ڈی این اے (DNA ) کی معلومات تک پہنچنا سائنس کی تاریخ کا بڑا اہم سنگ میل ہے۔ مادے پر مبنی کائنات کی تعبیر جو جدید دور کا بڑا اہم حصہ بن گئی تھی، اب جدید دور کے بعد، مابعد الجدید یا (post modern) دور میں خود سائنس کے ذریعے اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ انجام کار وہ سائنس جو خدا کی منکر ہوگئی تھی اب خدا کا اقرار کیا چاہتی ہے۔ دنیاے سائنس نے مان لیا ہے کہ چارلس ڈاروَن کے تصورِ ارتقا نے انسانیت کے ۱۵۰ سال خراب کیے ہیں۔ اس تصور کے تحت بے جان ایٹموں (atoms) نے کسی مبہم طریقے سے اپنے آپ کو اس طرح استوار کرلیا کہ وقت گزرتے یہ ایٹم زندگی کی متعدد قسموں کو اختیار کرتے گئے اور جان دار شکلیں دھارتے گئے اور آخرکار بندر کی شکل سے گزرتے ہوئے انسان کے وجود کا باعث ہوگئے۔ قدیم ترین تہذیبوں، یونان میں سقراط سے پہلے اور مصر اور بابی لون میں بھی انسانوں کی زندگی کو تغیرپذیر توہم پرستانہ منزلوں (stages) میں تقسیم کیا گیا تھا۔
اس سے پہلے کہ ڈی این اے کی تفصیل بتائی جائے کہ اس دریافت نے کس طرح خدا کے قریب ہونے کا راستہ ہموار کیا ہے، ہم یہ بتاتے چلیں کہ ۱۹ویں صدی میں تین بڑی طاقت ور آوازیں گونجتی رہی ہیں جس میں سے ہر آواز کے لاکھوں پیروکار پیدا ہوئے۔ ان میں ایک آواز کارل مارکس کی تھی جس نے تمام دنیا کے محنت کشوں اور کاری گروںکو یک جہتی کا پیغام دیا۔ اس کے تصورات اتنے جامع قرار پائے کہ تاریخ، معاشیات ومالیات، سیاست اور معاشرے کے مکمل احاطے کے ساتھ علم و دانش کی بے اندازہ شقوں کو متاثر کرگئے۔ یہ انقلاب برپا کرنے اور اپنی دنیا آپ تبدیل کرنے والے خیالات تھے جو اپنی ابتدائی شکل میں ۱۹۴۸ء میں اشتراکی منشور (Communist Manifesto) کی شکل میں سامنے آئے۔ یہ مادہ پرست پس منظر میں صرف دولت کی تقسیم پر سماج کی تعمیر کا وہ خواب تھا جس کی تعبیر روس میں بڑے پیمانے پر آزمائی گئی۔ روے زمین پر اس تصور کے کروڑوں پیروکار پیدا ہوئے اور اس کی ہم نوائی میں زندگی کی تعبیر پھر سے کی جانے لگی، خدا ناشناس علمی عنوانات: روشن خیالی، ترقی پسندی، آزاد خیالی، عورتوں کے حقوق جیسے سیکڑوں خوب صورت الفاظ تراشے گئے جو عام آدمی کو خوش کرنے اور ایک معیاری انصاف پسند دنیا بنانے کا ولولہ انگیز طوفان تھا جو بڑے بڑوں کو بہا لے گیا۔ روس کے خاتمے کے ساتھ یہ اپنے انجام کو پہنچا۔ اس کے تمام ہم نوا اور پیروکار اپنے اپنے ملبوں میں واپس جانے کے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے۔
دوسری آواز فرائڈ کی تھی جو ۱۸۸۲ء میں شعور اور تحت الشعور کی بحث کے ساتھ اُبھری، اس نے تجربات سے ثابت کیا کہ بھولی ہوئی یادیں اور تجربات تحت الشعور میں محفوظ ہوجاتے ہیں اور ان کو واپس یاد دلایا جاسکتا ہے۔ ان تجربات کو کرنے کے لیے اس نے نفسیاتی تجزیے (psychoanalysis) کا وہ تجرباتی طریقہ پیش کیا کہ رومانی دنیا کے انسانی ذہن کے لیے لامحدود وسعتوں تک ترقی کرسکنے کے امکانات وا کردیے۔ یورپ، امریکا اور دنیا بھر میں نفسیاتی تجزیے کی تجربہ گاہیں کھل گئیں۔ فرائڈ کی سب سے زیادہ مشہور تشریح اس کا لبیڈو (Libido) نظریہ تھا جس کے لاتعداد ہم نوا اور بے اندازہ مخالفین بھی سارے عالم میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ لبیڈو نظریہ کے تحت انسان اپنی تمام نشوونما میں پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ مانگنے کے وقت سے موت کی آخری ہچکی تک ایک جنسی تسکین کا متمنی رہتا ہے۔ جنسی لذت کی کمی اور زیادتی کے تجربات کے تحت ہی انسان کی تمام جسمانی، ذہنی، دماغی، عملی اور دانش مندی کی کارفرمائیاں وجود پاتی ہیں۔ اس نظریے کو انسان کے تمام اوامر زندگی پر محیط کرنے کی کوشش عالمی پیمانے پر کی گئی۔ یہ خودپسندی (Narcissism) تھی، یعنی وہ نفسی کیفیت جس میں انسان اپنی ہی ذات کو کامل اور خود اپنے ہی عشقِ ذات میں محو رہنا کافی سمجھتا ہے۔ اپنی جسمانی لذتوں کے پانے میں گم ہوجانے اور اسی کو مرکزحیات اور مقصد کائنات سمجھنے اور سمجھانے والوں کی ایسی شدید گونج تھی جو مختلف ناموں سے ۱۹ویں صدی میں اٹھی اور پوری ۲۰ویں صدی میں گونجتی رہی اور ۲۱ویں صدی کے آتے آتے غلط اور بے بنیاد ثابت کردی گئی۔
تیسری آواز ڈاروَن کی تھی جس نے انسان کو بندر کا رشتے دار بتایا اور فلسفۂ ارتقا کے دیوانے گھر گھر نظر آنے لگے۔
۲۰۰۰ء میں یہ ثابت ہواکہ جب روشنی کی رفتار کو کئی گنا بڑھایا گیا تو اس تجربے کے دوران سائنس دان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس تجربے میں تاثیر (effect) اس کے سبب (cause) سے پہلے ہوئی۔ ایک اخبار نے لکھا کہ یہ ثابت ہوا ہے کہ کسی سبب سے پہلے اس کی تاثیر کا ہونا ممکن ہے۔ اب تک خیال تھا کہ کسی بھی اثر، انجام، نتیجہ یا حاصل کو پانا اس کے سبب، وجہ یا علّت کے ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔ یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ کسی واقعے کی انتہا اس کی ابتدا سے پہلے بھی ممکن ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ واقعہ خود اپنے آپ میں ایک تخلیق (creation) ہے۔ یہ کسی دوسرے واقعے کا ردعمل نہیں ہے۔ اب تک جو کہا جاتا رہا ہے کہ ہرعمل کسی عمل کا ردعمل ہے یا یہ کہ There is reaction to every action، یہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ ۲۵ جون ۲۰۰۰ء کو یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک قدیم چڑیا کا فوسل (fossil) جو لاکھوں سال بعد دریافت ہوا وہ بھی چڑیا ہی تھا یعنی لاکھوں سال پہلے سے اب تک اس چڑیا میں کوئی ارتقا (evolution) نہیں ہوا۔ آج کی چڑیا بھی بالکل وہی چڑیا ہے جو لاکھوں سال پہلے تھی۔ ابھی ۲۰۰۱ء میں انسانی جینوم (genome) پراجیکٹ مکمل ہوا ہے جس میں زندگی کے حیاتیاتی میک اپ (biological makeup) کا مکمل نقشہ تیار کیا گیا جو اس صدی کا بڑا سائنسی کارنامہ ہے۔ اس پراجیکٹ کے نتیجے میں یہ بات اور واضح ہوگئی ہے کہ خدا کی تخلیق جو انسان کی شکل میں ودیعت کی گئی ہے وہ زندہ اشیا میں سب سے عظیم تخلیق ہے۔ ماہرین ارتقا کوشش کر رہے ہیں کہ انسانی جین (gene) اور جانوروں کے جین میں مشابہت کی افواہ پھیلا کر کچھ مواد اپنے مطلب کا نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دانش وروں اور سائنس دانوں کی بڑی تعداد نظریۂ تخلیق کی حامی (creationist) ہوتی جارہی ہے جن کا یہ اعتراف ہے کہ دنیا کسی عظیم قوت کی قوتِ تخلیق سے وجود میں آئی ہے۔ بتدریج ترقی کے مراحل سے گزرتی ہوئی اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچی ہے۔ آیندہ جو مختصر تفصیلات بیان ہوں گی ان کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگا سکیں گے کہ خدا ناشناس سائنس اب اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے اور ۲۱ویں صدی انسان کو اپنے کھوئے ہوئے خدا سے پھر ملا دے گی۔
ڈی این اے میں موجود فرمانِ الٰہی جب سائنس کی سمجھ میں آنے لگا تو سب سے پہلے یہ مانا جانے لگا کہ زندہ اشیا ایسی مکمل اور پیچیدہ ترتیب و ترکیب کا مرکب ہیں کہ یہ حادثاتی طور پر کسی اتفاق کے تحت وجود میں نہیں آسکتیں جب تک یہ کسی بڑے ماہر اور قادر مطلق بنانے والے کی کارگزاری نہ کہی جائے۔ اگر کسی مقام پر اینٹ، پتھر، گارا، مٹی، قالین،ایرکنڈیشنر، ٹی وی اور ریفریجریٹر اور تمام رہایشی سامان موجود ہو اور پھر اچانک ایک حادثہ یا اتفاقی واقعہ ایسا ہوجائے کہ یہ سب مل کر بادشاہ سلامت کا محل بن کر اُبھر آئے، یہ جادو کی کہانی تو ہوسکتی ہے ایک سائنسی حقیقت کبھی نہیں ہوسکتی۔ اب ڈی این اے میں چھپے ہوئے تین بلین (۱۰۹x۳) یا ۳ ارب کیمیائی حروف کو decodeکرنا اور انسانی ڈی این اے میں موجود ۸۵ فی صد ڈاٹا صحیح ترتیب و سلسلے (sequence) میں لانا ممکن ہوگا۔ اتنا اہم اور کامیاب پراجیکٹ بھی اس کے لیڈر ڈاکٹر فرانسس کولنز (Francis Collins) کے بقول ابھی پہلا قدم ہے جو ڈی این اے میں چھپی معلومات حاصل کرنے کی طرف اٹھایا گیا ہے۔ معلومات کے اس ذخیرے کو حاصل کرنے میں اتنا زمانہ کیوں لگا اس سوال کا جواب ملے گا اگر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ڈی این اے میں کس نوعیت کی معلومات پوشیدہ ہیں۔
ڈی این اے ہمارے جسم کے ۱۰۰ ٹریلین (۱۰۱۴، یا ۱۰۰ کھرب) خلیوں میں سے ہر ایک خلیے کے مرکزے (nucleus) میں بڑی حفاظت سے موجود ہوتا ہے۔ ہر خلیے کا قطر ۱۰مائی کرون (micron) ہوتاہے۔ مائی کرون m۶-۱۰ کو کہتے ہیں۔ گویا میٹر کا دس لاکھ واں حصہ یا ملی میٹر کا ایک ہزارواں حصہ۔ اتنے چھوٹے خلیے کے درمیان ڈی این اے محفوظ ہوتا ہے۔ اس ڈی این اے میں انسانی جسم کی ساخت اور بناوٹ کی تمام تر تفصیلات اتنی وسعت، گیرائی اور گہرائی کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں کہ اس کا وجود اللہ رب العزت کی صناعی کی اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اپنے سمجھنے کے لیے ان معلومات کو صرف سلسلۂ ترتیب میں لاکر انسان پھولا نہیں سما رہا ہے۔ اس علم کو ایک عظیم الشان شعبۂ علم سے وابستہ کر کے اس کو جینیات (genetice )کا نام دیا گیا ہے۔ ۲۱ویں صدی کی یہ علمی شق ابھی گھٹنوں چلنے کی عمر میں ہے۔ اس میدان میں ابھی اور نہ جانے کیا کیا انکشافات ہونے ہیں۔
آج مثلاً ۲۵ سال کی عمر میں ہم اپنا سراپا آئینے میں دیکھیں تو یہ بے داغ جسم، یہ حسین و پُرکشش شکل و شباہت، یہ صحت و تندرستی، یہ علم و دانش سے آراستہ ذہن و عقل کس طور ترقی کرتے ہوئے اس حال کو پہنچیں گے، یہ علم ۲۵ سال اور ۹ماہ پہلے اس ڈی این اے میں لکھ دیا گیا تھا جو ماں کے پیٹ میں سب سے پہلے بارآور شدہ بیضے (fertilized egg) کے خلیے کی شکل میں نمو پایا تھا۔
اتنا ہی نہیں ہماری لمبائی چوڑائی،وزن، ناک نقشہ، چہرہ مہرہ، بالوں اور آنکھوں کا رنگ، جلد کی رنگت، خون کی قسم وغیرہ نطفہ ٹھیرنے سے شروع ہوکر موت تک روز بروز ماہ بہ ماہ، سال بہ سال تبدیلیوں کا حال ایک مکمل تسلسل کے ساتھ ڈی این اے میں موجود رہتا ہے۔ مثلاً اس میں لکھا رہتا ہے کہ کب کب خون کا دبائو زیادہ ہوگا اور کب کم رہے گا۔ کب سر کا پہلا بال سفید ہوگا اور کب دُور کی اور قریب کی نظر کمزور ہو جائے گی۔
ہم معلومات کے ذخیروں کو انسائی کلوپیڈیا کی طرز پر جانتے ہیں۔ ڈی این اے میں پوشیدہ معلومات کا ذخیرہ کوئی معمولی ذخیرہ نہیں۔ ایک ڈی این اے میں موجود معلومات کو اگر کتابی شکل میں منتقل کیا جائے تو یہ برطانوی انسائی کلوپیڈیا کے ۱۰ لاکھ صفحات پر مکمل ہوگا۔
ذرا تصور کریں کہ انسانی جسم کے ۱۰۰ ٹریلین خلیوں میں سے ہر خلیے کے مرکزے کے اندر ایک مالیکیول (molecule) جس کانام ڈی این اے ہے، ملتا ہے۔ اس کا سائز ایک ملی میٹر کا ایک ہزارواں حصہ ہے اور اس میں وہ معلومات درج ہیں جو دنیا کے سب سے بڑے انسائی کلوپیڈیا بریٹانیکا سے ۴۰ گنا زیادہ ہیں جو اسی انسائی کلوپیڈیا جیسی ۹۲۰ جلدوں میں سما سکے گا، جس میں متعدد معلومات کی ۵ بلین (۱۰۹x ۵) قسمیں یا جزئیات (pieces) محفوظ ہیں۔ اگر ہر ایک جز کو پڑھنے پر صرف ایک سیکنڈ صرف کیا جائے اور ۲۴گھنٹے متواترپڑھنے کا سلسلہ رہے تو اسے ایک بار پڑھنے کے لیے ۱۰۰ سال لگ جائیں گے۔ ۹۲۰ جلدوں کی ان کتابوں کو اگر ایک دوسرے کے اُوپر سجایا جائے گا تو ۷۰ میٹر اونچا کتابوں کامینار تیار ہوجائے گا۔ یہ سب معلومات اس ذرے میں سما دی گئی ہے جو پروٹین، چربی اور پانی کے چند مالیکیولوں سے مرکب ہے۔
جی جی تھامسن نے لکھا تھا کہ ہماری زمین پر کل جان دار اشیا ایک ہزار ملین ہیں۔ ان تمام اشیا کی معلومات ڈی این اے کی شکل میں جمع کی جائے تو چائے کے ایک چمچے میں آجائیں گی اور پھر بھی جگہ خالی رہے گی۔
جسمِ انسانی کے سارے ۱۰۰ ٹریلین خلیے عجب حکمت اور دانش مندی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ یہ بظاہر بے جان ایٹموں کا مجموعہ ایک بے روح شے ہونا چاہیے۔ ہم اگر تمام عناصر کے ایٹم جمع بھی کرلیں، ان کو کسی بھی ترتیب سے لگا لیں مگر وہ دماغ، وہ سمجھ بوجھ اس ذخیرئہ ایٹم سے حاصل نہیں کرسکتے جو کسی عمل کو سلیقے، سلسلے اور ترتیب کے ساتھ انجام دینے کے لیے ضروری ہے۔ جس طرح ہر عقل و سمجھ بوجھ والے کام کے لیے ضروری ہے کہ کسی دانش مند نے اس کام کو انجام دیا ہو، وہ کمپیوٹر ہو یا کوئی اور کام ہو، اسی طرح ڈی این اے بھی اپنے بنانے والے سے عقل و دانش اور سمجھ بوجھ لے کرآیا ہے۔
ہماری زبان میں ’الف‘ سے ’ے‘ تک حروف تہجی ہیں۔ انگریزی زبان A سے Z تک ۲۶حروف سے بنتی ہے۔ ڈی این اے کی زبان میں صرف چار حروف ہیں: A-T-G-C ۔ان میں سے ہر ایک حرف ان خاص بنیادوں (bases ) میں سے ایک ہے جو نیوکلیوٹائیڈس (nucleotides) کہلاتے ہیں۔ دسیوں لاکھ bases ایک ڈی این اے میں قطار در قطار ایک بامعنی ترتیب اور سلسلے کی کڑی بنائے رکھتے ہیں اور یہ سب مل کر ایک ڈی این اے کا مالیکیول بناتے ہیں۔
A،T،G اور C میں سے کوئی بھی دو مل کر ایک اساسی جوڑا بناتے ہیں جسے اساسی جوڑا (base pair ) کہا جاتا ہے۔ یہی اساسی جوڑے اُوپر تلے جمع ہوکر جین بن جاتے ہیں۔ ہر جین جو کسی مالیکیول ڈی این اے کا ایک حصہ ہوتا ہے، انسانی جسم کے کسی نہ کسی حصے کے بارے میں معلومات محفوظ کیے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ اس جسمانی حصے کی نمایاں خصوصیات، وضع قطع، ڈیل ڈول، ہیئت، خدوخال، صورت، شکل، حلیہ، رنگ و روپ جو کسی فردِ خاص کی انفرادیت سے متعلق مفصل کیفیت کہی جاسکتی ہے، اس جین میں درج ہوتی ہے۔ اب انسان کی لاتعداد خصوصیات ہیں۔ یہ لمبائی ہو، آنکھوں کا رنگ ہو، ناک بھوں کی ندرتیں ہوں یا کان بڑا یا چھوٹا ہو، یہ سب جین میں موجود پروگرام کے مطابق بنتے اور سنورتے جاتے ہیں اور جسم کا ہر ہر حصہ جین کے حکم کے مطابق پروان چڑھتا ہے۔
ایک انسانی خلیے کے ایک ڈی این اے میں ۲ لاکھ جین ہوتے ہیں۔ ہر جین مخصوص نیوکلیوٹائیڈس کے بالکل انفرادی سلسلۂ ترتیب سے بنا ہوتا ہے۔ ان نیوکلیوٹائیڈس کی تعداد اس پروٹین کی قسم پر منحصر ہوتی ہے جس سے یہ وجود پاتا ہے۔ پروٹین کی یہ تعداد ۱۰۰۰ سے ایک لاکھ ۸۶ ہزار تک ہوسکتی ہے۔ اس جین میں جسم انسانی میں موجود ۲لاکھ قسموں کی پروٹین کا کوڈ بھی چھپا ہوتا ہے اور وہ نظام بھی موجود رہتا ہے جس کے تحت یہ تمام پروٹین ضرورت کے مطابق جسم میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
خیال رہے کہ ایک جین بے چارہ ڈی این اے کا صرف ایک معمولی سا حصہ ہے۔ ۲ لاکھ جینز میں محفوظ معلومات یا کوڈ ڈی این اے میں موجود کل معلومات کا صرف ۳ فی صد ہی ہوتی ہیں۔ ۹۷فی صد دفتر علم ابھی ہماری بساط آگہی کے لیے پردئہ راز میں ہے۔ یہ بات تو مان لی گئی ہے کہ یہ ۹۷ فی صد علم جس تک ابھی انسان کی رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے، انسانی خلیے کی بقا اور ان مکانیات (mechanisms) سے متعلق جو انسانی جسم میں انتہائی پیچیدہ عوامل کے کنٹرول کا باعث ہوتے ہیں بڑی ناگزیر معلومات رکھتے ہیں۔ صرف ۳ فی صد معلومات کا پتا ملنے پر عقل انسانی حیران ہے، دانش و فکر پر سکتہ طاری ہے، ابھی مزید ۹۷ فی صد پوشیدہ معلومات تک پہنچنا ایک لمبا سفر ہے جو جاری ہے۔
جین خود بھی کروموسوم (chromosomes) میں واقع ہوتے ہیں۔ جنسی خلیے کے علاوہ ہر انسانی خلیے میں ۴۶ کروموسوم ہوتے ہیں۔ ہر کروموسوم ایک کتاب علم کی طرح ہے کہ ایک انسان کے متعلق تمام معلومات ۴۶ جلدوں کی کتابوں میں بند رہتی ہے، اور یہ سب بسیط معلومات کا وہ خزانہ ہے کہ جسے ورقِ کتاب پر لایا جائے تو برطانوی انسائی کلوپیڈیا کی ۹۲۰ جلدوں تک پھیل جائے۔
ہر انسان کے ڈی این اے میں حروف A، T ، G اور C کا سلسلہ (sequence ) مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روے زمین پر جتنے انسان پیدا ہوچکے ہیں اور قیامت تک جو اسی طرح پیدا ہوتے رہیں گے، وہ تمام کے تمام ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ذرا سوچیں کہ ہر انسان کے تمام اعضا کا نام مختلف نہیں ہے، یعنی آنکھ، ناک، منہ، دل، گردہ وغیرہ سب کے پاس ہے۔ پھر بھی ہر شخص کچھ ایسے خاص انفرادی اور بڑے تفصیلی طریقے پر پیدا ہوا ہے کہ سب کے سب ایک خلیے کے تقسیم در تقسیم ہونے کے عمل سے پروان چڑھنے کے باوجود ایک ہی بنیادی بناوٹ رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ہمارے تمام اعضا ایک منصوبے کے تحت پروان چڑھے ہیں جو ہماری جین میں لکھا ہوا ہے۔ سائنس دانوں نے جو خاکہ مکمل کیا ہے اس کے تحت جسم کے مختلف اعضا کو کنٹرول کرنے والی جین کی تعداد مختلف ہے۔مثلاً ہماری کھال کو جو جین کنٹرول کرتی ہیں ان کی تعداد ۲۵۵۹ ہے۔ اسی طرح دماغ کو ۲۹۹۳۰، آنکھ کو ۱۷۹۴، لعابِ دہن کو ۱۸۶، دل کو ۶۲۱۶، سینے کو ۴۰۰۱، پھیپھڑوں کو ۱۱۵۸۱، جگر کو ۲۳۰۹، آنتوں کو ۳۸۳۸، دماغی پٹھوں کو ۱۹۱۱، اور خون کے سیل کو ۲۲۹۲ جین کنٹرول کرتی ہیں۔
ڈی این اے کے حروف کا سلسلۂ ترتیب انسانی بناوٹ کی تمام تر تفصیلات طے کرتا ہے۔ معمولی سے معمولی تفصیل بھی اس کے احاطے میں ہے۔ صرف آنکھ، ناک، چہرہ مہرہ اور ظاہری حسن و جمال ہی نہیں، ایک سیل میں نصب ڈی این اے انسانی جسم میں موجود ۲۰۶ ہڈیوں، ۶۰۰ پٹھوں (muscles) اور ۱۰ہزار auditory muscles (کان سے متعلق پٹھے) کے نیٹ ورک اور ۲۰ لاکھ optic nerves (آنکھ سے متعلق) اور ۱۰۰ بلین nerve cells اور تمام کے تمام ۱۰۰ٹریلین خلیوں کا مکمل ڈیزائن اپنے اندر سمائے ہوئے ہوتا ہے۔
اس وسیع سمندر کا اندازہ لگایئے اور علم کی کائنات کی سب سے پیچیدہ مشین ’آدمی‘ کے جسم و عقل اور فہم و ادراک کے پروان چڑھنے کا علم حیرت انگیز طور پر ایک ڈی این اے میں قطار در قطار جمع کردیا گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ڈی این اے کے حروف کے سلسلۂ ترتیب (sequence ) میں ذرا بھی نقص رہ جائے تو ممکن ہے آپ کی آنکھیں چہرے پر ہونے کے بجاے آپ کے گھٹنے پر نمودار ہوجائیں اور آپ کے ناک، کان، ہاتھ پائوں، سر اور کمر اپنے موجودہ مقام سے ہٹ کر کسی بے ہنگم جگہ پر وارد ہوجائیں، ڈی این اے کا یہ مکمل نظام آپ کے بے داغ ڈیل ڈول اور ہراعتبار سے مکمل انسان ہونے کا ضامن ہے۔
اب اگر کوئی کہے کہ ڈی این اے کا منظم سلسلہ کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ ہے یا ناگہانی واقعہ ہے تو کوئی کم عقل بھی یہ بات نہ مانے گا۔ اتفاقات کا امکان یا احتمال، ریاضی میں امکان (probability) کے حساب سے معلوم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ نسبت ہے جو کسی اغلب حالت کو جملہ ممکنہ حالات سے ہو۔ آج ریاضیات نے یہ بھی حساب لگا دیا ہے کہ محض اتفاق سے ایک ڈی این اے کے ۲ لاکھ جین میں سے کسی ایک جین کی بھی ترتیب اس مخصوص سلسلے سے ہموار ہوجانے کی نسبت صفر کے برابر ہے۔
فرینک سالسبری (Frank Salisbury ) جو خود ایک ارتقا کو ماننے والا سائنس دان ہے، کہتا ہے کہ: ایک درمیانی درجے کے پروٹین میں ۳۰۰ کے قریب amino acids ہوتے ہیں۔ اس کو کنٹرول کرنے والے ڈی این اے جین میں تقریباً ۱۰۰۰ نیوکلوٹائیڈ کی ایک کڑی ہوگی۔ چونکہ ایک ڈی این اے کڑی میں چار قسم (C،G،T،A) کے نیوکلوٹائیڈ ہوتے ہیں، اس لیے ۱۰۰ link والی کڑیاں ۴۱۰۰۰ قسموں کی ہوں گی۔ الجبرا کے ذریعے logrithms کے استعمال سے ۴۱۰۰۰ کا مطلب ہوا ۱۰۶۰۰ ،یعنی ۱۰ کو ۱۰ سے ۶۰۰ مرتبہ ضرب کرنے سے ایک کے بعد ایک ۶۰۰صفر لگانے سے جو ہندسہ بنے گا۔ یہ وہ عدد ہے جس کا صرف تصور کیا جاسکتا ہے۔
مزید وضاحت اس طرح کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ تمام ضروری نیوکلوٹائیڈ بھی کہیں موجود ہیں اور ان کو مجتمع کرنے والے تمام پیچیدہ مالیکیول اور خامرے (enzymes ) بھی سب مہیا کردیے گئے ہیں تو ان نیوکلوٹائیڈکا خاطرخواہ sequence میں ترتیب پا جانے کا امکان ۱۰۶۰۰ میں سے ایک بار ہے، یعنی ڈی این اے کے خود بخود وجود میں آجانے کی probability ۱۰۶۰۰ میں سے صرف ایک دفعہ کی ہے۔ ناممکن کہیں توکم ہے۔
فرانسس کرِک (Francis Crick)کو ڈی این اے کی ریسرچ پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔ یہ خود بڑا پکا حامی ارتقا تھا مگر کہتا ہے کہ: ’’ایک انصاف پسند انسان، اس معلومات کی روشنی میں جو اب تک ہمارے پاس ہے، صرف اتنا کہہ سکتا ہے کہ ایک خاص معنی ہیں، انسانی زندگی کی ابتدا اس وقت تو ایک کرشمہ ہی معلوم ہوتی ہے‘‘۔
خیال رہے کہ بچوں میں (Haemophilia Leukemia) ڈی این اے کے کوڈ میں خرابی واقع ہوجانے سے ہوتا ہے۔ کینسر کی تمام قسمیں اسی نازک توازن کے بگڑ جانے سے ہوتی ہیں۔ یہ خرابی کسی بھی ایک ڈی این اے کے کسی ایک اساسی جوڑے میں توازن نہ ہونے سے ہوجاتی ہے۔ یہ خرابی C ،G،T،A حروف میں مثلاً ایک بلین ۶۱۸ ملین ۴۵۷ ہزار اور ۶۳۲ویں اساسی جوڑوں میں ہوسکتی ہے۔ اتنی کثیر تعداد میں اساسی جوڑے ،ہر خلیے میں ڈی این اے اور تمام ٹوٹتے بنتے اور تقسیم در تقسیم ہوتے خلیوں میں توازن برقرار رکھنے کا نظام بھی ڈی این اے کے کوڈ میں چھپا ہوتا ہے۔
ڈی این اے کی تحیر خیز دنیا میں اپنی ہی نقل یا خودساختہ نقشِ ثانی بنانے (self replication) کا عمل انتہائی تیزی سے جاری رہتاہے، سب جانتے ہیں کہ انسانی جسم کی ابتدا ماں کے پیٹ میں ایک خلیے سے ہوتی ہے۔ پھر یہ خلیہ تقسیم ہوجاتا ہے اور نئے خلیے وجود میں آتے جاتے ہیں جو کہ ایک سے دو، دو سے چار، اور اسی طرح ۴-۸، ۱۶-۳۲، ۶۴-۱۲۸ کی نسبت سے تقسیم ہوکر جنم لیتے جاتے ہیں۔
خلیہ تقسیم ہوکر دوسرا خلیہ بناتا ہے اور ہر خلیے کو ایک ڈی این اے چاہیے اور ڈی این اے کڑی خلیے میں ایک ہی ہوتی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہر تقسیم ہوتا ہوا خلیہ اپنا ہم شکل خود پیدا کرتا ہے۔ ہر خلیہ ایک خاص سائز کا ہوتا ہے۔ تقسیم ہوکر دوسرا خلیہ بنانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ خلیے میں شعور اور یہ ایقان کہاں سے آیا، خلیے کے ساتھ ساتھ ڈی این اے کی تقسیم کا خفیہ عمل بڑے دل چسپ طریقے پر ہوتا جاتا ہے۔
ڈی این اے کا مالیکیول جو شکل میں ایک چکردار زینے کی طرح ہوتا ہے تقسیم ہوکر دو حصوں میں zip کی طرح کھل جاتا ہے۔ یہ دونوں طرف سے غائب ادھورے حصے اسی اطراف میں موجود مادہ سے اپنی انوکھی تکمیل کو پہنچتے ہیں اور ایک سے دوسرا ڈی این اے وجود میں آجاتا ہے۔ تقسیم کے ہر دور میں خاص پروٹین اور خامرہ کسی ماہر روبوٹ (robot) کی طرح کام کرتے رہتے ہیں۔ تمام تفصیل کا ذکر ممکن ہے مگر اس کے لیے بہت سے صفحات بھی ناکافی ہوں گے۔
خامرے (enzymes) وہ کارندے ہیں جو ہر قدم پر یہ چیک کرتے ہیں کہ کوئی غلطی اگر ہوگئی ہے تو فوری طور پر اس کی اصلاح ہوجائے۔ ہر منٹ میں ۳ہزار اساسی جوڑے پیدا ہوجاتے ہیں اور نگرانی کرنے والے خامرے ضروری ترمیم، اصلاح اور ردوبدل بھی کرتے جاتے ہیں تاکہ نئے پیدا ہوئے ڈی این اے میں غلطی کا امکان نہ رہے۔ اس لیے ڈی این اے کے حکم سے مرمت کرسکنے والے زیادہ خامرے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ڈی این اے میں خود اپنی حفاظت کا، اپنی افزایشِ نسل کا اور نسلوں کو محفوظ اور برقرار رکھنے کا مکمل پروگرام کوڈ کیا ہوا ہوتا ہے۔
اب دیکھیے کہ خلیے پیدا ہوتے ہیں اور مرتے جاتے ہیں۔ آپ کے جسم میں جو خلیے چھے ماہ پہلے تھے ان میں سے آج ایک بھی باقی نہیں ہے۔ ان کی عمر بہت کم ہوتی ہے، میرے سب خلیے مرچکے ہیں مگر میں زندہ ہوں اس لیے کہ ہر خلیے نے بروقت اپنا ہمزاد پیدا کرنے کا عمل مکمل کرلیا تھا۔ یہ عمل انتہائی مہارت سے مکمل ہوتا ہے کہ کسی غلطی کا امکان ۳بلین اساسی جوڑوں میں سے صرف ایک میں ہوسکتا ہے اور یہ غلطی بھی بڑے اعلیٰ تکنیکی انداز میں سنوار دی جاتی ہے۔
سب سے زیادہ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ خامرے جو پل پل ٹوٹتے بنتے بکھرتے اور سنورتے ڈی این اے کو پیدا کرنے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں وہ دراصل مختلف قسم کی پروٹین ہیں جن کے پیدا ہونے کی ترتیب اورسلسلہ بھی اسی ڈی این اے میں کوڈ کیا ہوا ہے اور اسی ڈی این اے کے حکم کے تابع ان کا نظام عمل چلتا ہے جس کی افزایش کی دیکھ بھال ان کو کرنی ہے ؎
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صداے کن فیکون
فلسفہ ارتقا کہتا ہے کہ انسان درجہ بہ درجہ کچھ فائدہ مند اتفاقات کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ خامرے اور ڈی این اے کا بیک وقت وجود میں آتے جانا اور ان کا انوکھا تال میل کسی بڑے تخلیق کار (Creator) کا کارنامہ ہے اور وہ ہستی اللہ کی ہے، دنیا بھر کے دانش ور یہ حقیقت جانتے جارہے ہیں۔
سائنس کے پاس جواب نہیں ہے کہ ڈی این اے میں یہ معلومات کہاں سے آئیں، ہرزندہ شے، مچھلی، کیڑے مکوڑے، چرند و پرند اور انسان کے ڈی این اے مختلف کیوں ہوتے ہیں، خود ڈی این اے کا وجود اور ابتدا کیسے ہوئی۔ اس عمل کو سمجھنے کے لیے آر این اے کی ایک علیحدہ دنیا کا پتا چلا کہ خامرے کو آر این اے چلاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
خلاصہ یہ کہ زندگی دینے والے عناصر در عناصر مالیکیول، خلیہ، ڈی این اے، آر این اے، خامروں اور ہزاروں پروٹین سب جمع کرلیے جائیں تو بھی زندگی نہیں ملتی۔ تھک ہار کر ماننا پڑتا ہے کہ زندگی صرف تخلیق (creation) کے ذریعے ممکن ہے اور یہ خالق (Creator) کون ہے؟
اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں… وہ اس کے علم میں سے کسی کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے… وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۵۵) ۔(بہ شکریہ ماہنامہ الفرقان، لکھنؤ ،نومبر ۲۰۰۷ئ)