ستمبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

معاشی ترقی میں عورت کا موجودہ کردار

ارشد احمد بیگ | ستمبر ۲۰۱۰ | عالم نسواں

Responsive image Responsive image

سب سے پہلے اسلامی نقطۂ نظر سے معیشت و معاشیات کے تصورات کو سمجھنا چاہیے۔ قرآن مجید ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے: وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (المنافقون ۶۳:۷) زمین اورآسمان کے سارے کے سارے خزانے اللہ ہی کے ہیں۔ وَ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۰) زمین اورآسمانوں کی ملکیت، بادشاہت، حکمرانی، تسلط ، تصرف اور فرماں روائی سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ وَّاٰتُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ (النور۲۴:۳۳) مال سب کا سب اللہ کا ہے۔ حدیث کی معروف کتاب موطا امام مالک میں حضرت عمرؓ کا ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ المال مال اللّٰہ یعنی مال تو اللہ کا ہے۔ وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (ھود ۱۱:۶) رزق کا ذمہ بھی اللہ نے اپنے اُوپر لیا ہے۔ زمین پر ایسا کوئی   جان دار نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ وَلَکُمْ فِیْ الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ (البقرہ ۲:۳۶) ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ دنیا ایک خاص مدت کے لیے انسان کا گھر اور ٹھکانہ ہے۔

قیامت تک انسان کو یہاں پر رہنا ہے چنانچہ اسباب معیشت بھی مطلوب ہیں: وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَ (الحجر ۱۵:۲۰)’’اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمھارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو‘‘۔ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ (الذاریات ۵۱:۲۲) ’’یہ جو رزق ہے یہ زمین کے اندر بھی ہے، سمندر کے اندر بھی اور آسمان کے اندر بھی رزق کی فراوانی رکھ دی گئی‘‘۔ یہ تصور غلط ہے کہ رزق ختم ہو رہا ہے۔ وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ (الجاثیہ ۴۵:۱۳) جو رزق زمین اور آسمان میں موجود ہے کیا انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اس حوالے سے بھی رہنمائی کردی گئی کہ زمین اور آسمان بھی، لیل و نہار اور بروبحر بھی انسان کے لیے مسخر کر دیے گئے۔ الغرض جس کا رزق ہے اور جس نے اس رزق کو اپنے ذمہ لیا ہے اس نے اس کے حصول، بڑھوتری اور فراوانی کو کچھ قاعدوں اور ضابطوں سے جوڑ دیا ہے۔ رزق محدود نہیں ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ معاشی ترقی میں عورت کا موجودہ کردار اخلاقی ضابطوں سے بغاوت ہے اور اس سے کبھی بھی معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔

موجودہ معاشیات دراصل مغربی معاشیات ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید معاشیات کا آغاز اٹھارویں صدی سے ہوا اور اس کا بانی ایڈم اسمتھ ہے ۔ ۱۷۷۶ء میں ایڈم اسمتھ کی معروف کتاب The Wealth of Nation منظر عام پر آئی اور اس نے بلاشبہ دنیا پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔ چنانچہ آج مغربی معاشیات کے تحت معاشیات: l دولت کا علم ہے،ایڈم اسمتھ lمادی خوشحالی کا نام،الفریڈ مارشل lخواہشات کی کثرت کو کہتے ہیں،پروفیسر رابنس۔

گویا کہ مغربی معاشیات میں، معیشت کا تصور مادیت سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں معاشی ترقی سے مراد دنیاوی اور مادی حوالوں سے انسانی کامیابی کا حصول ہے۔ آج کی معاشی ترقی کا تصور سیکولر تصورِ جہاں میں جکڑا ہوا ہے۔ سیکولرازم خود ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں سے آزاد ایک طرز فکر کا نام ہے۔ جدید روشن خیالی کی اصطلاحِ دل پذیر بھی اسی کا ایک پہلو ہے۔ جس میں نفس کی خواہشات کا حصول ہے، خواہ وہ فی نفسہ اخلاقی ضابطوں سے باہر ہو اور چاہے اخلاقی ضابطوں کو توڑ کر اس کا حصول ممکن بنایا گیا ہو۔

اس طرزِ فکر میں معاشی ترقی کو جانچنے کا ایک معیار جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) ہے۔   ایک خاص حسابی فارمولوں کی مدد سے اسے وضع کرتے ہیں توفی کس آمدنی (per capita) نکل آتا ہے۔ یہ ایک الگ اصطلاح ہوگئی۔ اسی طرح قوام متحدہ نے انسانی ترقی کا اشاریہ مرتب کیا ہے۔ اسے ’انسانی ترقی کا پیمانہ‘ کہتے ہیں۔

اس لفظ ’ترقی‘ کے مقابلے میں اسلام ’فلاح‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، جس میں مادی آسایش اور روحانی آسودگی دونوں شامل ہیں۔ اسلام مادی آسایش کی نفی نہیں کرتا۔ وہ دنیاوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، بلکہ ایک متوازن طرزِ حیات اور اجتماعی نظامِ عدل کی تشکیل میں اسے ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے لیے ایک اخلاقی ضابطہ مقرر کرتا ہے، یعنی انسانی فلاح، مقاصد شریعت میں سے ہے۔ گویا الٰہامی تعلیمات کے مطابق اخلاقی ضابطے متعین کیے جائیں اور ان اخلاقی ضابطوں کے تحت معاشی سرگرمیاں سر انجام دی جائیں، تو مادی آسایش اور روحانی آسودگی دونوں کا حصول ممکن ہے۔ یہی اصل اور مطلوب ترقی ہے۔

یہاں پر قرآن مجید کا ایک اہم کلیہ اور قاعدہ پیش خدمت ہے: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴)، یعنی جو کوئی ہمارے ذکر سے منہ موڑے گا، بغاوت کرے گا، ضابطوں کو توڑے گا اس کی معیشت تنگ کردی جائے گی۔ ترقی، آسودگی، رزق کی کمی ہوجائے گی۔ یہ ایک اخلاقی ضابطہ ہے۔ اس ضابطے سے رو گردانی کرکے عورت کے موجودہ کردار کو متعین کیا گیا ہے۔ اس کردار کے ساتھ کیا یورپ میں آسودگی آئی ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔ معاشرے میں اخلاقی بحران کیوں آرہا ہے؟ قدریں کیوں پامال اور بے حیائی کیوں عام ہورہی ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عورت کے اس کردار کو جو وہ معاشی جدوجہد کے عنوان سے کر رہی ہے اور اگر اس سے اخلاقی ضابطے ٹوٹ رہے ہیں تو کبھی بھی معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔

عورت کے نئے کردار کے تعین میں تھامس مالتھس کے نظریات کا بھی عمل دخل ہے۔ مالتھس نے تحدید آبادی کا نظریہ پیش کیا۔ اس نے عقلی دلائل کی بنیاد پر، شماریات اور ریاضی کے فارمولوں کے تحت آبادی کے بڑھنے کو انسانیت کے لیے زبردست خطرہ قرار دیا۔ اس نے دنیا کے سامنے ایک سوالیہ نشان بنا ڈالا کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور قدرتی وسائل کم ہو رہے ہیں۔ ہم غور کریں تو یہ اللہ کی رزاقیت سے انکار کا نظریہ تھا۔ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کا مالک، کنجیوں کا مالک، میراث کا مالک تو اللہ ہے۔ اس نے رزق کا معاملہ اپنے ذمہ لیا ہے۔ اسباب معیشت لا محدود ہیں لیکن تھامس مالتھس کا نظریہ اس کے برعکس تھا، جس نے ایک زبردست اخلاقی بحران کو جنم دیا۔ آبادی کو کم کرنے کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کیے گئے اس سے اخلاقی ضابطے ٹوٹے اور معاشرے میں انتشار پیدا ہوا۔ معروف مصنفہ الزبتھ لیاگن نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ گذشتہ دو صدیوں میں یورپ اور امریکا کی ترقی، اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کی مرہون منت ہے۔ اُس وقت شرح پیدایش آج کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ یہی تجزیہ فرانس اور جاپان کے مطالعاتِ آبادی کے اداروں نے بھی پیش کیا۔ یہاں تک کہ سی آئی اے نے اپنی رپورٹوں میں Youth Deficit (جواں عمروں کی کمی )کی اصطلاح استعمال کی۔ ان رپورٹوں کے مطابق ۱۵سے ۲۴سال کی عمر کے افراد کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ امریکا اور یورپ میں اس عمر کے نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔یہ سمجھا گیا کہ معاشی ترقی کے لیے آبادی کم کیجیے۔ اس سوچ نے عورت کے کردار کی تعریف نو کی۔ اب عورت کے اس کردارِ حیات کا بچوں کی پیدایش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عورت کو معاشی ترقی کی دوڑ میں شامل کر دیا گیا۔

  • عورت کا کردار: دو باتیں سمجھ لیجیے۔ ایک تو یہ کہ معاشی ترقی میں عورت کا کردار انتہائی اہم، ناگزیر اور فعال ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ کردار پس پردہ ہے ۔ معاشی ترقی میں عورت کی شرکت اور اس سے بڑھ کر اس کے حصے کا مطلب یہ لیا گیا کہ عورت گھر سے باہر نکلے اور ملازمت کرے۔ گویا عورت کی ملازمت معاشی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھی گئی۔ خود امریکا میں مردوں کی ملازمت کی شرح ۷۵ فی صد سے گھٹ کر ۵۵/۶۰ فی صد ہو رہی ہے اور عورتوں کی شرح ملازمت بڑھ کر ۵۰ فی صد سے زیادہ ہو رہی ہے۔ گویا جس مالی ذمہ داری سے اسلام نے عورت کو بری الذمہ رکھا تھا، مغرب نے اس بوجھ کو عورت پر لاد دیا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وہاں بھی میاں بیوی یا جو بھی پارٹنرز ہیں ، آٹھ دس گھنٹوں کی ملازمت کے بعد جب گھر پہنچتے ہیں تو گھریلو امور کی جتنی کچھ بھی انجام دہی کرنی ہو، وہ اسی عورت سے توقع کی جاتی ہے، جو خود بھی کئی گھنٹوں کی تھکا دینے والی ملازمت کرکے گھر لوٹتی ہے۔

دیکھیے مرد گھر سے نکلے اور ملازمت اختیار کرے تو کچھ نہ کچھ مسائل حل ہوتے ہیں، لیکن جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو اصل میں ہمہ جہت مسائل کا آغاز ہوتا ہے۔ مغرب، خاتون خانہ کو Stay at home Ladies کا عنوان دیتا ہے۔ اس طرح وہ برسرِروزگار عورت کی تعریف پر پوری نہیں اترتی خواہ وہ گھر میں کتنا ہی کام کرتی ہو اور گھر والوں کی خدمت میں چاہے کتنا ہی مصروف رہتی ہو، لیکن اس کا معاشی ترقی میں کوئی کردار تصور نہیں کیا جاتا۔ بظاہر اقتصادی ترقی اور معاشی سرگرمیوں میں اس کا براہ راست کردار نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک عورت اپنے شوہر، بھائی، بیٹوں اور والد کو اس طرح سہولت و آرام فراہم کرے کہ گھر کے یہ مرد ملکی معاشی ترقی میں احسن انداز میں کام کرتے ہیں تو کیا یہ کردار معاشی ترقی میں شمار نہیں ہونا چاہیے۔اگر ایک خاتون سلائی جانتی اور پکوان سے واقف ہے، بجٹ کے حساب سے گھر کو چلانے کی استعداد رکھتی ہے، اس طرح وہ گھر میں آسودگی اور معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ گھر معاشرے کا ایک بنیادی یونٹ ہے اس لیے اگر گھر میں ترقی ہو رہی ہے تو کیا معاشرہ ترقی نہیں کرے گا۔ یہ تصویر کا ایک ایسا رخ ہے جس پر ہمیں سوچنا چاہیے۔

اب تین اہم اصطلاحات پر غور کیجیے جنھوں نے خواتین کے نئے کردار کو متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلامی فکرو نظر رکھنے والے بعض افراد انھی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں۔اصطلاحات کی بھی اپنی نفسیات ہیں۔اِ ن کا ایک خاص پس منظر ہوتاہے۔اِن کے معانی ومفہوم علیحدہ سے متعین کرنا بعض اوقات مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہوتا ہے: lحقوق نسواں (Women Rights) lمساواتِ مرد و زن(Gender Equality) lآزادی (Liberty)۔ ان اصطلاحات سے آگاہی، ترغیب، تعلیم اور اس کے اطلاق میں اقوام متحدہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ سارے ملکوں میں اور سارے ہی معاشروں میں ایک ہی دین (Uni Religion) نافذ ہو جائے اور ایسی سماجی تشکیل کی جائے اور ان اصطلاحات کا مفہوم ویسے ہی طے کیا جائے جیسا کہ اقوام متحدہ نے بیان کیا ہے۔

چند مثالیں پیش خدمت ہیں: lحقوقِ نسواں ، ملازمت کا حق اور مواقع...... (سیڈاکنونشن۱۹۷۹ئ): زندگی کے تمام میدانوں میں خواتین کے مردوں کے ساتھ یکساں حقوق کی ضمانت، جن میں تعلیم اور روزگار شامل ہیں۔ lحقوقِ نسواں ...... (ویاناکانفرنس ۱۹۹۳ئ): خواتین کے انسانی حقوق۔ lجنسی معاملات ...... (قاہرہ کانفرنس ۱۹۹۴ئ): ہر دو اصناف کے صنفی تعلقات، جن میں عورتوں اور مردوں کو اپنی جنسی زندگی کی تنظیم کا آزادانہ حق حاصل ہو، اور اس ضمن میں عورت کو طرزِزندگی کی تبدیلی میں کلیدی کردار حاصل ہو۔

  • معاشی آزادی، خود مختاری ، معاشی ترقی ...... (بیجنگ اعلامیہ): عورتوں کی معاشی خود اختیاری اور معاشی آزادی کو محفوظ بنانے کے لیے، عورتوں کے لیے ملازمت کے تمام مواقع فراہم کرنا۔

اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ان تجاویزاور سفارشات اور اصطلاحات کے پیچھے بہت سے افراد اور تنظیمیں مخلص بھی ہوں اور خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ خواتین کی بہبود کے لیے کام کررہی ہوں۔ لیکن اس ضمن میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کی فلاح کے لیے جس راستے کا انتخاب انھوں نے کیا ہے وہ بجاے خود بگاڑ کا راستہ ہے، اور اب تک کے حقائق اس کی تائید کر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ الہامی تعلیمات کے بغیر ان کی کوئی تشریح ممکن نہیں ہے اور نہ کوئی ماڈل قابل عمل ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی قانون، آئین، ملک، نظریہ مرد اور عورت (میاں بیوی) کے درمیان انصاف اورعدل پر مبنی تعلقات، حقوق و فرائض اور توازن کو بیان نہیں کرسکتا۔

مذکورہ بالا تین اصطلاحات میں سے یہاں پر صرف مرد اور عورت کی برابری (Gender Equality)کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ تصور کیا گیا کہ عورت بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے، وہی کام کرے اور ویسا ہی کام کریں جیسا کہ مرد کرتے ہیں۔ مرد وزن کی برابری کا مطلب یہ لیا گیا کہ وہ:

  • ٹریفک وارڈن بن جائیں اور ٹریفک کے روانی کو کنٹرول کریں(پچھلے دنوں اسلام آباد میں دیکھاکہ ۴۳، ۴۴ڈگری گرمی کی شدت میں خواتین ٹریفک وارڈن کی حیثیت سے ڈیوٹی انجام دیتی رہی ہیں۔ سخت دھوپ میں وہ بیچاری خو د ہی ہلکان ہورہی تھیں۔ کجا یہ کہ ٹریفک کی روانی کو قابو میں کرتیں)۔ l جہاز اڑائیں lپیٹرول پمپ پر فیول بھریں lفاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں ملازمت کریں lمساج ہائوس یا مراکزِ مالش میں خدمات فراہم کریں lمزار قائد پر کیڈٹ کے فرائض انجام دیں اور گھنٹوں ساکت و جامد کھڑی رہیں۔

سوال یہ ہے کہ عورت کے اس کردار سے کون سی معاشی ترقی ہو رہی ہے؟ حقیقی زندگی کی ایک اور عملی مثال پیش خدمت ہے۔ تپتی ہوئی دھوپ میں ۲۵ افراد بجلی کا بل جمع کرانے قطار میں کھڑے ہیں۔ ہانپتی کانپتی ایک خاتون آتی ہیں۔ مرد وزن کی برابری کے قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ ۲۶ویں نمبر پر چپ چاپ قطار میں لگ جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس برابری کے نام پر عورت کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔ جو کام اس کے بس میں نہیں، جس کی وہ مکلف نہیں ہے، جس کے لیے اس کی حیاتیاتی اور جسمانی ساخت ہی موزوں نہیں ہے، ایسے کاموں کو اس کے ذمے لگا دینا سراسر ظلم ہے۔ شیطان نے ایسا غافل کر دیا کہ یہ اپنے استحصال سے خود بھی واقف نہیں ہے۔

استحصال کی ایک اور چھوٹی سی مثال ملاحظہ فرمائیے۔ پوری دنیا میں مردوں کے لیے جوتوں کے نت نئے ڈیزائن ان کے آرام اور سہولت کو دیکھتے ہوئے تیار کیے جا رہے ہیں۔ ڈرائیونگ کے لیے علیحدہ جوتا، ساحل سمندر پہ چہل قدمی کے لیے الگ سلیپر، دفاتر میں پہننے کے لیے علیحدہ ڈیزائن، اگر بلڈ پریشر ہے تو علیحدہ جوتا وغیرہ وغیرہ۔ اس کام کے لیے باقاعدہ آرتھوپیڈک ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ پیروں کی ساخت اور ہڈیوں کی بناوٹ کے لحاظ سے جوتوں کے ڈیزائن تیار کیے جاتے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ آرام اور سہولت مہیا کی جا سکے۔ کن کو؟ صرف مردوں کو۔ اسی حوالے سے عورتوں کے آرام وسہولت کا کیا معاملہ ہے؟ یہ عورتوں کے سینڈل کون اور کس مقصد کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں؟

اگر ترقی کی اس دوڑ میں عورت اپنا کردار پس پردہ طے کرلے تو کیا شرح ملازمت میں کمی آجائے گی؟ نہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ فیشن کی چکاچوند، دنیا میں ماند پڑ جائے گی۔ بیوٹی فی کیشن کی رنگین دنیا پھیکی ہو جائے گی۔ ۱۰؍ ارب ڈالر کی یہ آرایش حُسن کی صنعت جس کا غالب حصہ شیطان اور اس کے ایجنٹوں کی جیب میں چلا جاتا ہے، سرد ہو جائے گی۔ اگر معاشی ترقی میں عورت اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ کام انجام دینے کا بیڑا اٹھائے تو یہ شیطان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے مترادف ہوگا۔ اس میں ایک اہم بات نوٹ کرلیجیے کہ خاتون کی گھر واپسی بہت مشکل ہوگی۔ اس معاشی دوڑ میں عورت آگے جاتے جاتے اپنے غلط کاموں کو منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جائز کے بعد اسفل سے اسفل کردار لیکن خوش نما انداز میں اور دل فریب اصطلاحات کے پردوں میں اپنی جگہ بناتی چلی جاتی ہے۔ پہلے جسم فروش (prostitutes) اور فاحشہ کی اصطلاح عام تھی،  ایک بُری اور گندی اصطلاح، جس میں فرد کا کردار بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ پھر اقوام متحدہ نے   اپنی چھتری تلے اس اصطلاح کو اعزاز بخشا اور اسے ’سیکس ورکر‘ یا جنسی کارکن کا نیا عنوان دیا۔   اب جس طرح ایک خاتون محنت مزدوری کرتی ہے اور اپنا پیٹ پالتی ہے، کہا گیا کہ اسی طرح یہ بھی محنت مزدوری کرتی ہے، یہ بھی ورکر ہے۔ بس سیکس ورکر ہے تو کیا ہوا؟

مختلف کمپنیاں اپنی اشتہاری مہمات کے لیے عورتوں اور اپنی ملازم خواتین سے وہ کام لیتی ہیں کہ درندے بھی شرما جائیں۔ اِِنْ ھُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْــلًاo (الفرقان ۲۵:۴۴) ، ’’یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔ مگر یہ سب انھوں نے کیوںکیا؟ اس لیے کہ یہ بقا کی اور مارکیٹ کی جنگ ہے، ملازمت کا مسئلہ ہے، مارکیٹنگ مقابلے کا طریق کار ہے۔ اسی لیے عرض ہے کہ گھر واپسی تو کیا ہوگی،ملازمت کی مجبوری اور تشخص کی بحالی کے نام پر ان حدوں تک اس عورت کو لے جایا جارہا ہے کہ الامان والحفیظ، بلکہ اس کے ساتھ عورت کو یوں گلیمرائز یا بناسنوار کر پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ عورت کے بجاے ایک کھلونا معلوم ہوتی ہے۔

  • اثـرات: آزادی اور مرد وزن کی برابری کے عنوان سے جب یہ عورت مجبوراً یا شوقیہ معاشی ترقی کی دوڑ میں گھر سے باہر نکلی تو اخلاقی نظام منہدم ہوا۔ کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ شریف گھرانوں کی لڑکیاں ہاتھ میں بیگ اٹھائے، رات کے اوقات میں سپر اسٹورز کے دورے کریں گی، ڈاکٹروں سے ملاقاتیں ہوں گی، میڈیکل اسٹور اور فارمیسی میں دوائوں کے آرڈر حاصل کریں گی، اور رات گئے گھر واپس ہوںگی۔ کیا اس سے اخلاقی بحران نہیں پیدا ہو رہا؟ پچھلے دنوں ایک نوجوان لڑکی کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ ایک معروف فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں ویٹرس کی حیثیت میں جاب کرتی ہے۔ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اور وہ ایک پسماندہ علاقے میں رہتی ہے۔ اب یہ لڑکی جینز اور شرٹ پہنے چھوٹے سے محلے کے کچے سے مکان سے نکل کر جاب پر جاتی ہے۔ جہاں سر سے دوپٹہ سرک جائے تو گھر کے بڑے توجہ دلاتے تھے، جہاں حجاب اختیار کرنے کی تہذیب سکھائی جاتی تھی، وہاں پر اب یہ مناظر عام ہیں۔ اس طرح کے لباس کا تصور ان کے خاندان کے بزرگوں نے خواب و خیال میں نہ کیا ہوگا۔ لیکن اب رفتہ رفتہ اس تبدیلی کو قبول کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے اور پُرفریب جاب کے خوش نما اسٹیٹس کے ساتھ نوجوان لڑکیاں معاشی کردار ادا کر رہی ہیں۔ اگر یہ کام خواہ مجبوراً انجام دیے جارہے ہوں اور مہنگائی نے یہ راستہ دکھایا ہو، یہ سوال کہ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے یہاں زیربحث نہیں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کا تعلق بھی اخلاقی ضابطوں کو توڑنے سے ہے۔

ضمناً ایک بات یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کا اس میں بڑا اہم کردار ہے۔ میری نظر میں تعلیم پہلے نیشنلائز سے پرائیویٹائز ہوئی، پھر یہ کمرشلائز ہوگئی۔ اب یہ سیکولرائز سے گلیمرائز ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ اسٹیٹس اور ڈگریوں کے نام پر ہو رہا ہے۔ مخلوط تعلیم کے درجنوں ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ اگر آپ ۱۹۹۷ء سے اب تک پچھلے دس بارہ سال میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی قیام کی رفتار اور ان کے اثرات کا جائزہ لیں تو بگاڑ کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ دورانِ تعلیم ہی طالبات کو معاشی کردار ادا کرنے کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیاں سنہری پیکیجز پیش کر رہی ہیں، مگر لڑکوں پر ایسی عنایات کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ مشاہدہ ہے کہ

  • عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ ملازمت میں آئیں، مخلوط تعلیم اور مخلوط ملازمت عام ہوئی تو فیشن کا کاروبار بڑھا۔ اس سے گھر کی معیشت پر بوجھ بڑھا اور معاشرے میں مصنوعی مسابقت کا رجحان بڑھا۔ l خواتین جسمانی کمزوریوں اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ اعصابی مسائل کا شکار ہوئیں۔ lخوف و ہراس اور عدم تحفظ کے سبب نفسیاتی مسائل سامنے آئے۔

عورت کو اپنے اس موجودہ کردار سے کتنا اور کیا فائدہ ہوا؟ایک رپورٹ کی درج ذیل الفاظ خود حقیقت بیان کر رہے ہیں: دنیا کی آبادی میں عورتوں کی تعداد ۵۱ فی صد ہے۔ ان میں سے ۶۶ فی صد ملازمت کرتی ہیں، مگر ۱۰ فی صد آمدن حاصل کرتی ہیں، لیکن ایک فی صد سے بھی     کم جایداد کی مالک ہوتی ہیں۔ (اقوام متحدہ: جنوبی ایشیا ۲۱ویں عالمی کانفرنس ۲۰۰۱ئ)

  • مثالی خواتین کا مثالی کردار: قرآن و سنت میں چار خواتین کا تذکرہ علیحدہ شان سے بیان ہوا ہے:

 حضرت مریمؑ بنت عمران: وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۴۲)’’اور آپ کو چن لیا گیا دنیا کی تمام قوموں کی عورتوں میں‘‘۔ حضرت خدیجہؓ بنت خویلد : حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین پر اترے اور فرمایا کہ اللہ نے خدیجہؓ کو اپنا سلام بھیجا ہے‘‘۔

  • آسیہؑ بنت مزاحم: وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ (التحریم ۶۶:۱۱)’’اور اللہ مثال دیتا ہے ایمان لانے والوں کو فرعون کی بیوی (آسیہؑ) کی‘‘۔ m حضرت فاطمہؓ بنت محمدؐ: ’’جنت میں عورتوں کی سردار‘‘۔

ان چاروں خواتین کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ معاشی ترقی میں ان روشن مثالوں میں سے کس کا، کتنا اور کیا کردار تھا؟ ان کے کون کون سے معاشی کارنامے تھے جن کی بنیاد پر ان کو مثالی قرار دیا گیا ہے؟ اگر ہم ان چاروں خواتین سے وابستہ مردوں کی زندگی پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ کس طرح مردوں کے لیے معاون ثابت ہوئی ہیں۔ماں ، بیوی اوربیٹی کی حیثیت سے ان کا کردارکیساتھا۔ اِن اللہ کے بندوں نے اس الہامی نظام عدل کو قائم کرنے کی کوشش کی، جہاں پر عورت کو معاشی ترقی کی دوڑ سے علیحدہ رکھا گیا۔

یہاں ایک بات اور سمجھنے کی ہے کچھ افراد حضرت خدیجہؓ کی تجارتی سرگرمیوں کو بطور مثال پیش کرتے ہیں کہ: ’’یہ عظیم خاتون اور ام المومنین بھی تو تجارت کیا کرتی تھیں‘‘۔ یہاں دو باتیں ان حضرات کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ حضرت خدیجہؓ کا اپنا کاروبار تھا۔

 اسلام نے خواتین پر کوئی پابندی نہیں لگائی کہ وہ اپنا ذاتی بزنس نہ کر سکتی ہوں۔ لیکن حضرت خدیجہؓ بذات خود اپنی کاروباری مصروفیات میں گلی کوچوں، گائوں و شہر میں نہیں نکلتی تھیں، بلکہ انھوں نے اس مقصد کے لیے نبوت سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سیرت کی کتب کے مطالعے سے ان کی تجارتی سرگرمیوں میں اخلاقی قواعد و ضوابط نظر آتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں دین اسلام بحیثیت نظریۂ حیات، غالب عنصر کے  طور پر موجود ہو تو خواتین کا معاشی ترقی میں حصہ لینا اور ساتھ دینا، اخلاقی ضابطوں میں ممکن بھی ہے اور ضروری بھی، اور اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ لیکن جہاں شیطان کا راج ہو، فحاشی کے ڈیرے ہوں، ارزل و اسفل کردارعام ہوں، وہاں عورت کو معاشی جدوجہد کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے حضرت خدیجہؓ کی مثال لانا کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔

بہ ظاہر ہم جسے خوش حالی اور ترقی سمجھتے ہیں وہ سراسر دھوکا اور سراب ہے۔ سورۂ قریش  ایک خوش حال معاشرے کی پہچان بیان کرتی ہے: رزق کی فراوانی اور امن و سکون۔ عورت کے  اس موجودہ اور انجینئرڈ کردار سے ، جو معاشی ترقی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، کبھی بھی امن و سکون نہیں آسکتا۔ کبھی نہیں ۔ اگر اس کی کوئی مثال پوری انسانی تاریخ میں موجود ہو تو سامنے آنی چاہیے۔


مقالہ نگار رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، اسلام آباد میں ریسرچ فیلو ہیں۔ ویمن اینڈ فیملی کمیشن، کراچی کے  سیمی نار منعقدہ ۱۲ جون ۲۰۱۰ء میں پڑھا گیا۔