اگست ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کتاب نما

| اگست ۲۰۱۰ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

تفسیری نکات و افادات، حافظ ابن القیمؒ، جمع و ترتیب اور ترجمہ: مولانا عبدالغفار حسن۔  ناشر: مکتبہ اسلامیہ، بالمقابل رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، لاہور۔ فون: ۷۲۴۴۹۷۳-۰۴۲۳۔ صفحات: ۴۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔

حافظ ابن القیم آٹھویں صدی ہجری کے ممتاز عالم دین اور علومِ عربیہ کے ماہر تھے۔  حافظ ابن رجب کی راے میں یوں تو اُنھیں جملہ علومِ اسلامیہ میں دخل تھا لیکن تفسیر میں اُن کی نظیر نہیں ملتی۔ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ اور علم الکلام میں بھی اُنھیں کمال حاصل تھا۔ وہ ابن تیمیہؒ کے صحیح اور وفادار جانشین تھے۔

ابن القیم نے کوئی جامع تفسیر قرآن نہیں لکھی مگر متعدد سورتوں اور آیات کی تشریح و تفسیر   پر مبنی چند فاضلانہ تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ مولانا عبدالغفار حسن (م: ۲۲ مارچ ۲۰۰۷ئ) نے    ابن القیم کے تفسیری جواہر پاروں کو اُن کی مختلف تالیفات سے جمع کر کے اُن کا ترجمہ اور ترجمانی زیرنظر کتاب کی صورت میں پیش کر دی ہے۔ یہ کام اُنھوں نے اوائلِ عمر ہی سے اس وقت شروع کیا تھا، جب وہ مالیر کوٹلہ کے مدرسہ کوثرالعلوم میں مدرس تھے۔ اُس وقت تک امام ابن القیم کی التفسیر القیم بھی شائع نہیں ہوئی تھی۔ مولانا عبدالغفار حسن لکھتے ہیں: ’’ان تفسیری افادات کے مطالعے سے اچھا خاصا تفسیری ذوق پیدا ہوسکتا ہے اور سلف صالحین کے طریقۂ کار کے دائرے میں رہتے ہوئے فہمِ قرآن کا ذوق حاصل ہوسکتا ہے‘‘۔ (ص ۲۱)

حافظ ابن القیم کے اسلوبِ شرح نویسی کا اندازہ حسب ذیل مثال سے ہوگا: ’’اِِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo (التکویر ۸۱:۱۹)، بے شک وہ بزرگ رسول کا قول ہے۔ یہاں رسول سے  یقینی طور پر جبرئیل ؑہی مراد ہیں۔ بعد والی صفات اسی مراد کو معین کرتی ہیں۔ ہاں سورئہ الحاقہ میں رسولِ کریمؐ سے محمد رسولؐ اللہ مراد ہیں کیونکہ وہاں اس کے بعد دشمنوں کے اس قول کی تردید ہے کہ یہ قرآن شاعر یا کاہن کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نسبت کبھی تو رسول مَلَکی (جبرئیل ؑ) اور کبھی رسولِ بشری (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف فرمائی ہے۔ لیکن اس نسبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان دونوں نے ازخود یہ قرآن بنا لیا ورنہ پھر تو آیات میں تناقض اور ٹکرائو نظر آئے گا بلکہ یہاں نسبت بلحاظ تبلیغ ہے۔ خود لفظ رسول اس معنی کی تائید کر رہا ہے۔ رسول وہی ہوتا ہے جو مرسل (بھیجنے والے) کے کلام کو پہنچائے، نہ کہ اپنے کلام کو۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ یہ کلام اُس ذات کا ہے جس نے محمدؐ اور جبرئیل ؑکو منصب ِ رسالت پر فائز فرمایا۔ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے قطعاً گنجایش نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے متکلم بالقرآن ہونے کے منکر ہیں، بلکہ یہ آیت تو اس کے برعکس مضمون پر روشنی ڈالتی ہے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے اور ان رسولوں نے صرف تبلیغ کا فرض انجام دیا ہے‘‘۔ (ص ۳۳۱- ۳۳۲)

ناشر نے کتابت و طباعت میں بڑا اہتمام کیا ہے۔ بعض الفاظ کا املا درست نہیں (گذشتہ صحیح ہے نہ کہ گزشتہ۔ پرواہ غلط ہے ، صحیح: پروا وغیرہ)۔ فہرست ڈھنگ سے نہیں بنائی گئی۔ ہر جگہ  قمری سنین لکھے گئے ہیں۔ سہیل حسن صاحب نے اپنے ’پیش لفظ‘ میں قمری تاریخ کے ساتھ شمسی تاریخ بھی لکھ دی مگر حافظ ابن القیمؒ کی شمسی تاریخِ ولادت و وفات ندارد۔ جب ایک علمی کتاب موجودہ زمانے کے قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے تو موجودہ زمانے میں مروّج شمسی سنہ دینے سے اِحتراز کیوں؟ (رفیع الدین ہاشمی)


پیغمبرؐاسلام اور اخلاقِ حسنہ، حافظ زاہد علی۔ ناشر: راحت پبلشرز، یوسف مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۹۴۴۵۴۴۱-۰۳۰۰۔صفحات: ۳۵۸، قیمت(مجلد): درج نہیں۔

سیرتِؐ پاک لکھنا سعادت ہے، اعلیٰ ترین نیکی ہے، لیکن وہ جو اس کارِخیر کی انجام دہی کے لیے ایک ایک لفظ کی صحت پر دھیان دیں، ہرچیز کو پوری ذمہ داری سے پیش کریں، یقین کامل ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے گا۔ زیرنظر کتاب، اخلاقِ حسنہ اور اسوئہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلکیوں پر مشتمل ایسی دستاویز ہے کہ ورق، ورق پر قاری اپنے آپ کو عہدِ سعادت سے جڑا محسوس کرتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ ان تجلیوں سے اپنے قلب و نظر کو منور کرتا چلا جائے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق العباد کی نزاکت کو واضح کرنے کے لیے اپنے قول اور عملِ مبارک سے ہزاروں نمونے پیش فرمائے۔ ان نمونوں کے مخاطب اور ان کے ثمرات سے فیض پانے والوں میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ غیرمسلم و مشرک بھی شامل تھے۔ ظاہر ہے کہ  دین اسلام کوئی نسلی دین نہیں بلکہ دعوتی دین ہے۔ اس لیے کردار کی ان روشن قندیلوں نے کتنے ہی مُردہ دلوں کو اسلام کی روشنی سے منور کیا۔ یہ کتاب ان کرنوں کا ایک ہالہ پیش کرتی ہے۔

فاضل مؤلف نے ہرچیز کو اس کے مکمل حوالے اور صحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔    رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا ایک عکس پانے کے لیے یہ کتاب مددگار ہوسکتی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


سفرِسعادت، پروفیسر عاشق حسین شیخ۔ ناشر: امیرخان پبلی کیشنز، اٹک۔ ملنے کا پتا: مکتبہ تحریکِ محنت، نزد گرلز ہائی سکول نمبر۱، اٹک، موبائل: ۵۱۰۷۷۳۸-۰۳۰۷۔صفحات:۹۶۔ قیمت: ۹۰ روپے۔

زیرنظر کتاب حج اور عمرے کے زائرین کے لیے ایک نہایت عمدہ راہ نما کتاب ہے۔ مصنف انگریزی زبان و ادب کے ایک ’وظیفہ یاب‘ (ریٹائرڈ کا اُردو مترادف ہے، جو یوپی اور دکن میں استعمال ہوتا ہے) استاد ہیں۔ انھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں سفرِحرمین کی عملی مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کی تراکیب بتائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: حج نہایت مشکل اور جان جوکھوں کا کام ہے، اس لیے کسی مرحلے پر گھبرانا نہیں چاہیے۔ جدہ ہوائی اڈے پر اہل کاروں کے درشت اور بے لچک رویے کو محسوس نہ کریں کیوں کہ یہ تکلیف بھی عبادت ہے۔ زیادہ سامان ساتھ لے جانا پریشانی اور تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ جدہ سے مکہ جانے کے لیے بس پر سوار ہوں تو پانی کم از کم پئیں اورجن لوگوں کو پیشاب کی تکلیف ہو وہ ایک بوتل ساتھ رکھیں کیونکہ مکّہ پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں اور راستے میں بس سے اُترنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

پھر یہ کہ کمزور اور بیمار لوگ ویل چیئر پر طواف اور سعی کریں۔ پیسہ بچانے کے لیے پیدل مت چلیں کیونکہ آپ کا اصل مقصد حج کرنا ہے اور ایک تھکا ہُوا اور مضمحل آدمی دل جمعی کے ساتھ مناسکِ حج ادا نہیں کرسکتا۔ کھانے پینے میں بھی احتیاط ضروری ہے۔ مصنف کی ہدایت ہے کہ ترجیحاً سبزیاں اور دالیں استعمال کریں۔ دوپہر کو کھانا مت کھائیں، اس کے بجاے پھل استعمال کریں۔ مصنف نے نہایت تفصیل سے اور بہت جزئیات میں جاکر ہدایات دی ہیں جن کی بنیاد اُن کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ کتاب کے آخر میں اشاریہ بھی شامل ہے۔

گمان ہے اگر کوئی زائر حج و عمرہ اس کتاب کو پڑھ کر مصنف کی ہدایات کو پلّے باندھ لے تو سفر کی بیش تر مشکلات سے محفوظ رہے گا اور یقینی طور پر مصنف کے حق میں دعاگو بھی ہوگا۔ (ر-ہ)


امریکا ، زوال کی جانب، رضی الدین سید۔ ناشر: بیت السلام، شان پلازا، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۰۳۸۱۶۳-۰۲۱۔ صفحات: ۷۸۔ قیمت: درج نہیں۔

نیشنل اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ کراچی کے زیراہتمام تالیف و شائع کردہ یہ ایک مختصر مگر جامع اور اپنے موضوع پر عمدہ کتاب ہے۔ مصنف نے خبروں، تجزیوں اور تبصروں کی مدد سے امریکا کی زوال پذیری کے اسباب (اخلاقی گمراہ روی، خاندانی نظام کی تباہی، شرح پیدایش میں خطرناک کمی، یہودی سازشیں، معیشت کا زوال وغیرہ) پر اعداد وشمار اور حقائق کی مدد سے بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: امریکا کے معاملے میں سارے اسباب زوال جمع ہوکر اجتماعی طور پر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اس لیے اب ’’امریکا کا جانا ٹھیر گیا ہے ، صبح گیا یا شام گیا‘‘۔

اپنے موقف کی تائید میں مشرق و مغرب کے تجزیہ کاروں اور دانش وروں کی آرا بھی پیش کی ہیں۔ ضمیمے (مغرب میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی) میں گذشتہ ۴،۵ برسوں کی اہم خبریں اور اعداد و شمار درج کرنے کے بعد مصنف یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’مسلم آبادی میں اضافے کی وجہ سے مغرب میں عملی، دعوتی اور اسلام پسند نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کے اثرات وسیع ہوں گے‘‘ (ص ۷۱)۔مصنف کا اسلوب تحقیقی ہے۔ آخر میں اُردو انگریزی کتابیات بھی شامل ہے۔ (ر-ہ)


معیار ۳ (تحقیقی مجلّہ) مدیران: معین الدین عقیل، نجیبہ عارف۔ ناشر: شعبہ اُردو، بین الاقوامی اسلامی  یونی ورسٹی، ایچ-۱۰، اسلام آباد۔ فون: ۹۰۱۹۵۴۷۔ ضخامت: ۴۸۸۔ قیمت: درج نہیں۔

یونی ورسٹیاں اپنی عمارتوں کے شکوہ اور فن تعمیر کی انفرادیت کے بل پر نہیں، بلکہ اپنے    علمی کارناموں اور تحقیقی منصوبوں کی بنیاد پر پہچانی جاتی ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے  سب سے کم عمر شعبے نے جب معیار کے نام سے علمی و تحقیقی مجلے کا اجراکیا تو اس کا پہلا شمارہ ہی اپنے نادر اور معیاری لوازمے اور پیش کش کی ندرت کے سبب اہلِ علم کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اندیشہ تھا کہ مجلے کے لیے اپنا معیار قائم رکھنا مشکل ہوگا، مگر مجلسِ ادارت کی پختہ فکری، علمی اُپج اور مسلسل محنت نے، ایک سے بڑھ کر ایک شمارہ پیش کیا۔ (اوّلیں شمارے پر تبصرہ دیکھیے: ترجمان، نومبر ۲۰۰۹ئ)۔ ہمارے ہاں رسائل پر کم ہی تبصرے شائع ہوتے ہیں، لیکن اس مجلے کا دامن علمی اتنا مالا مال ہے کہ تازہ شمارے کا تعارف ضروری محسوس ہوتا ہے۔

زیرنظر شمارہ متعدد حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ ممتاز محقق عارف نوشاہی کے  ’مطالعاتِ تخصیص‘ (ص ۱۱-۲۵۴) ان کی تحقیق و جستجو کی عمدہ مثال ہیں، خصوصاً ’مجالس جہانگیری‘ (ص۴۳-۸۶) تو خاصّے کی چیز ہے۔ جناب اکرام چغتائی (ص ۲۷۳) اور حکیم محمود احمد برکاتی (ص ۲۵۵) کے مضامین بھی معلومات افزا ہیں۔ ’دریافت و انکشاف‘ (ص ۲۸۹-۳۳۱) کا گوشہ شاید پاکستانی کلچر کی بحث کو تیسری مرتبہ برپا کرنے کا ذریعہ بن جائے، جس میں کلچر پر جناب فیض احمد فیض کے ایک خصوصی لیکچر اور سوال و جواب کی نشست کو پہلی مرتبہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ لیکچر ۱۹۷۴ء میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ جناب فیض کا لیکچر اپنے موضوع کے اعتبار سے خاصا سرسری ہے، تاہم ایک بڑے ادیب کی گفتگو کے حوالے سے غورطلب ہے۔ اس سے اگلے مضمون میں محمد حمزہ فاروقی نے فیض کے ترجمہ اقبال (پیامِ مشرق) کا غیر جذباتی، مگر لسانی، لغوی اور سخن ورانہ اُپج سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’فیض کی فکر، تصورات اقبال سے متناقض تھی، چناں چہ انھوں نے ترجمے میں جابجا ٹھوکر کھائی اور اصل مفہوم کو اُردو میں منتقل نہ کرسکے… اقبال نے اگر چھوٹی بحروں میں دریا سے معانی کو غزل یا رباعی کے کوزے میں بند کیا تھا تو فیض صاحب نے طویل بحروں میں الفاظ کا گورکھ دھندا پیش کر کے مفہوم مسخ کیا‘‘ (ص ۳۰۹)۔ اس کے بعد حمزہ فاروقی نے کلامِ اقبال، ترجمہ فیض اور شائع شدہ ترجمہ فیض کا چارٹ پیش کر کے تقابلی مطالعے کی سہولت فراہم کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اکثر مقامات پر نئی ترامیم پائی جاتی ہیں، جو شاید صوفی تبسم کی تراوش فکر کا نتیجہ تھیں‘‘۔ (ص ۳۰۹)

بصیرہ عنبرین نے اُردو تضمین نگاری کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ نجیبہ عارف نے ’ادب کا نومزاحمتی رجحان‘ میں ’نائن الیون‘ کے حوالے سے مسلم دنیا کے آشوب پر  لکھی گئی افسانوی تحریروں کا جامع تجزیہ پیش کیا ہے۔ یہ مقالہ ملّی درد اور تنقیدی شعور کا عمدہ نمونہ ہے۔

پروفیسر فتح محمد ملک نے جسونت سنگھ کی متنازع کتاب جناح: اتحاد سے تقسیم تک کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں تاریخ اور اصل حقائق کو مسخ کر کے برہمنی سوچ کو جس ’مہارت‘ سے پیش کیا گیا ہے، مبصر نے بڑی عمدگی سے اس پر گرفت کی ہے۔ اس طرح قائداعظم کے لیے تحسینی کلمات کی مٹھاس میں لپٹی کڑواہٹ کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ تبصرے کی حسب ِذیل آخری سطور مقالے کے موڈ اور زیرتبصرہ کتاب کی روح کو بڑی خوبی سے پیش کرتی ہیں: ’’درج بالا سطور (زیرتبصرہ کتاب کے ص ۴۹۸) میں ڈنکے کی چوٹ اعلان کیا گیا ہے کہ پنڈت نہرو کی سیکولر ملائیت اور جسونت سنگھ کی ہندو احیائیت، ہردو اُس وقت طبلِ جنگ پر چوٹ لگاتی رہیں گی، جس وقت تک پاکستان جداگانہ مسلم تقویت کی نظریاتی اساس پر قائم ہے۔ بھارت سے دوستی کی فقط ایک ہی شرط ہے کہ پاکستان اپنی نظریاتی بنیاد منہدم کردے۔ پاکستان کی محکوم اشرافیہ تو شاید اس شرط کو قبول کرلینے پر آمادہ ہو، مگر آزادپاکستان کے غیور عوام کے نزدیک: ’ایں خیال است و محال است و جنوں‘ (ص ۴۲۶)‘‘۔ (س- م- خ )


ماہنامہ سیارہ، لاہور، ادارۂ تحریر: حفیظ الرحمن احسن، خالد علیم، عارف کلیم، سالار مسعودی۔ پتا: کمرہ نمبر۵، پہلی منزل، نور چیمبرز، بنگالی گلی، گنپت روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۰۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

۱۹۶۲ء میں جاری ہونے والے ماہ نامہ سیارہ کا ۵۷واں خاص شمارہ شائع ہوا ہے۔  حمد، نعت، داناے راز،(اقبالیات)، مقالات، منظومات، بازیافت، مراسلت، غزلیات، یادِرفتگاں، افسانے، مطالعہ خصوصی (کتب کا مطالعہ) اور تبصرۂ کتب اس پرچے کے مستقل سلسلے ہیں۔ زیرنظر شمارے کے ’گوشۂ جلیل عالی‘ میں دورِحاضر کے ایک نام وَر اُردو شاعر کے فکروفن پر ۱۳مضامین اور ان کا مکمل کوائف نامہ بھی شامل ہیں۔ داناے راز میں دو مضامین ’علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ کا خواب‘ از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ’اسلامی ادب کی ترویج میں اقبال کا کردار‘ از ڈاکٹر تحسین فراقی نہایت اہم ہیں۔ ڈاکٹر مقبول الٰہی کے مضمون ’مصورانہ خطاطی اور تحریفِ قرآن‘ میں مصورانہ خطاطی کے اس رجحان پر اچھا محاکمہ کیا گیا ہے جس میں قرآنی آیات کے الفاظ کی صورت بگڑ جاتی ہے۔ ’یادِ رفتگاں‘ کے تحت ڈاکٹر وحید عشرت، ڈاکٹر آفتاب نقوی شہید، جعفربلوچ، پروفیسر نذیراشک اور عبدالعزیز خالد کی وفات پر تعزیتی مضامین و منظومات ہیں۔ سیارہ کی مجلسِ ادارت خصوصاً   حفیظ الرحمن احسن کی محنت و کاوش قابلِ داد ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ شمارہ ایک معتبر ادبی دستاویز اور ادبِ اسلامی کی ترجمانی کا عمدہ نمونہ ہے۔ (قاسم محمود احمد)


تعارف کتب

  • ریاض الانوار ، مرتبہ: محمد وقاص، ناشر: تحریکِ محنت پاکستان، پوسٹ بکس ۳۲، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ۔ صفحات: ۵۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [نسلِ نو کو آنحضوؐر کی ذات والاصفات سے قریب تر کرنے اور آپؐ کے پیکرِ نور کی جھلک عام فہم زبان میں اس طرح پیش کی جائے کہ اُردو خواں طبقے کے سامنے آپؐ کی متحرک تصویر پیش کی جاسکے___ اسی تقاضے کے پیش نظر کتب ِ حدیث سے سیرتِ پاکؐ کا عام فہم انتخاب پیش کیا گیا ہے۔]
  • رقصِ ابلیس ، محمد صدیق شاہد۔ العصر پبلی کیشنز، مسعود منزل، بک سٹریٹ، ۱۴- مزنگ روڈ، لاہور۔    فون: ۳۷۰۰۵۲۸۷-۰۴۲۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [۱۹۴۷ء میں پاکستان آنے والے قافلوں کی ہجرت کے چشم دید واقعات سادہ زبان میں قلم بندکیے گئے ہیں۔ مہاجرین پر سکھ اور ہندو بلوائیوں کے حملے اور ان کے مظالم کا تذکرہ لرزہ خیز ہے۔ میڈیا نے ایسی چیزوں کو ہماری نظروں سے اوجھل کر دیا اور ہمارے   سیکولر دانش ور ’دوستی‘ کے نام پر تاریخِ پاکستان کے اس باب کو بدستور فراموشی کے کوڑے دان ہی میں رہنے دینا چاہتے ہیں___ مگر حوادث کی یہ سچی تصویریں، نئی نسل کے لیے قابلِ مطالعہ ہیں۔ خصوصاً ماہِ آزادی (اگست) میں تو سکھوں اور ہندوئوں کے مظالم کی یہ داستانیں، ’’گاہے گاہے بازخواں‘‘ کا تقاضا کرتی ہیں۔]
  • تذکرہ وسوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ۔ صفحات: ۳۱۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی شخصیت و کردار، اخلاص و للہیت ، زہد و استغنا، تقویٰ و خشیت، علم و عمل، خطابت، قیدوبند، شعروادب، حاضرجوابی، قرآن سے محبت و شیفتگی وغیرہ پر مشتمل ایمان افروز دل چسپ واقعات۔ مختلف رسائل اور جرائد سے خوشہ چینی پر مبنی تذکرہ و سوانح۔]
  • طلبہ کے لیے مثالی تحفہ ، مؤلف: مولانا محمد اصغر کرنالوی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سینٹر، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۶۰۳۷۴-۰۲۱۔ صفحات: ۴۷۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔[اسلامی تہذیب و تمدن میں   علمی روایت کے تذکرے، قدیم علمی ورثے، اور جدید معلومات پر مبنی، طلبہ کے لیے ایک مفید کتاب۔ تعلیم کا مقصد، اس کی اہمیت، حصولِ علم کے لیے شوق اور تڑپ، فہم قرآن کے اصول، وقت کے بہتر استعمال کے لیے رہنمائی، اساتذہ کے آداب و حقوق اور ذمہ داریاں، طلبہ کے فرائض، رویے اور تربیت جیسے موضوعات پر اکابر کے طالب علمی کے واقعات، طلبہ کے مفید نصائح اور حصولِ علم کے آداب۔ دل چسپ اور واقعاتی انداز۔]

سیدنا محمد رسول اللّٰہa (جلد اوّل و دوم، کُل ضخامت: ۱۳۵۰ صفحات)  دیدہ زیب طباعت کے ساتھ شائع ہوگئی ہے۔ ان خواتین و حضرات کی خدمت میں تحفتاً پیش کی جارہی ہے، جو شب و روز دعوت اور خدمت ِدین میں مصروف ہیں۔ اسکولوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں سے متعلق افراد متعلقہ ادارے کے سربراہ کا تصدیقی خط ، جب کہ تحریک سے وابستہ حضرات امیرضلع کا تصدیق نامہ لاکر کتاب دستی وصول کریں۔ آنے سے قبل ٹیلی فون پر رابطہ کریں۔

نوٹ: کتاب بذریعہ ڈاک بھجوانے کا انتظام نہیں ہے

شیخ عمر فاروق: جامعہ تدبر القرآن، 15-B ، وحدت کالونی، لاہور- فون: 37585960