اگست ۲۰۱۰

فہرست مضامین

عالمی اتحاد العلما کانفرنس

عبد الغفار عزیز | اگست ۲۰۱۰ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

سٹیج سیکرٹری نے جب ترک رفاہی تنظیم IHH کے صدر بلند یلدرم کو خطاب کی دعوت دی تو ہال میں موجود سیکڑوں افراد پُرجوش استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے اور دیر تک انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے رہے۔ یہ عالمی اتحاد العلما کی مجلس عمومی کی دوسری کانفرنس کا افتتاحی سیشن تھا۔     اتحادِ اُمت انتہائی خوب صورت لفظ اور کروڑوں مسلمانوں کا خواب ہے۔ لیکن آرزو اور دعوے کے باوجود اس جانب عملی اقدام بہت کم اُٹھائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے اتحادِ اُمت کے نام پر بھی افتراق اُمت ہی کے کارنامے انجام دیے جاتے ہیں۔

عیسائی پیشوا، پوپ کو اب عربی زبان میں ’بابا‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح والد کو بھی ’بابا‘ کہا جاتا ہے، جب کہ ماں کو ’ماما‘ علامہ یوسف قرضاوی صاحب اکثر اپنی تقاریر اور گفتگوؤں میں ازراہ تفنن فرمایا کرتے ہیں کہ عیسائی تو پھر کسی ایک شخص کو ’بابا‘ کہتے اور مانتے ہیں، لیکن مسلمانوں کا نہ ’بابا‘ ہے نہ ’ماما‘۔ قرضاوی صاحب ہمیشہ اس کی تگ و دو کرتے رہے کہ فرقہ بندیوں سے بالاتر ہوکر تمام مسلمانوں کو کسی ایک چھتری تلے متحد کیا جائے۔ بالآخر ۱۹۹۸ء میں بہت کوششوں کے بعد اس جانب ایک مضبوط قدم اٹھایا گیا۔ علامہ یوسف القرضاوی نے تمام مسلمانوں کو ایک کانفرنس میں مدعو کیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی بھی مسلمان ملک اس طرح کی کانفرنس کی میزبانی پر آمادہ نہ تھا۔ بالآخر برطانوی دار الحکومت لندن میں کانفرنس کا پروگرام بنا۔ وہاں بھی صہیونی لابی نے بڑی مخالفت کی، لیکن اس وقت لندن کے ایک انصاف پسند میئر کین لیونگسٹن کے مضبوط موقف کے باعث یہ کانفرنس منعقد ہوگئی، اور ’’الاتحاد العالمی لعلما المسلمین‘‘ (مسلمان علما کا عالمی اتحاد) کی بنیاد رکھ دی گئی پاکستان سے اس کانفرنس میں محترم قاضی حسین احمد، پروفیسر خورشید احمد، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، مولانا عبد المالک، ڈاکٹر محمود احمد غازی اور راقم شریک تھے۔ جماعت اسلامی لبنان کے سربراہ شیخ فیصل المولوی، تحریک نہضت تیونس کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی اور عالم اسلام کے تقریباً ۳۰۰ قائدین، علماے کرام اور اسکالرز پر مشتمل تأسیسی اجلاس سے اس کار جلیل کا آغاز   کیا گیا۔ علامہ قرضاوی کو اس اتحاد کا صدر اور مصر کے ایک معروف اسکالر اور اعلیٰ پاے کے وکیل ڈاکٹر محمد سلیم العوّاء کو اس کا سیکریٹری جنرل چنا گیا۔ اتحاد کا ایک مظہر یہ بھی سامنے آیا کہ صدر اتحاد کے ساتھ درج ذیل اصحاب نائب صدر کے طور پر چنے گئے۔ سعودی عرب میں مقیم معروف اور نمایاں سلفی عالم دین شیخ عبد اللہ بن بَیّہ (اصلا موریتانی ہیں) سلطنت آف عمان کے مفتی اعظم    شیخ احمد خلیلی اور معروف ایرانی عالم دین آیت اللہ علی تسخیری۔

۲۰۰۶ء میں استنبول ترکی میں اتحاد کا دوسرا اجلاس منعقد ہوا۔ عملاً اتحاد کی فعالیت اور تنظیم سازی کا آغاز اسی اجلاس سے ہوسکا۔ ایک منتخب مجلس اُمَنَا Board of Trustees  یا مجلس شوریٰ وجود میں آئی، ہر چھے ماہ بعد اس کا اجلاس طے ہوا۔ مختلف کمیٹیاں تشکیل پائیں اور اس عالمی اتحاد نے امت کے مختلف مسائل میں رہنمائی کا فریضہ انجام دینا شروع کردیا۔

اس عالمی اتحاد نے تقریباً ہر اہم موقعے پر اپنے ایک واضح موقف کا اعلان کیا۔ پاکستان میں امریکی جارحیت اور خوں ریزی کی لہر کے خلاف بھی اتحاد نے متعدد بار اپنے واضح موقف کا اعلان کیا۔ افغانستان و عراق اور خطے پر امریکی قبضے کے خلاف بھی اتحاد نے بلا کسی رو رعایت مضبوط موقف کا اعادہ کیا۔ لیکن اس کا سب سے مضبوط، دوٹوک اور واضح موقف فلسطین کے بارے میں سامنے آیا۔ دسمبر ۲۰۰۷ء میں غزہ پر جنگ مسلط کی گئی تو اتحاد کے اعلیٰ سطحی وفد نے سعودی عرب، ترکی، اُردن اور ایران سمیت علاقائی ممالک کے سربراہوں سے جاکر ملاقاتیں کیں اور انھیں صہیونی جارحیت کے خلاف کردار ادا کرنے پر ابھارا۔ اس وفد میں پاکستان سے محترم قاضی حسین احمد کو بھی شریک ہونا تھا لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر نہ جاسکے۔

۲۹ جون سے یکم جولائی ۲۰۱۰ء کو استنبول ہی میں عالمی اتحاد العلما کی جنرل کونسل کا دوسرا اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس دستور کے مطابق ہر چار سال بعد ہونا طے پایا ہے۔ پاکستان سے مفتی رفیع عثمانی صاحب اور مفتی منیب الرحمن سمیت دس افراد کو مدعو کیا گیا تھا لیکن مولانا عبد المالک، ڈاکٹر انیس احمد اور راقم کے علاوہ کوئی شریک نہ ہوسکا۔

کانفرنس میں دنیا بھر سے ۴۰۰ کے لگ بھگ علماے کرام اور اسکالرز شریک تھے۔ کانفرنس کے عمومی اور اختتامی سیشن میں قرضاوی صاحب اور متعدد ترک ذمہ داران کی تقاریر کے علاوہ تین مرکزی سرگرمیاں تھیں۔ دستوری ترامیم کا ایک پیکج منظور کرنا، جس میں زیادہ ترامیم اتحاد کے انتخابات اور انتظامی ذمہ داران کے اختیارات کے متعلق تھیں۔ دوسری اتحاد کے مزید مؤثر و فعال بنانے کے لیے منصوبہء عمل پر گفتگو اور تیسری اتحاد کے بورڈ آف ٹرسٹیز (مجلس امنائ) کا انتخاب۔ سب سے زیادہ وقت اور بحث و تمحیص، اسی آخری سرگرمی کے دوران دکھائی دی۔

افتتاحی سیشن میں پہلے وزیر اعظم طیب اردوگان کا مختصر پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ پھر تقریباً تمام تقاریر کا مرکز و محور، اتحاد امت اور غزہ کی صورتحال رہا۔ علامہ یوسف قرضاوی نے اعلان کیا کہ عالمی اتحاد العلما ستمبر میں جانے والے نئے قافلے میں اپنے ایک سفینے کے ساتھ شریک ہوگا۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک سفینے کی تصویر بھی دکھائی گئی اور بتایا گیا کہ یہ جہاز چھے لاکھ یورو مالیت کا خرید لیا گیا ہے اور یہ بھی مسلسل غزہ جایا کرے گا۔ اسی طرح ایک بری قافلہ لے جانے کا اعلان بھی کیا گیا کہ یہ براستہ مصر جائے گا۔

افتتاح کے بعد پہلے باقاعدہ سیشن میں راقم کو بھی گفتگو کا موقع دیا گیا، جس میں افغانستان پر علانیہ استعماری قبضے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر غیر علانیہ لیکن عملاً امریکی قبضے، بلیک واٹرز کی کاروائیوں، مختلف تعصبات کو ہوادیے جانے کے چیلنجوں پر مختصر روشنی ڈالنے کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ غزہ اور مسجد اقصی کے لیے جدوجہد ہمارا جزو ایمان ہے، لیکن کشمیر کو بھی غزہ بنادیا گیا ہے۔ اس سنگین مسئلے، وہاں جاری مظالم اور کشمیر سے پاکستان آنے والے دریاؤں پر بنائے جانے والے بھارتی ڈیموں سے صرف نظر نہ کریں۔ آپ میں سے کسی کو ہمارے موقف سے اختلاف ہے تو وہ جو چاہے اپنا موقف رکھ سکتا ہے، لیکن ایک اہم مسئلے کی حیثیت سے اسے مسلم امت کے ایجنڈے سے حذف نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت سے اس کانفرنس میں پانچ افراد شریک تھے۔ تین رکنی وفد جماعت کا تھا جس میں نائب امیر جماعت صدیق حسن صاحب (ملیالم) گوہر اقبال اور عبدالسلام صاحب شامل تھے۔ ایک نمایاں سلفی عالم دین شریک تھے اور وحید الدین خان صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب بھی۔ سیشن کے بعد ڈاکٹر ظفر الاسلام نے میری کشمیر کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کو غزہ کیوں کہا؟ چلو میں تمھیں وہاں لے جاتا ہوں۔ میں نے بنیادی گزارشات کے بعد، بحث سے اجتناب کرتے ہوئے کہا کہ خصوصاً آپ جو چاہیں موقف رکھ سکتے ہیں، لیکن کشمیر کے مسئلے کو امت کے اہم مسائل کی فہرست سے حذف نہیں کرسکتے۔

بعد ازاں ۱۱ نکات پر مشتمل ایک منصوبۂ عمل پیش کرتے ہوئے شرکا کو تین گروپوں میں تقسیم کردیا گیا تاکہ اس پر مزید گفت و شنید کرسکیں، افسوس کہ مجموعی طور پر زیادہ افراد نے اس میں زیادہ دل چسپی نہ لی۔ جو لوگ شریک ہوئے وہ ڈیڑھ گھنٹے کی نشست میں زیادہ تر لفظی و اصطلاحی تبدیلیوں پر زور دیتے رہے۔ مولانا عبد المالک صاحب، اسلامک کلچرل سنٹر ناروے کے خطیب مولانا محبوب الرحمن صاحب اور راقم نے ایک گروپ میں شرکت کی، ڈاکٹر انیس احمد صاحب دوسرے میں شریک ہوئے۔ مولانا عبد المالک صاحب نے اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے زور دیا کہ عالمی اتحاد العلما کے پیش نظر سب سے بنیادی ہدف تو اپنے اپنے ممالک میں اقامت دین کا رہنا چاہیے۔

کانفرنس کا تیسرا روز انتخابات کے لیے وقف تھا۔ دستور کے مطابق مجلس امناء کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۵۰ ہوسکتی ہے۔ جنرل کونسل اس میں سے ۳۰ افراد کا انتخاب خفیہ راے دہی سے کرتی ہے، باقی ۲۰ ارکان کا تعین صدر اتحاد، مجلس کی منظوری سے کرسکتا ہے۔اس انتخاب میں اُمیدوار ہونے کے لیے دو طریق کار تھے۔ یا تو امیدوار خود اپنا نام پیش کرتا اور اتحاد کے ۱۰ ارکان اس کے فارم پر دستخط کرکے اس کی توثیق کرتے (اب ترمیم کرکے اس تعداد کو پانچ کردیا گیا ہے) یا پھر صدر اتحاد کسی کا نام اُمیدوار کے طور پر پیش کرتا۔ امیدوار بننے کے لیے پہلے ہی ایک تاریخ متعین کردی گئی تھی۔ ہم نے اپنا نام پیش نہیں کیا تھا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ قرضاوی صاحب نے راقم کا نام شامل کیا ہوا ہے۔ تعارفی سیشن میں مختصر تعارف کرواتے ہوئے دس دس کے گروپ کو سٹیج پر بلاکر، امیدواروں کی ’رونمائی ‘ کروائی گئی۔

بعد مغرب شرکا کی تقاریر کا سلسلہ چلتا رہا۔ رات ۱۱ بجے نتائج کا اعلان ہوا۔ ۳۵۲افراد  نے ووٹ ڈالے تھے۔ سب سے زیادہ (۲۵۲ ووٹ) قطر میں مقیم عراقی الاصل عالم دین ڈاکٹر  علی محی الدین قرہ داغی صاحب نے حاصل کیے۔ قرہ داغی صاحب جماعت اسلامی کے اضاخیل   اجتماع عام میں شریک ہوچکے ہیں۔ اور اجتماع کے ایک روز نماز مغرب کی امامت بھی انھوں نے کروائی تھی۔ ۳۰ منتخب ارکان میں راقم کا نمبر چھٹا تھا ۲۴۰ ووٹ ملے۔ راشد غنوشی صاحب بھی رکن منتخب ہوئے اور کینیڈا کے ڈاکٹر جمال بدوی بھی۔

بعد ازاں (رات ایک بجے) نو منتخب مجلس کا پہلا تعارفی اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں نئے سیکریٹری جنرل کا تعین ہوگیا اور کافی رد و کد کے بعد ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی صاحب کو سیکریٹری جنرل چنا گیا۔ ڈاکٹر علی قرہ داغی صاحب اب علامہ قرضاوی صاحب کے نائب کی حیثیت سے متعارف ہورہے ہیں۔ قطر یونی ورسٹی میں فقہ کے استاد ہیں۔ اسلامی بنکاری بنیادی مضمون ہے، لیکن ان دنوں زیادہ توجہ اتحاد العلما پر ہی دے رہے ہیں۔

اس عالمی اتحاد اور عالمی کانفرنس کی سب سے بڑی خوبی اور حاصل ہی یہ ہے کہ اس میں پوری اُمت کی نمایندگی ہے۔ سُنّی، شیعہ، حنفی، حنبلی، شافعی، مالکی تمام آئمہ کے پیروکار اور ہرعقیدے اور مدرسے کی شناخت سے بالاتر ہوکر اُمت کے نمایاں افراد اس میں شریک ہیں۔ علامہ یوسف قرضاوی عالم سے مراد بھی صرف عالمِ دین نہیں لیتے بلکہ کسی بھی میدان کا علم رکھنے والے نمایاں افراد اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے اس کا انگریزی ترجمہ International Union of Muslim Scholarsکیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف علماے دین اور مفتیانِ عظام ہی نہیں عالمِ اسلام کے نمایاں صحافی، دانش ور اور کئی طبیب بھی اس میں شامل ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے ایک نمایاں کنسلٹنٹ بھی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔

پوری اُمت اس اتحاد سے مستفید ہوسکتی ہے۔ اُمت کے اہم مسائل میں مشترکہ موقف تک پہنچ سکتی ہے۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں اتحاد و وحدت کے علاوہ بڑی تفصیل سے تمام مسائل کے بارے میں واضح موقف کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے اور کھلی امریکی جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے پوری پاکستانی قوم سے اتحاد کی اپیل کی گئی۔ بھارتی ڈیموں کی تعمیر کی مذمت کرتے ہوئے مسئلۂ کشمیر کے مبنی برحق حل کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عالمی پلیٹ فارم سے کماحقہٗ استفادہ کیا جائے۔