی ہے۔ بعض لوگ دیگر افراد کی بہ نسبت عبادت الٰہی کا فرض کی حیثیت سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں جس میں عذر کی گنجایش نہیں۔ اسی طرح بعض کا رجحان راہِ خدا میں مال خرچ کرنے اور انفاق کی طرف زیادہ ہوتا ہے، اور بعض کا ذکر اذکار میں۔ اس میں شک کی گنجایش نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کی مختلف اقسام کے مطابق جنت کے مختلف دروازے متقیوں کے لیے وا کردیے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ کی بیان کردہ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق حضور نبی کریمؐ نے فرمایا:
جو شخص رضاے الٰہی سے منسلک کام، اللہ کی رضا کی خاطر سرانجام دے گا، وہ جنت کے دروازوں (منسلکہ دروازوں) میں سے بلایا جائے گا۔ اے اللہ کے بندے، یہ تو انعامِ خداوندی ہے، تم میں سے جو شخص نمازی ہوگا، اسے جنت میں نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص جہاد کرتاہوگا، اسے جنت میں جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص روزے کا پابند ہوگا، اسے جنت میں الریان کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص خیرات و صدقہ کرتا ہوگا، اسے جنت میں خیرات و صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ (بخاری)
جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، متعدد اقسام کے کام اور افعال سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔ روزمرہ کے معمولات میں گھریلو، دفتری، کاروباری، خاندانی اور دوستی کے امور شامل ہیں جنھیں نہایت ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ دنیاوی امور میں مگن ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں اسلامی تعلیمات، عقائد اور اخلاقیات کو داخل کرنا بھول جائیں اور اپنی زندگی کو احکامِ الٰہیہ اور سنتِ رسولؐ کے مطابق ڈھالنے سے گریز کریں۔ جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے عبادت کے نہایت آسان طریقے مرحمت فرمائے ہیں۔ کھانا پکاتے ہوئے ذکر کیا جاسکتا ہے، بس کا انتظار کرتے ہوئے دعا کے الفاظ دہرائے جاسکتے ہیں، دفتر سے گھر آتے ہوئے گاڑی میں اسلامی تعلیمات و احکامات پر مبنی لیکچر سنا جاسکتا ہے، آسان عبادات کی فہرست نہایت ہی طویل ہے۔ بہرحال، حاصل کیا ہے، حاصل یہ ہے کہ آپ جو کچھ جب بھی کرسکتے ہیں، کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ثابت قدمی اور استقلال عطا فرمائے اور ہمیں دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں سرخ رو فرمائے۔ آمین! (ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY)کا ترجمان، Muslim Youth، ریاض، مارچ ۲۰۰۶ئ)