اگست ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کے سایے میں

عبد الغفار عزیز | اگست ۲۰۱۰ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں بھی شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپؐ تقریباً پورا شعبان ہی روزے رکھتے۔ (بخاری حدیث ۱۸۶۹، مسلم حدیث ۱۱۵۶)

آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے کئی ماہ پہلے رمضان کی برکات پانے کی خصوصی دعائیں شروع کردیتے، گویا مہمان مکرم کے انتظارمیں ہیں۔ جیسے جیسے رمضان قریب آتا، ذوق و شوق میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ ہم بھی ذرا اپنا اپنا جائزہ لیں، دل میں انتظارِ رمضان کی کیا کیفیت ہے؟ پھر یہ بھی کہ کیا ہم بھی حبیبؐ رب العالمین کی طرح رمضان کی تیاری نوافل و روزوں کی کثرت سے کررہے ہیں یا صرف نئے سے نئے پکوانوں کے اہتمام سے۔

o

حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ کو ایک بار احباب نے مزید کھانا کھانے پر اصرار کیا۔آپ نے فرمایا: بس مجھے اتنا کافی ہے۔ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ’’دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والے کو، آخرت میں سب سے زیادہ بھوکا رہنا پڑے گا‘‘۔   (ابن ماجہ ،حدیث ۳۳۵۱)

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمان مبارک کے مطابق: ’’انسان اپنے پیٹ سے بدتر کوئی اور برتن نہیں بھرتا۔ ابن آدم کے لیے وہ چند لقمے کافی ہیں جن سے اس کی پشت سیدھی رہے‘‘۔    طبی تحقیقات بھی تقریباً ہر دور میں ثابت کرتی رہی ہیں کہ فاقہ کشی کے مقابلے میں پیٹ بھرا رہنے سے زیادہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ رسولِؐ رحمت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی تربیت ہی ایسی کی تھی کہ، جب تک بھوک خوب نہ چمک اٹھے کھایا نہ جائے اور جب کھائیں تو پیٹ نہ بھریں۔

یہ امر بھی رب ذو الجلال کی رحمتوں ہی کا حصہ ہے کہ رمضان المبارک کی روحانی و اخروی برکات کے ساتھ ہی ساتھ، دنیوی اور جسمانی برکات کا بھی اہتمام فرمادیا۔ کارخانۂ قدرت میں اس رحمت کا پرتو اکثر مخلوقات میں ملتا ہے۔ تقریباً تمام نباتات و حیوانات بھی گاہے بگاہے فاقوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ کھانے پینے سے یہی پرہیز ان کے لیے تجدید نشاط کا ذریعہ بنتا ہے۔ فصلوں کا پکنا اور پھلوں کا مٹھاس سے بھرنا تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک مزید پانی روک نہ لیا جائے۔

حدیث میں مذکور رحمت نبویؐ جسمانی عافیت کو اصل فکر مندی سے وابستہ کردیتی ہے کہ دنیا میں پیٹ بھرنے کی دوڑ، آخرت کی بھوک سے دوچار نہ کردے۔ آخرت میں بھوک کے عذاب کا کوئی توڑ نہیں۔

o

حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے کہ غزوۂ بدر کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی جانب دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپؐ کے ساتھی ۳۱۹ تھے (کئی روایات میں ۳۱۳ ہے)۔ آپؐ   قبلہ رو ہو کر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوگئے اور اپنے رب سے سرگوشیاں کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے مجھے (جو کامرانی) عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کے اس گروہ کو ہلاک کردیا، تو پھر روے زمین پر تیری عبادت نہ ہوگی۔ (مسلم ۴۵۸۸)

خاتم النبیینؐ اپنی تمام جمع پونجی میدان بدر میں لے آئے۔ انسانی بس میں جو بھی تدابیر ہوسکتی تھیں کر ڈالیں، اور پھر رب علیم و قدیر کے آگے ہاتھ پھیلادیے۔ یہ یقین تھا کہ اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا، لیکن احساس ذمہ داری، قافلہء حق اور دعوت دین کے مستقبل کے بارے میں فکرمندی تھی کہ   بے کل کیے دے رہی تھی۔ امت کو یہ تعلیم دینا بھی مقصود تھا کہ کامیابی کے دونوں ستون یکساں اہم ہیں: ہرممکن انسانی کوشش اور اللہ پر مکمل اعتماد و بھروسا کرتے ہوئے دعا۔

اہل ایمان اس جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن مشیت الٰہی نے تمام تر انتظامات اس طرح کردیے کہ عین نصف رمضان (۱۷ رمضان ۲ ہجری) میں فیصلہ کن غزوہ بدر رونما ہوجائے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں ’’تاکہ اللہ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کردکھائے‘‘۔

فتح مکہ کی عظیم الشان کامیابی بھی رمضان المبارک میں عطا ہوئی (۲۰ رمضان ۸ ہجری)۔ دل دہلا دینے والا غزوۂ خندق شوال ۵ ہجری میں وقوع پذیر ہوا، لیکن اس کے لیے تیاری کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پورا مہینہ طویل و عریض خندق کھودنے میں لگے رہے۔

دیگر کئی عظیم معرکے اور فتوحات بھی ماہِ رمضان میں ہوئے۔ مثلا رمضان ۹۱ ہجری میں فتح اندلس۔ رمضان ۲۲۳ ہجری میں خلیفہ معتصم باللہ کی قیادت میں فتح عموریہ۔ ۲۵ رمضان ۶۵۸ ہجری میں  سیف الدین قطز کی قیادت میں تاتاریوں کو شکست۔ کتنے ہی معرکے ہیں کہ جن کے ذریعے اللہ بتا رہا ہے کہ رمضان المبارک سستی و کسل مندی اور بے جان پڑے رہنے کا نہیں، ماہِ فتوحات و جہاد ہے۔

o

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔ آپؐ سب سے زیادہ سخاوت رمضان میں کرتے، جب جبریل ؑامین آپؐ سے ملاقات کے لیے تشرف لایا کرتے تھے۔ حضرت جبریل ؑرمضان کی ہر رات آپؐ کے ساتھ مل کر دورۂ قرآن کیا کرتے۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوش گوار بادِ نسیم سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔ (بخاری، حدیث ۶، مسلم، حدیث ۲۳۰۸)

قرآن اور رمضان لازم و ملزوم ہیں۔ رمضان میں قرآن لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اور یہ رات لیلۃ القدر کہلائی، ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر۔ رمضان میں قرآن قلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی صورت نازل ہونا شروع ہوا۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ جبریل امین ؑ کو خصوصی طور پر آپؐ  کے پاس تلاوت قرآن کے لیے بھیجتے۔ نبیوں کا سردار اور فرشتوں کا سردار مل کر پورا مہینہ تلاوت قرآن کرتے۔ جس سال آپؐ  کا وصال ہونا تھا، اس سال ماہ رمضان میں دوبار قرآن مکمل کیا۔

اس سے بڑھ کر اور کیا ترغیب و تحریص ہوگی کہ ہم سب بھی رمضان المبارک کو اس طرح ماہ قرآن بنالیں کہ روز قیامت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا کی پیروی کرنے والے کہلا سکیں۔

انفاق فی سبیل اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں۔ آپؐ کے جاں نثار چچازاد اور عظیم مفسرقرآن گواہی دے رہے ہیں کہ جس طرح خوش گوار تیز ہوائیں بلا تفریق سب کو نفع پہنچاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر و برکت بھی بلا تقسیم و تفریق سب کو عطا ہوتی۔

o

حضرت عبادہ بن الصامتؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ القدر کے بارے بتانے کے لیے باہر نکلے۔ اس وقت مسلمانوں میں سے دو افراد آپس میں ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو اس لیے آیا تھا کہ آپ لوگوں کو بتاؤں کہ لیلۃ القدر کب ہوتی ہے، لیکن فلاں اور فلاں جھگڑ رہے تھے اس لیے مجھ سے اس کا علم واپس لے لیا گیا۔ شاید یہ تمھارے حق میں بہتر ہی ثابت ہو، اب تم اسے پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری، حدیث ۴۹)

رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق عبادت اور محنت وسعی اپنی معراج پر جا پہنچتے۔ آپؐ اعتکاف کا اہتمام فرماتے۔ خود بھی راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے۔، اہل خانہ کو بھی جگاتے۔ ہر دنیاوی آرام و مصروفیتق تج دیتے۔ نیکیوں کی بہار عروج پر ہوتی۔

آج بدقسمتی سے انھی مبارک ترین راتوں کو خصوصی طور پر بازاروں اور خریداریوں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ وقت سے پہلے عید کی تیاری ، ان اہم ترین لمحات کو آگ سے نجات کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔

لیلۃ القدر کی تلاش یقینا بندوں کے لیے بلندی درجات ہی کا سبب بنے گی۔ لیکن ذرا سوچیے اگر امت کو واضح طور پر لیلۃ القدر کا علم دے دیا جاتا تو یقینا ہزار سال کی عباد ت سے بہتر رات پالینا آسان تر ہوجاتا۔ دو ساتھیوں کا باہم الجھ جانا اس خیر کثیر سے محرومی کا سبب بنا۔ اُمت مسلمہ کا باہم خوں ریزی اور قتل و غارت کا شکار ہونا، تعصبات و تفرقوں میں بٹا رہنا، کس کس خیر سے محرومی کا سبب بن رہا ہوگا۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑا، اللہ کو اس شخص کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری، حدیث ۱۸۵۳)

آں حضوؐرنے قول الزُّور کا لفظ استعمال کیا ہے اور الزُور کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں جھوٹ کے علاوہ ہر غلط و ناجائز بات شامل ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی سکہ، ڈگری یا دستاویز جعلی ہو تو اس کے لیے مُزَوَّر کا لفظ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح الزُّور میں ہر جھوٹ، دھوکا دہی، فحش و بے حیائی،  گالم گلوچ، جھگڑا ور غیبت سب شامل ہیں۔ روزے میں انسان کھانے پینے جیسے حلال و طیب کاموں سے تو رُک جائے لیکن اصلاً حرام باتوں اور کاموں کا ارتکاب کرتا رہے، تو آخر کیسا روزہ اور کیسی نیکی؟

قرآن روزے ہی کا نہیں نماز، حج اور زکوٰۃ سمیت ہر عبادت کا مقصد بندے کے دل میں خوفِ خدا پیدا کرنا ہی بتاتا ہے۔ آپؐ نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے۔ یہ اس کے لیے ڈھال ثابت ہوں گے‘‘۔ ایک اور ارشاد مبارک میں آپؐ نے روزے کو عموماًڈھال سے تشبیہ دی کہ جس طرح ڈھال دشمن کے وار سے بچاتی ہے، روزہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔