جنوری ۲۰۰۸

فہرست مضامین

آزادیِ راے اور تضحیک مذہب

امجد عباسی | جنوری ۲۰۰۸ | شذرات

Responsive image Responsive image

اسلام، نبی کریمؐ اور مسلمانوں کو آزادیِ راے، آزادیِ صحافت، انسانی حقوق اور سیکولر جمہوریت کے نام پر تضحیک، تمسخر اور تذلیل کا برابر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی  نہیں کہ اس کا پشت پناہ مغرب ہے اور وہی اس کو تحفظ بھی دیتا ہے۔ بھارتی نژاد ملعون رشدی کے بعد بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین(حال ہی میں ان کی متنازعہ کتاب دوئی کھنڈت پر بھارتی مسلمانوں کے ردعمل کا سامنے آنا)، ڈنمارک کے اخبار اور دیگر اخبارات میں شیطانی خاکوں کی اشاعت، ولندیزی فلم ساز تھیووان گوخھ کی اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع پر اشتعال انگیز فلم کی تیاری اور اس کے شدید ردعمل میں اس کی ہلاکت، جرمنی میں توہینِ رسالتؐ پر عامرچیمہ کی شہادت، اور اب سوڈان میں ایک عیسائی مشنری اسکول کی ٹیچر گلین گبنز کا اپنی کلاس کے طلبہ کو ’ٹیڈی بیر‘ کا نام (نعوذ باللہ) محمدصلی اللہ علیہ وسلم رکھنے کے لیے ورغلانے اور توہین رسالتؐ کا مرتکب ہونا ،اسی کا تسلسل ہے۔ گلین گبنزکی سزا ختم کروانے اور تحفظ دینے میں بھی برطانیہ کا ہاتھ نمایاں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کی طرف سے توہینِ اسلام اور توہینِ رسالتؐ میں کیوں شدت آتی جارہی ہے، اور دوسری جانب اس سب کچھ کو آزادیِ راے اور انسانی حقوق کے حوالے سے تحفظ دینے کی بات بھی کی جارہی ہے، نیز اُمت کے اہلِ علم اس مسئلے کا کس انداز سے جواب دیں؟

مغرب میں چند صدیاں قبل انسانی حقوق کا سوال اس وقت سامنے آیا جب یورپ میں سائنس اور مذہب میں چپقلش سامنے آئی۔ اس سے قبل یورپی تاریخ میں انسان کے بنیادی حقوق کا کوئی تصور نہیں ملتا۔ عیسائیت نے چند یونانی تصورات کو مذہبی تقدس کا مقام دے دیا اور     سائنسی حقائق کو جھٹلاتے ہوئے انتہائی اقدامات اٹھائے اور ان عقائد کی خلاف ورزی کرنے پر سائنس دانوں کو پھانسی تک دے ڈالی۔ اس پر شدید ردعمل سامنے آیا اور اہلِ یورپ نے کلیسا کی بالادستی ختم کرنے کا فیصلہ کیا، نیز انسان کے بنیادی حقوق کے لیے مذہب سے ہٹتے ہوئے قانون سازی کی بنیاد رکھی۔ سائنس کو اُلوہیت کا مقام دے دیا اور تجرباتی سائنس اور تجربہ و مشاہدہ کو علم کی بنیاد ٹھیرایا۔ عیسائیت کے غلط تصورات کی بنا پر مذہب سے بے زار اور بے نیاز ہوکر انسانی زندگی کے معاملات کو طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں انسان کے بنیادی حقوق کے لیے قانون سازی عمل میں آئی۔ اس کا آغاز انگلستان کے میگناکارٹا (۱۲۱۵ئ) سے ہوا ،اور مختلف مراحل سے گزرتا ہوا یہ عمل اقوام متحدہ کے منشورِ انسانی حقوق (۱۹۴۸ئ) پر منتج ہوتا ہے۔

دوسری طرف مغرب اور امریکا کا اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے عدل و انصاف اور حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا دینا، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان اور عراق پر حملہ، گوانتاناموبے اور ابوغریب جیل میں تشدد کے انسانیت سوز واقعات، اور ایران پر حملے کی دھمکی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ کے  منشورِ انسانی حقوق، عدل و انصاف اور امن و امان جیسی اقدار پر عمل درآمد ایک سوال بن کر رہ جاتا ہے۔

قانونِ توہینِ رسالتؐ ہی کو لیجیے۔ نیو انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق اکثر مشرقی اور یورپی ممالک میں قانونِ توہینِ انبیاؑ(بلاس فیمی لا) کسی نہ کسی صورت میں قابلِ مواخذہ جرم رہا ہے۔ آسمانی صحائف کو ماننے والی اقوام جہاںبھی حکمران رہی ہیں وہاں توہینِ رسالتؐ کی سزا، سزاے موت پر عمل درآمد ہوتا رہا ہے۔ یورپ اور امریکا اور دیگر سیکولر ریاستوں میں قانونِ توہینِ مسیحؑ (بلاس فیمی لا) اب بھی موجود ہے، اور اس حوالے سے ان ملکوں کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلے بھی موجود ہیں۔ برطانیہ میں اٹھارھویں صدی تک توہینِ مسیحؑ کی سزا، سزاے موت تھی مگر بعد میں سزاے موت ختم کردی گئی، لہٰذا اب اس کی سزا عمرقید ہے۔

اس ضمن میں ایک معروف مثال یورپی یونین حقوق انسانی کی عدالت کا ۲۵نومبر ۱۹۹۶ء کوبرطانیہ کے حق میں دیا جانے والا فیصلہ ہے۔ اس کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس سے مجموعی طور پر مغرب کے نقطۂ نظر کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس مقدمے کے مطابق ایک برطانوی شہری نیگل ونگرو نے حضرت عیسٰی ؑکے حوالے سے ایک فلم دکھانے کی اجازت طلب کی۔ مگر یورپی یونین حقوق انسانی کی عدالت نے اس کی اجازت نہ دی کہ اس سے عیسائیوں کے جذبات مشتعل   ہوں گے اور توہینِ عیسٰی ؑ ہوتی ہے۔ مگر جب اس کیس میں سلمان رشدی کے خلاف توہینِ رسالتؐ  کا مسئلہ اٹھایا گیا تو اسے خارج از بحث قرار دے دیا گیا (دیکھیے: ناموسِ رسولؐ اور قانونِ توہین رسالتؐ، محمد اسماعیل قریشی، ص ۲۳۴-۲۳۹)۔ یہاں مغرب کا دہرا معیار، انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے تمام تر دعووں کے باوجود واضح طور پر محسوس کیا جاسکتاہے۔

اسلام میں انسانی حقوق کا تصور مغرب سے بہت پہلے ۱۴ سو سال سے موجود ہے اور اس کا خلاصہ نبی کریمؐ کا خطبہ حجۃ الوداع ہے۔ اسلام بلاامتیاز مذہب و ملّت تمام انسانوں کے حقوق کی  نہ صرف ضمانت دیتا ہے، بلکہ قوتِ نافذہ رکھتا ہے، اور قانونی چارہ جوئی کا حق بھی دیتا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے منشورِ انسانی حقوق کی حیثیت محض ایک اعلان سے بڑھ کر نہیں اور نہ اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی ضمانت دی گئی ہے۔

اسلام نے جہاں رنگ و نسل کے فرق کی بنیاد پر انسانی تفاوت کو مٹایا ہے، وہاں تمام انسانوں کو اولادِ آدم ہونے پر برابر قرار دیا اور نیکی اور تقویٰ کو وجۂ امتیاز ٹھیرایا ہے۔ آزادیِ اظہارِ راے کو شہریوں کا بنیادی حق ہی نہیں، بلکہ درپیش مسائل پر اظہارِ راے کو مغرب کے تصور سے بڑھ کر، حق سے زیادہ فرض ٹھیرایا ہے۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ بھلائی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اسی کا نام ہے۔ اس سے غفلت برتنا نہ صرف نفاق ہے، بلکہ اسے ملّت کے زوال کا ایک سبب بھی بتایا گیا ہے، جیساکہ بنی اسرائیل کی روش تھی کہ انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ (المائدہ ۵:۷۹)

اسلام نے ضمیر اور اعتقاد کی آزادی کا حق دیا ہے۔ ہرشخص کو حق حاصل ہے کہ وہ کفروایمان میں سے جو راہ چاہے اختیار کرلے۔ اسلام نے لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶) کااصول دیا ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی قوم کو جبراً مسلمان نہیں کیا، بلکہ ذمی کی حیثیت سے ان کو مذہبی آزادی دی ہے اور ان کا تحفظ کیا ہے۔ اسلام نے تو مذہبی دلآزاری سے بھی منع کیا ہے۔

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ (الانعام ۶:۱۰۸) ان کو برا بھلا نہ کہو جنھیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا معبود بناکر پکارتے ہیں۔

خیال رہے کہ جہاں مذہبی دلآزاری سے منع کیا گیا ہے وہاں برہان، دلیل اور معقول طریقے سے مذہب پر تنقید کرنا اور اختلاف کرنا آزادیِ اظہار کے حق میں شامل ہے۔ خود مسلمانوںکو ہدایت کی گئی ہے کہ اہلِ کتاب اور دیگر مذاہب کے حاملین سے اگر گفتگو کی جائے تو  تحمل اور رواداری کا مظاہرہ کیا جائے اور احسن انداز اپنایا جائے:

وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْـکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (العنکبوت ۲۹:۴۶) اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر احسن طریقے سے۔

اسلام میں رواداری کا تصور یہ نہیں ہے کہ مختلف اور متضاد خیالات کو درست قرار دیا جائے۔ بقول سید مودودی: ’’رواداری کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں، ان کو ہم برداشت کریں، ان کے جذبات کا لحاظ کر کے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو، اور انھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے    کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس قسم کے تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے، بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں، اور خود ایک دستورالعمل کے پیرو ہوتے ہوئے دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوںسے کہیں کہ آپ سب حضرات برحق ہیں، تو اس منافقانہ اظہارِ راے کو کسی طرح رواداری سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے‘‘۔ (تفہیمات، اوّل، ص ۱۱۴-۱۱۵)

حقیقت یہ ہے کہ آزادیِ راے، آزادیِ صحافت، انسانی حقوق اور لادین جمہوریت جیسی مغربی اقدار بظاہر دل کو بھاتی ہیں، عقل کو اپیل کرتی ہیں لیکن عملاً جب مفادات آڑے آئیں، نسلی و مذہبی تعصب سے واسطہ پڑے، انسانی حقوق اور عدل و انصاف پر زد پڑے تویہ اقدار غیرجانب داری کے بجاے جانب داری کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ محض عقلِ انسانی کو بنیاد بناکر آزادیِ راے اور آزادیِ صحافت جیسی اقدار کے تحت توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا جائے، اور اس کے نتیجے میں خواہ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان اور مسلمانوں کی دل آزاری اور فساد کا اندیشہ ہو مگر انسان کسی تحدید پر تیار نہ ہو___ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان اگر ٹھیر کر نہیں سوچتا تو قرآن کے مطابق انسان کی اس روش سے زمین میں فساد برپا ہوسکتا ہے۔ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰:۴۱) ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ تہذیبوں کی جنگ کا واویلا بھی مچایا جارہا ہے اور اسلام کو ہدف بنایا جا رہا ہے، حالانکہ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ تو آزادیِ اظہار کے تحت نہ صرف معقول اور منطقی انداز میں اختلافِ راے کا حق دیتا ہے، بلکہ عقیدے کی آزادی اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اس مسئلے کا اصولی حل یہی ہے کہ مغرب نے مذہبی تعصب کی وجہ سے عقل اور سائنس کو جس طرح خدا بنا رکھا ہے اور اسے اُلوہیت کا درجہ دے رکھا ہے، اس پر نظرثانی کرے۔ اگر یہ ماضی کے عیسائیت اور اہلِ کلیسا کے غلط نظریات کا ردعمل ہے تو اسلام کے حوالے سے ایسا سوچنا مناسب نہیں۔ اسلام ایک روایتی مذہب نہیں، بلکہ ایک دین اور ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو ہر شعبۂ زندگی بہ شمول سائنس کے لیے ہدایات اور رہنمائی رکھتا ہے۔ اصولی طور پر بھی دیکھا جائے تو آزادیِ راے، انسانی حقوق اور انسانیت کی فلاح کے لیے اسلام کی تعلیمات زیادہ جامع ہیں جنھیں عقل تسلیم کرنے پر مجبور ہے، جب کہ عیسائیت و دیگر مذاہب کی تعلیمات اس معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ اگرچہ روسو نے یہ کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا مگر اسے ہرجگہ زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے، تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ۱۴سو سال پہلے یہ فرمایا تھا کہ تم نے انسانوں کو غلام کب سے بنا لیا؟ ان کی مائوں نے تو انھیں آزاد جنا تھا۔ مگر اس جرأت کے لیے خدا سے ڈرنے والا دل اور  وحیِ الٰہی پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اسلام اپنی تعلیمات اور منطقی استدلال کی بنا پر غالب نہ آجائے۔ اسلام کی نظریاتی بالادستی اور اسلامی تحریکوں کے تحت احیاے اسلام کے لیے برپا منظم جدوجہد، اور قبولِ اسلام کے بڑھتے ہوئے عالمی رجحان کی بنا پر، مغرب کو یہ خدشہ یقین میں بدلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بقول اقبال  ع

ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبرؐ کہیں