’’احادیث کس طرح مرتب اور جمع ہوئیں اور ہم تک کس طرح پہنچیں، دین میں ان کی کیا حیثیت ہے، اور قرآن و حدیث کا باہمی تعلق کیا ہے‘‘___ یہ وہ مباحث ہیں جن کے بارے میں غلام احمد پرویز کے حلقۂ فکر کا مخصوص نقطۂ نظر ۱۹۵۳ء میں مقامِ حدیث کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں سامنے آیا۔ یہ کتاب غلام احمد پرویز، تمنا عمادی اور حافظ محمد اسلم جیراج پوری کی تحریروں پر مشتمل تھی۔ معروف عالمِ دین اور علمِ حدیث میں منفرد اور نمایاں مقام رکھنے والے استاذ حافظ محمد گوندلوی (۱۸۹۷ئ-۱۹۸۵ئ) نے اس کا ایک برجستہ جواب لکھا جو ۱۹۵۷ء اور ۱۹۵۸ء کے مختلف مجلات میں شائع ہوا۔ اب ایک نوجوان محقق (حافظ شاہد محمود) نے اس علمی سرمایے کو مرتب و مدوّن کرکے کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔ مرتب نے وقیع علمی حیثیت کی حامل تعلیقات بھی شامل کی ہیں۔
اس کتاب میں ان شکوک و شبہات کا بڑی حد تک ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو احادیث کے ضمن میں عموماً مخصوص ذہن پیش کرتا ہے۔ چونکہ مصنف کے پیش نظر مقامِ حدیث کے اعتراضات کا جواب دینا تھا، لہٰذا ہر اعتراض کا جواب علومِ حدیث کے متعدد پہلوئوں سے بھی بحث کرتاہے۔ یوں علمِ حدیث کی نہایت گراں قدر بحثیں کتاب میں سمٹ آئی ہیں اور معترضین کے اُٹھائے گئے سوالات کے تشفی بخش جواب فراہم ہوگئے ہیں۔
دوامِ حدیث کی جلد دوم ان مباحث پر مشتمل ہے جو حدیث کے متعلق اسی نوعیت کے اُن اعتراضات کا جواب ہے جو ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے دو اسلام کے عنوان سے ۱۹۴۹ء میں شائع کیے تھے۔ ڈاکٹر برق کی اس کتاب کے متعدد علما نے جواب لکھے اور ہر مصنف نے اپنے انداز میں اس کا جواب فراہم کیا۔ حافظ محمد گوندلوی نے مقامِ حدیث کی طرح دو اسلام کا جواب بھی محدثانہ اسلوب میں مذکورہ تحریر کے ذیل میں ہی لکھ دیا تھا۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق تاریخِ حدیث لکھ کر دواسلام کے مشتملات سے دست بردار ہوگئے تھے لیکن افسوس ہے کہ بعض بددیانت ناشر اسے مسلسل شائع کر رہے ہیں اور بہت سے نوخیز ذہنوں کو پراگندہ کرنے کے گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔
یہ تالیف علمِ حدیث کے گراں قدر اُردو سرمایے میں نادر علمی، تاریخی اور فنی نوعیت کا اضافہ ہے۔ تدوین میں ایک کمی رہ گئی۔ دوامِ حدیث کا عنوان مقامِ حدیث کے متقابل اختیار کیا گیا ہے لیکن سرورق پر اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کتاب مقامِ حدیث کا جواب ہے۔ اسی طرح جلددوم پر بھی وضاحت درج نہیں کہ یہ حصہ دو اسلام کا جواب ہے۔ دونوں مجلدات کو مذکورہ وضاحت کے ساتھ الگ الگ شائع کیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ (ارشاد الرحمٰن)
یہ ایم فل اقبالیات کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جو علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے حصولِ سند کے لیے ڈاکٹر وحیدعشرت مرحوم کی نگرانی میں قلم بند کیا گیا تھا۔ کلامِ اقبال کی بہت سی جہات پر خاصا کام سامنے آچکا ہے مگر کلامِ اقبال کی ایک نئی جہت اور نسبتاً اس نئے موضوع پر یہ ایک مبسوط اور تفصیلی جائزہ ہے۔
مقالہ نگار نے اقبال کے اُردو اور فارسی کلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کر کے مختلف منظومات و غزلیات میں مذکور ۱۶؍ انبیاے کرام کا تذکرہ اور ان کا پس منظر تیارکیا ہے۔ ساتھ ساتھ انبیاے کرام ؑکی سوانح پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ سوانح مرتب کرنے کے لیے مختلف مآخذ مثلاً تورات، انجیل، قرآن مجید، تفاسیر اور عربی کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
کتاب پانچ ابواب میں منقسم ہے۔ باب اوّل کو ’وحی و نبوت فکرِاقبال کے مآخذ کی حیثیت سے‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ دوسرا باب دو حصوں میں بانٹا گیا ہے:(ا) اقبال کا شعورِ ولایت، شعورِ نبوت اور شعورِ ختم نبوت، (ب) مقصودِ نبوت و رسالت محمدیؐ، یہ دونوں ابواب پس منظری مطالعے کی حیثیت سے کتاب کا حصہ ہیں۔
تیسرے باب ’انبیاے کرام ؑ اقبال کی نظر میں‘ ۱۶ انبیاے کرام کا تذکرہ شامل ہے۔ حضرت خضر ؑ کو ایک بڑا طبقہ پیمبروں کی صف میں شمار کرتا ہے۔ ان کا ذکر بھی کلامِ اقبال میں ملتا ہے۔ مقالہ نگار نے ان کا ذکر نہیں کیا اس کی وجوہ اور اختلافی آرا کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے تھا۔
۳۲۵ صفحات کی زیرنظر کتاب میں مقالہ نگار کا طریقہ تحقیق یہ ہے کہ پہلے اقبال کے اُن اشعار کو درج کیا گیا ہے جن میں متعلقہ نبی کا تذکرہ ہے۔ پھر قرآنِ پاک کی متعلقہ آیات دی ہیں۔ اس کے بعد ہرنبی کی سوانح اور اس سوانح کو مدنظر رکھتے ہوئے شعرِاقبال کے پس منظر میں موجود تصور اخذ کیا گیا ہے۔ اس عمل میں اقبال کی نثری تحریریں بھی مصنفہ کے پیش نظر رہی ہیں۔ حسب ِ موقع مختلف ماہرین اقبال کی آرا بھی استعمال کی گئی ہیں۔
باب ۴ کا عنوان ہے: ’اقبال کی فکر پر انبیاے عظام کے اثرات‘۔ آخری باب ۵ ’حاصلِ بحث‘ میں تمام مباحث کو سمیٹ دیاگیا ہے۔ بقول مقالہ نگار: [اقبال نے] سلسلۂ نبوت کی نمایندہ ہستیوں (انبیاے کرام ؑ) کا ذکر کر کے ثابت کیا ہے کہ اِن انبیا کا سرچشمۂ علم، مصور و عرفان، اور منزل و سمت ایک ہے۔ نیز ان کا پیغامِ دعوت اور ان کے دستورالعمل کی روح بھی ایک ہے اور ان سب میں اصولی اور بنیادی اختلاف ہرگز نہیں ہے۔ تمام انبیاے کرام ؑ کی تعلیمات روحانی و معاشرتی تقاضوں سے بھرپور ہیں اور کارگاہِ حیات میں پیش آنے والی مشکلات کا حل ان کی بتائی ہوئی تعلیمات کی اطاعت و پیروی میں پوشیدہ ہے۔ اصل ضرورت صدقِ دل سے ان پر عمل کی ہے (ص ۴۴۷)۔کہیں کہیں طوالت کا احساس ہوتا ہے، خصوصاً اوّلین دو ابواب میں یہ طرزِ تالیف اصولِ تحقیق سے مناسبت نہیں رکھتا۔ مجموعی طور پر یہ تحقیق محنت سے کی گئی ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)
مختلف علوم میں تحقیق، ترقی اور پیش رفت میں بہ حیثیت مجموعی اہلِ مشرق خاص طور پر اُردو دنیا، مغرب کے مقابلے میں خاصی پیچھے ہے۔ من جملہ دیگر اسباب کے ایک بڑی وجہ ان آلاتِ تحقیق کی عدم موجودگی اور تحقیق کے مختلف اصولوں اور تکنیکی طریقوں سے عدم واقفیت ہے۔ کسی خاص موضوع پر تحقیق کے لیے کتابیات اور اشاریے بنیادی آلاتِ تحقیق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُردو میں متعدد موضوعاتی اشاریے اور کتابیاتیں تیار کی گئی ہیں۔ مشاہیرادب کے حوالے سے بھی ایسی کاوشیں ہوئی ہیں۔
زیرنظر کتاب اُردو کے ایک بڑے اہم اور نام وَر مصنف سرسید احمد خاں کی توضیحی کتابیات ہے۔ مرتب نے سال ہا سال تک لندن کے انڈیا آفس، برٹش میوزیم، رائل ایشاٹک سوسائٹی اور لندن یونی ورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS)کی لائبریریوں میں اپنے بقول: ’خاک چھانتے ہوئے‘ سرسیّد پر کئی تحقیقی اور تالیفی کام کیے جس کے نتیجے میں سرسیّد پر بہت سی کتابیں تیار ہوگئیں۔
زیرنظر کتاب میں سرسیّد کی تالیفات، ان کی مستقل تصنیفات، تراجم، ایسی کتابیں جو سرسیّد کی زندگی میں شائع نہ ہوسکیں، اسی طرح ان کے کتابچوں، مضامین اور دوسری زبانوں میں تصانیف سرسیّد کے ترجموں وغیرہ کی تفصیل اور بعض قدیم اشاعتوں کے سرورق شامل ہیں۔ آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ سرسیّد احمد خاں کی ہمہ نوع تحریروں سے متعلق یہ کتاب معلومات کا ایک ایسا خزینہ ہے جسے بڑے سلیقے سے اور استناد کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔ مجلس ترقی ادب کی یہ پیش کش قابلِ تحسین ہے، کاش مجلس اسی طرح کی مزید کتابیات بھی ایسی محنت اور عمدگی کے ساتھ مرتب کرا کے شائع کرے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
تجارت اور لین دین ہر انسان کی ضرورت ہے۔ ماضی بعید میں انسان اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کا محتاج نہ تھا ۔ ہر فرد اپنی محدود ضروریات خود پیدا کرتا اور استعمال میں لاتا۔جیسے جیسے انسانی تمدن نے ترقی کی، انسانی ضروریات بھی بڑھیں اور ان کا باہمی تبادلہ بھی ہونے لگا۔ ابتدائی طور پر انسان نے براہِ راست تبادلے کا طریقہ اختیار کیا۔ لیکن اس طریقے کی مشکلات نے انسان کو مجبور کیا کہ کوئی آلۂ مبادلہ ہو تاکہ لین دین کی مشکلات پر قابو پایا جا سکے ۔ اسی ضرورت کے پیش نظر انسان نے پہلے سکّے ایجاد کیے اور بعد میں کاغذی نوٹ اور پلاسٹک منی کا دور آیا۔ لیکن اس پورے عمل کے دوران بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ دین اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کی طرح اس پہلو سے متعلق بھی تفصیلی ہدایات عطا فرمائیں تا کہ اس نظام کی خرابیوں کو دور کیا جائے اور اسے ایک اخلاقی ضابطے کا پابند بنایاجائے۔اسی ضابطے سے متعلق احکام قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب علامہ ناصرالدین البانی کے افادات کی روشنی میں اس موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ مؤلف نے اس کتاب میں حلال و حرام ، تجارت کی فضیلت و احکام، فسخ بیع، تجارت کے ناجائز طریقوں ، سودی معاملات ، بیع سلم، شراکت و مضاربت، اجارہ ، مساقات ، مزارعت، قرض، گروی، دیوالیہ ، وقف، عاریت، امانت ، ضمانت ، اسلامی بنکاری ، ملٹی لیول مارکیٹنگ، بلیک مارکیٹنگ، ٹیکسوں اور بجلی و گیس کی چوری، عورت کی ملازمت اور اسی طرح کے دیگر معاملات پر جن سے انسان کو روزمرہ زندگی میں واسطہ پڑتا ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی آرا دی ہیں۔بعض آرا پر تحفظات ہوسکتے ہیں، تاہم مجموعی طور پر یہ کتاب بہت سے موضوعات پر فقہی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب کی ایک اہم خوبی احادیث کی تخریج ہے۔ جس سے اس موضوع پر صحیح احادیث کے مطالعے کا موقع بھی ملتاہے۔ تاہم بعض مقامات پر مؤلف کی بے احتیاطی کھلتی ہے، مثلاً حنفی مسلک کو فرقہ لکھنا (ص ۲۱) اسی طرح ارسطو کو بیسویں صدی کا فلسفی قرار دینا (ص ۲۵) وغیرہ۔(میاں محمد اکرم)
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ان سائنس دانوں میں سب سے نمایاں ہے جنھوں نے اس سلطنت ِ خداداد کو ایٹمی اسلحے سے لیس کر کے دنیا میں باوقار مقام پر لاکھڑا کیا لیکن اس ’جرم‘ کی پاداش میں ان میں سے بیش تر سائنس دان معتوب ہوئے، چند ایک پابندِسلاسل بھی اور کچھ ’زیرنگرانی‘ رہے۔ آخر میں پرویز مشرف نے اس ’گناہ‘ کا سارا ملبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں پر ڈال کر، اُن سے وہ ’سلوک‘ کیا جو دنیا جانتی ہے۔
زیرنظر کتاب ملّتِ اسلامیہ کے اس ہیرو کو خراجِ تحسین پیش کر کے مرتب کی گئی ہے لیکن کتاب میں، اس مرکزی موضوع سے ہٹ کر، بہت سے ضمنی اور متعلقہ اور قدرے غیرمتعلقہ پہلوئوں اور موضوعات پر بھی مفید معلومات و تفاصیل شامل کر دی گئی ہیں، مثلاً: قرآن میں ۷۵۶ آیات صرف سائنس سے متعلق ہیں:
ڈاکٹر خان کے سوانحی حالات میں پاکستان کے ایٹمی سفر ، ایٹمی پروگرام کے آغاز اور ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بعد میں آنے والے سربراہانِ مملکت کے طرزِعمل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح پرویزمشرف کے ساتھ نوازشریف کے اختلافات، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کی جاسوسی کے لیے مسلم دشمن عناصر کے مختلف ہتھکنڈے ، پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کے لیے بھارت، امریکا اور اسرائیل کی سازشیں۔ کتاب میں بہت سے ایٹمی سائنس دانوں (محمد رفیع چودھری، ثمرمبارک مند، سلطان بشیرالدین محمود وغیرہ) کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب خوب صورت تصاویر سے مزین ہے۔
کتاب میں مختلف لوگوں کے کالم اور مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں ’بُزدل قومی غدار‘ (عباس اطہر) ’عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘ (قاضی حسین احمد) نسبتاً اہم مضامین ہیں۔ آخر میں مختلف زبانوں مثلاً پنجابی، اُردو، عربی، براہوی، بلوچی،سرائیکی، سندھی اور پشتو میں ڈاکٹر صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اورکتابیات بھی شامل ہے۔ (قاسم محمود احمد)