ظلم اور جھوٹ کو راستہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ظلم اور جھوٹ کے لیے کوئی حد اور کوئی اخلاقی قدر رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتی۔ تہذیب، اخلاق، قانون اور ضابطے کو ماننے والے ہی حدود کی پاس داری اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ کل کے پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں جس بے دردی سے سچ اور عدل کا خون کیا جا رہا ہے وہ دنیا بھر کے باشعور لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔
عوامی لیگ جس نے پاکستان توڑنے اور بھارتی حکومت اور فوج کی پشت پناہی سے لاکھوں ہم وطنوں کو قتل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا، جنوری ۲۰۰۹ء سے پھر برسرِاقتدار ہے۔ اس کا یہ اقتدار امریکا اور بھارت تزویراتی سرپرستی کا مظہر ہے۔ بنگلہ دیش کے کروڑوں عوام جنھیں عوامی لیگ نے سنہرے مستقبل کا خواب دکھلا کر پاکستان سے توڑا تھا، وہ انھیں خوش حالی تو نہ دے سکی، لیکن وہ مسائل جو آج کے بنگلہ دیش کے مسائل نہیں انھیں مسائل بناکر، ایک جوا کھیلنے کے لیے میدان میں اُتر آئی ہے۔
گذشتہ تین برس سے الفاظ: ’’پاکستان، اسلام اور مسلم‘‘، اس کی اندھی اور بے رحم طاقت کا نشانہ ہیں۔ اس مناسبت سے عوامی لیگ حکومت نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کو اپنا اوّلین ہدف بنا رکھا ہے۔ جنوری ۲۰۱۰ء سے داروگیر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، جس میں اخلاق، قانون اور ضابطے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئی ہیں۔
آخرکار ایک جھوٹے اور خانہ ساز مقدمے میں ۲۹جون کو بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ۷۰سالہ امیر مطیع الرحمن نظامی، ۶۵سالہ سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہد اور۶۸سالہ ہر دل عزیز مفسرِقرآن مولانا دلاور حسین سعیدی کو گرفتار کرلیا۔ اگلے روز عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کیا تو فوراً کچھ نئے بے سروپا مقدموں میں گرفتار کر کے ۱۶دن کے ریمانڈ پر پولیس کے سپرد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش سے جماعت اسلامی، بی این پی اور اسلامی چھاترو شبر کے ہزاروں کارکنوں کی پکڑدھکڑ شروع کردی۔ اس حوالے سے قیدی رہنمائوں اور کارکنوں کو اپنے وکیلوں تک رسائی کو ناممکن بنادیا گیا۔ ملک کے ممتاز قانون دان بیرسٹر عبدالرزاق کے دفتر پر دھاوا بول دیا، تاکہ وہ قانونی معاونت سے باز رہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی کارکنوں نے پُرامن احتجاج کرنا چاہا تو انھیں عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے سخت بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا، مگر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ بعدازاں زخمی احتجاجی کارکنوں کو پولیس نے ٹرکوں میں پھینک کر پولیس اسٹیشنوں میں بند کر دیا۔ اس سے قبل ۲۷جون کو بی این پی کے سابق وزیرمملکت مرزا عباس کو ان کے اہلِ خانہ اور خواتین سمیت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
روزنامہ آماد دیش کے مدیر محمودالرحمن کو اس جرم میں گرفتار کیا گیا کہ انھوں نے حزبِ اختلاف کی خبریں کیوں شائع کیں۔ پھر ٹیلی ویژن چینل ’چینل نمبر۱‘ کو بند کر دیا۔ ٹیلی ویژن ’بنگلہ وژن‘ پر پابندی عائد کی کہ وہ بحث و نظر کے پروگرام نشر نہیں کرسکتا۔ ’دیگنتا ٹیلی ویژن‘ کو ایسی دہشت کا ہدف بنایا کہ اس کے لیے صحافتی سرگرمیوں کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔ بنگلہ دیش آبزور، ڈھاکہ سے نکلنے والا انگریزی کا ایک قدیمی اخبار ہے، جسے زبردستی بند کر دیا گیا ہے۔ بانی جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام کتابوں کو مدرسوں اور مساجد کی ۲۴ہزار لائبریریوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔یہ وہ اوچھے ہتھکنڈے ہیں، جنھیں حسینہ کے والد مجیب الرحمن نے اختیار کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں ایک پارٹی کی آمریت اور پابند میڈیا کو رواج دینے کی کوشش کی، مگر انجامِ کار جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
یاد رہے کہ اس وقت حسینہ واجد کی حکومت اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کی اُس احمقانہ سیاسی حکمت عملی کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جس میں آمرانہ کے قانون کا نفاذ، آزادانہ اظہار راے پر پابندی اور اسلامی پارٹیوں کے وجود کا مکمل خاتمہ تھا۔ پھر اس حکومت نے بہ عجلت تمام ’مسٹر قدرتِ خدا تعلیمی کمیشن‘ کے نام سے پیش کردہ سفارشات کا سہارا لے کر اسلامی مدرسے اور اسلامیات کی تعلیم کو بنگلہ دیش سے ختم کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔
پاکستان کے عوام اور مقتدر طبقوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اس بھارت نواز حکومت نے نہایت قلیل مدت میں بھارت سے دُوررس اثرات کے حامل ایسے معاہدے کیے ہیں، جنھوں نے بنگلہ دیش کی رہی سہی آزادی کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر چٹاگانگ کی بندرگاہ تک براہِ راست رسائی، مونگلا اور آشور گنج دریائی بندرگاہوں کو بھارتی دسترس میں دیناوہ اقدام ہیں، جن کے تزویراتی اثرات کا مداوا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ مزیدبرآں فرخاڈیم کی طرح بھارت کو دریاے بارک پر ٹیپائی مُکھ ڈیم تعمیر میں مدددینا بھی اسلامیانِ بنگلہ دیش کے سینے میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ ان مختلف معاہدوں پر حسینہ واجد نے دہلی کے دورے میں دستخط کیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عوام میں اس پر شدید غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے، جسے جماعت اسلامی اور بی این پی نے درست سمت عطا کرکے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی۔ مگر بھارت اور امریکا کی گماشتہ حکومت تمام جمہوری اور اخلاقی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے، ان سیاسی پارٹیوں کو نیست و نابود کرنے کے راستے پر چل نکلی ہے۔
اب مطیع الرحمن نظامی، علی احسن مجاہد اور اسسٹنٹ سکریٹری جنرل محمد قمرالزماں اور عبدالقادر کو ’۱۹۷۱ء کے جرائم‘ کے نام پر ایک خصوصی ٹریبونل میں پیش کر کے، ان کے لیے پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ تین ماہ قبل، حسینہ کی حکومت نے مجیب الرحمن کے قتل کے نام پر ۳۵سال بعد چھے سابق فوجی افسروں کو پھانسی دے دی تھی، اور اب یہی کھیل جناب نظامی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور اس مقصد کے لیے ۲؍اگست سے ایک نام نہاد ٹریبونل کارروائی کرنے جارہا ہے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں اور انصاف پسند انسانوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ فسطائیت اور بیرونی مداخلت کی اس گھنائونی کارروائی کو کس طرح روکتے ہیں۔ خاص طور پر اہلِ پاکستان کو جاننا چاہیے کہ اگر یہ ماڈل، بنگلہ دیش میں تھوڑی سی بھی کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو آنے والے کل میں اس کا اگلا شکار سری لنکا کے مسلمان، بھارت کے مسلمان اور پھر خود پاکستان کی دینی قوتیں ہوں گی۔ اسی طرح یہ بھی جاننا چاہیے کہ بھارت کی یہ پیش رفت چند افراد کا لہو پینے تک محدود نہ ہوگی، بلکہ خود سارک ممالک میں بھارتی بالادستی قائم کرنے کے قوم پرستانہ بھارتی ایجنڈے کا فیصلہ کن وار ثابت ہوگی۔ کیا پاکستانی عوام، دانش ور اور مقتدر طبقے اس صورت حال سے لاتعلق رہیں گے؟