ستمبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

مکّی عہد میں اسلامی احکام کا ارتقا

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | ستمبر ۲۰۱۰ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

اسلامی تاریخ اور سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانی تقسیم کے لحاظ سے مکّی اور مدنی ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے اور عموماً یہ خیال پایا جاتا ہے کہ مکّی دورِ عقیدہ سے متعلق تعلیمات و ہدایت سے تعلق رکھتا ہے اور مدنی دور میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی تعلیمات نازل ہوئیں۔ یہ تصور نہ صرف عام افراد میں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہلِ علم میں بھی بڑی حد تک ایک حتمی شکل اختیار کرگیا ہے اور سمجھ لیا گیا ہے کہ مکّی دور عبادت، تزکیۂ نفس اور تعمیرِ شخصیت و کردار سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ مدنی دور میں سماجی معاشرتی، سیاسی اور بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے ہدایات دی گئیں، بالخصوص حدود و تعزیرات کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ان کی تعلیم و نفاذ صرف مدنی دور ہی میں ہوا۔

دیکھا جائے تو اسلام کی دعوت کا نقطۂ آغاز توحید ہے اور توحید نہ صرف توحید ذات ہے بلکہ توحید صفات اس کا لازمی حصہ ہے اور یہی مفہوم توحید تمام انبیاے کرام کی دعوت کی بنیاد تھا کہ ’’اللہ کے بندے بنو اور ہرقسم کے طاغوت سے کنارہ کش ہوجائو‘‘۔ اگر مسئلہ عقیدہ و عبادت کے حوالے سے چند مختلف تصورات کا ہوتا تو اہلِ مکہ کو اسلام سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔ انھوں نے جہاں ۳۶۵ خدائوں کے لیے اپنے دل میں جگہ بنا رکھی تھی وہاں ایک اللہ کے اضافے سے کون سی     تنگی ٔ داماں پیدا ہوجاتی۔ جس حرمِ کعبہ میں عرب کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے افراد اپنی اپنی  سمجھ کے مطابق عبادت ادا کر رہے تھے، اس میں مسلمانوں کے طرز کی عبادت وہ صلوٰۃ ہو یا اعتکاف اور قیام و قعود، اس کی ادایگی سے ان کے خدائوں کی ریاست میں کوئی انقلاب برپا نہ ہوتا۔

اہلِ مکہ، قریش اور مشرکینِ قبائل کو اچھی طرح علم تھا کہ اگر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی توحید ذات اور توحید صفات کو تسلیم کرلیا گیا تو پھر ان کی معاشرت، معیشت اور سیاست کی جاہلی بنیادیں، عصبیتیں، تعصبات و ترجیحات میں بنیادی تبدیلی آجائے گی۔ وہ جو سود پر تجارت کرتے تھے، جن کی اخلاقیات جنسی اباحیت پر مبنی تھیں اور جو قبائلی برتری کی بناپر کم تر قبائل کو اعلیٰ مناصب کے لیے نااہل سمجھتے تھے، بخوبی جانتے تھے کہ اسلامی اخوت و عدالت کے پیش نظر اپنی ماضی کی روایات اور آباو اجداد کے طریقوں، تبرجاتِ جاہلیہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ یہ سودا ان کے لیے بہت آسان نہ تھا۔

اس لیے مکّی دور میں دعوتِ اسلامی کے آغاز ہی سے اہلِ مکہ اور اہلِ عرب کے سامنے یہ بات واضح تھی کہ یہ ایک دعوتِ انقلاب ہے۔ ماضی کی روایات، تصورات اور تعصبات کی جگہ ایک نئے تصورِ حیات کے اپنانے کا شعوری فیصلہ ہے،اور اس بنا پر انھوں نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو حق و صداقت پر مبنی ماننے کے باوجود اس کا کفر و انکار کیا اور اپنے بہت سے خدائوں سے اپنا رشتہ توڑ کر اللہ وحدہٗ لاشریک کی حاکمیت اعلیٰ کے اختیار کرنے میں تذبذب اور تجاہل سے کام لیا۔

اس حوالے سے غور کرنے کا ایک اہم زاویہ یہ بھی ہے کہ اگر اسلام مجموعی تبدیلی اور اللہ کی بندگی میں کُلّی طور پر داخل ہونے کا نام ہے تو کیا ۱۳ سال کے عرصے میں محض عبادات کی حد تک اللہ کی بندگی ہونی چاہیے تھی، یا عبادات کے ذریعے جس عبدیت کا حصول مطلوب تھا، اُس عبدیت کا اظہار معاملات میں بھی ہونا چاہیے تھا۔ کیا مکّی دور محض نظری تعلیم کا دور تھا اور مدنی دور میں وہ تجربہ گاہ حاصل ہوئی جہاں اس نظری سرمایے کو آزمایا جائے، یا جن جن معاملات میں مکّہ کی تجربہ گاہ میں گنجایش تھی ان کو بلاتفریق نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، اور آخرکار مدنی دور میں وہ مکمل معاشرہ وجود میں آیا، جس کی ابتدا اور بنیاد مکّی دور میں رکھی جاچکی تھی۔

زیرنظر کتاب اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ ہم نے جس تصورِ تاریخ کا ذکر اُوپر کیا ہے، یہ بڑی حد تک اس کی تائید میں اہم تاریخی جواز فراہم کرتی ہے۔ گو کتاب خالص علمی زاویے سے لکھی گئی ہے لیکن تحریکی ذہن اور تحریکی فکر رکھنے والے افراد کے لیے اس میں غور کرنے کے لیے بہت اہم مواد ہے۔ تحریکاتِ اسلامی جو انقلابی تبدیلی لانا چاہتی ہیں اور جس میں نظریاتی طور پر بعض اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ ابھی تو مکّی دور سے گزرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد مدنی دور کا مرحلہ آئے گا___ کتاب میں فراہم کردہ مواد اس مفروضے پر نئے سرے سے غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

میرے مطالعہ تاریخ میں آغاز سے اس فکر کا بڑا دخل رہا ہے اور میں تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کسی ایسی مضبوط حدبندی کا قائل کبھی نہیں رہا جس میں مکّی دور مدنی دور سے مکمل طور پر مختلف ہو۔ بعض خصوصیات میں فرق کے باوجود دونوں اَدور میں ایک منطقی تسلسل اور اندرونی ربط پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی مکّی اور مدنی سورتوں میں بھی ایسی حدِفاصل کھینچنا جو ان کو مکمل طور پر دو الگ انواع بنا دے، درست طرزِفکر نہیں ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کے مکّی ہونے کے باوجود اس میں اسلامی ریاست کے وجود کی دلیل واضح الفاظ میں پائی جاتی ہے۔ جب خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا تعلیم کی جاتی ہے کہ: اے میرے رب! مجھے سچائی کے ساتھ اس شہر سے نکال اور سچائی کے ساتھ داخل کر اور سُلطہ (اقتدار) کو میرا مددگار بنادے۔ یہاں مقصود کسی تفصیل میں جانا نہیں ہے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ مکہ اور مدینہ دو قطعی منقسم حوالے نہیں ہیں۔ ان میں ایک فکری اور عملی ربط ہے، کیونکہ اسلام روزِ اوّل سے جامع و شامل نظام بن کر آیا۔ عملاً ایسا نہیں ہوا کہ پہلے فلسفہ اور فکری نقشہ بناکر پیش کیا گیا ہو اور پھر اسے عملاً نافذ کیا گیا ہو۔ بہت سے عملی مسائل مکّی دور میں حل کیے جا چکے تھے اور بہت سی اصلاحات کا آغاز مکّی دور میں ہوچکا تھا، جن کی تکمیل مدنی دور میں ہوئی۔

اس حوالے سے ڈاکٹر یاسین مظہرصدیقی نے جو تحقیقی مواد یک جا کیا ہے، وہ غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ معاملاتِ تجارت و معیشت کے باب میں (ص ۳۸۱-۴۱۰) مصنف نے اصول و احکام تجارت میں بیع، شراکت و ندیمی (دو حضرات کا ایک دوسرے کا تجارتی ساتھی ہونا)، اور مضاربت کے حوالے سے حیاتِ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عرب میں مروجہ طریقوں سے بحث کی ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مکّی اور مدنی دور میں مضاربت اور مشارکت کے اسلامی اصولوں میں عدل و انصاف کے اصول کس طرح اختیار کیے گئے۔ تجارتی معاہدوں اور دارالاسلام اور دارالحرب میں تجارتی روابط کا قاعدہ و کلیہ بھی مکّی دور میں وجود میں آچکا تھا (ص ۳۹۹)۔ اُجرت اور اجیر کے احکام کے حوالے سے مکّی دور سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ بکریوں کے چرانے کا معاوضہ کس طرح متعین کیا جائے (ص ۴۰۶)۔

اسلام معاشرت و معیشت و سیاست کی بنیاد جن اصولوں پر ہے ان میں عدل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا (الانعام ۶:۱۵۲) کا اصول سورئہ نحل میں مزید واضح کر دیا گیا کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ (۱۶:۹۰)، یعنی اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے۔ اس عدل کی عملی شکل ناپ تول میں کمی نہ کرنا اور پیمانوں کا صحیح طور پر استعمال کرنا مکّی آیات میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ سورئہ انعام میں وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ (۶:۱۵۲) اور   سورئہ اعراف (۷:۸۵) میں فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ… یا سورئہ بنی اسرائیل (۱۷:۳۵) میں وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ…یا سورئہ ہود (۱۱:۸۴-۸۵) میں ’’اور نہ گھٹائو ماپ اور تول… اے قوم پورا کرو ماپ اور تول انصاف سے‘‘___ان آیاتِ مبارکہ میں مکّی دور میں ہی مسلمانوں اور غیرمسلموں کو اسلامی معیشت سے آداب و احکام سے آگاہ کرنے کے ساتھ حُرمت بیان کر دی گئی۔ احسان کا حکم بھی مکّی دور ہی میں نازل ہوگیا۔ ھَلْ جَزَآئُ الْاِِحْسَانِ اِِلَّا الْاِِحْسَانُ (الرحمٰن ۵۵:۶۰)

معاشرتی معاملات میں عفو و درگزر سے کام لینا (الاعراف ۷:۱۹۹) یا (تغابن ۶۴:۱۴) بھلائی کے ذریعے برائی کو دُور کرنا۔ الاعراف:۹۵اور الشوریٰ:۴۰، عہد کا پورا کرنا (نحل ۱۶:۹۱) امانت کی اہمیت اور احکام الاعراف:۱۸، الشعرائ: ۱۰۷، ۱۲۵، ۱۴۳، ۱۶۲، ۱۷۸، یا الدخان:۱۸ وغیرہ میں ان پہلوئوں کو واضح اور قطعی شکل دے دی گئی۔ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک بھی مکّی آیات میں بہت اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ الانعام (۶:۱۵۲)، بنی اسرائیل (۱۷:۲۳)، الاحقاف (۴۶:۱۵) اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مساکین کے حقوق الماعون میں کھول کر بیان کردیے گئے۔ یتیموں کے ساتھ بھلائی کے برتائو کے حوالے سے الفجر (۸۹:۱۷-۱۸) میں تاکید کی گئی کہ اہلِ مکّہ اور قریش یتیم کی عزت نہیں کرتے اور محتاج کو کھانا نہیں کھلاتے۔

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے الضحیٰ میں اشارہ کیا گیا کہ صاحب ِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ماننے والے کس طرح یتیم کے ساتھ پیش آئیں۔ سورئہ دہر (۷۶:۵) میں محتاج اور بن باپ کے لڑکے کو کھانا کھلانے کی ترغیب و تعلیم دی گئی۔ سائل و محروم کے حقوق کا تعین بھی کر دیا گیا۔ چنانچہ سورئہ ذاریات (۵۱:۱۹) میں اموال میں سائل و محروم کا حق رکھ دیا گیا۔ المعارج (۷۰:۲۴-۲۵) میں اسی بات کی توثیق و تائید کی گئی۔ مہمانوں کے حقوق کے حوالے سے سورئہ ذاریات میں حضرت ابراہیم ؑ کی ایمان داری کا واقعہ اور الحجر کی آیت۳ میں اس طرف تعلیم مکّی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسے ہی سورئہ مزمل ، آیت ۲۰ میں بیمار کی عیادت کا اصول بیان کر دیا گیا۔ شوریٰ جو اسلامی ریاست اور اصولِ حکومت کا بنیادی رکن ہے اس کی طرف بھی مکی وحی میں الشوریٰ:۳۷ میں متوجہ کر دیا گیا۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ گو آیات جہاد و قتال کی اکثریت مدنی ہے، لیکن جہاد بمعنی دفاع و مدافعت کے اصول کو مکّی دور کی شکل میں بدلہ لینے کی اجازت بلکہ حق کو تسلیم کرتے ہوئے بیان کردیا گیا۔

معاشی معاملات میں خصوصاً سود (ربو.ٰ) کے حوالے سے سورئہ روم کی آیت۳۹ میں یہ ارشاد فرماکر وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج (جو سود      تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا)  اہلِ ایمان کو مکمل طور پر تحریم کے آنے سے قبل ہی ذہناً اور عملاًیہ بات سمجھا دی کہ سود سے مکمل اجتناب کرنا توحید کے مطالبات میں سے ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس سے یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ   سود سابقہ شرایع میں بھی حرام ہی تھا۔ اس لیے بعد میں اس کی حُرمت اس سلسلۂ تعلیم و تشریع کی تکمیل کی حیثیت رکھتی ہے۔

حدیث پہ غورکیا جائے تو حدیث معراج میں جن مشاہدات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے ان میں سود، زنا، غیبت، حرام مال کھانے والوں، مال غصب کرنے والوں، سب کا تذکرہ     یہ ثابت کرتا ہے کہ مکّی دور میں ہی میں ان کی حُرمت کی طرف واضح اشارہ کر دیا گیا تھا۔

بے حیائی کے کام بالخصوص زنا کے حوالے سے سورئہ فرقان (۲۵:۶۸) اور بنی اسرائیل (۱۷:۳۲) میں کہا گیا کہ اہلِ ایمان ان سے بچتے ہیں۔ گویا حدِ زنا سے قبل بھی زنا کو حرام قرار دیا جاچکا تھا۔ ہجرت سے قبل جن اہلِ یثرب سے بیعت لی گئی اس میں بھی سرقہ، افترا، قتل، شرک کے علاوہ زنا سے اجتناب کی شرط بھی شامل تھی۔ گویا احکامِ تحریم مکی دور ہی میں آچکے تھے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے: بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب وفود الانصار)

زنا جسے قرآن کریم نے فواحش میں شامل کرتے ہوئے کبیرہ گناہ قرار دیا ہے، مکّی آیات میں بصراحت اس کی حُرمت کا ذکر پایا جاتا ہے۔ سورئہ انعام میں ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ(۶:۱۵۱) ۔ ایسے ہی الاعراف میں قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (۷:۳۳) ، یا الشوریٰ میں ہے وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ (۴۲:۳۷)، اسی طرح النجم میں اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ (۵۳:۳۲) کا واضح بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ حدِ زنا سے قبل ہی تحریم کے احکام آچکے تھے۔ لیکن چونکہ حد کے اجرا کے لیے حکومتی ادارے کی ضرورت تھی اس لیے حدود کا نفاذ مکّہ میں نہیں کیا گیا بلکہ ریاست کے قیام مدینہ منورہ میں عمل میں آیا۔

’فحشائ‘ کی اصطلاح اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مکّی دور ہی میں بڑی برائیوں کی حُرمت کا حکم آچکا تھا۔ چنانچہ سورئہ یوسف (۱۲:۲۴) میں یا النحل (۱۶:۹۰) میں یا العنکبوت (۲۹:۴۵) میں بصراحت فحش سے اجتناب کے حکم کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ احکام یکایک مدینہ میں نازل نہیں ہوئے، گو ان کی تکمیل مدینہ ہی میں ہوئی۔

قتلِ نفس کے حوالے سے بھی جو اسلام اور ماقبل کی شریعتوں میں حرام تھا مکّی آیات میں واضح احکام ملتے ہیں۔ بنی اسرائیل (۱۷:۳۳) میں ’’اور نہ مارو جان سے، حرام کیا ہے اللہ نے مگر حق پر‘‘۔ ایسے میں الفرقان (۲۵:۶۸) میں یا الانعام (۶:۱۵۲) میں واضح احکام کا نزول ہوا۔

مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گو اسلامی شریعت میں سزائوں بالخصوص حدود کے حوالے سے احکام مدینہ منورہ میں آئے، لیکن ان جرائم کا جرم ہونا اور ان سے اجتناب کرنے کا حکم مکّی دور ہی میں آچکا تھا۔ حتیٰ کہ شراب کے حوالے سے گو آیت تحریم الخمر   سورئہ مائدہ میں آئی لیکن جو اشارے پہلے کیے جا چکے تھے ان کی بنا پر اس سے اجتناب مکّی دور ہی میں شروع ہوچکا تھا۔

اسلام جس تہذیب و اخلاق کا علَم بردار ہے وہ ایک کلّی اور ہمہ گیر تہذیب و اخلاق کا    علَم بردار ہے وہ ایک کُلی اور ہمہ گیر تہذیب ہے جس میں اصل قوتِ محرکہ قانون کی گرفت نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر کا وہ ضمیر ہے جسے حدیث نبویؐ نے ’مفتی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ جب دل اپنی صحیح حالت میں ہو اور پتھر کی وہ سنگلاخ شکل اختیار نہ کر گیا ہو جو نہ لرزے نہ خوفِ الٰہی سے پھٹے تو انسان کا دل اسے کسی فحش کے ارتکاب پر نہ آمادہ کرسکتا ہے، نہ اس کی ترغیب دے سکتا ہے۔ ہاں، جب قلب    یکے بعد دیگرے گناہوں کی کثرت سے ان کا عادی بن جائے تو پھر وہ اسے صحیح فتویٰ نہیں دے سکتا۔

الغرض مکّی اور مدنی ادوار کو ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ کر کے دیکھنا حقیقت ِ واقعہ سے زیادہ مناسبت نہیں رکھتا۔ احکام کا نزول و اجرا ایک مسلسل عمل ہے جو مدینہ میں اپنی تکمیل کو پہنچا لیکن اصلاً احکام کا علم اور اسلام قبول کرنے کے عملی نتائج کا شعور و ادراک مکّی دور میں ہی ہوچکا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اہلِ مکّہ نے اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کی انقلابی تحریک کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ انھیں علم تھا کہ یہ چند نظری اصولوں یا عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ ایک دعوتِ انقلاب اور دعوت ماہیت قلبی ہے جس میں سیاسی، معاشرتی، معاشی طرزِعمل کو بدلنا ہوگا۔ اسلامی حدود کے اجرا سے قبل ان کی حُرمت اور اہلِ ایمان کے حقوق و فرائض کی وضاحت مکّی دور ہی میں ہوچکی تھی۔

کتاب میں جو مواد تحقیق کے ساتھ جمع کیا گیا ہے وہ اہلِ علم کے لیے فکری غذا فراہم کرتا ہے اور سیرت و تاریخ کے طلبہ کے لیے غیرمعمولی طور پر اہم معلومات کا حامل ہے۔ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی صاحب اس علمی کام پر شکریے کے مستحق ہیں۔


(مکّی عھدِ نبویؐ میں اسلامی احکام کا ارتقا، ڈاکٹر محمد یاسین مظہرصدیقی، ناشر: نشریات، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸۔ صفحات: ۵۹۸۔ قیمت: درج نہیں۔)