سوال: رمضان میں جب حرم شریف سے نماز تراویح ٹی وی پر دکھائی جاتی ہے تو اس ایمان افروز منظر کو دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ میں کمرہ بند کرکے قبلہ رو ہوکر اُس امام کے پیچھے نفل نماز کی نیت باندھ لوں۔ اگر میرایہ فعل مجھ تک ہی محدود رہے تو کیا اس چیز کی کوئی گنجایش نکل سکتی ہے؟
جواب: اس صدی کو بجا طور پر ابلاغ اور برقی ترسیلی سہولیات کا دور کہا جاتا ہے کیونکہ پیغام رسانی ہو یا سفر، یا معاشی معاملات میں کاروباری معاہدات، ہر اہم سرگرمی برقی آلات کی مدد سے کم سے کم وقت میں دنیا کے کسی بھی گوشے میں ممکن ہے۔
عموماً رمضان کریم میں یا پھر نمازوں کے اوقات میں بعض ٹی وی چینل حرمِ مکہ مکرمہ یا حرمِ مدینہ منورہ سے براہِ راست نشریات دکھاتے ہیں، اور اس روح پرور منظر کو دیکھتے وقت انسان سوچتا ہے کہ جو لوگ حرم میں عبادت میں مصروف ہیں اور ہر عبادت کا ۷۰ گنا یا زیادہ ثواب کما رہے ہیں، گو میں دُور بیٹھا ہوں کیوں نہ ٹی وی کی امامت میں ان کے ساتھ شامل ہوکر اجر کا طلب گار بنوں! اس لیے آپ نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے، وہ سمجھ میں آتی ہے۔ تاہم اس سوال کے کئی غورطلب پہلو ہیں۔
پہلی غور طلب بات یہ ہے کہ اگر رمضان کریم میں آپ کے قریب کی مسجد میں یا کچھ فاصلے پر ایک عظیم مسجد الجامع میں ایک اچھے قاری صاحب تراویح پڑھا رہے ہوں تو کیا ایسی صورت حال میں اُس مسجد میں جاکر بنفسِ نفیس شرکت اور بدنی عبادت کے اجر کے حصول کی کوشش افضل ہوگی یا ٹی وی کے سامنے کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا؟ ایک زندہ، موجود اور معقول امام کی موجودگی میں دیگر افراد کے ساتھ جماعت میں شریک ہوکر نماز کی ادایگی، اور ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہونے والی نماز کی شبیہہ کے پیچھے نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہوگا یا عملاً ایک مسجد میں دیگر افراد کے ساتھ شاملِ عبادت ہونا؟ گویا اگر دونوں شکلیں جائز ہوں، تب بھی ٹی وی کے پیچھے نماز اور بذاتِ خود مسجد میں نماز باجماعت میں کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور عقلاً بذاتِ خود مسجد میں نماز ادا کرنا ہرلحاظ سے افضل ہوگا۔
اب سوال کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔ کیا ٹی وی پر بننے والی شبیہہ کی حیثیت ایک حقیقی اور موجود امام کی ہوگی؟ اگر ایسا ہے تو کیا صرف حرم شریف میں امامت کرنے والے امام صاحب کی امامت میں نماز پڑھی جائے گی، جب کہ ایسی ہی شکل ایک ملک یا شہر میں بھی ہوسکتی ہے کہ پورے شہر یا پورے ملک کے نمازی ایک مرکزی امام صاحب کی امامت میں جن کی قرأت مثالی ہو، اپنے اپنے گھروں میں، یا مساجد میں محراب میں ٹی وی لگا کر اپنی اپنی نمازیں ادا کرلیں؟ اس میں مسجد کی شرط بھی نہیں ہوگی اور نہ گھر سے باہر کہیں جانا ہوگا ،بلکہ نہ صرف ایک شخص خود بلکہ تمام اہلِ خانہ بھی ٹی وی کی امامت میں گھر بیٹھے نماز ادا کرلیں گے۔
ممکن ہے میری بات میں آپ کو کافی مبالغہ نظر آئے لیکن اگر حرم شریف سے تلاوت کرنے والے یا امامت کرنے والے کی امامت میں نماز درست ہوسکتی ہے تو پھر جیسے اُوپر عرض کیا گیا ایسا کیوں نہ کیا جائے۔ گویا ایسا ممکن نہیں، اس لیے کہ ابلاغی آلات کی سہولت ایک مسلمان کو عبادات کے بدنی پہلو سے، اور نماز کے حوالے سے استقبالِ قبلہ، مسجد میں اجتماعیت اور شرکت کے احساس کا بدل نہیں ہوسکتی۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر کوئی صاحب کھینچ تان کر کوئی گنجایش نکال بھی دیں تو جن امام صاحب کی اقتدا میں ایک شخص نماز پڑھ رہا ہوگا جب ٹی وی پر امام صاحب اس کے مخالف نظر آئیں گے تو کیا مقتدی اپنا رُخ پھیر کر ٹی وی کی پشت پر چلا جائے گا اور پھر دوبارہ ٹی وی کے سامنے آجائے گا تاکہ وہ امام کی پیروی کر رہا ہو؟
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ تراویح میں جماعت کے ساتھ شرکت کرنا بدنی عبادت کے ساتھ ساتھ سمعی عبادت بھی ہے۔ لیکن اگر کسی بنا پر ایک شخص تھک گیا ہو تو وہ مسجد میں بیٹھ کر امام کی تلاوت کو بغور سن سکتا ہے اور اس کا اجر بھی نماز میں شرکت سے کم نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر آپ کو کسی خاص قاری کی تلاوت پسند ہے تو آپ بغیر نماز کی نیت کیے جب تک چاہیں بیٹھ کر تلاوتِ کلام عزیز سن سکتے ہیں اور مطالب پر غور کرسکتے ہیں لیکن ٹی وی کی امامت میں نماز کی گنجایش نظر نہیں آتی۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: ہمارے ہاں کی فجر کی اذان مقررہ وقت (جو دائمی کیلنڈر میں دیا گیا ہے) سے شروع ہوکر تقریباً آدھ گھنٹہ تک جاری رہتی ہے۔ بعض مساجد میں تو مستقلاً یہ وقت مقررہ سے آدھ گھنٹہ بعد ہی ہوتی ہے۔ اس سے ذہن میں اُلجھن پیدا ہوتی ہے:
۱- کیا فجر کے اوقات میں واقعی اتنی گنجایش ہے؟ اگر یہ گنجایش درست ہے تو پھر رمضان میں اذانیں ایک ہی وقت پر کیوں ہوتی ہیں؟
۲- کیا پہلی اذان کے بعد فجر کی نماز پڑھ لینا درست ہے یا کچھ تاخیر سے پڑھنی چاہیے؟
۳- خیط الابیض اور خیط الاسود سے کیا یہ مراد ہے کہ ہم دو دھاگے لے کر صحن میں نکلیں، اور اس سے ختم سحری کا تعین خود کریں یا اس سے کچھ اور مراد ہے؟
۴- کیادرج بالا رویہ (اوقات میں تغیر) دین میں آسانی (یسر) کے مترادف ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یسر سے کیا مراد ہے؟
ج: صبح کی نماز طلوعِ فجر سے لے کر طلوعِ شمس سے پہلے تک ادا کی جاسکتی ہے۔ اذان کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ عین طلوعِ فجر کے متصل بعد دی جائے لیکن یہاں اس کی پابندی نہیں کی جاتی۔ اس لیے روزہ کے لیے اذان کو بنیاد بنانا صحیح نہیں ہے۔ جس نے روزہ رکھنا ہو وہ طلوعِ فجر اور غروبِ شمس کا کیلنڈر اپنے پاس رکھے اور اس کی بنیاد پر روزہ رکھنے اور افطار کرنے کو معمول بنائے۔ عام طور پر نمازوں کے اوقات کا دائمی کیلنڈر بھی شائع ہوتا ہے اور مساجد میں اسے آویزاں کیا جاتا ہے۔ ایسا کیلنڈر گھروں میں بھی منگوایا جاسکتا ہے۔ آپ کے پاس جو کیلنڈر ہے اس میں صبح کے طلوع اور سورج کے غروب کے اوقات مقررہ کا اندراج ہے تو آپ اس کیلنڈر کے مطابق روزہ رکھیں اور اس کے مطابق افطار کریں۔
صبح کی اذان میں ۳۰،۳۵ منٹ تاخیر کرنا خلافِ اولیٰ ہے۔ اولیٰ یہ ہے کہ صبح صادق کے متصل بعد مقررہ وقت پر اذان دی جائے۔ یسر کے پہلو کے تحت اذان میں پانچ دس منٹ تک تاخیر ہوسکتی ہے۔ خیط الابیض اور خیط الاسود سے سفید اور سیاہ دھاگے مراد نہیں بلکہ مشرقی اُفق پر سفید اور سیاہ دھاریاں مراد ہیں۔ سفید دھاری صبح کی اور سیاہ دھاری رات کی علامت ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
س: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوٰۃ التسبیح کی فضیلت بیان فرمائی ہے لیکن یہ نماز باجماعت ادا نہیں کی۔ آج کل صلوٰۃ التسبیح باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ خاص کر رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہرجمعہ کچھ خواتین باجماعت صلوٰۃ التسبیح ادا کرتی ہیں۔ ایک خاتون پہلی صف کے شروع میں کھڑی ہوجاتی ہے اور پوری نماز باآواز بلند پڑھتی ہے۔ آیا اِس طرح صلوٰۃ التسبیح پڑھنا جائز ہے؟
ج: صلوٰۃ التسبیح اور کسی بھی نفل نماز کی جماعت باقاعدہ پروگرام کے تحت مکروہ ہے۔ نوافل میں سے صلوٰۃ الکسوف، صلوٰۃ الاستسقائ، صلوٰۃ الخسوف جائز اور مسنون ہیں۔ تہجد کی جماعت اتفاقاً بغیر کسی پروگرام کے پڑھی جائے تو وہ بھی بلاکراہت جائز ہے۔ خواتین کی جماعت بذات خود خلاف اولیٰ ہے، لہٰذا صلوٰۃ التسبیح کی باجماعت نماز بدرجہ اولیٰ مکروہ ہوگی۔ تعلیم مقصود ہو تو پھر خواتین کو ایک خاتون معلمہ بغیر جماعت کے جہراً نماز پڑھ کر تعلیم دے سکتی ہے۔ نماز کے بغیر بھی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ خواتین اپنے گھروں میں صلوٰۃ التسبیح بغیر جماعت کے پڑھیں۔ شریعت میں یہی مطلوب ہے۔(ع - م)
س: آج کل مساجدمیں اجتماعی اعتکاف کیا جاتا ہے۔ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد کے ایک طرف علیحدگی میں عبادت کرنے کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد علیحدگی میں رب سے رازونیاز اور اُس کی عبادت کرنا لی جاتی ہے۔ اجتماعی اعتکاف میں درس و تدریس کا کام زیادہ ہوتا ہے جو کہ کسی دوسرے موقع پر بھی ہوسکتا ہے۔ کیا اِس طرح معتکف ہونا جائز ہے؟ نیز خواتین کا اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے یا گھر میں؟
ج: اجتماعی اعتکاف کے معنی یہ ہیں کہ ایک دو نہیں بلکہ زیادہ لوگ بھی اعتکاف میں بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ اعتکاف انفرادی ہی ہوتا ہے اگرچہ ایک مسجد میں ۵۰، ۷۰ لوگ بیٹھے ہوں۔ رہی یہ بات کہ اس میں درس و تدریس اور وعظ و تربیت اور مطالعہ کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو یہ اعتکاف کے خلاف نہیں بلکہ یہ اعتکاف کا مقصود ہے۔ اعتکاف کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ایک آدمی اعتکاف میں ’’مراقبہ‘‘ میں مشغول ہو۔ رات کو کسی وقت مراقبہ بھی کیا جاسکتا ہے اور نماز میں مطلوب بھی یہ ہے کہ نماز اس طرح پڑھی جائے کہ گویا نمازی اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اگر دیکھ نہیں رہا تویہ تصور تو حقیقت ہے کہ اللہ نمازی کو دیکھ رہا ہے بلکہ ہر ایک کو ہرحال میں وہ دیکھ رہا ہے۔ خواتین کا اعتکاف گھر کی مسجد میں ہے۔گھر میں وہ جگہ جو خاتون نے نماز کے لیے مقرر کر رکھی ہو یا مقرر کرلے تو وہ اس کی مسجد ہے اور وہ وہاں معتکف ہوتی ہے۔ وہاں سے بغیر ضروری حاجات کے باہر نہ نکلے جس طرح مسجد میں معتکف مرد بغیر ضروری حاجت کے مسجد سے باہر نہیں نکل سکتا۔(ع-م)
س: پیس ٹی وی کے ایک پروگرام میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے کہا تھا کہ اسلام میں صرف نماز باوضو ہوکر پڑھنا ضروری ہے۔ اگر انسان کا جسم اور کپڑے پاک ہوں تو ہاتھ صاف کرکے قرآن مجید کی تلاوت کرسکتا ہے۔ کیا قرآن مجید بغیر وضو کے ہاتھ صاف کرکے پڑھا جاسکتا ہے؟
ج: ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک بے وضو آدمی قرآن پاک کو کسی رومال وغیرہ واسطے کے بغیر نہیں پکڑ سکتا۔ اس کے لیے دلیل کیا ہے؟ بعض فقہا نے اس کے لیے قرآن پاک کی ایک آیت لا یمسہ الا المطھرون(الواقعہ:۲۹) کو دلیل بنایا ہے۔ آیت کا معنٰی یہ ہے کہ ’’قرآن کو مَس نہیں کرتے مگر پاک کیے ہوئے لوگ‘‘۔
اور بعض نے کہا ہے کہ اس آیت کا تعلق فرشتوں سے ہے کہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں جو قرآن پاک کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہیں۔ آیت مذکورہ سے اس مسئلے کے استنباط میں تو اختلاف ہے لیکن اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قرآن پاک کو بے وضو آدمی مرد یا عورت مَس نہیں کرسکتے۔ یہ مسئلہ احادیث سے بھی ثابت ہے۔
امام مالک نے موطا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مکتوب گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے عمر ابن حزم کو لکھا تھا، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے: لا یمس القراٰن الا طاھر، ’’قرآن پاک کو وہ شخص نہ چھوئے جو پاک نہ ہو‘‘۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یمس القراٰن الا طاھر، ’’قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک آدمی‘‘۔ مفتی محمد شفیع صاحب اپنی تفسیر معارف القرآن میں سورئہ واقعہ آیت ۷۹ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’روایات مذکورہ کی بنا پر جمہور اُمت اور ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کے لیے طہارت شرط ہے۔ اس کے خلاف گناہ ، ظاہر نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا، باوضو ہونا، حالتِ جنابت میں نہ ہونا سب اس میں داخل ہے۔ (معارف القرآن، ج۸، ص ۲۸۶-۲۸۷)۔ ذاکر نائیک صاحب نے جو مسئلہ بیان کیا ہے وہ دائود ظاہری اور ابن حزم کا مسلک ہے۔(ع-م)
س: میں تنگ دستی کا شکار ہوں۔ خاوند بھی ضروریات اور اخراجات پورا نہیں کرتے اور اگر مطالبہ کیا جائے تو ناراض ہوتے ہیں۔ بڑی مشکل سے گزربسر ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کیا میں زکوٰۃ لے سکتی ہوں؟ میرے پاس آٹھ تولے سونا بھی ہے لیکن میں اسے بیچ نہیں سکتی کہ کل نہ جانے حالات کیسے ہوں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
ج: آپ کے شوہر آپ کے ساتھ نامناسب رویہ رکھتے ہیں اور اس وجہ سے آپ تکلیف میں ہیں۔ نان و نفقہ تو شوہر کی ذمہ داری ہے اس میں کوتاہی کرنا خلافِ شرع ہے۔ آپ کے شوہر کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ دوست احباب اور اہلِ خاندان کو بھی انھیں توجہ دلانا چاہیے کہ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔
جہاں تک زکوٰۃ کا تعلق ہے تو جس مرد یا عورت کے پاس بنیادی ضروریات سے زائد آٹھ تولے سونا ہو یا اس مالیت کا زیور ہو تو وہ مستحق زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ اس پر زکوٰۃ دینا واجب ہوجاتا ہے، یعنی فرض ہوجاتا ہے۔ آپ کے پاس اگر ساڑھے سات تولے سے کم کا زیور ہو، تو پھر آپ پر زکوٰۃ واجب (فرض) نہیں ہے اور آپ اپنی ضروریات کے لیے کسی سے زکوٰۃ لے سکتی ہیں۔ واللہ اعلم! (ع-م)