ملک کی اور خود حکومت کی اپنی بھلائی بھی اسی میں ہے کہ یہاں ہر خیال کے لوگوں کے لیے راے عام سے اپیل کرنے کا موقع کھلا رہے اور صرف راے عام کی تبدیلی نظامِ حکومت کی تبدیلی کے لیے کافی ہو۔ بخلاف اس کے ایسے حالات پیدا کر دینا جن میں ایک مدرسۂ فکر غالب آکر دوسرے مدارسِ فکر کا گلا گھونٹے اور نظامِ حکومت کی تبدیلی کے لیے راے عام کو تیار کرنے کے بجاے دوسرے طریقوں کا استعمال ناگزیر ہوجائے، کبھی کسی ملک کے حق میں بھی مفید ثابت نہیں ہوا ہے--- ہم نے اب تک جو کام کیا ہے اور آیندہ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں وہ سراسر آئینی ہے، پُرامن ہے اور علانیہ ہے۔ جو اصلاح ہمارے پیش نظر ہے اس کے لیے ہم نے اِس کے سوا کوئی اور طریقہ نہ اختیار کیا ہے نہ آیندہ کریں گے کہ اپنے خیالات عوام الناس کے سامنے پیش کریں اور جو لوگ ہمارے ہم خیال بن جائیں، اُن کو منظم کریں۔ ملک کے نظامِ زندگی میں تغیر پیدا کرنے کی صحیح صورت ہمارے نزدیک صرف یہی ہے --- جو لوگ ہم سے اختلاف رکھتے ہیں، خواہ وہ برسرِاقتدار ہوں یا نہ ہوں، ان کے لیے سیدھا اور صاف طریق کار یہ ہے کہ وہ دلائل سے ہمارا مقابلہ کریں اور جس طرح راے عام سے ہم اپیل کر رہے ہیں وہ بھی کریں۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں اور انھیں بھی اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ باشندگان ملک کی اکثریت اس کھلے مقابلے میں جس مدرسۂ فکر کو پسند کرے وہ زمامِ کار پر قابض ہو، اوردوسرے مدارسِ فکر عوام کی پسندیدگی حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتے رہیں۔
اس سیدھے طریقے کو چھوڑ کر جو لوگ دوسروں کا راستہ روکنے کے لیے جبروظلم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور حکومت کے وسائل و ذرائع اور اختیارات اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ راے عام پر ان کا دائمی قبضہ قائم رہے اور دوسروں کو اسے ہموار کرنے کا موقع مل ہی نہ سکے، وہ نادان اور ناعاقبت اندیش ہیں۔ ان کا یہ طریقہ نہ صرف حکمت و مصلحت کے خلاف ہے، بلکہ دیانت و امانت کے خلاف بھی ہے، کیونکہ پبلک نے حکومت کے اختیارات اس کام کے لیے ان کے حوالے نہیں کیے ہیں۔ اور سچ پوچھیے تو یہ طریقہ اخلاقی بزدلی اور ذہنی کمزوری کی کھلی علامت ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے دلائل اور عملی کام کے زور سے راے عام کو جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لیے اوچھے ہتھیاروں سے کام لے رہے ہیں۔(’اشارات‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۴، عدد۴، شوال ۱۳۶۹ھ، ستمبر ۱۹۵۰ئ، ص۷)