روزِ اوّل سے انسان پریشانیوں اور اَن گنت طوفانوں میں گھرا ہوا ہے۔ انسانیت کا یہ قافلہ وقت کے کسی خاص لمحے سے گزر کر وقت کے کسی خاص لمحے تک پہنچتا ہے۔ اہلِ دانش اس کو رنگوں سے بھر کر نت نئے عنوانات سے پیش کرتے ہیں۔ قرآن پاک نے تو اس کی گواہی دی ہے کہ انسان بڑا ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے۔ خود اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے، اپنے پیر پر کلہاڑی مارتا ہے، خود ہی محرومی کا شکار ہوتا ہے اور خود ہی اس محرومی کا رونا روتا ہے۔ پھر جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں خود ہی ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے اور منزل سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنے آپ سے بے خبر یہ ایک ایسی منزل کی طرف مسلسل گامزن رہتا ہے جو کبھی ہاتھ نہیں آتی، بلکہ بیک وقت کئی کئی منزلوں، کئی کئی کشتیوں کا سوار یہ مسافر متضاد سمتوں کے اندر رواں دواں نظر آتا ہے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں دعوتِ انبیا ؑکی گونج سنائی دیتی ہے۔ اپنے رب کی طرف بلانے، اس کی پہچان اور شناخت قائم کرنے، چاروں طرف سے اپنے رُخ کو اپنے رب کی طرف موڑ لینے کے لیے یہ دعوت انبیا ؑکی دعوت ہے، جو ہر دور کے اندر سنی گئی۔ اس پکار کو لوگوں نے قریب اور دُور سے سنا، بہ زبان حال اور بہ زبان قال سنا، بہ اندازِ سرگوشی سنا، اور بہ آواز بلند بھی سنا۔
انبیا ؑکی یہ دعوت ان تمام حالات کو ٹھیک ٹھیک بیان کرکے انسانوں کو انسانوں کے رب کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے۔ بھولے بھٹکے اور خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو راہِ مستقیم دکھاتی ہے۔ پورا قرآنِ پاک اس بات کا گواہ ہے، جابجا اس کی نشانیاں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس جانب متوجہ کرتا اور تسلسل کے ساتھ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تمام انبیا ؑ اسی ایک دعوت کو پیش کرتے ہیں کہ طاغوت کو ٹھکرایا جائے۔ ہر چھوٹے بڑے جھوٹے خدا سے لاتعلقی کا اعلان کیا جائے۔ دل ودماغ کی دنیا کے اندر جو بت سجے ہوئے ہیں، جن بتوں سے اُمیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں، ان سے برأت کا اعلان کیا جائے۔ قرآن کریم نام لے لے کر بتاتا ہے کہ حضرت نوحؑ کی دعوت بھی یہی تھی۔ حضرت ابراہیم ؑبھی یہی کہتے رہے۔ حضرت ہود ؑبھی یہی دعوت لوگوں میں پہنچاتے رہے، تاآنکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی دعوت اور اسی پیغام کو لے کر خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو بیدار کرنے اور منزل کی طرف لے جانے کے لیے تشریف لائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنے پانچ نام گنوائے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرا نام محمدؐ ہے، یعنی وہ جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی، خود اللہ تعالیٰ نے تعریف کی، اس کے فرشتوں اور اس کے بندوں نے تعریف کی۔ میرا دوسرا نام احمدؐ ہے، یعنی وہ نبیؐ جو سب سے زیادہ اپنے رب کی تعریف کرنے والا ہے۔ کسی نے اپنے رب کی اتنی تعریف نہیں کی، اتنی حمدوثنا بیان نہیں کی، اس کی اتنی صفات اور خصوصیات کا تذکرہ نہیں کیا جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ میرا تیسرا نام اَلْمَاحِیْ ہے جس کا سیدھا سادا مفہوم اور ترجمہ آج کے بیان کے مطابق انقلابی ہوگا، یعنی مٹانے والا، شرک کو مٹانے والا، حرفِ غلط کی طرح ہر غلط چیز کو مٹانے والا، باطل کو مٹانے اور اس کی جگہ حق کو قائم کرنے والا، اللہ تبارک و تعالیٰ کی کبریائی کو بیان کرنے والا۔ آپ نے چوتھا نام الْحَاشِر بتایا، یعنی جمع کرنے والا کہ روزِ محشر سب سے پہلے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ حشر میں داخل ہوں گے۔ اپنی اُمت کو اور سارے لوگوں کو اکٹھا کریں گے اور آپ کے بعد دیگر انبیا ؑوہاں تشریف لے جائیں گے۔ آپ نے اپنا پانچواں نام اَلْعَاقِبْ فرمایا، یعنی وہ نبیؐ جو آخر میں آنے والا ہے، آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
فی الحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری جدوجہد، پوری زندگی اور حیاتِ طیبہ، کش مکش کا ہرہرلمحہ اور مرحلہ کہ جس سے آپگزرے ، لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ، (الاحزاب ۳۳:۲۱) کی صورت میں ہمارے لیے مثال اور نمونہ قرار پایا۔ یہ ان سب لوگوں کے لیے دعوتِ عمل اور پیغام غوروفکر ہے جو لذت آشنائی کے مفہوم سے آشنا ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے ناگزیر ہے کہ اس پوری جدوجہد اور کش مکش کو، آپ کے شب و روز اور زندگی کے تمام معمولات، اور ساری ترجیحات کو مسلسل دیکھیں، بار بار مطالعہ کریں۔ بہت قریب سے اس کو پڑھیں، آپس میں موضوعِ گفتگو بنائیں اور جتنی کہکشاں اس کے عنوانات میں سجی ہیں، سب کو سمیٹنے کے لیے اپنے دامن کو زیادہ سے زیادہ وسیع کریں، بصیرت اور بصارت اور عمل کی نگاہوں سے اس پورے دور کا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی، مثال اور اتباع و پیروی کا دور ہے، کا مطالعہ کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز تلاوتِ آیات، یعنی کتاب وحکمت کی تعلیم سے کیا۔ اس انقلاب اور تبدیلی لانے کا کام انبیا ؑجب بھی معاشرے کے اندر لے کر اُٹھے ہیں، اور ان کے بعد اسی طریقے سے جب معاشروں کے اندر اسلامی تحریک اُٹھتی ہے، اس نے انبیا ؑ کی پیروی میں یہی کام کیا ہے کہ معاشرے میں نئے انسان تیار کیے جائیں، تاکہ پرانے انسانوں کے حلیے میں سے نیا انسان جنم لے۔ وہ جو پہلے صرف عمر بن خطاب تھا، وہ بعد میں حضرت عمر فاروقؓ بن جائے۔ گئے گزرے اور بگڑے ہوئے لوگوں، حالات کی خرابی کے ذمے دار، فساد پھیلانے والے اور انسانوں کو باہم دست و گریبان کرنے والے لوگوں کے معاشرے کے اندر جب نبی مبعوث ہوتا ہے، اور خاتم الانبیا ؑکے بعد ایک ایسے معاشرے کے اندر جب اسلامی تحریک اُٹھ کھڑی ہوتی ہے، تو وہ پہلے سے موجود انسانوں کو فناکے گھاٹ اُتار کر کوئی نئے انسان علیحدہ سے وجود میں نہیں لاتی، بلکہ اپنی دعوت کے ذریعے، اللہ کی طرف پکارنے اور آخرت کے عنوان کے ذریعے، اللہ اور بندے کے درمیان عہدوپیمان کو تازہ کرکے انھی انسانوں کو بیدار کرتی ہے۔ ان کے کرداروعمل کی لہلہاتی فصل تیار کرتی ہے، منزل کا شعور دلاتی ہے، اور منزل کی جانب مسلسل رواں دواں رکھتی ہے۔ انھی انسانوں کے اندر سے پھر مجاہد اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے انسان پیدا ہوتے ہیں۔ کتاب و حکمت کے ذریعے ان کا تزکیۂ نفس ہوتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں نئے انسان وجود میں آتے ہیں۔ ان کی فکر کا زاویہ اور سوچ کا عنوان بدل جاتا ہے، اور زندگی کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ سمتِ معکوس میں سفر کرنے والے، مثبت اور تعمیری جدوجہد کے خوگر ہوجاتے ہیں۔
یہ معاشرے کے اندر ایک نیا انقلاب، ذہنی و فکری انقلاب، جسم و جان اور دل و دماغ کی دنیا میں اُبھرتا ہوا انقلاب ہے، جو انسانوں کے اندر ٹھاٹھیں مارتا ہے اور یکسوئی کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ پھر لوگ انشراح صدر کی کیفیت سے اپنے رب سے جڑنے اور جڑتے چلے جانے،بس اسی کا ہو رہنے، اور اسی کے دامن سے وابستہ ہونے کی دولت سے اس طرح سرشار ہوتے ہیں کہ بے خوف ہوکر مسلسل چلتے چلے جاتے ہیں۔ صرف اسی سے ڈرتے ہیں جس کا کلمہ انھوں نے پڑھا ہو، جس پر ایمان کا انھوں نے اعلان کیا ہو، جس نے ان کو پیدا کیا ، جو ان کا پروردگار ہے، جس کے پاس انھیں لوٹ کر جانا ہے، اپنا نامۂ اعمال پیش کرنا ہے اور زندگی کے تمام معمولات کے ایک ایک لمحے کی رپورٹ پیش کرنی ہے۔ اس خالق و مالک کے ساتھ وابستگی کا ایک لطف اور ایک ایمانی حلاوت ہے۔ جب ایسے سرشاروں کا وزن معاشرہ محسوس کرتا ہے تو پھر ایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ دُور دُور تک بسا ہوا منکرات کا جھاڑ جھنکار اندر کی دنیا سے بھی نکل جاتا ہے اور باہر کی دنیا بھی سکون و آشتی اور پاکیزگی کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے۔ یہ انقلاب دل کی زمین کو ہموار کرتا ہے اور اپنے رب سے ملانے، اور اسی جانب بڑھانے کے لیے نرمی و گداز اور ملائمت کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔
انبیا ؑکے انقلاب اور انبیا ؑ کے طریقِ کار کے نتیجے میں جب اور جہاں اسلامی تحریک بیدار ہوگی، اسلامی تحریک کا یہی ایک کام ہوگا کہ لوگوں کے سامنے تذکیر کرے، تعمیر سیرت کرے، نفوس کا تزکیہ کرے اور ان کے زاویہ ہاے نگاہ کو درست کرے۔ انبیا ؑ کا طریقِ انقلاب، ہمہ گیر انقلاب کا عمل ہے۔ یہ انقلاب جزوی نہیں بلکہ مکمل انقلاب ہے، حاشیوں اور لکیروں کا نہیں بلکہ متن کا انقلاب ہے۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو انسان کی پوری کی پوری زندگی کو متاثر کرنے والا انقلاب ہے، یعنی گھر کی محدود فضائوں سے لے کر بین الاقوامی دوائر کا انقلاب۔ جن جن اُمور پر سوچا جا سکتا ہے، جہاں جہاں تک انسان کمند ڈال سکتا ہے، جن جن جہتوں کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے، عنوانات سجائے جاسکتے ہیں، ان سب کے اندر انقلاب برپا کرنا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ انقلاب ان سب حوالوں سے تبدیلی کا پیغام اور ان سب دائروں میں ایک اللہ کا نام، وہی اوّل، وہی آخر، ہرہرحوالے سے بس اسی کی تعلیم، اسی کی دی ہوئی کتابِ انقلاب کو تھامنے کا انقلاب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک انقلابی تحریک یا تحریک اسلامی جس معاشرے کے اندر برپا ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ چلنے والوں کو معاشرے کے افراد سے کاٹتی بھی ہے، انھیں اس چلن کا باغی بھی بناتی ہے اور انھیں مجسم احتجاج بھی بناتی ہے۔ جب بھی نظریاتی، انقلابی، اصولی تحریک معاشرے کے اندر وجود پذیر ہو تو جزوی طور پر ہرانسان اس سے متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے رسالہ پڑھ لیا، کسی کی کسی سے ملاقات ہوگئی، کوئی کسی اجتماع کے قریب سے گزر گیا، کسی نے کسی اجتماع کو دُور سے دیکھ لیا، کسی نے آکر ریلی اور جلسے کو دیکھ لیا، اس طرح جزوی طور پر لوگ نظریاتی ہوتے چلے جاتے ہیں، مگر جم کر ساتھ نہ دینے اور تزکیۂ نفس کی شاہراہ پر یکسوئی سے نہ چلنے کے نتیجے میں تضادات کا شکار ہوتے ہیں۔ اچھی بات کرتے کرتے بُری بات بھی کرنے لگتے ہیں۔ اصولی بات کرتے کرتے بے اصولی کی طرف بھی نکل جاتے ہیں۔ مادیت کے طوفان میں بھی گھرے نظر آتے ہیں، اور وہاں پر کوئی اچھا عمل بھی ان سے صادر ہوجاتا ہے۔
یہ کش مکش اس بات کا پتا دیتی ہے کہ اس معاشرے میں کوئی نظریاتی تحریک موجود ہے، کوئی اصولی اور انقلابی تحریک موجود ہے، بندوں کو ان کے رب سے ملانے والی، حالات اور منزل کا ٹھیک ٹھیک پتا دینے والی تحریک موجود ہے۔ اس معاشرے کے اندر سلیم الفطرت لوگ اپنے رب سے ملاقات کے منتظر اور بے قرار ہوتے ہیں۔ ان کے اندر طلب اور جستجو، حسنِ طلب اور طلب ِ صادق کچھ زیادہ نظرآتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آگے بڑھ کر ایک نظریاتی اور اصولی تحریک کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ سعید روحیں جذب و انجذاب کے مراحل سے گزرتی ہیں۔ ان کے لیے یہ تحریک ایک بہت بڑا سرمایہ بن جاتی ہے اور ان بے قرار روحوں کو اپنے رب سے ملا دیتی ہے کہ یہ اس سے راضی اور وہ ان سے راضی ہوجاتا ہے۔ یہ پکار پکار کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جس دعوت الیٰ اللہ کی تم بات کرتے ہو، جس تربیت و تزکیے کا تم تذکرہ کرتے ہو، ع میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے! میں تو کہیں گم ہوگیا تھا، آپ ہی کی تلاش میں تھا اور اس کی تلاش کے نتیجے میں گویا مجھے سب کچھ مل گیا، میں نے خود اپنے آپ کو دریافت کر لیا۔
دلوں پہ دستک دینے کے لیے تو بس کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے ایسے پس منظر میں بندوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے والی تحریک، جو سرتاپا بندگی اور مکمل حوالگی اور کامل سپردگی کی تحریک ہے، اس تحریک سے حسبِ توفیق استفادہ کرنے والے کا دامن جتنا وسیع ہوتا ہے، یہ اس میں اتنی ہی دولت ِرحمت، پاکیزگی و سعادت بانٹتی ہے۔ یہ تحریک نہیں بلکہ رب تعالیٰ کی نعمت ہے۔ وہ یہ سب نعمتیں بانٹتا ہے کہ زندگیوں کا سودا اسی سے ہوتا ہے۔ اس کے خزانے بے پایاں ہیں، وہ تو اپنی رحمت کے تمام خزانوں کو لٹاتا ہے۔ یہاں اور وہاں ہر جگہ پکارنے والا، منادی کرنے والا مسلسل پکارتا ہے کہ کوئی ہے جو مغفرت طلب کرنے والاہے، ہے کوئی جو رحمت کا سزاوار بنے، ہے کوئی جو ہماری طرف ایک قدم آگے بڑھے تو ہم اس کی طرف دس قدم آئیں، ہے کوئی جو صرف نیت اور ارادہ کرے، ہے کوئی جو اپنے دل کی گہرائیوں میں ہمیں پانے کی کوشش کرے…! یہ مکمل حوالگی اور کامل سپردگی کی کیفیت، دراصل لذتِ ایمان اور لذتِ آشنائی کی کیفیت ہے۔
یہ تحریکیں جو چہارطرف طوفان اُٹھاتی ہیں، نیکی کے جتنے عنوانات قرآن وسنت کے اندر سجے ہوئے ہیں، جن کو ہم اصطلاحاً چھوٹی نیکی اور بڑی نیکی بھی کہہ دیتے ہیں، ان تمام نیکیوں کی طرف پکارنے کے لیے، ان تمام نیکیوں کا سزاوار ٹھیرانے کے لیے، یعنی تمام نیکیوں کی طرف اپنے دامن کو وسیع کرنے کے لیے، گویا اپنے رب کی طرف بڑھنے اور بڑھتے ہی چلے جانے کے لیے یہ تحریکیں معاشرے میں ابر رحمت بن کر برستی ہیں اور برستی چلی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چٹیل پہاڑوں اور چٹانوں پر بھی سبزا اُگ آتا ہے، پتھر بھی دیکھتے ہی دیکھتے سبزا اُگل دیتے ہیں، اور ہر طرف ہریالی لہلہانے لگتی ہے، خزاں چھٹ جاتی ہے اور واقعی بہار کا موسم مشامِ جان معطر کرتا ہے۔ مگر کچھ قطعات اور رمینیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو اس بارانِ رحمت کے باوجود خزاں رسیدہ رہتی ہیں۔ اسی طرح کسی معاشرے میں اللہ کی طرف بلانے والی انقلابی تحریک برپا ہو تو آدمی خود اپنے ظرف کے مطابق اس سے مستفید ہوتا ہے۔ تحریک تمام پہلوئوں سے انسان کو مسلسل چلانے اور آگے بڑھانے کا سامان کرتی ہے۔ اس کو اُٹھا کر کھڑا کردیتی ہے، اسے معاشرے کے اندر اجنبی بنادیتی ہے، اور قلب و نظر کے اندر ایک ایسی آگ لگا دیتی ہے کہ جو چھو جائے وہ کندن بن جائے، جو قریب آجائے وہ اس کی تپش محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے اور سونے پہ سہاگہ ہوجائے۔
یہاں اس کیفیت کا احاطہ کرنے کی بھی ضرورت ہے جو معاشرے کے اندر رہتے ہوئے بھی اجنبی بن جانے کی کیفیت ہے۔ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان اس معاشرے سے نکل جائے، نہ لوگ اس کو پہچانیں اور نہ وہ کسی کو پہچانے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ دربدر ہوکر کہیں کا نہ رہے، جنگلوں کا رُخ کرلے اور خاک چھانتا پھرے۔ اس لیے کہ جس تربیت اور تزکیے کے نتیجے میں گوشہ نشینی کا جذبہ پیدا ہو، اور لوگوں سے کٹ جانے کا جذبہ پیدا ہو وہ انبیا ؑکا طریقۂ کار نہیں ہوسکتا۔ انبیا ؑتو گوشہ نشینی سے نکل کر، حرا سے سوے قوم آیا کا مصداق بنتے ہیں۔ وہ تو غاروں سے نکل کر اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے اُتر کر انسانوں کی طرف آتے ہیں۔ کن انسانوں کی طرف، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی جیسے لوگوں کی طرف آتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے کے نتیجے میں لوگوں کے دلوں کے اندر وہ بیج بوتے اور فصل اُگاتے ہیں، جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو ٹھنڈک اور تراوت دیتی ہے۔
اجنبی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ذہنی طور پر کھویا کھویا سا ہو، اسے چاروں طرف کے حالات میں کوئی مطابقت محسوس نہ ہوتی ہو۔ وہ اسی دنیا میں رہتا ہے، انھی لوگوں کے درمیان اُٹھتا بیٹھتا ہے، انھی کے درمیان معمولات اور معاملات طے کرتا ہے، انھی کی خوشی اور غمی کا حصہ بنتا ہے لیکن ان کے تمدن، کلچر اور معاشرت اور اس کی ہر اکائی سے ایک دُوری اور فاصلے پہ اپنے کو پاتا ہے۔ دعوت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ انھی کے درمیان رہے۔ اللہ کی طرف بلانے کے فرض پر لبیک کہنے کے لیے وہ انسانوں میں نظر آئے، اور اپنی گفتگو اور طرزِعمل سے مسلسل ان کے درمیان اللہ کی طرف بلانے والا بنے۔ گویا انھی کے درمیان رہتے ہوئے، ان جیسا نہ ہوتے ہوئے ایک اجنبیت کی کیفیت اس پر طاری ہوتی ہے۔ یہی مطلوب ہے۔ یہ تحریک اور دعوت الی اللہ اسی جانب لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔ اس لیے لذت آشنائی کا نام ہم نے انقلاب رکھ دیا ہے کہ یہ زیادہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔
آیئے ہم جس چیز کو ایمان کہتے ہیں، اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ راہِ حق میں ایمان اور انقلاب ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ ایک ہی حلاوت، مزہ اور شیرینی لیے ہوئے اور اپنے مفہوم و معانی کے اعتبار سے ایک ہی سمت پہ لوگوں کو لے جانے والے الفاظ ہیں۔ ہم جس چیز کو چھوٹا سا کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کہتے ہیں، یا اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہٗ ورسولہٗ کہتے ہیں، اور اس موقع پر ہم اکثر سنی اَن سنی کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں___ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور انقلاب سبھی کچھ اس میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ عرض ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ پانچویں صحابی ہیں کہ جو ایمان لائے۔ ایمان لانے کے بعد ان سے یہ بات کہی گئی کہ ابھی اہلِ ایمان کی قوت بہت تھوڑی ہے، اہلِ ایمان کی کُل جمع پونجی بس یہی دوچار افراد ہیں، اس لیے ذرا احتیاط سے اور ذرا سنبھل کر چلنا ہے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کے دل کے اندر ایمان کی جو چنگاری پہنچی تھی، وہ شعلہ جوالہ بن کر لپکی، ضبط کا یارا نہ رہا۔ سیدھے حرمِ کعبہ میں پہنچتے ہیں جہاں کفار ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے، ان کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں اور پکار اُٹھتے ہیں: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ۔ کفارِ مکہ حیران رہ جاتے ہیں کہ ان کی یہ مجال اور یہ جرأت کہ ہماری ہی مجلس میں کھڑے ہوکر یہ نعرۂ دیوانہ و مستانہ بلند کرتے ہیں۔ پھر سب کے سب ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، انھیں زد و کوب کرتے ہیں، مارتے پیٹتے ہیں تاآنکہ حضرت ابوذر غفاریؓ بے ہوش ہوکر گر پڑتے ہیں۔ اسی حال میں وہاں سے لے جائے جاتے ہیں۔ جب ہوش میں آتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ میں کہاں ہوں؟ کس حال میں ہوں؟ بتایا جاتا ہے کہ تم اس حال میں یوں پہنچے ہو کہ تم نے وہ نعرۂ مستانہ کفار کے بیچ جاکر بلند کیا تھا، تو زیر لب مسکرائے اور کہا کہ اچھا! اس جرم کے پاداش میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ یہ جرم تو کل پھر سرزد ہوگا۔ تم کہتے ہو کہ مارا پیٹا گیا ہوں، حال سے بے حال ہوا ہوں، مجھ سے پوچھو، ایمان کی جو حلاوت، لطف و مزا اور اس کی شیرینی مجھے ملی ہے، کل پھر اپنے کیف و سُرور کو دوبالا کروں گا___ یہ کیا جذبہ ہے، یہ جذبۂ لذت آشنائی ہے۔
ہم نے بھی یہ کلمہ سیکڑوں ہزاروں دفعہ پڑھا ہوگا، مگر کب یہ عشق کی کیفیت طاری ہوتی ہے، کب یہ جنوں کا سودا ذہنوں کے اندر سماتا ہے، کب اس کے نتیجے میں نکلنے اور ہلکے اور بوجھل ہرحال میں نکلنے کے لیے انسان آمادہ اور برسرِپیکار ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے___ کیا اس پہلو پر بھی کبھی آپ نے غور کیا!
اس نعرے کے اندر انقلاب اور ایمان دو علیحدہ علیحدہ مختلف چیزوں کے نام نہیں بلکہ ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ اس کلمے نے تاریخ کی عظیم ترین حقیقت کی حیثیت سے اپنے آپ کو ایک مکمل اور اعلیٰ ترین انقلاب کی حیثیت سے منوایا ہے۔ ایسا انقلاب کہ جو انسان کے تمام باطنی اور ظاہری رویوں کو بدل دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا ایمانی انقلاب پنہاں اور سرایت کرتا ہے جو انسان کی تمام ضرورتوں اور تمام ترجیحات کو صحیح رُخ دیتا ہے۔
اس مقصد کے لیے یہ انسانوں کو اُٹھاتا، کھڑا کرتا اور جدوجہد کا پیکر بناتا ہے۔ انسان کا معاملہ مجھ سے اور آپ سے بھلا کہاں ڈھکا چھپا ہے۔ انسان بالکل ٹھیک چل رہا ہوتا ہے اور لوگ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بس کامیابی نے اس کے قدم چوم لیے کہ اچانک وہ گر پڑتا ہے، اور ناکامی سے دوچار ہوجاتا ہے۔ پھر یہی انسان ہے جو ہمت پکڑتا ہے، اُٹھتا ہے اور پھر منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ گرے گا وہی جو چلے گا، جو چلنے سے توبہ کرلے وہ کہاں گرے گا۔ جو کنارے پر بیٹھ کر محض نظارہ دیکھے گا، وہ تو صرف مشورے دے گا اور کچھ بھی نہ کرسکے گا۔ لہٰذا اس راہ پر کچھ ڈوبنے کا خطرہ مول لینا پڑے گا، تبھی تو تیرنا آئے گا۔ گرنے کو انگیز کرنا ہوگا تبھی تو چلنا آئے گا۔ منزل کی طرف مسلسل دیکھنا ہوگا تاکہ نشاناتِ منزل جب جب آئیں تب تب ایمان کے اندر اضافہ ہو، تب اللہ کے ساتھ تعلق بڑھتا ہوا محسوس ہو کہ ہاں، اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پھر یہی انسان پوری قوت سے پکار اُٹھے گا:
سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحٰنَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ (متفق علیہ)، میں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور حمد بیان کرتا ہوں، اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک اور عظمت والی ہے۔
لَّا ٓ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo (انبیائ۲۱:۱۸) نہیں ہے کوئی معبود مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا۔
وہ اپنے ہاتھوں اپنے اُوپر کیے ہوئے ظلم کو بھی یاد کرتا ہے۔ معافی اور درگزر کا در تو کبھی بند نہیں ہوتا۔ توبہ کرنا، گرنا اُٹھنا، اس کی طرف چلنا، اس کی طرف بڑھنے کے لیے عزم و ارادہ کرنا یہی مطلوب ہے۔ اس لیے کہ انسان کو جگانے، اُٹھانے، آگے بڑھانے کے لیے اور انسانیت کی اعلیٰ ترین قدروں سے ہمکنار کرنے کے لیے ایمان اور انقلاب دونوں ہم آہنگی کا تقاضا کرتے ہیں۔
ایک لمحے کے لیے ٹھیر کر ایمان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس پر شب خون مارنے، اس پونجی کو اُڑا لے جانے والے شیطان کے حملے بھی موجود ہیں۔ ان حملوں سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ اس ایمان کا مسلسل جائزہ لیا جاتا رہے، اس کا احاطہ کیا جائے، اس پر چوکنا رہا جائے اور اس پر کوئی پہرے دار بٹھایا جائے۔ اس کے گھٹنے اور بڑھنے کو، جنھیں ہم قرآن اور احادیث نبویؐ کے اندر پڑھتے ہیں، واقعی محسوس کیا جائے کہ یہ شمع کبھی ٹمٹمانے لگتی ہے، کبھی اس کی لَو نیچے ہونے لگتی ہے، لیکن یہی شمع کبھی دُور دُور تک اُجالے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے، اور خود انسان کے اپنے اطراف کو روشن کرتی ہے، لہٰذا ان کیفیتوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کی جائے۔
ایمان کی فریاد بھی سنی جائے، اس کی آہ و بکا سے واقف رہا جائے۔ یہ ایمان پکار پکار کر کہتا ہے کہ غیر تو مجھ پر اتنا ظلم نہیں کرتے جتنا کہ تم خود میرے اُوپر ظلم کرتے ہو۔ تم خود ہی میری لَو کو مدھم کرنے اور اس کو بجھانے کے لیے کوشاں ہوتے ہو۔ اُدھر بلایا گیا تھا، تم اِدھر لبیک کہہ رہے ہو۔ تم نے تو عہدوپیمان باندھا تھا، گواہ بناکر اعلان و اقرار کیا تھا، پھر تمھیں کیا ہوگیا! ایمان کا احتجاج اس کے اندر سے ہوتا ہے، قراردادیں بھی منظور کرتا ہے اور ہمارے قدموں کو کبھی کبھی روکتا اور ہم سے کہتا ہے: ’’کدھر جا رہے ہو، اچھے بھلے آدمی ہو، لوگ بھی اچھا بھلا ہی سمجھتے ہیں، لیکن تم کہاں کا رُخ کر رہے ہو، یہ تمھارے ذہن میں کون سی بات سمائی ہے، اور تم نے کس جذبے سے یہ فیصلہ کرلیا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اس طرف مت جانا‘‘۔ گویا یہ ہمارے قدموں کو روکتا ہے۔ یہ مسلسل منزل کی طرف ہم کو بلاتا ہے۔ اس لیے اس کی آہ و فغاں کو سنا جائے اور اپنے ہی ہاتھوں اس پر ہونے والے ظلم کی داستان سے بے خبر نہ رہا جائے۔ اس قیمتی متاعِ حیات کو، ایمان کا جوہر سمجھ کر اسے مسلسل کلیجے سے لگائے رکھا جائے، اور اس میں اضافے کے لیے مسلسل کوشاں ہوا جائے۔
صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں غوروفکر کے بے پناہ جوہر موجود ہیں۔ یہ ایک مربوط سلسلہ ہے۔ یہ کوئی اتفاقی اور حادثاتی واقعات نہیں ہیں۔ یہ ایک بڑی تحریک ہیں اور اس تحریک کے اندر جو کچھ موجود ہے، اسے دیکھنا، روشنی حاصل کرنا، ہماری اپنی ضرورت اور ذمہ داری ہے۔ ان واقعات میں سے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا ایک واقعہ ہے جو بارہا آپ نے سنا اور پڑھا ہوگا۔ اس میں ہمارے لیے غوروفکر کے لیے کئی پہلو ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے۔ صحابہ کرامؓ حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ ایک صحابی آئے اور انھوں نے ایک چادر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ نبیؐ نے اس کو پسند فرمایا۔ مجلس سے اُٹھ کر آپ اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور پرانی اور بوسیدہ چادر جو آپ پہنے ہوئے تھے، اس کی جگہ اس نئی چادر کو زیب تن کیا اور دوبارہ مجلس میں آکر تشریف فرما اور رونق افروز ہوئے۔ حضرت سعدؓ نے دیکھا تو عرض کیا: حضوؐر یہ چادر بہت اچھی ہے، بہت بھلی معلوم ہوتی ہے، اور خوش رنگ بھی ہے۔ اور انھوں نے آپ سے یہ چادر مانگ لی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو واپس اپنے حجرے میں تشریف لے گئے۔ اسی طرح پرانی چادر کو آپ نے زیب تن کیا اور نئی چادر لپیٹ کر، تہ کرکے لائے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو پیش کردی۔ انھوں نے فوراً اس کو قبول کرلیا۔
صحابہ کرامؓ کو یہ بات قدرے ناگوار گزری۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا: سعد! تم نے آج اچھا نہیں کیا، تم دیکھ نہیں رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نہایت ہی بوسیدہ اور پرانی چادر میں ملبوس تھے اور ایک نئی چادر ملی تو آپ نے بدل کر اس کو پہن لیا۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ حضوؐر کے سامنے کسی چیز کی تعریف کی جائے تو وہ تعریف کرنے والے کو پیش کردیتے ہیں؟ تم نے اس طریقے سے تعریف کی اور مسلسل تعریف کی تو آپ دوبارہ حجرے میں تشریف لے گئے اور چادر بدل کر آئے اور تمھیں وہ پیش کر دی اور تم نے بخوشی اسے قبول کرلیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے سنا تو اپنے ساتھی صحابہؓ سے عرض کیا کہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ کام کیا، یعنی کوئی اتفاقی طور پر عمل سرزد نہیں ہوگیا۔ میں نے تو یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ چادر جس نے حضوؐر کے جسمِ اطہر کو مَس کیا ہو وہ حاصل کروں اور وہی چادر میرا کفن بنے۔
واقعات میں آتا ہے کہ بالآخر اسی چادر کے اندر وہ کفنائے گئے لیکن اس کو کوئی نام دیجیے، اس واقعے کا کوئی عنوان تلاش کیجیے۔ چاہیں تو آپ اسے عشق مصطفیؐ کہہ لیجیے لیکن سچی بات یہ ہے کہ عشق مصطفیؐ ہی درحقیقت رب کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی چیزیں بڑی رہنمائی کرتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزں مل کر ہی بڑی بنتی ہیں۔ ہر چھوٹی نیکی بھی بڑی نیکیوں کی رغبت پیدا کرتی ہے۔ ہر چھوٹی نیکی، نیکیوں کے ایک بڑے خاندان کی طرف لے کر جاتی ہے اور ان نیکیوں کی کشش لذتِ ایمان سے آشنا کرتی ہے۔ اس لیے صحابہ کرامؓ کے ان واقعات میں ایک سبق اور سوزوگداز پنہاں ہوتاہے، ایک پکار ہوتی ہے جس پر لبیک کہا جائے۔ ان سے حب ِ الٰہی کا ایک ایسا دَر کھلتا ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنی زندگی کا سفر سہولت سے طے کرلیتا ہے۔
ہم ایک عجیب و غریب دنیا میں رہتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بھئی آپ لوگ تو آسمان کی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ ہم زمین پہ رہتے ہیں۔ نہیں، یہ آسمان کی باتیں نہیں، زمین کی باتیں ہیں۔ البتہ زمین کو ہم انسانوں نے چاروں طرف سے اس طرح دبوچ لیا ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے، تصورِ دنیا کو کھو چکے ہیں۔ ہم روزانہ مشاہدہ کرنے کے باوجود یہ تسلیم کرتے ہی نہیں کہ اس دنیا میں ہم مسافر ہیں۔ اصل پڑائو تو آخرت میں ہونا ہے۔ اس لیے تصورِ آخرت کو واضح کرنے کی ضرورت ہے، کہ آخرت سے مفر نہیں اوردنیا سے بھی فرار ممکن نہیں۔
دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا جاتا ہے۔ کل روزِ محشر میں خود اہلِ جنت کو بھی جس چیز پر سب سے زیادہ حسرت ہوگی، وہ دنیا میں گزرے ہوئے وہ لمحات ہوں گے جو ضائع ہوگئے۔ وہ نیکی کرسکتے تھے، اپنے رب کی طرف قربت کے کچھ قدم بڑھا سکتے تھے، کچھ بندوں کی خدمت اور کچھ لوگوں کی دل جوئی کے ذریعے، کچھ زخموں پر پھائے کے ذریعے، کچھ دکھوں کے مداوے کے ذریعے، لوگوں کی ہمت بندھاتے ہوئے اور احساسِ تنہائی سے بچاتے ہوئے اپنے رب کی یاد اور اس کے ذکر کو دوبالا کرتے ہوئے وہ نیکی کما سکتے تھے مگر کما نہ سکے۔ لہٰذا وہ لمحات جو ایسے ہی گزر گئے کچھ کیے بغیر گزر گئے اور کسی نیکی کو سمیٹنے کا ذریعہ اور سبب بن سکتے تھے مگر نہ بن سکے، ان پر تاسف، ملال اور حسرت ہوگی، کہ یہ لمحات بھی اگر نیکی کے کام میں گزرے ہوتے تو جنت کے اندر وہ درجات جو بڑی دُور تک نظر آتے ہیں، ان تک پہنچنا اوررسائی حاصل کرنا ممکن، آسان اورسہل ہوتا۔
اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ قبر کے اس گڑھے کو ہرلمحے انسان نیکی کے پھولوں سے بھر رہا ہے یا دوزخ کی آگ کے انگاروں سے۔ انسانوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ کسی نیک عمل کے نتیجے میں لمحے بھر میں نیکی کے پھول کھل اُٹھتے ہیں، اور اگلے ہی لمحے غفلت اور پھسل جانے کے سبب دوزخ کی آگ کے انگارے اور بھی دھک جاتے ہیں۔ ذرا تصور میں اس بات کو لایئے، اس گڑھے کو دیکھیے تو سہی، وہ گڑھا موجود تو ہے نا۔ ہر انسان اپنی قبر کے کنارے کھڑا ہے یا اپنی قبر کے اندر پیر لٹکائے بیٹھا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے بالآخر اس کے قدم اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور ہرلمحے یہ منظر موجود ہے، ایک بیلنس شیٹ بن رہی ہے نیکی اور برائی کی اور پھول چُننے اور آگ کے انگارے سمیٹنے کی۔
اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس چیز کو بہ کثرت یاد کرتے رہو جو دنیوی لذتوں اور ان کے اشتیاق کو ڈھانے والی ہے۔ دنیاوی لذتوں کے کیا کہنے، چشم ما روشن دل ماشاد۔ دنیاوی لذتوں کی ایک طویل فہرست ہے اور وہ ہر ایک کی جیب میں موجود ہے۔ جب پوچھیں تو وہ فرفر پڑھ کر سنائے گا کہ یہ سب لذتیں مطلوب ہیں۔ ان کی طرف مسلسل بڑھ رہا ہوں مگر مل نہیں پاتیں۔ اس قدر بے وفا ہے یہ دنیا۔ جتنا اس کی طرف چلیں اتنا ہی یہ دُور ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ اس موت کو یاد کرتے رہو۔ اس لیے تصورِ دنیا، تصورِ آخرت اور تصورِ مال، واضح ہونے کی ضرورت ہے۔ اس جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ انسان خود اپنے دل کے دیئے روشن کرے۔ اپنے لیے اپنے ہی اندر ایک مزکی کو، ایک مربی کو، پوری تحریک اسلامی کو اپنے اندر بٹھائے۔ دل کی محفل کو خود ہی آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس کا ہفتہ وار اجتماع بلائے۔ اس میں خود ہی آپ اپنی رپورٹ پیش کرے، اور اس رپورٹ پر خود ہی تبصرہ پیش کرے۔ اس میں آپ خود ہی محاسب ہوں، خود اپنا دامن تھام کر اپنا احتساب کریں، ’’اور اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘ کے مصداق اپنا جائزہ لیں۔ یا پھر یہ کہ جو بڑی عدالت لگنی ہے، عدالتِ کبریٰ! اس سے پہلے کوئی چھوٹی عدالت بار بار دل و دماغ کی دنیا کی لگنی چاہیے۔ عدالتِ صغریٰ، وہ عدالت جو پکار پکار کر فیصلہ دے، جو مجھ سے، آپ سے کہہ رہی ہو کہ آج یہ فیصلہ تمھارے خلاف صادر ہوا ہے، یہ فیصلہ تمھارے حق میں بھی ہوسکتا ہے۔ … آخر تم کتنے فیصلے اپنے خلاف کرائو گے۔ اس لیے یہ جو ایمان کا تقاضا ہے، یعنی احساس ذمہ داری جو بار بار سن پڑ جاتا ہے، اس احساس ذمہ داری کو اٹھایا، جگایا، بیدار کیا جائے اور اسے ہوش میں لایا جائے۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ (البقرہ ۲:۱۴۱)، اس کا بھی کوئی مفہوم ہے۔ لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ (الشوریٰ ۴۲:۱۵)، یعنی جو بوئو گے، وہی کاٹو گے، گندم بوئو گے تو گندم کاٹو گے، اور جس کے اعمال ہیں وہ اسی کے لیے ہیں کسی اور کا اس کے اندر کوئی حصہ نہیں ہے۔ لَّیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی (النجم۵۳:۳۹)، جو بوئے گا وہی کاٹے گا، جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق اس کو پائے گا۔
زندگی اور موت بھی اضافی شے ہے، اصل چیز وہی ہے ایمان، تزکیہ اور انقلاب۔ اگر ایمان ہے تو زندگی ہے، بلکہ وہ جسے موت کہتے ہیں وہ بھی زندگی ہے اور کیا خوب زندگی ہے۔ لیکن اگر ایمان نہیں ہے تو پھر یہ زندگی بھی موت ہے۔ اس حوالے سے اس زندگی کو بہتر بنانے اور مسلسل اپنے رب کی طرف چلانے کی ضرورت ہے۔
ایک بڑے مشہور صحابی گزرے ہیں۔ ان کے بارے میں صحابہ کرامؓ آپس میں یہ بات کیا کرتے تھے کہ عجیب و غریب انسان ہیں۔ انھوں نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی اور جنت میں چلے گئے ہیں۔ یہ صحابی حضرت اسود راعیؓ تھے، جو پیشے کے اعتبار سے ایک چرواہے تھے۔ اُجرت پر بکریاں چرایا کرتے تھے۔ غزوئہ خیبر کے موقع پر لوگوں سے انھوں نے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ہمارے قلعے کا گھیرائو اور محاصرہ کس نے کیا ہے؟ کسی نے ان کوبتایا کہ ایک شخص ہے جو نبوت کا دعوے دار ہے، رب کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ دلوں میں گداز، نرمی اور ملائمت پیدا کرتا ہوں اور اللہ کی طرف بلانے کا کام انجام دیتا ہوں۔ حضرت اسود راعیؓ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس بزرگ ہستی سے ملنا چاہیے۔
ایک دن بکریاں ہنکاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی طرف نکل آئے اور خیمے کے اندر داخل ہوگئے۔ آپ تشریف فرما تھے، نام پوچھا اور بیٹھ گئے اور کہا کہ آپ کیا لے کے آئے ہیں؟ رسول کریمؐ نے پوری دعوت پیش کی اور بتایا کہ بندوں کو بندوں کے رب کی طرف ہی چلنا چاہیے۔ یہی پیغام میں لے کر آیا ہوں اور اس کا نبی ہوں۔ پوچھا کہ: اچھا! میں آپ کی بات مان لوں اور سمجھ جائوں تو کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا کہ: ’’جنت ملے گی‘‘۔ پھر جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کیا، اس کی وسعتوں کا تذکرہ کیا۔ بہت خوش ہوئے، لیکن پھر کہنے لگے: حضوؐر میری طرف دیکھیے تو سہی، میں کس قدر کالا کلوٹا اور کس قدر بدشکل اور بھدا انسان ہوں۔ کیا اس کے باوجود مجھے جنت ملے گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، اللہ کو پہچان لینا اور اس کے راستے پر چلنا ،اللہ تعالیٰ تم کو خوش شکل بنا دے گا۔ کہنے لگے: حضور ذرا میرے قریب تو ہوں۔ کس قدر بدبو میرے جسم سے اُٹھ رہی ہے، کیسا تعفن ہے، کیا اس کے باوجود میں جنت میں جاسکوں گا؟ آپ نے فرمایا: اس کے باوجود اگر ایمان ہے تو جنت میں جاسکو گے۔ وہ کہنے لگے: اچھا پھر میں ایمان لاتا ہوں، اور کلمہ پڑھ کر ایمان لے آئے، پھر فوراً یہ سوال کیا کہ ان بکریوں کا کیا کروں؟ یہ تو میرے پاس امانت ہیں،ان کو اُجرت پر چراتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: بکریوں کو قلعے کی طرف ہنکا دو۔ جب آخری بکری بھی قلعے کے اندر چلی جائے تو میرے پاس آجائو۔ انھوں نے یہی کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔
معرکہ اپنے عروج پر تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ جائو اس میں شریک ہوجائو۔ وہ فوراً جاکر شریک ہوئے اور اگلے ہی لمحے شہید ہوگئے۔ تذکروں میں آتا ہے کہ غزوئہ خیبر کے ۲۰ شہدا تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ان ۲۰ شہدا کی میتیں پیش کی گئیں تو آپ سب صحابہ کرامؓ کی میتوں کے سرہانے کھڑے ہوئے، سب کو دیکھا اور دعا کی۔ جب حضرت اسودراعیؓ کے سرہانے آپ جاکر کھڑے ہوئے تو صحابہؓ نے عجیب منظر دیکھا کہ ایک نظر آپ نے ان کے چہرے پر ڈالی اور فوراً اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا اور رُخ موڑ لیا۔ صحابہؓ کچھ حیران ہوئے اور بعد میں نبیؐ سے دریافت کیا کہ حضوؐر باقی تمام شہدا کو تو آپ نے جی بھر کر دیکھا، ان کے سرہانے دیر تک کھڑے رہے لیکن حضرت اسودراعیؓ کے سرہانے لمحے بھر کے لیے کھڑے ہوئے اور اپنا رُخ پھیر لیا، یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس خاص لمحے اسودراعیؓ حوروں کے درمیان تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حسین و جمیل بنا رکھا تھا، اور ان کے جسم سے خوشبو کی لپٹیں اُٹھ رہی تھیں۔ میں نے مناسب نہ سمجھا کہ اس لمحے ان کی طرف زیادہ دیر تک دیکھوں۔ یوں میں آگے بڑھ گیا۔
یہی وہ صحابی ہیں جن کے ایمان نے بظاہر بہت سارے اعمال کیے بغیر بھی ان کو اپنے رب کے دربار میں اس طرح پہنچا دیا کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ عموماً جن شرائط اور سوالوں کو کرتے ہوئے وہ اس راستے پر آئے تھے، ان کا جواب بھی مل گیا۔ اس لذت آشنائی، حلاوتِ ایمان، اور اپنے رب تک پہنچنے، اس کی طرف بڑھنے کے شوق نے بالآخر انھیں ان جنتوں کی طرف پہنچایا جومطلوب ہیں، جس کی طلب ہم سب کے اندر موجود ہے، اور ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں آگے بڑھائے اور لذتِ ایمانی سے آشنا کرے۔ یہی ایمان، تزکیہ کی پہلی شرط ہے اور تزکیہ کو پانے کے لیے عدالتِ صغریٰ کا وجود اور ہر آن اپنا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔