قرآن حکیم دنیا کی تمام دوسری کتابوں سے مختلف ہے۔ اس کتاب کے اندر مختلف ابواب کی صورت میں الگ الگ مسائل پر بحث ملتی ہے، نہ یہ کتاب روایتی انداز میں کہیں اپنے موضوع کا تعین کرتی ہے۔ یہ دنیا کے لٹریچر میں اپنے طرز کی ایک ہی کتاب ہے۔ قاری پہلی دفعہ اس کے معانی سے آگاہی کی غرض سے اس کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو وہ اس کی اکثر آیات کو آپس میں بے جوڑ پاکر پریشان ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر اگر چند بنیادی امور کی وضاحت ابتدا ہی میں کر دی جائے وہ اُلجھن سے بچ سکتا ہے اور فہم و تدبر کی راہیں اس پر کشادہ ہوسکتی ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے ناظر کو قرآن کی اصل سے واقف ہو جانا چاہیے۔ وہ خواہ اس پر ایمان لائے یا نہ لائے، مگر اس کتاب کو سمجھنے کے لیے اسے نقطۂ آغاز کے طور پر اس کی وہی اصل قبول کرنی ہوگی جو خود اس نے اور اس کے پیش کرنے والے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان کی ہے۔ قرآن کی اصل یا بنیادی دعوت کو جاننے کے بعد، قرآن کے اصل موضوع، مرکزی مضمون اور مدعا کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ قرآن کا موضوع انسان ہے، مرکزی مضمون صحیح رویے اور ہدایت کی طرف رہنمائی ہے، جب کہ مدعا انسان کو اس صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے۔ ان تین بنیادی امور کو ذہن میں رکھ کر کوئی شخص قرآن کو دیکھے تو اسے صاف نظر آئے گا کہ یہ کتاب اپنے موضوع، مدعا اور مرکزی مضمون سے بال برابر بھی نہیں ہٹتی ہے۔ اس کے تمام مضامین آپس میں باہم مربوط ہیں اور اس کا سارا بیان انتہائی یکسانی کے ساتھ دعوت کے محور پر گھومتا رہتا ہے۔
اُسے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ زمین پر سب سے پہلے قدم رکھنے والے افراد، یعنی آدم ؑ و حواؑ کے لیے بھی خدا نے طریقِ زندگی اسلام ہی تجویز کیا تھا لیکن پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ نسلِ آدم ؑ، ابلیس سے دوستی کے سبب خدا کے بتائے ہوئے طریقوں سے دُور ہوتی گئی اور اپنے نفس کی غلامی کے نتیجے میں زمین کے اندر فساد کے سامان پیدا کرتی چلی گئی۔ چنانچہ ربِ کائنات، بجاے اس کے کہ بگڑے ہوئے انسانوں کو زبردستی صحیح طریقے کی طرف لے آتا، وہ ان ہی انسانوں میں ایسے انسان پیدا کرتا رہا جو انھیں بدستور ان کے غلط رویوں سے آگاہ کرتے رہے اور انھیں خدا کے پسندیدہ طریقہ ہاے زندگی کی دعوت دیتے رہے۔ خدا کے ان فرستادہ بندوں کی آمد کا سلسلہ ہزارہا برس تک جاری رہا یہاں تک کہ پروردگارِ دوجہاں نے سرزمینِ عرب میں خاتم الانبیا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آخری کتاب، قرآنِ مجید کے ساتھ مبعوث فرما کر انسانوں کی ہدایت کا سلسلہ مکمل کر دیا اور صحیح رویے اور دنیا کی اصلاح کے لیے جدوجہد کی طرف دعوت دی۔ اسی دعوت اور ہدایت کی کتاب یہ قرآن ہے جو اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔
دوم یہ کہ انسانوں کے غلط رویوں کی وجہ سے ذہنوں کے اندر موجود غلط فہمیوں کو کس طرح دُور کیا جائے۔ سوم یہ کہ انسانوںکو گمراہی کے شکنجوں سے چھڑا کر ہدایت کے راستے پر کس طرح لگایا جائے۔ بہترین ادبی رنگ اور مٹھاس والی یہ آیات فوراً دلوں کے اندر اُتر جانے والی ہوتی تھیں، اور یہ انھی آیات کا معجزہ تھا کہ ابتدا کے تین چار برسوں کے اندر ہی قدرتِ خداوندی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چند ایسے پاکیزہ نفوس عطا کردیے جنھوں نے دین کی عظیم عمارت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی۔
نسلِ ابلیس کو دین حق کا فروغ کب گوارا تھا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے داعی حق صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں پر کلمۂ حق کی پاداش میں ظلم و ستم کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ بالآخر اپنے گھربار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ لیکن ساتھ ہی قدرت نے یہ بھی کیا کہ اُس بنجر زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہ رہا جس کی کوکھ سے ایمان کا شگوفہ نہ پھوٹ نکلا ہو۔ اِس مرحلے کے دوران میں اُترنے والی آیات کے اندر اُس وقت کے تقاضوں کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی دیا گیا اور کفر پر ڈٹے رہنے والوں کو اُن کے عبرت ناک انجام سے خبردار بھی کیا گیا۔
ہجرت کے بعد مدینہ جب ایک باقاعدہ اسلامی ریاست کی شکل اختیار کرنے لگا تو کفر کی قوتِ برداشت بھی جواب دینے لگی اور پھر اس نے پوری قوت سے اسلام کے پودے کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن ۱۳سال کی مسلسل اور سرتوڑ کوششوں کے باوجود اسے اپنے عزائم میں پے درپے شکست ہوئی اور یوں اس مرحلے کے اختتام تک نہ صرف سارا عرب ہی اسلام کے لہلہاتے گلشن میں تبدیل ہوگیا بلکہ اس کے پھولوں کی خوشبو عرب سے باہر بھی دماغوں کو معطر اور دلوں کو منور کرنے لگی۔ ان ۱۳ برسوں کے دوران میں اُترنے والی آیات نے ایمان والوں کو کہیں شاہانہ، کہیں معلّمانہ اور کہیں مُصلحانہ انداز میں اسلامی معاشرے کے اصول بھی بتائے اور مخالفین کے ساتھ سلوک کرنے کے طریقے بھی سمجھائے۔ اور جب اللہ نے اپنی اس آخری کتاب کی آخری آیات کے ساتھ انسانی ہدایت کی تمام حجتیں تمام کر دیں تو دنیا کے عظیم ترین معاشرے کا عظیم ترین منصوبہ بھی مکمل ہوگیا___ قرآن کا قاری اگر آیاتِ قرآن سے متعلقہ ان کے شانِ نزول کی مندرجہ بالا باتیں ذہن میں رکھے تو اسے قرآن فہمی میں کہیں زیادہ مدد مل سکتی ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دعوت کی بنیاد جن عقائد اور اصولوں پر ہو، انھیں کسی بھی حال میں نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ توحید اور صفاتِ الٰہی، آخرت اور اس کی بازپُرس اور جزا و سزا، رسالتؐ اور ایمان بالکتاب، تقویٰ اور صبروتوکل اور اسی قسم کے دوسرے بنیادی مضامین کی تکرار پورے قرآن میں نظر آتی ہے۔ یہ بنیادی تصورات اگر ذرا بھی کمزور ہوجائیں تو اسلام کی یہ تحریک اپنی صحیح روح کے ساتھ نہیں چل سکتی۔
قرآن کا قاری بہرصورت یہ دیکھتا رہے کہ قرآن کس اسلوبِ زندگی کو پسندیدہ اور کس نمونے کو ناپسندیدہ قراردیتا ہے۔ قرآن کن امور کو اس کی فلاح کا ضامن اور کن باتوں کو اس کے لیے نقصان کا موجب قرار دیتا ہے۔ قرآن کا قاری اس طرز کے مطالعے کے نتیجے میں دیکھے گا کہ خدا کے پسندیدہ بندے، مومن کا ایک مکمل خاکہ ازخود اس کے سامنے آجاتا ہے۔
بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔
اس حوالے سے قرآن کے طالب علم کو یہ بات بھی ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ خدا نے صرف قرآن کتابی صورت میں ہی نازل نہیں کیا۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں دنیا کو اس کا ایک عملی نمونہ بھی عطا کیا ہے۔ اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ وہ بہترین استاد ہے جو قرآن فہمی میں اس کی کماحقہ مدد کرسکتا ہے۔ آپؐ کا اسوۂ حسنہ اسے قرآن کی بہترین تفسیر مہیا کرسکتا ہے۔
مندرجہ بالا اصول و ضوابط کے علاوہ آج کے قاری کو یہ بات بھی ضرور پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ آج اُمت ِ مسلمہ کو جو دگرگوں حالات درپیش ہیں وہ صرف قرآن سے دُوری اور اس کے مفاہیم سے اغماض برتنے کے سبب سے ہیں۔ حضرتِ اقبالؒ نے بالکل سچ کہا تھا کہ
ع اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
آج قرآن کی دعوت کو سمجھنے، سمجھانے اور عام کرنے کی پہلے سے کہیں بڑھ کر ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ رب العزت ہمیں قرآن فہمی اور اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی روشنی میں عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین! (مقدمہ تفہیم القرآن سے ماخوذ)