جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کااہلِ پاکستان پر جو حق ہے، وہ انسانیت، اسلام، اخلاق اور سیاسی، معاشی اور تہذیبی اوامر اور تقاضوں (imperatives) ہراعتبار سے محکم ہے۔ صدافسوس! ہماری موجودہ قیادت نے اس باب میں نہ صرف مجرمانہ غفلت برتی ہے، بلکہ عملاً فرار اور بے وفائی کی راہ اختیار کرلی ہے، جسے اللہ، ملت اسلامیہ پاکستان اور تاریخ کبھی معاف نہیں کریں گے___ لیکن سوال غلط کار حکمرانوں کو معاف کرنے یا ان کے احتساب سے کہیں زیادہ کا ہے۔ جب کوئی قوم اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے بجاے دوسروں کے ہاتھ میں اپنی قسمت کا اختیار دے دیتی ہے تو اس کے مفادات، اس کی عزت، اس کی آزادی اور بالآخر اس کا وجود معرضِ خطر میں ہوتے ہیں۔ آج پاکستانی قوم کے سامنے ایک ایسا ہی چیلنج ہے___ ۲۱ دسمبر کو عیدالاضحی اور سنت ابراہیمی کی روشن مثال نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور اس سلسلے میں کشمیر کے قائد اور کشمیریوں کی آرزوئوں کے ترجمان سید علی شاہ گیلانی نے جو پیغام اہلِ پاکستان کو بھیجا ہے، اس پر دل کی گہرائیوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستانی قوم اپنی تاریخی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ایک بار پھر کمربستہ ہوجائے اور حکمرانوں کے فرار، بے وفائی بلکہ غداری کی تلافی کا سامان کرسکے۔ سب سے پہلے اس مردِمجاہد کے بیان کا خلاصہ اس توجہ اور یکسوئی سے پڑھ لیجیے کہ ہرلفظ دل میں اُتر جائے۔ اس لیے کہ یہ پیغام جس داعیِ حق کا ہے، وہ آج اقبال کے اسی شعر کی زندہ تصویر بنا ہوا ہے ؎
ہوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
’’کشمیریوں کو نہ بھارت ظلم و ستم سے جھکا سکا ہے اور نہ پاکستان کے حکمرانوں کی بے وفائی ہمیں اپنی منزل سے مایوس کرسکے گی۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور افسوس اس قلعے کے محافظ مسلسل پسپائی کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم اول روز سے پاکستانی ہیں اور خون کے آخری قطرے تک پاکستان کی بقا، سالمیت اور تکمیل کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ جب میرے یہ حروف آپ کی نظروں سے گزر رہے ہوں گے، تو یقینا مملکت خداداد پاکستان میں ہر جانب عید کی خوشیاں جلوہ گر ہوں گی۔ میں چشمِ تصور سے اپنے خوابوں کی سرزمین کو دیکھتا رہتا ہوں۔ قیامِ پاکستان سے قبل میں نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی تھی، اور ۶۰برس گزر جانے کے باوجود وہ مناظر، گلیاں، بازار اور کوچے دل و نگاہ میں بس رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پاکستان سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں اور یہ محبت کسی زمین، رنگ، نسل، زبان کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ وہ محبت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے رشتے سے ہمارے دلوں میں جاگزیں کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر اس وقت میں قومی اور ملّی اُمنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں تو اس مسئلے کا نامناسب حل مسلط کرنے کے بجاے مناسب وقت کا انتظار کیا جائے۔ ہم نہ تھکے ہیں اور نہ ہمت ہاری ہے۔ ہمارے جذبے ماند نہیں پڑے۔ ہمارے جوان، بوڑھے اور عفت مآب خواتین ہمت اور حوصلے کے ساتھ برسرِپیکار ہیں۔ عید کے موقع پر میں تمام اہلِ پاکستان کو حریت کانفرنس اور ریاست جموں و کشمیر کے وفاشعاروں کی طرف سے عیدمبارک کہتا ہوں‘‘۔
اقبال نے صرف یہ نوحہ ہی نہیں کہا تھا کہ ؎
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
بلکہ یہ دعوت بھی دی تھی کہ ؎
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
۲۵دسمبر کو ہم نے قائداعظم کا یومِ پیدایش بھی منایا ہے، لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ آج ہم کشمیر کے بارے میں قائداعظم کے وِژن، عزائم اور پالیسی خطوط کار کو ایک بار پھرذہنوں میں تازہ کریں تاکہ قوم مسندِاقتدار پر براجمان ٹولے کی آزادی کش، بھارت نواز اور دینی اور ملّی تقاضوں کے شعور سے محروم پالیسیوں اور پسپائیوں کا راستہ ترک کر کے، اللہ پر بھروسے اور اپنی تاریخی ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ اصول اور حقیقی ملّی مفاد پر مبنی جرأت مندانہ پالیسیاں اختیار کرسکے۔
ہم کشمیر کے سلسلے میں قائداعظم کے چند بیانات، بلکہ احکام و ہدایات کو زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کر رہے ہیں اور قوم کو یاد دلا رہے ہیں کہ قائداعظم نے وہی کہا تھا جو آج سید علی گیلانی کہہ رہے ہیں، اور کشمیر کے غیور مسلمان، جناب گیلانی اور حزب المجاہدین کی قیادت میں عملاً قائداعظم ہی کے احکام پر عمل پیرا ہیں، جب کہ قائد کا نام لینے اور ان کے مزار پر چادر چڑھانے اور گارڈز کی ڈیوٹیاں تبدیل کرانے والے حکمران ان احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور پاکستان اور مسلمانانِ جموں و کشمیر سے بے وفائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
میں کانگریس سے پوچھتا ہوں کہ وہ کشمیر میں کیا کر رہی ہے؟ آریہ سماجی، ہندو مہاسبھائی، کانگریسی قوم پرست اور کانگریسی اخبارات، یہ سب کشمیر کے معاملے میں کیوں چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ کیا اس وجہ سے کہ کشمیر ہندو ریاست ہے؟ یا اس وجہ سے کہ کشمیر کی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے؟
افسوس کہ آج خود مسلمان حتیٰ کہ پاکستانی مسلمان اور خصوصیت سے وہ قیادت جس کا فرض کشمیر کی تحریک حریت کی پشتی بانی ہے، چپ سادھے بیٹھی ہے۔قائداعظم کی روح آج خود ہم سے، پاکستان کی موجودہ قیادت سے وہی سوال کر رہی ہے جو ہندوقیادت سے ۱۹۳۸ء میں کیا تھا!
مسلمان جغرافیائی حدود کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے اسلامی برادری کے نام پر ہندستان کے مسلمان آپ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں۔ اگر آپ پر ظلم ہوا یا آپ سے بدسلوکی کی گئی تو ہم بے کار تماشائی کی صورت میں نہیں رہ سکتے۔ ایسی صورت میں برطانوی ہند کے مسلمان آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوجائیں گے۔ کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم آپ کی مدد کے پابند ہیں۔
آج ہمارے حکمران ’جہاد‘ کے لفظ سے خائف اور اس پر شرمندہ ہی نہیں ہیں، بلکہ اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو ’دہشت گرد‘ تک قرار دے رہے ہیں۔ لیکن دیکھیے جب اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے قبائلی مسلمان، وہی قبائلی مسلمان جن پر آج امریکا کی خوش نودی کے حصول یا اس کے حکم کے تحت پاکستانی فوج کو بم باری اور آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، ان قبائلی مسلمانوں نے کشمیر کے جہاد میں شرکت کی اور اس پر جب بھارتی گورنر جنرل نے ان کے خلاف اقدام کا مطالبہ کیا تو قائداعظم نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا فرمایا:
’’ہم اس کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں اور نہ ہم قبائلیوں پر دبائو ڈال سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کو خالی کر دیں۔ مسلمانانِ کشمیر نے ڈوگرہ آمریت سے تنگ آکر ہری سنگھ کی گورنمنٹ کو فتح کرنے کے لیے جہاد شروع کر رکھا ہے اور قبائلیوں نے مجاہدین کا ہم مذہب ہونے کی مناسبت سے ان کی امداد کی ہے۔ لہٰذا ہم اس معاملے میں کسی قسم کا دخل دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ مجاہدین کی یہ جنگِ آزادی ہے اور کوئی آزادی پسند ملک آزادی کی خاطر لڑنے والوں کے مخالفین کے ہاتھ مضبوط نہیں کرسکتا۔ اس لیے جن قبائلیوں کو برطانوی حکومت نہ دبا سکی، ہم انھیں کیسے روک سکتے ہیں۔ وہ ایک نصب العین کے لیے نبرد آزما ہیں‘‘۔
(۳ نومبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم اور مائونٹ بیٹن کے مابین ایک کانفرنس کی روداد ملاحظہ ہو: رشحات قائد، مرتبہ نجمہ منصور، العبد پبلی کیشنز، سرگودھا، ۱۹۹۲ئ، ص ۱۶۷-۱۶۸)۔
عوام نے متعدد بار راجا سے اپیل کی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں، لیکن راجا پر اس مسئلے کا اُلٹا اثر ہوا، اور اس نے عوام کی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوششیں کیں۔ اس پر عوام نے بھی طاقت کا جواب طاقت سے دینا شروع کردیا۔ جب راجا ان کی چوٹ برداشت نہ کرسکا تو اپنا اقتدار ختم ہوتے دیکھ کر اسے ہندستان میں شامل ہونے کی سوجھی۔ دراصل کشمیر ہندستان میں شامل نہیں ہوا، بلکہ ہری سنگھ شامل ہوا ہے۔ جب ہندستان میں ہری سنگھ کی شمولیت کے خلاف کشمیری عوام ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے تو ان سے یہ راے طلب کرنے کی تجویز کہ وہ ہندستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان میں، نہ صرف فریب بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔
کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر قائداعظم نے مائونٹ بیٹن سے یہ بھی کہا: ’’کشمیر جہاں اقتصادی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کا ایک جز ہے۔ وہاں سیاسی اعتبار سے بھی اس کا پاکستان میں شامل ہونا ضروری ہے‘‘۔(رشحاتِ قائد، مذکورہ بالا)
’’کشمیر، سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی خوددار ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ اپنی شہ رگ دشمن کی تلوار کے آگے کردے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ ہے جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے۔ لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظرانداز نہیں کرسکتا کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا ایک حصہ ہے اور جب بھی اور جس زاویے سے بھی نقشے پر نظرڈالی جائے، یہ حقیقت بھی اتنی ہی واضح ہوتی چلی جائے گی‘‘۔ (قائداعظم کے آخری ایام)
یہی پاکستان کی وہ کشمیر پالیسی ہے کہ جس پر پوری قوم کو مکمل یکسوئی رہی ہے۔ تاریخی تسلسل کے ساتھ ہم اس پر قائم رہے ہیں اور اس کے حصول کے ۱۹۴۷ء سے جموں و کشمیر کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے اس پالیسی سے انحراف اور بے وفائی کی ہے اور کشمیری مسلمانوں کو مایوس کیا ہے، لیکن الحمدللہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی ہمتیں اب بھی جوان ہیں___ کیا پاکستانی قوم قرآن کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کا ساتھ نہیں دے گی؟
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا دیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔ (النساء ۴:۷۵)