سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَھُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ ط لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (۶) اے نبیؐ، تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے، اللہ ہرگز انھیں معاف نہ کرے گا، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا۔
یہ بات سورئہ توبہ میں بھی ارشاد ہوئی ہے اور یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر تم ان کے لیے ۷۰مرتبہ بھی مغفرت کی دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول نہیں کرے گا۔ یہاں یہی بات ان الفاظ میں فرمائی گئی کہ تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی درخواست کرو یا نہ کرو، اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ کیوں؟___ اس وجہ سے کہ اللہ کو ایمان کے دعوے کے ساتھ مکّاری کسی طرح پسند نہیں۔
ایک آدمی مشرک، کافر، بدعتی، جو بھی ہے، اللہ سے معافی مانگے تو اس کی معافی ہوجائے گی۔ اس کے اندر کم از کم یہ شرافت تو موجود ہے کہ جس چیز کو مانتا ہے اس کو سیدھی طرح سے مانتا ہے۔ لیکن جو آدمی اپنے خدا سے بھی مکّاری کرے، جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی مکّاری کرے، وفاداری کا دم بھی بھرے اور وفادار نہ بھی ہو، اپنے آپ کو مخلص مومن کی حیثیت سے پیش کرے لیکن حقیقت میں اس کے اندر کوئی اخلاص نہ ہو، بظاہر مطیع فرمان بنا پھرتا ہو لیکن درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر تلا ہوا ہو___ ایسے آدمی کے لیے کوئی معافی نہیں۔یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر رسولؐ اللہ بھی اس کے حق میں مغفرت کی دعا مانگیں تو ان کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی ہرشخص کے لیے نافع نہیں اور کسی کے لیے دعاے مغفرت کرنا بھی شفاعت ہے___ ظاہر بات ہے کہ شفاعت زندگی میں بھی ہوسکتی ہے اور آخرت میں بھی ہوگی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کی شفاعت کے معاملے میں کیفیت یہ ہے کہ حضوؐر کی شفاعت اللہ کو مجبور کرنے والی نہیں۔ اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا پورا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ حضوؐر اللہ کے بندے ہیں، خدائی میں شریک نہیں ہیں۔ آپؐ کا کام گزارش کرنا ہے،دعا کرنا ہے، قبول کرنا نہ کرنا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کے حق میں دعاے مغفرت فرما دیں تو وہ یقینا بخشا جائے گا، درست نہیں___ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات فرمائی ہے کہ یہ بات یکساں ہے کہ چاہے تم ان کی مغفرت کی دعا کرو یانہ کرو، اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو نہیں بخشے گا۔
اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۶) اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اطاعت کے دائرے سے جان بوجھ کر نکل جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی ہدایت نہیں ہے۔ فِسق کے معنی ہیں اطاعت سے جان بوجھ کر نکل جانا۔ ایک وہ آدمی ہے جو بھولے سے اطاعت کے دائرے سے نکل گیا، لغزش کھا گیا، ٹھوکر کھا گیا۔ اس کے برعکس ایک آدمی وہ ہے جو جان بوجھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت نہیں کرنی ہے، وہ فاسق ہوتا ہے۔ ہر گناہ گار کافر نہیں۔ فرق یہ ہے کہ جس شخص سے غفلت کی بنا پر کوئی قصور ہوگیا، وہ فاسق نہیں گناہ گار ہے۔ لیکن جس آدمی نے جان بوجھ کر فیصلہ کیا ہو کہ مجھے اطاعت قبول نہیں کرنی ہے بلکہ نافرمانی کی راہ پر چلنا ہے، وہ فسق کا ارتکاب کرتا ہے، اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ظاہر بات ہے کہ مغفرت اُسی شخص کی ہوسکتی ہے جو راہِ راست اختیار کرے، ہدایت قبول کرے لیکن جو شخص ہدایت اختیار نہیں کرتا اس کی مغفرت کیسے ہوسکتی ہے۔ جو آدمی پہلے گمراہ تھا لیکن سیدھے راستے پر آگیا اس کی معافی قبول ہونے کا امکان ہے، کیونکہ اس نے نافرمانی اور گمراہی کو چھوڑ کر اطاعت اور ہدایت کی راہ اختیار کرلی۔
اس کے برعکس جس نے جان بوجھ کر ٹھنڈے دل سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا فیصلہ کیا ہو تو اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ اس کو ہدایت دے۔ اللہ آقا ہے اور بندہ، بندہ اور غلام ہے۔ اگر بندہ اپنے آقا کے مقابلے میں جان بوجھ کر بغاوت کا رویہ اختیار کرے اور اکڑ کر چلاجائے کہ مجھے اس کی اطاعت نہیں کرنی ہے، تو کیا آقا کا یہ کام ہے کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو میری طرف چلا آ۔ آقا کا تو یہ کام ہے کہ اس سے کہے کہ تو جا اور اپنا انجام دیکھ۔ یہ مفہوم ہے اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ کا۔ اللہ کا کام یہ نہیں ہے کہ جو آدمی اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا، اللہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو ہدایت قبول کرلے۔ جو ہدایت نہیں چاہتا، اس کے لیے ہدایت نہیں ہے، اور جب اس کے لیے ہدایت نہیں تو اس کے لیے مغفرت بھی نہیں ہے ۔
ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّواط وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَفْقَھُوْنَ o (۷) یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسولؐ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہوجائیں۔ حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کامالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافق نہیں سمجھتے ہیں۔
یہ بات بھی رئیس.ُ المنافقین عبداللہ بن اُبی نے کہی تھی۔ جب غزوئہ بنی المصطلق کے موقع پر ایک انصاری اور ایک مہاجر کے درمیان جھگڑا ہوا تو اس نے انصار کو خوب بھڑکایا، انھیں مہاجرین کے خلاف خوب اُکسایا اور کہا کہ یہ لوگ تو فاقے کرتے ہوئے آئے تھے۔ تمھی نے ان کو اپنی جایدادوں میں شریک کیا، ان کو اپنے گھر تک رہنے کے لیے دیے، ان پر اپنے مال خرچ کیے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ تمھارے منہ آرہے ہیں۔ اب مدینہ واپس جاکر ان پر اپنا مال خرچ کرنا بند کرو، جو گھر ان کو دیے تھے ان سے ان کو نکالو اور جن جایدادوں میں ان کو حصہ دار بنایا تھا وہ ان سے واپس لو، جو قرض ان کو دیے تھے وہ قرض وصول کرو، اور آیندہ ان کی مدد کرنا بند کرو۔ دیکھنا چند روز میں یہ تمھیں چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔
اس منافق کے اس قول پر یہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے اُوپر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ وہ چھٹ کر الگ ہوجائیں، یہاں سے چلے جائیں، حالانکہ ان منافقین کو معلوم نہیں ہے کہ زمین و آسمان کے خزانے اللہ کے پاس ہیں۔ یہ لوگ محض جہالت اور نادانی کی باتیں ہیں کہ اگر یہ لوگ مہاجرین کی مدد نہ کرتے تو انھیں کوئی ٹھکانہ میسر نہ آتا، حالانکہ وہ ان کے رازق نہیں، بلکہ وہ خود بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ وہ اپنے رزّاق خود نہیں ہیں۔ ان کے پاس جو کچھ ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اگر تم نے یہ سلوک مہاجرین کے ساتھ اپنے ایمان اور اخلاص کی بنا پر کیا تھا تو پھر احسان کیسا!۔ اگر تم یہ سب کچھ نہ بھی کرتے تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ان کی ہر ضرورت کا سامان مہیا کرتا۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک ہے۔ اس کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟
یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ ط وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (۸) یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔
جیساکہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ عبداللہ بن اُبی نے یہ دریدہ دہنی بھی کی تھی اور اس کا مطلب ذلت والے سے مراد نعوذباللہ نبی کریمؐ کی ذاتِ اقدس تھی۔ اس کے قول کا مطلب یہ تھا کہ ہم جو عزت والے ہیں مدینہ پہنچ کر نعوذباللہ رسولؐ اللہ کو مدینہ سے نکال دیں گے۔ یہ بات رسولؐ اللہ تک بھی پہنچی اور صحابہ کرامؓ نے بھی سنی۔ رسولؐ اللہ چونکہ نہایت درجے کے غیرمعمولی متحمل مزاج تھے اس لیے آپ نے اس کی یہ بات سنی اور سن کر ٹال دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ عبداللہ بن اُبی نے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کی ہے تو انھوں نے آکر حضوؐر سے عرض کیا کہ حضوؐر، اگر اجازت ہو تو میں جاکر اس منافق کا سر قلم کر دوں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دراصل ارتداد کا فعل تھا کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد پھر اللہ کے رسولؐ کو نعوذباللہ ذلیل کہتا ہے___ اس سے زیادہ ارتداد کا فعل اور کیا ہوسکتا ہے۔
ظاہر بات ہے کہ اگر ایک شخص قرآن کی توہین کرے، اللہ کو یا اس کے رسولؐ کو گالی دے تو وہ تو نہ صرف یہ کہ مرتد ہے بلکہ نہایت ذلیل قسم کا مرتد ہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ میں جاکر اس مرتد کا سر قلم کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ عرب کے لوگ یہ کہیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہا ہے۔ کیونکہ باہر کے لوگوں کو تو معلوم نہیں کہ عبداللہ بن اُبی ایک منافق ہے، باہر کے لوگوں کو تو یہ معلوم ہے کہ عبداللہ بن اُبی مسلمانوں کا ایک سردار ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے منافق تھے ان کے بارے میں بھی باہر کے لوگ یہی جانتے تھے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر عبداللہ بن اُبی کو قتل کر دیا جاتا تو باہر کے لوگ یہ کہتے کہ دیکھیے ان کے درمیان کیسی پھوٹ پڑی ہے کہ اب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہے ہیں۔ یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی اور اس سے اسلام کی شہرت کو نقصان پہنچتا۔ اس لیے حضوؐر نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو یہ کام نہیں کرنا ہے۔
عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا نہایت مخلص مسلمان تھا۔ اس تک بھی یہ بات پہنچ چکی تھی۔ اس نے آکر عرض کیا کہ حضوؐر اگر آپ کو میرے باپ کا سر چاہیے تو کسی اور کو حکم دینے کے بجاے مجھے حکم دیجیے، میں جاکر اس کا کام تمام کرتا ہوں۔ لیکن حضوؐر نے اس کو منع کر دیا۔ یہ بات پہلے بیان کی جاچکی ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المصطلق سے واپسی کے راستے میں مدینہ پہنچنے سے پہلے پیش آیا تھا۔ جب حضوؐر مدینہ پہنچے تو عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا مدینہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے باپ سے کہا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اس وقت تک آپ مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اور فرمایا کہ عزت والے تو وہ ہیں، آپ نہیں۔ وہ اجازت دیں گے تو آپ مدینہ میں آسکیںگے ورنہ نہیں۔ آپ نے تو کہا تھا کہ عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ اب آپ فیصلہ کرلیجیے کہ عزت والا کون ہے اور ذلیل کون ہے؟ بیٹا باپ کے سامنے روک بن کر کھڑا تھا۔ یہ تھا اس کا اخلاصِ ایمانی!
ایمان دراصل اس چیز کا نام ہے کہ اللہ اور رسولؐ کو مان لینے کے بعد کسی اور رشتے داری کا پاس نہ ہو۔ اہلِ کفر سے تمام رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ نہ باپ باپ ہے، نہ بیٹا بیٹا، اور نہ بھائی بھائی ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں آکر دشمن کی حیثیت سے کھڑا ہوجائے تو باپ اپنے بیٹے کو قتل کرے گا، اور بیٹا اپنے باپ کو قتل کرے گا اور یہ مظاہرہ جنگ ِ بدر میں ہوچکا تھا۔ اللہ اور رسولؐ کو ماننے کا اخلاص یہی ہے۔ جس جگہ معاملہ دینی حمیت اور غیرت کا ہو، اس جگہ آکر وہ اپنے جذبات پر چھری پھیر دے گا۔ کوئی پروا نہ کرے اس بات کی کہ اگر میں نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا، یا بیٹے نے باپ کو قتل کردیا تو دل پر کیا گزرے گی۔ جو گزرتی ہے گزر جائے لیکن اللہ کی راہ میں اخلاص کا تقاضا یہی ہے کہ ہر رشتے، ہر جذبے اور ہر شے پر اللہ اور اس کے رسولؐ کو مقدم رکھا جائے۔ اللہ اور رسولؐ کے مقابلے میں ہرچیز کو قربان کر دیا جائے۔
یہی بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک احمق یہ کہتا ہے کہ عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عزت اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔ کوئی عزت والا ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کی کوئی عزت نہیں۔ عزت صرف اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلاَدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
یہ سورئہ منافقون کا دوسرا اور آخری رکوع ہے۔ اس سے پہلے یہ بتایا گیا کہ مدینہ کے منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہ روش اختیار کیے ہوئے تھے کہ آپ کی رسالت کا اقرار کرتے تھے اور قسمیں کھاکا کر یہ یقین دلاتے تھے کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں لیکن اس کے بعد حضوؐر کے خلاف، دعوتِ دین کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی چال بازیاں اور مکّاریاں کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ فرمانا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کو تمھارے مال اور تمھاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے، اور جو تم میں سے ایسا کرے وہ خسارے میں پڑنے والا ہے، تو یہ بات ارشاد فرمانے سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ منافقین کو جس چیز نے منافقانہ روش پر آمادہ کیا تھا وہ مال اور اولاد کا مفاد تھا۔ جب تک ایک آدمی کی اپنے مال اور اولاد کی محبت، خدا اور اس کے دین سے اور حق سے منحرف کردینے کی حد تک نہ پہنچ جائے، اس وقت تک آدمی منافقانہ روش اختیار نہیں کرتا۔ اس لیے فرمایا کہ تمھارا مال اور تمھاری اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔
اصل میں لفظ لاَ تُلْھِکُمْ استعمال کیا گیا ہے۔ لَھْو اس چیز کو کہتے ہیں جس میں آدمی کو دل چسپی اور مشغولیت اتنی بڑھ جائے کہ دوسری چیزوں سے اس کو غفلت لاحق ہوجائے۔ اسی بنا پر گانے بجانے اور کھیل کود کو لَھْو کہتے ہیں کیونکہ آدمی ان کے اندر اتنا مشغول اور منہمک ہوجاتا ہے کہ اس کو کسی اور چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ یہی لفظ یہاں استعمال کیا گیا کہ مال اور اولاد کا مفاد تم کو ایسا غافل نہ کردے، اپنے ساتھ اتنا مشغول نہ کرلے کہ تم اللہ کی یاد سے غافل ہوجائو۔
ایک منافق درحقیقت اس وجہ سے منافق ہوتا ہے کہ اس کو خدائی ہدایت کے مقابلے میں اپنا دنیوی مفاد عزیز ہوجاتا ہے۔ وہ اس کو اپنی طرف اتنا متوجہ کرلیتا ہے کہ وہ خدا کو بھول جاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی اپنی تجارت کو بڑھانے اور اسے ترقی دینے اور ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو نشوونما دینے کی اتنی فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ اس کو اس بات کی بھی پروا نہیں رہتی کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ وہ ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں حق کی حمایت کروں تو میری جایداد کو نقصان پہنچے گا، میری تجارت بیٹھ جائے گی، میرے دوسرے مالی مفادات پر ضرب آئے گی، اس لیے میں ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرتا ہوں کہ حق اور باطل کے جھگڑے میں نہ پڑوں، حق کے لیے مرنے، کٹنے والے نعوذباللہ بہت سے بے وقوف موجود ہیں، مجھے تو اپنے مفاد کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایک آدمی اپنی اولاد اور بیوی کے عیش و آرام کی خاطر حرام کماتا ہے، رشوتیں کھاتا ہے، غبن اور خیانتیں کرتا ہے۔ ہر طرح کی بے ایمانیاں کرکے کوشش کرتا ہے کہ اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ عیش کرائے، اور اپنے نزدیک اپنی اولاد کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے سروسامان مہیا کرے۔ لیکن یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو اس کے خدا، اس کے رسولؐ اور اس کے دین کے معاملے میں منافقانہ روش پر اُبھارتی ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو آدمی منافقت اختیار نہیںکرتا۔
کسی کو اللہ کے ذکر سے غافل کر دیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اللہ اللہ کرنے سے رُک جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کو بھول جائے۔ یہ خیال اس کے دل سے نکل جائے کہ اُوپر کوئی خدا بھی ہے جس کے سامنے جاکر اسے کبھی اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ یہ خیال اگر کسی آدمی کے دل میں رہے تو وہ کبھی اس کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی اولاد کے مفاد کے لیے، اپنی بیوی کو عیش کرانے کے لیے اور اپنی دولت بڑھانے کے لیے کوئی ایساکام کرے جس کا انجام ہمیشہ کے لیے جہنم میں لے جانے کا سبب ہو۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ مال اور اولاد آخرت میں تمھارے کام آنے والی چیز نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس جن لوگوں کے عیش اور آرام کے لیے تم یہاں بے ایمانیاں کرتے ہو، قیامت کے روز وہی اُٹھ کر تمھارے خلاف گواہ بنیںگے۔ بجاے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ ہمارے باپ نے ہمارے لیے بڑی تکلیفیں اُٹھا کر اور ایمان کو بیچ کر حرام دولت کمائی تھی، اس لیے اب اس کی جگہ ہمیں جہنم میں بھیج دیا جائے۔ کوئی اولاد اس کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ کوئی باپ اپنے بیٹے کے لیے جہنم میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ بھائی بھائی کے لیے تیار نہیںہوگا بلکہ اس کے برعکس اس غفلت پیشہ اور غلط کار انسان کے خلاف جو مقدمہ قائم ہوگا، یہی لوگ آکر اس کے خلاف گواہی دیں گے کہ اس طرح اس نے رشوتیں کھا کر، بے ایمانیاں کر کے یہ دولت کمائی تھی۔ ہمیں بھی حرام سے پالا اور خود بھی حرام کھایا۔ یہ بات قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ یہی تمھاری بیویاں، اولاد کل تمھارے خلاف گواہ بننے والی ہے، اگر ان کی خاطر آج تم نے بے ایمانیاں کیں۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور اس کی ہدایت سے غافل نہ ہو۔ اس بات کو بھول مت جائو کہ تمھیں کبھی خدا کے ہاں جاکر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ مزید فرمایا:
وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (۹) جو لوگ یہ روش اختیار کریں گے یہی آخرکار خسارے میں جانے والے ہیں۔
خسارہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ آدمی جس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگائے، اس میں اپنی محنتیں اور وقت صرف کرے اور اس کے بعد وہ سب کچھ لگا لگایا ڈوب جائے۔ اسی طرح اگر ایک آدمی اپنی تمام محنتیں، قوتیں اور تمام ذرائع و وسائل ایک ایسے کام میں لگا رہا ہے جو اس کو لے جاکر آخرکار جہنم میں جھونکنے والا ہے، تو ظاہر ہے کہ اس سے بڑا کوئی خسارہ نہیں ہوسکتا۔
وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلآَ اَخَّرْتَنِیْٓ اِِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ لا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ o وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا ط وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۱۰-۱۱) جو رزق ہم نے تمھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اُس وقت وہ کہے کہ ’’اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا‘‘ حالانکہ جب کسی کی مہلت ِعمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔
ایک آدمی کا اس سے زیادہ احمقانہ فعل کوئی نہیں ہے کہ آج اس کو جو زندگی اور مہلت عمل ملی ہوئی ہے اس میں وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جائے۔ اس سے منہ موڑ کر اپنے دنیوی مفاد کی پرستش میں لگارہے، اور مرتے وقت اس کو یہ احساس ہو کہ میں نے کیا کیا، کس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دیا۔ جب وہ دیکھ رہا ہو کہ اب میں تباہی کی طرف جا رہا ہوں، اس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ مجھے تھوڑا سا وقت اور دے دے تاکہ میں اپنے مال کو آپ کی راہ میں خرچ کروں، تو اس کو یہ مہلت نہیں دی جائے گی۔ فرمایا گیا: وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا طا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ ’’اللہ کسی متنفس کو مہلت دینے والا نہیں ہے، جب کہ اس کی اجل آجائے، اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘۔
اَجل کہتے ہیں مدت مقررہ کو جو پہلے سے طے کر دی گئی ہو کہ فلاں شخص کو اتنا وقت دیا جائے گا۔ مثلاً امتحان کے کمرے میں آپ بیٹھتے ہیں تو یہ طے ہوتا ہے کہ مثلاً تین ساڑھے تین گھنٹے کا وقت آپ کو پرچہ حل کرنے کے لیے دیا جائے گا۔ اس تین ساڑھے تین گھنٹے کی جو مہلت ہے اس کا نام اَجل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کردیا گیا ہے کہ اس آدمی کو دنیا میں کام کرنے کے لیے اتنا وقت دیا جائے گا اور ایسی ہی مہلت قوموں کو بھی دی جاتی ہے۔ قرآنِ مجید میں قوموں کی زندگی اور مہلتِ عمل کے لیے بھی اَجل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ جب کسی قوم کی اَجل آن پوری ہوتی ہے تو پھر چند لمحوں کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے اس کی مہلت ختم ہوتی ہے اور نہ اس کے بعد ہی اس کو مزید وقت دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کے لیے جو اَجل مقرر کر دی گئی ہے، اور اس کے لیے جو مدت طے کر دی گئی ہے،اس کے بعد کسی شخص کو کوئی مہلت نہیں دی جاتی۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کے کہنے پر اس کو مزید کچھ وقت دے دیا جائے۔ لہٰذا جس آدمی کو اپنی عاقبت کے لیے جو بھی عمل کرنا ہے، وہ اس وقت کے اندر اس کو کرلینا چاہیے، جب کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ میں تندرست ہوں، زندہ ہوں، اور بظاہر موت کا وقت بھی قریب نہیں ہے۔ لیکن جس وقت آدمی دیکھے کہ آخری وقت آگیا ہے، یا کوئی ایسی بیماری آگئی ہے کہ جس کی وجہ سے اس کو معلوم ہوگیا ہے کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے، اس وقت آدمی کا یہ چاہنا کہ مجھے مزید وقت ملے تاکہ میں اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے کوئی نیک عمل کرلوں تو یہ محض اس کی حماقت ہے۔ آج تک دنیا میں یہ نہیں ہوا ہے کہ جس شخص کی موت کا جو وقت مقرر ہے، وہ چند لمحوں کے لیے بھی ٹل جائے۔ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ ’’اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔
وہ بے خبر نہیں ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ ایک ایک آدمی کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو کتنی کچھ نصیحت کی گئی۔ فقط ایک کتاب ہی پر موقوف نہیں، بے شمار طریقوں سے آدمی کی نصیحت کا سامان کیا جاتا ہے۔ ایک آدمی کو جو طرح طرح کے حادثات پیش آتے ہیں یا اس کی آنکھوں کے سامنے اس طرح کے واقعات گزرتے ہیں، ان سب میں ایک طرح کی تنبیہہ اور عبرت کا سامان ہوتا ہے، تاکہ آدمی اس سے سبق حاصل کرے۔
پھر اللہ تعالیٰ کو یہ بھی معلوم ہے کہ کتنے کتنے مواقع پر تمھارے لیے نصیحت اور یاد دہانی کا انتظام کیا گیا کہ تم ہوش میں آئو اور سمجھو کہ ہماری اس دنیا پر تمھاری کیا پوزیشن ہے۔ کون سی چیزیں عاقبت درست کرنے والی ہیں، اور کون سی چیزیں ایسی ہیں جو آدمی کی عاقبت تباہ کرنے والی ہیں۔ کوئی آدمی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو اس چیز کو نہ سمجھتا ہو۔ اس کے بعد اگر ایک آدمی آخرت سے غافل ہوتا ہے اور اپنا سارا وقت اور محنتیں صرف اس دنیا کو بنانے کے لیے صرف کردیتا پھر وہ عین مہلت ختم ہونے کے وقت مزید ملت مانگے، تو اللہ تعالیٰ کو کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ ایسے آدمی کو مزید مہلت دے۔ وہ لوگوں کی خواہشوں کے مطابق اپنے قوانین تبدیل نہیں کیا کرتا۔ (جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)