تاریخِ اسلام میں خلفاے راشدین کے بعد جس خلیفہ کا نام انتہائی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے وہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہیں جو بنواُمیہ کے ساتویں خلیفہ تھے۔ آپ کی مدت خلافت اگرچہ تین برس سے بھی کم ہے مگر اس مختصر عرصے میں آپؒ نے جو اصلاحات کیں اس سے نہ صرف پورا ملک مستفید ہوا بلکہ بعد میں بھی اس کے نہایت دُوررس نتائج برآمد ہوئے۔ خاص طور پر ملک کی اقتصادی اور معاشی پالیسی آپ نے جس نہج پر بنائی اس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ آپ نے پہلی بار اُموی خلفا کے برعکس بیت المال کو عوام کی امانت قرار دیا۔ آپ سے قبل جن خلفا اور حاکموں نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر لوگوں کی زمینوں اور املاک بزور ظلم و زیادتی قبضہ کیا ہوا تھا یا سرکاری املاک کو اپنی جاگیریں قرار دیا تھا، آپ نے ان سب کو ضبط کرلیا۔ اکثر اپنے اصل مالکوں کو لوٹا دیں جو باقی بچا اس کو سرکاری املاک قرار دے دیا۔
آپ نے ہر صوبے کی آمدن کو اس صوبے پر خرچ کرنے کی پالیسی بنائی۔ اس کے باوجود اگر رقم بچ جاتی تو وہ دارالخلافہ بھیجی جاتی تھی جہاں اس کو ضرورت کے مطابق خرچ کیا جاتا تھا۔ اس معاشی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض صوبے اس قدر آسودہ حال ہوگئے کہ صدقے کی رقم بھی مرکزی بیت المال کو بھیجی جانے لگی، جب کہ مرکز میں اخراجات میں انتہائی احتیاط برتی جاتی تھی۔ بے جا اخراجات پر سخت کنٹرول تھا جس کے سبب اخراجات خصوصاً شاہی اخراجات نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خود حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے اہل و عیال کے کھانے پینے کا یومیہ خرچہ صرف دو درہم تھا، حالانکہ خلیفہ بننے سے قبل آپ نے انتہائی پُرتعیش زندگی گزاری تھی مگر خلیفہ بننے کے بعد آپ نے سب کچھ ترک کر دیا اور رعایا کی خدمت کو اللہ تعالیٰ کی رضا قرار دیا۔
معاشی اصلاحات کے بعد آپ کا دوسرا سب سے اہم کارنامہ انصاف کی فراہمی تھا۔ انصاف کی فراہمی میں آپ نے کسی کی پروا نہ کی اور نہ کسی کو خاطر میں لائے۔ قانون کی نظر میں سب برابر تھے۔ کسی قسم کا معاشی یا خاندانی مقام و مرتبہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکتا تھا۔ جس کی وجہ سے قانون شکنی کا رجحان ختم ہوا۔ کوئی بھی غیرقانونی کام کرنے سے پہلے ہر شخص کو سو بار سوچنا پڑتا تھا، اس لیے بہت جلد ملک بھر میں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں انصاف کا بول بالا ہوگیا۔ فراہمی عدل کے سلسلے میں آپ حضرت عمرفاروقؓ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نقشِ قدم پر چلے اور تاریخ میں اَن مٹ نقوش چھوڑ گئے۔ آپ کے ان ہی اقدامات کی وجہ سے آپ کو خلفاے راشدین کے بعد پانچویں خلیفۂ راشد قرار دیا جاتا ہے۔
آپ کی اصلاحات مقتدر طبقے کو اور پھر خاص کر شاہی خاندان کے افراد کو بہت ناگوار گزر رہی تھیں۔ وہ اس روک ٹوک کے بھلا کہاں عادی تھے۔ اس لیے پسِ پردہ سازشوں کا تانا بانا بُننے لگے بالآخر آپ کے ایک غلام کو ورغلانے میں کامیاب ہوگئے جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ آپ کا سالِ وفات ۷۲۰ عیسوی ہے۔ یہاں ہم اس عظیم خلیفہ کے دسترخوان کا حال بیان کرتے ہیں جس کا تذکرہ تاریخ کی مختلف کتابوں میں جگہ جگہ ہوا ہے۔
خلافت سے قبل آپ کا طعام بھی آپ کے لباس کی طرح اچھا خاصا پُرتکلف ہوا کرتا تھا مگر خلیفہ بننے کے بعد آپ نے زہد و قناعت اختیار کی۔ تعیشات اور تکلفات کو یک سر موقوف کر دیا۔ کھانا انتہائی سادہ اور ایک سالن پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ کا معمول تھا کہ جب آپ کا کھانا تیار ہوجاتا تو کسی برتن میں ڈھک کر رکھ دیا جاتا۔ جب آپ کو کاروبارِ خلافت سے ذرا فرصت ملتی تو خود ہی اُٹھاکر اسے تناول فرماتے تھے۔
خاندانِ بنی اُمیہ میں مسلمہ بن عبدالملک سب سے زیادہ مال دار، ناز ونعمت کا دل دادہ اور کھانے پینے کے معاملے میں انتہائی فضول خرچ تھا۔ آپ کو جب اس کے کھانے پینے کے بارے میں انتہائی اسراف کا حال معلوم ہوا تو اسے صبح سویرے طلب کیا اور ظہرانے پر مدعو کیا۔ اس کے ساتھ باورچی کو ہدایت کی کہ میرا کھانا حسب ِ معمول ہوگا، جب کہ ظہرانے میں مہمان کا کھانا انتہائی پُرتکلف اور متنوع ہونا چاہیے مگر اسے تاخیر سے پیش کیا جائے۔
مسلمہ بن عبدالملک صبح سے لے کردوپہر تک کاروبارِ خلافت دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کی بھوک چمک اُٹھی مگر کھانا ابھی تیار نہ تھا۔ تاہم اس دوران حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عمداً اپنا کھانا منگوایا جو صرف مسور کی دال پر مشتمل تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’آپ کے کھانے میں ذرا دیر ہے، تاہم اگر آپ میرے ساتھ شریکِ طعام ہونا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘۔ چونکہ وہ اس وقت بھوک سے بے تاب تھے اس لیے خلیفہ کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ گئے اور خوب جی بھر کر کھایا۔ اسی وقت آپ کے اشارے پر خدام نے خصوصی کھانا لگایا تو آپ نے مسلمہ بن عبدالملک سے فرمایا کہ آپ کا کھانا تیار ہے، تناول فرمائیں۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں سیر ہوچکا ہوں۔ اب بالکل گنجایش نہیں۔ یہ سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا: اے مسلمہ! جب بھوک کے لیے صرف مسور کی دال کافی ہوسکتی ہے تو پھر اس کے لیے اتنا بے جا اسراف اور تکلفات کیوں؟ مسلمہ ذہین اور دانا آدمی تھے، فوراً بات سمجھ گئے اور انھوں نے اپنی اصلاح کرلی۔
ایک مرتبہ آپ کی پھوپھی کچھ نجی مسائل پر آپ سے صلاح مشورے کے لیے تشریف لائیں۔ اس وقت آپ دسترخوان پر بیٹھے رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ پھوپھی نے دیکھا کہ دسترخوان پر چند ایک چھوٹی چھوٹی روٹیاں، کچھ نمک اور ذرا سا زیتون کا تیل رکھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے کہا: امیرالمومنین! میں تو اپنی ایک ضرورت کے تحت آپ سے مشورہ لینے آئی تھی، مگر آپ کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اپنی ضرورت سے قبل مجھے آپ کو ایک مشورہ دینا چاہیے۔ آپ نے کہا: پھوپھی جان! فرمایئے۔ انھوں نے کہا: آپ ذرا نرم اور بہتر کھانا کھایا کریں۔ یہ سن کر آپ نے کہا: یقینا آپ کا فرمانا بجا ہے، مجھے چاہیے کہ میں ایسا ہی کروں، مگر اس کا کیا کیجیے کہ مجھے بیت المال سے سالانہ ۲۰۰ دینار کا وظیفہ ملتا ہے اور اس میں اتنی گنجایش نہیں ہوتی کہ نرم اور بہتر کھانا کھا سکوں، جب کہ پیٹ کی خاطر مقروض ہونا مجھے گوارا نہیں۔
ایک دفعہ زیان بن عبدالعزیز آپ کے پاس آئے۔ کچھ دیر تک بات چیت ہوئی۔ دورانِ گفتگو آپ نے کہا: کل رات مجھ پر بہت گراں گزری۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا، نیند بھی بہت کم آئی۔ میرا خیال ہے اس کا سبب وہ کھانا تھا جو رات کو میں نے کھایا تھا۔ زیان نے پوچھا: رات کو کیا کھایا تھا؟ آپ نے جواب دیا: مسور کی دال اور پیاز۔ اس پر زیان نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے مگر آپ نے خود ہی اپنے اُوپر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اتنی سخت پابندیاں بھی کچھ اچھی نہیں۔ آپ کو اچھا اور عمدہ کھانا لینا چاہیے۔ اس پر آپ نے تاسف بھرے لہجے میں کہا: میں نے تجھے بھائی سمجھ کر اپنا بھید تجھ پر کھولا مگر افسوس کہ میں نے تجھے اپنا خیرخواہ نہیں پایا، آیندہ محتاط رہوں گا۔
ابواسلم کہتے ہیں کہ ایک دن آپ کا ایک مہمان آیا ہوا تھا۔ آپ نے غلام کو کھانا لانے کو کہا۔ غلام کھانا لے آیا جو چند چھوٹی چھوٹی روٹیوں پر مشتمل تھا، جن پر نرم کرنے کے لیے پانی چھڑکا ہوا تھا اور ان کو روغنی بنانے کے لیے نمک اور زیتون کا تیل لگایا گیا تھا۔ رات کو جو کھانا پیش ہوا وہ دال اور کٹی ہوئی پیاز پر مشتمل تھا۔ غلام نے مہمان کو وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر امیرالمومنین کے ہاں اس کے علاوہ کوئی اور کھانا ہوتا تو وہ بھی ضرور آپ کی مہمان نوازی کے لیے دسترخوان کی زینت بنتا، مگر آج گھر میں صرف یہی کھانا پکا ہے۔ امیرالمومنین نے بھی اس کھانے سے روزہ افطار فرمایا ہے۔
آپ کا معمول تھا کہ نمازِ عشاء کے بعداپنی صاحب زادیوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور ان کی مزاج پُرسی فرماتے۔ ایک رات جب آپ بیٹی کے پاس تشریف لے گئے تو صاحب زادی نے منہ پر ہاتھ رکھا اور ذرا فاصلے پر کھڑی ہوگئیں۔ آپ کو تردّد ہوا تو خادمہ نے عرض کیا: حضور بچیوں نے ابھی کھانے میں مسور کی دال اور کچی پیاز کھائی ہے، بچی کو گوارا نہ ہوا کہ آپ کو اس کی بو محسوس ہو۔ یہ سن کر آپ رو پڑے اور فرمایا: بیٹی! تمھیں کیا یہ منظور ہوگا کہ تم انواع و اقسام کے لذیذ اور عمدہ کھانے کھائو اور اس کے بدلے میں تمھارے والد کو دوزخ ملے۔ بیٹی یہ سن کر سسک پڑی اور آپ کے گلے لگ گئی۔
مسلمہ بن عبدالملک کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نمازِ فجر کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے خلوت خانے پر حاضر ہوا جہاں کسی اور کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ اس وقت ایک لونڈی صیحانی کھجور کا تھال لائی جو آپ کو بہت پسند تھیں اور اسے رغبت سے کھاتے تھے۔ آپ نے دونوںہاتھوں سے کچھ کھجوریں اُٹھائیں اور پوچھا: مسلمہ! اگر کوئی اتنی کھجوریں کھاکر اس پر پانی پی لے تو کیا خیال ہے یہ رات تک اس کے لیے کافی ہوگا؟ میں نے عرض کیا: مجھے صحیح اندازہ نہیں، میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ کھجوریں کم تھیں۔ اس پر آپ نے کھجوروں سے اوک بھرا اور پوچھا: اب کیا خیال ہے؟ اب چونکہ مقدار زیادہ تھی اس لیے میں نے کہا: امیرالمومنین! اس سے کچھ کم مقدار بھی کافی ہوسکتی ہے۔
کچھ دیر توقف کے بعد آپ نے کہا: اگر اس قدر کھجوریں کافی ہیں تو پھر انسان اسراف کرکے اپنا پیٹ کیوں نارِ جہنم سے بھرتاہے۔ یہ سن کر میں کانپ اُٹھا اور بعد میں کھانے پینے کے معاملے میں نہایت کفایت شعاری سے کام لینے لگا۔
جب آپ کا وقت وصال آیا توآپ نے اپنے بیٹوں کو طلب کیا اور ان سے فرمایا: بچّو! میں جا رہا ہوں، میرے پاس کوئی دنیاوی مال و متاع نہیں کہ تم کو دے سکوں لیکن تمھارے لیے خیرکثیر چھوڑے جا رہا ہوں۔ تم جب کسی مسلمان یا ذمّی کے پاس سے گزرو گے، اپنے لیے عزت و احترام ہی پائوگے۔ وہ تمھارا حق پہچانے گا کہ یہ اس خلیفۂ عادل کی اولاد ہے جس نے اپنی رعایا کو سب کچھ دیا مگر اپنی اولاد کو کچھ لینے نہیں دیا۔ اللہ تمھارا حامی و نگہبان ہو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں رزق دے گا اور خوب دے گا۔
حضرت عبدالرحمن بن قاسم بن محمد ابی بکرؒ فرماتے ہیں: جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا انتقال ہوا تو ان کے گیارہ وارث تھے اور ترکہ میں کل ۱۷ دینار تھے۔ پانچ دینار کفن پر خرچ ہوئے، دو دینار میں قبر کے لیے جگہ خریدی گئی، باقی اولاد پر تقسیم ہوئے تو ہر لڑکے کے حصے میں فی کس ۱۹ درہم آئے اور جب ہشام بن عبدالملک کا انتقال ہوا اور اس کا ترکہ اس کی اولاد میں تقسیم ہوا تو ایک ایک بیٹے کے حصے میں دس دس لاکھ دینار آئے۔ بعد میں، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی اولاد میں سے ایک نے جہاد کے لیے ایک دن میں ۱۰۰ گھوڑوں کا عطیہ دیا، جب کہ ہشام بن عبدالملک کی اولاد میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس قدر تنگ دست ہوچکا تھا کہ لوگ اس بے چارے کو صدقہ و خیرات دیا کرتے تھے۔