جنوری ۲۰۰۸

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جنوری ۲۰۰۸ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

محمد شکیل ‘ٹوبہ ٹیک سنگھ

’ووٹ کی شرعی حیثیت‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ ووٹ کے ذریعے تبدیلی کو کارِلاحاصل اور مغربی طریقہ سمجھتے ہیں۔ راے عامہ ہموار کیے بغیر بزورِ طاقت شریعت نافذ کرنے کی سوچ کبھی ’لال مسجد تحریک‘ اور کبھی ’تحریکِ نفاذِ شریعت محمدی‘ کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ’مغربی دانش وروں کا احساسِ شکست‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) میں خوش کُن اور اُمید افزا پہلو سامنے آیا ہے لیکن ناول نگاروں کا مقصد یورپ و امریکا میں خوف و ہراس پھیلانا معلوم ہوتا ہے اور راے عامہ کو اِس بات پر آمادہ کرنا کہ اسلامی انقلاب کی تحریک کو ابھی سے کچل ڈالو۔ اِس قسم کی تحریریں اورفلمیں کس قسم کے اثرات مرتب کر رہی ہیں اور اسلام کے بارے میں کیا کیا منفی تاثرات پھیلا رہی ہیں ان کا مطالعہ و تجزیہ بھی آنا چاہیے۔


ڈاکٹر اختر حسین عزمی ‘پتوکی

’ووٹ کی شرعی حیثیت ‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) کے مسئلے پر تاحال اس چیز کی ضرورت ہے کہ تفصیل سے بحث کی جائے۔ اس موضوع پر اجتہادی آرا میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔ بایں ہمہ ووٹ کے کلچر یا جمہوری عمل کے موجودہ چلن کی مخالفت کرنے والوں کو گمراہ کن قرار دینا بھی سوچ کا نمایندہ حریت فکر کے منافی ہے۔


شفیق الرحمٰن ہاشمی‘قصور

’اقبال اور جوانانِ ملّت‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) میں راہِ عمل متعین کرنے کے لیے رہنمائی ہے۔ اس مضمون میں علامہ اقبال کے اکبر الٰہ آبادی کے نام ایک خط کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوقِ خداداد کے ساتھ قوتِ عمل بھی رکھتا ہو مل جائے جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کر دوں۔ معروف مسلم لیگی رہنما اور کالم نگار م-ش نے ایک موقع پر یہی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھا تھا: ’’اور وہ نوجوان انھیں مولانا مودودی کی صورت میں مل گیا، جسے انھوں نے لاہور آنے کی دعوت دی‘‘۔


حسین بخش جاکھرانی ‘ حیدر آباد

’اقبال اور جوانانِ ملت‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) کے مطالعے سے اقبال کی نوجوانوں سے توقعات اور ان کے لیے پیغام توسامنے آتا ہے مگر تشنگی باقی رہتی ہے۔ ضرورت ہے کہ عصرِحاضر میں اقبال کے افکار، شاعری اور نثر سے نوجوانوں کو آگاہ کرنے کے لیے انتخاب پر مبنی ایک جامع، مؤثر اور مختصر کتاب تیار کی جائے۔


فراز احمد سلیم ‘ گوجرانوالہ

’انسانی وسائل کی ترقی، اسلامی نقطۂ نظر‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) کے حوالے سے عرض ہے کہ اساتذہ کرام دورانِ تدریس سیرت سازی کو پیش نظر رکھیں تو نئی نسل کی تربیت کے لیے مزید راہیں کھل سکتی ہیں۔


صابر حسین ‘ہری پور

’جدیدیت، سائنس اور الہامی دانش‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) میں بہت سے مشکل الفاظ تھے۔ تحریر عام فہم ہونی چاہیے۔ کوشش کیجیے کہ تحریریں عام فہم ہوں اور آسان الفاظ استعمال کیے جائیں۔


شفیق الرحمٰن شاکر ‘ قصور

’کتاب اللہ کا نفاذ: اہمیت و ضرورت‘ (نومبر ۲۰۰۷ئ) میں اُمت مسلمہ کے اہم ترین مقصدِحیات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ درحقیقت موجودہ دور میں کتاب اللہ کے نفاذ کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اوّلاً، جن لوگوں پر کتاب اللہ کے نفاذ کا فریضہ عائد ہوتا ہے وہ محوِ غفلت ہیں اور دو رنگی کا شکار ہیں۔ ثانیاً،    عالمی طاقتیں مسلم ممالک کو لادین اور سیکولر بنانے کے عالمی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور ان ممالک کے حکمران اُن کے دستِ راست بنے ہوئے ہیں۔


سیمیں نذیر‘کراچی

’ایفاے عہد اور مومنانہ صفت‘ (نومبر ۲۰۰۷ئ) اخلاقی اور عملی پہلو کے حوالے سے اچھی تذکیر ہے۔ ’ازواجِ مطہراتؓ کے اسلوبِ دعوت‘ سے جذبۂ دعوت و تحریک کو مہمیز ملی اور اک ولولۂ تازہ ملا۔


بشریٰ کنول ‘کراچی

نومبر کا شمارہ اول تا آخر پسند آیا خصوصاً ’ازواجِ مطہراتؓ کا اسلوبِ دعوت‘ (نومبر ۲۰۰۷ئ) کو   اپنے لیے مشعلِ راہ بنالیا۔

ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی ‘علی گڑھ‘ بھارت

ترجمان القرآنمسلسل باصرہ نواز ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو تاقیامت جاری رکھے۔ بعض مضامین تو بے حد چشم کشا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مسلمانوں کو مکمل استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔