پروفیسر سعید اکرم


قرآن حکیم دنیا کی تمام دوسری کتابوں سے مختلف ہے۔ اس کتاب کے اندر مختلف ابواب کی صورت میں الگ الگ مسائل پر بحث ملتی ہے، نہ یہ کتاب روایتی انداز میں کہیں اپنے موضوع کا تعین کرتی ہے۔ یہ دنیا کے لٹریچر میں اپنے طرز کی ایک ہی کتاب ہے۔ قاری پہلی دفعہ اس کے معانی سے آگاہی کی غرض سے اس کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو وہ اس کی اکثر آیات کو آپس میں   بے جوڑ پاکر پریشان ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر اگر چند بنیادی امور کی وضاحت ابتدا ہی میں کر دی جائے وہ اُلجھن سے بچ سکتا ہے اور فہم و تدبر کی راہیں اس پر کشادہ ہوسکتی ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے ناظر کو قرآن کی اصل سے واقف ہو جانا چاہیے۔ وہ خواہ اس پر ایمان لائے یا نہ لائے، مگر اس کتاب کو سمجھنے کے لیے اسے نقطۂ آغاز کے طور پر اس کی وہی اصل قبول کرنی ہوگی جو خود اس نے اور اس کے پیش کرنے والے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان کی ہے۔ قرآن کی اصل یا بنیادی دعوت کو جاننے کے بعد، قرآن کے اصل موضوع، مرکزی مضمون اور مدعا کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ قرآن کا موضوع انسان ہے، مرکزی مضمون صحیح رویے اور ہدایت کی طرف رہنمائی ہے، جب کہ مدعا انسان کو اس صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے۔ ان تین بنیادی امور کو ذہن میں رکھ کر کوئی شخص قرآن کو دیکھے تو اسے صاف نظر آئے گا کہ یہ کتاب اپنے موضوع، مدعا اور مرکزی مضمون سے بال برابر بھی نہیں ہٹتی ہے۔ اس کے تمام مضامین آپس میں باہم مربوط ہیں اور اس کا سارا بیان انتہائی یکسانی کے ساتھ دعوت کے محور پر گھومتا رہتا ہے۔

  • قرآن کی بنیادی دعوت: قرآن کا قاری اس پختہ یقین کے ساتھ قرآن کے معانی و مطالب سے استفادہ کرنے بیٹھے کہ سارے نظامِ کائنات کا خالق و مالک صرف اللہ ہے۔ اسی نے انسان کو سوچنے، سمجھنے، نیز بھلائی اور برائی میں تمیز کرنے کی توفیق عطا کر کے پیدا کیا ہے۔ اُس کے لیے اب ضروری ہے کہ وہ اس زندگی کو امتحان کی مدت سمجھ کر صرف وہ اسلوبِ حیات اختیار کرے جس سے اس کا خالق و مالک خوش ہوتا ہے۔ اُسے یقین ہو کہ اس کا رب اگر اس سے راضی ہوگیا تو اسے نعمتوں سے مالا مال جنت عطا کی جائے گی ورنہ بصورتِ دیگر اُس سے بغاوت کی پاداش میں اس گڑھے میں رہنا پڑے گا جس کا نام دوزخ ہے۔

اُسے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ زمین پر سب سے پہلے قدم رکھنے والے افراد، یعنی آدم ؑ و حواؑ کے لیے بھی خدا نے طریقِ زندگی اسلام ہی تجویز کیا تھا لیکن پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ نسلِ آدم ؑ، ابلیس سے دوستی کے سبب خدا کے بتائے ہوئے طریقوں سے دُور ہوتی گئی اور اپنے نفس کی غلامی کے نتیجے میں زمین کے اندر فساد کے سامان پیدا کرتی چلی گئی۔ چنانچہ ربِ کائنات، بجاے اس کے کہ بگڑے ہوئے انسانوں کو زبردستی صحیح طریقے کی طرف لے آتا، وہ ان ہی انسانوں میں ایسے انسان پیدا کرتا رہا جو انھیں بدستور ان کے غلط رویوں سے آگاہ کرتے رہے اور انھیں خدا کے پسندیدہ طریقہ ہاے زندگی کی دعوت دیتے رہے۔ خدا کے ان فرستادہ بندوں کی آمد کا سلسلہ ہزارہا برس تک جاری رہا یہاں تک کہ پروردگارِ دوجہاں نے سرزمینِ عرب میں خاتم الانبیا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آخری کتاب، قرآنِ مجید کے ساتھ مبعوث فرما کر انسانوں کی ہدایت کا سلسلہ مکمل کر دیا اور صحیح رویے اور دنیا کی اصلاح کے لیے جدوجہد کی طرف دعوت دی۔ اسی دعوت اور ہدایت کی کتاب یہ قرآن ہے جو اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔

  • قرآن کے بنیادی مضامین : قرآن کے طالب علم کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن سارے کا سارا ایک ہی وقت میں نہیں اُترا۔ دورِ نبوت کے ابتدائی زمانے میں اُترنے والی آیات زیادہ تر تین مضامین پر مشتمل ہوتی تھیں۔ اوّل یہ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس فریضے کی  انجام دہی کے لیے خود کو کس طرح تیار کریں۔

دوم یہ کہ انسانوں کے غلط رویوں کی وجہ سے ذہنوں کے اندر موجود غلط فہمیوں کو کس طرح دُور کیا جائے۔ سوم یہ کہ انسانوںکو گمراہی کے شکنجوں سے چھڑا کر ہدایت کے راستے پر کس طرح لگایا جائے۔ بہترین ادبی رنگ اور مٹھاس والی یہ آیات فوراً دلوں کے اندر اُتر جانے والی ہوتی تھیں، اور یہ انھی آیات کا معجزہ تھا کہ ابتدا کے تین چار برسوں کے اندر ہی قدرتِ خداوندی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چند ایسے پاکیزہ نفوس عطا کردیے جنھوں نے دین کی عظیم عمارت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی۔

نسلِ ابلیس کو دین حق کا فروغ کب گوارا تھا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے داعی حق صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں پر کلمۂ حق کی پاداش میں ظلم و ستم کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ بالآخر اپنے گھربار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ لیکن ساتھ ہی قدرت نے یہ بھی کیا کہ اُس بنجر زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہ رہا جس کی کوکھ سے ایمان کا شگوفہ نہ پھوٹ نکلا ہو۔ اِس مرحلے کے دوران میں اُترنے والی آیات کے اندر اُس وقت کے تقاضوں کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی دیا گیا اور کفر پر ڈٹے رہنے والوں کو اُن کے  عبرت ناک انجام سے خبردار بھی کیا گیا۔

ہجرت کے بعد مدینہ جب ایک باقاعدہ اسلامی ریاست کی شکل اختیار کرنے لگا تو کفر کی قوتِ برداشت بھی جواب دینے لگی اور پھر اس نے پوری قوت سے اسلام کے پودے کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن ۱۳سال کی مسلسل اور سرتوڑ کوششوں کے باوجود اسے اپنے عزائم میں پے درپے شکست ہوئی اور یوں اس مرحلے کے اختتام تک نہ صرف سارا عرب ہی اسلام کے لہلہاتے گلشن میں تبدیل ہوگیا بلکہ اس کے پھولوں کی خوشبو عرب سے باہر بھی دماغوں کو معطر اور دلوں کو منور کرنے لگی۔ ان ۱۳ برسوں کے دوران میں اُترنے والی آیات نے ایمان والوں کو کہیں شاہانہ، کہیں معلّمانہ اور کہیں مُصلحانہ انداز میں اسلامی معاشرے کے اصول بھی بتائے اور مخالفین کے ساتھ سلوک کرنے کے طریقے بھی سمجھائے۔ اور جب اللہ نے اپنی اس آخری کتاب کی آخری آیات کے ساتھ انسانی ہدایت کی تمام حجتیں تمام کر دیں تو دنیا کے عظیم ترین معاشرے کا عظیم ترین منصوبہ بھی مکمل ہوگیا___ قرآن کا قاری اگر آیاتِ قرآن سے متعلقہ ان کے شانِ نزول کی مندرجہ بالا باتیں ذہن میں رکھے تو اسے قرآن فہمی میں کہیں زیادہ مدد مل سکتی ہے۔

  • مضامین میں تکرار : یہ سوال کہ قرآن کے اندر مختلف مضامین کی اس قدر تکرار کیوں ہے؟ اس کے جواب کے پیشِ نظر قرآن کے طالب علم کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ برائیوں سے آلودہ وہ ماحول تقاضا کر رہا تھا کہ ہدایت کی ایک ایک بات کو مختلف انداز میں اس خوب صورتی کے ساتھ دہرایا جائے کہ اس کا اثر دلوں کے اندر تک اُترتا چلا جائے، اور صدیوں سے دلوں کے اندر جاگزیں فرسودہ عقائد کی جگہ توحید، رسالت اور آخرت وغیرہ سے متعلق عقائد گھر کرتے چلے جائیں، اور تیز بارش کی بجاے دھیمے دھیمے برسنے والے قطرے اپنے دُور رس اثرات مرتب کرتے چلے جائیں۔

اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دعوت کی بنیاد جن عقائد اور اصولوں پر ہو، انھیں کسی بھی حال میں نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ توحید اور صفاتِ الٰہی،   آخرت اور اس کی بازپُرس اور جزا و سزا، رسالتؐ اور ایمان بالکتاب، تقویٰ اور صبروتوکل اور اسی  قسم کے دوسرے بنیادی مضامین کی تکرار پورے قرآن میں نظر آتی ہے۔ یہ بنیادی تصورات اگر  ذرا بھی کمزور ہوجائیں تو اسلام کی یہ تحریک اپنی صحیح روح کے ساتھ نہیں چل سکتی۔

  • قرآن کی ترتیب: قرآن اس ترتیب سے کیوں مرتب نہیں کیا گیا جس ترتیب سے نازل ہوا تھا؟ اس سوال کے جواب کے لیے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کے مخاطب اوّل وہ لوگ تھے جو اسلام سے بالکل ناواقف تھے مگر اس کی تکمیل کے بعد اس کے مخاطب بالعموم تمام انسان اور بالخصوص وہ لوگ ہوں گے جو قیامت تک کے لیے ایک اُمت بن چکے تھے۔ اگر اسے اُسی ترتیب سے مرتب کیا جاتا تو ان علیحدہ علیحدہ ٹکڑوں کی تفہیم، بہرحال مشکل ہوجاتی اور قدرت اس کتاب سے حشر تک کے تمام انسانوں کی ہدایت کا جو کام لینا چاہتی تھی، وہ ادھورا رہ جاتا۔ یہاں یہ حقیقت بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کی یہ ترتیب بعد کے لوگوں کی دی ہوئی نہیں بلکہ     نبی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کی ہدایت میں اِسے خود مرتب کر کے اپنی اُمت کے سپرد کیا تھا اور جس روز اس کا سلسلۂ نزول مکمل ہوا، اُسی روز اس کی ترتیب بھی آخری صورت اختیار کرچکی تھی۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی جاننا چاہیے کہ قرآن کی جو سورت یا آیات اُترتیں وہ نہ صرف آپؐ خود یاد فرما لیتے بلکہ قدرتِ خداوندی آپؐ کو یاد کروا دیتی اور ساتھ ہی متعدد صحابہ کرامؓ بھی اُن آیات کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیتے اور دنیا گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک لاکھوں سینے اس امانت کے امین بن چکے تھے۔ بعد میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمرؓ کے ایما اور صحابہ کرامؓ کی مدد سے قرآن کا ایک مستند نسخہ تیار کروایا اور بعد میں حضرت عثمانؓ نے اپنے دورِخلافت میں اسی معیاری نسخے کی کاپیاں سارے عالمِ اسلام کو مہیا کیں۔ آج جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے بغیر کسی کمی بیشی کے وہی قرآن ہے، جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو عطا کیا تھا۔
  • حکمتِ قرآن : قرآن حکمت اور دانائی کے موتیوں سے بھرا ایک سمندر ہے۔ قاری ان موتیوں سے اپنی جھولی بھر لینے کی تمنا میں بار بار اس کی غواصی کرے۔ ایک یا دو بار اس کے اندر اُترنے سے وہ انمول ہیرے ہاتھ نہیں آتے جو اس کی تہہ میں چھپے پڑے ہیں۔ اگر کسی سوال کا جواب پیشِ نظر آیات میں نظر نہ آئے تو مطالعہ جاری رکھے۔ اس کی طلب کا نگیں کہیں نہ کہیں اس کے ہاتھ ضرور لگ جائے گا۔

قرآن کا قاری بہرصورت یہ دیکھتا رہے کہ قرآن کس اسلوبِ زندگی کو پسندیدہ اور کس نمونے کو ناپسندیدہ قراردیتا ہے۔ قرآن کن امور کو اس کی فلاح کا ضامن اور کن باتوں کو اس کے لیے نقصان کا موجب قرار دیتا ہے۔ قرآن کا قاری اس طرز کے مطالعے کے نتیجے میں دیکھے گا کہ خدا کے پسندیدہ بندے، مومن کا ایک مکمل خاکہ ازخود اس کے سامنے آجاتا ہے۔

  • کتابِ انقلاب: ان تمام کوششوں کے باوجود قرآن کا قاری، قرآن کی روح سے فیض یاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ قرآن کو عملاً اپنے آپ پر نافذ نہ کرے اور وہ تمام کام خود نہ کرے جن کے کرنے کا قرآن اُس سے تقاضا کرتاہے اور ان تمام کاموں سے عملاً رُک نہ جائے جن کے کرنے سے قرآن اُسے روکتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن پڑھنے والا اسلام اور کفر کے درمیان معرکہ کے میدان میں قدم ہی نہ رکھے اور قرآن اس پر ساری حقیقتیں کھول دے، وہ اس سمندر کی موجوں کے تھپیڑے کھائے بغیر ساحل پر سے ہی اپنی جھولی موتیوں سے بھر لے۔

بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔

اس حوالے سے قرآن کے طالب علم کو یہ بات بھی ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ خدا نے صرف قرآن کتابی صورت میں ہی نازل نہیں کیا۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں دنیا کو اس کا ایک عملی نمونہ بھی عطا کیا ہے۔ اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ وہ بہترین استاد ہے جو قرآن فہمی میں اس کی کماحقہ مدد کرسکتا ہے۔ آپؐ کا اسوۂ حسنہ اسے قرآن کی بہترین تفسیر مہیا کرسکتا ہے۔

مندرجہ بالا اصول و ضوابط کے علاوہ آج کے قاری کو یہ بات بھی ضرور پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ آج اُمت ِ مسلمہ کو جو دگرگوں حالات درپیش ہیں وہ صرف قرآن سے دُوری اور اس کے مفاہیم سے اغماض برتنے کے سبب سے ہیں۔ حضرتِ اقبالؒ نے بالکل سچ کہا تھا کہ 

ع اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

آج قرآن کی دعوت کو سمجھنے، سمجھانے اور عام کرنے کی پہلے سے کہیں بڑھ کر ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ رب العزت ہمیں قرآن فہمی اور اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی روشنی میں عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین! (مقدمہ تفہیم القرآن سے ماخوذ)

دنیا کو آج بے شمار خطرات اور مشکلات کا سامنا ہے۔ دنیا اتنی تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے کہ کسی قدم پر بھی ٹھوکر کھا کر آن کی آن میں تباہی کے گہرے غاروں میں گرسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جدید سائنسی ترقی نے دنیا کو بے پناہ آسایشوں سے مالا مال کر دیا ہے لیکن اس ترقی نے اسے ایسی مہلک ایجادات بھی فراہم کر دی ہیں جن سے وہ چند لمحوں میں اپنی موت کے  ساماں خود پیدا کرسکتی ہے۔ لہٰذا اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ دنیا میں بسنے والوں کو خوف و ہراس سے نکال کر ایسی زندگی فراہم کی جائے جس میں ہر طرف سکون‘ محبت اور اخلاق کا دور دورہ ہو اور اُسے وہ معاشرہ دیا جائے جو انسان کے شایانِ شان ہو۔

چند غورطلب پھلو

عصرِحاضر انسان سے جو تقاضے کرتا ہے انھیں مختصراً یوں پیش کیا جاسکتا ہے:

  • زندہ رھنے کا حق: آج پوری دنیا ایک عالمی بستی (گلوبل ولیج) بن چکی ہے۔ جدید سائنسی ترقی نے زمینی فاصلے ختم کر کے رکھ دیے ہیں۔ کوئی جدید ترین ترقی یافتہ ملک بھی   باقی دنیا سے کٹ کر اپنے طور پر زندہ رہنے کا تصور نہیں کرسکتا۔ اب دنیا کے ہر طبقے اور ہر نظام کے  علم بردار انسانوں کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ دوسروں کو زندہ رہنے کا حق دیں گے تب ہی ان کی   اپنی زندگی بھی محفوظ رہے گی۔
  • شخصی آزادی کا احترام : عصرِحاضر تقاضا کرتا ہے کہ آمریت اور شخصی حکومتوں کو اب دنیا سے رخصت کر دیا جائے۔ بادشاہت کی جگہ حقیقی جمہوریت کو رواج دیا جائے۔ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا اور کوئی ملک کسی دوسرے ملک کا حق سلب نہ کرے۔ انسانی آزادیوں کا احترام کیاجائے۔ اپنے مفاد اور اپنی پسند کے فیصلے دوسروں پر زبردستی مسلط نہ کیے جائیں۔ ہر سطح پر احترام کرو اور احترام کرائو کا جذبہ اُجاگر کیا جائے۔
  • طاقت کے زعم کا خاتمہ: اب دنیا کا اُسلوب اور مزاج بدل چکا ہے۔ وہ دن گئے جب طاقت کے بل بوتے پر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا جاتا۔ آج ایران اور عراق کی جنگ‘ امریکا اور ویت نام کی لڑائی‘ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ اور ظلم و جور اور بھارت کی کشمیر پر فوج کشی نے ثابت کر دیا ہے کہ جبر و طاقت اور اسلحے کے بل بوتے پر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ افغانستان پر روس کی یلغار اور کویت پر عراق کی یورش کے نتیجے میں بھڑکی ہوئی آگ پھیلتی ہی جارہی ہے۔ آج اگر امریکا بھی یہ سمجھتا ہے کہ آگ اور خون کے کھیل سے دنیا کو امن نصیب ہوگا تو یہ اس کی بھول ہی نہیں بہت بڑا جرم بھی ہے۔ عصرِحاضر کا تقاضا ہے کہ ہر ملک ہوش کے ناخن لے۔ کوئی ملک اس زعم میں مبتلا نہ ہو کہ وہ طاقت کے زور سے اپنے فیصلے منوا سکتا ہے۔
  • ’دھشت گردی‘ اور تشدد کا خاتمہ: آج دہشت گردی کے خوف سے بڑی سے بڑی طاقت کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ پوری دنیا دہشت زدہ نظر آتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تشدد کی ہر لہر کو مل کر روکا جائے‘ تاہم اس بات پر غور کرنا لازم ہے کہ وہ کون سے حالات اور کون سی محرومیاں ہیں جو لوگوں کو دہشت گرد بننے پر مجبور کردیتی ہیں کہ اپنے سمیت ساری دنیا کو خاک میں ملا دینے پر تُل جاتا ہے۔ کوئی بھی یقینا اتنا بڑا فیصلہ اتنی جلدی میں نہیں کرتا ہے    ؎

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

آج وقت تقاضا کرتا ہے کہ’دہشت گردی‘ کو ختم کرنے کے لیے پہلے اس کے اسباب کو ختم کیا جائے۔ غاصب اقوام کے منہ زور گھوڑوں کو لگام دی جائے۔ دنیا اچھی طرح جان لے کہ انتقام کی آگ وقتی طور پر تو ٹھنڈی ہوسکتی ہے ہمیشہ کے لیے بجھ نہیں سکتی۔

  • دھشتگردی اور تحریک آزادی کا فرق: اس میں شک نہیں کہ انسانوں کا سکھ چین لوٹنے کے لیے دہشت گردی کا ہلکے سے ہلکا جرم بھی بڑی سے بڑی سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ لیکن فلسطین‘ کشمیر‘بوسنیا اور چیچنیا والے اپنے گھر اور اپنے ملک کے اندر رہ کر جینے کا حق مانگیں اور ان پر قابض قوتیں انھیں ’دہشت گرد‘ قرار دے کر ان کو بچوں سمیت اجتماعی قبروں میں اُتار دیں‘ تو یہ حددرجہ ناانصافی اور ظلم عظیم ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی اور تحریکِ آزادی میں فرق کو سمجھا جائے۔ حقوق و فرائض کے پیمانے یکساں ہوں اور ہر بڑے اور چھوٹے کا جرم ایک ہی پیمانے سے ناپا جائے۔
  • عالمی طاقت کا خونی کہیل: آج دنیا کی واحد سوپرپاور کے دماغ سے سپریم پاور بن جانے کا خیال نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سوپرپاور نے گذشتہ تین چار عشروں سے پوری دنیا کو زیرِنگیں بنانے اور پوری دنیا کے وسائل پر زبردستی قبضہ کرلینے کا جو خونی کھیل شروع کررکھا ہے‘ اس کے پیشِ نظر ضروری ہوگیا ہے کہ دنیا کی دیگر طاقتیں مصلحت کی پالیسی ترک کردیں‘ اس کے جرم میں حصہ دار بننے سے رُک جائیں اور اس کی حوصلہ افزائی کے گناہ سے باز آجائیں‘ ورنہ انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ قدرت کی چکی جب چلتی ہے تو گندم کے ساتھ گھن بھی پس جایا کرتا ہے۔
  • اقوام متحدہ کا حقیقی عالمی کردار: آج اس بات کا جائزہ لینا لازم ہوچکا ہے کہ اقوام متحدہ اب تک اپنے مقاصد کے حصول اور اپنے فرائض کی بجاآوری میں کیوں ناکام ہوتی آرہی ہے؟ اسے ایک یرغمالی ادارہ اور محض ایک انگوٹھا چھاپ مشین کس نے بناکر رکھ دیا ہے؟ افغانستان اور عراق پر حملوں کی قراردادیں دیکھتے ہی دیکھتے کیسے منظور ہوگئیں‘ اور کشمیر اور فلسطین کے مسائل کے حل سے متعلق قراردادیں فائلوں کے انبار تلے سے نکلنے کو کیوں اب تک ترس رہی ہیں؟ عصرِحاضر تقاضا کرتا ہے کہ اس عالمی ادارے کو حقیقی معنوں میں ایسا ادارہ بنایا جائے جو ہر ظالم کو سزا اور ہر مظلوم کو اس کا حق دلا سکے۔
  • دنیاوی و روحانی فلاح کا توازن: آج دنیا جس قدر مادی ترقی میں آگے بڑھتی جارہی ہے‘ اسی قدر روحانیت سے خالی ہوتی جارہی ہے۔ انسان کی من کی دنیا اور تن کی دنیا میں توازن حددرجہ بگڑ چکا ہے۔ آج دنیا دو طبقوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک طبقہ مذہب کو الگ رکھ کر صرف مادیت کے بل بوتے پر اخلاقی قدروں میں آگے بڑھ جانا چاہتا ہے‘ اور دوسرا طبقہ مذہب کے ساتھ جنون کی حد تک چمٹے رہنے اور قدیم رسم و رواج کی کڑی پابندیوں کو ہی زندگی کی معراج تصور کرتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ انتہاپسندی کا راستہ کلیتاً ترک کر کے ایسا معتدل راستہ اختیار کیا جائے جس پر چل کر انسان اپنی دنیوی اور روحانی فلاح کی منزل پاسکے۔
  • اسلام ھی امن عالم کا ضامن:  آج مغرب اپنے تمام ذرائع کے ہمراہ یہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ اسلام ایک ’انتہاپسند‘، ’قدامت پرست‘ اور ’دہشت گرد‘ مذہب ہے۔ وہ ہر مسلمان کو   ’دہشت گرد‘ اور اسلام کو دہشت گردی کی فیکٹری قرار دیتا ہے‘ اور اس کے ساتھ لبرل اِزم کے نام پر مسلمانوں کے دلوں سے ایمان کی حرارت نکالنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ فحاشی اور  بے حیائی کو نہایت تیزی سے دلوں میں اتار دینے میں کوشاں ہے۔

اِن حالات کے پیشِ نظر عصرِحاضر اُمتِ مسلمہ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ مغرب کے پروپیگنڈے کا نہ صرف مؤثر جواب دے بلکہ یہ ثابت کرے کہ:

___ اسلام ہی ساری دنیا کو بھلائی دینے والا دین ہے۔

___ یہ اُمت عالم گیر امن کی دعوے دار اُمت ہے۔

___ان کی کتاب دنیا کو روشنی فراہم کرنے والی کتاب ہے۔

___ ان کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آنے والا رسول ہے۔

___مغرب کو بتایا جائے کہ خود ان کے بڑے بڑے دانش ور تسلیم کرتے ہیں کہ:

He was the only man in history who was supremely successful on both the religions and secular levels".(Dr. Michal Hart, The 100)

___  یہ بھی واضح کیا جائے کہ جن کا مزاج ہی لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ۲:۲۵۶) ہو‘ وہ تشدد اور دہشت گردی جیسے برے راستے پر کبھی نہیں نکل سکتے۔

درپیش چیلنج اور ان کا حل

ان حالات میں اُمتِ مسلمہ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سرکارِ دوجہاں‘رحمت کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے پیروکاروں کی سیرت کا ورق ورق دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دے اور دنیا خود دیکھ لے کہ اسلام اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کیا ہیں۔

  • علم و تحقیق: اسلام‘ علم کے زیور سے آراستہ معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ اسلام    علم حاصل کرنے اور رموزِ کائنات کا کھوج لگانے پر جتنا زور دیتا ہے‘ کوئی اور مذہب اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ اسلامی معاشرے میں جاہلوں اور بے علم لوگوں کو ہرگز وہ مقام نہیں مل سکتا جو صاحبِ علم لوگوں کو حاصل ہوا کرتا ہے۔ آپ ؐنے فرمایا: تجھے اس حال میں صبح کرنی چاہیے کہ تو عالم ہو‘ متعلم ہو‘ علم سننے والا اور علم سے محبت رکھنے والا ہو‘ اگر کوئی پانچویں صورت اختیار کی تو (یاد رکھ) ہلاک ہوجائے گا۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۱‘ ص ۱۲۲)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کو ان امور میں شامل کیا ہے جن پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ آپؐ ہمیشہ دعا فرماتے:میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔ (طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)

اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا معاشرہ تشکیل دیا جو دلوں سے جہالت کے اندھیرے نکال کر ان کی جگہ علم کی شمعیں جلا دیتا ہے۔

  • حقوقِ نسواں: آج مغرب الزام دیتا ہے کہ اسلام عورتوں کے معاملے میں انصاف نہیں کرتا۔ اُسے خبر ہی نہیں کہ اس دین کے نام لیوائوں کا خدا تو انھیں حکم دیتا ہے کہ:

عورتوں کے بھی حقوق ہیں جیساکہ مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ (البقرہ ۲:۲۲۸)

اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو‘ سہو۔(النساء ۴:۱۹)

مردوں کا وہ حصہ ہے جو وہ کمائیں اور عورتوں کا وہ حصہ ہے جو وہ کمائیں۔ (النساء ۴:۳۲)

ان کا نبیؐ ان سے کہتا ہے:عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ (مسلم‘ ج ۱‘ ص ۳۹)

اسلام نے تعلیم کو کبھی ایک طبقے تک محدود نہیں رکھا۔ خواتین نے جب آپؐ سے تعلیم کے لیے ملنے کی درخواست کی تو آپؐ نے ان کے لیے علیحدہ وقت مقرر کر دیا اور الگ جگہ کا تعین فرما دیا۔(مسند احمد‘ ج ۱۳‘ ص ۸۵)

اسلام خواتین کے بارے کہیں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ انھیں برابری کا حق دے کر ان کی پوری حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ہاں‘ اپنی تعلیمات کی روشنی میں اتنا ضرور تجویز کرتا ہے: ۱-اسلامی نظام تعلیم میں لڑکیوں کے لیے تعلیم کا انتظام الگ ہونا چاہیے۔ ۲- ان کے لیے نصابِ تعلیم الگ ہونا چاہیے کیوں کہ ان کی عملی زندگی مردوں سے مختلف ہوتی ہے۔ (انسانِ کامل‘ ص ۲۴۵)

اب اگر ان اصولوں کو سامنے رکھ کر اسلامی معاشرہ خواتین کو حصولِ علم کا ہر موقع فراہم کرتا ہے اور انھیں پورا تحفظ فراہم کرتا ہے تو اس کی ’روشن خیالی‘ میں کہاں کمی رہ جاتی ہے۔ البتہ یورپ اگر اہلِ ایمان کی قندیلِ ایمانی کو بے حیائی اور فحاشی کی تعلیم سے مدھم کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی   خام خیالی ہے     ؎

دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت

ہے ایسی تجارت میںمسلماں کا خسارا

  • عصبیت سے مبرّا: غیرمسلموں کے پروپیگنڈے کے برعکس قرآنِ مجید کی تعلیمات اور ارشاداتِ نبی کریمؐ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے ہمیشہ تعصب کی مذمت کی ہے اور معاشرے کو ہمیشہ اس برائی سے پاک رکھنے کی سعی کی ہے۔

اس قوم کی نفرت جس نے تم کو کعبے سے روکا تھا تم کو ادھر کھینچ کر نہ لے جائے کہ تم بھی ان پر زیادتی کرو۔(المائدہ ۵:۷)

اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو۔ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔(المائدہ ۵:۸)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کی فتح کے بعد جو معاہدہ لکھوایا اس کے الفاظ تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا: یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیرالمومنین عمرؓ نے ایلسا کے لوگوں کو دی‘ یہ امان ان کی جان‘ مال‘ گرجا‘ صلیب‘ تندرست‘ بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے۔ اس طرح کہ نہ ان کے گرجوں میں سکونت کی جائے گی‘ نہ وہ ڈھائے جائیں گے‘ نہ اُن کے احاطوں کو نقصان پہنچایا جائے گا‘ نہ ان کے مالوں میں کمی کی جائے گی اور مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا۔

حکمرانِ امویہ‘ عباسیہ‘ اندلسیہ و فاطمیہ کے عہد حکومت میں اقوامِ غیر کا صدیوں تک    آباد رہنا مسلمانوں کی بے تعصبی کی روشن دلیل ہے۔ اورنگ زیب عالم گیر کو متعصب قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے دربار میں ہندو امرا کی فہرست اکبر کے دربار سے زیادہ لمبی ہے۔ سیاستِ حاضرہ کے ماہر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ بے تعصبی اور رواداری ہی ان کے زوال کا سبب بنی۔ ایک سیرچشم مسلمان یہ اعتراض تو تسلیم کرسکتا ہے لیکن یہ کبھی تسلیم نہیں کرسکتا کہ اسلا م میں تعصب ہے۔ (رحمۃ للعالمینؐ، ص ۳۷۴-۳۷۵)

  • بھترین مدنیت: اسلام اعلیٰ ترین مدنیت کا حامل معاشرہ فراہم کرتا ہے۔ وہ کہیں   بھی انسان کو رہبانیت کا درس نہیں دیتا۔ وَرَھْبَانِیَّۃَ نِ ابْتَدَعُوْھَا (الحدید۵۷:۲۷)‘ یعنی   ترکِ تمدن بدعت ہے۔

اسلام انسان کی خودی کی تعمیر کرکے اسے ایسا روشن خیال بنا دیتا ہے جس کی دنیا اور دین کے درمیان فاصلے ختم ہوجاتے ہیں۔ وہ اسے معاشرے کا ایسا فرد بنا دیتا ہے جس کی زندگی کا کوئی پہلو کمزور نہیں رہتا۔ وہ اسے اپنے خالق کا سچا بندہ‘ والدین کا سعادت مند بیٹا‘ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے والا‘ تمدن کا پورا محافظ‘ فرماں بردار‘ راست گو‘ امانت دار‘ صلح پسند‘ فساد کا دشمن اور نسلِ انسانی کا دوست بنا دیتا ہے___ اور پھر ایسے افراد مل کر جو معاشرہ تشکیل دیتے ہیں تو اس میں اعلیٰ ترین مدنیت ازخود ہر طرف سے جھلکتی نظر آتی ہے۔

  • مساواتِ انسانی کا بھترین نمونہ: اسلام مساواتِ انسانی کا ایسا علم بردار معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں ہر شہری کو وہ تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں جن کا وہ حق دار ہوتا ہے۔ اسلام اس اصول کی پوری پاس داری کرتا ہے۔ اعلیٰ ترین تمدن کادعوے دار یورپ‘ تمام دعوئوں کے باوجود عملاً ایسا نہیں کرتا۔ برطانیہ کی سلطنت میں‘ اسکاٹ لینڈ‘ آئرلینڈ اور ویلز‘ سب شامل ہیں۔ لیکن ان کا کوئی باشندہ آج تک برطانیہ کا وزیراعظم نہیں بن سکا۔ کوئی کیتھولک اس عہدے تک نہیں پہنچ سکتا۔ دوسری طرف تاریخِ اسلام شہادت دیتی ہے کہ یہاں ایک غلام کا بیٹا بھی دربارِ رسالتؐ سے فوجوں کی سپہ سالاری کا عہدہ پاسکتا ہے۔ ایک زرخرید غلام کے بیٹے کا نکاح سیدالبشرصلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن سے ہوسکتا ہے۔ حضرت ابوذرؓ اپنے غلام کو مارتے ہیں۔ رسولؐ خدا موقع پر پہنچ کر فرماتے ہیں:جو قدرت اس غلام پر تجھے حاصل ہے اس سے زیادہ اللہ کو تجھ پر حاصل ہے۔ ابوذرؓ زمین پر گر پڑتے ہیں اور غلام سے کہتے ہیں: اپنا پائوں میرے رخسار پر رکھ دے کہ میری نخوت نکل جائے۔ عدالت میں ایک یہودی اور حضرت علیؓ کو برابر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر کیا عظیم منشورِ انسانی پیش کرتے ہیں۔ فرمایا:لوگو! خبردار رہو۔ تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر‘ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔(رحمۃ للعالمینؐ، ص ۸۷-۸۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ تعلیمات تھیں جن پر چل کر مسلمانوں نے عملاً ایک عالم گیر اور روشن خیال معاشرہ قائم کرکے دکھا دیا اور دنیا کو ماننا پڑا کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو ہر نسل کے لوگ اکٹھے کر کے محض ایک عقیدے کی بنا پر انھیں ایک اُمت بنا سکتا ہے۔

آج زمانہ گواہی دے رہا ہے کہ انسان کے اپنے تخلیق کردہ نظریات دنیا کو فساد کے سوا کچھ نہیں دے سکے۔ گذشتہ چند صدیوں میں دنیا نے بے شمار نظاموں اور اِزموں کو آزما کر دیکھ لیا ہے۔ انسان پریشان سے پریشان تر ہوتا جا رہا ہے۔ آج پھر مجبوراً اسے اسلام ہی وہ واحد سہارا دکھائی دیتا ہے جو اس کی مشکلات اور اس کے مصائب میں اس کی دستگیری کرسکتا ہے اور اسے سُکھ اور چین فراہم کرسکتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام ہی وہ واحد چراغ ہے جو دنیا کے اندھیروں کو روشنیوں میں بدل سکتا ہے تواس چراغ کی لَو بڑھانے کا فریضہ کون انجام دے؟

اس سوال کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ اس چراغ کو جلائے رکھنے کا کام وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جو اس چراغ کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ جو اپنے آپ کو انبیا کا وارث تصور کرتے ہیں‘ جن سے ان کے نبی برحقؐ نے اپنے تکمیلِ مشن پر پوچھا تھا:کیا میںنے بات پہنچادی؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں‘ یارسولؐ اللہ! تو پھر ان کے ہادیؐ نے انھیں حکم دیا تھا: جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک میری یہ بات پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں۔

اب اگر اُمتِ مسلمہ حقیقت اور انصاف کی نظر سے دیکھے تو عصرِحاضر کاسب سے بڑا چیلنج اُسے اور صرف اُسے درپیش ہے۔ اسے اپنے رب اور اپنے نبیؐ سے کیے گئے وعدوں پر پورا اترنے کا ایک سنہری موقع نصیب ہو رہا ہے۔ اب تساہل سے کام لینے کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسے اپنا کڑا احتساب کرنا ہوگا۔

چند ناگزیر تقاضے

ان حالات میں اب اس اُمتِ خیر پر لازم ہے کہ :

  • اپنی منتشر صفیں درست کرے: انتشار کے نتیجے میں اس نے آج تک بڑے نقصان اٹھائے ہیں۔ آج دنیا میں ۵۰ سے زیادہ اسلامی مملکتیں موجود ہیں۔ یہ تمام بے پناہ قدرتی وسائل اور خزانوں سے معمور ہیں لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح معنوں میں آزاد مملکت ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ ان میں سے کوئی مجبور ہے تو کوئی معذور۔ ان کے درمیان اتحاد و اتفاق نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ غیرمسلم آقائوں کی خوشنودی میں ایک دوسرے کی سلامتی سے بھی کھیل جانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔

جدید دور کے تقاضوں کے پیشِ نظر اب عالمِ اسلام پر لازم ہوگیا ہے کہ:

  • اسلامی ممالک کی تنظیم (O.I.C) کو ایک مضبوط اور فعال ادارہ بنایا جائے۔
  • اسلامی ممالک کا ایک مشترکہ فنڈ قائم کیا جائے اور اس فنڈ سے غریب مسلم ممالک کی ترقی کے لیے ہر شعبے میں ان کی امداد کی جائے۔
  • اسلامی ممالک کی تنظیم کے تحت ایک مشترکہ اسلامی فوج قائم کی جائے تاکہ ہرجارحیت کا متحد ہو کر بروقت سدِّباب کیا جاسکے۔
  • تمام اسلامی ممالک متحد ہوکر جدید سائنسی تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کریں اور اس سلسلے میں کثیر تعداد میں طلبہ‘ اساتذہ اور ماہرین کے باہمی تبادلے سے ترقی کے میدان میں آگے بڑھنے کی مشترکہ سعی کریں۔
  • جدید سائنسی علوم کے حصول کی کوششوں کے ساتھ دینی اور شرعی علوم کے حصول کا حکومتی اور اسلامی ممالک کی تنظیم کی سطح پر متحدہ اور مشترکہ انتظام کیا جائے۔ ماضی قریب میں غیرملکی تسلط نے بڑے منظم طریقے سے مسلمانوں کو ان کے مذہبی علوم سے دُور رکھنے کی کوشش کی ہے اور مسلمانوں نے مجرمانہ حد تک ان کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ آج مسلمان اپنے دینی علوم حاصل کرنے میں شرم کیوں محسوس کرتا ہے؟
  • ہر حکومت عوام میں پائی جانے والی نفرتوں کو دُور کرنے کے لیے سرکاری سطح پر:

___  لائوڈ اسپیکر کے بے جا استعمال کو سختی سے روکے۔

___  مناظرہ بازی کے رواج کا سختی سے سدباب کرے (مناظرہ بازی کے چسکے نے ہمیں رسوائیوں کے سوا کچھ نہیں دیا)۔

___  منافرت اور انتشار پھیلانے والے لٹریچر پر کڑی پابندیاں عائد کرے۔

___  مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلم عوام کے اندر تہذیبی شعور (civic sense) بیدار کرنے کا خصوصی اہتمام کرے تاکہ ہر گھر کے اندر اور باہر طہارت‘ جو ایمان کی ایک بنیادی شرط ہے‘ پوری ہوتی نظر آئے۔

  • حقوقِ انسانی کا اسلامی تصور اُجاگر کرنا: آج اُمتِ مسلمہ پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنی اعلیٰ اسلامی‘ معاشرتی اور انسانی صفات کا عملی مظاہرہ کرے اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کا وہ نمونہ پیش کرے جو اس کے اسلاف نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ عفوودرگزر‘ صبر واستقلال اور عدل وا نصاف کے ذریعے وہ معاشرہ تشکیل دے جس کی مثال سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی۔
  •  اسلام کی روحانی اقدار کو اجاگر کرنا: اسلام نے روحانیت کی تعلیم کو ’الاحسان‘ کے لفظ سے موسوم کیا ہے۔ اسلام میں عبادات کا مقصد ہی انسان کو روحانی تسکین فراہم کرنا اور اسے اپنے اللہ کے قریب تر لے جانا ہے۔

دل کی اصلاح ہی بدن کی اصلاح کی ضامن ہوسکتی ہے۔ آج انسان کے دل اور بدن میں کوئی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ اس ہم آہنگی کا واحد ذریعہ اللہ کا ذکر اور صحیح معنوں میں عبادات کی بجاآوری ہے۔ اس سلسلے میں قرآن اور سیرت کا مطالعہ حد درجہ معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن کاش اُمتِ مسلمہ اس کا احساس کرے۔ آج ہم قرآن اور سیرت کے مطالعے کی دعوت دیتے ہوئے کیوں شرما جاتے ہیں؟ ہمیں قرآن اور سنت کے مطالعے کی اہمیت کا کیوں احساس نہیں ہوتا؟

  • مذاھب کے درمیان مشترکہ اخلاقی اقدار کو اُجاگر کرنا آج اُمتِ مسلمہ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کو مل جل کر فروغ دے‘ جو اسلاف سے اس نے میراث میں پائی تھیں اور جنھیں اب وہ کافی حد تک گنوا بیٹھی ہے اور جو تمام آسمانی مذاہب میں مشترک ہیں‘ صداقت‘ امانت‘ دیانت‘ ایفاے عہد‘ انصاف‘ باہمی محبت‘ شفقت اور تعظیم کی صفات نہ صرف اس کے اندر پیدا ہوجائیں بلکہ ان کے فروغ کے لیے ہر مسلمان انفرادی سطح پر بھی ان کا عملی نمونہ بن جائے۔ ہر مومن ان اوصافِ حمیدہ کا اس طرح مظاہرہ کرے کہ دوسروں کے دلوں میں اس کے خلاف  بھری کدورت نہ صرف نکل جائے بلکہ وہ ازخود اس طرف کھچے چلے آئیں۔
  • ھر مسلمان دین کا سچا داعی بن جائے: آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہرمومن کا جسم اور روح دونوں صحیح معنوں میں سیرتِ مصطفیؐ کی پیروی میں لگ جائیں۔وہ خدا کے سچے دین کا سچا داعی بن جائے۔ وہ ہدایت کا ایسا چراغ بن جائے جو جہاں بھی جائے‘ اس کے اردگردکا ماحول اس کے کردار اور اس کے پاکیزہ الفاظ کی کرنوں سے جگمگانے لگے۔ اس کے لباس‘ خوراک‘ رہن سہن‘ بودوباش‘ بول چال اور معاملات سے وہی خوشبو آئے جو آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کی سیرت سے آیا کرتی تھی۔ وہ حق کا پیغام گھر گھر پہنچانے پر کمربستہ ہوجائے۔ وہ اپنے اللہ کا فرمان اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بن جائے۔ اسے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہو اور اس پر  نظر پڑے تو خدا یاد آجائے    ؎

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا