ستمبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

قرآن اور نماز ، تعمیر سیرت کا سرچشمہ

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | ستمبر ۲۰۱۰ | حکمت مودودی

Responsive image Responsive image

قرآن کی تلاوت اور نماز قائم کرنا یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلے میں نہ صرف کھڑا رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے۔ لیکن تلاوتِ قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے، جب کہ وہ قرآن کے محض الفاظ کی تلاوت پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے، اور اس کی نماز صرف حرکاتِ بدن تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور     اس کے اخلاق و کردار کی قوتِ محرکہ بن جائے....

  • تلاوتِ قرآن: تلاوت کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ جو تلاوت آدمی کے حلق سے تجاوز کر کے اس کے دل تک نہیں پہنچتی، جیساکہ حدیث میں ایک گروہ کے متعلق آیا ہے کہ  یقرأون القراٰن ولا یجاوز حنا جرھم یمرقون من الدین مروق السھم من الرمِیّۃ، ’’وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے‘‘ (بخاری،مسلم، مؤطا)۔ درحقیقت جس تلاوت کے بعد آدمی کے ذہن و فکر اور اخلاق و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ قرآن پڑھ کر بھی آدمی وہ سب کچھ کرتا رہے جس سے قرآن منع کرتا ہے وہ ایک مومن کی تلاوت ہے ہی نہیں۔ اس کے متعلق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں: مَا اٰمن بالقراٰن من استحل محارمہ، ’’قرآن پر ایمان نہیں لایا وہ شخص جس نے اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرلیا‘‘ (ترمذی بروایت صُہَیب رومیؓ)۔ ایسی تلاوت آدمی کے نفس کی اصلاح کرنے اور اس کی روح کو تقویت دینے کے بجاے اس کو اپنے خدا کے مقابلے میں اور زیادہ ڈھیٹ اور اپنے ضمیر کے آگے اور زیادہ بے حیا بنا دیتی ہے اور اس کے اندر کیرکٹر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتی۔ کیونکہ جو شخص قرآن کو خدا کی کتاب مانے اور اسے پڑھ کر یہ معلوم بھی کرتا رہے کہ اس کے خدا نے اسے کیا ہدایات دی ہیں اور پھر اس کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتا چلا جائے، اس کا معاملہ تو اس مجرم کا سا ہے جو قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ قانون سے خوب واقف ہونے کے بعد جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔

اس پوزیشن کو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سے فقرے میں بہترین طریقے پر یوں واضح فرمایا ہے کہ القراٰن حجّۃ لک او علیک، ’’قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف‘‘ (مسلم)۔ یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے بازپُرس ہو، تو اپنی صفائی میں قرآن کو پیش کرسکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب کے مطابق کیا ہے۔ اگر تیرا عمل واقعی اس کے مطابق ہوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضیِ اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں داورِ محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہوگی۔ لیکن اگر یہ کتاب تجھے پہنچ چکی ہو، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کرلیا ہو کہ تیرا رب تجھ سے کیا چاہتا ہے، کس چیز کا تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے، اور پھر تو اس کے خلاف رویّہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے۔یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کردے گی۔ اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کرکے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گا۔(تفہیم القرآن، جلدسوم، ص ۷۰۴-۷۰۵)

[ترتیل قرآن سے مراد یہ ہے کہ] تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلامِ الٰہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں بلکہ غوروفکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا طریقہ حضرت انسؓ سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ، رحمن اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے (بخاری)۔ حضرت اُم سلمہؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ حضوؐر ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھ کر رُک جاتے، پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رُک کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے (مُسنداحمد، ابوداؤد، ترمذی)۔ دوسری ایک روایت میں حضرت اُم سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضوؐر ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے (ترمذی، نسائی)۔حضرت حُذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضوؐر کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو آپ کی قرأت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا وہاں دعامانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی)۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضوؐر اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (اگر تو انھیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی (مُسنداحمد،بخاری)۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۱۲۶-۱۲۷)

  • نماز سے تعمیر سیرت : نماز کے بہت سے اوصاف میں سے ایک اہم وصف [یہ ہے کہ یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔ العنکبوت ۲۹:۴۵]....

نماز کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے، اس کے دو پہلو ہیں: ایک اس کا   وصفِ لازم ہے، یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے، اور دوسرا اس کا وصفِ مطلوب، یعنی یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشاء اور منکر سے رُک جائے۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے، نماز لازماً یہ کام کرتی ہے۔ جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگانے ممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کارگر بریک نماز ہی ہوسکتی ہے۔ آخر اس سے بڑھ کر مؤثر مانع اور کیا ہوسکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی یاد کے لیے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات تازہ کی جائے کہ تو اِس دنیا میں آزاد و خودمختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور تیرا خدا وہ ہے جوتیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے، حتیٰ کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اُس   خدا کے سامنے پیش ہوکر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ پھر اس یاد دہانی پر بھی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ آدمی کو عملاً ہرنماز کے وقت اس بات کی مشق کرائی جاتی رہے کہ وہ چھپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔

نماز کے لیے اُٹھنے کے وقت سے لے کر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے، مثلاً اگر آدمی کا وضو ساقط ہوچکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے تو اس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکار نماز پڑھنے کے بجاے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہوسکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانونِ خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعے سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جارہی ہے، اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کیا جا رہا ہے، اسے فرض شناس انسان بنایا جا رہا ہے، اور اس کو عملاً اس بات کی مشق کرائی جارہی ہے کہ وہ خود اپنے جذبۂ اطاعت کے زیراثر خفیہ اور علانیہ ہرحال میں اُس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے، خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ درحقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریق تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکنے کے معاملے میں اس درجہ مؤثر ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملاً بھی برائیوں سے رُکتا ہے یا نہیں، تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو    اصلاحِ نفس کی یہ تربیت لے رہا ہو۔ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مترتب ہوں گے، ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح بھی اس شخص پر کارگر نہیں ہوسکتی جو اس کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو، یا جان بوجھ کر اس کی تاثیر کو دفع کرتا رہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن کا تغذیہ اور نشوونما ہے، لیکن یہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آدمی اسے جزوِ بدن بننے دے۔ اگر کوئی شخص ہرکھانے کے بعد فوراً ہی قے کر کے ساری غذا باہر نکالتا چلا جائے تو اس طرح کا کھانا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایسے شخص کی نظیر سامنے لاکر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غذا موجب ِ تغذیہ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص کھانا کھانے کے باوجود سوکھتا چلا جا رہا ہے، اسی طرح بدعمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص نماز پڑھنے کے باوجود بدعمل ہے۔ ایسے نمازی کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھاکر قے کر دینے والے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت کھانا نہیں کھاتا۔

ٹھیک یہی بات ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہوئی ہے۔ عمران بن حُصَینؓ کی روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: ’’جسے اس کی نماز نے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے‘‘ (ابن ابی حاتم)۔ ابن عباسؓ حضوؐر کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: ’’جس کی نماز نے اسے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دُور کر دیا‘‘(ابن ابی حاتم، طبرانی)۔ یہی مضمون جناب حسن بصریؒ نے بھی حضوؐر سے مرسلاً روایت کیا ہے (ابن جریر، بیہقی)۔ ابن مسعودؓ سے حضوؐر کا یہ ارشاد مروی ہے:  ’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نے نماز کی اطاعت نہ کی، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رُک جائے‘‘۔(ابن جریر، ابن ابی حاتم)

اسی مضمون کے متعدد اقوال حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عباسؓ، حسن بصری،  قتادہ اور اعمش وغیرہم سے منقول ہیں۔ امام جعفرؒ صادق فرماتے ہیں: ’’جو شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں، اسے دیکھنا چاہیے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء اور منکر سے کہاں تک باز رکھا۔ اگر نماز کے روکنے سے وہ برائیاں کرنے سے رُک گیا ہے تو اس کی نماز قبول ہوئی ہے‘‘ (رُوح المعانی)۔ (تفہیم القرآن، جلد۳، ص ۷۰۶-۷۰۷)