جنوری ۲۰۰۸

فہرست مضامین

امریکی دھمکیاں اور ملکی سلامتی

عبد الغفار عزیز | جنوری ۲۰۰۸ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

اپنا سب کچھ امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھا دینے کے باوجود، آج پاکستان کو امریکا سے وہ دھمکیاں مل رہی ہیں جو ماضی میں کبھی نہیں ملی تھیں۔ امریکی دانش ور پاکستان کو سابقہ سوویت یونین جیسے دشمن کا ’مرتبہ‘ دے رہے ہیں۔ کھلم کھلا تجاویز آرہی ہیں کہ اسلام آباد پر امریکی افواج اتار دینا چاہییں۔ پاکستان کے ایٹمی اسلحے کو ’محفوظ‘ ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسے میکسیکو یا کسی قریبی محفوظ و خفیہ مقام پر منتقل کردینا چاہیے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان پر قبضہ کرلینا چاہیے۔

عراق پر امریکی فوج کُشی کے ایک اہم نقشہ گر، ممتاز عسکری مؤرخ، بش انتظامیہ سے مضبوط نظریاتی وابستگی رکھنے اور امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ جیسے تھنک ٹینک میں کام کرنے والے امریکی دانش ور فریڈرک کاگان (Frederick Kagan) نے صدربش کو پاکستان کے بارے میں بھی نقشۂ کار پیش کردیا ہے۔ کاگان کی اس دستاویز کے حوالے سے برطانوی اخبار گارڈین اپنے یکم دسمبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں سرخی جماتا ہے:  ’’پاکستانی ایٹمی اسلحہ قبضے میں لینے کا منصوبہ بش کے سپرد کردیا گیا‘‘۔ کاگان اپنی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:’’سیدھی بات یہ ہے کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیار مایوس عناصر کے ہاتھ میں جاتے دیکھ کر امریکا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں   رہ سکتا‘‘۔ خود گارڈین ایک عسکری ماہر اور امریکی وزارتِ خارجہ کے سابق اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے لکھتا ہے: ’’اگرچہ حکومتوں کو بعض اوقات ناقابلِ تصور امور پر بھی سوچ بچار کرنا ہوتی ہے، لیکن یہ خیالات اور تجاویز واشنگٹن کے عسکری کیمپ پر نمایاںاثر ونفوذ رکھنے والے ایک ایسے شخص کی طرف سے آئی ہیں، جس کے مشوروں پر عمل کر کے امریکی افواج کو عراق میں اپنی مشکلات کم کرنے میں مدد ملی ہے‘‘۔ اس لیے انھیں نظرانداز کرنا نادانی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

کاگان نے پاکستان پر فوج کشی کی بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے بارے میں بھی تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے اور پاک فوج کو تقسیم کرنے کی ناپاک خواہش کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:’’ہمیں [پاکستان کی] صورت حال کا مکمل اور ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا ہوگا۔ ہمیں اس بحران کا مقابلہ کرنا ہوگا جو ہمارے لیے اسی طرح ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے جس طرح کبھی سوویت ٹینک ہمارے لیے خطرہ تھے‘‘۔ وہ جانتا ہے کہ پاکستان پر حملہ بہت مہنگا سودا ہوگا، لیکن جو راستہ وہ منتخب کرنا چاہتا ہے، وہ حملے سے بھی زیادہ مہلک ہے، کہتا ہے: ’’ہم حملہ نہیں کرسکتے، ہم صرف پاکستانی فوج کے بعض عناصر کے اشتراک سے کارروائی کرسکتے ہیں… وزیرستان اور شمال مغربی سرحدی علاقے میں لڑتے لڑتے پاکستانی فوج نفسیاتی طور پر شکست خوردہ ہوچکی ہے۔ ہوسکتا ہے وہ وہاں سے شکست کھاکر نکل آئے، اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑ آئے اور وہاں انتہاپسند آجائیں۔ ایک خراب صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوج تقسیم ہوجائے اور اس کا انتہاپسند گروہ ایٹمی اسلحے پر قبضہ کرلے… یہ ٹھیک ہے کہ فوجی افسروں اور حکمرانوں کی ایک بڑی تعداد اعتدال پسند ہے، واضح رہے کہ امریکا کی یہی سوچ شاہِ ایران کی حکومت کے بارے میں بھی تھی، مگر دیکھو وہاں ۱۹۷۹ء میں کیا ہوا‘‘۔

عراق کے ایٹمی اور کیمیائی اسلحے کا ہو.ّا کھڑا کر کے اس پر تباہی مسلط کردینے، ایران پر ایٹمی اسلحے کی تیاری کے الزامات کی آڑ میں دھمکیوں اور پابندیوں کے طوفانوں کے بعد اب پاکستانی ایٹمی اسلحہ انتہاپسندوں کے ہاتھ لگ جانے کی احمقانہ بات کو اپنی منصوبہ بندیوں کا مرکز و محور بنایا جارہا ہے۔ کاگان اور کئی امریکی دانش ور اس سے پہلے بھی متعدد بار ایسے ہی مسموم و مذموم خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ۱۸نومبر۲۰۰۷ء کے نیویارک ٹائمز میں’پاکستان کی تباہی، ہمارا اصل مسئلہ‘ کے عنوان سے کاگان اور مائیکل ہینلون (Michael Hanlon)نے لکھا ہے کہ ایک تباہ ہوتے ہوئے پاکستان کو استحکام بخشنے کا ہدف حاصل کرنا امریکا اور اس کے حلیفوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ۱۶ کروڑ کی آبادی اور عراق سے پانچ گنا زیادہ رقبے پر مشتمل پاکستان کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کرنے کے لیے تقریباً آدھی دنیا کا سفر طے کرنا ہوگا، جو طویل وقت کا متقاضی بھی ہوگا اور پھر جب تک ہمارے پاس اس بارے میں دقیق معلومات نہ ہوں کہ پاکستان کا ایٹمی مواد کہاں کہاں ہے، ہم بمباری کرنے اور اسپیشل فورس استعمال کرنے پر بھروسا نہیں کر سکتے۔ سرسری اندازہ یہ ہے کہ ہمیں پاکستان جیسے ملک کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کے لیے تقریباً ۱۰ لاکھ فوجی درکار ہوں گے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اگر ہمیں کامیابی کی امید نظر آئے تو ہمیں پاکستانی حکومت کی مکمل تباہی سے پہلے پہلے کارروائی کرنا ہوگی اور اس کے لیے ہمیں ’اعتدال پسند‘ قوتوں کا تعاون درکار ہوگا۔

اعتدال پسند قوتوں کے تعین اور ان سے تعاون کے بارے میں امریکی انتظامیہ کے خودساختہ پیمانے سب پر عیاں ہیں۔ اب تک اکلوتی بااعتماد اعتدال پسند ’طاقت‘ جنرل (ر) پرویز مشرف اور ان کے حواری تھے، لیکن اب کئی دیگر پارٹیاں بھی طائفے میں شامل کی جارہی ہیں۔ پرویز مشرف کے بارے میں ان کی راے جاننے کے لیے مارون جی وائن بوم کے ایک تازہ انٹرویو سے چند جملے پیش خدمت ہیں۔ موصوف پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے اتھارٹی ہیں۔ وہ ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۳ء تک امریکی وزارتِ خارجہ میں باقاعدہ ذمہ دار بھی رہے ہیں، کہتے ہیں: ’’بنیادی حقیقت یہ ہے کہ مشرف ہم سے جتنے بھی مخلص ہوں، وہ القاعدہ و طالبان کے خلاف امریکا سے تعاون کے لیے جتنے بھی پُرعزم ہوں لیکن اب وہ عملاً ایسا کر دکھانے کی صلاحیت کھو چکے ہیں… ’’صدر پرویز مشرف نے وردی اُتار کر سیاسی لحاظ سے کچھ وقت مزیدحاصل کرلیا ہے، لیکن رہے گا وہ ایک کمزور مشرف‘‘۔

اس سب کچھ کے باوجود وائن بوم اور کئی دیگر امریکی ذمہ داران کی آرا اور امریکی پالیسی  کا نچوڑ یہ ہے کہ امریکا فی الحال اسی کمزور پرویز مشرف کو حکمران دیکھنا چاہتا ہے۔ ’وہ بے بس ہے‘،  ’وہ مزید اقدامات کی استعداد نہیں رکھتا‘، ’وہ کمزور تر ہوچکا ہے‘ جیسے بیانات کے چابک، اس کمزور لیکن مطلق العنان حکمران سے اپنی مرضی کے مزید اقدامات کروانے کا بہانہ ہیں۔ کمزور حکمران کو اقتدار میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے مزید ’روشن خیال‘ عوامی طاقت بھی فراہم کر دی جائے۔ انتخابات میں بظاہر برسرپیکار پارٹیوں کو انتخابات کے بعد یکجا کر دیا جائے اور اس طرح اعتدال پسند طاقت کا ایک نیا فارمولا تخلیق کرنے کی آخری کوشش کی جائے۔

امریکی عسکری ماہرین اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے امریکی دوستی کا دم بھرنے والے پاکستانی بھی بہت سے تحفظات رکھتے ہیں۔ ان سے اپنی مرضی کے مزید اقدامات کروانا کوئی بہت آسان ہدف نہیں ہوگا۔ لیکن مختلف متبادل تجاویز کے بعد زیادہ تر آرا اسی پر مجتمع ہوتی ہیں کہ براہِ راست فوج کشی کی تیاریاں کی جائیں، محدود فوجی کارروائیاں جاری رکھی جائیں، کمزور حکمرانوں کو اپنی دست نگر سیاسی قیادت کی کرم خوردہ بیساکھی فراہم کی جائے، پھر مزید دھمکیوں کے ذریعے پاکستان کی وحدت اور ایٹمی اسلحے سمیت پاکستان کے تمام ملّی مفادات کو ایک ایک کر کے خاک میں ملا دیا جائے۔ اس حکمت عملی میں بوقت ضرورت بھارت کو بھی آزمودہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر امریکی حملے  کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی تعریفوں کا سلسلہ بھی عروج پر ہے۔ مثال کے طور پر سابق نائب وزیرخارجہ کارل انڈرفرتھ (Karl Inderfurth) کا یہ مضمون ملاحظہ فرمایئے: India and the United States: A rare Stable Partnership (بھارت اور امریکا ایک منفرد مستحکم اشتراکِ کار)۔ ۱۸ نومبر ۲۰۰۷ء کو شائع شدہ اس مضمون میں وہ آیندہ سال آنے والی نئی امریکی انتظامیہ کو رہنمائی دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نئی امریکی انتظامیہ کے لیے اصل چیلنج یہ ہوگا کہ صدر کلنٹن اور صدر بش نے بھارت امریکا تعلقات کی جو مضبوط بنیاد قائم کی ہے، وہ ان تعلقات کو اگلے مراحل تک لے جائیں‘‘۔ امریکی بھارتی مشترکہ مفادات کی فہرست گنواتے ہوئے تان اس بات پر توڑتے ہیں:’’ہم دونوں جہادی دہشت گردی کو شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

ان مشترکہ مفادات کو حاصل کرنے اور دوستی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات میں وہ جہاں یہ تجویز دیتے ہیں کہ بھارت کو سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن بنانے کے لیے امریکا  کھل کر اس کی مدد کرے ، امریکا بھارت عسکری تعاون میں بے محابا اضافہ ہو، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ایک دوسرے کی پشتیبانی ہو، وہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا اور بھارت مل کر پاکستان کو ایک ’محفوظ‘، ’جمہوری‘ اور’ مستحکم‘ ریاست بنانے کی جدوجہد کریں۔ حالیہ سیاسی بحران کی وجہ سے اگر شدت پسند عناصر نے پاکستان کے جوہری اسلحے پر قبضہ کرلیا تو ’’امریکا اور بھارت   کے لیے اس سے بڑا خطرہ کوئی اور نہیں ہوسکتا‘‘۔ ان خیالاتِ ’عالیہ‘ کی روشنی میں بھارتی حکمرانوں کا یہ فرمان بھی اذہان میں تازہ کرلیجیے جو انھوں نے پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے کے بارے میں دیا ہے۔ گویا یہ ہتھیار محفوظ ہونے یا نہ ہونے کا سرٹیفیکٹ بھارت کو دینا ہے۔

اپنے اس مقالے میں امریکی دانش ور بھارت کے ساتھ اپنے اکلوتے اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’بھارت نے ہمارے کہنے کے باوجود ابھی تک جوہری پھیلائو کو روکنے کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے، لیکن اس طرح کے مسائل حل کرنے کے لیے مزید وقت اور صبروتحمل کی ضرورت ہے‘‘۔

ظاہر ہے کہ صبروتحمل پر مشتمل پالیسی تو صرف بھارت یا اسرائیل جیسے اپنوں کے لیے ہوسکتی ہے، رہے پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک تو یہ دہشت گرد گنوار فوج کشی کے علاوہ کوئی زبان نہیں سمجھتے۔ اس لیے اس کی تیاریاں ہی نہیں، عملی اقدامات بھی جاری ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا مسلم اُمت اور پاکستانی قوم ان خطرات سے پوری طرح آگاہ ہے؟ جن تازہ دم اعتدال پسندوں کو قریب المرگ اعتدال پسند کی مدد کے لیے لایا جا رہا ہے، کیا وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان کی گردن پر کون سا جوا لادا جا رہا ہے؟ کیا بے نظیر جانتی ہیں کہ جس ایٹمی پروگرام کی سزا ان کے والد کو دی گئی، اب انھی کے ہاتھوں اس کے گرد اپنا مکروہ جال تنگ سے تنگ کرنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں؟ اور کیا ’سب سے پہلے پاکستان‘ والے ریٹائرڈ جنرل صاحب اور ان کے ہم نوا یہ جانتے ہیں کہ اپنی قوم اور اپنے ضمیر سے غداری کرنے والے میرجعفر اور میرصادق کا دنیا و آخرت میں کیا انجام ہوتا ہے؟ ایک اور سوال ہم میں سے ہر شخص کو خود سے پوچھنا ہے کہ اب، جب کہ خطرات گھر کی منڈیروں سے جھانک رہے ہیں، ہم ان کے مقابلے کے لیے کیا تیاری کر رہے ہیں؟کیا رب سے  لو لگاتے ہوئے، منظم اجتماعیت سے وابستہ ہوکر مؤثر منصوبہ بندی کے ذریعے، ہر قربانی کے لیے تیار ہوکر میدانِ عمل میں اُترنے کا وقت نہیں آن پہنچا؟ رہیں امریکی دانش وروں کی دھمکیاں تو وہ  خاطر جمع رکھیں۔ امریکی عوام کی غالب اکثریت سمیت دنیا کا ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ یہ دھمکیاں نہیں خودکشی پر اصرار ہے اور اگر کسی کو یہ حقیقت سمجھ نہ آئے تو عراق یا افغانستان میں موجود کسی امریکی فوجی یا اس کے خاندان سے دریافت کر لے۔