جنوری ۲۰۰۸

فہرست مضامین

وفاقی شرعی عدالت کا ایک تاریخی فیصلہ

پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۰۸ | شذرات

Responsive image Responsive image

اسلام مساواتِ مرد و زن کا علَم بردار ہے ،مگر اس کا یہ تصور اس الٰہی قانون پر مبنی ہے، جس کی رُو سے خالق کائنات نے تمام انسانوں کو بحیثیت انسان ایک ہی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ ان کے درمیان فطری صلاحیتوں اور سماجی اور تہذیبی ذمہ داریوں کے باب میں تو فرق اور تنوع ہوسکتا ہے مگر قانونی اور اخلاقی حیثیت کے اعتبار سے نہ مردوزن میں فرق ہے اور نہ کالے اور گورے اور  امیر اور غریب میں۔ لقد کرمّنا بنی اٰدم کے الٰہی حکم نے سب کو مساوی عزت کا مقام دیا ہے اور اس پہلو سے کسی بھی امتیازی یا ترجیحی سلوک کی کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔

پاکستان کا شہریت کا قانون مجریہ ۱۹۵۱ (Pakistan Citizenship Act) اینگلو سیکسن لا کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ اس میں یہ سقم تھا کہ اگر ایک پاکستانی مرد کی کسی غیرپاکستانی عورت سے شادی ہو تو شادی کے بعد پاکستانی شوہر کی غیرپاکستانی بیوی کو شہریت کا حق حاصل ہوجاتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ایک پاکستانی خاتون کی کسی غیرپاکستانی مرد سے شادی ہو تو پھر اس شوہر کو شہریت کا یہ حق حاصل نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا امتیازی اور غیرمنصفانہ قانون تھاکہ جس کا نہ اخلاقی اعتبار سے کوئی جواز تھا، اور نہ الٰہی قانون کی رو سے ایسے امتیاز کے لیے کوئی گنجایش تھی۔ لیکن حقوقِ نسواں کے علَم بردار  اس مسئلے کے بارے میں خاموش تھے۔ حالانکہ ۲۰۰۰ء میں قائم ہونے والے ایک اعلیٰ اختیاراتی ادارہ یعنی ’نیشنل کمیشن اَون دی اسٹیٹس آف ویمن‘ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس امتیازی سلوک کی نشان دہی کی تھی اور اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کی طرف متوجہ کیا تھا۔ نیز پاکستان، اقوام متحدہ کے Convention on Elimination of All Forms of Discrimination Against Women پر دستخط کرکے بھی عورتوں کے اس حق کو تسلیم کرچکا ہے، مگر پھر بھی اس کنونش کا اطلاق پاکستانی خاتون کے غیرپاکستانی شوہر پر نہیں کیا گیا۔

پچھلے دنوں اخبارات میں خبر آئی کہ اس قانونی سقم کی وجہ سے بہت سی پاکستانی خواتین اپنے شوہروں کو پاکستان کی شہریت نہ دلوانے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، اور متاثرہ شوہروں کے پاکستان میں قیام کے باب میں انھیں شدید پریشانیاں درپیش ہیں۔ ’روشن خیالی‘ کے اس پرویزی دور میں نہ ’روشن خیال‘ حکومت کو اس مسئلے کا شعور تھا اور نہ ’روشن خیال‘ این جی اوز ہی کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت تھی اور اس کا بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اس قانونی سقم سے متاثر خواتین کا تعلق غالباً اُونچے طبقات سے نہیں تھا۔

وفاقی شرعی عدالت نے اس امتیازی سلوک کا ازخود (Suo Moto) نوٹس لیا اور دسمبر ۲۰۰۷ء کے دوسرے ہفتے میں شرعی عدالت کے فل بنچ نے قانون کے اس حصے کو اسلام کے قانون اور اقدار سے متصادم قرار دیا ہے اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ۶ ماہ کے اندر اندر شہریت کے قانون میں ضروری ترامیم کر کے شادی شدہ پاکستانی عورت کو بھی وہی حقوق دے، جو شادی شدہ پاکستانی مرد کو حاصل ہیں۔

عدالت کا یہ فیصلہ کئی اعتبار سے اہم ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مرد و زن کے حقیقی حقوق کا مسئلہ مغرب کا مسئلہ نہیں، ہمارا اپنا مسئلہ ہے اور ایسے تمام مسائل کو اسلام کے قانونی ڈھانچے اور اس کی روح کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام دعووں کے باوجود نہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے، اور نہ مردوں اور خصوصیت سے کمزور انسانوں اور طبقات کے حقوق کا تحفظ کرنے کو تیار ہے۔ عام عدالتیں بھی اس باب میں خاموش ہی رہی ہیں۔یہ توفیق وفاقی شرعی عدالت کو حاصل ہوئی ہے۔ جس نے اس سقم کا نوٹس لیا اور اس کی اصلاح کے لیے قانونی کارروائی کی۔ دیکھیں اب بھی حکومت اس پر کہاں تک عمل کرتی ہے۔ ہمارے علم میں وفاقی شرعی عدالت کے کئی ایسے فیصلے ہیں جن میں وہ وقت کے تعین کے ساتھ قانون میں شرعی بنیادوں پر تبدیلی کا حکم دے چکی ہے، مگر حکومت یا تو اپیل میں چلی گئی یا ان فیصلوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ مثلاً ’زنا‘ کے قانون کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا کم از کم ایک فیصلہ ایسا ہے، جس میں قانون کی تبدیلی کے لیے وقت کے تعین کے ساتھ ہدایات دی گئی تھیں، مگر انھیں نظرانداز کر دیا گیا۔ یہی معاملہ فیملی آرڈی ننس کے بارے میں عدالت کے احکام کے ساتھ ہوا ہے___ یہ ہے ہمارے لبرل طبقے کی مساواتِ مرد و زن اور حقوقِ نسواں کے باب میں سنجیدگی کا حال۔

تیسرا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ مشرف حکومت جو عورتوں کی ’خود اختیاریت‘ کا بہت واویلا کرتی ہے اور اسی کے نام پر اسمبلیوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے، لیکن ان سب کی طرف اس ضمن میں کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی اور اگر کسی نے پہل کی بھی تو وہ وفاقی شرعی عدالت ہے۔ وہ شریعت کورٹ جسے عورتوں کے حوالے سے لبرل طبقے نے مطعون کرنے کی مذموم کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ایک چوتھا پہلو یہ بھی ہے کہ آج کل عدالتِ عالیہ کو اس طرح سے ازخود امور کو زیرغور لانے اور حقوق انسانی کے باب میں مداخلت کرنے اور اصلاح کرانے پر بڑی لے دے کی جارہی ہے، بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے ساتھیوں کو تواس کی سزا دی جارہی ہے۔ حالانکہ جیساکہ حالیہ مثال سے ظاہر ہوتا ہے، عدالت اپنے ازخود سماعت کے دستوری اختیارات سے  عوام کے لیے دادرسی کی مفید خدمات انجام دے سکتی ہیں اور اس طرح انتظامیہ کی غفلت کا کچھ علاج بھی ہوسکتا ہے۔

ویسے تو ہمارا لبرل اور روشن خیال طبقہ مساواتِ مرد و زن کے شب و روز نعرے لگانے کا مرغوب شغل اپنائے ہوئے ہے، لیکن تعجب ہے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو لبرل پریس (صرف ایک انگریزی روزنامے The News کی استثناء کے ساتھ) نے چھاپنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی۔

اگر یہی فیصلہ کوئی لبرل کورٹ کرتی تو شادیانے بجائے جاتے۔ لیکن چونکہ یہ خدمت وفاقی شرعی عدالت نے انجام دی ہے، اس لیے ان کے لیے یہ ایک ناقابلِ ذکر اور ناقابلِ التفات قدم ہے یا کہیں ایسا تو نہیں کہ بُغض اب اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ    ؎

واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں

اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے