بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب نے کروڑوں انسانوں کو متأثرکیا ہے۔ لاکھوں گھر ڈھے گئے، ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہوگئیں، سیکڑوں پل بہ گئے اور کئی ہفتے کئی کئی فٹ اونچے پانی میں ڈوبے رہنے سے کوئی بھی سامان زیست استعمال کے قابل نہ رہا۔ نئی نئی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں، علاج معالجے کی سہولتیں ناپید ہوگئی ہیں۔ چاروں اطراف سے پانی میں گھرے ہونے کے باوجود، جان بچانے کے لیے ایک گھونٹ بھی میسر نہیں۔ کئی کئی روز سے فاقوں کا سامنا ہے، اور چند ہفتے جاری رہنے والی تباہی کے اثرات کئی سال جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ ایسے میں جو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لگتا ہے وہی امان پاگئے۔ پیچھے رہ جانے والے تو مسلسل کڑے امتحان کا سامنا کررہے ہیں۔ قیامت خیز تباہی کی ان گھڑیوں میں سب دنیاوی سہارے ناکارہ ہوگئے بس ایک در کھلا رہ گیا اور بس اسے ہی کھلا رہنا ہے ۔۔ الأمان الحفیظ ۔۔ یا حی یا قیوم برحمتک نستغیث۔
ساون کے دن شروع ہوئے تو لُو کے تھپیڑے سہنے والوں نے سکھ کا سانس لیا۔ بادل جھوم اُٹھے، ہریالی اور پھولوں کے رنگ نظروں میں لہلہانے لگے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں لوگوں نے کہا: ہٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا (الاحقاف ۴۶:۲۴)’’یہ بادل ہمیں خوب سیراب کردیں گے‘‘۔ پھر اچانک وہی بادل اور بارشیں عذاب کا روپ دھار گئے۔ رسالت مآبؐ کے زمانے میں تیز ہوائیں چلتیں، بارشیں طوالت اختیار کرنے لگتیں تو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے تاب ہوجاتے اور انھیں یہ فکرمندی بے چین کر دیتی کہ رحمت کہیں زحمت میں نہ بدل دی جائے، فوراً اپنے رب کے سامنے جھک جاتے--- دُعائیں شروع کردیتے: پروردگار! ہم پر مزید مینہ نہ برسا۔ ہمارے اردگرد کھلے میدانوں پر، ٹیلوں پر، درختوں کے جھنڈ پر، چٹیل پہاڑوں اور جنگلوں پر بارش برسا۔ بادل گرجتے، بجلی کڑکتی تو فرماتے: اے اللہ! اپنے غضب سے ہمیں قتل نہ کردیجیے، اور نہ عذاب کے ذریعے ہلاک کیجیے، عذاب سے پہلے ہی ہمیں معاف فرمادیجیے ۔
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰھُمْ بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَتَضَرَّعُوْنَo فَلَوْ لَآ اِذْ جَآئَ ھُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (الانعام ۶:۴۲-۴۳ ) تم سے پہلی بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصیبتوں اور آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔ پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انھوں نے عاجزی اختیار کی مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور شیطان نے انھیں اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کررہے ہو خوب کررہے ہو۔
وَ مَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَo (الاعراف ۷:۹۴) کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی اختیار کریں۔
سید مودودیؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جارہا ہے جو ہر زمانے میں اللہ تعالی نے انبیا ؑ کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کے لیے نہایت سازگار بنایا گیا، یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا۔ قحط، وبا، تجارتی خسارے، جنگی شکست اور اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں تاکہ اس کا دل نرم پڑے، شیخی اور تکبر سے اس کی اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو، اس کا غرورِ طاقت اور نشۂ دولت ٹوٹ جائے، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد متزلزل ہوجائے، اسے محسوس ہو کہ اوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں، اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کُھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہوجائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص۵۹)
مصیبت اور آزمایش کے ان لمحات میں بہت سے لوگ اپنے رب کی رحمتوں کی آغوش میں پناہ پاتے ہیں، لیکن کتنے ہی بدقسمت ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان پر آنے والی آزمایشیں بھی بے اثر رہتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں اقسام کے لوگوں کی وضاحت ایک حدیث میں یوں فرماتے ہیں:
لا یزال البلاء بالمؤمن حتی یخرج نقیاً من ذنوبہ و المنافق مثلہ کمثل الحمار لا یدری فیم ربطہ أھلہ و لا فیم أرسلوہ، مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے، تو ساری کھوٹ سے صاف ہوکر نکلتا ہے۔ لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتاکہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا۔
رجوع الی اللہ کے لیے اس سازگار ماحول میں بھی جو بدقسمت انسان دلوں کے گداز سے محروم رہ جائیں ان کے لیے رب کی طرف سے ایک اور آزمایش نازل ہوتی ہے اور اس میں وہ مزید بری طرح ناکام و نامراد ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآئَ نَا الضَّرَّآئُ وَ السَّرَّآئُ فَاَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنo (الاعراف ۷:۹۵) پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا، یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں۔آخر کار ہم نے انھیں اچانک پکڑ لیا اور انھیں خبر تک نہ ہوئی‘‘۔
صاحب ِتفہیم القرآن اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: ’’پھر جب اس سازگار ماحول میں بھی اس [قوم] کا دل قبولِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنے میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بربادی کی تمہید شروع ہوجاتی ہے۔ جب وہ نعمتوں سے مالامال ہونے لگتی ہے، تو اپنے بُرے دن بھول جاتی ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا یہ احمقانہ تصور بٹھاتے ہیں کہ حالات کا اتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہورہا ہے، بلکہ ایک اندھی طبیعت، بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی برے دن لاتی ہی رہتی ہے۔ لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کرکے خدا کے آگے زاری و تضرُّع کرنے لگنا، بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۹-۶۰)
قرآن کریم کی متعدد آیات میں مختلف اقوام و واقعات کا ذکر کرتے ہوئے خالق کائنات نے یہ حقیقت واضح طور پر آشکار کردی کہ کسی قوم یا فرد کو حاصل ہونے والی نعمتیں اور راحتیں، اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھا گھر، مال و اولاد، معاشرے میں نام و نمود، اثر و رسوخ اس قوم یا فرد کی کامیابی، سربلندی اور فلاح و نجات کی علامت نہیں اور نہ ان نعمتوں سے محرومی اس کی ناکامی اور رب کی اس سے ناراضی کا مظہر ہے۔ سید مودودیؒ کے الفاظ میں: ’’ایک طالب ِحقیقت کو اول قدم پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہورہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں، وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں‘‘… ’’جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہورہی ہو تو عقل اور قرآن دونوں کی رُو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمایش میں ڈال دیا ہے، اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہوگیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ ابھی خدا اس پر مہربان ہے، اسے تنبیہ کررہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پر ’انعام‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔
اس کے برعکس جہاں ایک طرف سچی خداپرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راست بازی ہو، خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلا دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں، اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سُنار اِس سونے کو تپا رہا ہے تاکہ خوب نکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل العیار ہونا ثابت ہوجائے۔ دنیا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اٹھے تو پروا نہیں، سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳،ص ۲۸۴-۲۸۵)
اس قرآنی اصول اور الٰہی سنت کے تناظر میں حالیہ سیلابی ریلوں کو دیکھیں تو یہ رب ذوالجلال کی طرف سے بندوں کو کھلی تنبیہ اور اس کی رحمت کی آغوش میں پناہ لینے کا ایک سنہری موقع ہے۔ اگر اہل پاکستان نے اپنا سب کچھ کھوکر بھی اپنے خالق کو پھر سے پالیا تو اس سے بڑی کامیابی اور کوئی نہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ ہمارا حال حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور اس گدھے کا سا رہا کہ جسے نہ باندھے جانے کا سبب معلوم ہو اور نہ لگام چھوڑ دیے جانے کا راز، تو دنیا خواہ اسے کوئی بھی نام و مقام عطا کرے، رہے گا وہ گدھے کا گدھا، بلکہ اس سے بھی بدتر اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ(اعراف ۷:۱۷۹) ’’وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔
پاکستان اس وقت صرف تباہ کن سیلاب ہی کے عذاب سے دوچار نہیں، مختلف فتنے، آزمایشیں اور بلائیں چہار جانب سے منہ پھاڑے اس پر اُمڈ پڑی ہیں۔ سیلاب زدہ علاقے میں سارا بنیادی ڈھانچا خاک میں مل گیا ہے۔ ان علاقوں میں نہ عمارتیں محفوظ رہیں نہ جھونپڑیاں، نہ راستے بچے نہ کھیت، سڑکوں، ندی نالوں، دریاؤں اور ان پر بنے پلوں کا سارا تانا بانا بکھر کر رہ گیا ہے۔ اس تباہی اور ہلاکت سے بچ نکلنے کے لیے قوم کو کئی سال کی محنت شاقہ، بے تحاشا وسائل اور تعمیرِ نو کے ناقابل شکست حقیقی جذبے سے سرشار ہونے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت نہ صرف یہ تمام عناصر ناپید ہیں بلکہ ہم ایک قوم کی تعریف پر پورا اترنے میں بھی ناکام ہورہے ہیں۔ سیلاب کا تباہ کن طوفانی ریلا ایک ایک کرکے چاروں صوبوں میں جاپہنچا، مگر ہر جگہ لوگ دوسروں پر اس تباہی کا الزام لگاتے ہوئے مزید تباہی سے دوچار ہوتے رہے۔ ایک کہتا تھا فلاں نے اپنی زمینیں اور اپنا علاقہ بچانے کے لیے پانی کا رخ ادھر موڑ دیا، تو دوسرا کہتا تھا کہ فلاں نے اپنا گھر بچانے کے لیے پانی کو وہاں سے گزرنے کا راستہ نہ دیا، حالانکہ تباہی کی زد میں سب ہی آئے۔ حکمرانوںنے اس الزام اور جوابی الزام کی سیاست کو مزید ہوا دی۔ ایک صوبے کا دوسرے صوبے کو، صوبوں کا مرکز کو، اور ایک حلیف جماعت کا اپنی دوسری حلیف جماعت کو الزام، سیلاب کی تباہ کاری کے ساتھ ہی ساتھ باہم نفرتوں کی آب یاری کا سبب بھی بنتا رہا۔
رہے کراچی اور بلوچستان تو بدقسمتی سے سیلاب کی ان تباہ کاریوں کے دوران بھی وہاں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ سیلاب کے عروج میں کراچی کی سڑکوں پر دن دہاڑے ٹارگٹ کلنگ بھی عروج پر جاپہنچی۔ ادھر بلوچستان سے بھی اپنے بھائی پنجاب کو درجن بھر لاشوں کا تحفہ بھیجا گیا۔ نہ تو قاتلوں کو قتل کی وجہ معلوم تھی اور نہ مقتولوں یا ان کے زندہ درگور وارثوں ہی کو معلوم ہوا کہ ان کے پیارے کیوں خون میں نہلا دیے گئے۔ صوبہ خیبر میں تو کراچی سے آنے والی لاشوں کو وصول کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ رہی بے چاری حکومت تو اسے اپنے یورپی دوروں سے ہی فراغت نہ تھی۔ ان دوروں بالخصوص برطانیہ کے دورے کا اصل ہدف مستقبل کے حکمران بلاول زرداری کو میدان سیاست میں متعارف کروانا (تاج پوشی کرانا) بتایا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے محلات کے سودے بھی جاری رہے۔ یہاں تک کہ یورپی ذرائع ابلاغ میں واویلا مچ گیا کہ سیلاب میں ڈوبے ملک کے صدر صاحب! واپس جاؤ اور اپنے گھر کی خبر لو۔ رہی سہی کسر برمنگھم کی تقریب میں اپنے ہی ہم وطن کی طرف سے ’جوتا پاشی‘ نے پوری کردی۔ اس عزت افزائی کے جلو میں جو ملک واپسی ہوئی تو سیلاب زدہ علاقوں میں عارضی اور جعلی امدادی کیمپوں میں منہ دکھائی شروع کردی گئی---رہے سیلاب زدہ لوگ اور ان کے مصائب تو۔۔۔ آخر وقت کا مرہم کب کام آئے گا؟ چند روز میں نہ سہی چند ہفتوں میں تو پانی کسی نہ کسی طرح اتر ہی جائے گا۔
ذرا ظرف کی وسعت اور ترجیحات کی فہرست بھی ملاحظہ ہو، ادھر پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا اور دوسری طرف حکومت کا سارا زور چند ٹی وی چینلوں کی بندش پر صرف ہو رہا تھا۔ ان چینلوں کے قصور کئی ہوسکتے ہیں لیکن جو قصور بندش کا سبب بنا، وہ ’جوتاپاشی‘ کی خبر پر اصرار تھا۔ ذرائع ابلاغ یقینا غیر جانب دار نہیں ہیں۔ ان کی ترجیح اوّل بھی سیلاب کی تباہ کاری اور تباہی کی سنگینی واضح کرنا نہ رہی۔ انھوں نے بھی قوم کے اندر انفاق اور فداکاری کی روح بیدار کرنے میں بہت کوتاہی برتی۔ انھوں نے بھی صرف اپنی مرضی کی امدادی کارروائیوں اور صرف چنیدہ افراد اور اداروں کی خدمات کو سراہا لیکن کاش! ذرائع ابلاغ کا یہ جرم ان کے قانون اور ضابطے کے دائرے میں شفاف اور عادلانہ مؤاخذے اور احتساب کا سبب بنتا۔ کاش! کوئی سرکاری ادارہ یا ذمہ دارانِ حکومت تمام ابلاغیاتی بڑوں کو لے کر بیٹھتے، قوم و ملک پر ٹوٹنے والی قیامت میں مشترک حکمت عملی وضع کرتے اور جو بھی حکومتی اثرورسوخ یا آشیرباد ہوسکتی تھی، اسے ایک تعمیری ابلاغیاتی مہم کے لیے وقف کردیتے تو آج صورت حال یقینا مختلف ہوتی۔ اس ضمن میں کوتاہی کے مرتکب حکومت اور ذرائع ابلاغ ہی نہیں وہ مختلف افراد اور امدادی ادارے بھی ہیں جنھوں نے اپنے ایک کو سو اور سو کو ہزار بناکر پیش کیا۔ اس بے بنیاد مبالغہ آمیزی سے جہاں ان اداروں پر اعتماد مجروح ہوا وہیں مزید مالی اعانتوں کی ضرورت کا احساس بھی ماند پڑا۔ اس سب کچھ سے بڑھ کر یہ کہ نیک کام میں بھی جھوٹ کی آمیزش سے برکت معدوم ہوگئی۔ آفات و آلام سے نجات کے لیے درکار رب کی رحمت روٹھ گئی۔
اس وقت تباہی اس قدر ہمہ گیر ہے کہ ہر صاحب ِ خیر کو اپنا سب کچھ لے کر میدان میں آجانا چاہیے۔ سب کو ایک دوسرے سے بڑھ کر خدمت انجام دینا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی ہرلمحے ذہن میں تازہ رہنا چاہیے کہ کامیابی کا معیار کوئی دنیاوی پیمانہ نہیں، رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ اخلاص و دیانت سے خدمت کرنے والے قابلِ مبارک باد ہیں کہ یہ گنج گراں مایہ انھیں وافر عطا ہوا ہے۔ امریکی بازار کا طواف کرنے والے مغربی تجزیہ نگاروں کو اصل تشویش بھی یہی ہے۔ وسیع تر اشاعت رکھنے والے عالمی اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینل یہی دہائیاں دے رہے ہیں کہ خدمت کے میدان میں نہ حکومت نظر آرہی ہے اور نہ ان کی تخلیق کردہ ہزاروں کاغذی غیرسرکاری تنظیمیں (این جی او)۔ خدمت کا میدان، ان کے نزدیک ’شدت پسند‘ تنظیموں نے مار لیا ہے۔ کاغذی تنظیموں یا نری سرکاری ڈیوٹی کا بوجھ سمجھ کر کام کرنے والے اگر ہیں بھی، تو صرف چند مخصوص علاقوں تک محدود۔ ہزاروں میل پر پھیلے پانی میں گھرے بے نوا لوگوں تک پہنچنے کا نہ ان کے دل میں داعیہ ہے اور نہ کوئی ارادہ۔ مصیبت اور آزمایش نے ہر چہرہ بے نقاب اور ہر دل کا حال کھول کر رکھ دیا ہے۔ دوست دشمن نکھر کر سامنے آگئے ہیں۔ عرب شاعر کے الفاظ میں ؎
جَزَی اللّٰہُ الشَّدائِدَ کُلَّ خَیْرٍ
عَرَفْتُ بِھَا عَدُوِّی مِنْ صَدِیْقِی
(اللہ سختیوں کو جزاے خیر دے، میں نے ان کے ذریعے اپنے دوست اور دشمن کو پہچانا ہے۔)
ہمارے حکمرانوں کے لیے اگر مدرسۂ رسالتؐ سے کچھ سیکھنا ممکن ہو، تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ ضرور پڑھیں کہ ایک بار صبح صبح، منہ اندھیرے ریاست مدینہ کے باہر شورو غوغا بلند ہوا۔ لوگ گھبرا کر آواز کی جانب دوڑے، شہر سے تھوڑا سا باہر نکلے تو سامنے سے ریاست کے سربراہ، تاج دار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار واپس تشریف لارہے تھے۔ تلوار گلے میں لٹکی ہوئی تھی اور آپؐ پکار پکار کر فرما رہے تھے: لَم تُراعُوا۔۔ لَم تُراعُوا (گھبرانے کی کوئی بات نہیں ---سب خیریت ہے۔ یہ سمندر کی جانب سے آنے والا شور تھا)، یعنی آپؐ اپنے سب ساتھیوں سے پہلے جاکر صورت احوال معلوم کر آئے تھے اور اب تسلی دے رہے تھے کہ پریشان نہ ہوں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔
مدرسۂ رسالتؐ ہی سے یہ سبق بھی سیکھنا چاہیے کہ اپنے رب سے آزمایشوں سے بچنے اور عافیت کی درخواست کیا کرو۔ کہا کرو: اَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْت، اے میرے اللہ! مجھے بھی عافیت پانے والوں کے ساتھ عافیت عطا فرما۔ دُعا کیا کرو: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ تَحَوَّلِ عَافِیَتِکَ: اے میرے اللہ! میں تیری عافیت اٹھ جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور کہا کرو: رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖج وَاعْفُ عَنَّا وَ اغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰـنَا (البقرہ ۲:۲۸۶) اے ہمارے رب ہم پر اس طرح آزمایشیں نازل نہ فرما جس طرح ہم سے پہلی اقوام پر نازل کیں۔ ہم پر اتنا بوجھ نہ ڈال کہ جو ہم برداشت ہی نہ کرسکیں، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا آقا و مولا ہے۔
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی صبح و شام کے وقت یہ کلمات کہنے نہ چھوڑے: اے میرے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین، اپنی دنیا، اپنے اہل و عیال اور مال و متاع کے حوالے سے تیری عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میری کمزوریوں کا پردہ رکھ لے اور میرے خدشات کو امن و سکون میں بدل دے۔ تو میرے سامنے سے بھی میری حفاظت فرما اور میرے پیچھے سے بھی، میرے دائیں سے، میرے بائیں سے اور میرے اُوپر سے میری حفاظت فرما۔ اے اللہ! میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں نیچے سے ہلاک کر دیا جائوں۔
ان دُعاؤں کے ساتھ ہی ساتھ یہ تلقین بھی فرمائی کہ اگر کوئی آزمایش یا مصیبت آجائے تو پھر صبر کرتے ہوئے رب ہی سے استعانت طلب کیا کرو: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۴۵) ’’صبر اور نمازوں کا اہتمام کرتے ہوئے، اللہ کی مدد حاصل کیا کرو‘‘۔ پھر ایک جامع ہدایت یہ دے دی کہ آزمایشوں سے نجات کے لیے، انسانی بس میں جتنی کوششیں ممکن ہیں وہ سب بروے کار لایا کرو۔ مَا اسْتَطَعْتُمْ،یعنی جتنی بھی تم میں استطاعت ہے، سعی و تیاری کیا کرو۔ جو بھی کام کرو اسے بہترین انداز سے کیا کرو: ان اللّٰہ یحب اذا عمل أحدکم عملا أن یتقنہ، اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تم جو کام بھی کرو اسے بہترین طریقے سے کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زبانی تعلیمات ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے عمل سے ان تعلیمات کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ ایک مثال کے طور پر آپؐ کے سفر ہجرت ہی کو لے لیجیے، انسانی ذہن میں جتنی تدابیر آسکتی تھیں آپؐ نے ان پر عمل کیا۔ سفر سے کئی روز پہلے ہی رفیق سفر کا انتخاب، بہترین سواری کا انتظام، راستہ بتانے کے لیے راستے کے تمام نشیب و فراز سے آگاہ شخص کی خدمات کا اہتمام۔ پھر گھر سے نکلتے ہوئے اپنے عم زاد اور جاں نثار صحابی، حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر سلانے کا اہتمام تاکہ دیکھنے والے سمجھیں کہ آپؐ ابھی بستر پر ہی ہیں۔ وہاں سے چلے جانے کے بعد امانتوں کی ادایگی کا حکم۔ سفراگرچہ شمال کی جانب کرنا تھا، لیکن مکہ سے نکلے تو رخ جنوب کی طرف تھا، نقوش پا بھی اسی جانب لے جا رہے تھے۔ فوراً ہی اصل سفر شروع کردینے کے بجاے غارِ ثور میں قیام۔ اس قیام کے لیے بھی ایسے پہاڑ اور ایسے غار کا انتخاب کہ دشوار گزار ہونے کی وجہ سے کسی کا دھیان ہی ادھر نہ جائے۔ وہاں قیام کے دوران بھی اہل مکہ کی نقل و حرکت سے آگاہی کے لیے پسرِ صدیقؓ کی ڈیوٹی کہ وہ روزانہ آکر خبریں پہنچانے کا اہتمام کریں۔ بنتِ صدیقؓ کی ذمہ داری لگی کہ وہ کھانا پہنچائے اور غلامِ صدیقؓ کی ذمہ داری یہ تھی کہ بکریاں چرانے وہاں آئے، تاکہ ان سے دودھ بھی حاصل کیا جاسکے اور پھر ریوڑ واپس جائے تو غار کی طرف آنے جانے والے قدموں کے تمام نشانات ختم ہوجائیں۔ غار ثور سے اس وقت کوچ کیا جب مشرکین مکہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر آپؐ کو راستے میں بھی اگر کوئی ملا، تو اسے اپنا تعارف نہ کروایا۔ یار غار سے ایک راہگیر نے پوچھ ہی لیا کہ یہ ساتھ کون ہے تو انھوں نے کہا:ھاد یہدینی، رہنما ہے مجھے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ کون سی انسانی کوشش رہ گئی کہ جس کا آپؐ نے اہتمام نہ کیا ہو؟ حالانکہ آپؐ تو سید الانبیا اور محبوبِ خدا تھے۔ اللہ کی طرف سے آپ کو یثرب ہجرت کرجانے کا حکم مل جانے کے بعد آپ مکہ سے رخصت ہوئے تھے ۔ منزل پر پہنچ جانے کا یقین اس حد تک پختہ تھا کہ دشمن سر پر پہنچ جانے کے بعد بھی یارِ غار کو ان الفاظ میں تسلی دی کہ ’’ان دو کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ لا تحزن ان اللّٰہ معنا، پریشان نہ ہوں، اللہ یقینا ہمارے ساتھ ہے۔ لیکن اس یقین و اعتماد نے احتیاطی تدابیر کے ادنیٰ سے ادنیٰ جز و کو بھی چھوڑ دینے کا خیال پیدا نہ کیا۔
اس نبوی انتظام و اہتمام کی روشنی میں ہم اہل پاکستان بھی قوم، افراد، عوام اور حکومت کی حیثیت سے اپنا اپنا جائزہ لیں، ہم نے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ ٹھیک ہے اس پیمانے کا سیلاب اور اس درجے کی آزمایش پہلے کبھی نہیں آئی، لیکن کسی نہ کسی سطح پر سیلاب اور بارشوں کا سامنا تو ہمیں تقریبا ہر سال کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں توانائی کا بحران روز بروز سنگین ہورہا ہے۔ پانی کی کمیابی چیلنج کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ہر سال بارشوں کے پانی ہی کو سنبھال لینے سے تینوں بحران ٹالے جاسکتے ہیں۔ توانائی و پانی کے حصول اور سیلاب و طوفان سے بچاؤ کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں تو مسئلہ اپنی اپنی ڈفلی بجانے کا بھی ہے ۔۔ کالا باغ ڈیم ہر قیمت پر بنائیں گے--- کالاباغ ڈیم ہماری لاشوں پر ہی تعمیر ہوسکے گا۔ ڈیم بنے گا تو سندھ بنجر ہوجائے گا--- ڈیم بنے گا تو پنجاب--- غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن اب حالیہ سیلاب نے تینوں بلکہ چاروں صوبوں کو یکساں کردیا ہے۔ اگر اپنی آیندہ نسلوں کو بھی یونہی ڈبو کر ہلاک کردینے کا ارادہ نہیں ہے، تو ہمیں ایک قومی اتفاق راے کے ذریعے ضرور ایک جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ سب اختلافات کو بھلا کر جسد واحد کی طرح کام کرنا ہوگا۔ آج کی سائنسی ترقی تو سمندر کے کڑوے پانی سے فصلیں اگا رہی ہے، گوبر اور کوڑے کرکٹ سے بجلی حاصل کررہی ہے، خلا میں چہل قدمی کررہی ہے، چاند کی سیاحت شروع کرنے جارہی ہے، زیر زمین ترقی یافتہ شہر اور ناقابل تسخیر قلعے تعمیر کررہی ہے۔ جاپان جیسے زلزلہ بار ملک میں آواز سے تیز رفتار ٹرینیں چل رہی ہیں اور زیرِزمین بھی ٹرینوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ وہاں تقریباً ہرسال زلزلے آنے کے باوجود پورے ملک میں فلک بوس عمارتیں تعمیر کررہی ہے۔ یہ سائنسی علوم ہمیں قدرتی آفات سے نجات کیوں نہیں دلاسکتے، معلّمِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں تو علم و حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے، جہاں سے بھی ملے وہ اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ آخر جاپان بھی تو وہی ملک ہے جہاں اب تک کی انسانی تاریخ کا اکلوتا ایٹمی حملہ ہوا تھا، اور پورے کے پورے شہر راکھ کا ڈھیر اور لاکھوں انسان قبرستان میں بدل گئے تھے۔
راکھ سے افلاک تک پہنچنے کے لیے، کوئی بھی قوم اگر ایک قوم کی حیثیت سے جینے کا فیصلہ کرلے، خود کو ان تھک محنت کا خوگر بنا لے، ایمان داری کو شعار بنا لے ، سب باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال دے، تو یقینا دنیا کے سامنے کامیابی کے نئے معیار قائم کیے جاسکتے ہیں۔ کامیابی کے لیے درکار ان رہنما اصولوں میں سے آخر کون سی بات ایسی ہے جس کی جانب قرآن کریم اور سنت نبویؐ نے رہنمائی نہ کردی ہو؟۔ ایک لفظ ’جہاد‘ ہی ان تمام مطلوبہ صفات کا احاطہ کرلیتا ہے۔ جہاد ہی نے میدان بدر میں صفوں کو ترتیب دیا اور پانی کا کنٹرول سنبھالا۔ جہاد ہی نے میدان احد میں لشکر کی پشت میں واقع ٹیلوں کی نگہبانی کروائی۔ جہاد ہی نے عالم عرب میں پہلی بار مدینہ کو طویل و عریض خندق کے ذریعے محفوظ کروایا۔ جہاد ہی نے صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے موقع پر عفو و درگزر اور اپنی راے کی قربانی کو حقیقت میں ڈھالا۔ جہاد ہی نے مال و دولت کی محبت کو دلوں سے یوں کھرچ دیا کہ مسجد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحن میں مال و اسباب کے ڈھیر لگ گئے۔ آج بھی پوری قوم کو ایمان اور جذبۂ جہاد سے سرشار کردینے کی ضرورت ہے۔ تعمیری جہاد، تعلیمی و علمی جہاد، ذاتی شہرت و اقتدار سے نجات کا جہاد، خدمت، ایثار اور ایمان داری کا جہاد، حقیقی دشمن کو پہچانتے ہوئے، پوری قوم کو ایک کنبہ اور ایک گھرانا بناتے ہوئے وحدت و اتحاد کا جہاد۔ دیر تو صرف ارادے اور آغاز عمل کی ہے۔ آئیے ہم میں سے ہر شخص ایک ایک فرد کے دل میں عمل کی شمع روشن کرنے کا آغاز کردے۔ قطرے قطرے سے دریا اور ایک ایک شمع روشن کرنے سے یقینا روشن و تاب ناک کہکشاں ترتیب پاجائے گی۔